ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

تحریک پاکستان سے لے کر قائد اعظم ؒکے پاکستان تک – بتول اگست۲۰۲۲

قائد اعظمؒ کا فکری پس منظر کیا تھا ، وہ خلوص نیت سے کیا محسوس کرتے تھے ، اور انہوں نے پاکستان کا تصور کہاں سے لیا تھا ، ڈاکٹر صفدر محمود کی چند فکر انگیز تحریروں سے انتخاب

سب سے پہلے تصور پاکستان اور تحریک پاکستان کے پس منظر کو واضح طور پر سمجھ لیں تاکہ اس کے بعد زیر بحث آنے والے انفرادی پہلوئوںکو سمجھ سکیں ۔ سوال یہ ہے کہ قیام پاکستان کی بنیاد کب رکھی گئی ۔ آسمانی فیصلوں کی تکمیل اور خواب کو حقیقت بنتے صدیاں گزر جاتی ہیں ۔ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ’’ تاریخ فرشتہ ‘‘ سے رہنمائی لینی پڑے گی کیونکہ ’’ تاریخ فرشتہ ‘‘ ہندوستان کی ایک قدیم تاریخ پر ایک مستند کتاب سمجھی جاتی ہے ۔’’ تاریخ فرشتہ‘‘ کے صفحہ نمبر 101پر وہ خط درج ہے جو 1192-93ء میں شہاب الدین غوری نے پرتھوی راج کو لکھا تھا۔ پس منظر کے طور پر یاد رہے کہ شہاب الدین غوری اور پرتھوی راج کے درمیان 1192ء میں جنگ ترائن ہوئی جو اس لحاظ سے ایک فیصلہ کن معرکہ سمجھا جاتا ہے کہ اس جنگ نے ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ کردیا اور مقامی ہندو راجائوں کی کمر توڑ کر مسلمانوں کی حکمرانی کے لیے راہ ہموار کردی ۔اس دور میں پرتھو ی راج ہندوستان کا طاقتور ترین راجہ سمجھا جاتا تھا اور وہ جب غوری کے مقابلے میں ترائن ( ترائوڑی) کے میدان میں اترا تو اس کے ساتھ ہندوستان کے ڈیڑھ سو ہندو راجے ، تین لاکھ مسلح فوج اور تین ہزار ہاتھی تھے جبکہ غوری کے پاس ایک لاکھ دس ہزار فوج تھی ۔ یہ اس لحاظ سے ایک فیصلہ کن معرکہ تھا کہ اگر خدانخواستہ اس جنگ میں غوری کو شکست ہو جاتی تو پھر آئندہ شاید کوئی مسلمان فاتح صدیوں تک ہندوستان کا رُخ نہ کرتا اور نہ ہی ہندوستان میں پہلی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی جاتی جس کا بانی شہاب الدین غوری اور اس کا جرنیل قطب الدین ایبک سمجھا جاتا ہے۔
اُس دور میں یہ بھی ایک رسم تھی کہ بادشاہان ایک دوسرے کے خلاف مقابلے کے لیے میدان میں اترتے تو تلواریں اور نیزے اٹھانے سے پہلے ایک دوسرے کو شرائط بھجوائی جاتی تھیں اگر کوئی فریق ان شرائط کو تسلیم کر لیتا تو جنگ’’ صلح نامہ‘‘ میں بدل جاتی ورنہ خون کی ندیاں بہتیں اور فتح و شکست کا واضح فیصلہ ہو جاتا ۔چنانچہ رسم دنیا کے مطابق شہاب الدین غوری نے جو خط پرتھوی راج کو لکھا اسے پڑھ کر مجھے محسوس ہؤا کہ گویا پاکستان کی بنیاد کی پہلی اینٹ یہی تھی۔ اس خط میں شہاب الدین غوری نے لکھا کہ اگر تم صلح کرنا چاہتے ہو تو مجھے پنجاب ، سندھ اور سرحد کے علاقے دے دو باقی ہندوستان کے علاقے تم اپنے پاس رکھو ورنہ جنگ کے لیے تیار ہو جائو ۔ بلوچستان کا اس میں ذکر نہیں تھا کیونکہ وہاں مسلمانوں کی حکمرانی تھی ۔ تاریخی طور پر اس مطالبے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان علاقوں میں مسلمان مقابلتاً اکثریت میں تھے یعنی ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت یہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی ۔ گویا نظریاتی ، مذہبی اور آبادی کے حوالوں سے ہندوستان جغرافیائی طور پر تقسیم ہو چکا تھا جسے مورخین بعد ازاں مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا کے ناموں سے یاد کرتے رہے۔
جنگ ہوئی ، پرتھوی راج کو اپنے ہندوستانی راجائوں سمیت شکست ہوئی ، قطب الدین ایبک جو لاہور میں دفن ہے فتوحات کے جھنڈے لہراتا دہلی پہنچ گیا جسے اس نے اپنا مرکز بنایا اور ہندوستان میں پہلی اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی ۔اس سے قبل مسلمان فاتحین یہاں آتے رہے جن میں غزنی خاندان خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ پنجاب غزنی سلطنت کا صوبہ رہا ہے ۔ ان سے قبل 712ء میں محمد بن قاسم سندھ پر حملہ آور ہؤالیکن چند برس بعد 715ء میں اسے واپس بلا لیا جس کے سبب یہاں مستحکم مسلمان سلطنت قائم نہ ہو سکی ۔ بہر حال 1192ء تک ان علاقوں میں مسلمان بقایا ہندوستان کی نسبت مقابلتاًاکثریت میں ہو چکے تھے اور اس میں سب سے اہم کردار صوفیاء اور اولیائے اکرام کا تھا جن کی نگاہ ، اخلاق اور کردار نے غیر مسلموں کے دلوں کو مسخر کیا اور اسلام کی روشنی کو پھیلایا۔
اس میں در اصل قابل غور بات یہ ہے کہ وہ علاقے جن کا غوری مطالبہ کر رہا تھا وہ جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے وابستہ تھے جبکہ بلوچستان پہلے ہی مسلمانوں کے زیر حکومت تھا اور یہ بات اس لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے کہ تحریک پاکستان کی بنیاد ہی اسی اصولی مطالبے کے محور کے گرد گھومتی تھی کہ وہ علاقے جن میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور جو جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے پیوست ہیں ان علاقوں پرمشتمل ایک آزاد مسلمان اسلامی مملکت قائم کی جائے کیونکہ مسلمان دنیا کے ہر اصول اور معیار کے مطابق ایک الگ قوم ہیں ۔اگر آپ مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور کا مطالعہ کریں یا علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد1930ء کا ، یا علامہ اقبال کے خطوط بنام قائد اعظم کا یا پھر قائد اعظم کی تقاریر کا…تو ان میں ہمیں ایک ہی تصور ملتا ہے کہ چونکہ مسلمان ایک قوم ہیں لہٰذا وہ ایک آزاد وطن کے مستحق ہیں اس لیے ہندوستان کے وہ علاقے ( پنجاب ، سندھ ، سرحد ، بلوچستان) جن میں مسلمان اکثریت میں ہیںاور جو زمینی طور پر ایک دوسرے سے منسلک ہیں ان پر مشتمل پاکستان کا قیام عمل میں لایا جائے ۔
گویا یہ مشیت ایزدی تھی کہ 1192ء تک مسلمان پنجاب ، سندھ ، سرحد اور بلوچستان کے علاقوں میں اکثریت میں ہو چکے تھے اور تقریباًساڑھے سات صدیاں قبل مطالعہ پاکستان کے لیے زمین ہموار کرکے بنیاد رکھ دی گئی تھی ورنہ اگر مسلمان سرحد کے بعد یوپی اور پھر ان صوبوں میں اکثریت میں ہوتے تو جغرافیائی فاصلوں میں بٹے ہوئے تھے اور زمینی قربت سے محروم تھے تو کیا پاکستان کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا اور اسے کوئی تسلیم کرتا ؟ جواب ہے نا ممکن کیونکہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں بکھرے ہوئے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا تھا ، اس کی پہلی شرط جغرافیائی وحدت تھی اور اسی کی تشکیل میں مشیت ایزدی کی جھلک نظر آتی ہے ۔ اس لیے مجھے کہنے دیجیے کہ قیامِ پاکستان کی بنیاد 1192ء میں رکھ دی گئی تھی ، اس کی پہلی اینٹ غوری کا خط تھا اور پھر یہی خیال ، آرزو اور مقصد صدیوں تک پھیلتا پھولتا رہا ۔ جب تک مسلمان کسی نہ کسی صورت ہندوستان پر حکمران تھے ، اس آرزو کو مطالبہ بنانے کی ضرورت نہ تھی لیکن جب وہ زوال کا شکار ہوئے اور محکوم ہوئے تو ان کی یہی خواہش خواب بن کر نگاہوں میں بسنے اور جھلکنے لگی اورپھر منزل بن گئی۔ اس آرزو کی وضاحت صورت شاہ ولی اللہؒ کے خطوط میں ملتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم اکثر اوقات کہا کرتے تھے کہ میرا کمال فقط یہ ہے کہ جو آرزو تمہارے اندر پرورش پا رہی تھی اور جو تم چاہتے تھے میں نے اس کا اظہار کر دیا۔
آپ جانتے ہیں کہ یہ چند برس قائد اعظم کے لیے مایوسی کا دور تھا حتیٰ کہ وہ مسلم لیگ کے ’’ تن مردہ‘‘ اور مسلمان عوام کی بے حسی سے دل شکستہ ہو کر سیاست سے تائب ہو گئے اور انگلستان چلے گئے ۔ سیاست کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی اور پھر خاص طور پر محمد علی جناح جیسا شخص جس کے رگ و پے میں مسلمانوں کی محبت ، ان کے مستقبل سے وابستہ خطرات اور ان کی کسمپرسی کا احساس موجزن تھا وہ بظاہر الگ تھلگ ہونے کے باوجود اپنی قوم سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا تھا ۔ انگلستان جانے سے قبل اور 1935ء میں انگلستان سے واپسی کے بعد کی قائد اعظم کی تقریر کا تقابل کیا جائے تو ان میں ایک واضح ارتقاء اور نظریاتی پختگی نظرآتی ہے … گویا مسلمانوں کی سرد مہری سے روٹھ کر انگلستان چلے جانا قائد اعظم کے لیے اس لحاظ سے بہتر ثابت ہؤاکہ انگلستان کی نسبتاً کم ہنگامہ خیز زندگی میں انہیں وکالت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ماضی ، مسائل، نفسیات ، فکری میلان اور مستقبل کے گہرے غور و خوض کا موقع ملا کیونکہ ہندوستان سے جانے کے بعد وہ روزمرہ کی سیاسی سر گرمیوں ، جلسے جلوسوں اور دیگر مصروفیات سے آزاد ہو گئے تھے ۔ انگلستان جانے سے قبل وہ 1920ء میں ناگپور کے کانگریسی جلسے کے بعد کانگریس سے مستعفی ہو چکے تھے اور 1928ء میں نہرو رپورٹ کی اشاعت کے بعد مسلمانوں اور ہندوئوں کے راستوں کے جدا جدا ہونے کا اعلان کر چکے تھے ۔ نہرو رپورٹ پر قائد اعظم کا وہ ببانگ دہل رد عمل یاد کیجیے جس میں انہوں نے (Parting of the ways) کا اعلان کر کے علیحدگی کی بنیاد رکھ دی تھی۔
انگلستان سے حصول تعلیم کے بعد جب نوجوان قائد اعظم 1896 میں ہندوستان آئے تو وہ مسلمانوں کو ایک اقلیت کہتے تھے اور اقلیت کے حوالے ہی سے قانون ساز اسمبلیوں سے لے کر سیاسی پلیٹ فارم تک مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کرتے رہے مارچ 1911ء میں ایمپریل لیجلیسٹو کونسل میں مسلم اوقاف اور وقف علی الاولاد کے قانون سے لے کر لکھنئو پیکٹ تک قائد اعظم کی حکمت عملی کے پس پردہ یہی سوچ کار فرما نظر آتی ہے لیکن 1935ء میں ہندوستان دوبارہ واپسی کے بعد قائد اعظم کے ویژن میں ایک نمایاں پختگی نظرآتی ہے ۔ اب وہ اقلیت کے سیاسی فلسفے سے آگے نکل کر مسلمان قومیت کے نقطہ ارتقاء پر پہنچ چکے تھے چنانچہ اب ان کی تقاریر کا مرکزی خیال یہ تھا کہ مسلمان ایک قوم ہیں ، ان کا مذہب ، کلچر ، رسم و رواج ، تاریخ حتیٰ کہ ہر شے ہندوئوں سے مختلف ہے ، اس لیے وہ ایک الگ وطن کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ اپنے اصولوں کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں ۔1944ء میں ایک سوال کے جواب میں قائد اعظم نے یہ واضح کیا تھا کہ جب تک ہم اقلیت کی بات کرتے تھے ہمیں تحفظات کی ضرورت تھی ، ہم زندگی کے ہر شعبے میں اپنا حصہ مانگتے تھے لیکن در اصل ہم ہر اصول کے مطابق ایک قوم ہیں اور اور بحیثیت قوم ہمیں ایک علیحدہ وطن کی ضرورت ہے ۔ یہ ہمارا حق ہے اور ہم یہ لے کر رہیں گے ۔ قائد اعظم کی سیاسی فکر کے ارتقا کا یہ سنگ میل ہی بالآخر پاکستان کی بنیاد بنا ہے۔
پھر اس کانتیجہ کیا نکلا… اس کی وضاحت خود قائد اعظم نے بار بار اپنی تقاریر میں کی ہے … میں کہہ چکا کہ قائد اعظم مسلم لیگ کی ’’ مردہ تنی‘‘ اورمسلمان عوام کی سرد مہری سے دل گرفتہ ہو کر انگلستان چلے گئے تھے ۔ لیکن وہ اب واپس آئے تو انہوں نے دوتین برس دن رات محنت کر کے مسلم لیگ کو منظم کیا اورمسلمان عوام کویہ احساس دلا کر جگایا کہ وہ ایک منفرد قوم ہیں اور ایک الگ خطہ زمین ان کی منزل ہے توپھر وہی مسلمان عوام جوق در جوق مسلم لیگ کی صفوں میں شامل ہونے لگے اور بقول قائداعظم کہ وہ مسلم لیگ جسے کل تک کوئی پوچھتا نہ تھا جس کا کہیں ذکر نہیں ہوتا تھا اب اس قدر اہم ہو گئی ہے کہ انگلستان سے لے کر امریکہ تک ہر روز اس کا ذکر ہوتا ہے ۔’’ مجھ پرنواز شات کی بارش کی جاتی ہے اور مجھے ہندوستان کی وزارت عظمیٰ کاتاج پیش کیا جاتا ہے ‘‘۔ ان چند برسوں میں مسلم لیگ کس طرح ایک عوامی قوت بنی ہے اس صورت حال کا نقشہ قائد اعظم کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔
’’پانچ سال پہلے تک کوئی ہمارے بارے میں بات بھی کرتا تھا ؟ اب کوئی دن نہیں جاتا کہ ہر اخبار مسلم لیگ کا تذکرہ نہ کرے … مجھے انڈیا کا وزیر اعظم بننے تک کی آفر ہوئی ‘‘۔
(قائد اعظم کی تقریر 9مارچ 1944ء)
چنانچہ قائد اعظم نے اس موقع پر یہ واضح کیا کہ یہ تبدیلی مسلمان عوام کی حمایت کی مرہون منت ہے اور ہمیں کوئی پیشکش ، جبر یاقوت اپنے راستے سے نہیں ہٹا سکتی۔
قائد اعظم کا فکری پس منظر کیا تھا ، وہ خلوص نیت سے کیا محسوس کرتے تھے اور انہوں نے پاکستان کا تصور کہاں سے لیا تھا ، اسی موضوع پر قائد اعظم کی متعدد تقریر یں ملتی ہیںآج ان کی علی گڑھ والی 8مارچ 1944ء کی تقریر کے چند فقرے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوںجن سے آپ کو ان سوالات کا جواب ملے گا ۔ نظریاتی حوالے سے یہ ایک اہم تقریر ہے اور قائد اعظم کی مثبت ذہنی روش پر روشنی ڈالتی ہے ۔ اسے سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ بہت سے پاکستانی دانشور دوقومی نظریے کے منکر ہیں ، وہ نظریاتی حوالے سے قائد اعظم کو سیکولر سمجھتے ہیں جبکہ ہندوستانی مصنفین پاکستان کومنفی سیاست کاشاخسانہ کہتے ہیں ۔ بہت سی اور تقریروں کی مانند، تقریر ثابت کرتی ہے کہ قائد اعظم نظریاتی لیڈر تھے اور ان کی نظریاتی اساس نہایت پختہ تھی ۔ انہوں نے کہا:
ترجمہ: پاکستان ہندوئوں کے مناسب یا غیر مناسب رویے کی پیداوار نہیں ۔ یہ ہمیشہ موجود رہا ہے ۔ صرف انہیں اس کا شعور نہیں تھا ۔ ہندو اور مسلمان اکٹھے رہنے کے باوجودکبھی ایک قوم نہیں بنے ، ان کا تشخص ہمیشہ جدا جدا رہا ہے ۔ جونہی ایک ہندومسلمان ہوتا ہے وہ مذہبی ، سماجی ، ثقافتی اور معاشی طور پر اپنے ماضی سے کٹ جاتا ہے ۔ مسلمان اپنی انفرادیت اور تشخیص کسی بھی معاشرے میں ضم نہیں کر سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں تک اکٹھے رہنے کے باوجود ہندو ہندو اورمسلمان مسلمان رہے ہیں اوریہی پاکستان کی بنیاد ہے ۔ یورپین اورامریکی باشندوں کے اس اجتماع میں ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا خالق کون تھا تو جناح کا جواب تھا ہرمسلمان‘‘۔(علی گڑھ میں تقریر، ڈان 10مارچ1944)
قائد اعظم کے الفاظ پر کھلے ذہن سے غور کیجیے ، ان کا مدعا اور معانی کوسمجھنے کی کوشش کیجیے کیونکہ در اصل قائد اعظم نے ان الفاظ کے ذریعے اپنی تاریخ اور مسلمانوں کے فکری شعور کے سمندر کوکوزے میںبند کردیا تھا اورواضح کردیا تھا کہ مطالبہ پاکستان کسی منفی جذبے یامحرک کی پیداوارنہیں بلکہ ہماری صدیوں پر محیط تاریخ کی ایک اٹل حقیقت ہے ۔ قائد اعظم نے کئی مواقع پر کہا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں ، میں نے پاکستان کا مطالبہ کر کے فقط مسلمانانِ ہند کی دیرینہ خواہش اورقلبی آرزوکا اظہار کیا ہے جس نے مسلم لیگ کی مقبولیت کو چند برسوں کے عرصے میں چار چاند لگا دئیے ہیں ۔8مارچ کی تقریر کے بعد بھی جب ان سے کسی غیر ملکی مہمان نے پوچھا کہ پاکستان کا مصنف یا خالق کون ہے تو قائد اعظم نے وہی بات کی کہ پاکستان کے تصور کا خالق ہر مسلمان ہے یعنی یہ ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے او رہر مسلمان کاخواب ہے ۔ اب آپ ہی بتائیے کہ قائد اعظم ایک نظریاتی انسان نہیں تھے اور کیا پاکستان ایک نظریے کی پیداوار نہیں۔
بد قسمتی سے قائد اعظم کی شخصیت کے اس پہلوکی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے ۔ اس لیے میں قائد اعظم کی آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس منعقدہ 1939ء میں کی گئی تقریر کے چند فقرے نمونے کے طور پر پیش کر رہا ہوں ۔ انہیں پڑھیے اور ان الفاظ کے باطن میں جھانکیے تو آپ کو اصل جناح کا سراغ ملے گا ۔ وہ جناح جو بظاہر انگریزی بولتا ، مغربی لباس پہنتا اورمغربی طورطریقوں پر عمل کرتا تھا ، لیکن باطنی طور پر کیا تھا ۔ قائد اعظم کے الفاظ تھے:
’’ مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا ۔ دولت ، شہرت او رعیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے ۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سر بلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اورمیرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اورغداری نہیں کی ۔ میں آپ کی داد اورشہادت کا طلب گار نہیںہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرااپنا دل، ایمان اورمیراضمیرگواہی دے کہ جناح تم نے مدافعت اسلام کا حق ادا کردیا۔ جناح تم مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجا لائے ۔میراخدا یہ کہے کہ بیشک تم مسلمان پیدا ہوئے اورکفر کی طاقتوں کے غلبے میں اسلام کو سر بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے ‘‘۔
یوم ِحساب ، خدا کے حضور سر خروئی کا خیال ، مسلمانوں اور اسلام کی سر بلندی کا علم بلند کیے ہوئے مرنے کی آرزو اوررضائے الٰہی کی تمنا صرف اور صرف وہ شخص کر سکتا ہے جو سچا مسلمان ہو اور جس کا باطن خوف خدا کے نور سے منور ہو ۔ غور کیجیے کہ جب قائد اعظم نے یہ تقریر کی اس وقت ان کی عمر تقریباً53 سال تھی اوران کی شہرت اوج ثریا پر تھی۔
دراصل قائد اعظم کوزندگی بھر اقلیتوں کے مسئلے سے واسطہ رہااور وہ اس سے نمٹنے کی کوشش کرتے رہے ۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت تھے اوراس اقلیت کے سب سے بڑے رہنما محمد علی جناح تھے ۔ چنانچہ متحدہ ہندوستان کاخواب ٹوٹنے کے بعد ( جس کا نقطہ عروج 1928ء کی نہرو رپورٹ کوقرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ قائد اعظم نے اسے پارٹنگ آف دی ویز یعنی راستوں کی علیحدگی قرار دیا تھا ) قائداعظم پہلے پہل مسلمان اقلیت کے حقوق اور بعد ازاں مسلمان قوم کے حقوق کے لیے اس وقت تک مسلسل لڑتے رہے ، جدوجہد کرتے رہے جب تک قیام پاکستان کے امکانات واضح نہ ہوئے ۔ مسلمان اقلیت سے مسلمان قوم کے سفر میں 1940ء کی قرارداد پاکستان ایک طرح سے اہم ترین سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کے بعد قائد اعظم اور مسلم لیگ کا موقف یہ رہا کہ مسلمان ایک اقلیت نہیں بلکہ ہر تعریف،معیار اور تصور کے مطابق ایک قوم ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس قومیت کی اہمیت ترین بنیاد مذہب تھی۔ اسی طرح جب قیام پاکستان کا مرحلہ قریب آیا تو قائد اعظم کے لیے سب سے اہم سوال اور مسئلہ پھر اقلیتوںکا تھا کیونکہ پاکستان میں بھی کئی مذہبی اقلیتیں آباد تھیں اور ادھر ہندوستان میں بھی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی ہی تھی جس کے تحفظ کے لیے قائد اعظم پریشان رہتے تھے ۔ چنانچہ قیام پاکستان سے چند ماہ قبل اور چند ماہ بعد تکان سے بارہا اقلیتوں کے مستقبل کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے رہے جس کی وہ باربار وضاحت کرتے رہے۔ اس دور میں قائد اعظم نے جوتقاریر کیں یابیانات دیے ان کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے ان کامطالبہ اس مسئلے کے تناظر میںکرنا چاہیے۔
اس ضمن میںقائد اعظم کے ذہن اورفکر کو سمجھنے کے لیے ان کی اس پریس کانفرنس کا حوالہ دینا ضروری ہے جو انہوںنے پاکستان کا گورنر جنرل نامزد ہونے کے بعد 14جولائی 1947ء کو نئی دہلی میں کی۔ اقلیتوں کے ضمن میں ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا:
’’ میں اب تک بار بار جوکچھ کہتا رہا ہوں اس پر قائم ہوں ۔ ہر اقلیت کو تحفظ دیا جائے گا ۔ ان کی مذہبی رسومات میں دخل نہیںدیا جائے گا اوران کے مذہب ، اعتقاد، جان ومال اور کلچر کی پوری حفاظت کی جائے گی۔ وہ ہر لحاظ سے پاکستان کے برابر کے شہری ہوں گے ‘‘۔ تو قائد اعظم نے کہا :’’ آپ مجھ سے ایک فضول سوال پوچھ رہے ہیں ۔ گویا میں اب تک جو کچھ کہتا رہا ہوں وہ رائیگاں گیا ہے۔ آپ جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تومجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے اسلام کامطالعہ نہیں کیا ۔ ہم نے جمہوریت 1300سال قبل سیکھ لی تھی‘‘۔
سوال یہ ہے کہ 1300سال قبل مسلمانوں نے کون سی جمہوریت سیکھی تھی ؟ کیا وہ سیکولر جمہوریت تھی یا اسلامی جمہوریت ؟ ان دونوں تصورات میں ایک واضح فرق ہے جسے ذہن میںرکھنا چاہیے ، وہ یہ کہ مغربی جمہوریت کے مطابق مذہب اورسیاست ایک دوسرے سے بالکل الگ اور لا تعلق ہوتے ہیں ۔یہ لوگ کاانفرادی معاملہ سمجھا جاتا ہے جبکہ مسلمانوں کے نزدیک اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس لیے اس کی سیاست بھی اسلامی اصولوں کے تابع ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک ماڈرن اسلامی جمہوری ملک بنانا چاہتے تھے اور ان کے نزدیک اسلامی اورجمہوری اصولوں میں کوئی تضاد نہیں تھا ۔ قائد اعظم کی تقاریر کا مطالعہ کریں تو یہ راز کھلتا ہے کہ قائداعظم نے اپنی تقریروں میں کبھی بھی لفظ سکیولر ازم استعمال نہیں کیا جبکہ اسلام ان کی تقریروں اورتحریروںکا محور نظر آتا ہے ۔
یوں تو قائد اعظم کی تقاریرمیں بہت سے حوالے ملتے ہیںجن سے اندازہ ہوگا کہ قائد اعظم کے خیالات میں ایک تسلسل تھا اوروہ مسلسل پاکستان میں اسلامی جمہوری نظام کاتصورپیش کرتے رہے بلکہ وعدہ کرتے رہے لیکن میں اس حوالے سے چند ایک اقتباسات پیش کر رہا ہوں جن سے قائد اعظم کی سوچاورویژن سمجھنے میں مدد ملے گی:
نومبر 1945ء میں قائد اعظم نے پشاور میں کہا:
’’ آپ نے سپاسنامے میں مجھ سے پوچھا ہے کہ پاکستان میں کون سا قانون ہوگا ۔ مجھے آپ کے سوال پر سخت افسوس ہے ۔ مسلمانوںکا ایک خدا ، ایک رسولؐ اورایک کتاب ہے ، یہی مسلمانوںکا قانون ہے اور بس۔ اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا ‘‘۔
14فروری1947ء کو شاہی دربار سبی، بلوچستان میں تقریر کرتے ہوئے کہا : ’’ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوۂ حسنہؐ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام ؐ نے دیا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیاد صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں ‘‘۔
30اکتوبر 1947ء کو لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا :
’’ اگر ہم قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کریں تو بالآخر فتح ہماری ہو گی ۔ میرا آپ تمام لوگوں سے یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں‘‘۔
1948ء کو عید میلاد النبیؐ کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن کے استقبالیے میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظمؒنے وکلاء کے سامنے ان حضرات کو بے نقاب کیا جو ان کے حوالے سے غلط فہمیاں پھیلا رہے تھے۔اُس وقت قائد اعظم ؒ پاکستان کے گورنر جنرل بھی تھے اس لیے ان کے منہ سے نکلا ہؤا ہر لفظ ’’ پالیسی بیان‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا ۔ قائد اعظم کے الفاظ پر غور کیجیے اور ان الفاظ کے آئینے میں ان چہروں کو تلاش کیجیے جنہیں قائد اعظم نے شرارتی اور منافق کہا ۔
قائد اعظم نے کہا:
’’میں ان لوگوں کے عزائم نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں اور یہ پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہو گی۔ ہماری زندگی پر آج بھی اسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح 1300سال پہلے ہوتا تھا۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے اس لیے کسی کو بھی خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ‘‘۔
پھر فروری1948ء میں قائد اعظم نے امریکی عوام کے نام ایک ریڈیو پیغام میں یہ واضح الفاظ کہہ کر نہ صرف ہر قسم کے شکوک و شبہات کی دھند صاف کردی بلکہ اس بحث کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سمیٹ دیا ۔ قائداعظم نے فرمایا :
’’ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی دستور بنانا ہے ۔ مجھے علم نہیں کہ اس کی حتمی شکل و صورت کیا ہو گی ؟ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری قسم کا ہوگا جسے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا ۔ اسلام کے اصول آج بھی عملی زندگی پر اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جس طرح 1300برس قبل ہوتے تھے ۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے ۔ ہم ان شاندار روایات کے امین اور وارث ہیں اور دستور سازی میں انہی سے رہنمائی حاصل کی جائے گی بہر حال پاکستان ایک تھیوکریٹ ( مذہبی ریاست) نہیں ہوگی‘‘۔
قائد اعظم مسلسل یہ کہتے رہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ، سیرت النبیؐ ہمارے لیے اعلیٰ نمونہ ہے ، جمہوریت ، مساوات اور انصاف ہم نے اسلام سے سیکھا ہے اور اسلام نے جمہوریت کی بنیاد 1300برس قبل رکھ دی تھی اس لیے ہمارے لیے یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔ پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور یہ کہ ہمارے نبی کریم ؐ نے یہودیوں ، عیسائیوں سے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا تھا ہم اس پر عمل کریں گے ۔جولوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں رکھی جائے گی وہ سازشی اور منافق ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر تمام شکوک و شبہات کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی کہ پاکستان کا آئین جمہوری ہوگا اور اس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی ۔ گویا جہاں تک نظام ِ حکومت کا تعلق ہے قائد اعظم کا تصور پاکستان پوری طرح واضح ہے اور وہ یہ کہ قائد اعظم ؒ ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی پاکستان چاہتے تھے اور اگر وہ زندہ ہوتے تو ہمارا آئین یقینا انہی بنیادوں پر تشکیل دیا جاتا۔
قائد اعظم اور سیکولرازم
قائد اعظم ہمارے عظیم ترین محسن ہیں کہ انہوں نے اپنی صحت ، نجی زندگی ، گھر بار سب کچھ تیاگ کر ہمیں ایک آزاد خطہ زمین لے کر دیا اور انتقال سے قبل اپنی محنت سے کمائی گئی دولت بھی قوم میں تقسیم کر گئے ۔ لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ قائد اعظم ہماری تاریخ کے ایک مظلوم کردار بنتے نظر آتے ہیں ۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک ان کے نظریات ، افکار ، سیاسی و ذاتی زندگی پر بحث جاری ہے اور یہ کشتی کنارے لگتی نظر نہیں آتی ۔ اصول تو یہ ہے کہ کسی بھی عظیم سیاسی رہنما کو اس کی تقریروں ، فرمودات ، تحریروں اور سیاسی زندگی کے حوالے سے جانچا پرکھا جاتا ہے اور اپنے ذاتی ایجنڈے ، ذاتی فلسفے اور ذاتی مفاد سے بلند ہو کر اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ مگر افسوس کہ یہاں صورت مختلف ہے ۔
قائد اعظم کا نقطۂ نظر ، تصور ، جدوجہد اور وژن ان کی تقریروں سے روزِ روشن کے مانند واضح ہے ، لیکن ہمارے ہاں خاص کر گزشتہ چار عشروں سے رسم چل نکلی ہے کہ ایجنڈا بردار حضرات ان کو پورے تناظر میں سمجھنے اور ان کی سینکڑوں تقاریر و بیانات پڑھنے کے بجائے ، سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنے اپنے مطلب کے فقرے ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔ پھر انہی جملوں پر اپنے فلسفے اور اپنی خواہشات کو خول چڑھا کر مخصوص فکری ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ایسی تحریف نگاری کا یہ موضوع ایک کتاب کا تقاضا کرتا ہے ۔ مجھے قائد اعظم کے سینکڑوں حوالے اور تقاریر یاد ہیں ۔ یہاں پر صرف مثال کی خاطر عرض کر رہا ہوں کہ روزنامہ ’’ جنگ‘‘ نے کچھ عرصہ قبل ایک صاحب کا کالم شائع کیا ، جس میں انہوں نے قائد اعظم کے چند تقاریر سے من پسند اور وضع کردہ جملوں کو اپنے سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنے مطلب کے مطابق نتائج اخذ کر لیے مجھے حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ۔
مثال کے طور پر موصوف نے لکھا کہ یکم فروری 1948ء کو قائد اعظم نے امریکی عوام سے ریڈیو خطاب میں فرمایا :’’ پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا ، جس میں مُلائوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو ‘‘۔
چونکہ موصوف نے اس جملے کو خاص طور پر اپنے مقصد کے لیے منتخب کیا ہے، اس لیے قائد کے اصل الفاظ اور پورا سیاق و سباق ملاحظہ فرمائیے اور پھر ان کا اردو ترجمہ:
’’ مجلس دستور پاکستان کوابھی پاکستان کا دستور مرتب کرنا ہے ۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہو گی ، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا ، جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے ۔ آج بھی ان اصولوں کا اطلاق عملی زندگی میں وَیسے ہی ہو سکتا ہے ، جیسے کہ 1300برس قبل ہو سکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے ۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آئندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے با خبر ہیں ۔ بہر حال نوع ، پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی ، جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپائوں کی حکومت ہو‘‘۔(بزم ِ اقبال ، لاہور ،ص2694)
کالم نگار موصوف نے حضرت قائد اعظم کی تقریر کے اس مکمل پیرا گراف سے اپنی مرضی کا ایک چھوٹا ٹکڑا نکال کر ،قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے ۔ اب آپ پورا اقتباس دیکھ لیجیے ، یعنی قیام پاکستان کے پانچ ماہ بعد بھی قائد اعظم بیان فرماتے ہیں : پہلے یہ کہ ’’دستور، دستور ساز اسمبلی نے بنانا ہے ‘‘، مردا یہ ہے کہ ’’ دستور میری ذات نے شاہانہ اختیار کے ساتھ تشکیل نہیں دینا ‘‘۔ دوسرا یہ کہ ’’ وہ جمہوری ہوگا اور اسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا ‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اسلام کے لازمی اصول رو بہ عمل ہوں گے تو پھر پاکستان سیکولر کیسے ہوگا؟ تیسرا یہ کہ ’’ اسلام کے اصول1300سال بعد بھی ویسے ہی قابل اطلاق ہیں اور ہم اہل پاکستان قطعاً معذرت خواہ نہیں ہیں کہ 20ویں صدی میں آٹھویں صدی ہجری کے عطا کردہ ضابطوں کو روبہ عمل لانے سے کسی طور پر شرمائیں ‘‘۔ چوتھایہ کہ ’’ اسلام ہر شخص کے ساتھ ( یعنی غیر مسلموں کے ساتھ بھی ) عدل اور انصاف کی تعلیم دیتا ہے اور دستور سازی انہی اصولوں پر ہو گی ‘‘۔ پانچواں یہ کہ ’’ یہاں پر حکمرانی پاپائوں کی نہیں ہوگی ، جوکسی کے سامنے جواب دہ نہ ہوں اور اپنے ہر بُرے بھلے فعل کو تقدس کی مہر سے نافذ کرنے کی دھونس جمائیں ‘‘۔( ایسا اختیار یا استثنیٰ اسلام میں ِسرے سے ہے ہی نہیں ، جب کہ ایسا مذہبی اقتدار صرف عیسائیوں میں تھا ، جس سے مسلمانوں کی تاریخ کا کوئی تعلق نہیں )۔ اب آپ جناب دانشور کو دیانت اور قائد کی بصیرت کا موازنہ کر کے دیکھیے، کیا واقعی قائد کے بیان کردہ اصولی موقف سے کاٹ کر ، استعمال کردہ ٹکڑے کا وہی مطلب ہے ، یا اس کا مقصد ایک بڑی جچی تلی اور مبنی بر صداقت رائے کا اظہار ہے ؟
قائد اعظم کے یکم فروری1948ء کو امریکی عوام کے نام ریڈیو خطاب کا ذکر پڑھ کر مجھے اس لیے حیرت ہوئی کہ اسی خطاب میں قائداعظم کے ان الفاظ کو کیوں درخور اعتنا نہ سمجھا گیا، جو بنیادی اصول اور قائداعظم کے تصور پاکستان کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ذرا ان الفاظ کو غور سے پڑھ لیجیے جو امریکی عوام نے اپنے کانوں سے سنے :Pakistan is the premier islamic state(پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت ہے ) ۔ مجھے اس پر ہرگز حیرت نہیں ہوئی کہ ایک مخصوص مکتب فکر سے وابستہ یہ لوگ قائد اعظم کی تقاریر کو پڑھتے ہوئے ایسے تمام الفاظ کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اُن کا جی چاہتا ہے کہ ان الفاظ کو قائد اعظم کی تقاریر سے حذف کر دیا جائے ۔
اسی مضمون میں یہ کالم نگار مزید لکھتے ہیں:
19فروری 1948ء کو آسٹریلیا کے عوام کے نام تقریر میں قائد اعظم نے اعلان کیا ’’ پاکستانی ریاست میں مُلائوں کی حکومت (Theocracy) کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی‘‘۔یہاں پر مَیں مجبور ہوں کہ ایک مرتبہ پھر مظلوم قائد اعظم سے رجوع کروں ۔ وہ 19فروری 1948ء کو آسٹریلوی عوام کے نام ریڈیائی خطاب میں فرماتے ہیں :
مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ہزار میل کے قریب بھارت کا علاقہ ہے۔ اس قدرطویل فاصلہ ہو تو اتحاد کیسے ہو سکتا ہے ؟ میں اس سوال کا ایک لفظ میں جواب دے سکتا ہوں ،اوروہ ہے’ایمان‘۔ ایمان اللہ تعالیٰ کی ذات پر ،اپنے اوپر اعتماد اور اپنے مقدر پر بھروسا ۔ لیکن میں سمجھ سکتا ہوں کہ جو لوگ ہم سے واقف نہیں ہیں ، انہیں اس مختصر سے جواب کے مضمرات کو سمجھنے میں شاید کچھ مشکل محسوس ہو ۔لیجیے ، میں آپ کے سامنے تھوڑا سا پس منظر بیان کیے دیتا ہوں۔
(حوالہ مذکور، جلد 4،ص2687-2688)
ہماری عظیم اکثریت مسلمان ہے ۔ ہم رسول خدا محمد ؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں ۔ ہم اسلامی ملت و برادری کے رکن ہیں ، جس میں حق ، وقار اور خود داری کے تعلق سے سب برابر ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے ۔ لیکن غلط نہ سمجھیں ، پاکستان میں کوئی پاپائی نظام رائج نہیں ہے ۔ اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ اسلام ہم سے دیگر عقائد کو گوارا کرنے کا تقاضہ کرتا ہے اور ہم اپنے ساتھ ان لوگوں کے گہرے اشتراک کا پرتپاک خیر مقدم کرتے ہیں ، جوخود پاکستان کے سچے اور وفا دار شہریوں کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ اور رضا مند ہوں ۔ نہ صرف یہ کہ ہم میں سے بیش تر لوگ مسلمان ہیں ، بلکہ ہماری اپنی تاریخ ہے ، رسوم و روایات ہیں اور تصورات فکر ہیں ، وہ نظریہ اور جبلت ہے جس سے قومیت کا شعور ابھرتا ہے۔
آسٹریلیا کے عوام کے نام قائد اعظم کے اس خطاب کا یہ حصہ ملاحظہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی بات وہ یہ فرما رہے ہیں کہ ’’پاکستان کے قومی اتحاد کی بنیاد ’ ایمان‘ ہے ‘‘۔ پھر لفظ ’ ایمان‘ کی وہ تشریح فرماتے ہیں کہ ’’ اللہ تعالیٰ پر ایمان ‘‘ ۔ قائد اسی بات پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ابہام کو دُور کرنے کے لیے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ’’ یہ ملک عظیم مسلم اکثریت رکھتا ہے ‘‘۔ یہاں وہ یہ کہتے کہ ’’ مسلم، ہندو، سکھ ، عیسائی ، پارسی کیا ہوتا ہے ؟ ہم بس پاکستانی ہیں ‘‘۔ نہیں ، بلکہ وہ قیام پاکستان کی بنیاد ، مسلم اکثریت ، کی نشان دہی کرتے ہیں ۔دوسرا وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ’’پاکستان بن گیا ہے ، اب ہمارا کیا تعلق اسلام اور غیر اسلام کے سوال سے۔ اس لیے اب رہنمائی کے لیے ارسطو ، رسو، والٹیر اور ابرہام لنکن کی طرف دیکھو‘‘۔اس کے بجائے وہ بڑے واضح لفظوں میں فرماتے ہیں : ’’ہم رسولِ خدا حضرت محمد ؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں ‘‘۔ اور رسول اللہ ؐ کی تعلیمات کا مطلب محض ’ محمد علی‘ نام رکھنا نہیں ہوتا بلکہ قرآن و سنت اور حدیث رسول ؐ کی تعلیمات ہوتی ہیں ۔ پھر وہ یہ نہیں کہتے کہ ’’ سرحد اور قومیت کی بنیاد کیا ہوتی ہے ‘‘ بلکہ اس کے بجائے کہتے ہیں :’’ ہم اسلامی ملت و برادری کے رکن ہیں ‘‘ ۔ اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ’’مسلمان اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں ‘‘ اور پھر واضح کرتے ہیں کہ’’ یہاں کوئی پاپائی نظام رائج نہیں ہے ؟‘‘ اور آگے چل کر غیر مسلم شہریوں کا پورا احترام ملحوظ رکھنے کی بات کو وہ محض پاکستانی ہونے کے ناتے سے نہیں بلکہ پاکستان سے وفا داری سے مشروط کرتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کالم نگار صاحب نے جو الفاظ قائد اعظم سے منسوب کیے ہیں، وہ اپنے سیاق و سباق میں بالکل دوسرا منظر نامہ پیش کرتے ہیں ، جو عین اسلامی فکریات سے مطابقت رکھتا ہے ۔
قائد اعظم نے یہ بات 14مرتبہ کہی ہے کہ پاکستان مذہبی ریاست نہیں ہو گی اور کئی بار وضاحت کی ، جو ان کے فہم اسلام کا ثبوت ہے کہ اسلام میں مذہبی ریاست کا تصور موجود نہیں ۔ ظاہر ہے کہ مذہبی ریاست عوام پر مذہب مسلط کرتی ہے اور اقلیتوں کو برابر کے حقوق نہیں دیتی ، جب کہ اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو برابر کے شہری تصور کیا جاتا ہے اور ان پر ریاستی مذہب مسلط نہیں کیا جاتا۔ ایک واضح اور روشن مثال ریاست مدینہ ہے ۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم نے میثاق مدینہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے تحت غیر مسلموں کو برابر کے حقوق دیے گئے تھے ۔ غیر مسلموں کے حوالے سے حسنِ سلوک ، احترام ، برابری اور برداشت کی مثالیں سیرت نبویؐ میں موجود ہیں ، جس پر بہت لکھا جا چکا ہے۔ گویا اسلام یا اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے جھگڑا نہیں بلکہ اس ساری بحث اور جدوجہد کا مقصد کچھ اور ہے ۔ پاکستان ہرگزمذہبی ریاست نہیں ، بلکہ یہ اصول ہمیشہ کے لیے طے ہو کر آئین کا حصہ بن چکا کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے جس کے قوانین ، آئین ، ڈھانچے وغیرہ کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار ہو گی۔
یہی بات قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101بار اور قیامِ پاکستان کے بعد 14بار برملا اور واشگاف الفاظ میں بیان فرمائی کہ پاکستان کا آئین ، نظام ، قانون ، انتظامی ڈھانچے وغیرہ کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو حضرات پاکستان کو مذہبی ریاست بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور اس پر سیکولرازم کا غلاف چڑھانا چاہتے ہیں ، وہ بھی نا کامی کے مقدر سے ہم کنار ہوں گے ۔ قائداعظم نے بار ہا مسلمان ریاست کا لفظ استعمال کیا ، لیکن ہر بار ’مسلمان ریاست ‘ کے بعد ان الفاظ کا اضافہ کیا کہ ’’ جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار ہو گی ‘‘۔
اب ظاہر ہے کہ جس ریاست کی بنیاد اسلام ہو ، اسے اسلامی ریاست یا اسلامی ملک ہی کہتے اور سمجھتے ہیں ، اسے مذہبی ریاست نہیں کہتے ۔ لیکن سیکولرزم کے پردے میں خود دو قومی نظریے کی نفی کرنے کے درپے ان حضرات کے لیے اصل و بال جان یہ تصور ہے کہ ’’ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ‘‘ ہے ، جو ذاتی زندگی ، سیاسی زندگی ، ریاستی زندگی ، حتیٰ کہ ہر شعبے پر محیط ہے ۔اس لیے اسلامی ریاست کی سیاست، طرز حکمرانی ، قانون کی تشکیل ، تنقید اور تعبیر و غیرہ کو اسلام سے آزاد نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح مسلمان ریاست میں غیر اسلامی رسومات و عادات مثلاً شراب ، زنا ، سود ، جوا ، ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی ، استحصال ، چوری وغیرہ وغیرہ کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ گھر کی چار دیواری کے اندر آپ کیا کرتے ہیں ، یہ بندے اور اللہ کا معاملہ ہے ۔ مگر ریاست کا تعلق اجتماعی معاشرت سے ہے ، اور اس کے بارے میں ریاست کو ایک واضح تصور اختیار کرنا ہوتا ہے۔ ریاست پاکستان کے اس تصور کی تشکیل14اگست1947ء کو نہیں بلکہ طویل،جاں گسل اور صبر آزما جدوجہد کے دوران میں ہوئی تھی ۔ اس کمٹمنٹ نے پاکستان کی صورت گری کی ہے۔
تاریخی پس منظر اور قائد اعظم کی 1940ء سے 1948ء تک ساری تقاریر کے تناظر میں دیکھیں تو11اگست 1947ء کی تقریر کا مدعا فقط یہ تھا کہ اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور مذہب ان کی ترقی،تمدن اور اندازِ زندگی میں حائل ہوگا ، نہ رکاوٹ بنے گا اور غیر مسلم اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کریں گے ۔ مختصر یہ کہ ریاست ان پرمذہب مسلط نہیں کرے گی۔
کراچی بار ایسوسی سے عید میلاد النبیؐکے موقعے پر 25جنوری 1948 ء کوقائد اعظم نے بلند آہنگ الفاظ میں اعلان فرمایا کہ ’’ وہ شرارتی عناصر ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ آئین پاکستان کی بنیاد شریعت پر نہیں ہو گی ۔ اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی پر اسی طرح لاگو (Applicable) ہیں جس طرح تیرہ سو سال قبل تھے ‘‘۔ ( قائد اعظم کے بیانات ، تقاریر ، جلد چہارم ،ص2669) ظاہر ہے کہ اسلامی شریعت کا نفاذ غیر مسلموں پر تو نہیں ہوتا تھا۔ جو مذہبی عناصر شریعت کے نام پر تشدد پھیلاتے ، خدائی فوج دار بنتے اور اقلیتوں کے حقوق پر ضرب لگاتے ہیں ، وہ زیادہ بلکہ کھلم کھلا قرآن و سنت اور اسلامی شریعت کے خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔اسی طرح جو حضرات اسلام کے نام پر ’لبرل ازم‘ ’سکیولرزم‘ کی آڑ میں مادر پدر آزادی و اخلاق باختگی پھیلاتے ہیں ، وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون و ضابطے کو توڑتے اور اسلامی حدود کو پامال کرتے ہیں۔
ذہنی ارتقا انسانی زندگی کا حصہ ہے ۔ قائد اعظم کی جانب سے تحریک خلافت کی مخالفت کی گئی وجوہ تھیں۔برطانیہ سے 1934ء میں واپسی کے بعد اور خاص طور پر آٹھ صوبوں میں کانگرسی حکومت (Congress Rule) کی مسلم دشمنی پر مبنی کارروائیوں کو دیکھنے کے بعد قائد اعظم کے خیالات میں بے پناہ تبدیلی نظر آتی ہے ، جس کی بہترین جھلک مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کے 1946ء میں دہلی کنونشن کے خطاب اور قرار داد میں ملتی ہے ۔ دہلی کنونشن میں منظور کردہ قرار داد کو پڑھیے تو تصور پاکستان سمجھ میں آئے گا ۔
ہندوستانی سفیر سری پر کاش کی کتاب بہت سے جھوٹوں کا مجموعہ ہے۔ قائد اعظم کی شخصیت کے وقار کے پیش نظر، ہندوستانی سفیر گورنر جنرل کو سوالات کے کٹہرے میں کھڑا کر لے ، نا قابل فہم ہے ۔ پھرقائد اعظم جیسا کھرا انسان کیسے کہہ سکتا تھا کہ ’’ میں نے کبھی ’ اسلامی‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا ‘‘۔ قائد اعظم کو معذرت خواہانہ رویے اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی اور نہ اُن کا یہ مزاج تھا ، جب کہ وہ اسلامی نسبت کا لفظ کئی بارادا کر چکے تھے ۔ سری پر کاش نے یہ واقعہ ستمبر1947ء کا لکھا ہے ، صرف ایک ماہ بعد قائد اعظم نے پنجاب یونیورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے 30اکتوبر 1947ء کو اعلان کیا تھا:
اس امر کے لیے تیار رہیے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے اگر ضروری ہو تو اپنا سب کچھ قربان کردیں گے ۔(ایضاً ، جلد چہارم، ص2643)
یہ اعلان اہل پنجاب نے براہ راست اور اہلِ پاکستان نے بذریعہ ریڈیو سنا کہ ’’ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہو جائو ‘‘۔ کیا یہ قلعہ ہوا میں تعمیر ہونا تھا ؟ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کا عزم رکھنے والے قائد اعظم یہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ پاکستان اسلامی ریاست نہیں ہو گی ۔ میں سینکڑوں حوالے دے سکتا ہوں لیکن جنہوں نے نہیں ماننا ، انہوں نے بہر حال نہیں ماننا۔
اسی طرح یہ اصولی بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ تحقیق اور تحریر کا ایک طے شدہ اصول ہے کسی بھی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہوئے اس کی پوری شخصیت ، انداز و اطوار ، کردار وغیرہ کو ذہن میں رکھا جاتا ہے اور ایسے من گھڑت واقعات کو نظر انداز کیا جاتا ، جو اس شخص کی شخصیت سے مطابقت نہ رکھتے ہوں ، لگانہ کھاتے ہوں ۔ اللہ پاک نے عقل عام (common sense) اسی لیے دی ہے کہ اسے استعمال کیا جائے اور اس کی کسوٹی پر سچ جھوٹ کو پرکھا جائے ۔ قائد اعظم کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے ، خاص طور پر 1935ء سے لے کر ستمبر 1948ء تک ان کی شخصیت کا ہر شعبہ بے نقاب ہے ۔ ان برسوں میں قائد اعظم نے بار بار سارے ہندوستان کے دورے کیے ، بہت سی جگہوں پہ قیام کیا ۔ ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح اکثر ساتھ ہوتی تھیں ۔ قائد اعظم درجن بار سے زیادہ لاہور آئے ، ممدوٹ ولا ، فلیٹیز ہوٹل اور پھر گورنر ہائوس میں قیام کرتے رہے، لاکھوں لوگوں سے ملتے رہے ، لیکن آج تک کسی شخص نے وہ بات نہیں کہی ، جو روزنامہ جنگ کے ایک کالم نگار نے لکھی۔مَیں تحریک پاکستان اور قائداعظم کے بار بار ملنے والے سینکڑوں کارکنوں سے ملا ہوں۔ بانی پاکستان کے بارے میں کسی بھی واقعے کو ہوا دینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا اس میں سچائی ہو سکتی ہے ؟ اور کیا یہ کامن سنس کواپیل کرتا ہے ؟
یاد رہے کہ قائد اعظم سینکڑوں بار اعلان کر چکے تھے کہ پاکستان کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار ہو گی ۔ قائداعظم اصول پرست ، سچے اور کھرے انسان تھے ۔ مصلحت یا منافقت کے الفاظ ان کی ڈکشنری میں موجود ہی نہیں تھے ۔ ان کی سیاسی زندگی میں بہت سے ایسے مقامات آئے ، جب اُن کومصلحت کو بنیاد پر ایسا مشورہ دیا گیا ، جو اُن کے کھرے اصولوں کے خلاف تھا ۔ انہوں نے نقصان برداشت کرلیا، لیکن اصولوں پر سمجھوتا نہ کیا ۔وہ جن اصولوں تصورات اور وژن کا پرچار کرتے تھے ، اُن پر خود بھی سختی سے عمل کرتے تھے ۔ اس حوالے سے ان کی سوانح عمر سینکڑوں واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ یہ بات واضح رہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کہتے تھے اور اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرتے تھے ۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد صوبوں میں اسلامک ری کنسٹرکشن بورڈ یا اسلامی تعلیمات بورڈ تشکیل دیے گئے ، جن کا فرض منصبی یہی تھا کہ وہ پاکستان میں شہریوں کی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے سفارشات دیں ۔ ان بورڈوں کی سفارش پر 30ستمبر 1948ء میں پنجاب اور سرحد میں شراب پر پابندی لگا دی گئی ۔ اس پابندی کے سرکاری حکم نامے ، یعنی نوٹیفکیشن کی خبر پاکستان کرونیکل ازعقیل عباس جعفری کے صفحہ 26پر موجودہے اور پڑھی جا سکتی ہے ۔
قائد اعظم پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری جدید ریاست بنانا چاہتے تھے ۔ اسی لیے انہوں نے ایک طرف عید میلاد النبیؐ کی تقریب منعقد کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں شریعت کے نفاذ کی بات کی، تو دوسری طرف یکم جولائی 1948ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں ماہرین معیشت و مالیات سے پاکستانی نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کی نصیحت کی۔
اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب سے یہ خطاب ، قائد اعظم کی آخری عوامی تقریر تھی ، جس کے بعد بیماری نے انہیں آرام پہ مجبور کر دیا ۔ ذرا قائداعظم کے الفاظ کے باطن میں جھانکیے اور ان کا مدعا اور وژن سمجھنے کی کوشش کیجیے ۔ انہوں نے کہا :
میں دلچسپی سے اس امر کا انتظار کروں گا کہ آپ کا شعبہ تحقیق ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرے… مغربی معاشیات اور عمل ، خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مد د نہیں کر سکیں گے ۔ہمیں اپنے مقدر کوسنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا ، اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا ، جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو ۔(ایضاً ، جلد چہارم، ص2787)
اس سے ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ جب قائد اعظم نے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کا اعلان کیا تو ان کا کیا مدعا تھا ۔ وہ مغرب کے نظام معیشت کے مقابلے میں اسلامی نظام معیشت پر مبنی معاشی و معاشرتی ڈھانچہ وضع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔قائد اعظم عہد اور عزم کے پکے تھے۔ وہ زندہ رہتے تو اپنے وژن کو عملی شکل دے کر دم لیتے ، لیکن موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ مشن کی تکمیل کا انتظار نہیں کرتی ۔ اس طرح وہ مشن اگلی نسل کو منتقل ہو جاتا ہے ۔
قائد ملت لیاقت علی خان، قائد اعظم کے معتمد ترین ساتھی اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے ۔ وہ قائد اعظم کی سوچ اور وژن کا مکمل ادراک رکھتے تھے ۔ قائد اعظم کی وفات کے سات ماہ بعد دستور ساز اسمبلی میں قرار داد مقاصد پیش کرتے ہوئے ، وزیراعظم لیاقت علی خان نے یقینا قائد اعظم کے وژن کو ذہن میں رکھا ۔ جو دانش ور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’قرارداد مقاصد کا مسودہ قائد اعظم کو دکھایا گیا تھا ، لیکن انہوںنے اس کی منظوری نہ دی ‘‘ وہ جھوٹ بولتے ہیں ، کیونکہ تاریخ میں ایسے کسی انکار کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا ۔ ہمارے سیکولر دوستوں کو قائد اعظم کے حوالے سے ’ہوائیاں ، اڑانے ، بے بنیاد دعوے کرنے ، ان کی تقاریر کو سیاق و سباق سے الگ کر کے اور بعض اوقات الفاظ میں تحریف کر کے من پسند نتائج اخذ کرنے کا دائمی عارضہ ہے ۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x