ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ڈیزرٹ سفاری – نور جنوری ۲۰۲۱

جیپ زور سے اچھلی۔ ہمارے سر چھت سے ٹکراتے ٹکراتے بچے ۔ پھر اس نے تیزی سے ایک موڑ کاٹا اور سیدھی ایک ریت کے ٹیلے پر چڑھتی چلی گئی ۔ ہم پیچھے کی طرف جھک گئے ۔ جیپ پوری قوت سے صحرا میں دوڑ رہی تھی۔ اونچے نیچے ٹیلوں پر چڑھتی ، اترتی، لہراتی اور ہمارا دم خشک کرتی۔ دور دور تک سنہری ریت چمک رہی تھی ۔ سڑک کا نام و نشان نہیں تھا ۔ کوئی رہنمائی کرتا بورڈ یا تیر کا نشان بھی نہیں تھا ۔ جیپ کے پہیے خود ہی اپنا راستہ بنا رہے تھے۔
’’ اگر ہم راہ بھٹک گئے تو ؟‘‘ میرے ذہن میںسوال ابھرا تو میں نے گھبرا کر امی کی طرف دیکھا ۔ میرا خیال تھا کہ وہ خوف زدہ ہوں گی ، لیکن انھیں اطمینان سے بیٹھا دیکھ کر تعجب ہوا۔
’’ امی !آپ کو ڈر نہیں لگ رہا ؟‘‘ میرے خیال کو آپا نے زبان دی ۔
’’ نہیں ۔‘‘ انھوں نے بے نیازی سے جواب دیا۔
’’ تعجب ہے ۔‘‘ بھائی بھی امی کی بہادری پر حیران تھا۔
’’ اگر ہم گلگت بلتستان جانے سے پہلے یہاں آئے ہوتے تو شاید لگتا ۔ اب تویہی لگ رہا ہے جیسے جی ٹی روڈ پر ٹیکسلاسے واہ کینٹ جا رہے ہوں۔‘‘
امی کی بات پر ہم سب کی ہنسی نکل گئی۔
’’ تمھاری امی گلگت کے سفر میں اتنا ڈر چکی ہیں کہ ان کے ڈر کا اسٹاک ہی ختم ہو گیا ہے ۔‘‘ بابا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ویسے جتنے ہچکولے ہم یہاں کھا رہے ہیں ، اس سے کچھ زیادہ ہی سی ویو پر اونٹ کی سواری میں ملے ہوںگے ۔‘‘ آپا نے تبصرہ کیا۔
یہ ساری گفتگو اس وقت ہو رہی تھی جب ہم Desert safariپرنکلے ہوئے تھے۔
٭…٭…٭
سیاحت کو آج کی دنیا میں صنعت کا درجہ حاصل ہے ۔ ملک کی آمدنی میں اضافے کے لیے اس پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ کئی ممالک تو چل ہی سیاحت پر رہے ہیں ۔ چناں چہ سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے ایسے تفریحی مقامات متعارف کرائے جاتے ہیں جنھیں دیکھنے کے شوق میں لوگ آئیں ،پیسہ خرچ کریں مقامی آبادی کو روز گار ملے او رملک کی معیشت کو فائدہ پہنچے۔ کہیں تو یہ قدرتی مناظر پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ جیسے پہاڑ، ساحل سمندر، جھیل ، آب شار وغیرہ ۔ کہیںتاریخی عمارتیں اور کھنڈرات اورکہیں جدید ٹیکنالوجی کے حامل مثلاً ڈزنی لینڈ وغیرہ ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں نئی دلچسپیاں بھی پیدا کی جاتی ہیں ۔ اس کی ایک مثال دوبئی کاڈیزرٹ سفاری ہے۔
٭…٭…٭
’’ بابا ! سفاری کا کیا مطلب ہے ؟‘‘ بھائی نے پوچھا:
’’ عربی زبان کا لفظ ’’سفر‘‘ سواحلی زبان میں آکر ’’سفاری‘‘ بن گیا ہے ۔ ابتدا میں جنگل میں کئی دن گھوم پھر کر جانوروں کے شکار کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ پھر محض جنگل کی زندگی کودیکھنے اور اس کی تصویر کشی کے لیے استعمال ہونے لگا ۔ دنیا بھر میں سفاری پارک بنائے گئے جہاں جنگل کے ماحول میں جانور آزاد پھر رہے ہوتے ہیں اورآپ بند گاڑی میں ان کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہوئے گزرتے ہیں ۔‘‘ بابا نے تفصیل سے بتایا۔
’’ اور یہ ڈیزرٹ سفاری ؟‘‘ آپا نے پوچھا۔
’’ یہ سیاحوں کو صحرا کی سیر کراتی ہے ۔ ایک جیپ آپ کو گھر سے لے گی اور صحرا میں لے جائے گی ۔ ریت کے ٹیلوں پر ایک سے دوسرے پر جمپ لگائے گی ۔ اس ایڈونچرسفر کے بعد آپ کو صحرا میں قائم ایک کیمپ پر اتار دے گی ۔ یہاں فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ مقامی دستکاری کی دوکانیں ہیں۔ کھانا پینا ہوتا ہے جس کے پیسے ٹکٹ میں شامل ہوتے ہیں۔ بہر حال تم یہ سب دیکھ ہی لو گے ۔‘‘چناں چہ آج ہم بھی اس ڈیزرٹ سفاری مہم جوئی کا حصہ بنے ہوئے تھے۔
٭…٭…٭
فوروہیل ، اے سی والی جیپ میںبیٹھ کر صحرا میں سفر کرنا ، خواہ وہ ایک ٹیلے سے دوسرے ٹیلے پر چھلانگ ہی کیوںنہ لگا رہی ہو، ایک پاکستانی کے لیے بچوں کے کھیل سے زیادہ نہیں جسے بہ زبان ضمیر جعفری:
ع کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
کا تجربہ ہو چکا ہو۔ چناں چہ اس پہلے مرحلے سے بہ خیر و خوبی گزر کر ہم کیمپ تک پہنچ گئے ۔ گاڑی سے نکلے تو پھر پتا چلا کہ اچھا جی، یہ ہے صحرا۔ تیز دھوپ میں آنکھیں چندھیا رہی تھی۔ دسمبر کا مہینہ ہونے کے باوجود بہت گرمی تھی۔ کیمپ کا فی بڑا تھا ۔ پانچ سو کے قریب فرشی نشستیں لمبی قطاروں میں لگی تھیں۔ یوں کہ دو قطاروں کے درمیان ایک لمبی سی میز تھی۔ سامنے اسٹیج تھا ۔ بائیں ہاتھ اسٹیڈیم کی طرح کی کچھ نشستیں تھیں ( غالباً ان کا ٹکٹ زیادہ تھا)داخلی دروازے کے دونوںاطراف خیموں میںقائم دوکانیں تھیں ۔ ان میں سوونیئر مل رہے تھے ۔ مقامی لباس پہن کر تصویر کھنچوائی جا سکتی تھی ۔ مہندی لگوا سکتے تھے ۔ حقہ نما شیشہ پینے کی سہولت دیکھ کر امی نے ناک بھوں چڑھائی۔
’’سیاحوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے مذہب، روایات اور ثقافت کو پس پشت ڈال دینا صحیح رویہ نہیں ۔‘‘
مگر ابھی مقام آہ فغاں اور بھی تھے ۔ فی الوقت تو امی اور بابا نشستوں پر جا کر بیٹھ گئے اور ہم گھوم پھر کر آس پاس کا علاقہ دیکھنے لگے ۔ ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہم اصلی والے صحرا میں گھوم رہے ہیں ۔ آج تک تو کہانیوں ہی میں پڑھتے آئے تھے ۔ بہر حال یوں ریت میں چلنے میں بڑا مزا آ رہا تھا ۔ دور دور تک پھیلے ہوئے صحرا کو دیکھ کر ، جس میں کوئی عمارت اور کوئی سڑک نظر نہیں آ رہی تھی ، ہم حیران ہو رہے تھے کہ لوگ کس طرح اسے عبور کرتے تھے جب نا کوئی GPSتھانا گوگل میپ ۔(جب رات کو آسمان پر ستارے جگمگانے لگے تو یاد آیا کہ پہلے لوگ ستاروں سے اپنا راستہ متعین کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو بھٹکتا چھوڑنا پسند نہیں کیا۔)
’’سواری کے لیے اونٹ موجود تھے۔فو وہیل موٹر بائیکس تھیں۔ میں نے اور بھائی نے اونٹ پر سواری کی صلاح کی ۔ اونٹ والے سے بات کی تو اس نے پوچھا:
’’ چھوٹا چکر کہ بڑا چکر؟‘‘
’’ کیا مطلب؟‘‘ میں نے استفسار کیا۔’’ چھوٹا چکر مفت ہے اور بڑا بیس درہم کا ۔‘‘ میں نے بھائی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔ بھائی نے جیبیں ٹٹولیں اور کہا :
’’ چھوٹا چکر ‘‘ تجربے نے بتایا کہ سیاحتی مقامات پر ہر چیز کی ناروا قیمت وصول کی جاتی ہے۔ چاہے ٹکٹ ہو ، چاہے اشیا خوردو نوش یا سوونیئر۔مگر اس وقت تو ہمیں ایک اور تجربہ بھی ہوا ۔ ہم اونٹ پر بیٹھے ، اونٹ اٹھا ، دو قدم چلا اور رُک گیا۔
’’کیوں بھائی؟ یہ اونٹ رُک کیوں گیا؟‘‘ میں نے پوچھنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی ساربان نے اونٹ بٹھاناشروع کردیا اور ہمیں اترنے کا اشارہ کیا ۔
’’ چلو بھئی اترو۔‘‘بھائی نے میرے کندھے پر دھپ لگائی۔
میں منہ بسورتے ہوئے نیچے اترا ۔ ساتھ والا اونٹ جو بڑے چکر کے لیے روانہ ہوا تھا اور جس کے متعلق ہمارا خیال تھا کہ صحرا کے اندر کہیں جائے گا اور ہمیں اس کی سواریوں پررشک آیا تھا ، جب ہم سے چھ آٹھ قدم زیادہ چل کے رُک گیا تو ہمیں خود پر رشک آنے لگا۔
ایک آدمی سر پر باندھنے والے رومال بیچ رہا تھا ۔ وہ انتہائی چرب زبان تھا ۔ پہلے تو پھرتی اور مشاقی سے سر پر عرب اسٹائل میں رومال باندھتا پھر تعریفوں کے پل باندھ دیتا ۔ مروتاً لوگ خرید ہی لیتے ۔ ہم دونوں بھائی بھی جلد ہی اس کا شکار بن گئے ۔( بعد میں ہزار کوشش کی مگر اس کی طرح سے رومال نہ باندھ سکے )
صحرا کا غروبِ آفتاب شاید دنیا کے کسی بھی خطے میں ہونے والے غروب آفتاب سے زیادہ حسین ہے ۔ اس کے دلکش نظارے کے بعد ہم بھی امی اور بابا کے پاس جاکربیٹھ گئے ۔ موسم اب گوارہ ہو چکا تھا۔ نشستیں بھرنی شروع ہو گئی تھیں ۔ بھانت بھانت کے لوگ نظر آ رہے تھے ۔ زیادہ تر ایشیائی تھے ۔ لوگوں کے خدو خال، لباس اور حلیوں سے ان کے متعلق اندازے لگانا کافی دلچسپ کام ہے ۔
تماشائی پورے ہوئے تو تماشا شروع ہوا ۔ گھیر دار فراک پہنے ایک آدمی اسٹیج پر نمور دار ہوا ۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں ایک ایک رنگین اور منقش ڈفلی تھی۔ اس نے گول گول گھومنا شروع کیا ۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ڈفلیوںکو دائیں ، بائیں اوپر ، نیچے حرکت دے رہا تھا ۔ یوں ہی گھومتے گھومتے اچانک ہمیں اس کے ہاتھ میں تین ڈفلیاں نظر آنے لگیں ۔ یہ ڈفلیاں کبھی سیدھی قطار بناتیں تو کبھی آپس میںجڑ کر پھول کی مانند نظر آتیں ۔ وہ بڑی مہارت سے خود بھی گھوم رہا تھا اورڈفلیوں کو بھی مختلف انداز میں حرکت دے رہا تھا ، پھر یہ ڈفلیاں تین سے چار ہو گئیں اور پھر چار سے پانچ ۔ اس آدمی کی مہارت قابلِ دید تھی ۔ نہ جانے وہ کیسے انھیں سنبھالے ہوئے تھا ۔ چھ ڈفلیوں پر ہماری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں ( شکر ہے بے ہوشی کا مرحلہ آنے سے پہلے یہ کھیل ختم ہو گیا)اس نے یوں ہی گھومتے گھومتے ڈفلیاںکسی کو پکڑا دیں اور ایک نیا تماشا شروع ہوا۔اس کا گھیر دار لباس یک لخت ننھے ننھے قمقموں سے جگمگا اٹھا ۔ رات کی تاریکی میں یہ بڑا زبر دست نظارہ تھا ۔ یوں ہی گھومتے گھومتے اس نے اپنے لباس کو جھٹکا دیا ۔ اب ایک روشن دائرہ اس کے سر کے گرد گھوم رہا تھا اور ایک پہلے کی طرح کمر کے گردیعنی اس کے لباس کی دو تہیں تھیں ۔ پھر اچانک ہی روشنیاں بجھ گئیں اور تماشا ختم ہوا ۔معلوم ہوا کہ اسے ’’تنبورہ‘‘ کہتے ہیں۔
اب ایک آدمی آگ برساتا اسٹیج پر تشریف لایا ۔ اس کے ہاتھ میں جلتی ہوئی مشعل تھی ۔ وہ منہ کھولتا اور مشعل قریب لاتا تو اس کے منہ سے آگ کا گولہ نکلتا معلوم ہوتا ۔
’’ معلوم ہوتا ہے جیسے ہم طلسم ہوش ربا میں ہیں اور مشعل جادومنہ سے آگ کے شعلے اُگلتا ہو آرہا ہے ۔‘‘ آپا نے سر گوشی کی۔
’’ پتانہیں اس نے کتنے گیلن تیل اپنے منہ میں اسٹور کر رکھا ہے ۔اگر کوئی ’’گھونٹ حلق سے نیچے اتر گیا تو ؟ ‘‘بھائی نے تشویش ظاہر کی۔
مگر یہ آدمی بھی اپنے فن کا ماہر تھا ۔ اس نے آگ کے کئی کرتب دکھائے۔ حتیٰ کہ آگ کے ایک دائرے کو اپنی کمر کے گرد بھی گھمایا۔
اس کے بعد کوئی موسیقی کا پروگرام تھا ،چناںچہ ہم اٹھ کر کیمپ سے باہر آگئے۔ ہمارے ساتھ ایک اور خاندان بھی تھا۔ جب تک اندر ہاہو ہوتی رہی، ہم باہر ہی ٹھہر کر خنک رات کا مزہ لیتے رہے ۔ پروگرام ختم ہوا تو اندر آگئے۔ اب لذت کام و دہن کا پرمسرت موقع تھا ۔ امی اور بابا تو وہیں بیٹھے رہے ، ہم کھانے کے خیموں کی طرف بڑھ گئے جہاںلوگ قطار بنائے کھڑے تھے ۔ یہاں ہم بہن بھائی الگ الگ ہوگئے۔ میری باری آئی تو میں نے دیکھا میزوں پر پوریاں ، اچار اور قسم قسم کی بھجیا رکھی ہیں ۔ میں نے ایک بڑی سی پلیٹ اپنے ، امی اور بابا کے لیے بنائی ۔ واپس اپنی نشستوں کی طرف آیا ۔ ابھی امی کھانے کا پوسٹ مارٹم کر رہی تھیں کہ آپا تکے،کباب اور بوٹیوں سے بھری ہوئی پلیٹ لیے یہیں چلی آ ئی ۔ فضا باربی کیو کی خوشبو سے مہک اٹھی ۔ میں نے حیرت سے پوچھا:
’’ یہ کہاں سے لائی ہو ؟ مجھے تو سوائے سبزی بھاجی کے کچھ نظر نہیں آیا تھا ۔‘‘
’’ ہاں، تو تم vegوالے خیمے میں چلے گئے ہوگے ۔ میں تو Non Vegسے لائی ہوں۔‘‘
دھت ترے کی ۔ مجھے خیال ہی نہیں رہا تھا کہ UAEمیں بڑی تعداد میں ہندو رہتے ہیں۔ بھائی بھی کولڈڈرنکس لے کر آگیاتھا۔ کھانے کے بعدروانگی کی ٹھہری ۔ جس گاڑی میں ہم آئے تھے ، وہ آچکی تھی ۔ واپسی پر وہ ہمیں ایک سیدھی اور پختہ سڑک سے لے کر چلا ۔(ہم جو آتے وقت ڈر رہے تھے کہ اس لق و دق صحرا میں کہیں رستہ نہ بھول جائے ، وہ خیال ِخام نکلا)
آج کا دن اس حوالے سے یاد گار تھا کہ ہم نے پہلی دفعہ کوئی صحرا دیکھا تھا ۔ یقینا سر سبز و شاداب وادیاں، بہتے جھرنے ،شفاف جھیلیں ، برف سے ڈھکے پہاڑ دل موہ لینے والے مناظر ہیں ، مگر صحرا کی روپہلی ریت، اس کی وسعت ، اس کی ہیبت اور جلال بھی مبہوت کر دینے والا ہے۔
اے بادِ بیابانی ! مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی ، سر مستی و رعنائی

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x