ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

غزل – بتول اگست ۲۰۲۲

وہ ملا تو ایسا تھا اجنبی کہ کبھی تھا جیسے ملا نہیں
کوئی بات اس نے کہی نہیں کوئی قول اس نے دیا نہیں
نہ سوال تھا ، نہ جواب تھا ، نہ نگاہ میں کوئی بات ہی
تھی جو دل کی دل ہی میں رہ گئی جو کہا تو اس نے سُنا نہیں
یہ وہی نویدِ بہار ہے جو تری نظر کا حجاب تھی
جو ہے رائیگاں تری جستجو یہ مری نظر کی خطا نہیں
یہ ہے اور بات بچھڑ کے تم کسی اور سمت چلے گئے
کبھی ساتھ ساتھ چلے تھے ہم یہ خیال دل سے گیا نہیں
یہ گئے دنوں کا ہے تذکرہ کہ جوکہہ دیا سو وہ کر دیا
ہے روش یہ دورِ جدید کی جوکہا کبھی وہ کیا نہیں
یہ جہاں ہے عالمِ کشمکش کہیںدار ہے کہیں تاج ہے
جو فرازِ دار سے ڈر گیا اسے تاج و تخت ملا نہیں
میں بھٹک کے آپ ہی راہ سے ترے پیچھے پیچھے تھی چل پڑی
مرے راہبر نہ ہو بد گماں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں
بڑی ابتلا کا یہ دور ہے بڑے چارہ گرہیں قدم قدم
ہیں زباں پہ لاکھ فسوں مگر کوئی ان میں ردِّ بلا نہیں
جو عزیز ہوتی یہ زندگی کبھی چلتے راہ نہ عشق کی !
مرے مہرباں ، مرا امتحاں ، یہ بجا نہیں ، یہ روا نہیں
اسے ان کا لطف و کرم کہیں کہ ادائے جَور کا نام دیں
وہ بلا کے دُور بٹھال دیں کوئی اس سے بڑھ کے سزا نہیں

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x