ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بتول میگزین – بتول مئی ۲۰۲۱

یادیں بچپن کی
شہزادی پھول بانو۔لاہور
آج جامن کھاتے کھاتے پھر ہمیشہ کی طرح سے بچپن کا وہ جامن کا درخت یاد آگیا جو لگا ہؤا تو صحن کے ایک کونے میں تھا لیکن پھیلا ہؤا تین گھروں میں تھا ۔ دائیں طرف کے اور پیچھے والے ہمسایوں تک۔
پھل اُس کا اتنا میٹھا اور اتنا زیادہ ہوتا کہ بازار میں جامن آکر ختم بھی ہو جاتے لیکن اس پر جامن دیر تک اپنی بہار دکھاتے رہتے۔ مجھے اب سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے اس درخت کے جامن میں اتنی برکت کیوں تھی۔
جب بھی پھل پک جاتا، امی اُترواتیں اور تین حصے کر تیں ۔ ایک حصہ اتارنے والے کو ، ایک حصہ محلے اور محلے میں کیا پوری کالونی میں اور ایک حصہ خاندان والوں میں تقسیم کرنے کے لیے ۔
خاندان والوں کو ایسے پہنچاتیں کہ زین کا ایک بڑا سا تھیلا بنایا ہؤا تھا ، اس کو جامن سے بھر تیں اور بھائی کے حوالے کرتیں کہ یہ خالہ ، چچا ، پھوپھو اور دیگر رشتہ داروں کو دے آئو ۔ میں سوچ رہی ہوں کہ آج سب کے پاس اپنی سواریاں ہیں لیکن ہمارے بچے یہ کام نہیں کرتے جو تب بسوں ، ویگنوں پر جا کر اور اتنا اتنا چل کر بھائی کیا کرتا تھا۔
جامن کا وہ درخت کافی پھیلا ہؤا تھااور اونچا بھی تھا اور اس پر کووّں نے کئی جگہوں پر گھونسلے بھی بنائے ہوتے۔ میں اور میری بہن جو مجھ سے پانچ سال بڑی ہے اکثر ہم دونوں اکٹھے درخت پر چڑھتے ۔ ایک طرف والے حصے پر وہ اور دوسری طرف میں چڑھ جاتی اور مزے کی بات یہ کہ اکثر ہم تھیلے لے کر نہ چڑھتے اور اپنی قمیضوں کو گہرہیں لگا کر اُس میں جامن ڈالتے جاتے ۔ کووّں کے ٹھونگے بھی کھاتے لیکن پھر بھی اوپر سے اوپر چڑھتے جاتے ۔ نیچے صحن میں چار پائی پر ایک چادر بچھا آتے اور اوپر سے ہی جھولیوں سے جامن چادر میں اُلٹا کر دوبارہ اُوپر چڑھ جاتے ۔ جامن اتارتے اُتارتے تھک کر کسی ٹہنی پر بیٹھ جانا بلکہ بیٹھے بیٹھے لیٹ بھی جانا معمول تھا ۔ نہ گرنے کا ڈر ، نہ وقت گزرنے کا احساس۔ نہ امی کی مار کا خوف کہ کپڑوں پر جامن کے پکے داغ لگ چکے ہیں ۔ تب تو ہم بچوں کے اتنے نخرے بھی نہیں تھے نہ ہی کوئی نخرے دیکھتا تھا ۔ اگر کپڑوں پر نشان لگ بھی گئے ہیں تو دُھل کے وہی کپڑے بار بار پہنے ہوتے کیونکہ تب گرمیوں سردیوں کے چند جوڑے ہی ہوتے تھے ۔ نئے کپڑے تو عید کے عید ہی ملتے تھے۔
یہ یادیں آکر ہمیں دُکھی بھی کر جاتی ہیں لیکن یہ ہمیں بہت پیاری بھی ہوتی ہیں ۔ انہیں ہم خود سے جدا بھی نہیں کرنا چاہتے کہ اس عمر میں بھی ایک دم سے بچپنا آجاتا ہے۔ وہ سارے لمحے ایک دم سے آنکھوں میں سما جاتے ہیں۔
وہ پیارے رشتے جو ہم سے بچھڑ گئے ، جن کی گودوں میں ہم نے آنکھیں کھولیں ، کہاں گم ہو جاتے ہیں سب … یا اللہ یہ کیسا ہے تیرا نظام! لیکن یہ بات تو حق ہے کہ تیرا ہر نظام بہترین ہے ۔
٭…٭…٭
رب نے بدلی دنیا!
فضہ ایمان ملک
دمڑی کی ہنڈیا گئی کتے کی ذات پہچانی گئی ،
حلوائی کی دکان پہ دادا جی کی فاتحہ،
خدا گنجے کو ناخن نہ دے ،
ارے بھئی ذرا رکیے!کیا سمجھے؟ میں بتاتی ہوں۔
یہ کوئی ٹی وی شو نہیں یہ تو محاوروں کی کتاب میں سے احمد صاحب کا انتخاب تھا جو آپ نے ملاحظہ کیا۔

صورتحال یہ تھی کہ عالمی وبا کے باعث اسکول ،کالج ،کوچنگ تو گزشتہ پندرہ دن سے بند تھے۔تو فراغت کا عالم یہ تھا کہ لوگ تھک تھک کر سوتے اور ہم سو سو کرتھکتے۔ امتحانات بھی فی الوقت ملتوی کر دیے گئے تھے لہذا نہ کوئی فکر نہ فاقہ ،وقت تو جیسے گزرنے کا نام نہ لیتا۔
اس سب کا جائزہ لیتے ہوئے امی جان نے میسر وقت کو کارآمد بنانے کا مشورہ دیا۔ جس کا نتیجہ نکلا کہ کبھی مہمان خانے میں سب گھر والوں کی قرآنی محفل سجتی تو کبھی اندرون خانہ کھیلوں کی بازیاں جمتیں ،الماری میں رکھیاشتیاق احمد کے ناول مزے لے کر پڑھے جاتے۔ پھرحالات کے پیش نظر لاک ڈاؤن کی اصطلاح 23 مارچ سے پورے پاکستان میں متعارف کروائی جارہی تھی جس کا اطلاق سرکاری دفاتر ،شاپنگ مالزہر جگہ ہونا تھا۔یعنی ابو کی بھی چھٹی ہوگی…آہا ! جس دن کا ہمیں بے چینی سے انتظار رہتا تھا وہ بھی آرہا تھا مگراک بالکل نئے انداز میں…
گھر میں کھانے کی میز ہو یا شام کی چائے ،موضوع وباہی ہوتا۔ بے شک لاک ڈاؤن اور قرنطینہ کی اصطلاحیں ہم سب کے لیے نئی تھیں۔ ابو کا کہنا تھا کہ ایسا جنگ میں بھی نہیں ہوتا۔مطلب واضح اس وقت ہوا جب ایک رات چھت سے جھانکنے پر قریبی سڑک جو کبھی روشنی کا منبع تھی، وہاں نہ ہی موٹر سائیکلوں کے پھٹے سائلنسروں کا شور ، نہ ہی گاڑیوں کا دھواں ، بس خاموشی کا راج۔
جہاں وبا کے باعث نقصانات کا سامنا رہا وہیں رب نے ہمارے لیے شر میں سے بھی خیر نکالی اور ہمیں اپنے گھر والوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا۔ تنہائی میسر آئی تو قدرت کے شاہکاروں کو بھی جانا۔ کل چھت پہ بادلوں سے آنکھ مچولی کرتے چاند کو دیکھتے ہوئے ایسا لگا جیسے مجھ سے دھیرے دھیرے کہہ رہا ہو۔
’’ میرے رب نے بدلی ہے دنیا ان مگن انسانوں کی ، لوگ اب راتوں کو تارے گن کر سویا کریں گے ‘‘
٭٭٭
آج کا پائیڈ پائپر۔عمارہ مشکور
آپ نے پائیڈ پائپر کی کہانی تو سنی ہو گی ۔ نہیں سنی؟ چلیں میں سنا دیتی ہوں۔
بھئی ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بہت خوبصورت بستی تھی وہاں رہنے والے لوگ بڑے خوشحال تھے اور ہنسی خوشی رہ رہے تھے کہ اچانک اس بستی میں چوہوں کی یلغار ہو گئی ۔ ہر گھر ہر دکان ہر دفتر پر گلی محلے میں چوہے گھس گئے ۔ ہر الماری میں سب کھانے پینے کی چیزوںمیں ۔وہاںکے لوگوںنے لاکھ ترکیبیں آزمائیں مگر چوہے نہ ختم ہوئے ۔ لوگ عاجز آگئے ۔
پھر وہاں کے ناظم کو شکایت کی گئی کہ حکومتی سطح پر کوئی انتظام کیا جائے اور ان چوہوں سے جان چھڑائی جائے ۔ ناظم کے پاس ایک نوجوان لڑکے نے آکر پیش کش کی کہ وہ پورے شہر سے چوہوں کا خالمہ کر دے گا ۔ نہ کوئی دوائی نہ زہر نہ اسپرے بلکہ اس نے کہا میںایک ایسی دھن بجائوں گا اپنی بانسری سے کہ چوہے خود میرے پیچھے آئیں گے اور پھر ایسا ہی ہؤا ۔ اس نے جو دھن بجانا شروع کی ہر گھر سے چوہے نکلنے شروع ہو گئے اور جھومتے گاتے اس کے پیچھے پیچھے ہو لیے ۔ وہ گلیوں بازاروں میں پھرتا رہا اور چوہے خود بخود اس کا پیچھا کرتے رہے یہاں تک کہوہ ان کو دریا کے پاس لے گیا اور وہ سب دریا میں ڈوب گئے اس دھن بجانے والے کو پائیڈ پائپر کہتے ہیں اور اس کی تصویر ایک مشہور بسکٹ کے پیکٹ پر بھی بنی ہوئی ہے ۔
یہ کہانی پتا ہے مجھے کیوں یاد آئی ! یہ مجھے عورتوں کی آزادی کے نعرے کی وجہ سے یاد آئی کیونکہ ہم خواتین بڑی بھولی ہیں ، جو بھی ہمارے حق میں دو چار بول بولے وہ ہمیں بڑا اچھا لگنے لگتا ہے اور چاہے وہ کچھ غلط بھی بولنے لگے ۔ ہمیں وہ صحیح لگتا ہے اور ہم اس کے پیچھے ہو لیتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر یہ ہمارا خیر خواہ ہے یا نہیں ، اپنی چکنی چپڑی باتوں میں گھیر رہا ہے ۔ پتا نہیں کیوں ویمن ایمپاورمنٹ کا راگ الاپنے والے مجھے پائیڈ پائپر کی طرح محسوس ہوتے ہیں جن کی آزادی کی دھن ہمیں اتنی بھلی لگتی ہے کہ ہم ہنسی خوشی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اس کا انجام کیا ہوگا ۔
جن معاشروں میں یہ آزادی مل گئی عورت کو کیا وہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہے ؟ کیا وہ معاشرے بہت پر سکون ہیں ؟ کیا وہاں عورت سکھ سے

جی رہی ہے ؟ کیا وہ محفوظ ہے ؟ کیا وہ مطمئن اور خوشحال ہے ؟مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان سارے سوالوں کا جواب نہیں میں ہے۔عورت کئی اعتبار سے وہاں انتہائی کسمپرسی کی زندگی جی رہی ہے اور مشرقی عورت پر رشک کرتی ہے جس کے لیے اس کے گھر کے مرد کماتے ہیں اور اپنی عورتوں کو گھروں میں ضروریات زندگی فراہم کرتے ہیں ۔ جہاں اگر وہ ماں بننے والی ہوتی ہے تو اس کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں اور ماں بننا اس کے لیے بڑی خوشی اور اعزاز سمجھا جاتا ہے ۔ جہاں بہنیں اپنی ضروریات اور فرمائشوں کو پورا کرنے کے لیے بھائیوں کو دوڑاتی ہیں اور بھائی باہر کے سب کام اس لیے کرتے ہیں کہ ان کی ماں بہنوں کو محلے میں کسی لچے لفنگے کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ یہ مزے صرف ان خواتین کے لیے ہیں جو رب کائنات کے قوانین کا پاس رکھتی ہیں اور جانتی ہیں کہ ہم سے سب سے زیادہ پیار ہمارا رب کر سکتا ہے ۔ اس نے ہمیں بنایا ہے اور جس کا م کے لیے بنایا ہے اسی کی طرح ڈیزائنگ کی ہے ہماری اور اسی لیے اتنے حقوق رکھے کہ ہمیں زندگی میں پریشانی کا سامنا نہ ہو ۔ جو خواتین پریشان ہیں وہ معاشرے کی بد سلوکی کی وجہ سے ہمیں نہ کہ اس وجہ سے کہ ہمارے رب نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ رب نے تو ایسا پیار ا نظام عطا کیا ہے اگر ہم اس کو تسلیم کرلیں تو ہماری دنیا بھی چین سے گزرے گی اور آخرت میں بھی اچھی زندگی ملے گی ۔ انشاء اللہ۔
بس یہ یاد رکھیں ہم رب کے ہیں اور ہمارے اوپر مرضی بھی ہمارے رب کی چلے گی اور یہ محاورہ یاد رکھیے گا کہ جو ماں سے زیادہ چاہے وہ پھاپھا کٹنی کہلائے !
٭…٭…٭
ایک سنہری تقریب
شہناز یونس۔ لاہور
موسم کا اپنا ہی رنگ ہوتا ہے اگر موسم خوشگوار اور خوبصورت ہو تو ہر چیز ہی پر کشش ہو جاتی ہے نیم خنک ہوا اور ہلکے ہلکے مارگلہ کی پہاڑیوں پرمنڈلاتے بادل۔ پریڈ گرائونڈ کی پھولوں سے سجاوٹ ایک طلسمانی منظر پیش کر رہی تھی۔
یہ23مارچ کی تقریب تھی جو موسم کی خرابی کی وجہ سے 25مارچ کو اسلام آباد کے شکر پڑیاں گرائونڈ میںمنعقد کی گئی ۔ائیر چیف کا تھنڈر JF-17اپنی گھن گرج سے سلامی دیتا ہؤا اسلامی کے چبوترے کے سامنے نسبتاًنیچی پرواز کرتے ہوئے گزرا۔ یہ وہ فائٹر جہاز ہے جو پاکستان نے اپنے طور پر خود تیار کیا ہے اور F-16 سے کارکردگی میں بہتر ہونے کی وجہ سے دنیا میں کافی سراہا جارہا ہے۔
یہ ہر سال کی روایت رہی ہے کہ پریڈ کا آغاز ایئر فورس کے جہازوں کی سلامی سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد صدر پاکستان کی تقریر تھی جو خاصی متاثر کن تھی۔ کاش ان نکات پر عمل ہوتا ہوأـ بھی نظر آئے۔
اس کے بعد ہماری زمینی فوج، ایئر فورس اور نیوی کے مختلف دستوں کی بہت ہی دل موہ لینے والی پریڈ ہوئی۔ ہر یونٹ کی خاص خاص خصوصیات اجاگر کی جارہی تھیں۔ پاکستان بننے سے لے کر آج تک ان کی تاریخ بتائی جارہی تھی جن پر لہو بھی گرم ہورہا تھا اور سر فخر سے بلند ہورہا تھا۔ جب F-C یعنی فرنٹیئر کور کی یونٹ کے جوان سلامی کے چبوترے کے پاس سے گزرے اور بتایا گیا کہ اس ایک یونٹ کے دہشت گردی کی جنگ میں 980جوان شہید ہوئے ہیں تو نہ صرف یہ کہ دل کانپ اٹھا بلکہ آنسو بھی چھلک پڑے۔ کیسے کیسے خوبصورت کڑیل جوان جو مائوں کے لختِ جگر، بہنوں کے لاڈلے معصوم بچوں کے باپ دلہنوں کا سہاگ بوڑھے باپوں کے بازو ہوں گے اپنے مقدس خون کا نذرانہ دے کر ہماری زندگیوں کو محفوظ بنا گئے۔
NLIناردرن لائٹ انفنٹری جو گلگت بلتستان اور شمالی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے۔ سلامی کے چبوترے کے پاس سے گزری۔ اس یونٹ کو فخر ہے اپنے دو نشان حیدر پر ایک لالک جان شہید اور دوسرے کیپٹن کرنل شیر خان جو اس بہادری اور بے جگری سے لڑے کہ بھارتی جرنیلوں کو بھی ان کو داد شجاعت دینا پڑی۔ اس یونٹ کے بے شمار جو انوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک کی شمای سرحدوں کی حفاظت کی ہے۔ اسی انداز میں مختلف یونٹوں اورformationکے دستے گزرتے رہے اور ناظرین کا لہو گرماتے رہے۔میڈیکل کور کی ڈاکٹرز اور floatنرسز کو نہایت پروقار دستہ بھی سلامی دیتا ہوا گزرا۔پھر مختلف شعبوں کے

کی باری آئی۔ میزائل ٹیکنالوجی میں پاکستان کی ترقی قابل فخر ہے جس کا سہرا محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کے سر پہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
برادر اسلامی ملک ترکی کی ایئر فورس کے پائلٹ نے بھی اپنے فائٹر جہاز سے دل موہ لینے والی ادائیں دکھائیں اور داد شجاعت پائی۔
پھر مختلف Bands کا ڈسپلے شروع ہوا۔ ہماری فوج کے bandsتو پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا چکے ہیں۔ اس دفعہ ترکی کا خوبصورت بینڈ اپنے روایتی لباس میں اس پریڈ کا حصہ بنا جنہوں نے ’’اللہ ہو‘‘ کی دھن اور ڈرامہ سیریل ’’ارطغرل غازی‘‘ کی دھن سے دل موہ لیے۔ ڈھول بجانے والے آئے تو ان میں تین نوجوان لڑکیاں بھی شامل تھیں جو ایسی مہارت سے گلے میں لٹکائے بڑے بڑے ڈھول پیٹ رہی تھیں کہ لگتا تھا ہمیشہ سے اسی شعبے سے منسلک ہیں۔ مائک پر کمنٹری کرنے کی آواز آرہی تھی۔ خوشی سے بتایا جارہا تھا کہ قائداعظم نے کہا تھا کہ جس ملک کی خواتین مردوں کا ساتھ نہ دیں وہ ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ہمیں حیرت ہوئی اور ہنسی بھی آئی کہ کیا ڈھول پیٹنے کا کام ہی ایسا ہے جس کے لیے قائداعظم کی روح کو شرمندہ کرنے کی ضرورت ہو! کیا ترقی کی یہی نشانی رہ گئی ہے؟
بہرحال اس مظاہرے سے قطع نظر ایک دلفریب اور پروقار تقریب میں شرکت کرکے ہمیشہ کی طرح اچھا محسوس ہوأ۔
٭…٭…٭
عورت باہمت
پروفیسر خواجہ مسعود۔ راولپنڈی
’’ چمن بتول‘‘ شمارہ اپریل میں فرحت طاہر صاحبہ کامضمون ’’عورت بیچاری‘‘ پڑھا ۔ اس مضمون میں ایک مغربی مصنفہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ عورت بیچاری ہے کیونکہ اسے اپنی تخلیقی صلاحیتیں اجاگرکرنے کے مواقع بہت کم ملتے ہیں ۔ میں تو یہ سب پڑھ کے حیران ہؤا کہ ایک یورپی خاتون کیسے یہ رائے قائم کر سکتی ہے جبکہ یورپ کی خواتین تو بہت با اختیار اور آزاد ہیں اور وہاںکا قانون بھی انہیں بے حد تحفظ فراہم کرتا ہے ۔
خود ان کے ہاں نامور رائٹر خواتین گزری ہیں جن کے لکھے ہوئے ناول اورشاعری ساری دنیا میں مقبول ہے ۔ مثال کے طور پر برانٹے سسٹرز،اگیتھا کرسٹی ، جین آسٹن جنہوںنے شہرہ آفاق ناول لکھے ان کی گھریلو ذمہ داریاں ان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنیں بھارت میں امرتا پریتم ، قرۃ العین حیدر اور دیگرنے شہرت پائی۔ہمارا معاشرہ جسے مغرب قدامت پسند معاشرہ سمجھتا ہے ، یہاں آکر دیکھیں کہ پاکستانی خواتین کے تخلیقی کارنامے کس قدر ہیں ۔ سب سے پہلے تو میں ’’ چمن بتول‘‘ میں لکھنے والی خواتین کا ذکر فخر سے کرنا چاہوں گا ۔ان خواتین کی تحاریر کس قدر اعلیٰ معیار کی حامل ہوتی ہیںجبکہ یہ سب رائٹرز اپنی گھریلو ذمہ داریاںبھی احسن طریقے سے نبھاتی ہیں ، بچوں کی پرورش بھی کرتی ہیںاور یہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں کبھی رکاوٹ نہیںبنتا ۔ بلکہ یہ خواتین دینی اور مشرقی روایات کی پاسداری بھی کما حقہ ، کرتی ہیں اورشرعی حدود کا پاس رکھتے ہوئے اپنی تمام سر گرمیاں انجام دیتی ہیں ۔
اسی طرح نامور لکھاری خواتین ہاجرہ مسرور ، خدیجہ مستور، رضیہ بٹ، زبیدہ خاتون ،بانو قدسیہ ، حجاب امتیاز علی، اے آر خاتون ، حسینہ معین ، ناہید سلطانہ اختر اور دیگرخواتین ہیں جنہوں نے گھریلو ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھائیں اور تخلیقی کام بھی کیے، ہمیں بہترین ادب دیے اورجن کی تحریروں میں مردوں کی تحریروںکی نسبت زیادہ شائستگی نظر آتی ہے ۔
سیاست کا میدان ایک مشکل میدان ہے لیکن اس میں بھی خواتین مردوں سے پیچھے نہیں ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں ۔ سیاست کے میدان میں بھی پوری اتریں اورایک فیملی لائف بھی بھرپور رکھی۔دیگر کئی خواتین بھی سیاسی میدان میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں اور گھریلو ذمہ داریاں بھی نبھاتی ہیں ۔ اسی طرح میڈیا میں بھی خواتین بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں ۔تو میرے خیال میں اگر ہماری پاکستانی خواتین تخلیقی کاموں میں بھرپورحصہ لیتی ہیں اور بے شمار گھریلو ذمہ داریاں ان کے تخلیقی کاموں میں رکاوٹ نہیں پیدا کرتیں تو پوری خواتین یہ شکوہ کیسے کر سکتی ہیں حالانکہ ان پر تو گھریلو ذمہ

داریوں کا بوجھ بھی کم ہوتا ہے ، مرد بھی بیوی کی گھریلوں کاموں میں مدد کرتے ہیں۔
میں یہی کہوں گا کہ آج عورت بے چاری نہیں ہے بلکہ وہ تعلیم یافتہ ہے ، باہمت ہے ، پر عزم ہے۔ اگر وہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں بھرپور حصہ لے رہی ہے تو ساتھ گھریلو ذمہ داریاں بھی احسن طریقے سے نبھا رہی ہے۔٭
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Dr. Asiya Madani
1 year ago

السلام علیکم
میں حالات حاظرہ پر مستقل کالم لکھنا چاہتی ہوں ۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں
خلوص کیش
آسیہ مدنی

1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x