ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

پھول اور پتھر – بتول فروری ۲۰۲۲

اپنا لیکچر تمام کر کے وہ رجسٹر اور میز پر بکھرے چند ضروری کاغذات ابھی سمیٹ رہی تھی کہ اپنی پشت اور کہنی کے درمیان زاویے کے عقب سے ایک ننھی اور ملائم سی آواز سنائی دی ۔ آواز اتنی چھوٹی اور نرم تھی کہ اس پر یہ گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ یہ بی اے فائنل کی کسی طالبہ کی آواز ہے ۔ چونک کر مڑی تو دیکھا کہ وہ اپنی اسائنمنٹ والی فائل ہاتھ میں پکڑے بلا تمہید مجھ سے کہہ رہی تھی ،’’ میں نے یہ مارچ تک کی سائنمنٹ مکمل کرلی ہے آپ اسے اچھی طرح پڑھ اور اپنے ریمارکس لکھ دیں ، پلیز !‘‘
حیرت سے میں نے اُس کی طرف دیکھا ۔ یہ آواز پہلے کبھی سنی ہوئی لگتی تھی نہ صورت آشنا تھی ۔ ایک لمحے میں اس کو دیکھتی رہی ۔ خیر ، صورت آشنا نہ ہونا کوئی ایسی تعجب خیز بات نہ تھی۔ اتنی بڑی اور طول طویل کلاس کے ہجوم میں کئی صورتیں اور چہرے نا آشنا رہ جانے کا احتمال ہمیشہ ہی رہتا ہے ۔ خصوصاًجب پڑھا نے والا یہ چاہے کہ اس کی آواز اور منہ سے نکلا ہؤا ہر ہر لفظ ہر شاگرد تک پوری طرح پہنچے اور اس کی ایک ہی ترکیب ہے اس انبوہ کو قطار اندر قطار ، ان کی کرسیاں آگے پیچھے جس طرح بھی بنے جما کر ، بٹھا دیا جائے اور کمرے میں لگی تین قطاروں کے درمیان چھوٹے ہوئے پتلے سے گلی نما خلا میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ٹہل کر لیکچر دیا جائے ۔ یوں لیکچر تو ہر لڑکی تک پہنچ جاتا ہے مگر ایک احتمال رہتا ہے کہ جو صاحبزادہ یا صاحبزادی استاد کی نظروں میں نہ آنا چاہے ، وہ بخوبی آپ کی نظروں سے تا دم رخصت اوجھل رہ سکتا ہے ۔ تاہم صورت آشنائی کی حد تک تو گاہے گاہے نظر پڑتی ہی رہتی ہے ۔
مگر یہ … یہ لڑکی تو گویا سلیمانی ٹوپی پہن کر میری کلاس میں بیٹھتی رہی ہو شاید … پھر بھی میں نے کسی خفیف سی شناسائی کی تلاش میں اس کے وجود کو ٹٹولا جو مختصر تو تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ اس کی پست قد یا منحنی کہا جا سکے ۔ سر سے پیر تک دوبارہ دیکھنے پر کچھ یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اس وجود کا زمین سے کوئی تعلق تو ہو ہی نہیں سکتا ۔ یوں لگتا تھا گویا وہ آسمان کی ٹھنڈی نیلگوں پہنائیوں سے سیدھی اترتی اترتی میری کہنی اور پسلی کے عقبی زاویے کے قریب آ کھڑی ہوئی ہو۔
میں یہ تو نہ کہوں گی کہ وہ اس درجہ الوہی حسن کی مالک تھی کہ اس کا تعلق میں اس زمین سے نہ جوڑ پا رہی تھی ۔ بالکل عام سے نقش و نگار … سنہری بال جیسے کسی نے سونے سے تار نکال اور کاٹ کر یہ لمبی سی ڈھیلی ڈھالی چوٹی اس کی پشت سے بہت نیچے تک ڈال دی ہو ۔ کھلی کھلی سبز آنکھوں میں جھیل کی سی خاموشی اور ٹھنڈک تھی۔ خاص بات یہ تھی کہ ان آنکھوں میں بلا کی افسردگی اور چہرے پر عجب سی متنانت چھائی تھی ۔ اس کی یونیفارم بھی بہت معمولی کپڑے سے بنی ہوئی مگر بے حد اجلی اور بے داغ تھی ۔ سوئٹربھی اتنا قیمت دار نہ تھا ۔ اس کا ہاتھ میری جانب بڑھا ہؤا تھا جس میں اس نے اسائنمنٹ والی سیاہ فائل تھام رکھی تھی۔
یہاں میں ایک بات کی وضاحت کرتی چلوں کہ میرا طریق تعلیم اسائنمنٹ ہی پر منحصر رہا ہے ۔ وہ یوں کہ میرا ایمان ہے ، اساتد کے لیے کسی سسٹم اور طریق تعلیم کے اوپر سے نفاذ کا انتظار کرنا ضروری نہیں کیوں کہ سسٹم ، طریق بلکہ نصاب تک خود ہمارے اندر موجود رہتا ہے ۔ چنانچہ رائج طریق تعلیم یعنی نصاب کا گھوٹالگوانے اور مقررہ مدت میں کورس ختم کروانے کی ظاہر ی پابندی کے ساتھ ہمارا ایک ذاتی اور نجی انداز بھی ہوتا ہے ۔ چنانچہ سمسٹر سسٹم کے نافذ ہونے نہ ہونے سے قطع نظر سال اول سے نا تاسال چہارم یہ طریقہ بھی استعمال میں رہنا ضروری ہے ۔
اس سلسلے میں مجھے ہمیشہ ہی انتظار رہتا ہے کہ وہ آئیں اور

اسائنمنٹ مجھے دکھائیں ۔ اور تاخیر یا عدم تاخیر کی صورت میں رنج ، ملال، مایوسی ، ناراضی ، حد یہ کہ ڈانٹ ڈپٹ کی نوبت بھی آجاتی ہے لیکن اس لڑکی کی فائل لینے کی بجائے میں نے گھوم کر اس کی طرف غور سے دیکھا اور سوال کیا ’’ مگر آپ ہیں کون ؟‘‘
اس کے جواب میں ہونے والے مکالمے ، میرے سوالوں اور اس کے جوابوں کی باز گشت آج تک میرے اندر بھی موجود ہے اور باہر بھی۔
’’ میں آپ کی شاگرد ہوں ۔ آپ کی کلاس میں ہوں ‘‘۔
’’ میری کلاس میں ؟ میری شاگرد ؟ ‘‘ مجھے واقعی تعجب تھا ۔’’ کیا آپ ریگو لر نہیں ؟ میں نے تو آپ کو کبھی دیکھا بھی نہیں ‘‘۔
’’ نہیں مس ، میں ریگو لر ہوں ۔ میں تو چار سال آپ ہی سے پڑھتی رہی ہوں اور آپ کی کلاس بھی ہمیشہ اٹینڈ کرتی ہوں ۔ آپ کی کلاس مس کرنے کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتی ‘‘۔
اب واقعی مجھے وحشت ہو رہی تھی ، خوف سا محسوس ہو رہا تھا ۔ یااللہ ، یہ لڑکی کہتی ہے کہ میں چار سال سے آپ کے پاس ہوں ۔ چار سال کے سینکڑوں دنوں میں میری نظر اس پر نہیں پڑی ۔ کیا اسرار ہے ! نہیں ایسا تو نہیں …کہ …
کتنی ہی بار لوگوں سے سنا ہے کہ مکتبوں میں ، مدرسوں میں کچھ نادیدہ شاگرد بھی شریک درس ہو جایا کرتے تھے ۔مگر وہ اور لوگ ہؤا کرتے تھے ، ان کا درس بھی اور قسم کا ہوتا تھا ۔ وہ زمانے بھی دوسرے تھے جب کوئی … کوئی اوپری سایہ ، کوئی روح ، بچوں اور استاد کے درمیان بیٹھی رہا کرتی اور پھر ایک دن ایسا بھی چڑھتا کہ استاد نے دوات مانگی تو ایک بچے نے ہاتھ لمبا کیا اور دس گز کے فاصلے اور اونچائی پہ رکھی دوات اٹھا کر استاد کے ہاتھ میں تھما دی ۔ متعدد بچے غش کھا گئے اور استاد معظم نے اس روح کو گھور کر دیکھا اور پھر کہا ،’’ ہوں … اچھا تو یہ بات ہے … آئندہ ظاہر ہوئے تو نکال باہر کروں گا درس سے ۔ نا معقول !‘‘
ننھا سا ، معصوم اور مسکین شاگرد ٹوپی سر پر گھونٹے دم بخود نادم و شرمسار کھڑے کا کھڑا رہتا ۔
اور اب یہ کیسی بلا ، آج کے اس زمانے میں خلائی دور میں ، میرے گلے پڑی جاتی ہے … تاہم اب وہ میرے سامنے کھڑی تھی ا ور برابر میری شاگردی کا دعویٰ کر رہی تھی ،تو پھر اس کا کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا ،خواہ گھور کر یہی کہنا کیوں نہ پڑے ،’’ ہوں … اچھا تو یہ بات ہے ۔ آج کے بعد پھر ظاہر ہوئیں تو کلاس سے نکال باہر کروں گی ۔ سمجھیں ؟‘‘
سو خوف اور شکوک سے کنارہ تو کیا کرتی ، البتہ ان پر غلبہ پانے کی کوشش کر کے سوال کیا ، ’’ کیوں؟ میری کلاس مس کرنے کا کیوں نہیں سوچ سکتیں ؟‘‘
’’ مس ! شاید آپ کو احساس نہیں ، آپ بہت اچھا پڑھاتی ہیں ، خاص طور پر اقبالؔ…‘‘
’’ اچھا … اچھا … یہ بات ہے … ہاں … اقبال … ہوں ، ہوں … ‘‘ میں سوچ میں پڑ گئی ۔ ایک نظر میں نے اس کے چہرے پر ڈالی جس کی صباحت میں خلوص کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی کی جھلمل تھی ۔ لیکن اس کے باوجود میرے دل میں شک اور وہم کا ایک نیا اکھوا سا پھوٹا جس کا تعلق ابال ہی سے بنتا تھا ۔
در اصل یہ ان دنوں کی بات ہے جب بی اے کے اردو نصاب میں اقبال کی دوسری نظموں علاوہ ’’ خضرراہ ‘‘ ، ’’ شمع و شاعر‘‘اور ’’ طلوع اسلام ‘‘ شامل تھیں ۔ ان نظموں کو میں اپنے خیال میں تو اسی طرح پڑھاتی جس طرح دوسرے موضوعات کو ، لیکن دو ایک سال سے یہ ہوتا تھا کہ جن دنوں کلاس میں یہ نظمیں خصوصاً’’ خضر راہ ‘‘ پڑھا رہی ہوتی تو کلاس کے دو ایک گوشوں سے ایک دو لڑکیاں کھڑے ہو کر بڑی بے باکی سے اور بعض اوقات جھلائے ہوئے انداز میں اصرار کرتیں کہ جی پہلے اس سوال کا جواب دیں ۔
بات یہ ہے کہ کچھ بھی پڑھا دیجیے اور لڑکیوں کو کتنا ہی اکسائیے ، مگر وہ بت بنی بیٹھی رہیں گی اور یوں ظاہر کریں گی کہ ان کی سمجھ میں سب کچھ آ گیا ہے اور اب مزید سوال و جواب کی ضرورت نہیں ۔بمشکل کھینچ کھانچ کر چند لڑکیوں کو کوئی سوال کرنے پر آمادہ کرنا ہوتا تھا ۔ اب یہاں مجھے تعجب تھا کہ یہ اقبال پر سوال نما اعتراض لے کر جو لڑکیاں کھڑی ہوتی

ہیں ، ان کی صلاحیت اور ذہنی حالت کیا بالکل ہی صفر ہے۔ لگتا تھا اقبال کے بارے میں کیے گئے وہ مضحک اور اوچھے سوالات پر چیوں پر لکھ کر ان کو پکڑا دیے گئے ہوتے تھے ۔ غصہ تو آتا لیکن میں بڑے تحمل سے ان کا سوال نوٹ کرتی اور اپنی حد تک ان کے سوال کا جواب دیتی ۔
ایک آدھ مرتبہ کے بعد مجھے خیال ہؤا کہ یہ سوال کہیں اور سے آئے ہیں ۔ چنانچہ ان کو اعتماد میں لے کر جب میں ان سے پوچھتی تو بسا اوقات وہ مجھے ان سوالات کے محرکین کے نام تک بتا دیا کرتیں اور بے حد شرمندہ بھی ہوتیں لیکن مجھے خوشی بھی تھی کہ اس طرح اس مفکر اسلام کے دل کی تڑپ ، اس کی روح کا کرب اور اذیت ان تک پہنچانے میں کچھ اور وقت مل جاتا ہے … اور یہ کہنے کا موقع بھی حاصل ہوجاتا ہے کہ دیکھا سوال کرنے کا کتنا فائدہ ہوتا ہے ۔ ایک سوال کے حوالے سے کتنی اور باتیں آپ تک پہنچ جاتی ہیں ۔ بس رنج تو اس بات کا ہوتا تھا کہ بے چارے اقبال کی ذات اور فکر و فن کے بارے میں اتنے رکیک اور اوچھے سوالوں کے ذریعے طلبہ کو اس غریب سے بد ظن کر کے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اب جو اس لڑکی نے اقبال کو محنت سے پڑھانے کا ذکر کیا تو اچانک ہی مجھے خیال آیا کہ یہ بھی اسی کوشش اور سعی کی ایک کڑی نہ ہو یعنی طلبہ و طالبات کو یہ احساس دلانا کہ اقبال کی ’’ فضولیات‘‘ کو اتنی محنت اور سنجیدگی سے پڑھنا رجعت پسندی اور شوق فضول سے زیادہ نہیں ۔ میں نے ایک بار پھر اس کے چہرے پر نظر ڈالی ۔ وہ چہرہ ، وہ آنکھیں اسی طرح خاموش اور متین تھیں ۔
مجھے اپنی طرف دیکھتے پا کر وہ اپنی باریک سی نرم آواز میں بولی، ’’اصل بات یہ ہے کہ میرا قد چھوٹا ہے اور میں سب سے پیچھے بیٹھتی ہوں ۔ اس لیے آپ کو نظر نہیں آئی ہوں گی ‘‘۔
نظروں ہی نظروں میں اس کے قد و قامت کو ناپتے ہوئے میں نے قدرے رکھائی سے کہا ، ’’ خیر ، اتنا بھی چھوٹا نہیں جتنا تم سمجھتی ہوں ‘‘۔
واقعی اس کا قددرمیانہ قد کے مقابلے میں ایک ذرا سا دبتا ہؤا تھا۔
’’ کیوں ، تم کو اتنی جلدی کیا ہے ؟ اور یہ مارچ کی اسائنمنٹ ہے ۔ مارچ تو ابھی دور ہے ۔ دیکھ لوں گی ‘‘۔
’’ نہیں مس ! آپ جلدی دیکھ لیں ۔ مارچ میں ، میں نہیں ہوں گی‘‘۔
’’ کہاں چلی جائو گی ؟ کیا کالج چھوڑ رہی ہو؟‘‘۔
’’ مس ! میں نے لمبی چھٹی لی ہے اور اگلے ہفتے ہمیں جانا ہے ملک سے باہر ‘‘۔
میں نے اس سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ باہر کس ملک کو جانا ہے ۔ بس اتنا کہا ،’’ اچھا ، پرسوں فائل واپس لے لینا ‘‘۔
’’ مس ! ریمارکس ضرور دیں اپنے ‘‘۔
نہ جانے کیوں مجھے یہ احساس ہؤا کہ یہ کسی خاص مقصد سے کہہ رہی ہے ۔ ابھی کل ہی تو ایک لڑکی نے بڑے فاتحانہ انداز میں ایک پرچے پر لکھا ہؤا اقبال کے بارے میں ایک سوال کچھ اس انداز سے کیا تھا ، گویا میں علامہ کے بارے میں ایسی بے سروپا باتوں پر مبنی سوالوں سے ذہنی کوفت میں مبتلا ہوں گی اور اپنے پاس تسلی بخش جواب نہ ہونے پر چڑ جائوں گی اور پھر میں نے موضوع سے ہٹ کر سارا پیریڈ اس کی تسلی کرنے میں گزراتھا ۔ وہ تو نادم ہو کر کلاس سے باہر نکل کرمعذرت کر گئی تھی لیکن اپنا دل کچھ دکھتا ہی رہا تھا کہ وہ جس کے جی کا سارا زیاں ہی اس کی قوم ، اس کی ملت کے دکھوں کے سبب تھا اور جس کی ہر آرزو مندی اور دعائے نیم شبی کی تان اسی پر ٹوتی ہے ؎
جوانوں کو آہِ سحر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے
اس کا امیج اس کی نئی نسل کی نظروں سے گرانے کی اتنی کوشش کیوں ؟ شاید اسی بد مزگی کے نتیجے میں ، میں نے اس کے ریمارکس کے تقاضے پر رکھائی سے دو ٹوک الفاظ میں کہا ،’’ ایک بات کا خیال رہے کہ میں اقبال کو جس انداز سے پڑھاتی ہوں ، وہ تو میں پڑھاتی رہوں گی اور مجھے کوئی طنز ، کوئی سوال ، میرا طریقہ بدلنے پر آمادہ نہیں کر سکتا ‘‘۔
میری اس بات پر اس نے مجھے چونک کر دیکھا اور اسی دھیمے انداز میں بولی ، ’’ ایسی کوئی بات نہیں مس !‘‘ اور اپنی فائل پکڑا کر مڑ گئی ۔

تیسرے دن جب وہ اپنی فائل لینے واپس آئی تو میں نے مسکرا کر اس کی فائل اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا ،’’ میں نے ریمارکس لکھ دیے ہیں ۔ آپ واقعی کلاس بہت باقاعدگی سے اٹینڈ کرتی رہی ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آپ بہت توجہ سے لیکچر سنتی اور نوٹس بناتی رہی ہیں ‘‘۔
’’مس ! میرے پاس پورے چار سال کے لیکچرز کے نوٹس محفوظ ہیں ‘‘۔ وہ بھی مسکرائی ۔
’’ لیکن میرا سوال اور یہ اسرار اپنی جگہ اب بھی موجود ہے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ میں پورے چار سال اپنی ایک بے حد لائق اور پر شوق شاگرد کی موجودگی سے لا علم رہی جبکہ آپ سب کو معلوم ہے کہ میں اپنی کسی بھی شاگرد سے لا تعلق اور بیگانہ نہیں رہتی ؟‘‘
اس نے سر جھکایااور اسی نرم اور ملول سی آواز میں بولی ،’’ مس ، دراصل میں صرف پڑھنے آتی ہوں اور اتنے پیچھے بیٹھ جاتی ہوں … اور پھر میرا قد بھی تو … اور اتنی نمایاں قسم کی لڑکی بھی نہیں ہوں ۔دوسری فائلوں کے ساتھ اپنی فائل بھی رکھ دیاکرتی ہوں !‘‘
مجھے احسا س ہؤاکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ نمانی سی شخصیت ہے اور اسے اپنے قد کے دبے ہونے کا بھی احساس ہے ۔ میں نے اس کو تسلی دینے کے خیال سے کہا ،’’ نہیں بھئی ، یہ تو تمہارا اپنا خیال ہے ۔ ایسی کوئی بات نہیں ۔ تم تو بہت ٹھیک ٹھاک قسم کی لڑکی ہو ‘‘۔
کچھ دیر خاموش رہ کر اس نے کہا ،’’آپ نے مجھ سے پوچھا نہیں کہ میں کہاں جا رہی ہوں ؟‘‘
’’ کوئی خاص ضرورت نہیں محسوس کی۔ آج کل تو لوگ ملک سے باہر جایا ہی کرتے ہیں ‘‘ ۔ میں نے سرسری طور پر جواب دیا ۔
’’ مگر مس! میں کشمیر جا رہی ہوں‘‘۔ یہ بات کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی ۔
’’ کشمیر ! تو کیا تم آزاد کشمیر کو کوئی علیحدہ ملک سمجھتی ہو ؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’ نہیں مس ! میں مقبوضہ کشمیر جا رہی ہوں ‘‘۔
’’ ارے نہیں ! ‘‘ اب مجھے پھر اس کی پر اسراریت مشکوک نظر آ رہی تھی ۔ ’ ’ بھلا وہاں کوئی پاکستانی جا سکتا ہے ؟ وہاں کا تو ویزا ہی نہیں ملتا‘‘۔
’’ لیکن مس ، جو کشمیری خاندان 1947ء میں یہاں آگئے تھے ، خاص طور پر پونچھ وغیرہ سے اور ان کے خاندان کے اکثر لوگ وہاں کشمیر میں رہ گئے ، ان کی شادی بیاہ یا مرگ کے موقع پر ایسے ویزے مل جاتے ہیں ۔ ہم کو ویزا اسی لیے مل گیا ہے کہ وہاں ہمارے خاندان میں اکٹھی چار پانچ شادیاں ہوں گی ‘‘۔
’’ اکٹھی چار پانچ شادیاں ! ‘‘ میں نے اس کی طرف چونک کر دیکھا ۔’’ پھر تو تم کو سال ہی لگ جائے گا شادیاں نمٹاتے ۔ یہ کہیں کوئی ٹرک تو نہیں !‘‘۔
اس پر اس نے معصومیت سے کہا ،’’ نہیں مس ! کوئی ٹرک نہیں ۔ بات یہ ہے کہ ایک بھائی وہاں ہے ، دوسرا ادھر ۔ ایک سگی بہن ادھر ہے تو دوسری اس طرف ۔ اس لیے وہ لوگ یہ کرتے ہیں کہ کئی شادیوں کی تاریخیں قریب قریب رکھ دیتے ہیں تاکہ یہاں سے جانے والے اپنے سب قریبی عزیزوں کی شادیوں میں شرکت کر سکیں اور ہم لوگ بھی اسی حساب سے شادیوں کی تاریخ رکھتے ہیں ‘‘۔
’’ اچھا ، پھر امتحان کا کیا بنے گا ؟‘‘
’’ مس ! اسی لیے تو میں یہ نوٹس وغیرہ ساتھ لے جا رہی ہوں تاکہ وہاں پڑھتی بھی رہوں ۔ امتحان تک آجائوں گی اگر وقت پر نہ پہنچ سکی تو پھر سپلی میں بیٹھ جائوں گی ‘‘۔
اس نے اپنی فائل اٹھائی اور جاتے جاتے مڑ کر واپس آئی ۔ ’’ارے ہاں مس ! میں تو بھول ہی گئی تھی ۔ آپ بتائیے کہ واپسی پر آپ کے لیے وہاں سے کیا لائوں ؟‘‘
’’ ارے بھئی ، اس تکلف کی کیا ضرورت ہے ؟ بس تم خیریت سے واپس آکر امتحان دینا اور بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو جانا ۔ شاگردکی طرف سے استاد کے لیے یہی بہترین تحفہ ہوتا ہے ‘‘۔
’’ پھر بھی … دیکھیے وہاں اتنی اچھی اچھی دستکاری …‘‘

اپنی طرف سے وہ مجھے مطلع کرنا چاہتی تھی کہ وہاں کیسی کیسی دستکاری اور ہنر مندی کے نمونے موجود ہیں لیکن میں نے بیچ ہی میں اسے ٹوک دیا ، ’’ ہاں ، مجھے معلوم ہے ۔ وہاں کے ہنر مندوںاور ان کے کسب کمال کا کون مقابلہ کر سکتا ہے ! خدا نے اس وادی کو جمال اور جلال ہی نہیں دیا بلکہ اس کے بسنے والوں کی انگلیوں میں ، خیالوں میں اور آنکھوں کو ایسا تجمل بھی بخشا ہے کہ جس چیز کو ان کے ہاتھ لگ جائیں ، وہ سراپا جمال بن جاتی ہے ۔ اب تم وہاں جائو گی تو ان کا پیپر ماشی کا کام ، اخروٹ کی لکڑی میں بنائے ہوئے جالی دار نقش و نگار ، ان کے بنائے ہوئے نمدوں اور غالیچوں کا کام ، ان کی لونیں اور شال … اور نہ جانے کیا کچھ … اب تم ہی بتائو وہاں سے کوئی کیا کیا چیز لانے کی فرمائش کر سکتا ہے ۔ اچھا ہاں ، تم میرے لیے ایک چیز لا سکتی ہو اور دیکھو بھول نہ جانا ، ٹال نہ جانا ‘‘۔
’’ نہیں مس ! ضرور لائوں گی ۔ آپ بتائیں تو …‘‘
’’ تم ایسا کرنا کہ وادی میں پہنچ کر سرینگر ، بارہ مولا ، اسلام آباد ، ڈل جھیل ، شالا مار باغ ، غرض ہر ہر جگہ کو بہت غور سے اور شوق سے دیکھ کر آنا ، اس طرح سے کہ واپس آکر کالج میگزین کے لیے ایک خوبصورت سا تاثراتی مضمون لکھ کر مجھے دے سکو ‘‘۔
’’ اچھا ! مس آپ کشمیر کے بارے میں اتنا کچھ جانتی ہیں !‘‘ وہ حیرت سے دیکھنے لگی ۔
پھر میں نے اس سے ڈل جھیل کی سطح پر ڈولتے الف لیلوی انداز کے شکاروں اور ان کو کھینچنے والے بوڑھے ملاحوں کو دیکھنے اور ان کے تاثرات اپنے اندر جذب کر کے لانے کی بھی فرمائش کی تھی ۔
ہم کچھ دیر تزکِ جہانگیر ی میں شامل کشمیر کے متعلق جہانگیر کے لکھے ہوئے تاثرات کے بارے میں بات کرتے رہے ، پھر وہ اٹھ کر جاتے جاتے کہنے لگی ،’’ آپ جس جگہ کے بارے میں اتنا کچھ جانتی ہویں ، وہاں کی کوئی سوغات بھی نہیں لینا چاہتیں ؟ اچھا میں بتائو ں… ‘‘
ان دنوں فروری کا مہینہ تھا ۔ آسمان پر بادل اور ہلکی سی گھٹا جھومتی تھی ۔ جسم کے اندر ٹھنڈی سلاخ بن کر گھس جانے والی ہوا چلتی تھی۔
ایک دم ہی اس کو یاد آگیا ۔ ’’ اچھا ، میں آپ کے لیے کانگڑی لے آئوں گی ‘‘۔
’’ ارے نہیں ، کانگڑی مت لانا ۔ پتا ہے میری اماں ہمیشہ اپنے پاس کانگڑی رکھتی تھیں اور سردی آنے سے بہت پہلے ہی کئی کانگڑیاں جمع کر لیتی تھیں ۔ ان کو کانگڑی بہت پسند تھی ۔ تب تو ہم مری ہی سے کانگڑی لے آتے تھے مگر ان کے بعد میں نے کبھی کانگڑی نہیں خریدی ۔ تم کانگڑی لائو گی تو وہ مجھے بہت یاد آئیں گی ۔ اچھا تم یوں کرنا کہ زعفران کے چند پھول لے آنا ۔ ویسے جی تو چاہتا ہے کہ ان کو کھلتے ہوئے دیکھوں ‘‘۔
’’ اچھا مس ! خدا حافظ بہت دنوں کے لیے ‘‘۔
’’ ہاں خدا حافظ۔خدا تم کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ‘‘۔
میں اس کو جاتے دیکھ کر افسردہ ہو گئی ۔ جہاں یہ جاتی ہے وہاں تو شبیر شاہ ، مقبول بٹ اور اشرف جیسے جی دار پس دیوارِ زنداں ہوتے ہیں اور ان پر تشدد ہوتا ہے اور زندان سے باہر گڑی سُولیاں ان پر چلنے والے مقدمات کے فیصل ہونے کی منتظر ہیں آپ ہی آپ مجھے رہ رہ کر فلسطین کے حیرت پسندوں پراسرائیلی کیمپ جیلوں میں ہونے والے تشدد کا خیال آتا تھا۔اس آن میں سنہری بالوں ، سبز آنکھوں اور صبیح رنگت والی اس لڑکی کو بڑے مہذب قدموں سے چلتے ہوئے دیکھتے دیکھتے دل ہی دل میں بار بار فی امان اللہ کہتی رہی تھی۔ اس کی اسائنمنٹ کے طریقے اور سلیقے نے مجھے بہت بلکہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی متاثرکر دیا تھا ۔
وہ چلی گئی تھی۔ میں اس سے اس کانام بھی پوچھنابھول گئی تھی ۔ اگر میں چاہتی تو رجسٹر میں سے اس کا رول نمبر دیکھ کر نام معلوم کر سکتی تھی ۔ اس لیے کہ اس کی فائل پر اس کا نام نہیں صرف رول نمبر لکھا ہؤا تھا۔ لیکن ایسا کرنے کا خیال ہی نہیں آیا ۔ فائدہ بھی کیا … ان کا ہمارا ساتھ توایک نفس چند سا ہوتا ہے ، جیسے ڈال پربیٹھی چڑیاں ۔ ایک وقت آتا ہے ان کے رول نمبروں اور فارموں سے ہمارے رجسٹروں کے صفحے کے صفحے بھر جاتے ہیں ، پھر یہی رجسٹر ان ناموں سمیت کالج کی ردی کے انبار میں گم ہو جاتے ہیں۔
پھر کتنے ہی مہینے گزر گئے ۔ بی اے فائنل کی وہ کلاس بھی کب کی جاچکی ۔ وہ اب میرے دھیان سے اتر چکی تھی ۔ مجھے تو اتنابھی یاد نہ رہا

کہ اپنی کسی شاگرد کو اس کے سفر پر جانے کا سن کر اللہ کی امان میںدیا تھا۔
ایک دن میگزین آفس میں بیٹھی فائلوں میں گم تھی کہ محسوس ہوا کوئی قریب قریب آ کھڑا ہؤا ہے ۔ پہلی نظر میں پہچان ہی نہ پائی اور سرسری سا سوال کیا ،’’ ہاں ،کیا بات ہے ؟ کوئی چیزمیگزین کے لیے دینا ہے کیا ؟‘‘
’’ مس ! آپ پھر مجھے بھول گئیں ؟‘‘ چھوٹی سی ،نرم سی آواز شبنم کے ٹھنڈے قطرے کی طرح سماعت سے ٹکرائی تو سب کچھ یاد آگیا۔
’’ہائیں … اچھا … اچھا… کب واپس آئیں ؟ اور وہ امتحان کا کیا بنا ؟‘‘
’’ وہ تو اب سپلی ہی دوں گی ‘‘۔
’’ اچھا سنائو … کیسا رہا تمہارا ٹرپ ۔ آئو بیٹھو … ‘‘ میں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
’’ مس! بڑا دلچسپ رہا … اور اسی وجہ سے ہم جلد واپس نہ آ سکے۔خاندان بھر کے لوگ اور عزیز جمع تھے ۔ ہمارے بزرگوں نے تو ایک دوسرے کو پورے چالیس برس بعد دیکھا اور ہم لوگوں نے اپنے کزنوں اور عزیزوں کوزندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا ۔ عجیب سا احساس اور عجیب سی خوشی تھی ‘‘۔
’’ ہاں واقعی ، تم لوگ تو پاکستان سے پہلی بار پہنچے ہو گے ‘‘۔
’’ صرف پاکستان سے نہیں بلکہ لندن سے ، کینیڈا سے ، سعودی عرب ، کویت اور جاپان سے آئے ہوئے سارے ہی نوجوان عزیز ایک دوسرے سے زندگی میں پہلی بار ملے اور ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم سب ایک ہی گھر میں ایک ساتھ پلے بڑھے ہوں ‘‘۔
اس کی بات کی گواہی اس کا چہرہ ، اس کی آنکھیں اور اس کی آوازدے رہی تھی جس میں لرزاں خوشی کا ارتعاش تھا۔
’’ اچھا تو بڑوں کا کیا حال رہا ؟‘‘ میں نے سوال کیا ۔
’’ مس ! میرے پاس تو الفاظ ہی نہیں ان کاحال بیان کرنے کے لیے ۔ کبھی ہنستے تھے، کبھی روتے اور پھر روتے روتے ہنسنے لگتے ۔ پھر کہتے ہم ایک دوسرے سے بچھڑے تو سب کے سر سیاہ تھے اور اب سب کے سروں پربرف باری کا نور ہے اور پوچھیے مس ، آنے میں دیرکس لیے ہوئی؟‘‘اس کی آوازکی مسرت اور جوش و خروش مجھے بھی مسرور کررہا تھا۔
’’ ہاں ،کیوں ہو گئی ؟ ملن پارٹیاں ہو رہی ہوں گی ‘‘۔ میں ہنسنے لگی۔
’’ ملن پارٹیاں … مس ہؤا یہ کہ جو شادیاں ہوئیں سو ہوئیں،آئے ہوئے عزیزوں نے بغیر تیاری اور ارادے کے کتنی ہی منگنیاں اور شادیاں کردیں ۔ بالکل افسانوی سا ماحول لگ رہا تھا ۔ یقین ہی نہ آ تا تھا کہ یہ سب خواب نہیں ، حقیقت ہے ‘‘۔
کچھ دیر بعد اٹھ کروہ جانے لگی ۔ کمرے سے نکل کر دوبارہ اندر آئی اوربولی ، ’’ مس ! میرے پاس آپ کی ایک امانت ہے ، ایک تحفہ ہے ۔ وہی دینے آئی تھی ‘‘۔
’’ چچ… تم نے کمال کیا ! میں نے تواس تکلف سے منع کیا تھا ‘‘۔
’’ نہیں مس! میں تو نہیں لائی ۔ یہ تو آپ کو کچھ نوجوان لڑکوں نے بھیجا ہے ۔ بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ ‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے بیگ میں ہاتھ ڈالا اور ایک چھوٹا سا پیکٹ نکالا ۔
’’ وہ لڑکے مجھے کیا جانیں !‘‘
’’ مس ! میں آپ کو بتاتی ہوں ‘‘۔ وہ خود ہی واپس آکر کرسی پر بیٹھ گئی۔
اس نے بتایا کہ گزشتہ سال اس کے دو کزن آئے تھے اور انہوں نے اس کے پاس میری وہ اسائنمنٹس اورنوٹس دیکھے تھے ۔ اور انہوں نے اس سے خاص طور پر فرمائش کی تھی کہ جب تم آناتو آئندہ جونوٹس اوراسائنمنٹس ہوں گی ، و بھی ساتھ لیتی آنا ۔ وہ ان کو پڑھ کر بہت خوش ہوئے تھے ۔ وہ کہتے تھے یہ بہت ولولہ انگیز ہیں ۔ ان میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن سے ہم کولا علم رکھا جاتا ہے اور ہم یہ سب جاننے کے لیے بے بات رہتے ہیں۔
پھراس نے مجھے وہاں کے کالجوں اور رویوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا اورکہنے لگی ،’’ اسی لیے میں نے آپ سے ریمارکس لکھنے پر اصرارکیا تھا کہ جب میں یہ ان کودکھائوں گی توان کو یہ بھی پتا چلے گا کہ

آپ مجھے کتنے اچھے ریمارکس دیتی ہیں ‘‘۔
’’ اور ہاں … جبکہ مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ کون لڑکی ہے جس کی فائل پر یہ ریمارکس دے رہی ہوں ‘‘۔ میں ہنسنے لگی ۔
’’ اچھا مس! آپ اپنا تحفہ تو کھول کر دیکھیے‘‘۔
چھوٹے سے پیکٹ میں وادی میں کھلنے والے چند خوش رنگ اور خود رو خشک پھول اور تین پتھر تھے ۔ میں تعجب سے ان پتھروں اور پھولوں کودیکھ رہی تھی اور میرے کانوں میں اس کی آواز آ رہی تھی ، ’’ مس! جب میں نے ان کو بتایا کہ آپ کو کشمیر کے بارے میں اتنی معلومات ہیں اور اتنی دلچسپی ہے اور اس کے باوجود آپ نے صرف زعفران کے چند پھول لانے کی فرمائش کی تھی … تو وہ بے حد متاثر ہوئے اور انہوںنے ہمارا میگزین بھی دیکھا تھا ۔ جی میں لے گئی تھی نا ساتھ اپنے … یہ دیکھیے یہ ان کے سرینگر کالج میگزین جو آپ کے دیکھنے کے لیے بھیجا ہے ‘‘۔
میں نے جلدی سے میگزین کھولا ۔ اس کے تین حصے تھے ۔ ایک انگریزی ،دوسرا ہندی رسم الخط میں کشمیری زبان کا حصہ اور تیسرا اور آخری حصہ چند صفحوں پرمشتمل اردو میں تھا اور یہی ان نوجوانوں کا ایک معرکہ تھا کہ نہ جانے کس کس رکاوٹ کوعبور کرکے انہوں نے اردو کے ان چند صفحات کا اضافہ منظورکروا لیا تھا۔
پھر اس نے کہا ، ’’ مس ! انہوں نے کہا تھا کہ تم اپنی مس کو ہمارا یہ پیغام دینا ، اب ہمارے کھیتوں میں زعفران کے پھول نہیں مسکراتے … وہ ہندو کاروباری مقاصد کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔ فی الحال ایک ٹوکن کے طور پرہم آپ کووادی کے یہ ننھے ننھے خودرو پھول اور چھوٹے چھوٹے پتھر بھیج رہے ہیں ۔ انشاء اللہ وہ دن بھی آئے گا جب آپ یہاں آ سکیں گی اور پھر ہم آپ کو زعفران کے مسکراتے ہوئے کھیت بھی دکھائیں گے ‘‘۔
’’ ارے ! یہ کیسے ممکن ہے … اور بھلا ہماری زندگی میں ایسا دن کیسے آئے گا !‘‘ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی ۔
وہ بولی ،’’ مس ، مجھے یقین ہے کہ ایسا دن آئے گا اور ضرور آئے گا‘‘۔
’’ وہ کیسے ؟‘‘
’’ اس لیے کہ میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے اگر آپ ان کو دیکھ سکیں تو آپ بھی یہی کہنے لگیں گی ۔ ایک لاوا ہے جو ان کے سینوں میں پک رہا ہے ، ابل رہا ہے ۔ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں … وہ کہتے تھے ، ان سے کہنا ہمارے لیے دعا کرتی رہیں ۔ ہم بھی تو ان کے بیٹے ہیں ‘‘۔
میرا دل بہت بوجھل ہو رہا تھا ۔ پیکٹ میرے ہاتھ میں لرز رہا تھا۔ چپکے سے اسے دوبارہ لپیٹ کر میں نے اپنے بیگ میں رکھ لیا ۔
جاتے جاتے مڑ کر واپس آنا اور پھر بات کرنا شاید اس کی عادت تھی ۔ وہ پھر لوٹ کر آئی ۔’’ ہاں مس ! یہ میگزین پڑھ کر آپ واپس مجھے دے دیں ۔ میں کسی دن آکر لے جائوں گی ، یہ ان کو واپس بھیجنا ہے‘‘۔
میں نے گھر جا کر پہلا کام یہی کیا تھا کہ پیکٹ کھول کر ان ننھے ننھے سے پھولوں اور تین چھوٹے چھوٹے پتھروں کوغور سے دیکھا ۔ اضطراری طور پر میں نے ان پھولوں اور پتھروں کو چوم لیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے یوں محسوس ہؤا تھا جیسے میں نے ان بچوں کے ماتھے چومے ہوں جنہوں نے اپنے لیے دعا کرتے رہنے کی فرمائش کی تھی۔
اور بس انسان تو وقت گزرنے پر ہر بات بھول ہی جایا کرتا ہے لیکن یہ بھی شاید ایک اتفاق تھا کہ جس دن میں نے مقبول بٹ کی پھانسی کی خبر پڑھی تو بے خیالی میں ان پتھروں کوان پھولوں کونکال کر دیکھتی رہی تھی۔
دراصل اُس لڑکی نے ، جس کا نام پوچھنا میں پھر بھول گئی تھی ، مجھ سے یہی کہا تھا ،’’ مس ! وہ سب ایک ہیں ۔ ناموں سے اور جدا جدا قالبوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ وہ سب تن واحد ہیں ۔ ان کا ذہن ایک ہے ، دل ایک ہے اور ایک ساتھ دھڑکتا ہے ‘‘۔
انسان اپنے آپ میں اتنا مشغول ہے کہ اپنے دھندوں میں کیاکچھ نہیں بھولا رہتا ۔ ارے ، ہم تو اپنے آپ کو اور اپنے خدا تک کوبھول جاتے ہیں اپنے چکروں میں … لیکن اتنا ضرور ہے کہ جب کسی نوجوان کے زندہ جلائے جانے ، اس کی کھال کھینچے جانے اور ہاتھ پیر توڑ کر معذور کردیے جانے کی خبر سنتی ہوں تو دل بے چین ہو جاتا ہے ۔ خدا یا! تیرے

آسمانوں کی خیر ہو ۔ ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر ہو … تو میرے ان پھولوں اور پتھروں کے بھیجنے والوں کی بھی خیر رکھنا … کوئی بات نہیں ۔ کچھ ہی دن کی بات ہے ۔ ہر رات نوبجے کی خبروں میں ایسی باتیں سنتے سنتے ہم اسی طرح عادی ہوتے چلے جائیں گے جس طرح فلسطین کے حیرت پسندوں پر ہونے والا ہر جبر اور تشدد ہمارے لیے معمول کی خبر بن چکا ہے اور اب بوسنیا کی خبریں … صومالیہ کی خبریں اوربابری مسجد کی شہادت اور ہزاروں بھارتی مسلمانوں کا لہو بہنے کی دل دوز خبریں … بات یہ ہے کہ یہ دنیا اور یہ عالم ہی ایک عجیب و غریب خبر بن چکا ہے۔
ہاں ، تو میں یہ کہہ رہی تھی کہ وہ لڑکی اب بھول کر ہی ، کسی ایسی ہی لرزہ خیز خبر کے تناظر میں یاد آتی ہے ۔ وہ یاد تو آجاتی ہے … ورنہ کون کس کو یاد کیا کرتا ہے !
پھر آج میں رنجیدہ بھی ہوںاورمیرا دل بھی بہت بوجھل ہے کہ خواتین کی کسی عالمی صورتِ حال پر ایک مختصر سی بہت مہذب اور دانشورانہ سی تقریب میں ایک صوفے پر افسردگی سے دبکی ہوئی جوخاتون اٹھ کر میرے قریب آئی تھی ، اس کا چہرہ بہت زرد اور ملول تھا ۔ آواز نرم اور ٹھہری ہوئی تھی ۔ اس کا لباس بہت معمولی سا مگر بہت سبک اور بھینا بھینا سا تھا ۔ اس نے دھیرے سے جھک کر اپنا نام بتایا اورکہنے لگی ،’’ میں سری نگر سے آئی ہوں ۔ میرا خیال تھا اس تقریب اور اس محفل میں اپنے مسائل کا ذکر کروں گی مگر ان کی موجودگی میں … ‘‘ اس نے اس تقریب کی مہمان خصوصی اورلیکچر دینے والی غیر ملکی خاتون کی طرف اشارہ کیا ۔’’ میں اپنے لب کھول کر اپنے موقف کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتی ۔ ہمیں ان پر اعتبار نہیں ‘‘۔
نرم سے سرد ہاتھ نے میرا ہاتھ دبایا اور ہوا کے مغموم اور ویران جھونکے کی طرح باہر نکل گئی ۔
کون تھی …کیا تھی… ایک نام تو بتایا تھامگر کیا فرق پڑتا ہے ۔ وہ لڑکی تو کہتی تھی ، ناموں سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ فرق تو جدا جدا جسموں سے بھی نہیں پڑتا ۔ وہ سب ایک ہیں ، ان کے قلب اور ذہن ایک ہیں، وہاں کوئی نہیں مرتا …اس لیے کہ شہید کا مقدر موت نہیں ہوتی ۔ چنانچہ جومر گئے ہیں، وہ بھی موجود ہیں ۔
پھر بھی میں اس دن سے یہی سوچے چلی جاتی ہوں کہ وہ سب جوملک ملک دیس دیس سے آکر ایک گھر میں جمع ہوئے تھے اور جنہوں نے ایک دوسرے کوچالیس چالیس سال کے بعد دیکھا ، اس طرح سے جیسے اصحاب کہف نے گہری اور لمبی نیند سے بیدار ہوکر ، آنکھیں مل مل کر ایک دوسرے کودیکھا تھا اورجنہوں نے اپنے ٹوٹے ناتوں اور رشتوں کو جوڑا اور تجدید عہد کے لیے اپنی نئی نسلوں کو زوج زوج کیا تھا ، اب کہاں ہوں گے ؟کیا اتنی آتش زنی کے بعد وہ گھر سلامت ہوں گے جہاں وہ کنبے اور خاندان آکر جڑے اور پھر بچھڑے ہوں گے ؟ اور کیا وہ جنہوں نے ان بدیسی مہمانوں کی میزبانی کی ہوگی ، ان کے جسموں کو آگ کی لمبی زبانوں نے نہ چاٹ لیا ہوگا ؟ کھنچی ہوئی ، تن سے جدا کی ہوئی کھالیں ، کٹے ہوئے اعضا اور زبردستی پھوڑی ہوئی جوان آنکھیں جب خوابوں میں آتی ہیں تو پھرگھبرا کراٹھ بیٹھتی ہوں ۔ اندھیری راتوں کولرزتے دل سے دعا کرتی ہوں :
’’ تیرے آسمانوں کے تاروں کی خیر ! میرے ان بچوں کی خیر کرنا جن کی روشن پیشانیوں کا تصورکر کے میں نے وادی کے خود رو پھولوں اور پتھروں کوچوما تھا ‘‘۔
٭٭٭

 

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x