ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشر خیال- بتول جون ۲۰۲۱

’’چمن بتول‘‘ شمارہ مئی2021ء پر تاثرات پیش خدمت ہیں ۔
خوبصورت پہاڑوں ، سر سبز وادیوں ، نیلے پانیوں اور خوش رنگ پھولوں سے مزین ٹائٹل د کو بھا گیا ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ صائمہ اسماکا اداریہ حسب روایت اہم مسائل کا احاطہ کیے ہوئے ہے جو اس وقت ہمارے وطن عزیز کو درپیش ہیں ۔ یہ جملے خوب ہیں :
’’ سیاسی قوتوں کے لیے بھی سبق ہے کہ وہ حقیقی سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنائیں استعمال ہونے سے بچیں ۔فطری انداز سے عوام میں اپنی جگہ بناتے ہوئے آگے بڑھیں اپنا سوچا سمجھا پروگرام اور سیاسی ایجنڈا لے کر چلیں جو آئین کی بالا دستی ، عوا م کے مسائل اور دنیا میں ہمارے با وقار مقام کے گہر ے شعور کا آئینہ دار ہو‘‘۔
ان میں آپ نے ہمارے سیاستدانوں کے لیے ایک بہترین منشور کا خلاصہ اور نچوڑ بیان کر دیا ہے ۔
’’ اللہ کا تقویٰ‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحب نے بخوبی واضح کیا ہے کہ تقویٰ گناہوں سے بچانے کا سبب ہے اور یہ قیامت کے روز نجات کا سفینہ ہو گا یہ جملہ بڑا خوبصورت لکھا ’’ تقویٰ کا شجر ایسا بلند پایہ ، سایہ دار درخت ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں پھلوں سے لدا رہتا ہے ‘‘۔
’’ نبی کریم ؐ کی مجالس‘‘( ڈاکٹر عبد الحئی) رسول پاک ؐ کی مجالس اور ان کے آداب کے بارے میں بہترین عنوان ہے ۔ یہ جملے قابل غور ہیں ’’ آپ کی مجلس حلم و علم ، حیا و صبر اور متانت و سکون کی مجلس ہوتی تھی ۔ آپؐ نے بہترین آداب مجلس سکھائے اور ان پر خود عمل کر کے بھی دکھایا‘‘۔
’’ صحت مند خواتین ، صحت مند معاشرہ ‘‘( ڈاکٹر فلزہ آفاق) مضمون کے قابل توجہ جملے ’’ انہی کی گود میں وہ لیڈر پرورش پاتے ہیں جن کی کردار سازی میں وہ بنیادی کردار ادا کرتی ہیں ۔ ان ہی کی محنتوں اور دعائوں سے دنیا کی عظیم ترین عالم ، محقق، محدث، فیقہہ، منتظم ، مجاہد اور رہنما نصیب ہوتے ہیں ‘‘۔
آپ نے اس مضمون میں بجا اشارہ کیا ہے کہ ہمارے ملک میں خواتین کے صحت کے عائلی اور معاشرتی ان گنت مسائل ہیں جن پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
یہ جملے بھی زبردست ہیں ’’ ایک اسلامی ملک میں غریب اور امیر کی اس قدر تفریق باعث شرم ہے ۔ ملک غریب نہیں ، ہمارے دل غریب ہیں ، ہمیں لوگوں کی بے بسی نظر نہیں آتی ‘‘۔
اب کے نجمہ یاسمین یوسف صاحبہ نے ایک شاہکار غزل کہی ہے ، ایک ایک شعرقابل داد ہے ۔
’’ دو منتخب اشعار :
بہت دل دوز فریادیں ہیں ٹوٹے سوکھے پتوں کی
نہیں اچھا ہوائوں بے گھروں کو کوبہ کو کرنا
بھٹکتے رہنا انہونی کے لا حاصل جزیروں میں
پہن کے زرد موسم ، سبزرُت کی آرزو کرنا
منیر نیازی اور ایوب خاور کا رنگ جھلکتا ہے ۔
حبیب الرحمن صاحب کی غزل سے حاصل غزل شعر:
ہوا بجھاتی گئی پھر بھی روشنی کے لیے
جلا جلا کے دیے پر دیا دیے گئے ہم
بہت مشکل زمین میں کہی گئی غزل ہے۔
’’ ماں واہلی‘‘( دانش یار) ایک عزم و ہمت والی خاتون کی کہانی

جس نے اپنی محنت اور لگن سے بہترین زمینداری کی مثال قائم کی ۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ جدوجہد اور محنت سے خواتین اپنا با عزت مقام بنا سکتی ہیں۔
’’ راستے‘‘( غزالہ عزیز) ایک با مقصد کہانی جس میں پیغام دیا گیا ہے کہ ہم اپنی اس دنیا کو صاف ستھرا اور رہنے کے قابل بنا سکتے ہیں بشرطیکہ محنت اور عزم و ہمت سے کام لیا جائے کہانی میں منظر کشی خوبصورت ہے۔’’ ان گلیوں میں مٹی کی سوندھی خوشبو سونگھتی ہوئی ، کسی کچے گھر کے دروازے پر پڑا رنگ برنگا پردہ اٹھا کر جھانکتی جہاں لڑکیاں صحن میں کیڑی کا ڑا کھیل رہی ہوتیں جب وہ ایک پائوں پر اچھلتیں تو ان کے رنگ برنگے دھاگوں اور شیشوں والی فراکیں اور گھیر دار شلواریں مورنی کے انداز میں سحر طاری کر دیتیں ، کڑھائی میں شامل شیشوں پر سورج کی کرنیں ناچتیں‘‘۔
’’ عافیت ‘‘ قانتہ رابعہ صاحبہ کی ایک نصیحت آموز کہانی ۔ واقعی بیٹا بگڑ جائے تو ماں باپ کے سینے پر تیر چلتے ہیں اگر سدھر جائے تو والدین کے سینے میں ٹھندک پڑ جاتی ہے ، سارا گھر خوشحال ہو جاتا ہے ۔
’’ آرزو بدل جائے ‘‘( مدیحۃ الرحمن) محبت کی گہرائیوں میں ڈوبی ایک کہانی لیکن اگر کوئی مسلسل بے وفائی کرے تو اس سے بے اعتنائی برتنا ہی دانش مندی ہے ، اس کی بجائے اللہ سے لو لگا ئیں تو سب کچھ مل جائے ، زندگی سنور جائے ۔
’’ عیادت‘‘ (نبیلہ شہزاد)ہمارے جیتے جاگتے معاشرے کی کہانی ۔ خاتون خانہ بیمار پڑ جائے اور پھرمہمان آئیں خاطرداری کرنا پڑے تو کتنی مشکل ہو تی ہے لیکن اگر عیادت کرنے والے مدد کرنے اور بوجھ بانٹنے والے ہوں تو بیمار کی اصل عیادت یہی ہے ۔
’’ اللہ بہترین وکیل ہے ‘‘(نسیم طارق) ایک واقعہ جو بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے ان کی عزت رکھتا ہے یہ بھی کہ یورپ کے عیسائیوں نے وہ اخلاقی خوبیاں اپنائی ہیں جو ہمارے پیارے مذہب نے ہمیں سکھائی ہیں ۔
’’سائے کی تلاش‘‘ ( سید سعید نقوی) میاں بیوی کی رفاقتوں اور چاہتوں کی ایک خوبصورت کہانی واقعی لمبی رفاقتوں کے بعد میاں بیوی میں سے ایک بھی چلا جائے تو دوسرے کی زندگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جو پر نہیں ہو سکتا ۔ لگتا ہے اپنا سایہ ہی ساتھ چھوڑ گیا ہے۔
’ ’ جنگی قیدی کی آپ بیتی‘‘( سید ابو الحسن) ایک جہد مسلسل کی کہانی ۔ یہ ہمارے لیے سبق ہے کہ کس طرح سید ابو الحسن صاحب نے اپنی زندگی اسلامی سانچے میں ڈھالی ، مسلسل جدوجہد کی ، اچھے دوست احباب مل گئے جس سے ان کی زندگی سنور گئی ۔ یہ سب خدا پر کامل ایمان سے ممکن ہؤا۔
’’صحرا نورد‘‘( نیّر کاشف) صحرائے تھر کا بہت دلچسپ اور معلومات افزا سفر نامہ۔ سندھی شاعر ایاز صادق کا خوبصورت شعر لکھا ہے۔(ترجمہ ) ’’ یار ب کارونجھر کے پہاڑ پر جب مور ناچتا ہے تو ساون کابادل اسے جواب دیتا ہے ‘‘۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ’’ الخدمت ‘‘ والوں نے صحرائے تھر میں بھی پانی کے نل لگوا دیے ہیں اور صحرا میں نخلستان بنائے ہیں واپسی کے سفر میں یہ جملے خوبصورت ہیں ۔’’ صحرائے تھر میں گزرا وقت زندگی کا خلاصہ تھا … واپسی کا سفر ہمیشہ ہی اداس کرتا ہے ، ہم سبھی کچھ خوش ، کچھ اداس تھر سے کراچی تک سفر کرتے بالآخر اپنے گھر پہنچے اور دل کا ایک گوشہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صحرا کے نام کیا ‘‘۔
’’ عورت بیچاری، ایک پہلو یہ بھی ہے ‘‘ فرحت طاہر کا ازدواجی زندگی کے مسائل پر ایک فکر انگیز مضمون ہے ۔ آپ نے بتایا ہے کہ میاں بیوی میں حسن رفاقت ہی ازدواجی زندگی کا حسن ہے میاں بیوی کا ایک دوسرے سے مقابلہ یا موازنہ مسائل پیدا کر سکتا ہے ۔
’’ سفر ہے شرط‘‘ ( ڈاکٹر فائقہ اویس ) ڈاکٹر صاحبہ کا کمال ہے کہ آپ نے پاکستان میں اپنے موٹروے کے سفر کو بھی خوب دلچسپ بنا کے پیش کیا ہے۔ آپ نے بلا شبہ نہایت مشکل سفری اور موسمی حالات کا مقابلہ کیا اور پھر واپس سعودی عرب ڈیوٹی پر پہنچنے کی بھی فکر لاحق !
تبصرہ کتب (یاسمین صدیقی) آپ نے پروفیسر ڈاکٹر ممتاز عمر کی کتاب ’’ قلم کاوش‘‘کا اتنی خوبصورتی سے تعارف کرایا ہے کہ بے اختیار یہ کتاب پڑھنے کو دل چاہتا ہے ۔ ’’ ہمارے دادا جان ‘‘ قدسیہ بتول صاحبہ

نے اپنے پیارے دادا جان کی میٹھی یادیں قارئین کے ساتھ شیئر کی ہیں ۔ واقعی بزرگ جب چلے جاتے ہیں تو بے حد یاد آتے ہیں ۔ اس لیے وہ جب تک زندہ رہیں ہمیں ان کااحترام کرنا چاہیے کیونکہ وہ بھی تو بچوں سے بے حد پیار کرتے ہیں۔
’’ زہریلے رویے ‘‘( نگہت حسین ) کچھ ضروری اخلاقیات پر مبنی کالم ہے جوواضح کرتا ہے کہ بلاوجہ کسی کا ماضی نہیں کریدنا چاہیے نہ ہی ان کے نا خوشگوار واقعات بار بار دوسروں کے سامنے دہرانے چاہئیں یہ انتہائی نا پسندیدہ بات ہے ۔
’ ’ بتول میگزین‘‘ شہرادی پھول بانو نے برسات اور جامن کے درخت سے جڑی اپنی بچپن کی خوشگوار یادیں قارئین کے ساتھ شیئر کی ہیں۔برسات کا موسم ہو تو گھر کے صحن میں لگے جامن کے درخت کے ساتھ لگی پینگ پر جھولنا کتنا خوبصورت لگتا ہے۔’’رب نے بدلی دنیا ‘‘ فضہ ایمان ملک کا مختصر لیکن پیارا مضمون ۔ یہ جملے بہت خوبصورت ہیں ’’ کل چھت پر بادلوں سے آنکھ مچھولی کرتے چاند کو دیکھتے ہوئے ایسے لگا جیسے دھیرے دھیرے مجھ سے کہہ رہا ہے ’’ میرے رب نے بدلی ہے دنیا ان مگن انسانوں کی ‘‘۔
اپنے مضمون ’’ آج کا پائیڈ پائپر‘‘ میں عمارہ مشکور نے عورتوں کے حقوق کی آڑ میں حد سے تجاوز کرنے والے اور بے جا آزادی کے نعرے لگانے والے طبقے کی خوب خبر لی ہے ۔
’’ ایک سنہری تقریب ‘‘ شہناز یونس نے اسلام آباد میں 23مارچ کو ہونے والے یوم جمہوریہ کی خوبصورت تقریب کا آنکھوں دیکھا احوال پیش کیا ہے ۔’’ عورت باہمت‘‘ میرا اپنا لکھا مضمون ہے ۔ اس پہ تبصرہ قارئین کا حق ہے ۔
’’تزکیہ قلب کیسے ہو؟‘‘ گوشہِ تسنیم میں ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ نے واضح کیا ہے کہ شیطانی حملوں سے وہی محفوظ رہتے ہیں جو تقویٰ اختیا ر کرتے ہیں قرآن و سنت سے رہنمائی لیتے ہیں ۔ وہ پاکیزہ اور نفس مطمئنہ کے مالک ہوتے ہیں۔
’’ توہین رسالت کیسے روکی جائے ؟‘‘ حامد میر کا اس نازک مسئلہ پر فکر انگیز کالم ہے یہ جملے قابل غور ہیں ’’ نبی پاک کی حرمت کا دفاع ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ اس سلسلے میں ہمیں آواز ضرور بلند کرنی چاہیے لیکن کچھ توجہ اپنے پیارے نبی ؐ کی تعلیمات پر بھی دینی چاہیے ‘‘۔ رمضان المبارک میں اور عید سعید کے موقع پر اسرائیل نے نہتے فلسطینی مسلمانوں کو لہو لہان کیا ہے ۔ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی ہے اللہ تعالیٰ ان ظالموں کے ہاتھوں کو کاٹ دے اور فلسطینیوں کو محفوظ رکھے ( آمین)۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
trackback
2 years ago

[…] محشرِ خیال […]

1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x