ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

دعا عبادت ہے-بتول اپریل ۲۰۲۱

نبی ﷺ نے فرمایااللہ کے ہاں دعا سے بڑھ کر با عزت کوئی چیز نہیں (ترمذی)۔
ہر نیکی اپنی جگہ اہم ہے ، ہر نیک کام اور اچھا عمل اللہ کی نگاہ میں مقبول ہے وہ اس کا اجردے گا ۔ لیکن سب سے زیادہ با عزت اور قابل احترام عمل صرف ’’ دعا ‘‘ ہے دعا کے معنی ہیں پکارنا ، عاجزی سے مانگنا ، مدد چاہنا ، مصیبت کو دُور کرنے اورحاجت روائی کے لیے التجا کرنا ، بیماری ، افلاس اور تکلیف سے نجات حاصل کرنے کے لیے درخواست کرنا ۔
مطلب یہ ہے کہ جسمانی اور روحانی آفتوں سے چھٹکارا پانے اور ہر طرح کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے درخواست کرنے کا نام ’’دعا‘‘ ہے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس سے مانگیں ، اس کی بار گاہ عالی میں اپنی درخواستیں لے کر پہنچیں جب انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو یا کسی رنج اور مصیبت سے رہائی حاصل کرنا ہو تو اس کو پکاریں دینے کے لیے اس کے خزانے بلا حساب ہیں اور وہ کسی کو خالی نہیں لوٹاتا۔
دُعا بھی عبادت ہے
نبی ؐ نے فرمایا ۔ دعا عبادت ہے پھر آپؐ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی۔
’’تمہارا رب کہتا ہے ۔ مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا جو گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘ (المومن آیت۲۰)(ترمذی النعمان بن بشیر ابواب الدعوات)
عبادت کا لفظ بڑا جامع اور وسیع ہے آنحضرت ؐ نے اللہ سے دعا کرنے یا اسے حاجت روا سمجھ کر پکارنے کو عبادت قرار دیا ہے کسی انسان کے لیے نماز پڑھنا ، غیر خدا کے نام کا روزہ رکھنا یا اس کے نام پر جانور ذبح کرنا شرک ہے بالکل اسی طرح غیر اللہ سے دعا کرنا یا مدد کے لیے اسے پکارنا بھی شرک ہے انسان اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے اس کی بارگاہ میں اپنی عاجزی، بے بسی اور محتاجی کا اظہار کرتا ہے اور اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اقتداراور طاقت کا سر چشمہ اللہ ہی ہے ۔
دعا بندگی کا جوہر ہے
نبی ؐ نے فرمایا دعا بندگی کا مغز ہے ۔(ترمذی عن انس بن مالک ابواب الدعوات)
اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے قرآن مجید میں سب انسانوں کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ سب کے سب اپنے رب کی’’ عبادت‘‘ کریں اور اس میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔ دعا عبادت کا جو ہر ہے اس لیے غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ہے قرآن مجید میں اس مضمون کو مختلف انداز میں بار بار بیان کیا گیا ہے کہ تم مصیبت اور پریشانی کی حالت میں صرف رب العالمین کو پکارو ۔ اس کی بار گاہ عالی میں فریاد کرو جو کچھ مانگنا ہو اور جب بھی مانگنا ہو صرف اللہ سے التجا کرو کیونکہ کائنات میں خدا کے سوا کوئی مشکل کشا ہے نہ فریاد رس ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ خلق خدا میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے جو حاجت روا اور قاضی الحاجات ہو ۔ انسان کو ہر چیز کے لیے صرف رحمان کی بار گاہ میں دست سوال دراز کرنا چاہیے غم کے ہجوم اور مصائب کے پہاڑوں کو صرف اللہ ہی ٹال سکتا ہے اللہ تعالیٰ جس شخص کو کسی مصیبت میں مبتلا کردے کوئی انسانی طاقت اسے نفع نہیں دے سکتی اور اس کا ابر کرم جس ویران کھیتی کو شاداب کرے کوئی طاقت اسے خزاں رسیدہ نہیں کر سکتی۔
دُعا اللہ کی بارگاہ میں
رسول اللہ ؐ نے فرمایا ۔ تمہارا رب بڑا با حیا اور کرم والا ہے جب بندہ (بے چین ہو کر) دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے تو انہیں خالی لوٹانے میں اسے شرم آتی ہے (ابو دائود عن سلمان کتاب الصلوٰۃ)
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے حیا کرتا ہے جو اس کی بارگاہ میں سوال کرنے کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے کہ اسے کچھ نہ دے اس کی دعا قبول نہ کرے اور اسے خالی ہاتھ واپس لوٹا دے ۔ دعا قبول نہ کرنا اس کی شان کریمی کے خلاف ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بندوں کے اعمال میں سے دعا کا عمل سب سے زیادہ اللہ کو متوجہ کرنے والا ہے ۔
نفع و نقصان صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے
امیر المومنین سید نا عمر فاروق ؓحرم میں جب حجرا سود تک آئے تو اسے بوسہ دیا اور فرمایا میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے تو نہ تو کسی کا کچھ بگاڑ سکتا ہے اور نہ کسی ک ونفع د ے سکتا ہے اگر میںنبیؐ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا (بخاری کتاب المناسک ، مسلم کتاب الحج، ترمذی ابواب الحج)۔
’’ حجراسود‘‘ بیت اللہ کے کونے میں ملتزم کے بائیں طرف ایک پتھر ہے طواف کا آغاز اس کے بوسہ دینے ، اسے چھونے یا اس کی طرف اشارہ کرنے سے ہوتا ہے ، دراصل حج کے آغاز سے یہ طریقہ چلا آ رہا ہے کہ اللہ کے گھر کا طواف کرنے والے اس قابل احترام پتھر کو بوسہ دے کر طواف کا آغاز کریں ۔ بعض روایات میں حجراسودکو اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ فرمایاگیا ہے ۔ ہمارے آقا و محبوب سیدنا محمد ؐ نے بھی اسے بوسہ دیا ۔ سیدنا عمر بن الخطاب ؓ نے اسے بوسہ دینے کے بعد فرمایا میں جانتا ہوںکہ توایک پتھر ہے نفع و ضرر تیر ے ہاتھ میں نہیں ہے میں تجھے بوسہ نہ دیتا لیکن میرے آقاؐ نے تجھے بوسہ دیا تھا اس لیے میں تجھے بوسہ دیتا ہوں۔
خلیفہ راشد کے اس طرزعمل کے بعد ان حضرات کو اپنے رویہ پر غور کرنا چاہیے جو بزرگوں کے مزارات کو بوسہ دیتے ہیں۔
وسیلہ
قحط کے زمانہ میں حضرت عمر فاروقؓ حضرت عباس ؓ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے تھے (دعا کے الفاظ یہ ہوتے ) اے اللہ ! ہم اپنے نبی ؐ کو وسیلہ بنا کر تجھ سے قحط کے زمانہ میں بارش چاہتے تھے اور تو مینہہ برساتا تھا اب ہم نبی ؐ کے محترم چچا کے وسیلہ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ( ان کی دعا اور سفارش سے ) بارش نازل فرما اس دعا کے بعد اللہ تعالیٰ کا ابر کرم خوب برستا(بخاری عن انس کتاب الاستسقاء فضائل اصحاب النبیؐ)
عہد فاروقی میں 9ماہ تک بارش نہ ہونے کی وجہ سے شدید قحط رونما ہؤا وہ تاریخ میں ’’ عام الرماد‘‘ ( یعنی راکھ کا سال) کے نام سے مشہور ہے ۔ قحط کی وجہ سے لوگوں کا رنگ راکھ کی طرح ہو گیا تھا اس لیے اسے ’’عام الرماد‘‘کہتے ہیں ، حکومت نے اس سال لوگوں سے زکوٰۃ وصول نہ کی بلکہ اسے دوسرے سال تک موخر کردیا ۔ یہ 18ہجری کا واقعہ ہے ۔
حضرت عباس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا ۔
اے اللہ ! مصیبت تو صرف گناہ کی وجہ سے آتی ہے اور توبہ کے بغیر اس سے نجات بھی نہیں مل سکتی ۔ قوم مجھے آپ کی بارگاہ میںلائی ہے کیونکہ میں تیرے نبی ؐ کی نگاہ میں وقیع تھا ہم گناہوں کے ساتھ تیری بارگاہ میں اپنے ہاتھ پھیلا رہے ہیں اور توبہ کر کے اپنے سروں کو تیرے قدموں پر جھکا رہے ہیں پس تو بارش سے ہمیں سیراب کر۔
’’ توسل‘‘ بایں معنی کہ کسی کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے دعا قبول کرنے کی درخواست کرنا ، اہل تصوف اس کے قائل ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ انبیاء اولیا اور صالحین اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے وجیہہ ، مقرب اور ذی مرتبہ ہیں اللہ نے ان پر بڑا فضل فرمایا ہے اور وہ ان سے راضی ہے اس لیے ان کا واسطہ دے کر( مثلاً فلاں کہہ کر ) اللہ تعالیٰ سے دعا قبول کرنے کی استدعا کی جائے ۔ جن بزرگوں کے وسیلہ سے دعا کی جاتی ہے وہ نہ تو دعا کے وقت موجود ہوتے ہیں اور نہ یہ بات ان کے علم میں ہوتی ہے کہ کوئی حاجت مند ان کی وجاہت اور قرب الٰہی کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کر رہا ہے ۔
قرآن و سنت اور تعامل صحابہ سے یہ توسل ثابت نہیں ہے قرآنی دعائیں توسل سے بالکل آشنا نہیں ہیں چاہے وہ فرشتوں ، نبیوںاور اہل ایمان نے کی ہیں یا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کوسکھائی ہیں ۔ حضورؐ کی تلقین فرمودہ دعائوں میںبھی توسل کا یہ تصور نہیں ملتا جو ہمارے ہاں رائج ہے مذکورہ بالا حدیث پر غور کرنے سے جو حقیقت سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ زندہ صالحین سے توسل فعلی کیا جا سکتا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کے نیک بندے سے دعا کی درخواست کی جائے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے استدعاکی جائے کہ رب اکرم! اپنے اس بندے کی دعا میرے لیے قبول فرما حدیث کی کتابوں میں مجھے آج تک ایک ضعیفہ روایت بھی اس مضمون کی نہیں ملی کہ حضورؐ کی وفات کے بعد کسی صحابی ؓ نے آنحضرت ؐ کی قبرمبارک پر حاضر ہو کر یہ درخواست کی ہو کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں یا سفارش فرمائیں کہ وہ میری فلاں حاجت پوری کر دے یا فلاں مصیبت سے مجھے نجات دے ۔
استغفار کی برکتیں
رسول اللہ ؐ نے فرمایا ۔ جو شخص ہمیشہ استغفار( اللہ سے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا )کرتا رہے اللہ ہر قسم کی تنگی سے نکلنے کی راہ اس پر کھول دے گا اور ہر غم و فکر سے اسے نجات بخشے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عنایت فرمائے گا جس کا اسے وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔
’’ استغفار‘‘ کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اس گناہ کو بالکل ترک کردے جس کی مغفرت کے لیے اللہ تعالیٰ سے درخواست کر رہا ہے جو شخص گناہ پر اصرار کے باوجود استغفار کرتا ہے وہ اپنے رب سے مذاق کرتا ہے استغفار کو ہمیشہ اپنانے کے معنی یہ ہیں کہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر برابرنگاہ رکھے ۔ پورے شعور اور عاجزی کے ساتھ ایک سو بار روزانہ اللہ تعالیٰ سے بخشش چاہے، اس سے ہر قسم کی تنگی اور مصیبت سے نکلنے کی راہ پیدا ہو گی ۔ ہر طرح کے غم و اندوہ سے نجات ملے گی ( یعنی دل میں سکون اور اطمینان پیدا ہوگا) ۔
اور اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے اپنے بندے کو ایسی جگہ سے کشادہ روزی عطا فرمائے گا جس کا اسے وہم و گمان بھی نہ تھا کہ اس کی روزی کا انتظام یہاں سے بھی ہو سکتا ہے ۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی خدمت میں یکے بعد دیگرے چار آدمی حاضر ہوئے ایک نے قحط سالی کی شکایت کی دوسرے نے اپنی تنگدستی اور محتاجی کا شکوہ کیا تیسرے نے کہا حضرت! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بیٹا عطا فرمائے چوتھے نے عرض کیا میرا باغ سوکھ گیا ہے۔
آپ ؒ نے ہر ایک سے کہا کہ ’’ اللہ سے استغفار کرو‘‘۔
کیونکہ اس سے ہر مقصد پورا ہوتا ہے اور ہر مشکل آسان ہوتی ہے اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مصیبتوں اور پریشانیوں میں عموماً گناہوں کا دخل ہوتا ہے سچے دل سے توبہ کر کے آدمی جب اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی غلطیوں کو معاف فرما دیتا ہے تو پھر وہ مصائب اور آلام جوگناہوں کی پیداوار ہوتے ہیں دُور ہو جاتے ہیں اور ان سے نجات مل جاتی ہے حضور ؐ سے ’’ استغفار‘‘ کے بہت سے اسلوب منقول ہیں میں صرف دو پر اکتفا کرتا ہوں ۔
(۱) رَبِّ اغْفِرلْی وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
( اے میرے مالک و پروردگار ! مجھے بخش دے اور مجھ پر نگاہِ کرم ڈال، تو اپنے بندوںکی بار بار توبہ قبول کرنے والا ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے )
(۲) اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّاھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَ اتُوْبُ اِلَیْہِ
( میں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہی ہے ہمیشہ زندہ رہنے والا اور کائنات کا منتظم ، میں اس کی طرف پلٹتا ہوں )
ہر شخص اپنے گناہوں سے خوب واقف ہے گناہوں کو یاد کر کے احساس ندامت کے ساتھ اللہ سے بار بار مغفرت کی درخواست کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ’’ غرور زہد‘‘ کے جراثیم سے انسان کا دل داغدار نہیں ہوتا۔
حاجت روا صرف اللہ تعالیٰ ہے
نبی ؐ نے فرمایا سب سے بڑا گناہ ہے(۱) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور (۲) ماں باپ کی نا فرمانی کرنا اور ( تین بار فرمایا ) (۳) جھوٹی گواہی دینا یا( آپ ؐ نے فرمایا ) جھوٹی بات کہنا آپؐ نے ( اس آخری بات کو ) بار بار دہرانا شروع کیا یہاںتک کہ ہم نے کہا کاش کہ آپؐ خاموش ہو جائیں ( اور آرام فرمائیں )(بخاری عن ابی بکرۃ کتاب استتابۃ المرتدین)
اللہ تعالیٰ کی صفات کو کسی فرد یاادارے کی طرف منسوب کرنا اللہ کے ساتھ اسے شریک بنانے کے ہم معنی ہے مثلاً کسی کے آگے سر جھکانا، اس کا طواف کرنا ، اپنی حاجات اور مشکلات کے لیے اس کی طرف رجوع کرنا ، سجدہ کرنا ، اسے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا، مصیبت کے وقت اسے مدد کے لیے پکارنا ، افسوس ہے کہ جس پیغمبرؐ نے شرک کو سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے اس کی امت کا ایک بہت بڑا حصہ غیر شعوری طور پر شرک میںمبتلا ہے جو کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے وہ در اصل اعلان کرتا ہے کہ اس نے اللہ سے بغاوت کردی ہے اور اس کے اقتدار اورحکومت کو چیلنج کر دیا ہے یہ ایک ایسا سنگین جرم ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا ہے کہ وہ اسے بالکل معاف نہیں کرے گا اور باغی کو ہمیشہ کے لیے دوزخ میں ڈال دے گا ۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x