ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

میرا مرکزِ محبت ، میرا ویلنٹائن – بتول فروری ۲۰۲۲

ترقی، روشن خیالی اور جدّت پسندی کے ہمنوائوں کو نوید!کہ ہم نے تو اپنا ویلنٹائن خود ہی چُن لیا۔سب سے انوکھا، سب سے نرالااور سب سے بہترین میرا ویلنٹائن… میرا شوہر! اگر کوئی پوچھے کیوں؟ تو جواب ہے ہماری مرضی! آج کے اس دور میں جب سبھی اپنی من مانی کر رہے ہیں ۔گمراہ کن نعروں سے متاثر ہو کر سڑک چھاپ ہیرو، حیا باختہ انسان ہماری نئی نسل ، ہماری بچیوں اور عورتوں کے ویلنٹائن بن رہے ہیں۔دھڑلّے سے میرا جسم، میری مرضی کے حیا سوز راگ الاپ کر ان کی برین واشنگ کی جارہی ہے، تو ہم نے سوچا کیوں نہ ہم بھی اپنے مرکز محبت اپنے ویلنٹائن کا کھلّم کھلااعلان بڑے فخر سے کر دیں۔ آخر آزادی اظہار ہمارا بھی تو حق ہے!
ہمارے ویلنٹائن یوں سمجھ لیں کہ ایک صابر و شاکر، قناعت پسند، کم گو، کم آمیز مگر خوش گفتار انسان ہیں۔سعودی عرب اور انگلستان میں عرصہ گزار دینے کے بعد جب لوگ ان کی بے سروسامانی کا مذاق اڑاتے تو ہم ہنس کر کہتے بھئی ہمارے صاحب تو ’’ماڈرن درویش‘‘ ہیں۔ایسا درویش جو روشن خیال بھی ہے اور کشادہ ذہن بھی۔قدامت پسندی اور دقیانوسی سوچ سے کوسوں دور۔
’’دیندار‘‘ہونے کے باوجود وہ ان مردوں میں سے نہیں جو بیوی کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں بلکہ جب لوگ باگ پوچھتے کہ ہیں ں ںں…! آپ کے گھر میں ٹی وی نہیں؟ تو ہنس کر فرماتے کہ جس گھر میں بیوی ہو وہاں ٹی وی کی کیا ضرورت ہے۔ہے ناں مزے کی بات!اُن کے اسی طرح کے افکار و خیالات نے ہر دور میں ہمارے لیے ہمارے گھر کو جنت بنائے رکھا۔سب کے لیے سراپا محبت، سب کے جذبات کا احترام، سب کے مزاج شناس، اللہ سے ایسی محبت اور ایسا توکّل کہ:
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
اور ہم بھی جو شادی سے پہلے اپنی ـجہالت کی بنا پر یہ سمجھتے تھے کہ یہ مَردوں کی سوسائٹی ہے ،مَردوں کا سماج ہے۔یہاں سارے قاعدے قانون انہی کے بنائے ہوئے ہیں، اس لیے شادی کا کیا فائدہ!لیکن جب نکاح کے بعداور رخصتی سے پہلے پردہ اور حقوق الزوجین، بیش قیمت تحفے کے ساتھ ملیں توہم ان کی دور بینی اور دور اندیشی کے نہ صرف قائل ہو گئے بلکہ ہماری چھوٹی بہن نے تو کالج میں پردے کے فوائد و نقصانات پر فی البدیہہ تقریر کر کے معرکہ سَرکر لیا۔یہ ہوتی ہے حکمت سے تبلیغ!
پھر ایک خوبی ہمارے ویلنٹائن کی یہ بھی ہے کہ شوہر کی حیثیت سے کبھی ہم پر اپنی مرضی مسلّط نہیں کی کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ جو کام شوہر کے ڈر کے بجائے اللہ کے ڈر سے کیا جائے گا، وہی مؤثر اور دیر پا ہو گا۔چاہے وہ کوئی انسان ہو یا پورا معاشرہ۔سچی بات یہ ہے کہ ہم بھی اپنی تمام تر روشن خیالی اور ترقی پسندی کے باوصف ’’ لو میرج‘‘کے نہیں بلکہ’’ لو آفٹر میرج‘‘ یعنی محبت بعد از شادی کے قائل تھے۔ایک مخلوط تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود، لڑکے لڑکیوں کا آزادانہ میل جول کبھی ہمارے من کو نہ بھایا۔ نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے باوجود، لڑکوں سے ملنے جلنے میں ایک حد ایک فاصلے کا ہمیشہ خیال رکھا کیونکہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ رشتہ چاہے میاں بیوی کا ہو یا استاد شاگرد کا، یا ہم جماعتوں اور ہم کاروں کا، ہر رشتے کی ایک (Limit)حد ہوتی ہے جونہی آپ نے اس حد کو پار کیا، بدتمیزی کی حد شروع ہو گئی۔ہمارے مرکز محبت اس معاملے میں ہم سے بازی لے گئے۔جدّہ میں بھی اور یہاں اسلام آباد میں بھی اگر محلّے سے کوئی خاتون ہم سے ملنے آئیں اور ہم پوچھیں کہ کون آیاتھا؟ تو جواب یہی ملے گاکوئی خاتون آئی

تھیں،اور وہ شناسا خاتون اگلی ملاقات میں فرمائیںکہ میں اس سے پہلے بھی آئی تھی بھائی جان نے بتایا تو ہو گاتو ہم خاموش۔کیونکہ موصوف نامحرم خواتین پر دوسری بار نظر ڈالنے کے قائل نہیں ۔یہاں ہمارا مقصود میاں کی پارسائی کہ پبلسٹی نہیں بلکہ اس قبیلے کے تمام افراد اسی طرح کے ’’شعوری مسلمان‘‘ ہیں۔ باحیا اور باکردار، بے لوث اور بے غرض ہر طرح کے کرپشن سے پاک۔چاہے وہ اخلاق و کردار کا ہو مال کا ہویا نگاہوں کا۔’’نظربازی‘‘ سے حتی الامکان بچنے کی کوشش جبکہ فی زمانہ چہرے پر نظریں گاڑ کر بات کرنا خود اعتمادی اور کانفیڈینس کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
شعوری مسلمان ہونے کے ناطے ان کی روشن خیالی کے مظاہرے بھی دیکھے ۔ ہماری شادی ارینجڈ میرج تھی۔دونوں کے ابّائوں نے رشتہ طے کرتے وقت بس یہ دیکھا کہ زوجین تعلیم یافتہ اور نمازی ہوں لیکن جمعیت کا ذکران کے ابّا نے اس لیے نہیں کیا کہ مبادا لڑکی والے رشتہ دینے سے انکار کر دیں۔یہ بات تو ہمیں بہت بعد میں ان کے ایک دوست نے بتائی جو حج پر امریکہ سے اپنی اہلیہ کے ساتھ آئے تھے کہ کراچی میں بنگلہ دیش نامنظور کے نعرے والوں کے لیڈر تو عظمت صاحب ہؤا کرتے تھے اور ہم انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر یہ کام کیا کرتے تھے۔
ایک دھماکہ خیز صورتحال وہ بھی تھی جب حُجلہِ عروسی میں شوہر نامدار نے جامعہ کراچی کا مجلّہ’’الجامعہ‘‘ پیش کیا اور بخدا ہماری تو جان ہی نکل گئی جب آنجناب نے فرمایا کہ میرے دوست اکرم کلہوڑی آپ کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں،آپ ان کی پبلیکیشن کمیٹی کی وائس چیئرمین رہی ہیںاور آپ کے بارے میں یہ بھی کہا کہ وہ تو ہماری بڑی پُر جوش اور سرگرم ساتھی تھیں،مقررہ،کوئنر کمپیٹیٹر، بہترین ادبی خدمات کا ایوارڈ حاصل کرنے والی، ہماری یونین کونسلر وغیرہ وغیرہ… جبکہ ہم سانس روک کر کوئی انہونی سننے کے منتظر تھے۔لیکن یہ کیا!وہ تو خوش ہو رہے تھے ۔ان کی روشن خیالی دیکھ کر واللہ ہماری تو جان میں جان آ گئی اور ہم نے دل و جان سے اپنے مالک، اللہ ربی کا شکر ادا کیاکہ ہم نے چلتی ہوا کے رُخ کے برخلاف یونیورسٹی میں جمعیت کا جو ساتھ دیا تھا اللہ نے اس کا انعام ہمیں کس طرح اس دنیا میں ہی دے دیا۔ آج فروری میں پینتیس (35) سال گزرنے کے بعد ہمیں جمعیت کا ساتھ ملنے پر کوئی پچھتاوا نہیں۔واقعی جوڑے تو آسمانوں پر طے ہوتے ہیں اور دن بھی۔
چنانچہ ہمارا رخصتی کا دن بھی14فروری طے پایا ۔5جولائی 1984 میں ہمارا نکاح ہؤا اور ٹھیک ایک ماہ بعدہمارے والد صاحب انتقال کر گئے یوں رخصتی اماں کی عدت کے بعد اگلے سال بعد 1985میں ہونا قرار پائی اور یہ محض اتفاق تھا کہ14 فروری کو ویلنٹائن ڈے بھی منایا جا تا ہے تو اس طرح عظمت صاحب خود بخود ہمارے پکّے پکّے ویلنٹائن بن گئے۔ہے ناں مزے کی بات! صلاحیت اور صالحیت کا حسین امتزاج صالح مرکزِ محبت، شائستہ ، مہذب، باحیا، باکردار…ہم مزاج اور ہم خیال!
چونکہ ہم دونوں کا تعلق کراچی یونیورسٹی سے تھا اس لیے او پی ایف گرلز کالج اسلام آباد کی شوخ و چنچل ساتھی جو اپنے بولڈ جوکس سنانے کے لیے مشہور تھیںاکثر اس طرح چھیڑ ا کرتیں ،یہ جو تم ہر وقت گفتگو میں اپنے میاںکی عظمت کے گُن گاتی رہتی ہو تو ضرور تم نے بھی لَو میرج کی ہو گی ،اب چھپائو مت! انہیں کون سمجھاتا کہ جب ہم یونیورسٹی میں آئے اس سے بہت پہلے ہی وہ ملک سے باہر جا چکے تھے بلکہ ہمارے ساتھ معاملہ کچھ یوں ہے:
مجھے کسی بھی تعین پر اختیار نہیں
یہ کوئی او ر مرے راستے بدلتاہے
اسی طرح مسز فرحت زیدی(مشہور ذاکرہ اور شاعر مصطفی زیدی کی بھابی) چائے کے وقفہ کے دوران بڑے پیار سے ہنس کر کہتیں، بھئی ان کی تو ہر بات عظمت صاحب سے شروع ہو کر ان پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔بات اُن کی بھی درست تھی۔اسلام آباد میںکوئی عزیز اور رشتہ دار تو تھا ہی نہیں اور نہ ہی ہمارا کہیں آنا جا نا تھا۔گھر، بچے، شوہر اور معلّمی جیسے پیغمبرانہ پیشے کی ذمہ داریاں، ادھر ادُھر کے چٹ پٹے قصّے کہاں سے لاتے۔جدّہ میں یونیورسٹی کی مستقل جاب کو ٹھکرا دینے کے بعد ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب کچھ نہیں کرنا بس بحیثیت ماںاور بیوی اپنے فرائض

انجام دینے ہیں، مگر احباب کے اصرار پر(احباب بھی کون !آس پاس کی پڑوسنیں جن کی بچیوں کوہم نے ایف ایس سی کی اردو پڑھائی) ہم نے او پی ایف گرلز کالج، ایف ایٹ جوائن کر لیا۔کیونکہ میاں کی تنخواہ میں بچوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھانا ممکن نہ تھا، بچے تو ہم دونوں کے تھے ناں ! نیک نیتی اور اخلاص سے اٹھائے ہوئے ہر قدم میں اللہ نے برکت ڈالی اور عزت بھی دی۔ایف ٹین والے گھر سے صبح سوا چھ بجے، منہ اندھیرے، بچوں کا ہاتھ پکڑ کر کالج بس کے لیے دوڑنا(ایف ٹین کی گلی نمبر16سے گلی نمبر 14تک) اور پھر رات بارہ بجے تک گھر کے کام۔اس بھاگ دوڑ میں کئی بارہم منہ کے بل گرے بھی چاروں شانے چت۔کیونکہ ایک ہاتھ میں اپنا بستہ اور بیگ ہوتااور دوسرے ہاتھ میں کبھی ایک بچے کا ہاتھ کہ دوڑو بیٹا اور کبھی دوسرے بچے کو اُکسانا کہ بیٹا ہری اپ! بس نکل گئی تو کیسے جائیں گے؟ کون چھوڑ کر آئے گا؟لیٹ ہو گئے تو اسکول کا گیٹ بھی بند ہو جائے گا ، اسی دوڑ دھوپ میں گزر گئے میری زندگی کے پینتیس سال!یہ اوپی ایف گرلز کالج، ایف ایٹ ٹو کا وہ سنہری دور تھاجب اس کی پرنسپل مسز رابعہ نور اور وائس پرنسپل مسز صدیقی کا طوطی ہر جگہ بولتا تھا۔ اس کا شمار اسلام آباد کے بہترین تعلیمی اداروں میں ہوتا تھا۔خیر یہ تو بات سے بات نکل آئی۔
ذہن کے پردہ سیمیں پر واقعات ایک کے بعد ایک نمودار ہو رہے ہیں۔نکاح اور رخصتی کے درمیانی وقفے میں ایک بار ہمارے ویلنٹائن نے جدّہ سے اپنے حسب حال عیدکارڈ بھیجا تو ہماری بہت پیاری کو لیگ اور بڑی بہنوں کی طرح محبت کرنے والی ڈاکٹر صدیقہ ارمان مرحومہ نے ہنستے ہوئے تبصرہ فرمایا:
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا …بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا!اور یہ بھی کہ عظمت اللہ کے ’’سریلے بول‘‘! (واضح رہے سریلے بول اردو کے ایک شاعر عظمت اللہ خاں کے شعری مجموعے کا نام بھی ہے)۔
’’سریلے بول‘‘ پر یاد آیا بے سُرے لوگ انہیں قطعاََ پسند نہیں۔جمعیت میں آنے سے پہلے موسیقی بھی سیکھی تھی۔خوش گلو بھی ہیں اور باذوق بھی۔میرے اردوکلاسیکل ادب پر نظر رکھنے کے باعث ازراہ مذاق خود کو ’’اردو ادب کا شوہر‘‘کہہ دیاکرتے تھے، جب جدّہ میں ان کے احباب درس کی تیاری کرتے ہوئے فون کر کے پوچھتے کہ بھابھی سے اس کا اردو مترادف یا متبادل پوچھ کر بتا دیں۔حالانکہ وہ سب بے حدپڑھے لکھے حضرات تھے ۔شاید خوب سے خوب تر کی جستجو انہیں ایسا کرنے پر اکساتی ہو جو اس صحبت کے تمام حضرات کا وطیرہ تھا اور آج بھی ہے وگرنہ من آنم کہ من دانم۔
شادی کے بعد کی پینتیس سالہ زندگی کے سفر سے بے شمار دلچسپ اور خوش گوار یادیں وابستہ ہیں ۔لکھنے بیٹھوں تو ایک دفتر تیار ہو جائے ۔ ایک بار ہم جدہ سے دیار حبیبؐ کی جانب جا رہے تھے۔بس کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔موسم بے حد سہانا تھا رِم جِھم پھوار پڑ رہی تھی۔ہم نے عظمت صاحب سے فرمائش کی ایک نعت ہو جائے ۔آپ کی سُریلی آواز میں اور ہدیہِ نعت بحضور سرور کائنات ؐفی البدیہہ پیش ہو گیا جس نے ہمارے سفرِ شوق کی لذّت کو دوبالا کر دیا۔ نعت کا آغاز اس طرح سے ہؤا۔
برکھا کی رُت ہے، مدینہ ہے منزل
ارے لینا اس کو، چلا دِل، چَلا دِل
اسی طرح جب ایک بار ہم مدینہ منورہ میں مسجد نبوی سے نکل کر ہوٹل کی طرف جا رہے تھے تو ہمارے صاحب نے ایک ہوٹل کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ ہمارے استاد اور مرّبی پروفیسر خورشید احمد صاحب بھی یہاں آئے ہوئے ہیں اور اس ہوٹل میں قیام ہے۔آپ کو ہوٹل چھوڑ کر میں ان سے ملنے سے جائوں گا۔اسے حسن اتفاق ہی کہیے کہ اسی صبح فجر کے بعد ریاض الجنتہ میں ہماری ان کی بیگم سے ملاقات بھی ہو گئی تھی۔خواتین کی دھکم پیل میں ایک ستون سے جا ٹکرائے اور اس کا فائدہ یہ ہؤا کہ اس کے سہارے کھڑے ہونے ، سلام پیش کرنے اور نفل ادا کرنے کا موقع مل گیا۔دعا کے بعد جب آنکھیں کھول کر دیکھا تو اپنے ساتھ ایک پاکستانی خاتون کو کھڑے پایا۔علیک سلیک کے بعد انہوں نے بتایا کہ میں پروفیسر خورشید احمد صاحب کی بیگم ہوںشاید آپ نے نام سُنا ہو، تو ہم نے کہا جی جی، ان کی کتاب’’اسلامی نظریہ حیات‘‘ ہم نے بی اے میں پڑھی تھی اور’’ معاشیات اسلامـ‘‘ بھی پڑھ چکے ہیں۔ہمیں ان

کاوہ کتابچہ بھی بہت پسند ہے جس کا عنوان ہے’’پاکستان عالمی سازشوں کے تناظر میں‘‘ ۔بہت خوش ہوئیں۔پھر ہنس کر بولیں، لکھتے تو اچھا ہیں لیکن بولتے بہت تیز تیز ہیں،بات سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ہمارے میاں کا نام پوچھا تو بولیں اچھا آپ عظمت اللہ قریشی صاحب کی بیگم ہیں،ہمارے گھر ان کا بہت آنا جانا تھاجب وہ لندن میں تھے مگر اس وقت تک وہ بیچلر(کنوارے) تھے۔
تو یوں خورشید صاحب کی بیگم سے ملاقات ہوئی۔بڑی پیاری خاتون تھیں ۔بہت عرصے بعد جب اسلام آباد میں ایوان رِڈلی کے پروگرام میں جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں تھا،ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پہچان لیا،بڑی محبت سے ملیں اور کہنے لگیں، آپ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں آجائیے ،یہ خورشید صاحب کا ادارہ ہے اور وہاں آپ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ لیکن ایک ماں اور بیوی کی حیثیت سے جو ہماری ذمہ داری تھی اس ذمہ داری نے سر کھجانے کی فرصت نہ دی چہ جائیکہ ہم آئی پی ایس جوائن کرتے۔کیونکہ میاں صاحب ایک طرف شفا انٹرنیشنل ہسپتال میں ملازمت کر رہے تھے اور وہاں سے فارغ ہوتے ہی سیدھے دفتر جماعت پہنچ جاتے۔جماعت کی ذمہ داریاں، الخدمت کو اسلام آباد میں کھڑا کر نے کا کام، تربیت مدرسین کا پروگرام ، میاں اسلم صاحب کے ساتھ جماعت کی نظامت کا کام، ریڈیو پر دینی پروگرام، شفا میں اسلامک سنٹر کا قیام، ان کا جمعہ کا خطبہ جو مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلا ف سے پاک ہوتا، دور و نزدیک سے لوگ اس خطبے کو سننے جمعے کو آجاتے۔صحافیوں نے اس پر کالم بھی لکھے کہ کاش ایسا خطبہ دینے والے اگر ہر مسجد میں آجائیں تو پاکستان میں بھی اسلامی انقلاب آجائے اور پاکستانی قوم بھی ایک ہو جائے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اللہ کی بندی میاں کے قصیدے پڑھے جارہی ہے لیکن خداگواہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی بات ایسی نہیں جہاں میں نے مبالغہ سے کام لیا ہو بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ بعض اوقات گھر آنا ہی بھول جاتے۔پھر ویک اینڈ پر’’ کرائون پلازہ‘‘ میں مسعود ابدالی صاحب، سیّد بلال صاحب اور ان کی ملاقاتیں۔آدھی رات گزر جاتی۔گھبرا کر کبھی دفتر جماعت میں فون کھڑکھڑاتے تو کبھی میاں اسلم صاحب کو کھری کھری سنا دیتے لیکن یہ سب لوگ اتنے شائستہ، اتنے مہذب اور اتنے سلجھے ہوئے تھے کہ جواباََ کچھ نہ کہتے۔بس رات کو ہر آہٹ پردل دہلتا رہتا کیونکہ فطری طور پر ہم کچھ ڈرپوک واقع ہوئے تھے۔اب ان سب باتوں کے بارے میں آج سوچتی ہوں تو ہنسی آتی ہے۔
جب شفا انٹرنیشنل میں پرویز مشرف کے ہاں پوتا پیداہواتو سب لوگ ان کے ساتھ تصویریں کھنچوا رہے تھے۔عظمت صاحب اس زمانے میں میڈیا کے علاوہ پی آر کے بھی انچارج تھے مگر وہ اپنے اصولوں پر کاربند رہے۔دنیاداری، موقع شناسی اور چاپلوسی سے وہ کوسوں دور رہے۔ کبھی چھوٹے بچے ان سے کہتے کہ ابّوآپ اپنے خطبے اور دروس کی ریکارڈنگ کیوں نہیں کراتے توخاموش کہ بس اللہ قبول کرے ورنہ تو یہ’’ ریا‘‘میں شامل ہو جائے گا۔کم آمیز اور کم گو عظمت صاحب ہمارے لیے تو منارئہ نور ہیں۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شایدنہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
جب سیّد منور حسن صاحب کا انتقال ہواتو ہم نے ان سے کہاآپ بھی اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیجیے۔بلکہ مجھے بتائیے آپ بولیے میں قلم بند کر دوں گی۔مگر وہ بولے میں اس قابل نہیں۔حالانکہ منور حسن صاحب سے ان کے بہت قریبی تعلقات تھے۔جب بھی سعودی عرب تشریف لاتے ہمارے ہاںضرور قدم رنجہ فرماتے۔جماعت کی وہ شخصیات جن سے ہم بہت متاثر ہوئے ان میں منورحسن صاحب اور عائشہ منور صاحبہ کا نام سرفہرست ہے۔خرم مراد صاحب، حافظ ادریس صاحب کی تحریروں نے منور صاحب کی تقریروں نے ہم میں وہ ہمت اور حوصلہ پیدا کیا کہ ہم بھی ڈنکے کی چوٹ پر دین کا کام کرنے کے لیے ڈٹ گئے اور پھر پیچھے مڑ کر نہیںدیکھا۔قاضی حسین احمد صاحب اور سراج الحق صاحب سے بھی ہماری اچانک بالمشافہ ملاقاتیں ہوئیں۔جماعت کے سبھی لوگ ایک سے بڑھ کر ایک ملے۔ اس

طرح ہمارے’’مرکز محبت‘‘نے ہمیں اپنے اللہ اور اللہ والوں دونوں سے قریب کر دیا۔اللہ والوں کی اجتماعیت کی برکت سے دین کی راہوں پر چلنا ہمارے لیے آسان ہو گیا۔اپنے گھر میں ، اپنے خاندان میں ، اپنے احباب میں اپنے اڑوس پڑوس میں، اپنے تعلیمی ادارے (اوپی ایف میں) تعلقات کے ہر دائرے میں چراغ سے چراغ جلتے گئے۔کراچی تا جدہ اور لندن تا اسلام آباد لوگ اللہ کے دین کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے ان لوگوں کے حسن عمل سے ، حسن کردار سے ۔ اللہ ایسا ویلنٹائن سب کو نصیب کرے جو ہدایت کی راہوں پر چلنے کا وسیلہ بن جائے۔
دنیا سے بے رغبتی، سادگی، قناعت اور درویشی ہم نے اپنے اسی ویلنٹائن سے سیکھی۔دوران ملازمت جب کہیں کوئی ہمارا حق مارتا جس پر ہمارا دل بھر آتاآخر صنف نازک ہیں ناں ! تو فرماتے دنیا سے بے نیاز ہو جائو، دنیا خود تمھارے پیچھے چلنے لگے گی۔دل کی بھڑاس نکالنے اور کتھارسس کے لیے پھر ہم ڈائری لکھنے لگے۔ضبط نفس بھی انہی سے سیکھا اور آج تک سیکھ ہی رہے ہیں۔ فرماتے ہیں بچوں کو ہفتے میں دو دن غریبوں والا کھانا بھی کھلایا کرو۔مہمان کی تکریم کے لیے سرگرم مگر اس میں بھی سادگی۔’’دعوت شیراز‘‘ہر وقت ہو سکتی ہے نہ مہمان مشکل میں نہ میزبان مشکل میں لیکن اس کی تواضع کرنا مہمان کا حق ہے، وہ آپ سے مطالبہ بھی کر سکتا ہے۔
دنیا کرائے کا گھر اور مسافر خانہ ہے،وہ اسی کے قائل ہیں اور ستّر کے پیٹے آنے کے باوجود اسی پر کاربند رہے۔بار بار گھر بدلنے میں سامان کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ جب قویٰ مضمحل ہو گئے ،دو بار دل میں اسٹنٹ ڈلے، نقل مکانی مشکل ہو گئی تو اللہ رب العزت نے خود ہی گھر بھی عطا کر دیا۔الحمدللہ دو بچے ہیں اور دونوں کو اللہ نے ڈاکٹر بھی بنا دیا۔بہو بھی ڈاکٹر ہیں اور سب کے سب اسپیشلائز بھی کر رہے ہیںاور آج کل ہم دونوں مل کر صبح سے لے کر رات گئے تک بچوں کو سنبھالتے ہیں کہ قوم کو اچھے اور قابل مسلمان ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔قوم کا زرِکثیر ایک ڈاکٹر کی تعلیم پر خرچ ہوتا ہے۔وہ عظمت صاحب جو مغرب کے بعد کھانا کھا لیا کرتے تھے اور عشاء پڑھ کر سو جا یا کرتے تھے اب ہم دونوں رات بارہ بجے تک بچوں کو دیکھتے ہیں۔یوں سمجھ لیجیے کہ:
’’بچوں کی محبت‘‘ میں ہم آشفتہ سَروں نے
وہ قرض اتارے ہیںکہ واجب بھی نہیں تھے
یہ بھی اللہ کی اطاعت اور اسے راضی کرنے کاایک طریقہ ہے شاید اللہ قبول کرلے۔ہمارے اس’’ایک ویلنٹائن‘‘ کی وجہ سے کتنے پیارے پیارے محبت کرنے والے ہمیں مل گئے۔گھر کے اندر، گھر کے باہر، پاکستان میں بھی اور دنیا بھر میں بھی… ہر دائرہ محبت کا دائرہ …غرض:
جو بھی کچھ ہے، محبت کا پھیلائو ہے
ایسے پیارے مرکز محبت کا مل جانا اللہ کا انعام ہے۔راہ حق کے تمام مسافروں کی طرح ہم نے ان میں بھی اُنہی خوبیوںکو پایا جو اقبال بہت پہلے ہمیں بتا گئے تھے یعنی :
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا د لفریب، اس کی نگہ دل نواز

نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
آج فروری میںجب کہ استحکام خاندان کی مہم چل رہی ہے تو میں نے سوچا کہ مر دجسے اللہ نے ’’قوام‘‘ بنایا ہے، شوہر کی حیثیت سے فی زمانہ اس کی اہمیت کا احسا س دلایا جائے کیونکہ وہی تو خاندا ن کا اہم اور بنیادی ستون ہے۔شاید کہ اتر جائے کسی دل میں میری بات!
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
5 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
میمونہ حمزہ
میمونہ حمزہ
2 years ago

بہت عمدہ تحریر۔۔۔ ایک عاشق بیوی کے قلم سے۔ محبتوں کی گرمی نے ہر لفظ کو قیمتی بنا دیا ہے۔ بڑے اخلاص سے لکھا ہے اپنے مرکز محبت کو۔

1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x