ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قرآن کی پیشین گوئیاں – بتول نومبر۲۰۲۰

قرآن کا ایک اہم معجزہ یہ ہے کہ اس نے مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے بارے میں پیشگی خبریں اور بشارتیں دیں۔ ان میں بہت سی پیشیں گوئیاں نبی کریم ؐ کی زندگی میں ہی پوری ہو گئیں کچھ بعد میں ہوئیں اور کچھ آئندہ ہوں گی۔ ذیل میں کچھ پیش گوئیوں کی تفصیل دی جا رہی ہے۔
٭ مسلمانوںکے لیے غلبہ کی خوشخبری
نبی کریم ؐ کو نبوت عطا ہونے کے بعد آپؐ کو اور آپ پر ایمان لانے والوں کو بہت مشکل حالات سے گزرنا پڑا۔ مسلمان کفار کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔ ایک طویل عرصے تک کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ ان بظاہر ناامیدی کے حالات میں قرآن میں بار بار مسلمانوں کو یہ خوشخبری دی گئی کہ بالآخر انہی کا غلبہ ہو گا اور یہ کفار جو اس وقت بہت طاقتور نظر آرہے ہیں مغلوب ہو کر رہیں گے۔نمونے کے طور پر چند آیات کا ترجمہ دیا جا رہا ہے۔
’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے۔ خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘(الصف۸،۹)
’’اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمھیں دے گا یعنی اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی حاصل ہو جانے والی فتح۔ اے نبی! اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔‘‘ (الصف۱۳)
’’اے نبیؐ! یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے وہ تمھیں ایک بہترین انجام کو پہنچانے والا ہے۔ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میرا رب خوب جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کھلی گمراہی میں کون مبتلا ہے۔‘‘ (القصص ۸۵)
’’پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو۔ تم ہی غالب رہنے والے ہو۔ اللہ تمھارے ساتھ ہے اور تمھارے اعمال کو وہ ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ (محمد ۳۵)
قرآن کی ان پیشین گوئیوں کے مطابق نبی کریم ؐ کی زندگی میں ہی پورا جزیرہ نمائے عرب آپؐ کی حکمرانی میں اسلامی حکومت میں شامل ہو چکا تھا اور وہاں کوئی مشرک موجود نہ تھا۔ پھر اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور تقریباً گیارہ سو سال تک دنیا کے غالب حصے پر مسلمانوں کی حکمرانی رہی۔
٭ جنگ بدر میں فتح کی پیشین گوئی:
جنگ بدر میں فتح کی پہلی پیشین گوئی اس جنگ کے واقع ہونے سے ۹ سال پہلے ۶ نبوی بمطابق ۶۱۵ء ، مکی دور میں سورۃ الروم میں دے دی گئی تھی۔ متعلقہ آیات کے الفاظ کا ترجمہ اس طرح ہے:
’’رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہو گئے ہیں، اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور وہ دن وہ ہو گا جبکہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے۔ اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ زبردست اور رحیم ہے۔ یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے، اللہ اپنے وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتا، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘ (الروم ۲-۶)
ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں دو بڑی سپرپاورز تھیں، ایک ایرانی سلطنت اور دوسرے رومی سلطنت۔ ایرانی آتش پرست تھے اور مشرکین عرب کی طرح انبیاء کو نہیں مانتے تھے، جبکہ رومی سلطنت عیسائی مذہب کی پیروکار تھی اور انبیاء کو ماننے کی وجہ سے مسلمانوں سے زیادہ قریب سمجھے جاتے تھے۔ ان دونوں عالمی طاقتوں کی آپس میں جنگیں ہوتی رہتی تھیں اور ایسی ہی جنگ میں ۶۱۵ء میں ایرانیوں نے رومیوں کو شکست دے کر ان کے بہت وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا۔اس پر مشرکین مکہ بہت خوش ہوئے کہ مسلمانوں سے ملتے جلتے عقائد رکھنے والے اہل کتاب شکست کھا گئے۔ اس پر سورۃ الروم کی یہ آیات نازل ہوئیں اور یہ پیشین گوئی کی گئی کہ دس سال کے اندر اندر رومی دوبارہ فتح یاب ہوں گے اور اس وقت مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ عظیم فتح سے نوازے گا اور مسلمان خوشیاں منائیں گے۔ جب یہ خوشخبری دی گئی اس وقت مسلمان قلیل تعداد میں تھے اور مکے میں مارے اور کھدیڑے جا رہے تھے اور اس پیشین گوئی کے بعد بھی آٹھ سال تک ان کے غلبہ اور فتح کا کوئی امکان کسی کو نظر نہ آتا تھا۔
پھراللہ کا کرنا یہ ہوا کہ ۶۲۲ء میں نبی کریمؐ ہجرت کرکے مدینے تشریف لے گئے اور ۶۲۴ء میں رومی سلطنت نے ایرانیوں کو شکست دے کر ایک وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا اور اسی سال یعنی ۲ ہجری میں جنگ بدر میں مسلمانوں نے کفار مکہ کی فوج کو زبردست شکست سے دوچار کیا اور مسلمانوں نے اس پر خوشیاں منائیں۔ اس طرح اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوا۔
جنگ بدر میں فتح کی ایک اور پیشین گوئی قرآن کریم میں سورۃ القمر میں دی گئی۔ یہ سورہ ہجرت سے پانچ سال پہلے ۸ نبوی میں نازل ہوئی اس میں فرمایا گیا:
’’اور آل فرعون کے پاس بھی تنبیہات آئی تھیں، مگر انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلا دیا، آخر کو ہم نے انھیں پکڑا جس طرح کوئی زبردست قدرت والا پکڑتا ہے۔ کیا تمھارے کفار کچھ ان سے بہتر ہیں؟ یا آسمانی کتابوں میں تمھارے لیے کوئی معافی لکھی ہوئی ہے۔ یا ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم ایک مضبوط جتھا ہیں، اپنا بچائو کر لیں گے۔ عنقریب یہ جتھا شکست کھا ئے گا اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگتے نظر آئیں گے۔‘‘ (القمر ۴۱تا ۴۵)
جب یہ آیات نازل ہوئیں اس وقت کوئی شخص یہ تصور تک نہ کر سکتا تھا کہ مستقبل قریب میں یہ انقلاب کیسے ہو گا۔ مسلمانوں کی بے بسی کا حال یہ تھا کہ ان میں سے ایک گروہ ملک چھوڑ کر حبش میں پناہ گزین ہو چکا تھا اور باقی ماندہ مسلمان شعب ابی طالب میں محصور تھے جنھیں قریش کے مقاطعہ اور محاصرہ نے بھوکوں مار دیا تھا۔ اس حالت میں کون یہ سمجھ سکتا تھا کہ سات ہی برس کے اندر نقشہ بدل جانے والا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے شاگرد عکرمہ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ فرماتے تھے، جب سورہ قمر کی یہ آیات نازل ہوئیں تو میں حیران تھا کہ آخر یہ کون سی جمعیت ہے جو شکست کھائے گی؟ مگر جب جنگ بدر میں کفار شکست کھا کر بھاگ رہے تھے اس وقت میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زرہ پہنے آگے کی طرف جھپٹ رہے ہیں اور آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری ہیں کہ سیھزم الجمع ویولون الدبر (عنقریب یہ جتھا شکست کھائے گا اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگتے نظر آئیں گے)۔تب میری سمجھ میں آیا کہ یہ تھی وہ شکست جس کی خبر دی گئی تھی۔‘‘ (ابن جریر، ابن ابی حاتم)
٭ فتح مکہ کی پیشین گوئی
قرآن کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مکہ فتح ہونے کی پیشین گوئی مکی دور میں بھی کی گئی اور پھر ہجرت کے بعد مدنی دور میں بھی۔
سورہ ص جو مکی سورہ ہے اور غالباً مکی دور کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی اس میں کفار مکہ کے بارے میں فرمایا گیا:
’’یہ تو جتھوں میں سے ایک چھوٹا سا جتھا ہے جو اسی جگہ شکست کھانے والا ہے۔‘‘ (ص ۱۱)
یہاں ’’اسی جگہ‘‘ کا اشارہ مکہ معظمہ ہے یعنی جہاں یہ لوگ یہ باتیں بنا رہے ہیں، اسی جگہ ایک دن شکست کھانے والے ہیں اور یہیں وہ وقت آنے والا ہے جب یہ منہ لٹکائے اسی شخص یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہوں گے جسے یہ حقیر سمجھ کر نبی تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
سورۃ الصّٰفّٰت میں یہ پیشین گوئی اس طرح کی گئی ہے۔
’’اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں کہ یقینا ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہو کر رہے گا۔ پس اے نبیؐ ذرا کچھ مدت تک انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور دیکھتے رہو، عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔ کیا یہ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں؟ جب وہ ان کے صحن میں اترے گا تو وہ دن ان لوگوں کے لیے بہت برا ہو گا۔ جنھیں متنبہ کیا جا چکا ہے۔‘‘(۱۷۱تا ۱۷۹)
یہ نوٹس اس زمانے میں دیا گیا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کے آثار دور دور تک کہیں نظر نہ آتے تھے۔ ہجرت حبشہ کے بعد بمشکل چالیس پچاس صحابہ مکہ میں آپؐ کے ساتھ رہ گئے تھے اور انتہائی بے بسی کے ساتھ کفار کی زیادتیاں برداشت کر رہے تھے لیکن پندرہ سولہ سال سے زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر ٹھیک وہی کچھ پیش آیا جس سے کفار کو خبردار کیا گیا تھا۔
۶ ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد جب سورۃ الفتح نازل ہوئی تو اس میں خیبر کی فتح کی پیشین گوئی کرنے کے بعد فتح مکہ اور دوسری فتوحات کے بارے میں یہ خوشخبری دی گئی:
’’اس کے علاوہ دوسری اورغنیمتوں کا بھی وہ تم سے وعدہ کرتا ہے جن پر ابھی تم قادر نہیں ہوئے اور اللہ نے ان کو (تمھارے لیے) گھیر رکھا ہے۔‘‘( ۲۱)
اغلب یہ ہے کہ یہ اشارہ فتح مکہ کی طرف ہے۔ یہی رائے قتادہ کی ہے اور اسی کو ابن جریر نے ترجیح دی ہے۔ ارشادِ الٰہی کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تو مکہ تمھارے قابو میں نہیں آیا ہے مگر اللہ نے اسے گھیرے میں لے لیا ہے اور حدیبیہ کی اس فتح کے نتیجے میں وہ بھی تمھارے قبضے میں آجائے گا۔
سورۃ الممتحنہ جو فتح مکہ سے کچھ مدت پہلے نازل ہوئی اس میں فتح مکہ کی پیشین گوئی ان الفاظ میں کی گئی:
’’بعید نہیں کہ اللہ کبھی تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور وہ غفور و رحیم ہے۔‘‘ (۷)
اس سورہ کی ابتدائی آیات میں حضرت حاطبؓ کا قصہ بیان کیا گیا ہے جس میں انھوں نے مکہ والوں کو نبی کریمؐ کے مکہ پر حملہ کرنے کے ارادے کی اطلاع پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ اس سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ یہ آیت فتح مکہ کے بارے میں ہی نازل ہوئی تھی۔ اس فتح کی خاص بات جو کہ اس آیت میں کہی گئی ، یہ تھی کہ جنگ کیے بغیر کفار مکہ نبی کریمؐ کے مطیع ہو گئے اور پھر سب کے سب ایمان لے آئے اور اس ناطے مسلمانوں کے بھائی بن گئے اور ان کے درمیان محبت کا رشتہ قائم ہو گیا۔
٭ فتح خیبر کی پیشین گوئی۔
سن چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد مکہ سے مدینہ واپسی کے سفر میں سورۃ الفتح نازل ہوئی اور اس میں خیبر اور یہودیوں کے بہت سے مقبوضات فتح ہونے کی پیشین گوئی ان الفاظ میں کی گئی:
’’اللہ مومنوں سے خوش ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں کا حال اس کو معلوم تھا، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی، ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی اور بہت سا مال غنیمت ان کو عطا کر دیا جسے وہ عنقریب حاصل کریں گے۔ اللہ زبردست اور حکیم ہے۔‘‘(۱۸،۱۹)
ان آیات کے نزول کو تین ماہ ہی گزرے تھے کہ نہ صرف یہودیوں کا سب سے مضبوط مرکز خیبر فتح ہو گیا بلکہ اس کے بعد فدک، وادی القریٰ، تیما اور تبوک کی یہودی بستیاں اسلام کے زیر نگیں آتی چلی گئیں۔ پھر وسط عرب کے وہ تمام قبیلے بھی جو یہود اور قریش مکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھتے تھے ایک ایک کرکے تابع فرمان ہو گئے۔
٭ بنی نضیر کے یہودیوں سے منافقین کا جھوٹا وعدہ۔
صفر ۴ ہجری میں مدینہ میں آباد یہودی قبیلے بنو نضیر کی بستی میں ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اہم معاملے پر گفت و شنید کرنے کے لیے تشریف لے گئے۔ اگرچہ بظاہر ان سے آپؐ کا پرامن رہنے کا معاہدہ تھا لیکن وہ درپردہ آپ کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے اور کفار کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ انھوں نے اس موقعہ پر یہ سازش کی کہ آپؐ پر چھت سے ایک پتھر گرا کر آپ کو ہلاک کر دیا جائے۔ لیکن اس کی پیشگی خبر اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آپ کو دے دی اور آپ وہاں سے اٹھ کر چلے آئے۔ اس پر حضوؐر نے ان کو بلا تاخیر یہ الٹی میٹم بھیج دیا کہ تم نے جو غداری کرنی چاہی تھی وہ میرے علم میں آگئی ہے لہٰذا دس دن کے اندر اندر مدینے سے نکل جائو۔ اس کے بعد جو شخص بھی تمھاری بستی میں پایا جائے گا اس کی گردن ماردی جائے گی۔ دوسری طرف مدینے کے منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے ان کو پیغام بھیجا کہ میں دو ہزار آدمیوں سے تمھاری مدد کروں گا اور بنو قریـظہ اور بنی غطفان کے قبیلے بھی تمھاری مدد کو آئیں گے۔ تم ڈٹ جائو اور ہرگز اپنی جگہ نہ چھوڑو۔ اس پر بنو نضیر نے جلاوطن ہونے سے انکار کر دیا اور آپؐ کو یہ پیغام پہنچایا کہ ہم یہاں سے ہرگز نہ نکلیں گے، آپ جو چاہیں کر لیں۔
اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحشر میں نبی کریمؐ کو یہ اطلاع دی کہ منافقین نے بنی نضیر کی مدد کا جو وعدہ کیا ہے وہ جھوٹا ہے آپؐ ان کے خلاف کارروائی کریں، کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا۔
’’تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنھوں نے منافقت کی روش اختیار کی ہے۔ یہ اپنے کافر اہل کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں، اگر تمھیں نکالا گیا تو ہم تمھارے ساتھ نکلیں گے اور تمھارے معاملہ میں ہم کسی کی بات ہرگز نہ مانیں گے، اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمھاری مدد کریں گے۔ مگر اللہ گواہ ہے کہ یہ لوگ قطعی جھوٹے ہیں۔ اگر وہ نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ ہرگز نہ نکلیں گے اور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ ان کی ہرگز مدد نہ کریں گے اور اگر یہ ان کی مدد کریں بھی تو پیٹھ پھیر جائیں گے، پھر کہیں سے کوئی مدد نہ پائیں گے۔‘‘ (الحشر۱۱،۱۲)
اس کے بعد ربیع الاول ۴ ہجری میں نبی کریمؐ نے بنو نضیر کی بستیوں کا محاصرہ کر لیا اور کوئی ان کی مدد کو نہ آیا۔ بالآخر جلاوطنی پر مجبور ہو گئے اور اپنی بستیاں خالی کر دیں۔
٭سورۃ الضحیٰ کی پیشین گوئی۔
مستقبل کے بارے میں ایک پیشین گوئی اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے سورۃ الضحیٰ میں اس طرح بیان فرمائی:
’’اور یقینا تمھارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے اور عنقریب تمھارا رب تمھیں اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جائو گے۔‘‘(۴،۵)
یہ خوشخبری اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی حالت میں دی تھی جبکہ مکہ کے ابتدائی دور میں صرف چند مٹھی بھر آدمی آپ کے ساتھ تھے، ساری قوم آپ کی مخالف تھی۔ بظاہر کامیابی کے آثار کہیں دور دور تک نظر نہیں آتے تھے۔ اسلام کی شمع مکہ میں ہی ٹمٹما رہی تھی اور اسے بجھا دینے کے لیے ہر طرف طوفان اٹھ رہے تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ ابتدائی دور کی مشکلات سے آپ پریشان نہ ہوں۔ ہر بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہو گا۔ آپ کی قوت، آپ کی عزت و شوکت، اور آپ کی قدر و منزلت برابر بڑھتی چلی جائے گی اور آپ کا نفوذ و اثر پھیلتا چلا جائے گا۔ پھر یہ وعدہ صرف دنیا تک ہی محدود نہیں ہے، اس وعدے میں یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ آخرت میں جو مرتبہ آپ کو ملے گا وہ اس مرتبے سے بھی بدرجہا بڑھ کر ہو گا جو دنیا میں آپ کو حاصل ہو گا۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے سامنے وہ تمام فتوحات پیش کی گئیں جو میرے بعد میری امت کو حاصل ہونے والی ہیں۔ اس پر مجھے بڑی خوشی ہوئی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا کہ آخرت تمھارے لیے دنیا سے بھی بہتر ہے۔‘‘ (بیہقی)
٭ رفع ذکر کی پیشین گوئی۔
سورئہ الم نشرح میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ورفعنا لک ذکرککی خوشخبری سنائی۔اس پیشین گوئی کے پورا ہونے کا وقت آپ کی زندگی میں ہی شروع ہو چکا تھا۔ جب آپ دنیا سے تشریف لے گئے تو پورے عرب میں کوئی مشرک باقی نہ تھا اور عرب کا گوشہ گوشہ اشھد ان محمد رسول اللّٰہ کی صدا سے گونج رہاتھا۔ پھر خلافت راشدہ کے دور میں آپؐکا نام نامی تمام روئے زمین میں بلند ہونا شروع ہو گیا۔ یہ سلسلہ آج تک بڑھتا ہی جا رہا ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک بڑھتا ہی جائے گا۔ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں مسلمانوں کی کوئی بستی موجود ہو اور دن میں پانچ مرتبہ اذان میں با آواز بلندمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو، نمازوں میں حضوؐر پر درود نہ بھیجا جا رہا ہو، جمعہ کے خطبوں میں آپ کا ذکر خیر نہ کیا جا رہا ہو۔ سال کے بارہ مہینوں میں سے کوئی دن اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے کوئی وقت ایسا نہیں ہے جب روئے زمین پر کسی نہ کسی جگہ حضور کا ذکر مبارک نہ ہو رہا ہو۔ یہ قرآن کی صداقت کا ایک کھلا ثبوت ہے اور قرآن کی پیشین گوئی کا پورا ہونا قرآن کا عظیم معجزہ ہے۔ حضرت ابو سعید حذریؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:’’جبریل ؑ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا، میرا رب اور آپ کا رب پوچھتا ہے کہ میں نے کس طرح آپؐ کا رفع ذکر کیا۔ میں نے عرض کی، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ انھوں نے کہا، اللہ کا ارشاد ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا تو اس کے ساتھ تمھارا بھی ذکر کیا جائے گا۔‘‘ (ابن جریر)۔ بعد کی پوری تاریخ شہادت دے رہی ہے کہ یہ بات حرف بہ حرف پوری ہوئی۔
٭ سورۃ الکوثر کی پیشین گوئی۔
مکی دور میں سردارانِ قریش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حقارت سے ابتر کہتے تھے۔ ابتر کا مطلب ایک نا مراد اور بے وسیلہ ، بے سہارا، جڑ کٹا شخص ہے جو تنہا ہو جائے اور اس شخص کو بھی ابتر کہتے تھے جس کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہو یا ہو کر مر جائے اور اس کے پیچھے اس کا کوئی نام لیوا باقی نہ رہے اور اس کا نام و نشان مٹ جائے۔ کفار قریش نبی کریم ؐ کو ان سبھی معنوں میں ابتر کہتے تھے، خصوصاً جب آپ کے دونوں بیٹے حضرت قاسم اور عبداللہ یکے بعد دیگرے وفات پا گئے اور صرف چار بیٹیاں ہی باقی رہ گئیں تو ایک کافر سردار عاص بن وائل نے کہا کہ آپؐ کی نسل ختم ہو گئی، آپؐ ابتر ہو گئے اور آپؐ کی جڑ کٹ گئی۔ اسی طرح کے الفاظ کفار کے سردار ابوجہل، عقبہ بن ابی مُعیط، اور آپ کے چچا ابولہب نے بھی کہے تھے اور خوشیاں منائی تھیں۔
ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر نازل فرمائی اور اس میں آپؐ کو ان الفاظ میں خوشخبری دی اور پیشین گوئی فرمائی:
’’بے شک تمھارا دشمن ہی ابتر (جڑ کٹا) ہے۔‘‘(۳)
یہ دراصل قرآن کی اہم پیشین گوئیوں میں سے ایک پیشین گوئی تھی جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت لوگ حضوؐر کو ہی ابتر سمجھ رہے تھے اور کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ قریش کے یہ بڑے بڑے سردار کیسے ابتر ہو جائیں گے۔ لیکن چند سال ہی گزرے تھے کہ حالات بالکل پلٹ گئے اور ۸ ہجری میں جب آپ نے مکہ پر چڑھائی کی تو قریش کا کوئی حامی و مددگار نہ تھا اور انھیں بے بسی کے ساتھ ہتھیار ڈال دینے پڑے۔ اس کے بعد ایک سال کے اندر اندر پورا ملک عرب آپؐ کے ہاتھ میں تھا۔ آپ کے دشمن بالکل بے بس اور بے یارومددگار ہو کر رہ گئے۔ پھر وہ ایسے بے نام و نشان ہوئے کہ ان کی اولاد اگر دنیا میں باقی رہی تو کوئی یہ نہیں جانتا کہ وہ ان سرداروں کی اولاد ہے۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر آج دنیا بھر میں درود بھیجا جارہا ہے۔ کروڑوں مسلمانوں کو آپ سے نسبت پر فخر ہے۔ تاریخ نے ثابت کر دیا کہ ابتر حضوؐر نہیں بلکہ آپ کے دشمن ہی تھے اور ہیں۔
٭ ابولہب کے بارے میں پیشین گوئی۔
ابولہب مکہ کے امیر ترین مشرک سرداروں میں سے تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا۔ جب آپؐ کو نبوت عطا ہوئی اور آپ نے لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلانے کا کام شروع کیا تو آپ کا سخت دشمن ہو گیا۔ آپ کا قریب ترین ہمسایہ ہونے کے باوجود آپ کو طرح طرح سے اذیتیں دیں۔ اس کی بیوی ام جمیل رات کو آپ کے گھر کے دروازے پر کانٹے دار جھاڑیاں لا کر ڈال دیتی۔ آپؐ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے نکلتے تو یہ آپؐ کے پیچھے جاتا اور آپ کے اوپر آوازے کستا اور لوگوں سے کہتا اس کی بات نہ سنو یہ جھوٹا ہے۔ نبوت سے پہلے آپؐ کی دو صاحبزادیاں اس کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے بیاہی ہوئی تھیں۔ جب آپ نے نبوت کا اعلان کیا تو ابولہب نے زبردستی دونوں کو طلاق دلوا دی۔ ایک روز جب آپ نے صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر قریش کے تمام خاندانوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو وہاں ابولہب بھی موجود تھا اس نے آپ کی بات سن کر کہا ’’ستیاناس جائے تیرا، کیا تو نے اس لیے ہمیں جمع کیا تھا۔‘‘ اس پر سورہ لہب نازل ہوئی اور اس میں فرمایا گیا:
’’ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور وہ نامراد ہو گیا۔‘‘(۱)
ہاتھ ٹوٹنے سے مراد جسمانی ہاتھ ٹوٹنا نہیں بلکہ ہلاک ہونا ہے۔ اس آیت میں ابولہب کی ہلاکت کی پیشین گوئی کی گئی تھی جو بالآخر پوری ہوئی۔
اس سورہ کے نزول پر سات آٹھ سال ہی گزرے تھے کہ جنگ بدر میں کفار مکہ کے اکثر و بیشتر بڑے بڑے سردار مارے گئے جو اسلام دشمنی میں ابولہب کے ساتھی تھے۔ ابولہب اس جنگ میں شریک نہیں تھا لیکن جب شکست کی خبر مکہ پہنچی تو اس کو اتنا رنج ہوا کہ سات دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا۔ اس کی موت بھی نہایت عبرت ناک تھی۔ اس کو ایسی جلد کی بیماری ہوئی کہ مرنے کے بعد تین رو ز تک کوئی اس کے قریب نہ آیا یہاں تک کہ لاش سڑ گئی اور اس کی بو پھیلنے لگی۔ آخر کار جب اس کے بیٹوں کو لوگوں نے طعنے دینے شروع کئے تو انھوں نے ایک گڑھا کھدوایا اور لکڑیوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر اس میں پھینکا اور اوپر سے مٹی ڈال کر ڈھانک دیا۔ اس کی مزید اور مکمل شکست اس طرح ہوئی کہ جس دین کی راہ روکنے کے لیے اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا، اس دین کو اس کی اولاد نے قبول کیا۔ سب سے پہلے اس کی بیٹی دُرّہ ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ پہنچیں اور اسلام لائیں۔ پھر فتح مکہ کے موقعہ پر اس کے دونوں بیٹے عتبہ اور معتب حضرت عباسؓ کی وساطت سے حضوؐر کے سامنے پیش ہوئے اور ایمان لا کر انھوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔
٭ یہودیوں کے بارے میں پیشین گوئی۔
بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے ان کے ابتدائی دور میں بڑی فضیلت عطا فرمائی ان میں پے در پے انبیاء بھیجے، ان کو فرعون کی غلامی سے نجات دی۔ من و سلویٰ سے رزق دیا۔ شام و فلسطین جیسی با برکت زمین پر ان کو بسایا لیکن ان لوگوں نے اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے پے درپے نافرمانیاں کیں، انبیاء کو قتل کیا، سبت کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تورات کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر یہودیت کے نام سے ایک نیا دین ایجاد کر لیا اور اپنے آپ کو مسلم کہلانے کی بجائے حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹوں میں سے ان کے چوتھے بیٹے یہوداہ کے نام پر یہودی کہلانا پسند کیا۔ قرآن کریم میں بڑی تفصیل کے ساتھ کئی مقامات پر ان کے جرائم بیان کیے گئے ہیں۔ جب یہ لوگ ان جرائم میں بڑھتے چلے گئے اور بالآخر اپنی دانست میں حضرت عیسیٰؑ کو انھوں نے صلیب دے کر قتل کر دیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر ہمیشہ کے لیے لعنت کر دی۔ آج سے دو ہزار برس پہلے رومیوں نے ان کا قتل عام کیا اور ان کو شام اور فلسطین کی سرزمین سے مکمل طور پر جلاوطن کر دیا۔ اور یہ لوگ ساری دنیا میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور مختلف اقوام کے ظلم کا شکار ہوتے رہے۔ بالآخر دو ہزار سال بعد ۱۹۴۸ء میں اپنے زور پر نہیں بلکہ دنیا کی سپر پاورز کی مدد سے ان کے زیر سایہ رہ کر دوبارہ ان کو فلسطین میں زبردستی داخل کر دیا گیا اور اسرائیل نام کی ایک ریاست مصنوعی طور پر تشکیل دی گئی۔لیکن اس کا وجود بھی صرف امریکہ اور یورپ کی آشیرباد سے قائم ہے اگر وہ کبھی اس کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیں تو یہ ریاست ایک دن کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ بات آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن نے ہمیں ان الفاظ میں بتائی۔
’’یہ (یہودی) جہاں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار پڑی، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے، یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں، اور ان پر محتاجی اور مغلوبی مسلط کر دی گئی ہے، یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انھوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا۔ یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے۔‘‘(آل عمران۔۱۱۲)
٭ قیامت کے قریب پوری ہونے والی پیشین گوئیاں۔
کچھ ایسی پیشین گوئیاں ہیں جو آئندہ پوری ہوں گی۔ قیامت برپا ہونے سے کچھ پہلے دو چیزیں ظاہر ہوں گی ایک یاجوج ماجوج اور دوسرے دابۃ الارض (زمین کا جانور)۔ ان آثار قیامت کی خبر اس طرح دی گئی:
’’اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا ہو وہ پھر پلٹ سکے یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دیے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے اور وعدئہ برحق (قیامت) کے پورے ہونے کا وقت قریب آ لگے گا تو یکایک ان لوگوں کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے جنھوں نے کفر کیا تھا۔ وہ کہیں گے ہائے ہماری کم بختی ، ہم اس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے  تھے بلکہ ہم خطاکار تھے۔‘‘(الانبیاء ۹۵تا ۹۷)۔
(’’اور جب ہماری بات پوری ہونے کا وقت آن پہنچے گا تو ہم ان کے لیے ایک جانور زمین سے نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔‘‘ (النمل۸۲

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
1 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x