ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

اک ستارہ تھی میں – بتول فروری ۲۰۲۳

پون بی بی کے سامنے اپنے بارے میں سارے چھپے راز کھولنا چاہتی ہے مگر اسے ایک ہی ڈر ہے کہ کہیں اس وجہ سے وہ بی بی کی محبت اورآخری پناہ کھو نہ دے ۔ مگر اس سے پہلے ہی حمیرا کی شادی میں کوئی اسے دیکھ کر پہچان لیتا ہے ۔ بی بی کی بیٹی ماریہ اچانک فوت ہو جاتی ہے ۔ بی بی جب بیٹی کے گھر سے واپس آتی ہیں تو اگلے ہی دن پولیس آجاتی ہے اور پون کو گرفتار کر کے لیے جاتی ہے ۔

 

سلمیٰ بہت دیر سے انہیں دیکھ رہی تھی وہ کس قدر گھبراہٹ اور بے چینی کا شکار تھیں ۔ کبھی لیٹ جاتیں کبھی اُٹھ کر بیٹھ جاتیں ، دوبارہ لیٹ جاتیں، کبھی چادر اوڑھتیں کبھی اتار تیںجیسے کوئی فیصلہ نہ کر پا رہی ہوں ۔ سلمیٰ نے پہلی بار انہیں اتنا بے چین اور بے قرار دیکھا تھا ، اُن کا چہرہ بالکل سفید ہو رہا تھا ہونٹ خشک اور بے رنگ تھے ۔ہاتھوں میں کپکپاہٹ تھی۔وہ گلاس لیے پاس کھڑی تھی۔
’’ بی بی آپ پانی پی لیں ۔‘‘
’’ نہیں پی سکتی‘‘ وہ سر گوشی کے سے انداز میں بولی تھیں ۔’’ میرا حلق بالکل بند ہو رہا ہے ‘‘۔
وہ پھر لیٹ گئی تھیں ۔ بار بار ان کی آنکھوں کے سامنے سے ایک ہی منظر آ رہا تھا ۔ پون کو لیڈی پولیس ایک بازو سے پکڑے لے جا رہی تھی اور وہ کسی ننھی بچی کی طرح دوسرا ہاتھ روتے ہوئے اُن کی طرف بڑھا رہی تھی ۔ مگر وہ کچھ نہ کر سکیں ۔ وہ اُسے پولیس موبائل میں بٹھا کر لے گئے تھے۔
’’ بی بی اتنی پریشان تو آپ ماریہ کی وفات پر بھی نہیں ہوئی تھیں جتنی اب ہیں ‘‘۔ سلمیٰ کو اُن کی بہت فکر ہو رہی تھی۔
’’بیٹی تو اللہ کے پاس چلی گئی تھی جو ستر مائوں سے بھی بڑھ کر چاہتا ہے مگر یہ بیٹی تو انسانوں کے ہاتھ لگ گئی ہے … انسان جوپل پل رنگ بدلتے ہیں … جو لمحے بھر میں کچھ بھی بن سکتے ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں ‘‘۔ وہ بہت فکر مندی سے کہہ رہی تھیں ۔
اور پھر جیسے وہ کوئی فیصلہ کر کے اٹھی تھیں ۔ انہیں تھانے جانا ہوگا ، وہ پون کو یوں تنہا نہیںچھوڑ سکتی تھیں ۔ نجانے وہ کس حال میں تھی۔
سلمیٰ اور اس کے شوہر کو ساتھ لے کر وہ وہاں جا پہنچی تھیں اور اب تھانیدار سے بات کر رہی تھیں ۔
پون بھی اُن کی آواز سن کر سلاخوں کے قریب ہو گئی تھی۔
’’ خاتون آپ کو نہیں پتا اس نے کس چالاکی کے ساتھ سارا کھیل کھیلا ہے ‘‘۔تھانیدار ان سے کہہ رہا تھا ۔’’ وہ آپ کی ناک کے عین نیچے اتنا بڑا کھیل کھیل رہی تھی اور آپ کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی ۔ آپ کو شاید اس کی اصلیت کا نہیں پتا ، یہ وہ نہیں جو نظر آتی ہے ، بہت خطر ناک ہے… ‘‘
’’ دیکھیں آپ کوکوئی غلط فہمی ہوئی ہے ‘‘ اب بی بی کی آواز آ رہی تھی ‘‘ میں اس کے حق میں گواہی دیتی ہوں ‘‘۔
بی بی تھانیدار کو اس کے متعلق بہت کچھ بتا رہی تھیں ۔ اسے کچھ سنائی دے رہا تھا کچھ نہیں ۔مگر اُسے امید ہو چلی تھی شاید وہ اُن کی بات کایقین کر کے اُسے چھوڑ دے ۔ وہ اپنی مخصوص پر سکون آواز میں تھانیدار کو قائل کر نے کی کوششیں کر رہی تھیں مگر وہ کچھ سن ہی نہیں رہا تھا ، اپنی ہی کہے جا رہا تھا ۔ اس کی آواز خاصی بلند تھی ۔
’’ دیکھیے خاتون میرا مشورہ ہے آپ اس معاملے سے الگ رہیں‘‘۔ وہ کہہ رہا تھا ’’ یہ بڑا نازک معاملہ ہے ، یہ نہ ہو آپ کو بھی اس میں ملوث سمجھا جائے اور آپ پر بھی ایسی ہی کوئی مصیبت آجائے۔ویسے بھی اب یہ کیس ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے کیونکہ یہ معاملہ ہمارا ہے ہی نہیں ہم نے آگے اطلاع کردی ہے ۔یہ خفیہ والوں کا کیس ہے اب وہی اس کی تفتیش کریں گے ۔ تھوڑی دیر تک آجائیں گے اسے لینے … اب یہ انہی کے حوالے وہ جانیں اور اُن کا کام ! آپ ایک شریف اور سیدھی خاتون

معلوم ہوتی ہیں اسی لیے آپ سے کہہ رہا ہوں کہ آپ اس معاملے سے الگ ہو جائیں کیونکہ یہ مسئلہ آگے چل کر کوئی بھی خطر ناک رُخ اختیار کرسکتا ہے ۔ بہتر ہے آپ گھر چلی جائیں ‘‘ تھانیدار نے اپنی طرف سے بات ختم کردی ۔
’’ آپ مجھے ایک دفعہ اُس سے مل لینے دیں ‘‘ اس کی تقریر کا جیسے کوئی اثر ہی نہیں ہؤا تھا ۔ وہ بی بی کی بات پر جھنجھلا یا تو بہت تھا مگر پھر یہ سوچ کر ملنے کی اجازت دے دی کہ چلو آخری دفعہ مل لیں پھر تو شاید اُسے کبھی نہ دیکھ سکیں ۔
اس نے ایک گارڈ کو اشارہ کیا جو انہیں حوالات کی طرف لے آیا تھا ۔
’’ بی بی !‘‘ انہیں دیکھتے ہی اس کے آنسو اور بھی تیزی سے بہنے لگے تھے ’’ آپ ان کی کسی بات کا یقین مت کیجیے گا میں وہ نہیں جو یہ کہہ رہے ہیں…. جو یہ بتا رہے ہیں ‘‘وہ ہچکیوں کے درمیان بڑی مشکل سے بول رہی تھی ۔
’’ مجھے معلوم ہے مجھے سب پتا ہے ‘‘ وہ اسے تسلی دے رہی تھیں ’’تم کسی کو دھوکہ نہیں دے سکتیں ۔ تم ضرور بے گناہ ثابت ہو جائو گی ۔ بس کچھ دیر کی بات ہے ‘‘۔
’’ آپ مجھ سے ناراض تونہیں ہیں ناں ؟‘‘ وہ ڈرتے ڈرتے بولی تھی ’’ میں بہت عرصے سے آپ کو حقیقت بتانا چاہتی تھی مگر خوفزدہ تھی کہیں آپ کو کھو نہ دوں ، لیکن کل رات تو میں نے پکا فیصلہ کیا تھا کہ میں آپ کو اب سب کچھ بتا دوں گی چاہے آپ کو آدھی رات کو اٹھا کر ہی کیوں نہ بتانا پڑے مگر میری بد قسمتی کہ اس سے پہلے ہی یہ سب ہو گیا … بی بی آپ مجھ سے بالکل بھی ناراض مت ہو ئیے گا ‘‘ وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح بلک رہی تھی ۔
’’ اس بھری دنیامیں اب آپ ہی میرے لیے سب کچھ ہیں … اور کوئی نہیں ہے میرا …‘‘
’’ ایسا نہ کہو ‘‘ انہوں نے چادر کے پلو سے اس کے آنسو پونچھے ’’اللہ تمہارے ساتھ ہے وہ تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا وہ تمہیں ضرور بچائے گا بس تم ہمت نہ ہارنا حوصلہ نہ چھوڑنا ، مجھ سے بھی جو بن پڑا میں کروں گی ۔ ہر وقت تمہارے لیے دعا کروں گی ۔ انشاء اللہ تمھیں اس مشکل سے ضرور نجات ملے گی ‘‘۔
وہ اُسے تسلی دے رہی تھیں مگر وہ حیرت اور صدمے سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر انہیں دیکھ رہی تھی ۔ وہ اتنی بڑی مصیبت کا شکار تھی اور وہ اس کے لیے دعا کریں گی … صرف دعا ؟‘
اس کی مایوسی کئی گناہ بڑھ گئی ۔ بی بی اس کی ہمت بڑھانے کے لیے بہت کچھ کہہ رہی تھیں مگر اپنے آپ کو اس کے سامنے بے حد بے بس بھی محسوس کر رہی تھیں ۔ آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگانا چاہتی تھیں مگر بیچ میں سلاخیں حائل تھیں ۔ اُن کا بس چلتا تو یہیں سلاخوں کے ساتھ لگی بیٹھی رہتیں اسے ایک منٹ کے لیے بھی تنہا نہ چھوڑتیں ۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھیں کوئی انہیں یہاں نہیں رہنے دے گا۔
’’ یا اللہ اسے تیرے حوالے کیا تو ہی اس کی حفاظت کر‘‘۔
انہوں نے بہت تڑپ کر بہت بے بسی کے عالم میں اللہ کو پکارا تھا۔ بس ایک وہی تھا جو اسے مصیبت سے بچا سکتا تھا پر وہ اچھی طرح جانتی تھیں ۔
’’ بیٹا تم حوصلہ رکھو دیکھنا اللہ تمھیں ضائع نہیں کرے گا ۔ تم اللہ کی نظر میں بہت قیمتی ہو وہ ضرور تمہارے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکالے گا ‘‘۔
بی بی اُس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ہر طرح کی اُمید افزا باتیں کر رہی تھیں مگر وہ آہستہ آہستہ مایوسی کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی تھی ۔ اُسے اپنا آپ بڑا بے قیمت فالتو اوربے کار لگ رہا تھا۔ اگر پون مہر نامی لڑکی جیل کی ان سلاخوں کے پیچھے مر بھی جاتی ہے تو بھی خدا کی خدائی کو کیا فرق پڑے گا … کچھ بھی تو نہیں !
٭…٭…٭
نیند بہت گہری تھی ۔ اتنی گہری کہ کمرے میں متحرک سائے کا اُسے احساس تک نہیں ہو رہا تھا حالانکہ اُس کی نیند ہمیشہ بہت ہلکی اور محتاط ہوتی تھی۔ مگر آج کچھ مختلف تھا ۔ نجانے کیوں دماغ کے اندر لگا خطرے کا الارم کام نہیں کر رہا تھا ۔اُسے اپنا کام کرنا چاہیے تھا ورنہ کوئی بڑا نقصان بھی ہو سکتا تھا ۔وہ سایہ اب اس کے بستر کی طرف بڑ ھ رہا تھا اور اس کے ارادے خطر ناک تھے۔

وہ اُس کے قریب آکر رُک گیا تھا ، کافی دیر تک اسے دیکھتا رہا تھا جیسے تسلی کر رہا ہو کہ وہ ٹھیک جگہ پر پہنچا تھا اور یہی اس کا شکار تھا ۔ اس کے ہاتھ اس کی گردن کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اچانک ہی اس کی چھٹی حس جاگ گئی ۔ برسوں کی تربیت کام آئی ۔ اس کی آنکھ کھل گئی تھی ۔ اس نے گردن پر سختی سے جمے ہاتھ پکڑ لیے تھے ۔ گرفت بہت سخت تھی مگر پھر بھی وہ کچھ ہی دیر میں ہاتھوں کے شکنجے سے آزاد ہو گیا تھا ۔ اب دونوں میں ہاتھا پائی ہو رہی تھی ۔ اس دوران ساراکمرہ تہس نہس ہو چکا تھا ۔ وہ جو کوئی بھی تھا اس کے مقابلے کا تھا ، دونوں میں سے کوئی ہار ماننے کو تیار نہیں تھا ۔ آخر کار جب وہ اسے گرا کر اس کے منہ پر مکے مار رہا تھاتو اس نے سلاخ جیسی تیز چیز اس کے بازو کے آر پار کردی تھی اور اٹھ کر بھاگ نکلا تھا ۔ وہ اُس کے پیچھے گیا تھا مگر کچھ دیر بعد اسے احساس ہؤا کہ وہ بھاگنے میں کامیاب ہو چکا ہے اور یہ کہ اس کے بازو سے بہت تیزی سے خون بہہ رہا ہے۔ ابھی صبح کا ملگجا اندھیرا باقی تھا اور اکا دکا لوگ ادھر اُدھر دکھائی دے رہے تھے۔ وہ واپس آگیا ۔ اس کے کپڑے اپنے ہی خون سے تر ہو رہے تھے ۔ پھر وہ فرسٹ ایڈ باکس سامنے رکھے خون روکنے کی کوشش میں تھا جب اس کا ملازم شاہد آ پہنچا ۔
’’ صاحب یہ کیا ہؤا؟‘‘
وہ خون دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا ۔وہ روزانہ اسی وقت آکر اس کا ناشتہ وغیرہ تیار کرتا تھا اور پھر رات کو جاتا تھا ۔
’’ تم ذرا یہ پٹی کر دو زخم پر پھر بتاتا ہوں کہ کیا ہؤا ہے ‘‘ وہ روئی کا بڑا سا ٹکڑا بازو پر رکھتے ہوئے بولا تھا ۔
’’ میرا توخیال ہے بھائی آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے ‘‘ وہ زخم کی گہرائی دیکھ کر بولا تھا ۔
’’ نہیں ڈاکٹر کے پاس جانے کا وقت نہیںہے ۔ پھر کسی وقت چلا جائوں گا ‘‘ وہ لا پروائی سے بولا۔
پٹی ہو چکی تھی ، اس نے ایک انجکشن تیار کر کے خود ہی بازو میں لگایا تھا تاکہ درد اور جلن سے نجات ملے ۔ شاہد فرسٹ ایڈ باکس رکھنے چلا گیا تھا ۔
اس نے خون آلود کپڑے بدل کر وضو کیا اور پھر نماز سے فارغ ہو کر کچن میں آگیا جہاں شاہد ناشتہ تیار کر چکا تھا ۔
’’ بھائی یہ سب کیسے ہؤا ؟‘‘ وہ ابھی تک فکر مند تھا ’’ کون تھا جس نے اتنا گہرا زخم لگایا ہے ؟‘‘
’’ شاید کوئی چور‘‘ وہ سلائس پر مکھن لگاتے ہوئے بولا تھا ۔
’’ اگر وہ کوئی چور تھا پھر تو اسے خاموشی سے چوری کر کے چلے جانا چاہیے تھا ۔ لیکن مجھے نہیں لگتا گھر سے کوئی چیز چوری ہوئی ہے یا سامان کی تلاشی لی گئی ہے‘‘۔
بات تو وہ صحیح کر رہا تھا مگر وہ اسے یہ حقیقت بتا نہیں سکتا تھا کہ اس کے دشمنوں کی کوئی کمی نہیں تھی، یہ کوئی بھی ہو سکتا تھا اور یہ بات بالکل واضح تھی کہ وہ جوبھی تھا اس کی جان لینے آیا تھا ۔ کون تھا کہاں سے آیا تھا یہ معمہ اسے خود ہی حل کرنا تھا ، کسی کو بھی تفصیل بتا نے کا فائدہ نہیں تھا ۔ سارے مسئلے میں اُلجھ کر وہ پہلے ہی دفتر سے لیٹ ہو رہا تھا اس لیے تیار ہونے کے لیے کمرے میں آگیا تھا۔وہ جانے کے لیے بہت جلدی میں تیار ہو رہا تھا اور اُدھر فون کی گھنٹی تھی کہ مسلسل بج رہی تھی ۔
کیا مصیبت ہے ! وہ فون کی گھنٹی اوراپنی جلدی پر جھنجھلایا ہؤا تھا ۔ شرٹ کے بٹن ایک دفعہ غلط بند کر کے پھر کھول کر اب دوبارہ بند کر رہا تھا ، بازو کے زخم کی وجہ سے کوئی کام ٹھیک سے نہیں ہو رہا تھا ۔ وہ جتنی جلدی میں تھا اتنی ہی زیادہ دیر ہو رہی تھی ۔ تھوڑی دیر پہلے ہی اسد کا فون آیا تھا کہ دفتر جلدی پہنچو یہاں تو ایک چھوٹا موٹا زلزلہ آیا ہؤا ہے، ہم سب کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں ۔ آج اعلیٰ افسران کاموڈ سخت خراب ہے ایک نئے مسئلے کی وجہ سے ، اس لیے دیر سے آنے کا سوچنا بھی مت ۔
اسے بھی دفتر دیر سے جانے کا کوئی شوق نہیں تھا مگر یہ فون … اس نے غصے سے ایک بار پھر فون کو دیکھا تھا جو ابھی تک بجے چلا جا رہا تھا۔ اسی سے ثابت ہوتا تھا کہ دوسری طرف کون ہے ۔ ظاہر ہے عالیہ کے سواکوئی اور نہیں ہو سکتا ۔ اُس نے جوتے جرابیں پہننے کے بعد آگے ہو کردیکھا وہی تھی ! اسی کا نام سکرین پر آ رہا تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ وہ جب تک فون اٹھا کر اس سے بات کر نہیں لیتا۔وہ اسی طرح لگی رہے گی۔ اسے یقین تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس کے پاس بالکل بھی وقت نہیں تھا کہ پورا

گھنٹہ اس کی تقریر سنتا ۔
تھوڑی دیر بات کر کے فون رکھ دوں گا ، اس نے خود ہی حل نکالا اور آگے بڑھ کر فون اٹھا لیا۔
’’ کہاں تھے تم … اتنی دیر سے فون کر رہی ہوں ۔ اب تو میں تھانے فون کرنے لگی تھی تمہاری گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے کے لیے‘‘وہ کافی غصے میں لگ رہی تھی ۔
’’صبر صبر! ہر کوئی تمہاری طرح فارغ نہیں کہ ہر وقت فون پر چڑھا بیٹھا ہو… تیار ہو رہا ہوں دفترجانا ہے آج جلدی ہے ‘‘۔
اُس نے جلدی جلدی بتایا تاکہ وہ اس کی خیریت سے مطمئن ہو کر خود ہی فون رکھ دے مگروہ عالیہ ہی کیاجو پورا ایک گھنٹہ دماغ نہ کھائے۔
’’ میں تمہاری طرف سے بہت فکر مند ہوں ‘‘وہ وہی باتیں کر رہی تھی جو وہ روز کرتی تھی اور اُسے روز سننا بھی پڑتی تھیں ’’ تم وہاں ہو اور میں یہاں تمہارے لیے پریشان ہوں ‘‘وہ کہہ رہی تھی ’’ امی کے بعد سے تو میری فکر اور بھی بڑھ گئی ہے ۔ اتنا بڑا گھرہے کیسے سنبھالتے ہو گے اسے؟ اس کے علاوہ بھی کئی معاملات ہیں ،کیسے چلتا ہوگا سب … اور اوپر سے تمہاری یہ خطرناک نوکری !‘‘ اس کی تان ہمیشہ اس کی نوکری پر ہی آکر ٹوٹتی تھی ۔
’’ سارے زمانے میں کرنے کو تمہیں یہی کام ملا تھا ؟ ہر وقت کے اندیشے میرے دل کو کھاتے رہتے ہیں ۔ میں توکہتی ہوں تم یہاں آجائو میرے پاس دبئی‘‘ آخر میں اس نے وہی تجویز دی جو وہ اکثر دیتی رہتی تھی۔
’’ وہاں آکر کیاکروں گا ؟‘‘ جیسے جیسے دیر ہو رہی تھی عالیہ کی کال بھی لمبی ہو رہی تھی ’’ بھئی تم جاہل ان پڑھ توہو نہیںکہ تمہیں یہاں کوئی نوکری نہ ملے ۔ کوئی بھی کام کر لینا ۔‘‘
’’ مثلاً کیا کام ؟ کیا تمہاری بوتیک میں بیٹھ کر کپڑوں کی تر پائیاں کروں کاج بنائوں یا پھر بٹن ٹانکوں ؟‘‘
’’ ارے میں نے یہ کرنے کو کب کہا ‘‘ اس کی ہنسی کی آوازصاف سنائی دے رہی تھی۔
’’ مت ہنسو‘‘ وہ اور چڑ چڑا ہؤا۔
’’ دیکھو میں تمہارے لیے بہت فکر مند ہوں ‘ اُس نے اس کے غصے کے ڈر سے ہنسی روک لی تھی۔’’ مجھے کبھی کبھی بہت ڈر لگتا ہے عجیب طرح کے وہم ستاتے ہیں مجھے ‘‘ امی کی وفات کے بعد اس کی جڑواں بہن اس کے لیے بہن کم اور ماں زیادہ بن گئی تھی۔
’’ بھئی سارے لوگ مرتے ہیں ایک دن میں بھی مر جائوں گا اس میں عجیب کیا ہے‘‘ وہ لا پروائی سے بولا تھا ۔
’’ زرک ‘‘ وہ رندھی ہوئی آواز میں چیخی تھی ’’ خبر دارجو آئندہ ایسی بات کی تو ‘‘ اس کے رونے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی ۔
’’ اچھا بابا معاف کردو ‘‘ وہ اسے ناراض نہیں کر سکتا تھا ۔ پوری دنیا میں ایک وہی تو تھی اس کی رشتہ دار۔ وہ ضدی بھی تھی اور لاڈلی بھی اُسے ہر حال میں اس کی بات سننا پڑتی تھی چاہے وہ کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہو ۔
’’ اچھا کوئی اور حکم ہے تو بتائو ورنہ مجھے دیر ہو رہی ہے میں فون رکھ رہا ہوں ‘‘ وہ بات کرتے کرتے کمرے سے باہر آگیا تھا ۔
’’ نہیں اورکوئی بات نہیں ‘‘ وہ اُسی نروٹھے پن سے بول رہی تھی اور اب میں تمہیں کبھی فون کر کے تنگ نہیں کروں گی … خداحافظ!‘‘
وہ فون رکھ چکی تھی اوروہ مسکراتے ہوئے سوچ رہا تھا کل صبح پھر اس تواتر سے فون بجے گا اور عالیہ کو یاد بھی نہیں ہوگا کہ وہ اُس سے ناراض تھی۔
’’ شاہد اگر عالیہ بی بی کا فون آئے تو انہیں کچھ نہ بتانا ‘‘۔
وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولا ۔ جانتا تھا تھوڑی دیر بعد وہ گھر کے نمبر پر فون کرے گی اور اگر اسے آج کے واقعہ کی بھنک بھی پڑ گئی تو وہ شام تک یہاں ہوگی ۔ کچھ بھی ہو اسے اپنی یہ بہن بہت پیاری تھی ۔ پہلے ابو پھرامی کی وفات کے بعد وہ دونوں اپنی اپنی جگہ پربہت اکیلے ہو گئے تھے ، ابو کی وفات کے وقت تو اس کی اپنی عمر بھی اتنی زیادہ نہیں تھی پھر بھی اس نے اپنی ماں اور بہن کواپنی سب سے بڑی ذمہ داری سمجھ لیا تھا ۔وہ اچانک بہت سنجیدہ ہو گیا تھا ۔ بابا کے کاروبار کا زیادہ تر کام ان کے کاروباری دوست ہی دیکھ رہے تھے مگر وہ بھی ان کا ہاتھ بٹاتا تھا ۔ عالیہ کا جب ایک بہت اچھا رشتہ آیا تھا تو وہی تھا جس نے امی کو اس کی شادی کے لیے قائل کیا تھا ورنہ وہ ابھی اس کی شادی کرنا نہیںچاہتی تھیں۔ ویسے بھی

وہ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولا ۔ جانتا تھا تھوڑی دیر بعد وہ گھر کے نمبر پر فون کرے گی اور اگر اسے آج کے واقعہ کی بھنک بھی پڑ گئی تو وہ شام تک یہاں ہوگی ۔ کچھ بھی ہو اسے اپنی یہ بہن بہت پیاری تھی ۔ پہلے ابو پھرامی کی وفات کے بعد وہ دونوں اپنی اپنی جگہ پربہت اکیلے ہو گئے تھے ، ابو کی وفات کے وقت تو اس کی اپنی عمر بھی اتنی زیادہ نہیں تھی پھر بھی اس نے اپنی ماں اور بہن کواپنی سب سے بڑی ذمہ داری سمجھ لیا تھا ۔وہ اچانک بہت سنجیدہ ہو گیا تھا ۔ بابا کے کاروبار کا زیادہ تر کام ان کے کاروباری دوست ہی دیکھ رہے تھے مگر وہ بھی ان کا ہاتھ بٹاتا تھا ۔ عالیہ کا جب ایک بہت اچھا رشتہ آیا تھا تو وہی تھا جس نے امی کو اس کی شادی کے لیے قائل کیا تھا ورنہ وہ ابھی اس کی شادی کرنا نہیںچاہتی تھیں۔ ویسے بھی عالیہ پڑھائی میں اچھی تھی وہ ابھی مزید پڑھنا چاہتی تھی لیکن اس نے امی کو یقین دلایا کہ سہیل بہت اچھا لڑکا ہے اُسے ٹھکرانا کفرانِ نعمت ہو گا ۔ اور پھر عالیہ اگر پڑھنا چاہے تو شادی کے بعد بھی پڑھ سکتی ہے وہ اسے کبھی نہیں روکے گا۔اور یوں اس کی شادی کردی گئی ۔
شادی کے بعد وہ جلد ہی دبئی چلی گئی تھی جہاں سہیل کا کاروبار بھی تھا اور رہائش بھی ۔ وہاں رہتے ہوئے اس نے کئی طرح کے کورسز کیے تھے ، بہت کچھ سیکھا تھا اور اس کے شوہر نے ہر طرح سے اس کے ساتھ تعاون کیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ اب اس نے گھر پر ہی ایک چھوٹاسا بوتیک بنا رکھا تھا جہاں وہ اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق کام کرتی تھی۔ اب تو دو بچوںکا بھی ساتھ تھا اس لیے وہ زیادہ مصروف ہو گئی تھی ۔
اس دوران امی کی طبیعت کافی خراب رہنے لگی تھی ۔ وہ دن بدن کمزور ہوتی جا رہی تھیں مگر کبھی اپنی تکلیف اور کمزوری کا اظہار نہ کرتیں کہ بچے پریشان نہ ہوں ۔زرک نے ہر طرح سے اُن کا علاج کرایا مگر کوئی فائدہ نہ ہؤا۔ آخری وقت میں بھی وہ عالیہ کے لیے بہت فکر مند تھیں بار بار اسے تاکید کر رہی تھیں اس کا خیال رکھنا اسے ناراض مت کرنا تم دونوں کا ایک دوسرے کے سوا کوئی نہیں ایک دوسرے کواکیلا مت چھوڑنا ۔
اور پھر وہ چلی گئی تھیں ! وہ زندگی کا غمناک ترین دن تھا وہ اُسے آج تک بھول نہیں پایا تھا۔ اس دنیا میں اکیلے پن کا احساس بہت بڑھ گیا تھا۔ عالیہ دور تھی اور گھر پر ایسا کوئی نہیں تھا جو اس کے لیے فکر مند ہوتا یادعا کرتا ۔
سوچوں میں گم وہ دفتر آگیا تھا ۔ چیکنگ اور شناخت کے کئی مراحل طے کر کے وہ اندر آگیا تھا ۔
’’ تم راستہ بھول گئے ہو یا نیند میں چل کر آگئے ہو‘‘ اسد اس کا کولیگ اُسے دیکھتے ہی بولا تھا ۔
’’ اُف! ایک منٹ لیٹ کیا ہؤا ہوں کیسے کیسے لوگوں کی باتیں سننا پڑ رہی ہیں ‘‘ وہ بڑ بڑایا ۔
’’ یہاں آٹھ بجے کا مطلب سات بج کر پچپن منٹ ہے ‘‘ اسد نے اسے مزید چڑایا۔
’’ اب مجھے نوکری کے اسرار و رموز تم سے سیکھنے پڑیں گے ؟ یا اللہ یہ وقت بھی دیکھنا تھا مجھے ‘‘ وہ مزید بڑ بڑاتے ہوئے اپنے کمرے میں آگیا۔ اسد بھی ایک فائل لیے اس کے پیچھے ہی آیا ۔ ’’بھئی ہماری تو صبح سے شامت آئی ہوئی ہے۔ افسروں کے طعنے سن سن کرہمارے تو کان پک گئے ہیں ‘‘ اسد نے ایسے کانوں کوہاتھ لگایا جیسے اسے پکے ہوئے کان دکھانا چاہتا ہو۔
’’ ہمارے سینئرز کی باتوں سے تو صاف یہ نتیجہ نکلتا ہے جیسے دنیا بھر سے برے لوگوںکو ہم خود دعوت دے کر بلاتے ہیں کہ آئوہمارے ملک میں آکر تخریب کاری کے منصوبے بنائو اور ہم تمہیں گرفتار کر کے اپنی تنخواہ حلال کریں ‘‘۔
’’ ہؤا کیا ہے یہ تو بتائو ‘‘ وہ اسد کی تقریر سے اکتا گیا تھا۔
’’ ہونا کیا تھا کسی نے مقامی تھانے میں اطلاع کی تھی جس کے نتیجے میں ایک گرفتاری ہوئی ہے ۔ آج صبح سویرے ہی اسے یہاں لایاگیا ہے ۔ تمہیں جب فون کیا تھا اس سے کچھ ہی دیر پہلے عامر صاحب ہم پر خوب گرج برس کر گئے تھے ۔ بقول ان کے یہ گرفتاری ہماری کار کردگی پر سوالیہ نشان ہے، اس ادارے کواس ملک کی آنکھیں کہا جاتا ہے مگر مان لو اب ان آنکھوں پر غفلت کے پردے پڑ چکے ہیں ۔ بس کچھ مت پوچھو کیا کیا سنا کر گئے ہیں ہمیں ۔ شکر ہے تم نے یہ سب کچھ نہیں سنا بچ گئے ہو ویسے تم سے تو وہ اس طرح کی باتیں کرتے بھی نہیں ہیں لگتا ہے ڈرتے ہیںتم سے ‘‘۔
’’ مجھے اس لطیفے پر ہنسی نہیںآئی ‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہہ کر فائل لینے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا ۔
’’ ہاں یہ لے لو فائل‘‘ اسد کوجیسے پہلی مرتبہ یاد آیا کہ وہ اس کے کمرے میں کیوں آیا تھا ’’ آج ہونے والی گرفتاری سے متعلق تمام تفصیلات اس میں موجود ہیں ۔ تم دیکھ لو ۔ یہ کیس تمہیں اسائن کیا گیا ہے اور اس کیس کے حوالے سے تمام تفتیش تم کرو گے ۔ فائل دیکھ لو تو باقی تفصیلات عامر صاحب تمہیں خود بتا ئیں گے ، مل لینا ان سے ‘‘۔
’’ چلو ٹھیک ہے میں دیکھ لیتا ہوں ‘‘ ۔
مگر اس نے دیکھا کہ وہ فائل دیتے دیتے رک گیا تھا ’’کیاہؤا؟‘‘ وہ اس کی طرف بہت غور سے دیکھ رہا تھا ۔

’’ تم نے یہ سن گلاسز کس خوشی میں لگارکھے ہیں جبکہ یہاں نہ سورج ہے نہ دھوپ‘‘۔
’’اصل میں آج صبح میں نے کسی کی پٹائی کی ہے اور تھوڑی سی میری بھی ہوگئی تو نیلی پیلی آنکھ چھپانے کے لیے گلاسز لگانے پڑے ‘‘۔
’’ کون تھا کس کی پٹائی کی ؟‘‘ اسداس کی وضاحت سے مطمئن ہونے کی بجائے مزید سوال کرنے لگا تھا ۔
’’ بعد میں بتائوں گا ابھی یہ فائل پڑھنے دو ‘‘ اُس نے بات کو ٹال دیا اور فائل کھول کر دیکھنا شروع کردی ۔
پون مہر!
پہلے ہی صفحے پر لکھا نام اس نے پڑھا تھا اور اس کے دماغ نے بڑی تیزی کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا تھا ۔ ذہن میں ایک رول کال چل رہی تھی مختلف ٹیچرز کی آواز یکے بعد دیگرے اُس کے دماغ میں پون مہر کا نام لیتے ہوئے گونجی تھی۔پریزنٹ ! اور جواب میں اس کی آواز بھی اسے سنائی دی تھی ۔
ہاں اس نے یہ کال پورے دو سال ٹھیک ساڑھے نو بجے سینکڑوں بار سنی تھی ۔ دوسرے ناموں کے بیچ میں یہ نام بھی پکارا جاتا تھا ۔ اُسے صورت یاد ہونہ ہو مگر یہ نام اس نے بڑی پابندی کے ساتھ روزانہ سنا تھا اور اس کے دماغ نے یاد بھی رکھا تھا ۔ ہاں وہ کم از کم اس نام سے اچھی طرح واقف تھا۔
اور پھر اس نام کے حوالے سے ایک صورت بھی آہستہ آہستہ اُس کے ذہن میں بننے لگی تھی ۔ ساتھ ہی کئی سوال بھی اس کے دماغ پر دستک دینے لگے کیا یہ وہی ہے ؟ یا کوئی اور ہے ؟ اگر یہ وہی ہے تو پھر یہاں کیوں ہے ؟ کس طرح یہاں تک پہنچی تھی وہ ؟
اُس نے فائل بند کردی تھی ذہن میں بہت سارے سوال ایک دم سے شورمچا رہے تھے ۔ فائل کی طرف سے تو دھیان ہی ہٹ گیا تھا اور پھر اسد بھی مسلسل بولے جا رہا تھا اور زرک جانتا تھا وہ جب تک ساری رام کہانی سنا نہیں لے گا اُسے چین نہیں آئے گا فائل میں جو کچھ بھی موجود ہے وہ سب بتا کر ہی دم لے گا ۔
’’ اس کا نام کچھ عجیب سا نہیںہے ؟ ‘‘وہ کہہ رہا تھا ۔’’ پون! پہلے توکبھی نہیں سنا کیا تم نے سنا؟‘‘
’’ ہاں سنا ‘‘۔
’’ کہاں ؟‘‘
’’ ناہید اختر سے !‘‘
’’کیا ؟ ناہید اختر سے ؟‘‘اسدبھونچکا رہ گیا ۔’’یہاں ناہید اختر کا بھلا کیا ذکر !‘‘
’’ آتی ہے پوّن جاتی ہے پوّن ‘‘
اُس نے تان اڑائی ’’ کچھ یاد آیا ؟‘‘ وہ اسد کی حالت سے محظوظ ہو رہا تھا ۔
’’ اچھا تو یہ وہ والی پون ہے ‘‘ اسے بھی جیسے پرانا گیت یاد آگیا تھا۔
’’ جس نے بھی یہ نام رکھا ہے وہ ضرور ناہید اختر کا فین ہوگا ‘‘ وہ ایک نام سے کئی باتیں نکال رہا تھا ’’ ویسے بہت پڑھی لکھی ہیں محترمہ ‘‘ اس نے مزید معلومات دیں ۔
’ ہاں پڑھی لکھی تو ہے اس کا تو میں گواہ ہوں ، اگر یہ وہی ہے جو میں سمجھ رہا ہوں تو ‘‘ وہ دل ہی دل میں بولا تھا۔
’’ ویسے اسے بہت پڑھا لکھا ہونا بھی چاہیے ۔ جاسوسی کے بزنس میں بہت ہائی پروفائل ہر فن مولا قسم کے لوگ ہی آتے ہیں ۔ یہ بھی پوری ایک سائنس ہے ، نا سمجھوں گا تو یہ کام ہے ہی نہیں ‘‘۔
اسد بول رہا تھا مگر زرک جیسے اس کی بات سن ہی نہیں رہا تھا ۔ اس کا دماغ مسلسل ماضی میں گم تھا۔
’’ محترمہ حساس تنصیبات سے محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر نجانے کب سے رہائش پذیر تھیں ‘‘۔ اس کے پاس بہت ساری معلومات تھیں جنہیں وہ آج اور ابھی بتا دینا چاہتا تھا اسی لیے مسلسل بولے جا رہا تھا ۔
’’ پتہ نہیں اس نے اب تک کیا کچھ کیا ہوگا ہمیں تو اب اطلاع ملی ہے ناں ۔ چلو ٹھیک ہے میں پھر اپنا کام شروع کر رہا ہوں ‘‘ وہ فائل ایک

طرف رکھتے ہوئے بولا تھا تاکہ اسد مطمئن ہو کر اپنے کمرے میں چلا جائے اور وہ اطمینان سے سیل نمبر ۲ کی قیدی کے پاس جا کر اپنا تجسس دور کر سکے۔
یہ تو طے ہے اگر اس لڑکی پر لگا الزام درست ہے تو پھر وہ بھول جائے کہ اس کے ساتھ کسی رعایت یا نرمی کا معاملہ ہو گا ۔ اُسے اپنے کیے کی بھاری قیمت دینا ہو گی۔ یہی سوچتا ہؤا وہ اپنے آفس سے باہر آگیا تھا ۔ پھر اسی عمارت کی بیسمنٹ میں پہنچا جہاں بہت سارے سیل بنے ہوئے تھے اور ہائی پروفائل اور گھاگ قسم کے وطن دشمن افراد لائے جاتے تھے ۔ یہیں پر ان کی تفتیش ہوتی تھی ، کبھی نرمی سے کبھی سختی سے اور کبھی بہت ہی زیادہ سختی سے ۔ یہاں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات تھے ۔ اُسے جگہ جگہ اپناکارڈ دکھانا پڑا اور کوڈ ورڈزبتانے پڑے تب کہیں وہ سیل نمبر ۲ میں پہنچا تھا۔
گارڈ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا تھا ۔اندر جانے سے پہلے اس کے چہرے کے تاثرات مکمل طور پر بدل چکے تھے ، اب وہاں نہ کوئی تجسس تھا نہ ہی نرمی کے آثار ۔ اس کا چہرہ مکمل طور پر سپاٹ ہو چکا تھا بالکل ویسے ہی جیسے دوسرے مجرموں کے لیے ہوتا تھا ۔ اگر سیل نمبر ۲ کی قیدی اس کی کلاس فیلو تھی بھی تو اسے کوئی سہولت ملنے والی نہیں تھی ۔ ویسے بھی کسی طرح کی رعایت دینا اس کی پیشہ ورانہ سر گرمیوں کے خلاف تھا ۔ اس نوکری سے پہلے کی ٹریننگ اور بعد کے تجربے نے اسے چہرے کو تاثرات سے اور دل کوجذبات سے خالی رکھنا سکھا دیا تھا ۔ وہ سیل کے اندر آگیا تھا ۔ اس نے دیکھا وہ سامنے ہی ایک سٹول پر بیٹھی تھی سرجھکائے دنیا و ما فیہا سے بے خبر ! اُس نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا ۔ اب اسے مزید کسی تعارف کی ضرورت نہیں تھی ۔ وہ وہی تھی جس کا چہرہ اس نے روز دیکھا ہویا نہ ہو مگر نام بڑی پابندی کے ساتھ پورے دو سال تک سنتا رہا تھا ۔ اس کا چہرہ ہر تاثر سے خالی تھا مگر وہ دل ہی دل میں حیران ضرور تھا ۔ یونیورسٹی کی گریجوایٹ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی قابل طالب علم اس حساس ادارے کے سیل نمبر ۲ میں ملزمہ کی حیثیت سے آخر کیسے پہنچی ؟
وہ تھوڑی دیر تک سوچتا رہا اس کو کیسے پکارے ۔ یونیورسٹی میں اگر آپس میں بات چیت کی نوبت آتی تو وہ ضرور اسے آپ کہہ کر مخاطب کرتا مگر اب نہ وہ یونیورسٹی میں تھے نہ ہی کلاس فیلو کی حیثیت سے مل رہے تھے۔ یہاںوہ محض ایک ملزمہ تھی۔
’’ پون !‘‘
اس نے فیصلہ کرلیا تھا اسے کیا کہہ کر بلاناہے مگر اس نے جیسے سنا ہی نہیں تھا۔ لگتا تھا اسے سر اٹھانے یا آس پاس کا جائزہ لینے سے کوئی دلچسپی نہیں ۔
’’ تمہیں میرے کچھ سوالوں کاجواب دینا ہے ‘‘ اسے معلوم تھا وہ سن رہی تھی ’’ اوراس کے لیے مجھے تمہارا مکمل تعاون چاہیے ‘‘۔
آواز پر اس نے آہستہ آہستہ سر اٹھایا تھا اور پھر تھوڑی دیر تک اسے خالی نظروں سے دیکھتی رہی تھی ۔ زرک بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا، اس کی آنکھوں میں شناسائی کی جھلک تھی ۔ پون نے کبھی سوچا بھی نہیں تما کہ یہاں اس کا سامنا اپنے ہی کسی کلاس فیلو سے ہو گا اور وہ بھی زرک صلاح الدین سے !
پے در پے ذہنی جھٹکوں نے اس کے احساسات کو منجمد کر کے رکھ دیا تھا ۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا مگر آنکھوں میں شناسائی کے ساتھ خوف بھی تھا اور حیرانی بھی ۔ اس کا خیال تھا وہ جہاںآگئی ہے اب واپسی کسی صورت ممکن نہیں ہے ۔ اُس پر لگنے والا الزام ایسا تھا جس کی سزا موت سے کم ہو ہی نہیں سکتی تھی اور اس کے پاس اپنی بے گناہی کا کوئی ثبوت نہیں تھا حتیٰ کہ الفاظ تک اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے ۔ کوئی ساتھی کوئی مدد گار نہیں تھا ۔ اسے یقین تھا کہ اُس کے ساتھ کیا ہؤا یہ اس کے جاننے والوں کو کبھی پتہ نہیں چلے گا ۔
مگر زرک کو یہاں دیکھ کراس کی یہ خوش فہمی ہوا ہو گئی تھی اب اس کی رسوائی کی خبر ہر شناسا تک پہنچے گی ۔ اس کے لیے دنیا چھوٹی پڑ گئی تھی ۔ وہ سامنے اسی طرح کھڑا تھا کمر پر ہاتھ رکھے بغور اس کا جائزہ لیتا ہؤا ۔ دروازے پر گارڈ بھی موجود تھے ۔ وہ کسی طرح کی شناسائی ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا اور ویسے بھی دوسال ساتھ پڑھنے والی یہ لڑکی اس کے فرائض پر اثر انداز نہیں ہوسکتی تھی ۔ اسے اپنے کام اور تعلقات کو الگ رکھنا آتا تھا۔
اور دوسری طرف وہ بھی یہی سوچ رہی تھی ۔ اُس نے کوئی جان

اور دوسری طرف وہ بھی یہی سوچ رہی تھی ۔ اُس نے کوئی جان پہچان ظاہر نہیں کی تھی اور ان کی جان پہچان تھی بھی کتنی! انہوں نے تو آپس میں کبھی بات بھی نہیں کی تھی اور محض صورت آشنا ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے اور پھر جس جگہ پر وہ جس الزام کے ساتھ موجود تھی یہاں تو اس کا کوئی سگا بھی ہوتا تو اس سے لا تعلقی ظاہر کردیتا۔
’’ تم پر حساس مقامات کی جاسوسی اوردہشت گردی کے الزامات ہیں کوئی اس کا جواب تمہارے پاس ؟‘‘ وہ بڑے ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں بول رہا تھا اورآگے چل کر یہ لہجہ کیا صورت اختیار کرنے والا تھا، صاف نظر آ رہا تھا۔
’’ تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا ‘‘ وہ اس کی مسلسل خاموشی پر بولا تھا ۔’’ میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ میں یہاں ضائع کروں مجھے میرے سوال کا جواب چاہیے ۔ تم پر لگا الزام درست ہے یا نہیں ؟‘‘
’’ نہیں !‘‘ و ہ قطعیت سے بولی تھی۔
’’ مگر شواہد تو سارے تمہارے خلاف ہیں ‘‘۔
’’ مجھے نہیں معلوم آپ کے ثبوت کیا کہتے ہیں مگر میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ‘‘ وہ اپنی بات پر قائم تھی ۔
’’ اچھا تو پھر ان حساس اور اہم جگہوں سے محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر کیا کر رہی تھیں آپ ؟ اب یہ مت کہیے گا کہ قوم کے غریب اورمحروم بچوںکو تعلیم یافتہ بنانے کا شوق تھا آپ کو … آپ جیسے اعلیٰ یونیورسٹیوں کے گریجوایٹ کارپوریٹ ورلڈ میں موٹی تنخواہ والی اونچی نوکریاں ڈھونڈتے ہیں ، کسی گائوں کے پرائمری سکول میں نوکری نہیں کرتے ‘‘۔
اس کے لہجے میں بہت تیزی آگئی تھی جیسے اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہو ۔ وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بول رہا تھا ۔ پون کا دل چاہا اُس سے پوچھے تو پھر تم اس سلاٹر ہائوس میں کیا کر رہے ہو ، تم بھی تو اسی یونیورسٹی کے گریجوایٹ ہو، میری اور تمہاری ڈگری میں کوئی فرق نہیں پھر تم یہاں بے گناہوں کو زبردستی مجرم ثابت کرنے کے بزنس کا حصہ کیوں ہو؟
مگر وہ اپنے جیلر سے ایسی باتیں کر کے اسے مزید غصہ نہیں دلانا چاہتی تھی جبکہ اس کی یہ خوش فہمی کہ وہ شاید اس کے کلاس فیلو ہونے کایا لڑکی ہونے کا لحاظ کرے گا بالکل ہی دم توڑ چکی تھی اس کا چہرہ مکمل طور پر سپاٹ اورسخت تھا کسی ہمدردی یا جان پہچان کا شائبہ تک نہ تھا یوں لگتا تھا وہ بس اتنا چاہتا ہے کہ اس سے کسی طرح مجرم ہونے کا اعتراف کروائے اور اس کی فائل مکمل کر کے اپنے بڑوں کے حوالے کردے ۔ پھر وہ اسے پھانسی دیں یا زندہ گاڑ دیں اس کی بلا سے ۔
وہ ایک گھنٹے تک اس سے مختلف طرح کے سوالات گھما پھرا کر کرتا رہا تھا اور ہرجواب نے اس کی جھنجھلاہٹ اور غصے میں اضافہ ہی کیا تھا ۔ بازو کا زخم الگ اس کی جان لینے پرتلا ہؤا تھا ۔ جلن ایسی تھی کہ خدا کی پناہ اور یہ لڑکی تھی کہ ایک سوال کا سیدھا جواب نہیں دیا تھا یہی بات اس نے کہی بھی تھی۔
’’ دیکھو اگر تم میرے ساتھ تعاون نہیں کرو گی ، میرے سوالوں کا درست جواب نہیں دوگی تو تمہاری مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا‘‘۔
’’ کس طرح کا تعاون چاہتے ہیں آپ ؟‘‘ اس نے بڑی بے خوفی سے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔
’’ میں ہر سوال کا درست جواب مکمل معلومات کے ساتھ چاہتا ہوں ۔ ورنہ تم نے ابھی تک میری سختی نہیں دیکھی‘‘وہ اسے ڈرا رہا تھا ’’ اگر میں سختی کروں تو تم یہاں نہیں بلکہ کسی ٹارچرسیل میں ہو گی اوروہاں جو کچھ ہوتا ہے تم اسے دیکھ کر ہی بے ہوش ہو جائو گی ۔ بہتر ہے تم سب کچھ تفصیل کے ساتھ یہیں بتا دو تمہاری کافی ساری مشکلات آنے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گی ‘‘۔
پھروہ اسے بڑی دیر تک ڈراتا دھمکاتا رہا تھا لیکن شاید یہی کام اسے ابھی اور جگہوں پر بھی جا کر کرنا تھا اس لیے باقی کام کل پر چھوڑ کر وہ پائوں پٹختا باہر چلا گیا تھا ۔ اس ذرا سی لڑکی نے اس کا پورا ایک گھنٹہ ضائع کروا دیا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا دیکھتا ہوں کب تک اپنی اصلیت چھپاتی ہے ، اسے منہ کھولنا ہوگا۔
وہ جا چکا تھا۔ پون دیر تک سیل کے بند دروازے کو گھورتی رہی ، اس کا ذہن بالکل خالی تھا ۔ جسم میں جو تھوڑی بہت توانائی بچی تھی اس ایک گھنٹے کی انٹیرو گیشن نے وہ بھی نچوڑ لی تھی ۔ اُسے لگ رہا تھا وہ بے ہوش ہو جائے گی اور پھر پچھلے دوو دنوں کے خوف بھوک تھکاوٹ اور بے خوابی نے اپنا کام دکھایا کہ اچانک وہ ایک طرف ڈھلک گئی ۔ آخر ی احساس جو اسے ہؤا تھا وہ یہی تھا کہ وہ سر کے بل کسی بہت گہرے کنویں میں گرتی جا رہی ہے ۔

(جاری ہے )

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x