ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

کیک – نوردسمبر ۲۰۲۰

دوپہر کا ایک بج رہاتھااور گھر میں ایسا سناٹا چھایا ہوا تھاجیسےیہاں کوئی متنفس نہ رہتاہو۔ جس گھر میں چار لڑاکا بچے ہوں ،ان کی موجودگی میں ایسی خاموشی چھائی ہو،تعجب کی بات تھی۔بچوں کےہروقت کےشور ،جس کی وجہ آپس کی نوک جھوک بھی ہوتی اور مل کر کھیلنا بھی،سے تنگ آئی ہوئی امی بھی فکر مند ہو گئیں۔آخریہ بچےکرکیارہےہیں؟
چاروں بچوں میں سب سے بڑی اسماء تھی جو بارہ سال کی تھی۔ دوسرے نمبر پراشعر دس سال کا، تیسرے نمبر پر فروہ سات سال کی اور چوتھے نمبر پر فاطمہ چار برس کی تھی۔ فاطمہ تھی تو سب سے چھوٹی، لیکن کام بڑے بڑے کر جاتی تھی۔ خصوصاًشکایت لگانےمیں تواسےملکہ حاصل تھا۔اکثراس کی وجہ سےدوسروں کوڈانٹ کھاناپڑتی تھی۔
ہر وقت گھر میں دھینگا مشتی مچائے رکھنے والے بہن بھائی، جب امی کی نظروں سے اوجھل اپنا من پسند کام کر رہے ہوتے تو محبت و اتفاق میں ایسے ہوتے جیسے منہ میں نوالہ ڈالتے ہوئے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر اور جڑی ہوئی ہوتیں ہیں۔
سو امی کو بچوں کی یہ خاموشی کسی طوفان کاپیش خیمہ محسوس ہوئی اورانھوں نے بچوں کو تلاش کرنا شروع کیا۔
پہلے ہال کمرہ اور بچوں کا کمرہ دیکھا، پھر بیٹھک۔ باہر پورچ میں جھانکا، پھر جلدی سے سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی بالائی منزل پر گئیں لیکن بچے ندارد۔۔۔۔ پریشانی یقینی تھی۔ بچے جتنے مرضی شرارتی سہی لیکن اسے بتائے بغیر کبھی گھر سے باہر نہیں نکلےتھے۔
وہ کئی وسوسوں میں گھری فون کی طرف بڑھیں تاکہ شوہر کو فون کر کے اس ناگہانی صورت حال کے بارے میں بتائیں۔ابھی وہ اپنے کمرے کے دروازے کے قریب ہی پہنچی تھیں کہ انھیں باورچی خانے میں چمچہ گرنے کی آواز آئی۔ کیونکہ باورچی خانے کا دروازہ کمرے کے دروازے کے ساتھ ہی تھا۔ انھوں نے باورچی خانے کا دروازہ کھولا توایک عجیب ہی منظر دکھائی دیا۔ سلیب پرڈھیروں گندے برتن پڑے تھے ۔ آٹے سے اشعر کے ہاتھ کم اور سر کے بال زیادہ بھرےہوئے تھے۔ اسماء اور فروہ بھی کام میں مشغول تھیں۔چولھے کی تیز آنچ پر دیگچی میں نمک جل رہا تھا۔ ونیلا ایسنس کی خوشبو ناک کے نتھنوں سے ٹکرا رہی تھی۔
امی کےاچانک آجانےپربچے ہونق بنے آنکھیں پٹپٹاتے ماں کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ تو ماں کو کمرے میں سوتاچھوڑ کر آئے تھےمگر انھیں کیا خبر کہ ماں کی چھٹی حس سوتےمیں بھی کام کرتی ہے۔
بڑے تینوں تو ماں کی آمد پر گھبرا گئے لیکن فاطمہ پر اعتماد لہجے میں جھٹ سے بولی:
’’امی جی ہم کیک بنا رہے ہیں۔ آپی کہہ رہی ہیں کہ بڑا مزے کا بنے گا۔“
اتنا بکھیڑا اور ہڑبونگ مچی دیکھ کر امی کو غصہ تو بہت آیا لیکن اپنے غصہ کو قابو کرتے ہوئے وہ آگےبڑھیں۔ جلدی سے چولھے کی آنچ مدھم کی پھر اسماء اور اشعر کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا:
’’ آپ لوگوں نے یہ کیک بنانے کی ترکیب کہاں سے حاصل کی؟ ‘‘
’’ ہم نے ایک فوڈ چینل سے لی ہے۔‘‘
اشعر نے منمناتے ہوئے جواب دیا۔
امی نے کیک کا مکسچر چکھا تو وہ بالکل پھیکا تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ باقی سب چیزیں تو ڈال چکے ہیں، لیکن چینی ڈالنا بھول گئے تھے۔
امی نے چینی شامل کر کےمکسچر کو سانچے میں ڈالا۔ پھرسانچا نمک والی دیگچی میں رکھا اور مدھم آنچ پر پکنے کے لیے رکھ دیا۔
’’ اشعر اور اسماء۔۔۔جتنی دیر میں کیک بنتا ہے۔۔ آپ دونوں بہن بھائی باورچی خانہ ویسے ہی صاف ستھرا کر دو جیسے پہلے تھا۔ “
امی بڑے بچوں کو صفائی کا کام سونپ کر دونوں چھوٹیوں کو لے کر کمرے میں آگئیں۔
جب تک کیک بنا باورچی خانہ بھی صاف ستھرا ہو چکا تھا۔
امی نے کیک کے ٹکڑے کاٹ کر سب بچوں کی رکابیوں میں ڈالے۔اسماء کیک کھاتے ہوئے کہنے لگی۔
’’ امی ماشاءاللہ کتنے مزے کا کیک بنا ہے۔ اگر آپ بروقت نہ آتیں توہم کیک خراب کر چکے تھے بلکہ شائد جلا بھی دیتے۔‘‘
امی مسکرائیں اوربولیں:
’’ دیکھ لیں۔ آپ لوگ تو مجھ سے چھپ کر بنا رہے تھے۔ کام کرنا اور کھانا پکانا اچھی بات ہے۔ کرو۔۔ ضرور کرو۔۔۔ لیکن ابھی آپ چھوٹے بچے ہیں، اس لئے والدین یا کسی بڑے سے راہنمائی ضرور لو ۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ سکول یا گھر میں کوئی بھی معاملہ پیش آ ئے، کچھ کرنے کا ارادہ ہو تو والدین سے مشورہ بھی کرو، اور اجازت بھی طلب کرو، کیوں کہ والدین تمہارے بہترین دوست اور خیر خواہ ہیں۔ ‘‘
اشعر اور اسماء ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا پڑے ۔ اس مسکراہٹ میں گویا غلطی کا اعتراف بھی تھا۔ پھر اشعر ماں کے گلےمیں بانہیں ڈال کر جھولتے ہوئے بڑے دلار سے کہنے لگا:
’’اچھی امی جان……آئندہ ہم ایسا ہی کریں گے۔ ‘‘
’’ان شاء اللہ۔‘‘
امی نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا ۔
’’ ان شاء اللہ دونوں بچوں نے اونچی آواز میں دہرایا

٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x