ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

باقی سب! – بتول جنوری ۲۰۲۲

رات کے دو بج رہے تھے۔
وہ کروٹیں بدل بدل کر تھک چکی تھی۔نیند کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔بہن کے الفاظ ذہن میں گونج رہے تھے.
’’دیکھنا تمھاری ساس ضرور تمھارے شوہر کی دوسری شادی کروائیں گی ا ور تمھیں گھر سے چلتا کریں گی۔وہ بہت چالاک ہیں …..کچھ ایسا جادو کریں گی کہ تمھارے شوہر کو ماننا پڑے گا….. اور تم بیٹھی رہنا اپنی خوش گمانیوں میں !تم واقعی ان کی چالاکیاں نہیں جانتی‘‘ ۔
وہ خود پریشان اور واہموں کے زیر اثر تھی اوپرسے بہن نے یہ باتیں بار بار دہرا کر اسے مزید پریشان کر ڈالا تھا۔دن بھر کی مصروفیات میں سب جھٹکنے کی کوشش کی اور کچھ کامیاب بھی ہوئی۔ مگر عشاء کے بعد جیسے ہی بستر پر لیٹی ان سب باتوں نے جیسے حملہ کر دیا۔
پھر لاکھ خود کو سمجھایا ۔میرا رب ہے نا دیکھ رہا ہےسب کچھ، وہ کچھ بھی غلط نہیں ہو نے دے گا۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم ہر ایک کے لیے اچھا چاہو اور تمھارا رب کسی کو تمھارے ساتھ برا کرنے دے۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔اولاد کا نہ ہونا کوئی ایسی وجہ نہیں کہ اسے گھر سے بے گھر کیا جائے۔
وہ خود کو دلاسہ دیتے سونے کی کوشش کرتی۔کروٹ بدلتی دوسری طرف وہ آواز پھر سے گونجنے لگتی۔آخر تھک کر وہ ایک دم اٹھ بیٹھی پانی پیا۔ اسے اپنی بہن پر غصہ آنے لگا ۔جس نے اپنی بات دہرا دہرا کر اسے پریشان کر ڈالا تھا ۔ اس نے تہجد کا ارادہ کیا۔اب وہ مسئلے کا حل چاہتی تھی۔اسے یوں سولی پر چڑھ کر زندگی نہیں گزارنی تھی ۔کچھ سوچ کر وہ مطمئن ہو گئ ۔اب وقت آ گیا تھا کہ وہ اپنا مقدمہ مالک دو جہاں کے سامنے پیش کرتی۔
اس کا شوہر ڈیوٹی پر تھا اور وہ بغیر مداخلت اپنا مقدمہ لڑ سکتی تھی۔
رات کا آخری پہر اور جائے نماز….. اس نے تکبیر کہی ۔ اللہ اکبر…..
اور اس کے آنسو بہنے لگے۔ مالک دو جہاں کو کہنے کے لیے الفاظ گم ہو گئے تھے ۔آنسو تھے ،آہیں تھیں اور سسکیاں ،کھوئی اولاد کا دکھ تھا۔لوگوں کے نشتر چبھوتے جملوں،کھوجتی نگاہوں،مسلسل بے قدری نے جو زخم لگائے تھے جیسے ان پر پھائے رکھے جا رہے ہوں۔وہ رو کیوں رہی ہے وہ تو مقدمہ لڑنے آئی ہے اس نے خود کو ڈانٹا مگر وہ بے اختیار ہو گئی تھی…..روتی رہی…..روتی رہی ۔
مسئلہ تو شاید پہلی تکبیر نے ہی حل کر دیا تھا ۔بد گمانی ،بے یقینی کی جمی تہہ اکھڑنے لگی تھی۔وہ آخر کن چکروں میں پڑ ی تھی ۔بھلا اللہ کی مرضی کے بغیر بھی کچھ ممکن تھا اور اگر اللہ کو ایسامنظور تھا تو پھر بھلا اعتراض کسے تھا۔وہ تو تھا ہی اپنا ہر حال میں بہتر ہی کرتا۔اگر اسں کا فیصلہ اسے گھر سے ہٹانے کا تھا تو بھلا کس کی مجال جو اسے ٹھہر نے دیتا۔یقیناً اس نے کسی اور جگہ اس سے کچھ بہتر اس کے لیے پہلے سے تیار کر رکھا ہوگا۔ اگر اس نے اسے روکنا تھا تو کس کی مجال اسے چپہ بھر بھی ہٹا پاتا۔اسےسورہ الانعام آیت یاد آئی۔
’’اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے، اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
وہ حدیث بھی جیسے کچھ سمجھا رہی تھی۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں آنحضورؐ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہؤا تھا کہ آپؐ نے فرمایا ’’اے لڑکے(1) تو اللہ کے حقوق کی حفاظت کر اللہ تعالیٰ تیری حفاظت فرمائے گا۔ تو اللہ کے حقوق

کی حفاظت کر ہر وقت اللہ کو اپنے سامنے پائے گا۔ (2)جب تو مانگے تو اللہ ہی سے مانگ (3)جب مدد طلب کرے تو اللہ سے ہی کر(4) اس بات کو جان لینا کہ تمام لوگ جمع ہو کر بھی تجھے نفع پہنچانا چاہیں تو اللہ کے سوا کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے مقرر کر دیا ہے ۔ (5)اور عام لوگ جمع ہوکر بھی تجھ کو نقصان پہنچانا چاہیں تو اس کے سوا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا جو اللہ نے لکھ دیا ہے۔
اسے اللہ کے حقوق کی حفاظت کرنی تھی۔
دل و جاں سے نکلی، رات کی خاموشی میں اس کی صدا آسمانوں کو چیرتی اوپر سے اوپر جا رہی تھی۔
اللہ اکبر ،اللہ اکبر….. اللہ اکبر،اللہ اکبر…..
وہ کہتی رہی کہتی رہی اور کہتی چلی گئی۔اور اس کا پورا وجود جیسے تکبیر بن گیا ہو ۔ ہر راستہ صاف تھااور وہ ریاضت کے راستے پر قدم رکھ رہی تھی…..کسی نے ایک دم جیسے اسے آزاد کیا تھا…..اس کا دل ہلکا پھلکاتھا، کوئی غم ،کوئی وسوسہ دور دور تک نہ تھا۔
اور پھر کب وہ نیند کی آغوش میں پہنچی پتہ ہی نہ چلا ۔جب آنکھ کھلی دور کہیں سے فجر کی اذان گونج رہی تھی ۔سر شاری سےوضو کرتے وہ سوچ رہی تھی،بے یقینی بھی کیسا فتنہ ہےجو کئی آفتیں لا کھڑی کر تا ہے۔ خدشات بھی تو آفت ہیں ،نیند ،سکون چین سب چھین لے جاتے ہیں۔ حال کو نگل جاتے ہیں ۔خوشیاں ہڑپ اور نیندیں حرام کردیتے ہیں۔
اس نے مسکراتے ہوئے خود سے کہا ۔مجھے بس تکبیر کی ضرورت تھی۔ بس ایک تکبیر کی ضرورت …..اس نے دوپٹہ لپیٹتے کھڑکی سے جھانکا…..ہر منظر محو تکبیر تھا۔اور عالم کی ہمراہی میں وہ بھی جھک گئی کہ اصل کرنے کا یہی کام تھا۔
باقی سب رب کائنات پر تھا!
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x