ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

دروازہ- بتول اکتوبر ۲۰۲۱

دروازہ ہماری زندگی کا ایک اہم جز ہے ۔ دروازہ کھلا ہو یا بند اس کے ساتھ ہماری بہت سی نفسیاتی جہتیں وابستہ ہیں ۔
بند دروازے بھی نعمت ہیں ۔حفاظت اور رازداری اور ذاتی معاملات کی پردہ داری رکھتے ہیں ۔اگر دروازے بند نہ ہوسکتے کسی الماری کے گھر یا کمرے کے تو کتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔اس موضوع پہ جتنا غور کریں تو بند کواڑ کی اہمیت سمجھ آتی ہے۔
لیکن یہی بند دروازے جب کھل نہ سکیں یا کوئی ہمارے لیے کھولنا نہ چاہے تو کتنی کوفت ہوتی ہے۔ اور در کے نہ کھلنے یا نہ کھولنے کے ساتھ بھی کس قدر جذباتی اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غرض ہر شے کے دو پہلو ہوتے ہیں اور دونوں اپنے مقام ، موقع و محل کی نسبت سے اہم ہوتے ہیں ۔
کسی زمانے میں شہروں کے بھی دروازے ہوتے تھے جو شہریوں کی حفاظت کے لیے بنائے جاتے تھے ۔اجنبی لوگوں کا داخلہ شہر میں آسان نہ ہوتا تھا۔ بڑے گھروں میں بیرونی اور داخلی دروازے ہوتے۔ مردان خانے اور زنان خانے کے درمیان بھی پردہ داری ہوتی تھی ۔ ہر شہر ، محل، حویلی ، گھر چھوٹا ہو یا بڑا یا جھونپڑی اندر داخل ہونے کا پہلا دروازہ ہی اہم ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اپنے ذاتی کمرے کا دروازہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کمرے میں داخل ہوتے ہی آپ کو ملکیت کا احساس ہوتا ہے ۔
اسی طرح زندگی کے مختلف مدارج میں بھی کسی نہ کسی دروازے سے داخل ہؤا جاتا ہے ۔تعلیمی اداروں کے مدارج طے کرتے ہوئے سکول کالج یونیورسٹی پھر روزگار کے مقام کا پہلا دروازہ ہر تعلیمی ادارہ اپنے دروازے میں داخل ہونے کی اجازت اسے ہی دیتا ہے جس کے پاس ڈگری موجود ہو ۔ روزگار کے مقام پہ داخل ہونے کے لیے مطلوبہ معیار کی سی۔وی درکار ہوتی ہے جو کہ اپنے عہدے کی کرسی پہ بیٹھنے کی زندگی کا پہلا دروازہ ہے ۔ہر انسان کی نئی زندگی شادی کے بعد شروع ہوتی ہے اور اس نئ زندگی میں داخل ہونے کا ایک ہی دروازہ ہے جسے نکاح کہتے ہیں ۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہے جس کا دروازہ موت ہے ۔ ایک چھوٹی زندگی سے بڑی زندگی کی طرف منتقل ہونا ہے ۔ چھوٹے گھر سے بڑے گھر میں جا بسنا ۔
اس نئی زندگی کا دروازہ موت کی شکل میں سب پہ کھلنا ہے اور اس دروازے کے علاوہ کوئی رستہ نہیں جہاں سے اس نئی دنیا میں منتقل ہؤا جا سکے۔ کسی مرنے والے کے بارے میں کوئی زندہ شخص نہیں جانتا کہ اس پہ موت وارد ہوتے وقت اس کی کیفیات کیا تھیں اس نے دروازہ کھلنے پہ کیا دیکھا؟
یہ وہ پر اسرار لمحات ہیں جن کا کوئی دو جمع دو کا فارمولہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خالص بند دروازے کے کھلنے کے منتظر شخص کی وہ کہانی ہے جس کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کی جا سکتی ۔زندگی کی آخری سرحد پہ کھڑے نئ دنیا میں داخل ہونے سے پہلے کون مومن ہونے کا سرٹیفیکیٹ لیے منتظر ہے اور کس نے دین کا قلادہ گردن سے اتار پھینکا ہے؟
کس قدر مشکل لمحات ہیں ، ساری زندگی کا حاصل ، فیصلہ کن دستک ، اور فیصلہ کن دروازہ کھلنے کی آواز ، دروازے سے نظر آتا نئ دنیا کا وہ منظر جو رخصت ہونے والا بیان نہیں کر سکتا ۔یہ ایک ایسا اسرار ہے جس کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی جا سکتی اور کوئی قانون لاگو نہیں ہو سکتا کہ نئ دنیا

میں جاتے وقت فرد کا کیسا استقبال ہوا ؟اس کی ایمانی کیفیت کیا تھی؟ بے شک مومن کی رخصتی کی بہت سی نشانیاں ملتی ہیں اور قرآن وحدیث سے ثابت ہیں کچھ دن وقت لمحے، کیفیات آخری کلمات گواہ ہوتے ہیں کہ جانے والا کس دروازے سے نئ دنیا میں داخل ہؤا ہے۔ ان کو موت کے دروازے سے دوسری دنیا میں پہنچانے والے فرشتے گرفتار کرکے لے جانے آئے ہیں یا شاہی پروٹوکول کے ساتھ ملاقات کی خوشخبری ساتھ لائے ہیں۔
لیکن ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ہم کوئی قاعدہ کلیہ نہیں بنا سکتے۔ آخری ہچکی سے پہلے آسانی سے روح کا بوتل سے خوشبو کی طرح نکل جانا نظر آتا ہو ، مگر کچھ نیک ،متقی عالم و مبلغ سخت تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں اور کچھ بظاہر بے دین سکون سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔ وہ جو لمبی بے ہوشی یا قومے میں یا سوتے میں بظاہر کسی نزاعی کیفیت کےبغیر دنیا چھوڑ دیتے ہیں ۔ وہ جو ان لمحات یا اوقات میں رخصت ہوتے ہیں جن کے بارے میں واضح خوشخبریاں ملتی ہیں مگر ان کی زندگی کچھ اور گواہی دیتی ہے ۔ ہم نہیں جانتے کس معمولی سے نام کے مسلمان کی کون سی معمولی نیکی قابل قدر ٹھہری ہو اور اس کی زندگی کی خطائوں کو معاف کرنے کی کچھ سبیل بنا دی گئی ہو۔ اس پہلو پہ سوچیں تو مشاہدہ بتاتا ہے کہ وہ جو کچھ تقویٰ کے معیار پہ پورے نہیں اترتے مگر مظلومانہ قتل کیے جاتے ہیں، مرنے سے پہلے اپنوں کے ہاتھوں اذیتوں کو برداشت کرتے ہیں ، زندہ جلائے جاتے ہیں، تشدد سے ہلاک ہو جاتے ہیں، تو خیال آتا ہے کہ ہو سکتا ہے ایک بے عمل مگر کلمہ گو انسان کی خطائوں کا کفارہ اس کی مظلومانہ کیفیت میں مرنا ہو جائے۔ یقیناً یہ سب وہ اسرار ہیں جن پہ کسی کو کلام کا یارا نہیں۔ بیماری کی طوالت ، بے بسی کی موت اور اس کی سختیاں گناہوں کا کفارہ ہو سکتی ہیں۔ تکالیف سزا ہیں یا خطاؤں کا کفارہ….. کس کے پاس اس کی ضمانت ہے ؟
لہٰذاکسی میت کی ظاہری حالت پہ تبصرے کرنا یا اس کے برے اعمال کے تناظر میں اسے غضب کا مستحق خیال کرنا اخلاقی پس ماندگی ہے ۔ دنیا سے رخصت ہوجانے والے کی برائی بیان کرنا بجائے خود ایک بڑا عیب ہے۔مرتے وقت اس بندے اور اللہ کا کیا معاملہ تھا یہ ایک غیب ہے ۔ اور جن لوگوں کے بارے میں شریعت نے تعین کے ساتھ گواہی دی ہے کہ وہ جہنمی ہیں تو وہ پکے جہنمی ہیں ان میں ابو لہب، ابو لہب کی بیوی، ابو طالب، عمرو بن لحی فرعون ہامان قارون وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن کلمہ گو کے لیے جہنمی کا یا کفر پہ مرنے کا اظہار کرنا جائز نہیں ۔ حتیٰ کہ کسی زندہ کافر انسان کے لیے جہنمی ہونے کا فتویٰ صادر کر دینا جائز نہیں کہ جب تک نزع کا وقت طاری نہیں ہوتا کسی کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ کب اللہ کی طرف پلٹ آئے۔ اور مومن اپنی دعاؤں میں پوری انسانیت کے لیے ہدایت کی دعا کرنے اور کوشش کرنے کا مکلف ضرور ہے۔میدان بدر میں جب ایک کافر کلمہ توحیدکا اقرار کرتا ہے اور مسلمان اس خیال سے کہ یہ جان بچانے کی خاطر کلمہ کا قرار کر رہا ہے اس کی گردن اڑا دیتا ہے، پھر کیا ہوا؟ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑ تا ہے ۔ اسی طرح میدان بدر ہی میں ایک مسلمان آخری لمحات میں زخموں سے تنگ آکر خود کشی کر لیتا ہے، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے خبر دی کہ اس کا معاملہ کیا ہے۔ اب کوئی ایسی حتمی خبر دینے والا موجود نہیں اس لیے دنیا سے رخصت ہونے والے مومنین کے لیے رحمت و مغفرت کی امید اور دعا قبولیت کےیقین کے ساتھ کرنا زندہ لوگوں کا فرض ہے ۔
بلکہ یقین کے ساتھ کسی کو جنتی کہنا بھی مناسب نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید اور غالب گمان رکھا جا سکتا ہے قطعی طور پہ جنتی وہی ہیں جن کے بارے میں وحی کے ذریعے مطلع کیا گیا( عشرہ مبشرہ ؓ) اور جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رضامندی کی خوشخبری (صحابہؓ کرام ) وحی کے ذریعے عطا فرمائی ۔ ان کے جیسے اعمال کرنے والوں کے لیے بھی یقیناً خوشخبریاں منتظر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہونا بھی کفر ہے ۔
چنانچہ جس کے بارے میں کتاب و سنت میں جنت یا جہنم میں جانے کی شہادت موجود ہے تو ہم بھی اس کے بارے میں وہی گواہی دیں گے جو کتاب و سنت میں موجود ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہم نیک آدمی کے لیےجنت کی امید، اور برے آدمی کے لیے جہنم کا اندیشہ رکھتے ہیں، لیکن انجام کار اس کلمہ گو کے لیے بھی اچھی امید رکھتے ہیں ۔تاہم خاتمہ کس چیز

پر ہوگا، اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔
بخاری میں حضرت خارجہ بن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری خاتون ام العلاء رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا اور یہ خاتون نبیؐ کی بیعت کا شرف رکھتی ہیں‘ وہ فرماتی ہیں (ہجرت کے موقع پر) مہاجرین کو قرعہ اندازی کر کے (انصار پر) تقسیم کیا گیا (اور انہیں بھائی بھائی بنادیا گیا) ہمارے حصہ میں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ آئے۔ ہم نے انہیں اپنے گھروں میں رہائش مہیا کی۔ پھر (کچھ عرصہ بعد) وہ بیمار ہوگئے اور اسی بیماری میں ان کی وفات ہوگئی۔ جب وہ فوت ہوگئے اور انہیں غسل دے کرکفن کے کپڑے پہنا دئیے گئے تو رسول اللہؐ تشریف لائے۔ میں نے کہا:
’’اے ابو سائب (عثمان بن مظعون)! تجھ پر اللہ کی رحمت ہو، میں تو تیرے بارے میں یہی گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے تجھے عزت بخشی ہے‘‘۔
جناب رسول اللہؐ نے فرمایا:
’’تجھے کیا معلوم کہ اللہ نے اسے عزت بخش دی ہے؟‘‘
میں نے عرض کی ’’یا رسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! (اگر اس شخص کی بھی عزت افزائی نہیں ہوئی تو پھر) اللہ تعالیٰ اور کس کی عزت افزائی فرمائے گا؟‘‘
رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا:
’’اس کے پاس یقینی چیز (موت) آچکی ہے۔ قسم اللہ کی! میں اس کے لیے بھلائی کی امید رکھتا ہوں۔ قسم ہے اللہ کی! میں اللہ کا رسول ہونے کے باوجود نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔‘‘
ام العلاء ؓ نے فرمایا: ’’ اللہ کی قسم! اس کے بعد میں کسی کی صفائی نہیں دوں گی (کہ وہ یقینا ًصالح اور بخشا ہؤا ہے)‘‘۔
آخری درجہ ایمان کا بہت اہم ہے ۔ کوئی عالم مبلغ مصنف جس نے دنیا سے تقویٰ کے ایوارڈ لے رکھے ہوں مرنے سے پہلے شیطان کے بہکاوے میں آکر منحرف ہو سکتا ہے ،آخری لمحات میں اپنے علم و عمل کا ایمان کا انکار کر سکتا ہے ، اپنا مذہب، عقیدہ بدل سکتا ہےاور مرتے وقت اسے کوئی تکلیف بھی نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے خاتمہ بالایمان کی دعا ہر وقت کرنی چاہیے کیونکہ موت کسی گھڑی بھی آسکتی ہے۔ دوسری طرف نزع سے پہلے ایک معمر شخص اپنے عقیدہ باطل سے توبہ کرکے کلمہ شہادت ادا کر لیتا ہے اب اس نے تو موت کا دروازہ کھلنے سے پہلے اپنا رخ درست کر لیا بغیر عبادتیں اور حقوق و فرائض ادا کیےہی، اور سرخرو ہؤا، خواہ موت کا لمحہ کیسا بھی سخت آئے ۔
اگر تکلیف ،بیماری کے بغیر جان نکل جانا رب کا پیارا ہوجانا مستند ہوتا تو کسی مومن حقیقی کو کانٹا تک نہ چبھتا، مومنو! ذرا سوچو کہ ہمارے آقا ؐکا دنیا سے رخصتی پہ کیا عالم تھا، کیا یہ تعجب کی بات نہیں؟ اللہ کے محبوبؐ پہ بخار، سر درد کی شدت سے غشی طاری نہ ہوتی ۔ اس رب کائنات کی حکمتوں کے اسرار کمزور انسان کے بس کی بات نہیں ۔
ہر کلمہ گو کو ہر لمحہ یہ بات یاد رہنی ضروری ہے کہ موت بر حق ہے، وہ نہ بچے پہ رحم کھاتی ہے نہ جوان سے رعایت کرتی ہے اور نہ ہی بوڑھا یا دائمی مریض اپنے مرنے کا وقت تعین کر سکتا ہے ۔ دنیا میں آنے کی ترتیب ہوتی ہے ،ہر باپ کے بعد اولاد آتی ہے مگر واپسی کا دروازہ کس کے لیے کب کہاں کھل جائے اس کی ترتیب نہیں ۔ ہر وہ فرد جو اس دروازے سے دوسری دنیا میں پہنچ گیا یہ پیغام دے کر جاتا ہے کہ میرے بعد آپ کی باری ہے ۔دنیا ایک ایسی انتظار گاہ جہاں سب ویٹنگ لسٹ پہ بیٹھے جانے کب کس کا بلاوا آجائے۔
سیرت و احادیث مبارکہ سے علم ہوتا ہے کہ سب سے بڑی حقیقت موت ہے اور اس حقیقت کی یاد انسان کو غفلت میں مبتلا نہیں کرتی ۔ موت دراصل اپنے محبوب حقیقی سے ملاقات کا اذن ہے ۔ جو ملاقات کے لیے اس دروازے کے کھلنے کا منتظر رہتا ہے اور ملاقات کی تیاری کرتا ہے تو رب العزت بھی اس سے ملاقات کا اشتیاق رکھتا ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے موت کی تمنا اور خواہش سے منع فرمایا ہے۔ اگر کوئی مصائب و آلام سے بہت تنگ ہو تو وہ یہ کہے:
’’اے اللہ !مجھے زندہ رکھ جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہے اور مجھے موت دے جب میرے لیے موت بہترہو‘‘۔
اور نبیؐ اکرم کی بری موت سے بچنے کی یہ بھی دعا تھی کہ:
’’اے اللہ ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں، اس بات سے کہ

میرے اوپر کوئی ملبہ گرے یا مکان ، دیوار کے نیچے دب جاؤں ۔ اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں، اس بات سے کہ میں پانی میں ڈوب جاؤں یا آگ میں جل جاؤں، اور سخت بڑھاپے میں مبتلا ہو جاؤں۔اے اللہ ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں کہ مرتے وقت شیطان مجھے بہکائے،یا تیرے راستے میں جہاد سے پیٹھ موڑ کر مروں، اور تیری پناہ میں آتا ہوں کہ کسی زہریلے جانور کے ڈسنے سے مروں (آمین)۔ہم سب اللہ تعالیٰ کے حضور خاتمہ بالایمان کامل کی التجا کرتے ہیں ۔ ٭

           اسلامی نصاب پر اعتراض کرنے والوں کے لیے  !  انصار عباسی
ہودبھائی سن لو، ڈاکٹر نئیر بھی سن لیں، نیوٹن کو دوپٹہ پہنانے والی وزارت تعلیم کی ایڈوائزر بھی سن لیں اور وہ طبقہ جو نئے تعلیمی نصاب کے متعلق اسلام کو زیادہ پڑھانے پر اعتراض کر رہا ہے سب سن لیں، بلکہ میڈیا پر بیٹھ کر نصاب کو متنازعہ بنانے کے لیے جھوٹی باتیں گھڑنے والے اور یہ کہانیاں سنانے والے نام نہاد ایکسپرٹ جو کہتے ہیں کہ ایک سو والدین نے وزیر اعظم کو تعلیمی نصاب کے متعلق اپنے اعتراضات پر مبنی خط لکھ دیا ہے( مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ اکثر والدین بھی معترض ہیں) ۔
وہ بھی سن لیں کہ تازہ ترین گیلپ سروے کے مطابق پچانوے فیصد (95%) پاکستانی پنجاب حکومت کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں جس میں انہوں نے صوبے کے اسکولوں میں قرآن کریم کی تعلیم کو بطور مضمون پہلی تا بارہویں جماعت تک لازمی قرار دینے کے فیصلے کی حمایت کی۔
چار فی فیصد نے کوئی جواب نہیں دیا جبکہ صرف ایک فیصد کو اس فیصلے پر اعتراض تھا۔
سروے میں ملک بھر سے شماریاتی طور پر منتخب خواتین و حضرات سے یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ ـحال ہی میں پنجاب حکومت نے صوبے بھر کے اسکولوں میں قرآن کریم کی تعلیم کو بطور مضمون پہلی تا بارہویں جماعت تک لازمی قرار دیا ہے۔
بعض لوگ پنجاب حکومت کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ بعض لوگ حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہیں۔
آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ سروے کے مطابق شہری علاقوں اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والوں نے تقریباً یکساں طور پر پنجاب حکومت کے اس فیصلے کی حمایت کی۔
اس سروے کے لیے پاکستان کے چاروں صوبوں کی دیہی و شہری آبادی کے 1418 مرد و خواتین سے 13 اگست تا 5 ستمبر میں رابطہ کیا گیا۔
اگرچہ اس سروے میں صرف پنجاب کے فیصلہ کا ذکر کیا گیا جبکہ حقیقت میں خیبر پختون خواہ، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی یہ فیصلہ کر چکےہیں جس کے مطابق پہلی جماعت سے پانچویں تک ناظرہ قرآن کریم پڑھایا جائے جبکہ چھٹی کلاس سے بارہویں تک قرآن کریم کا ترجمہ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے تمام طلبا و طالبات کو پڑھایا جائے گا۔
سندھ نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا لیکن سندھ کے وزیر سعید غنی صاحب کے مطابق سندھ کے سکولوں میں ناظرہ قرآن پہلے سے پڑھایا جا رہا ہے۔ لیکن کیا صوبے کے تمام سکولوں بشمول پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بھی اس فیصلے کا نفاذ ہو رہا ہے کہ نہیں؟
اس بارے میں کوئی وضاحت موجود نہیں۔ جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا کہ باقی تمام صوبوں میں تو قرآن کریم کو ترجمہ کے ساتھ بھی پڑھانے کا فیصلہ ہو چکا امید ہے سندھ بھی اسلامی تعلیمات ، آئین پاکستان کی منشاء اور پاکستان کے اکثریت کی خواہش کو سامنے رکھتے ہوے تمام نجی و سرکاری اداروں میں قرآن کریم لازمی ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کا حکمنامہ جاری کرے گی۔
ایک چھوٹے سے طبقہ کی طرف سے اسلام پڑھانے پر اعتراض کی وجہ سے ہم کیوں اپنے بچوںکو قرآن کریم سے دور کریں۔ بلکہ جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ہدایت جاری کی کہ آٹھویں، نویں اور دسویں جماعت میں سیرت نبی ﷺ کو لازمی پڑھایا جائے۔
قرآن و حدیث کو جب ہماری نسلیں پڑھیں گی تو اُن کو اسلام کی اصل سمجھ ہو گی، وہ بہت اچھے انسان اور اچھے مسلمان ہوں گے اور جس بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں گے، دین کی حدود و قیود کا خیال رکھیں گے جس سے ہماری دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنور جائے گی۔

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x