ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محترمہ اسما مودودیؒ کی یاد میں – بتول فروری ۲۰۲۳

15جنوری2023ء کی شام سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی منجھلی صاحبزادی اسما مودودی صاحبہ اپنے ابدی گھرکے لیے روانہ ہو گئیں ۔ اِنَّا للہ وَ اِنَّا الیہٖ راجعون۔
وہ ایک گوہر نایاب تھیں جو 5-Aذیلدار پارک عقب میں چھپا ہؤا تھا ۔کتنے ہی دل ان کی صحبت سے ایمان ، سکون ، اطمینان اور توکل کی دولت لے کر لوٹتے تھے ۔
اسما آپا بے حد مخلص ، اپنائیت اور محبت کرنے والی بڑی پیاری ہستی تھیں ۔ انتہائی مہمان نواز، متواضع،پروقار ،وضع دار نفیس طبیعت کی مالک تھیں ۔ ان کی شخصیت کی نمایاں خوبی ان کااللہ تعالیٰ کی ذات پر غیر متزلزل توکل تھا۔
ان کانرم ٹھہرا ٹھہرا لہجہ ، حق بات کہنے میں استقامت اور رعب ان کے عظیم والد سے مماثلت رکھتا تھا۔ انہوںنے اپنے والدین کی بھرپورخدمت کی سعادت پائی ۔ اس طرح صبر اور شکر سے بیماری کا مقابلہ کیا کہ اپنی تکلیف کا احساس ہی نہ ہونے دیا اوردرس وتدریس کا سلسلہ بھرپور طریقے سے جاری رکھا۔
ذیلدار پارک اچھرہ کے باسیوں کی خوش قسمتی کہ اُن کی صحبتِ صالح سے فائدہ اٹھانے کاموقع ملا ۔ اُن کے ساتھ جو خواتین متعلق رہیں ، ان کے دلوں میں ان کی محبت کی جڑیں بہت گہری ہیں ، اور ہمیشہ ان کے دل کے قریب اوردعائوں کا حصہ رہیں گی۔
شادی کے بعد اسما آپا ماڈل ٹائون چلی گئیں ، پھر بعد میں والدین کے گھر کے پیچھے ہی اپنا گھر بنایا اور وہاں منتقل ہوگئیں ۔ شوہربہت محبت اورخیال کرنے والے تھے ، اللہ کی رضا تھی کہ وہ شادی کے دس سال بعد خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اولاد کی نعمت کا نہ ملنا بھی ایک آزمائش تھی مگر کہا کرتی تھیں کہ میں نے صرف اللہ سے مانگا اور جب میرا اللہ اس پر راضی ہے تو میں بھی راضی ہوں ۔ شاید اللہ تعالیٰ نے اس فراغت میں اُن سے بہت سے کام لینے تھے۔
بتاتی تھیں یوں تو گھر پاس تھا مگر جب والد صاحب علیل ہوئے تو ان کے پاس چلی گئیں ۔ اُن کا کہنا تھاکہ میری کوشش ہوتی تھی کہ انہیں آوازنہ دینی پڑے اور جب بھی کوئی ضرورت ہو تو میں پاس ہی ہوں ۔ بعد ازاں والدہ کی خدمت میں مصروف رہیں ۔ آغاز میں حریم ادب کی محفل ان کے گھر منعقد ہوتی جس میں بیگم مودودی صاحبہ، بنت الاسلام صاحبہ،سعیدہ احسن صاحبہ جیسی نابغۂ روز گار ہستیاں شامل ہوتیں اور آپا اسما کی مہمانداری کالطف بھی اٹھایا جاتا ۔ اسی طرح پیر سے جمعرات 11بجے سے ایک بجے درس ِ قرآن ہوتا جس میں بیگم مودودی صاحبہ بھی شامل ہوتیں اوراہم نکات کی وضاحت فرماتیں۔
اپنی والدہ صاحبہ کی حیات کے آخری سالوں میں اسما آپا انھیں اپنے گھر ہی لے گئیں اور درس و تدریس کے ساتھ والدہ کی خدمت میں جُت گئیں۔
درس کاانداز بھی بڑا منفرد تھا ، چند آیات پر سیر حاصل بات ہوتی گہرائی سے آیات کوسمجھا جاتا ، باہمی گفتگوسے نکات ذہن نشین ہوتے ۔ ان کے لہجے میں نرمی مگر مضبوطی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات پر ایمان ،توحید ،توکل باللہ اوراس کے تقاضوں پراکثر بات ہوتی ۔ اُن کے بڑے سے پلنگ پراردگرد ڈھیروں دینی کتابیں ، اخبار ہوتے اوراکثروہ مطالعہ میں مصروف رہتیں ۔ جمعہ کادن ذکر اورعبادت کے لیے مخصوص تھا ۔
میری اُن سے شناسائی 1997ء سے 2023ء تک کے دوران رہی۔ شروع کے سالوں میں ڈاکٹر اختر حیات صاحبہ کے ساتھ مولانا ؒ کے گھر تراویح میں شرکت کا موقع ملا جب ڈاکٹر صاحبہ اور میں 12-Aذیلدار پارک کے دو الگ الگ پورشنز میں مقیم تھے ۔ یہ گھر رخشندہ کوکب صاحبہ کی

بہن کا تھا اور اردگرد اُن ہی کے رشتہ داروں کے گھر تھے (ذیلدار پارک کا نام غالباً اُن ہی کے خاندان کی نسبت سے رکھا گیا تھا )۔
بعدازاں جب ڈاکٹر اختر وہاں سے منتقل ہوگئیں تو ایک دن اسما آپا کی ملازمہ بلانے آئی ۔ بیگم مودودی کو ڈاکٹر نے انجکشن تجویز کیے تھے اور وہ کسی خاتون سے لگوانا چاہتی تھیں ۔ چنانچہ یہ شرف مجھے حاصل ہؤابعد میں بھی طبیعت خراب ہونے پر بلا لیتیں ۔ یوں یہ تعلق گہرا ہوتا گیا ۔مزید یہ کہ میری والدہ ڈاکٹر گلشن حقیق مرزا جب اسما آپا سے ملیں تو دونوں ایک دوسرے کی گرویدہ ہو گئیں ۔ امی جب لاہور آتیں اُن سے ضرورملتیں ، دونوں گھنٹوں باتیں کرتیں اور اسما آپا بہت خوش ہوتیں۔
جب ہم 2-Aذیلدار پارک میں منتقل ہوئے تو میں نے اسما آپا سے درخواست کی کہ خواتین کے لیے ایک درس عصر کے وقت میرے گھر پر رکھیں( یہ اُن کا معمول نہیں تھا کہ دوسری جگہ جائیں ) ہماری خوش قسمتی اور سعادت کہ وہ کچھ عرصہ باقاعدگی سے آتی رہیں ۔گھر قریب تھا ، ملازمہ کے ساتھ خود ہی آجاتیں اورمیں شرمندہ ہوتی کہ اکثر خواتین اُن کے آنے کے بعد تشریف لاتی تھیں ۔ کچھ عرصہ بعد انھوں نے کہا کہ یہ درس اُن کے گھر ہی رکھ لیاجائے ۔ یہ سلسلہ بھی کچھ عرصہ چلتا رہا ۔ پاس کی کچی آبادی سے بھی کافی خواتین شریک ہونے لگیں۔
درس کے بعد تازہ مشروب اور چائے کے نت نئے لوازمات گھر میں تیار کیے ہوتے جن سے تواضع کی جاتی ۔ اُن کی محبت سب کے لیے عام تھی ۔ جب بھی ملنے جاتے یوں لگتا کہ وہ ہمارا ہی انتظار کر رہی تھیں۔ ان کی گفتگو سے ہر آنے والے کے لیے اپنا ئیت کا اظہار ہوتا ۔ گفتگو میں ادب آداب کا بھی بہت لحاظ رکھتیں ۔لو گ اپنے دل کی باتیں کرنے ، مسئلوں کا حل پوچھنے ، سکون ِ قلب کی تلاش میں ، ایمان کی تجدید کے لیے آتے اور سر شار ہو کر جاتے ہر طرح کے لوگوں کے لیے ان کے دروازے خلوص سے کھلے تھے۔
ایک مرتبہ انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون سالہا سال تک درس میں آتی رہیں لیکن انہیں حجاب اختیار کے لیے نہیں کہا یہاں تک کہ انہوں نے خود ہی دل کی رضا سے اسے اختیارکیا۔
میرا انداز ہے کہ بڑے اجتماعات میں جانا ان کی طبیعت کے موافق نہ تھا ۔ ایک دفعہ ڈاکٹرز کے ایک پروگرام میں انہیں درس کی دعوت دی تو آپا حمیرہ کانمبر دے کر کہنے لگیں آپ ان کو بلا لیجیے۔
والد صاحب کے لیے صدقہ جاریہ کے طور پر اپنے اور والدین کے گھر سے متصل زمین خرید کر بہت بڑی مسجد تعمیر کرائی جس کا نام ’’مسجداعلیٰ‘‘ رکھا گیا ۔خواتین کا بھی بہت بڑا پورشن تھا جہاں تراویح ان کے ساتھ پڑھنے کی سعادت ملتی رہی ۔حافظ صاحب بہت ٹھہرٹھہرکر قرآن پڑھاتے اور یوں نماز کا فی لمبی ہو جاتی ۔ لوگ چاہتے کہ کسی اورصاحب کویہ ذمہ داری دی جائے مگر اُن کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ صاحب میرے والد صاحب کی زندگی میں تراویح پڑھاتے رہے ہیں اس لیے میں انہیں نہیں بدل سکتی۔
بقول ایک بچی کے جب ہم تھک جاتے اوردل چاہتا کہ بیٹھ کر تراویح پڑھ لیں تو آپا کو دیکھتے تو شرم آتی کہ وہ بھی تو نہیں تھکتیں اورپھرہم بھی کھڑے ہوجاتے۔
کچی آبادی کے مکینوں کے لیے جب ایک ویلفیئر سنٹر کھولنے کا ارادہ کیا تو آپا اسما کوہم نے اس کی سر پرستی کے لیے کہا اور ان کے پاس بیٹھ کردعا کے ساتھ اس کام کا آغازہؤا ۔ جب بھی سنٹر کی ڈسپنسری میں جانا ہوتا ،اکثر ان کی طرف سے سلام اورپیغام موصول ہوتا ( چونکہ اب میرا گھردور تھا ، اس لیے ملاقات کم ہوتی )۔
وہ امی کوبھی بہت یاد کرتیں اور امی بھی ان سے ضرور ملاقات کی کوشش کرتیں ۔ کچھ ماہ قبل ان کی ملازمہ ایک بڑا سا کارٹن لے کر آئی جس میں میرے لیے ان کی کتابیں تھیں ۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ گھر بیچ کریہاں سے منتقل ہو رہی ہیں ۔ یہ بھی پیغام ملا کہ وہ یاد کر رہی ہیں۔
جب میں ملازمہ کے بتانے پر C-1ماڈل ٹائون اُن کی نئی رہائش گاہ پرگئی تو مجھے پتہ چل چکا تھا کہ وہ توکئی سالوں سے علیل تھیںجس کا ہمیں علم نہیں تھا ۔ میں فکر مندی سے وہاں پہنچی تو حسب معمول ان کو ہشاش بشاش، ترو تازہ قرآن کلاس لیتے ہوئے پایاجس میں میں بھی شامل ہوگئی ۔ باقی لوگوں کے جانے کے بعد انہوں نے بہت سی باتیں کیں،پاس بیٹھ

جب میں ملازمہ کے بتانے پر C-1ماڈل ٹائون اُن کی نئی رہائش گاہ پرگئی تو مجھے پتہ چل چکا تھا کہ وہ توکئی سالوں سے علیل تھیںجس کا ہمیں علم نہیں تھا ۔ میں فکر مندی سے وہاں پہنچی تو حسب معمول ان کو ہشاش بشاش، ترو تازہ قرآن کلاس لیتے ہوئے پایاجس میں میں بھی شامل ہوگئی ۔ باقی لوگوں کے جانے کے بعد انہوں نے بہت سی باتیں کیں،پاس بیٹھ کر ساتھ کھانا کھلایا اور بہت خوشی کا اظہار کیا ۔ امی کو بہت یاد کرتی رہیں اور ان کے اخلاق کی تعریف کی ۔ پھر کہنے لگیں کہ میں سمجھتی تھی اب زندگی کی آزمائشیں ختم ہوچکی ہیں ، مگرمیرے رب کو اس آزمائش سے گزارنا تھا کہ مجھے اپنے گھر سے یہاں منتقل ہونا تھا ۔ اللہ نے چاہا کہ میں دیکھوں کہ میری بندی کا رویہ کیا ہوتا ہے ۔ اس آزمائش میں میں نے اللہ ہی سے مانگا اورکسی سے کچھ نہیں کہا، لیکن دیکھیے میرے اللہ نے میرے لیے کتنا اچھا انتظام کیا ۔ اس جگہ کوکتنی محبت سے ، میرے پیاروں نے میرے لیے سجایا ، میرے مطابق رہائش کے قابل بنایا۔اُس روز بھی تکلیف تھی مگر اس کااظہار نہ چہرے سے تھا نہ لہجے سے نہ گفتگو میں ۔ بس اللہ کی تعریف ،اللہ کی بڑائی اور اللہ کاشکر تھا۔
اس بات کے قریباً ایک ماہ بعد اطلاع ملی کہ طبیعت بگڑ گئی ، تین دن ہسپتال رہیں اور اس جہانِ فانی سے ابدی گھرکی طرف منتقل ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ ساتھیوں کی وساطت سے جنازہ کی دعا میں شرکت کاموقع عطا کیا، جبکہ حافظ ادریس صاحب پر بھی رقت طاری تھی اور حاضرین کے دلوں پر بھی اور آنکھیں اشکبار تھیں ۔ اللہ کی خاص مہر بانی کہ ایسی مہر بان ہستی کی محبت نصیب ہوئی۔
اللہ تعالیٰ ان کی بہترین میزبانی فرمائیں ، اُن کے چاہنے والوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائیں ان سے سیکھی ہوئی ہربات عمل کاحصہ بن سکے اور ایمان اور توکل کی روشنی پھیلتی چلی جائے یہاں تک کہ رب ہم سے راضی ہو اور ہم اپنے انجام سے خوش ہوں ، اللہ کے نیک بندوں کی صحبت اس دنیا کے بعد آخرت میں بھی پا سکیں آمین ۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x