ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ابتدا تیرے نام سے – بتول دسمبر۲۰۲۲

قارئین کرام سلام مسنون
آج کل قومی تو کیاعالمی منظرنامے پر بھی کھیل چھائے ہوئے ہیں۔ ورلڈ کپ میں پاکستان کا فائنل میں پہنچ جانا ہی اتنی خوشی دے گیاکہ جیتنے کی خاص اہمیت نہیں رہی۔اس کے بعد قطر میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کے قصے تو زبان زدِ عام رہے۔کھیل سے دلچسپی ہو یا نہیں مگر قطر کے ثقافتی محاذ پر کارناموں نے ہمارے ہاںسب کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ دنیا سے کٹ کر اپنے اصولوں پر قائم رہنا آسان ہے مگر پائیدار نہیں۔ دنیا کے ساتھ چلیں اور اپنی پہچان برقرار رکھیں یہ اصل چیلنج ہےجس کو قطر نے محض نعرہِ مستانہ سے نہیں بلکہ تیل کی بدولت اپنے معاشی استحکام کی وجہ سے ممکن بنایا۔ پھر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دین کی دعوت کو دنیا بھر کے نمائندوں تک پہنچا دیاگویا امت بھر کی جانب سے فرض ادا کردیا۔
پی ٹی آئی کے قافلے پر فائرنگ سے کئی رہنما زخمی ہوئے اور ایک قیمتی جان چلی گئی۔حکومت کے جو افراد پہلے سے اسے خونی مارچ کہہ کر خوف پیدا کررہے تھے،منطقی طور پہ فائرنگ کے واقعے کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے۔پرامن مظاہرے کرنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے۔ لاٹھی گولی کے حربوں اور فاشزم نے ہمیشہ ملک کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔اس سے کہیں زیادہ افسوس مخالفین کی خفیہ ویڈیوز بنا کر عام کرنے کی روش پہ ہے۔ یہ اخلاقی پستی اور گراوٹ کی انتہا ہے۔ اس سے زیادہ برا دور شاید ہمارے ملک کی سیاست نے نہیں دیکھا۔ بعض لوگوں نے ضیا ء الحق کے زمانے میں بے نظیر کی عریاں تصاویر جہازوں سے گرانے کی مثال بھی دی مگر وہ پبلک مقامات کی اور شائع شدہ تصاویر تھیں، چھپ کر اورپرائیویسی کی جگہ پر یا خواب گاہوں میں نہیں بنائی گئی تھیں ۔سیاست کے نام پہ شیطانیت کا رقص جاری ہے۔ہوس اقتداراور خاندانی حکومتوں کے تسلسل کی خاطر انسانیت بالائے طاق رکھ دی گئی ہے۔تیس پینتیس برس تک مادر وطن کی لوٹ کھسوٹ سے اب تک شکم بھرے نہ نیت۔البتہ خزانے خوب بھر گئے، جائیدادیں بن گئیں، اب یہ سب اپنی آل اولاد کے لیے چھو ڑکرخوددو گز زمین کے منتظر ہیں، آج ملے یا کل!
باقی صورتحال یہ ہے کہ گوادر میں حق دو تحریک سے معاہدے کے باوجود وہاں کےعوام اپنے مطالبات پورا ہونے کے منتظر ہیں اور ایک بار پھر اپنے حقوق کے لیے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔کراچی ہنوز بلدیاتی انتخابات کی راہ دیکھ رہا ہے۔
نئے سربراہ کا آنا توقعات اور خدشات دونوں کا باعث ہے۔ اداروں کی ساکھ خراب ہونے کا سلسلہ وقتی طور پہ رکا ہے مگر اس میں کوئی دیر پا بہتری صرف تبھی آسکتی ہے جب نئے سربراہ حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلےخود اپنے ادارے کا احتساب کریں۔سبکدوش ہونے والوں کے جرائم کی طویل فہرست ہے، اثاثہ جات کے سنگین الزامات ہیں۔ اگر حسب سابق قومی مجرموں کو ملک کا بیڑہ غرق کرنے کے بعد باہر بھاگنے کی اجازت دے دی جائےگی تو پھر اس ملک میں خونی انقلاب کا خطرہ ہے۔عوامی سطح پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ملک لوٹنے والے عناصرکے خلاف اور جمہوری تسلسل کے حق میں عوام کے اندر شعور کی سطح بے حد بلند ہے۔بےرحم اور کڑا ادارہ جاتی احتساب وہ واحد راستہ ہے جو ملک میں نرم انقلاب لا سکتا ہے اور حالات سدھار کی جانب جا سکتے ہیں۔اس سے نہ صرف آئندہ کسی نادیدہ ہاتھ کا جمہوری بساط پلٹنے اور سیاسی کھیل کو پتلی تماشا بنانے کا راستہ بند ہوگا بلکہ عوام میں نفرت اور تفریق میں بھی فوری کمی آئے گی۔ حالات کے سدھار کا اگر واحد راستہ انتخابات ہے تو انتخابات کے نتائج بھی اسی صورت بامعنی ہو سکتے ہیں کہ انتخابی اصلاحات ہوں، الیکشن کمیشن غیر جانبدار اور بااختیار ہو اور پھر جو بھی عوامی فیصلہ ہو اسے کسی اور طرف سے مسترد ہونے کا خطرہ نہ ہو۔اس وقت ایسا ماحول بنا ہؤا ہے کہ سیاسی عمل کو اداروں کے اثرات سے پاک کرنا ملک کے اندرونی امن کا واحدضامن بن گیا ہے۔سیاسی جماعتوں میں ایسے عناصر ہمیشہ موجود رہیں گے جو مداخلت کے راستے فراہم کرتے ہیں بلکہ مدد مانگتے ہیں،بدعنوان ہیں اور بدعنوان بناتے ہیں، مگر اپنے حلف سے وفادار رہنا ہر شخص کی اپنی ذمہ داری ہے کسی اور کو الزام نہیں دیا جاسکتا۔
مفتی رفیع عثمانی انتقال کرگئے۔مفتی تقی عثمانی کے برادر بزرگ اور بلند پایہ عالم دین تھے۔اللہ تعالیٰ جوارِ رحمت میں جگہ دے آمین۔صنفی شناخت نمبر پر پسندیدگی کے بے شمار پیغامات ملے ہیں الحمدللہ ۔آپ سب کی طرف سے پذیرائی کا بے حد شکریہ۔اللہ کے فضل سےاس برس ہم دو خاص نمبر نکالنے میں کامیاب ہوئے ۔اب سال کا آخری شمارہ ہے ،اس سال نے وبا سے چھٹکارا دیکھا، ایک بڑی آزمائش اللہ نے دُور کی ۔ البتہ سیاسی حالات کے اعتبار سے انتہائی ہنگامہ خیز سال رہا۔پٹے ہوئے مہرے، قومی مجرم ایک بار پھر ہم پہ مسلط کردیے گئے۔ساتھ ہی تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہؤا۔بابائے قوم حضرت قائداعظم کی پیدائش کا مہینہ ہے۔دسمبرمسیحی برادری کے لیے کرسمس کے تہوار کی خوشیاں لاتا ہے۔سقوط مشرقی پاکستان کے ساتھ سانحہ اے پی ایس کا غم بھی دسمبر ہی کی قسمت میں لکھا ہےاور دونوں سے اب تک خون رِستا ہے۔

شامِ غم تجھ سے جو ڈر جاتے ہیں
شب گزر جائے تو گھر جاتے ہیں
یاد کرتے نہیں جس دن تجھے ہم
اپنی نظروں سے اتر جاتے ہیں
وقت سے پوچھ رہا ہے کوئی
زخم کیا واقعی بھر جاتے ہیں
زندگی تیرے تعاقب میں ہم
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں

اگلے ماہ تک اجازت بشرطِ زندگی۔ دعاگو، طالبہ دعا

صائمہ اسما

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x