ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جب پاکستانی ہونا جرم ٹھہرا! – بتول دسمبر ۲۰۲۱

کتابThe Wastes of Time کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین (1920۔1995)، اعلیٰ پائے کے دانشور ، انگریزی ادب کے استاد اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے آخری پاکستانی وائس چانسلر خود جدی پشتی ’’ بنگالی‘‘ تھے۔ اپنی نوجوانی اور طالب علمی کے زمانے میں پاکستان کی محبت میں گرفتار ہوئے ۔ زندگی بھر حُب پاکستان کی تپش میں جلتے اور پکتے رہے ۔ شکست ِ پاکستان ان کی آرزوئوں اور خوابوں کی شکست وریخت تھی ، جسے وہ زندگی بھر قبول نہ کر سکے اور بالآخر یہ صدمہ سینے سے لگائے اپنے رب کے ہاں چلے گئے ۔کتاب کے اردو ترجمہ ’’ شکستِ آرزو‘‘( منشورات) کا پہلا باب نذرِ قارئین ہے ۔

 

ابتدائیہ:
میں نے یہ یاد داشتیں 1973ء میں ڈھاکہ جیل میںقلم بند کی تھیں، جہاں مجھے پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں شیخ مجیب الرحمن کا ساتھ نہ دینے کے جرم میں قید رکھا گیا تھا ۔ میںنہ کوئی سیاست دان تھا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا کارکن ۔ البتہ میں یحییٰ حکومت کی درخواست پر 1971ء میں برطانیہ اور امریکا گیا تھا تاکہ یہ واضح کر سکوں کہ مشرقی پاکستان میں جاری جدوجہد در اصل کن دو قوتوں کے درمیان تھی ۔ ایک طرف تو وہ لوگ تھے جو پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے اور دوسری طرف وہ جو اس کے نظریے سے محبت کرتے تھے ۔
جیل میں میرا موڈ شدید غصے ، بد حواسی اور مایوسی کے امتزاج پرمبنی تھا ۔ قتل کی ایک ناکام کوشش نے مجھے جسمانی معذوری سے بھی دو چار کردیا تھا ۔ اس پرمستزادیہ کہ جو کچھ میرے عقائد اور نظریات پر مبنی تھا وہ میری آنکھوں کے سامنے مٹی میں مل چکا تھا ۔ مجھ پر اس کا خاص نفسیاتی اثر مرتب ہوا تھا ۔ دل میں یہ احساس بھی جا گزیں تھا کہ ہم ایک ایسی شکست سے دو چار ہوئے ہیں جس کے اثرات سے جان چھڑانا ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ 1971 ء میں جو تبدیلی رونما ہوئی تھی وہ میرے لوگوں کے لیے سود مند نہیں تھی ۔ اس خیال نے مجھے خاصے دبائو میں رکھا اس لیے کہ کہیں امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی ۔ اس خاص ذہنی کیفیت اور فضا میں ، میں نے ان واقعات سے متعلق یاد داشتیں قلمبند کیں جو 1971ء کے سانحے پر منتج ہوئے ۔
میری خواہش تھی کہ تمام تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر دل کی بات لکھوں۔ مگر اس بات کا کم ہی یقین تھا کہ جو کچھ دیکھا اور سنا ہے اسے ریکارڈ پر ضرور لے آئوں ۔
میں نے سچ بیان کیا ہے اور اس معاملے میں کسی دوست یا دشمن کی پرواہ نہیں کی ہے ۔ یہ سب کچھ لکھنے کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ میں بیان کر سکوں کہ ہم اس ریاست کی حفاظت کیوں نہ کر سکے جو کروڑوں انسانوں کے خوابوں کی تعبیر تھی اور جس کے حصول کے لیے ہم نے بے حساب خون ، پسینہ اور آنسو بہائے تھے ۔ منافقوں کی موقع پر ستی سے بھی میں بہت رنجیدہ تھا ۔میں نے ایسے بھی بہت سے لوگ دیکھے تھے جو آخری لمحات تک متحدہ پاکستان کے حامی تھے ، مگر بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کے بعد ’’ فاتحین‘‘ کو یقین دلانے میں مصروف ہو گئے کہ انہوںنے بھی اسی دن کا خواب دیکھا تھا۔
میں 20دسمبر کو موت کے منہ سے کیسے نکلا؟
مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ اس کتاب کو لکھنا میرے لیے ایک ایسے سفر پر روانہ ہونے کے مترادف تھا جس کی سمت یا منزل متعین نہ ہو ۔ میں آپ بیتی پیش کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ مجھے

عتراف ہے کہ میری 74سالہ زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو محفوظ کرکے آئندہ نسلوں تک منتقل کیے جانے کے قابل ہو ۔ بے شک میں قومی زندگی کے چند اہم واقعات کا شاہد ہوں اور بس ! ان واقعات میں میرا کردار اس قدر غیر اہم ہے کہ اس کی بنیاد پر کچھ لکھنا میرے لیے مشکل ہے۔ میرے دل میں شہرت حاصل کرنے کی تمنا بھی نہیں ہے ، بلکہ میں تو اس بات سے بھی خوفزدہ رہتا ہوں کہ کہیں ضرورت سے زیادہ لوگوں کی توجہ کا مرکز نہ بن جائوں ۔ مجھے تسلیم ہے کہ جس ڈرامے کے پیچ و خم میں اپنے آپ کو الجھا ہوا پاتا ہوں اس میں کوئی کردار پانے کی میں نے کبھی کوئی شعوری کوشش نہیں کی اور پھر میرے پاس ہے ہی کیا جو قارئین کی توجہ کا مرکز بنے۔
اس کتاب کو لکھتے وقت میرے ذہن میں کوئی قاری نہیں ۔ میں جیل میں ہوں اور غیر یقینی حالات نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ پورے یقین سے کہا نہیں جا سکتا کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں وہ جیل سے باہر جا بھی سکے گا یا نہیں اور اگر گیا تو کوئی ناشر اسے شائع کرنے کی ہمت بھی کر پائے گا یا نہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مسودہ ( مغربی ) پاکستان تک پہنچنے میں کامیاب ہو مگر سوال یہ ہے کہ وہاں کوئی بھی ناشر اس کتاب کو شائع کرنے میں کیوں دلچسپی لے گا ؟ میں کوئی ممتاز سیاسی شخصیت تو ہوں نہیں جس کے نظریات میں کسی کو دلچسپی ہو ۔ اس میں شک نہیں کہ قارئین تاریخی واقعات میں گہری دلچسپی لیتے ہیں ۔ مگر میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ جو کچھ ملک اور قوم پر گزر گئی ہے اس کا تجزیہ کر سکوں ۔ تاریخی واقعات کے تجزیے کے لیے جو کچھ درکار ہوتا ہے وہ میرے پاس نہیں ہے اور کچھ تو جانے دیجیے میری رسائی تو اپنی ڈائریوں تک بھی نہیں ۔ جبل میں ایک کتب خانہ تو ہے مگر اس میں رکھی ہوئی کتابیں زیادہ کار آمد نہیں ۔ ملک اور قوم کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل واقعات کو محض حافظے کی بنیاد پر ریکارڈ کرنا انتہائی خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے ۔ ایسے میں قدم قدم پر لغزش سرزد ہو سکتی ہے ۔ تاریخی اہمیت کی حامل شخصیات اور مقامات کے ناموں میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے ۔ بہت کچھ گڈ مڈ ہو کر رہ جاتا ہے ۔ مصنف جہاں روشنی پھیلانے کی کوشش کرنا چاہتا ہے وہاں اندھیرا پھیلنے لگتا ہے ۔ رہنمائی کی کوشش لوگوں کو گمراہ کر دیتی ہے ۔ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ لوگوں کی الجھن میں اضافہ کروں یا بد گمانی کے جال میں پھنسادوں ۔
پھر میں کیوں لکھنے بیٹھ گیا ہوں ؟ سچ تو یہ ہے کہ جیل کی چار دیواری میں جو گھٹن اور بیزاری شدت سے محسو س ہوتی ہے اس سے باہر نکلنے کے لیے لکھ رہا ہوں ۔ یادوں کا سہارا لے کر چند واقعات قلم بند کرنے بیٹھا ہوں ۔ خاصے تذبذب کے بعد میں نے خود کوکچھ لکھنے کے لیے تیار کیا ہے۔ انسان ہر وقت صرف مطالعہ ہی نہیں کر سکتا ۔ ذہن میں جو کچھ ابھرتا ہے اسے قلم بندکرنا بھی تو ضروری ہوتا ہے ۔ جیل کے کتب خانے میں موجود کتابیں مطالعے کے ذوق کو زیادہ پروان نہیں چڑھاتیں ۔ یہاں چند سوانح ہیں ، کچھ مذہبی کتابیں اور بعض سنسنی خیز ناول اور بس ۔ اگر کوئی کتاب اچھی لگے اور آپ پڑھنے میں بھرپور دلچسپی لینے لگیں تو سارا جوش و خروش اس وقت ختم ہوجاتا ہے جب اس کی دیگر جلدیں ہاتھ نہیں آتیں ! جیل میں سطحی قسم کا مطالعہ جلد یا بہ دیر عدم دلچسپی پر ہی منتج ہوتا ہے اور قیدی ایک بار پھر اپنے آپ کو اسی شکنجے میں پاتا ہے جس سے بھاگنے کے لیے مطالعے کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔
میں یہ سوچ کر لکھنے بیٹھ گیا ہوں کہ شاید کوئی ایسا مسودہ دنیا کے سامنے آئے جس میں بیسیوں صدی کے آخری حصے کے پاکستان کے حالات کے حوالے سے ذرا مختلف کوئی بات ہو ۔ ہو سکتا ہے کہ میں دوسروں سے ہٹ کر ، کوئی منفرد چیز پیش کر سکوں ۔ گو کہ امید موہوم ہے مگر ہے تو امید ۔
جب میں ڈھاکہ سینٹرل جیل کے اس حصے میں جسے نیو ٹوئنٹی کہا جاتا ہے ، اپنے سیل نمبر ۲میں بیٹھا جیل کے مجموعی ماحول کے بارے میں سوچتا ہوں توحیرت سی ہوتی ہے ۔ جو کچھ ہم پر واقعی گزر گئی ہے وہ سب کچھ بھی غیر حقیقی سا محسوس ہوتا ہے ۔ یہ دسمبر 1971 کی بات ہے جب مسلح نوجوانوں کا ایک گروہ میرے گھر میں گھس آیا اور مجھے گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے گیا ۔ وہ مسلح تھے جبکہ میں مزاحمت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ گروہ کے سرغنہ نے حکم دیا کہ ہتھیار ان کے حوالے کر دیے

جائیں۔ میں نے بتایا کہ ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہیں ۔
یہ19دسمبر کی بات ہے ۔ میں اپنے گھر کی بالائی منزل پر کمرے میں بیٹھا اپنی بڑی بیٹی سے باتیں کر رہا تھا کہ اچانک نیچے کچھ شور سا سنائی دیا۔ میں نے جھانک کر دیکھا چند مسلح نوجوان میری بیوی اور کزن سے کسی بات پر بحث کر رہے تھے ۔ وہ اوپر آنے کی کوشش کررہے تھے ۔ میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ مجھے لینے آئے ہیں اس لیے میں نے نیچے جانے کاسوچا ۔ مگر پھر جان بچانے کے فطری جذبے سے مغلو ب ہو کر میں دوبارہ کمرے میں گھس گیا ۔ میری بیٹی نے باہر سے کنڈی لگا دی ۔ اس نے کہا کہ کسی بھی حالت میں باہر مت نکلیے گا ۔ مجھے اندازہ ہ گیا تھا کہ مزاحمت سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا ۔ جو گروہ مجھے لینے آیا تھا وہ مجھے لیے بغیر کیسے جاتا ۔ میں نے بہت کوشش کی مگر بیٹی نے کنڈی نہ کھولی ۔ اتنے میں اُن لوگوں نے لکڑی کا دروازہ توڑ ڈالا ۔ ایک نے مجھے کالر سے پکڑ ا اور گھسیٹتا ہؤا نیچے لے گیا ۔ گلی میں ایک جیپ کھڑی تھی ۔ مجھے اس میں ڈال دیا گیا ۔ میں سمجھ گیا تھا کہ اب میں گھر والوں سے شاید دوبارہ نہ مل پائوں ۔ محلے اورعلاقے کے لوگ یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔جیپ گلی کے نکڑ پر پہنچ کر مڑی اور ناظم الدین روڈ پرڈھاکہ جیل کے شمال مشرقی کونے سے آگے بڑھ کر بخشی بازار سے ہوتی ہوئی یونیورسٹی کیمپس کی طرف جانے لگی۔ وہ آپس میں باتیں کررہے تھے کہ کیا میں وہی ہوں جسے وہ لے جانے آئے تھے ۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ ان کا اندازہ درست ہے ۔ میں انہیں اپنی شناخت کے حوالے سے خواہ مخواہ پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ میں خاصا خوفزدہ ہو گیا تھا مگر پھر یہ سوچ کر دل کو بہلاتا رہا کہ ہو سکتا ہے کہ مجھے صرف پوچھ گچھ کے لیے لے جایا جا رہا ہو ۔ کچھ ہی دیر میں ہم سائنس اینیکسی بلڈنگ تک پہنچ گئے۔ جیپ میں 6افراد سوار تھے۔ یہ لوگ مجھے جیپ سے اتار کر اندر لے گئے اور ایک کمرے میں پہنچ کر دروازہ اندر سے بند کردیا ۔ جس نوجوان نے مجھے کالر سے پکڑ کر گھسیٹاتھا اس نے بتایاکہ وہ چار پانچ سال قبل ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ایک مرتبہ اس نے مجھے پٹائی سے بچایا تھا مگر ساتھ ہی افسوس بھی ظاہر کیا کہ میں ان چار پانچ برسوں میں سدھر نہیں سکا تھا !اور اب پاکستانی فوج اورحکومت کا ساتھ دینے کی پاداش میں مجھے موت کو گلے لگانا تھا ۔ جب میں نے پوچھا کہ مجھے اس طرح پکڑ کر کیوں لایا گیا ہے تو الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی ۔ سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ میں فوج کے ہاتھوں اساتذہ اورطلبا کی موت کا ذمہ دار تھا ۔ انہوں نے مجھ پر فوج کو لڑکیاں سپلائی کرنے کا الزام بھی عائد کیا ۔ یہ تمام الزامات میرے لیے سوہانِ روح تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ مارنا ہے تو مار ڈالو، مگر یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور یہ کہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی خاطر میں مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار ہوں ۔
کچھ ہی دیر میں انہیں یقین ہو گیا کہ مجھ سے بحث کرنا لا حاصل ثابت ہوگا ۔ انہوں نے میری شرٹ ، بنیان اور پینٹ اتاری ، میرے ہی رومال سے میرے ہاتھ پشت پر باندھے اور پھر چمڑے کے ایک پٹے سے مجھے مارنا شروع کیا ۔ انہوںنے میرے گھٹنوں پربھی مارا جس سے جوڑ دکھنے لگے ۔ جب وہ مجھے مارتے مارتے تھک گئے توایک نوجوان کو میری نگرانی پر مامور کر کے چلے گئے ۔ جاتے جاتے انہوں نے باہر سے کنڈی بھی لگا دی۔
شدید زدو کوب کے نتیجے میں میری حالت غیر ہو چکی تھی ۔ میں نے اس نوجوان سے پانی مانگا۔ اس نے ایک کپ میں پانی دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ آنکھ سے پٹی ہٹا دے ۔ اس نے ہچکچاتے ہوئے پٹی سرکائی ۔ وہ بیس بائیس سال کا تھا اور ضلع میمن سنگھ کے کسی دیہی علاقے میں کالج میں پڑھتا تھا ۔ اس نے میری حالت پر افسو س کا اظہار کیا ۔ میری گرفتاری کا سبب تو اسے بھی معلوم نہ تھا ۔ اس نے بتایا کہ مجھے گروپ کمانڈر کے حکم پر گرفتار کیا گیا تھا ۔ اس نے انکشاف کیا کہ پاکستانی فوج کی جانب سے اچانک ہتھیار ڈالنا حیرت انگیز معاملہ تھا کیونکہ مکتی باہنی کے لیڈر اور بیشتر کارکن تو لڑتے لڑتے ہمت ہار چکے تھے اور فتح کاخیال بھی دل سے نکال چکے تھے ۔
نوجوان یقین دلاتا رہا کہ مجھے قتل نہیں کیا جائے گا ۔ اس کے بقول مجھے الزامات کا جواب دینا ہوگا ۔ وہ یقین دلا رہا تھا کہ کم از کم وہ میرے قتل کے احکام پر عمل نہیں کرے گا ۔ یہ تمام باتیں محض دل کے

بہلانے کے لیے تھیں اگروہ لوگ مجھے مارنے کا فیصلہ کر ہی چکے تھے تو پھر کوئی ایک با ضمیر معترض ان کا کیا بگاڑ سکتا تھا ۔ میں بہر حال اس بات سے مطمئن اور خوش تھا کہ شدید نفرت اور تعصب کے اس ماحول میں کم از کم ایک نوجوان تو ایسا ہے جس کے سینے میں دل اب تک دھڑک رہا ہے اور احساسات نے دم نہیں توڑا۔ میں نے اسے بتایا کہ کس طرح میں نے راج شاہی یونیورسٹی میں بہت سے نوجوانوں کو فوجی کارروائی سے بچایا ۔ اس نے دو تین مرتبہ واضح الفاظ میں مجھے یقین دلایا کہ وہ مجھے کسی حال میں قتل نہیں کرے گا ۔
دروازے پر دستک ہوئی اور کوئی اندر آیا پھر اس کے بعد کئی اور افراد بھی کمرے میں آگئے ۔ میری آنکھوں پر دوبارہ پٹی باندھ دی گئی ۔ جب میں نے آنکھ سے پٹی ہٹانے کے لیے کہا تو ایک نوجوان نے مغلظات سے نوازنا شروع کر دیا ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ جس خدا کی تم عبادت کرتے ہو وہ بھی تمہیں بچانے نہیں آئے گا ۔ میں خاموش رہا ، کیا کہہ سکتا تھا ۔ وقت گزرتا چلا گیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی گھنٹے گزر گئے ۔ پھر کمرے کی بتیاں جلا دی گئیں ۔ شاید رات ہو چکی تھی ۔ کیا مجھے قتل کرنے کے لیے رات کا انتظار کیا جا رہا تھا ؟ رات کے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے جب گاڑیوں کا شور برائے نام رہ گیا ایک شخص آیا اور میرے ہاتھ پائوں باندھ کر مجھے لے چلا۔میں نے پوچھاکہ کہاں لے جا رہے ہو ۔ تو وہ بولا ’’ مسٹر وائس چانسلر! آپ بہت جی چکے‘‘۔ اس کا خیال تھا کہ 14جون کوڈھاکہ یونیورسٹی میں منیر الزماں اور دیگر اساتذہ اور طلبہ کے قتل عام میں میرا ہاتھ تھا ۔ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ نومبر میں خواتین کے ہال پر چھاپے کی سازش کا جال بھی میرا بچھایا ہوا تھا ۔ میری تردیدکو جھوٹ قرار دے کرمسترد کردیا گیا ۔ کئی راہداریوں سے گزار کر مجھے ایک اور کمرے میں پہنچا دیا گیا ۔ رسی کے جس ٹکڑے سے میرے ہاتھ باندھے گئے تھے اس کا دوسرا سرا ایک کھمبے سے باندھ دیا گیا ۔ پہلے مجھے فرش پر بیٹھنے کا حکم دیا گیا ۔ پھر بینچ پر بیٹھنے کی اجازت مل گئی ۔ دو افراد میری نگرانی پر مامور تھے۔ وہ کچھ دیر تو آپس میں کچھ کھسر پھسر کرتے رہے ، پھر ان میں سے ایک نے بستر ، کمبل اور تکیہ نکالا اور چند ہی لمحوں کے بعد خراٹے لینے لگا ۔
اب مجھے اس بات کا مکمل یقین ہو گیا کہ یہ لوگ مجھے قتل کر دیں گے ۔ میرا خیال تھا کہ میری سزائے موت پر عمل کے لیے صبح کا وقت چنا گیا ہے جیسا کہ دنیا بھر میں بالخصوص جبر پسند معاشروں میں ہوتا ہے ۔ جب اس بات کا یقین ہو گیا کہ میں بھاگنے کی کوشش نہیں کروں گا تو مجھے پکڑ کر لانے والوں نے مجھ سے وہی سلوک روا رکھنا شروع کر دیا جو بلی چوہے سے روا رکھتی ہے ! وہ چاہتے تھے کہ مجھے موت کا یقین ہو جائے ۔ یہ بھی اذیت دینے ہی کا ایک طریقہ ہے ۔
میں خاموشی سے تقدیر کے لکھے کا انتظارکرتا رہا ۔ میرے جوڑوں میں شدید درد ہو رہا تھا ۔ کلائی میں رسی اس زور سے باندھی گئی تھی کہ گوشت میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی تھی ۔ میں تکلیف محسوس کیے بغیر پہلو بھی نہیں بدل سکتا تھا ۔ جو چپل میں نے پہن رکھے تھے وہ پیروں سے نکل چکے تھے۔ مگر خیر مجھے پیر پسار نے کا موقع ملا اور خاصی راحت محسوس ہوئی ۔ میں نے کئی بار پہلو بدلاتاکہ سکون ملے مگر احتیاط کے ساتھ کہ کہیں کسی پہرے دار کی آنکھ نہ کھل جائے۔
اب میں حالات کی تبدیلی پر غور کر رہا تھا ۔ جو کچھ رونما ہو رہا تھا اس پر مجھے خاصی حیرت ہو رہی تھی ۔ چوبیس سال قبل کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ ملک ایسی صورت حال سے دو چار ہو گا ۔ تاریخ حیرت انگیز واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوتا ہے تو ہمیں حیرت ہوتی ہے ۔ 15دسمبر کو فضائی کارروائی کے بعد مجھے وائس چانسلر کی سرکاری رہائش گاہ سے 109ناظم الدین روڈ پر اپنے گھر منتقل ہونا پڑا ۔ حالات ابتر تھے مگر پھر بھی امید تھی کہ سب کچھ درست ہو جائے گا ۔ دنیا بھر میں تشدد کے ذریعے ریاستی نظام کو پلٹنے کی مثالیں موجود تھیں مگر ہماراایسا کوئی تجربہ نہ تھا ۔ ہمیں نہ جانے کیوں یقین تھا کہ جو کچھ جنوبی امریکا اور مشرق وسطیٰ میں ہوتا رہا ہے وہ ہمارے ہاں کبھی رونما نہیں ہوگا ۔ پتا نہیں کیوں ہم سمجھتے تھے کہ ہماری سر زمین ایسی تمام تبدیلیوں سے محفوظ رہے گی۔
رات گئے کہیں دور اکا دُکافائر اور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آتی رہیں ۔ کبھی کوئی موٹر رکشہ گزرتا تھا تواس کی آواز بھی نمایاں سنائی دیتی

تھی ۔ میں گھر والوں کے بارے میں سوچتا رہا ۔ میں جس حالت میں انہیں چھوڑ آیا تھا اس میں اگر وہ ہمت نہ ہارتے تو بڑی بات تھی ۔ ہمارا کوئی ذاتی مکان تھا نہ بینک بیلنس ۔ میں اس بات پر سخت افسردہ تھا کہ میرے گھر والے بے یارو مدد گار رہ گئے ۔ مجھے اس بات کا بھی دکھ تھا کہ میں نے ان کے لیے کسی اضافی آمدنی کا اہتمام کیوں نہ کیا ۔ یہ درست ہے کہ میں نے ایمانداری سے کام کیا تھا اور کبھی ناجائز ذرائع سے کچھ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی مگر اس سے اہل ِخانہ کو کیا فائدہ پہنچا تھا ؟ میرے پاس اہل خانہ کو اللہ کے حوالے کرنے کا سوا چارہ نہ تھا ۔ اللہ پر مکمل بھروسہ تھا مگر پھر بھی میں رات بھر اپنے گھر والوں کے بارے میں ہی سوچتا رہا ۔
پاکستان میرا آئیڈیل تھا ۔ اس کا ٹوٹنا میرے لیے سخت صدمے کا سبب تھا ۔ میں سوچتا رہا کہ اگر میں اس صورت حال سے نکل کر زندہ بھی رہا تو اپنے خوابوں کے ملبے پر کس طور پر زندگی بسر کر سکوں گا ۔ جن خوابوں پر میری زندگی کا مدار تھا ان کا مضحکہ اڑانے والے معاشرے میں زندہ رہنا کسی صورت آسان نہ تھا ۔ زندہ رہنے اور کچھ کر گزرنے کے لیے انسان کے پاس کوئی نہ کوئی آدرش تو ہونا ہی چاہیے۔ نظریہ پاکستان ہمارے لیے سب کچھ تھا ۔ یہ ہمارے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھا ۔ اس سے ہٹ کر زندہ رہنا ہمارے لیے نا قابل تصور تھا۔
ای ایم فورسٹر(E.M.Forster) نے لکھا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو پہچانیں اور قریب آئیں تو ان کے درمیان پائی جانے والی اجنبیت اور نفرت دم توڑنے لگتی ہے ۔ اس کے لیے اس نے صرف رابطے ’’ اونلی کنٹیکٹ‘‘(Only contact)کا لفظ استعمال کیا ۔ مگر میرا مشاہدہ ہے کہ بحرانی کیفیت میں لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں ، جنہیں اچھی طرح جانتے ہیں انہی کے خلاف صف آرا بھی ہو جاتے ہیں ۔ میں یہ کیسے بھول سکتا ہوں کہ جن لوگوں نے مجھے یر غمال بنایا وہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابق طلبا تھے اور مجھے اچھی طرح جانتے تھے ۔ میں نے ہمیشہ تشدد اور ایذا رسانی کی مخالفت کی تھی مگر ان باتوں سے مجھے دی جانے والی اذیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
رات بھر میرے ذہن میں طرح طرح کے خیالات ابھرتے ، ڈوبتے رہے ۔ میری نگرانی پر مامور دونوں نوجوان خراٹے لے کر سوتے رہے ۔ ساری رات میرے کمرے کے باہر جیپیں اور کاریں آتی جاتی رہیں ۔ میرا اندازہ تھا کہ مجھ جیسے دوسرے اور بہت سے لوگوں کو بھی یر غمال بنا کر لایا گیا ہوگا ۔ میری نگرانی پر مامور ضلع میمن سنگھ کے نوجوان نے بتایا تھا کہ یونیورسٹی کیمپس کو مکتی باہنی کے کیمپ میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔ کبھی کبھی ہمارے کمرے کے باہر سے کچھ لوگ ٹولیوں کی شکل میں مارچ کرتے ہوئے گزرتے تھے ۔ ان کے قہقہوں سے راہداریاں گونجتی رہی تھیں ۔ وہ فتح کا جشن منا رہے تھے ۔
حالات بہت خراب تھے ۔ موت کا خوف بھی ذہن پر سوار تھا ۔ سب کچھ غیر یقینی تھا مگر اس کے باوجود دل کانپ نہیں رہا تھا ۔ جب مجھے یونیورسٹی کیمپس میں لایا گیا تھا تب گلا خشک تھا مگر اب وہ کیفیت نہیں رہی تھی ۔ اب صرف یہ خواہش باقی بچی تھی کہ موت آئے تو با وقار انداز سے اس کا استقبال کروں ۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کسی جواز کے بغیر ہیرو بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔بھاگنے کا موقع نہ تھا مگر بد حواسی ذہن پر سوار نہ تھی ۔ ایسے میں قرآن کی آیات کی تلاوت نے دل کو بڑا سہارا دیا ۔ میں زیر لب تلاوت کرتے ہوئے اللہ سے دعا گو تھا کہ موت پر سکون طریقے سے آئے ۔ میں جانتا تھا کہ چند گھنٹوں کے بعد میں اس دنیا میں چلا جائوں گا جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا۔
کہیں دور مرغ کی بانگ صبح ہونے کا اعلان کر رہی تھی ۔ ایسے میں کوئی چیختا ہؤا آیا کمرے کے دروازے کو بری طرح پیٹنے لگا ۔ مجھے سے چلنے کے لیے کہا گیا ۔ میرے پیر میں چپل نہیں تھی ۔ جرابیں البتہ میں نے پہنی ہوئی تھیں ۔ باہرجیپ تیار تھی ۔ پہلے مجھے آگے بٹھایا گیا مگر پھر اتار کرپیچھے بیٹھنے کا حکم دیا گیا ۔ جیپ میں مجھے گارڈز کے ساتھ فرش پر بٹھادیاگیا ۔ جیپ چل پڑی اور میں اندازے ہی قائم کرتا رہا کہ ہم کن کن علاقوں سے گزر رہے ہیں ۔ کچھ دور جانے کے بعد مجھے جیپ سے اتار کرکھڑا ہنے کا حکم دیا گیا ۔ پھر انہوں نے سر گوشیوں کی شکل میں کچھ کہنا شروع کیا ۔ وہ شاید یہ طے کررہے تھے کہ میری چیخیں روکنے کا اہتمام کس طور کیا جائے گا ! اب میں موت کے لیے مکمل طور پر تیار تھا ۔ میں نے ایک

بار پھر اہل خانہ کو اللہ کے حوالے کیا ، زیر لب کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ سے دعا کی کہ موت کو مجھ پر آسان کردے۔
کسی نے چاقو سے میرے سینے پر دو تین ہلکے کٹ لگائے ۔ درد کی ایک لہر سی اٹھی مگر میں حیران تھاکہ تکلیف زیادہ محسوس نہیں ہوئی ۔ میری پیٹھ پر بھی خنجر کے دو تین وار کیے گئے اور پشت سے نیچے کا دھڑ رفتہ رفتہ سن ہوتا چلا گیا اور پھر میں بے ہوش ہو گیا۔
آنکھ کھلی تو صبح ہو چکی تھی اور میں ایک سڑک پر پڑا ہؤا تھا ۔ میرے زخمی ہاتھ پشت کی طرف بندھے ہوئے تھے ۔ بس اتنا یاد ہے کہ میں سسکیاں لے رہا تھا ۔ میرے پیروں میں تو جیسے جان ہی نہ رہی تھی ۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اب میں رفتہ رفتہ موت کے گھاٹ اتر جائوں گا ۔ ہر لمحہ یہ خوف دامن گیر تھا کہ دل کہیں دھڑکنا نہ بھول جائے ! میں نے طے کرلیا تھا کہ جب تک سانسوں کا ربطہ برقرار ہے اورمیں ہوش میں ہوں ،کلمہ طیبہ کا وردجاری رکھوں گا ۔
مجھے حیرت تھی کہ میں مرنے میں کافی وقت لے رہا تھا ۔ میں نے محسوس کیا کہ کوئی جھک کردیکھ رہا ہے ۔ کیا وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ مجھے مارنے کے لیے مزید کوئی وار ضروری ہے ؟ کیا آسان اور با عزت موت دینے کے لیے وہ مجھے ایک چرکا اور لگائے گا ؟ مجھے اچانک یہ بات سوجھی کہ اگر کراہنا چھوڑ دیا تو شاید یہ شخص مردہ سمجھ کر مجھے چھوڑ دے گا ۔ میں نے آواز نکالنا بند کردیا اور بے حس و حرکت پڑا رہا ۔ چند لمحات کے بعد میں نے محسوس کیا کہ جو شخص جھک کر مجھے دیکھ رہا تھا وہ جا چکا تھا۔ اب میں نے سوچنا شروع کیا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔
مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ میرے لیے خطرات ختم ہو گئے ہیں اور مجھ پر حملہ کرنے والے علاقے سے چلے گئے ہیں یا نہیں ۔ چند ایک ٹھیلے اور رکشے قریب سے گزرے، میں نے اندازہ لگایا کہ شاید مجھے شہر کے نواح میں کسی دیہی علاقے میں پھینک دیا گیا ہے ۔ اگر یونہی پڑا رہتا تو کسی گاڑی یا جانوروں کے پیروں تلے کچلا جاتا ۔ اس لیے میں نے قریب سے گزرنے والوں کواپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ۔ منہ پر پٹی بندھی ہوئی تھی جسے میں نے زبان سے کچھ سرکایا اور پوری قوت سے چل کر لوگوں کو متوجہ کیا ۔ کچھ لوگ میری طرف آئے ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ اب تک مرا نہیں ۔میں نے انہیں بتایا کہ اب تک زندہ ہوں اور یہ استدعا بھی کی کہ میرے منہ سے کپڑا اور آنکھیں سے پٹی ہٹا دیں ۔ چند لمحات تک تو وہ لوگ تذبذب میں مبتلا رہے ، پھر ایک نے آگے بڑھ کر پٹیاں کھول دیں ۔
آنکھیں کھولیں تودیکھا کہ میں جناح ایونیو پر گلستان سنیما ہال کے سامنے چوراہے پر پڑا تھا ۔ اس وقت ساڑھے پانچ بجے ہوں گے ۔ دن میں یہ علاقہ خاصا مصروف اور پر ہجوم رہتا ہے مگر علی الصبح وہاں سے بہت کم گاڑیاں گزر رہی تھیں ۔ سترہ اٹھارہ سال کے لڑکے نے میری آنکھوں سے پٹی ہٹائی تھیں۔ وہاں پانچ چھ افراد موجود تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ میرے ہاتھ کھول دیں ۔ انہوں نے پوچھا کہ حملہ آور کون تھے ؟ مجھ سے انجانے میں ایک بھیانک غلطی ہو گئی اور یہ کہہ بیٹھا کہ مکتی باہنی والوں نے حملہ کیا تھا۔ جیسے ہی میں نے مکتی باہنی کا حوالہ دیا ، وہ لوگ سہم کر پیچھے ہٹ گئے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر انہوں نے ہاتھ کھولے تو مکتی باہنی والے انہیں گولی مار دیں گے ۔ میں نے ان سے کہا کہ ایسے آدمی کی مدد کرنے سے نہ کترائیں جو تقریباً مرچکا ہے ۔ آنکھوں سے پٹی ہٹانے والا نوجوان آگے بڑھا اور دوسروں کے اعتراض کے باوجود ہاتھ کھولنے لگا ۔ قریب ہی ایک اور شخص بھی پڑا تھا جسے شدید زخمی حالت میں پھینک دیا گیا تھا ۔ اس نے آواز دی ’’ میں حسن زمان ہوں ‘‘۔ مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ ہمیں ایک ہی جیپ میں لا کر یہاں پھینکا گیا تھا ۔ میں اس جگہ سے بہت نزدیک پڑا ہؤا تھا جہاں ڈھاکہ کی مشہور توپ نصب تھی ۔ انکلوژر کا سہارا لیتے ہوئے میں بیٹھ گیا ۔
تماشائیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا ۔ میں نے ان سے کہا کہ کوئی رکشہ روک لیں تاکہ ہم کسی ہسپتال یا پھر مسجد بیت المکرم تک پہنچ جائیں ۔ ان میں سے ایک شخص کچھ زیادہ ہی جارحانہ موڈ میں تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں چونکہ مکتی باہنی نے مارا تھا اس لیے ہم اسی سلوک کے مستحق رہے ہوں گے ! جب میں نے اپنا تعارف کرایا تو اس کا لہجہ مزید جارحانہ ہوگیا ۔ اس نے ان الزامات کا اعادہ کیا جو اسے پروپیگنڈے کی صورت

میں ریڈو جے بنگلہ ؎؎۱ سے سننے کو ملا تھا ۔ اس نے کہا کہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کو قتل کرانے والوںاور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے والوں کو یہی سزا دی جانی چاہیے تھی۔ میںبے بنیاد الزامات کے خلاف صرف احتجاج کر سکتا تھا مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہ تھا ۔
میں نے ایک رکشہ روکنا چاہا مگر بھیڑ نے اسے رکنے نہیں دیا ۔ میرے لیے صورت حال ابتر ہوتی جا رہی تھی ۔ وہاں سے بھارتی فوجیوں کا ایک ٹرک بھی گزرا مگر میں ان فوجیوںکو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہا ۔ میں نے وہاں کھڑے ہوئے لوگوں سے کہا کہ وہ میرے گھر والوں ہی کومطلع کردیں ۔ میں نے اپنا ٹیلی فون نمبر بھی دہرایا ۔ مگر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
میری خوش نصیبی تھی کہ ان میں ایک شخص میرے علاقے کا نکل آیا ۔ وہ مدد کے لیے آگے آیا۔ اس نے ایک رکشہ روکا اور مجھے رکشہ میں ڈال دیا۔ مجمع نے مداخلت نہیں کی ۔ میں نے رکشہ ہی میں سے دیکھا کہ ڈاکٹر حسن زمان کسی نہ کسی طرح کھڑے ہو کر مسجد بیت المکرم کی طرف جا رہے تھے ۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ میری طرح مفلوج نہیں ہوئے تھے۔
جب میں تباہ حال گھر واپس آیا
گھر والے مجھے مردہ سمجھ بیٹھے تھے ۔ جب انہوں نے مجھے دیکھا توان کی خوشی کا توکوئی ٹھکانہ نہ رہا ۔ جب مجھے رکشہ سے اتار کرگھر میں لے جایاجارہا تھا اس وقت میری حالت ناگفتہ بہ تھی ۔ میں مکمل تباہ ہوچکا تھا ۔ میرے سینے اور پیٹھ پر چھریوں کے چھ زخم لگے تھے اوران سے خون بہہ رہا تھا ۔ ٹانگوں کی حالت ایسی نہ تھی کہ میں ٹھیک سے کھڑا ہو پاتا ۔ مجھے چٹائی پر لٹا کر کوئی گرم مشروب دیا گیا اور پھرمجھے کمبل میں لپیٹ دیا گیا ۔ پاس پڑوس کے لوگ مجھے دیکھنے کے لیے امڈے چلے آئے ۔ جو اجنبی کبھی ہمارے گھر میں داخل ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ بھی اندر آگئے اور مجھے دیکھتے رہے۔
بھارتی فوجی افسران کو گزشتہ شام میرے اغوا کی خبر دی گئی تھی اورانہوں نے میری تلاش میں چند اہلکاروںکو روانہ بھی کیا تھا ۔ جب انہیں معلوم ہؤا کہ میں گھر واپس آگیا ہوں تووہ مجھے دیکھنے آئے ۔ مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر کو بلایا گیا ۔ پہلے تو وہ آنے میں آنا کانی کرتا رہا مگر جب اسے بتایا گیا کہ بھارتی فوجی افسر بھی آئے ہوئے ہیں تو وہ آگیا ۔ تاہم اس نے ایکسرے کے بغیر میرے زخموں کی مرہم پٹی کرنے سے انکار کر دیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ پہلے ایکسرے کرایاجائے ۔ وہ اس لیے بھی انکار کر رہا تھا کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی یہ کہے کہ اس نے کسی ایسے شخص کی مرہم پٹی کی ہے جسے مکتی باہنی والوں نے زخمی کیا تھا ۔ اس کی ہچکچاہٹ سے کوئی بڑا مسئلہ کھڑا نہیں ہؤا کیونکہ انڈین آرمی کی میڈیکل کور سے تعلق رکھنے والا ایک ڈاکٹر بھی آچکا تھا۔ اس نے میرے زخم دھو کر مرہم پٹی کر دی اور پھر نصف گھنٹے کے اندر میرے لیے ایک ایمبولینس کا اہتمام بھی ہو گیا تاکہ مجھے ڈھاکہ میڈیکل کالج ہاسپٹل لے جایا جا سکے ۔ وہاںپر مجھے کیبن نمبر دس اور گیارہ میں رکھا گیا ۔ چار بھارتی فوجیوں کو میری حفاظت پرمامور کیا گیا ۔ یہ فوجی میرے ساتھ ایک ہفتہ رہے ۔ اس کے بعد بابو پورہ پولیس آئوٹ پوسٹ کے ایک دستے نے ان کی جگہ میری نگرانی کے فرائض سنبھال لیے ۔ مجھے 20دسمبر سے 30جنوری تک ہسپتال ہی میں رکھا گیا اور اس کے بعد ڈھاکہ سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا ۔
میں نے ہسپتال میں جو زمانہ گزارا اس میں سوائے چند ایک چھوٹی موٹی باتوں کے کوئی بڑا واقعہ نہیں ہؤا۔ ان میں ایک معاملہ تو کیبن نمبر دس سے کیبن نمبر انیس میں میرے تبادلے سے متعلق تھا ۔ یہ تبدیلی اس لیے رونما ہوئی کہ بنگلہ دیش کے ایک وزیر خوند کر مشتاق نے بعض وجوہ کی بنیاد پر سر گرم سیاست سے عارضی ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کیا اور وہ کیبن ان کے لیے درکار تھا ۔ مختصر نوٹس پر مجھے رات آٹھ بجے کیبن نمبر انیس میں منتقل کر دیا گیا ۔ میں ابھی تک چلنے کے قابل نہیں ہو پایا تھا اس لیے وہ مجھے ٹرالی میں ڈال کر لے گئے تھے۔
ایک دو دن بعد چند عسکریت پسند طلبا کو کسی کے لیے کیبن کی ضرورت پڑی تو انہوں نے میرے گارڈز سے کہا کہ کمرہ خالی کر دیں ۔ اس کے بعد سے پولیس پارٹی کے سپاہی میرے کیبن کے باہر کھلی جگہ پر بیٹھ کر حفاظت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔

بھارتی گارڈز کے رخصت ہونے کے بعد اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ میری حفاظت پر کون مامور ہے ۔ ان کی نگرانی سخت نہیں تھی۔ کوئی بھی روک ٹوک کے بغیر میرے کیبن میں آ سکتا تھا ۔ جن پولیس اہلکاروں کو میری حفاظت پر مامور کیا گیا تھا وہ بیشتر اوقات غائب رہتے تھے ۔ میں نے دو ایک مرتبہ احتجاج بھی کیا مگر پھر اندازہ ہؤا کہ ’’دشمنوں کا ساتھ دینے والے ‘‘ کی جانب سے احتجاج ، خود اس کے لیے خطر ناک ثابت ہو سکتا تھا 21دسمبر کو ایک اخبار میں شائع ہونے والے اعلان سے مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ مجھے’’ دشمنوں کے ساتھی‘‘ کی حیثیت میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ اس اخباری اطلاع میں یہ بات شامل نہیںتھی کہ مجھ پر حملہ کیا گیا تھا اور یہ کہ میں علاج کے سلسلے میں ہسپتال میں ہوں ۔ اخباری اعلان پڑھنے والوں کو ایسا محسوس ہؤا جیسے میں جیل میں ہوں۔
ہسپتال میں پہلے ہفتے کے دوران ، میں شدید درد کی کیفیت میں رہا ۔ میرے کاندھوں ، سینے اور کمر کے آس پاس شدید درد تھا ۔ میرے تلوئوںسے رہ رہ کر ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اور یہ حالت آج بھی برقرار ہے۔ جسم کے زیریں حصے کی حالت زیادہ خراب تھی ۔ میں بائیں ٹانگ ہلا نہیں سکتا تھا اور ٹخنے سے نیچے تو حس نام کی کوئی چیز نہ تھی ۔ رات کے وقت درد کی شدت میں اضافہ ہؤا جاتا تھا ۔ پیٹھ کے بل سونے کے لیے مجھے خاصی محنت کرنی پڑتی تھی ۔ ٹانگیں اتنی بھاری ہو گئی تھیں کہ میں انہیں ہلانے سے بھی قاصر تھا اور اگر کوئی اس سلسلے میں میری مدد بھی کرتا تھا تو جسم کے نچلے حصے میں درد نا قابل برداشت ہو جاتا تھا۔
میرے سینے پر چار اور پیٹھ پر دو زخم تھے ۔ خوش قسمتی سے یہ زخم گہرے نہیں تھے اور ایک ہفتے میں مند مل ہو گئے ۔ حملے کے دوران بچنے کی کوشش میں بایاں گھٹنا کچھ اس طرح مڑا تھا کہ فریکچر نہ ہونے کے باوجود میں کھڑا نہیں ہو سکتا تھا ۔ زیادہ اذیت کا سامنا اندرونی چوٹوں کے باعث تھا ۔ ایسے میں پیشاب کرنا ایک اذیت ناک مرحلے سے گزرنے کے مترادف تھا ۔ کبھی کبھی تکلیف اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ میں اللہ سے موت کا طلبگار ہونے لگتا تھا ۔ تین ہفتوں کے بعد میں اس قابل ہو سکا کہ کچھ دیر کے لیے اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائوں ۔ جس طرح بچے چلنا سیکھتے ہیں بالکل اسی طرح میں نے خود کو چلنا سکھایا ، ابتدا میں اپنے طور پر اور بعد میں دوسروں کی مدد سے صحیح طریقے سے کھڑا ہو کر چلنا میرے لیے ممکن نہیں ہو پا رہا تھا ۔ وہ کمزوری آج بھی پائی جاتی ہے ۔ باقاعدہ مشق کرنے سے اپنے چھوٹے سے کیبن کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے کے قابل ہو پایا ۔ تین ہفتوں کے بعد میں کسی کی مدد کے بغیر باتھ روم تک جانے کے قابل ہو گیا ۔
مکتی باہنی سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوجوان وقتاً فوقتاً میرے کیبن میںآ دھمکتے تھے ۔ یہ بھی ایک بڑا مسئلہ تھا ۔وہ گارڈز کو دھکیل کر میری طرف آتے ، مجھ پر ایک نظر ڈالتے اور چلے جاتے ۔ یہ بات تو واضح تھی کہ وہ اپنے ان ساتھیوں سے کچھ خوش نہیں تھے جو مجھے ختم کرنے میںناکام رہے تھے ۔خطرہ یہ تھا کہ کہیں ان میں سے کوئی ادھورے کام کو مکمل کرنے پر نہ تل جائے ! میرے لیے لازم تھا کہ کیبن کا دروازہ بیشتر اوقات بند ہی رکھوں ۔
میری اہلیہ اور بچے روزانہ سہ پہر کے وقت مجھ سے ملنے آتے تھے۔ چند رشتہ دار ، یونیورسٹی کے ایک ساتھی ڈاکٹر عزیز الحق اور اسلامیہ کالج ، کلکتہ کے زمانے کے ایک شناسا سعید الرحمن بھی مجھ سے ملنے آ جایا کرتے تھے ۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے بیشتر رشتہ دار میری عیادت کے لیے آتے ہوئے خوفزدہ رہتے تھے ۔
میں کیبن نمبر دس ہی میں تھا کہ ایک دن گھنے بالوں والا ایک نوجوان آیا اور میرے پیر چھو لیے ۔ اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ میرا شاگرد تھا ۔ میں اب اس کانام بھول گیا ہوں ۔ اس نے بتایا کہ خانہ جنگی کے دوران اسے حکم دیا گیا تھا کہ مجھے ختم کر دے ۔ اس نے میرے گھر کے آس پاس کے ماحول کا جائزہ بھی لیا تھا مگر بعد میں ارادہ بدل دیا ۔ وہ خاصا شائستہ مگر مضبوط ارادے کا مالک دکھائی دیتا تھا ۔ اس نے بتایا کہ ان تمام لوگوں کو ختم کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا جنہوں نے 23سال کے دوران مغربی پاکستان سے کسی بھی سطح پر تعاون کیا تھا ۔ میں نے اس سے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا تاہم اتنا ضرور کہا کہ اپنے پروگرام پر عمل کرنا ان کے لیے آسان نہیں ۔ اس پر وہ بولا ’’ خانہ جنگی میں

20ہزار سے زائد افراد مارے گئے ہیں ۔ یہ سب مکتی باہنی کے ارکان تھے ۔ ہم ’’ غداروں کے ساتھ نہیں جی سکے۔‘‘
مجھ سے ملنے آنے والوں میں ایک نوجوان ایسا بھی تھا جس کے آنے پر مجھے اپنے جسم میں خوف کی لہر محسوس ہوئی ۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر ا ہؤا محسوس ہوتا تھا ، جیسا کہ جنونی قاتلوں کی آنکھوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ایک باروہ چند خواتین کے ساتھ آیا اور جب میں نے پوچھا کہ خواتین کو ن ہیں تو اس نے کہا ’’ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک کو آزادی دلائی ہے‘‘۔
16دسمبر1971ء کو جو کچھ ہؤا اس کے بارے میں اس وقت بھی تمام نوجوانوں کے خیالات یکساں نہیں تھے ۔ دسمبر کے آخر میں ایک شرمیلا سا نوجوان مجھ سے ملنے آیا۔ اس کی عمر 17سال ہو گی ۔ و ہ انگریزی ادب پڑھنے کا خواہش مند تھا تاہم اب اس کا خیال یہ تھا کہ اس سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ وہ کہہ رہا تھا ’’ ہم اپنی آزادی سے محروم ہو گئے ہیں ‘‘۔ جب میں نے آزمانے کے لیے اسے دوسرے بہت سے نوجوانوں کے خیالات کے بارے میں بتایا تو وہ بولا ’’ چاروں طرف بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں ، پاکستانی فوج کی جانب سے ہتھیار ڈالنے سے بھی بنگلہ دیش کو آزادی نہیں ملی۔ ہم نے اپنے قومی وجود کو غلامی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے‘‘۔
یہ نوجوان اس دور کے نوجوان کی عمومی سوچ سے متصادم خیالات رکھتا تھا ۔ بھارتی پروپیگنڈا اس قدر مستحکم تھا کہ میرے بعض رشتہ داروں کے ذ ہن بھی آلودہ ہو گئے تھے حالانکہ ان کے لیے میری زندگی کھلی کتاب کی مانند تھی ۔ میں رات دن اُن سے رابطے میں تھا مگر اس کے باوجود انہوں نے میرے بارے میں بیان کی جانے والی تمام باتیں بڑی سادگی سے قبول کرلی تھیں ۔ ایک دن میرے ایک کزن کا بیٹا میرے پاس آیا اور مجھے بتایا کہ کس طرح میری رضا مندی سے آرمی کو لڑکیاں فراہم کی جاتی تھیں ! اس نے کہا کہ وہ اس کہانی پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ، تاہم اس کے لہجے سے اندازہ ہوتا تھاکہ وہ اس بات کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دینے کے لیے بھی ذہنی طور پر آمادہ نہیں !میں اس کی سادہ لوحی پر صرف حیرت کا اظہار ہی کر سکتا تھا۔ اس نے یونیورسٹی میں معاشیات پڑھی تھی اور وہ اعداد و شمار کی مدد سے بتاتا تھا کہ کس طرح مغربی پاکستان کے سرمایہ دار مشرقی پاکستان کا شدید استحصال کرتے رہے تھے ۔ اس کا کہنا تھا جو مظالم ڈھائے جاتے رہے ہیں ان کا آپ اور میرے والد جیسے لوگوں کو یقین دلانے کے لیے خانہ جنگی تک کرنی پڑی ہے ۔ اب جبکہ مغربی پاکستان کا طوق گلے سے اتار پھینکا گیا ہے ، آپ لوگ دیکھیں گے کہ بنگلہ دیش کس تیزی سے ترقی اور استحکام کی منازل طے کرتا ہے ‘‘۔میں نے اسے بتایا کہ ملک اس وقت جس بحران سے گزر رہا ہے اس کا جلد از جلد خاتمہ ہی قوم کے حق میں بہتر ہے تاہم میں اس کی کھوکھلی رجائیت کا ساتھ نہیںدے سکتا ۔ اسے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہؤا کہ جس اذیت سے میں دو چار ہوں اس نے بھی میرے خیالات اور عقائد کو متزلزل نہیں کیا !
متحدہ پاکستان پر یقین رکھنے والوں پر مظالم اور ان کے قتل سے متعلق خبریں مجھ تک پہنچتی رہیں ۔ مہنگائی غیر معمولی حد تک بڑھ گئی تھی ۔ اندھا دھند گرفتاریاں جاری تھیں اور قانون نام کی چیز نا پیدسی ہوکررہ گئی۔ہم جیسے چند لوگوں کے سوا حالات کی خرابی سے کوئی بھی بد گمان اور مایوس نہ تھا ۔ سب کا خیال یہ تھا کہ بنگلہ دیش جن حالات سے دو چار ہے اور جو طویل خانہ جنگی ہوئی ہے اس کے باعث کچھ مدت کے لیے تو نراجیت پھیلے گی مگر رفتہ رفتہ سب کچھ خود بخود درست ہو جائے گا ۔ خانہ جنگی کی اصطلاح کم کم ہی استعمال ہوتی تھی ۔ 1971ء کے مارچ سے دسمبر تک جو کچھ ہوا اسے آزادی کی جنگ قرار دیا جاتا رہا ۔ پاکستانی فوج کوقابض فوج قرار دیا گیا اور جو سیدھے سادے نوجوان اس کے خلاف لڑے انہیں آزادی کے سپاہی کہا گیا ۔ عوامی لیگ کے جو حمایتی خانہ جنگی کے دوران کم کم منظر عام پر آئے تھے اب بڑی تعداد میں گھروں سے نکلنے لگے تھے ، پاکستانی فوج سے لڑنے والوں کا استقبال کیا جا رہا تھا اور مرنے والوں کو شہید قرار دے کر ان کی یاد گار یں تعمیر کی جا رہی تھیں ۔ مارچ سے دسمبر تک جو نوجوان بھی مارا گیا وہ خواہ کسی بھی پس منظر کا حامل رہا ہو، خواہ اس کا مجرمانہ ریکارڈ بھی موجود ہو ، ذاتی کردار چاہے کچھ بھی ہو،

اگر اس کا تعلق کسی بھی مرحلے پر پاکستانی فوج کے خلاف جاری لڑائی سے رہا ہو تو یہی بات اسے شہید قرار دینے کے لیے کافی تھی اور اہل وطن کا فرض تھا کہ اسے ہمیشہ یاد رکھیں ۔ یہ سب بہت عجیب تھا ۔ مگر جس سر زمین پر جنون کی حکومت قائم ہو چکی تھی وہاں ہوش اور عقل سلیم کی بات کون کرتا ؟
قوم کی جانب سے مرنے والوں سے تشکر کے اظہار کا ایک سستا ، آسان اور مقبول طریقہ یہ بھی تھا کہ سڑکوں ، پارکوں ، اسکولوں، کالجوں او ردیگر اداروں کو ان سے موسوم کر دیا جائے اس معاملے میں عقل سلیم سے کام لینے یا روایت کا احترام کرنے کی ذرا بھی زحمت نہیں کی گئی ۔ جناح ، اقبال اور ایوب خان جیسے نام نئی نسل کے لیے قابل نفرت ٹھہرے اور ان ناموں سے چھٹکارا پانے میں تاخیر نہیں کی گئی ۔ ڈھاکہ کا یونیورسٹی کے طلبہ اس معاملے میں سب پر بازی لے گئے ۔ جناح ہال اور اقبال ہال کو سارجنٹ ظہور الحق اور سوریہ سین سے موسوم کر دیا گیا ۔سارجنٹ ظہور الحق وہ نوجوا ن تھا جو اگر تلہ سازش کیس میں گرفتار ہونے کے بعد سماعت کے دوران ہی ہلاک کر دیا گیا تھا ۔ سوریہ سین وہ دہشت گرد تھا جس نے 1930 کے عشرے میں چاٹگام کی آرمری پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی ۔ اس کا نام نوجوانوں میں جوش پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ۔سب سے زیادہ تکلیف وہ بات یہ تھی کہ لفظ اسلام اور اس سے مشتق دیگر الفاظ سے بھی گلو خلاصی کی کوشش کی گئی ۔ اسلامک انٹر میڈیٹ کالج کو ( جس سے وہ مدرسہ بھی ملحق تھا جس میں مجھے تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تھا) راتوں رات ’’ کوی نذر ل کالج ‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا ۔ ایک عظیم ادبی شخصیت (قاضی نذر الاسلام) کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک ایسے تعلیمی ادارے کا انتخاب کیا گیا جس کے نام میں اسلام بھی تھا اورمدرسہ بھی ۔ ایمانی سوچ رکھنے والوں کے لیے یہ سب کس قدر سوہان روح رہا ہوگا ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ نئی اشرافیہ کی ثقافت کی پستی کا آئینہ دار تھا ۔
اداروں کے نام تبدیل کرنے سے متعلق اعلانات روزانہ کیے جاتے تھے ۔ میں جب اس قسم کی خبریں پڑھتا تو بہت دکھ ہوتا تھا ۔ ایک تو اس بات پر کہ روایات کا احترام نہیں کیا جا رہا او ردوسرے یہ کہ بلا وجہ غیر معمولی عجلت کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔ یہ سوچ کس قدر احمقانہ تھی کہ چند نام تبدیل کرنے سے لوگوں کے جذبے اور روح کو تبدیل کیا جا سکے گا !
یہ بات قابل غور تھی کہ کہیں بھی ہندو اور عیسائی نام تبدیل نہیں کیے جا رہے تھے ۔ ناٹرے ڈیم کالج ، سینٹ گریگوریز اسکول اور رام کرشنا کے نام سے قائم تعلیمی اداروں کو فرقہ واریت کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی ۔ اسلام کے خلاف امتیاز اس حد تک برتا گیا کہ بعد میں اس پر خود عوامی لیگ کے حلقوں نے احتجاج کیا !
مشکل وقت میں میرے خاندان کے علاوہ چند لوگ ہی تھے جو میرا ساتھ دیتے رہے اور ان کے خیالات میں میرے لیے کوئی بد گمانی پیدا نہیں ہوئی ۔ جن چند لوگوں نے غیر معمولی حد تک میرا ساتھ دیا ان میں ایک ہماری سابق گھریلو ملازمہ کا بیٹا مختاربھی تھا ۔ مختار کو میں بچپن ہی سے جانتا تھا ۔ میں چاہتا تھا کہ و ہ کچھ بن جائے ، کچھ کر دکھائے ۔ جب اسے معلوم ہؤا کہ مجھ پر حملہ ہؤا ہے تو وہ دوڑا چلا آیا اورنوکری کی پروا کیے بغیر ایک ماہ تک میرے پاس ٹھہرا رہا اورمیر ی خبر گیری کرتا رہا ۔ یہ سب کچھ میری توقع سے کہیں بڑھ کر تھا ۔ مختار مضبوط جسم کا مالک تھا ۔ اس کے مضبوط کاندھوں کا سہارا لے کر ہی میںنے دوبارہ چلنے کی مشق کی ۔
میری اہلیہ اور بچے مجھ سے روزانہ ملنے آتے ۔ یقینا یہ میرے لیے بڑی حوصلہ افزا بات تھی ۔ ہم نے ایک دوسرے کونئے سرے سے دریافت کیا تھا ۔ ایسا نہیں تھا کہ بچے صرف رسمی طور پر اپنا فرض جان کر ملنے آتے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ میری عیادت کو آنا ان کی جانب سے بھرپور محبت کا مظہر تھا ۔ اس حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے میرے پاس موزوں الفاظ نہیں ۔ تاہم میں اس سے زیادہ کیا کہہ سکتا ہو ں کہ ان کا آنا میرے اعصاب ، روح اور قلب کوسکون کی دولت فراہم کرتا تھا ۔ ان کی آمد سے بعض ایسے جذبات بیدار ہوجاتے تھے جو میرے لیے سوہان روح بھی بن جایا کرتے تھے ۔ میرا خیال تھا کہ اس قدر محبت کے قابل ہونے کے لیے مجھے جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ میں نے نہیں کیا تھا ۔ ماضی میں ، میں نے بار ہا خود غرضی کا مظاہرہ کیا تھا اور ان کے مقابلے میں اپنی ذات پر

زیادہ خرچ کیا ۔ میں ان لوگو ں میں سے نہیں ہوںجو دکھاوا کرتے ہیں ۔مگرمجھے یقین ہے کہ دکھاوا کرنے والے بھی مجھ سے کہیں زیادہ اپنے اہلِ خانہ پر خرچ کرتے ہوں گے۔میرے گھر والے اپنے کام سے کام رکھتے تھے ، وہ دوسروں سے زیادہ ملتے جلتے نہیں تھے اور اس کا سبب تکبر نہیں تھا ۔ ہم میں ایسا تھا ہی کیا کہ تکبر کرتے ؟ بات یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد کی دنیا جس تیزی سے تبدیل ہو رہی تھی اس سے ہم آہنگ ہونا ہمارے بس کی بات نہیں تھی۔ میری اہلیہ اور ہماری بیٹیاں ایسے پودوں کی طرح تھیں جن کی نگہداشت عمدگی سے کی گئی ہو اور اب گملوں سے باہر کا نا موافق ماحول ان کے لیے پریشان کن ثابت ہو رہا ہو۔ میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہواٹھتا تھا کہ وہ ایسے ماحول میں کس طرح اپنی بقا کا اہتمام کر پائیں گی ؟ زندگی کے نئے سانچے میں اپنے آپ کو کیسے ڈھالیں گی۔ معاشرے کا تصنع ان کے لیے حیران کن تھا ۔ اس دور میں ڈھنگ سے جینے کے لیے انسان کو جو چالاکی اور بازی گری در کار تھی اس سے یہ ناواقف تھیں ۔ ان تمام امور کے بارے میں سوچ سوچ کر میں پریشان ہو جاتا تھا۔
میرے ایک بزرگ رشتہ دار نے مجھے بتایا کہ پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن کی واپسی پر شاید مجھے معافی دے دی جائے ۔ شیخ مجیب اس وقت تک پاکستان کی قید میں تھے ۔ یہ جنوری 1972 کے پہلے ہفتے کی بات ہے ۔ میرے بزرگ رشتے دار کمزور دل کے مالک تھے ۔ میری حالت دیکھ کر وہ رو پڑے اور اپنے آنسو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی ۔ میں بہت متاثر ہؤا مگر یہ بزرگ میری گرفتاری یا حراست کے خلاف ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی درخواست پر گواہ کی حیثیت سے دستخط کرنے سے کئی ماہ تک انکار کرتے رہے ! ہے نا حیرت کی بات ! کیا جنوری کے شروع میںانہوں نے جو ٹسوے بہائے وہ یونہی تھے ؟ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ بزرگ اتنے اچھے ادا کار ہوں گے ! مگر خیر زندگی تو نام ہی ان حیرت انگیز باتوں اور تضادات کا ہے ۔
نئے جنم لینے والے بنگلہ دیش کے لیے شیخ مجیب الرحمن بابائے قوم تھے ۔ انہیں راولپنڈی جیل سے 9جنوری 1972ء کو رہا کیا گیا اور اگلے ہی دن وہ لندن سے ہوتے ہوئے ڈھاکہ پہنچ گئے ۔ رائل ائیر فورس کا طیارہ جب انہیں لے کر ڈھاکہ کے تیج گائوں ائیر پورٹ پر اترا تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا ۔ پریس کا اندازہ تھا کہ ان کے استقبال کے لیے ائیر پورٹ پر پانچ لاکھ سے زائد افراد جمع ہوئے ہوں گے ۔ ائیرپورٹ سے وہ رمنا ریس کورس گرائونڈ گئے جہاں ہزاروں افرادا نہیں سننے کے لیے بے تاب تھے ۔ میں نے اپنے کیبن میں ایک چھوٹے سے ریڈیو پران کی تقریر اور جلسے کا احوال سنا ۔لوگ نئی نئی آزادی کے نشے میں چور تھے ۔ ریڈیو پر ان کی آوازیں ان کے جذبات کا پتا دے رہی تھیں ۔ مشکل حالات کو شکست دے کر فتح پانے کی خوشی ہر شے سے جھلک رہی تھی۔
میں ریڈیو سے کان لگائے شیخ مجیب الرحمن کی تقریر کا ایک ایک لفظ سننے کی کوشش کرتا رہا ۔ اس تقریر کو سن کر ہی مجھے اندازہ ہؤا کہ آنے والے دنوں میں حالات کیا رخ اختیار کرنے والے ہیں ۔ یہ تقریر ایک ایسے لیڈر کی تھی جس نے اپنے دھڑے کو کامیابی سے ہمکنار کرایا تھا اور اب مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے بے تاب تھا ۔ مخالفین کو عام معافی دیے جانے کے بارے میں اس تقریر میں ایک لفظ بھی نہ تھا ۔اس کے بجائے انہوں نے پاکستان میں اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران گواہ کی حیثیت سے سامنے آنے والوں کا ذکر کیا ۔ وہ عام معافی کے موڈ میں ہرگز نہ تھے ۔ جو ہوا، اسے بھلا کر ملک کی تعمیر نو کے بارے میں سوچنے کے رحجان کو پروان چڑھانے پر دھیان نہیں دیا جا رہا تھا ۔ شیخ مجیب الرحمن نے پاکستانی فوج کے بارے میں دل کے پھپھولے پھوڑے اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہ تھی ۔ میں نے خود سے پوچھاکہ شیخ مجیب الرحمن نے وفاق پسندوں اور علیحدگی پسندوں کے درمیان خانہ جنگی میں فتح تو حاصل کرلی مگر ان کی شخصیت کے اندر وہ لیڈر کہاں ہے جو ماضی میں ان کے کردار کے علی الرغم نئے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے درکار ہے ؟ ملک اور قوم نے انہیں ایک دھڑے کے سربراہ سے بلند کرکے قوم کا لیڈر بنا دیا تھا مگر وہ موقع کی مناسبت سے اپنا قد بلند کرنے میں ناکام رہے ۔ انہوں نے مکتی باہنی کے چھاپہ ماروں سے ہتھیار پھینکنے کی اپیل تو کی مگر اس یقین دہانی کے ساتھ کہ دشمنوں کا صفایا کرنے کی ذمہ داری اب باضابطہ فورسز کے حوالے کردی جائے گی۔ صاف ظاہر تھا کہ جنہیں وہ ملک و قوم کا دشمن سمجھتے تھے انہیں

میں ریڈیو سے کان لگائے شیخ مجیب الرحمن کی تقریر کا ایک ایک لفظ سننے کی کوشش کرتا رہا ۔ اس تقریر کو سن کر ہی مجھے اندازہ ہؤا کہ آنے والے دنوں میں حالات کیا رخ اختیار کرنے والے ہیں ۔ یہ تقریر ایک ایسے لیڈر کی تھی جس نے اپنے دھڑے کو کامیابی سے ہمکنار کرایا تھا اور اب مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے بے تاب تھا ۔ مخالفین کو عام معافی دیے جانے کے بارے میں اس تقریر میں ایک لفظ بھی نہ تھا ۔اس کے بجائے انہوں نے پاکستان میں اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران گواہ کی حیثیت سے سامنے آنے والوں کا ذکر کیا ۔ وہ عام معافی کے موڈ میں ہرگز نہ تھے ۔ جو ہوا، اسے بھلا کر ملک کی تعمیر نو کے بارے میں سوچنے کے رحجان کو پروان چڑھانے پر دھیان نہیں دیا جا رہا تھا ۔ شیخ مجیب الرحمن نے پاکستانی فوج کے بارے میں دل کے پھپھولے پھوڑے اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہ تھی ۔ میں نے خود سے پوچھاکہ شیخ مجیب الرحمن نے وفاق پسندوں اور علیحدگی پسندوں کے درمیان خانہ جنگی میں فتح تو حاصل کرلی مگر ان کی شخصیت کے اندر وہ لیڈر کہاں ہے جو ماضی میں ان کے کردار کے علی الرغم نئے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے درکار ہے ؟ ملک اور قوم نے انہیں ایک دھڑے کے سربراہ سے بلند کرکے قوم کا لیڈر بنا دیا تھا مگر وہ موقع کی مناسبت سے اپنا قد بلند کرنے میں ناکام رہے ۔ انہوں نے مکتی باہنی کے چھاپہ ماروں سے ہتھیار پھینکنے کی اپیل تو کی مگر اس یقین دہانی کے ساتھ کہ دشمنوں کا صفایا کرنے کی ذمہ داری اب باضابطہ فورسز کے حوالے کردی جائے گی۔ صاف ظاہر تھا کہ جنہیں وہ ملک و قوم کا دشمن سمجھتے تھے انہیں عام معافی نہیں دی جائے گی اور نہ قومی سطح پر مصالحت اور مفاہمت کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے گا ۔ تقریر میں شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان میں اپنے خلاف مقدمے کا حوالہ دے کر یہ اشارہ دے دیا تھا کہ عوامی لیگ اور خود ان کے خلاف جانے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا ، کم لوگ ہی بچ پائیں گے اور بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ کم ہی لوگ بچ پائے۔ ہزاروںافرادکو گرفتار کر کے ان پر جنگ آزادی کی راہ میں روڑے اٹکانے کے بے بنیاد الزاما ت عائد کیے گئے ۔ جنوری میں نافذ کیے جانے والے کولیبوریٹر آرڈر کے تحت پولیس کو کسی بھی شخص کو بغیر کسی الزام کے گرفتار کرنے کا اختیار مل گیا ۔ کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے لیے بس اتنا کافی تھا کہ اس کے بارے میں افواہ ہی کے طور پر یہ مشہور کر دیا جائے گاکہ وہ جنگ آزادی کا مخالف او رپاکستانی فوج کا حامی تھا۔ سزائیں فوری طور پر دی جا رہی تھیں ۔ وہ خوش قسمت تھے جنہیں ڈھاکہ جیل میں ڈال دیا گیا ۔ جبکہ بہت سوں کو گرفتاری کے فوراً بعد کو ئی مقدمہ چلائے بغیر ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا ۔ کئی ایسے بھی تھے جنہیں مشتعل ہجوم نے مار ڈالا۔

 

 

ڈھاکہ سے واپسی پر
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختم دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں ، مہر باں راتوں کے بعد
دل تو چاہا ، پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے منا جاتوں کے بعد
اُن سے جو کہنے گئے تھے فیضؔ جاں صدقہ کیے
اَن کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
(فیض احمد فیض)

 

 

 

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x