ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

مجھے یاد ہے سب ذرا – نور مارچ ۲۰۲۱

ہم اپنے بڑے نانا جان کو ملنے گئے ان کا نام ڈاکٹر محمد احمد ہے ۔ باتیں کرتے کرتے کہنے لگے ہم امرتسر رہتے تھے وہاں ہمارے تین گھر تھے ایک مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا ایک رہائش کے طور پر اور ایک جانوروں کے باڑے کے طور پر ۔ اپنے علاقے کے بارے میں قیام پاکستان کے دنوں میں ہم یہی سن رہے تھے کہ یہ علاقے پاکستان میں شامل ہو ں گے لیکن بعد میں حالات ایسے بن گئے کہ پتہ چلا کہ پاکستان کو یہ علاقے نہیں ملنے ۔ میں نے ان دنوں میٹرک کیا تھا ۔ لڑکوں سے اور دوسرے لوگوں سے ملتا جلتا تھا چناں چہ حالات سے آگاہ تھا۔ ابا جان کی سوچ تھی کہ ہم پاکستان نہیں جائیں گے ۔ مگر میں ادھر اُدھر کی خبریںسن سن کر پاکستان جانے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو رہا تھا اور ابا جان سے چوری چوری قیمتی سامان کی گٹھڑیاں بنا رہا تھا اور چاہتا تھا کہ امی جان اور بہن بھائی کم از کم ضروری سامان تو ساتھ لے جانے کے لیے تیار کر لیں ، ابا جان کو بعد میں منا لیں گے ۔ لیکن ابا جان کسی کام سے گھر آئے تو انھوں نے دیکھ لیا ۔ خوب ڈانٹا اور سب گٹھڑیاںکھلوا دیں کہ ہم نے پاکستان نہیں جانا۔
پھر یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ ہمارا محلہ سارا خالی ہو گیا اور سکھوں کے جتھے جگہ جگہ لوٹ مار کرنے لگے ۔ میرے اپنے چچا زاد بھائی سراج آج بھی اس کی شکل میری آنکھوں میں گھومتی ہے ، اس کی بیگم اور دو گول مٹول پیارے پیارے بچوں کو سکھوں نے ذبح کر دیا ۔ ابا جان نے جب یہ حادثہ دیکھا اورحالات بگڑتے دیکھے تو پاکستان جانے کا ارادہ کرلیا۔ لیکن اب حالات ایسے سنگین تھے کہ سامان ساتھ لے جانا خطرے کو دعوت دینے والی بات تھی ۔ چناںچہ جانوروںکو کھول دیا اور خالی ہاتھ شائد کچھ نقدی جیب میں رکھی ، بھرے گھر کو ویسے ہی چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے ۔ گلی میں سناٹا تھا ۔تانگا کر کے ہم فیروز پور بلوچ رجمنٹ کے مرکز پہنچے وہاں ایک سپاہی میرا دوست تھا اس نے مجھے پیش کش کی تھی کہ اگر پاکستان جانا ہو تو ہمارے ساتھ رابطہ کر لینا ۔ وہاں پہنچے۔ کیمپ لگا ہوا تھا ہر طرف انسان کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے ۔ لوگ سخت پریشان تھے جس راستے سے آئے تھے وہاں جگہ جگہ لاشیں پڑی تھیں میرا دوست مجھے ایک مسجد کے مینار کے اوپر لے گیا ۔وہاں سے ہم دور دور تک دیکھ سکتے تھے ۔ ہم نے دیکھا کہ دور کی ایک بستی میں ایک مسلمان بے بسی سے سکھوں کے ہاتھوںمیں ذبح ہو رہا ہے ۔ آج بھی اس کے ہاتھوں اور ٹانگوں کا تڑپنا میری آنکھوں میں ہے کیسے وہ ذبح کیے ہوئے بکرے کی طرح تڑپ رہا تھا ۔
بالآخر ہم بلوچ رجمنٹ کے ٹرک پر لاہور پہنچ گئے راستے میں لاشیں اور ویرانی دیکھی نہ جاتی تھی ۔ جگہ جگہ قافلے پیدل جاتے بھی دیکھے چنددن ایک رشتے کے ماموںیا تایا کے گھر رہے۔میاںجی (والد) محکمہ ڈاک کے دفتر گئے ، وہاں ان کے اکائونٹ میں تین سو روپے آچکے تھے ۔ پیسے لے کر ہم نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا ایک پانچ منزلہ 3یا 5مرلے کا گھر چوک انار کلی میں خریدا ۔ اس طرح ہم ہجرت کر کے پاکستان پہنچے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے پاکستان حاصل کیا تھا وہ مقصد ہم پورا نہ کر سکے ۔ اللہ نے ہمیںبہت نعمتیں اور خوشحالیاں دی ہیں لیکن ہمارا ایمان کمزور ہو گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کی توفیق دے ۔ آمین

مریم فاروقی،/ڈاکٹر محمد احمد ممتاز

٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
1 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x