ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قراردادِ پاکستان اورمخالفین کے بے بنیاد الزامات – بتول مارچ ۲۰۲۲

قیام پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین سنگِ میل اور روشن ترین باب ، حقائق کے تناظر میں مکمل تفصیلات

خطبہ الٰہ آباد سے قرارداد پاکستان کا دس سالہ عرصہ کتابوں کا موضوع ہے کیونکہ میری ذاتی رائے میں ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگی میں یہ دہائی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ میرے نزدیک یہ دہائی (1940-1930) ہندوستانی مسلمان کی تاریخ کی اہم ترین دہائی ہے ۔ اس موضوع پر مضمون گویا سمندر کو کوزے میںبند کرنے کے مترادف ہے اس لیے بہت سے غیر اہم حقائق سے صرف نظر کرنا پڑے گا ۔
’’Immortal Years‘‘کا مصنف ایولن رنچ لکھتا ہے کہ میں نے جناح سے پوچھا کہ آپ کو پاکستان کا خیال یعنی ایک آزاد مسلمان مملکت کا خیال پہلی بار کب آیا ؟ قائد اعظم نے جواب دیا تھا 1930ء۔ اسی سال علامہ اقبال نے دسمبر 1930 میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمان اکثریتی علاقوں پر ایک ریاست کا تصور پیش کیا ۔ اگرچہ انہوں نے اس کے قیام کے لیے Within or Withoutکے الفاظ استعمال کیے کہ اس ریاست کو ہندوستان کی فیڈریشن کے اندر یا باہر قائم کیا جا سکتا تھا لیکن بعد ازاں انہوں نے کئی بار اس کی وضاحت کی کہ ان کا مدعا اس ریاست کو ہندوستان کے اندر قائم کرنا ہے ۔ علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد سے چند ماہ قبل قائد اعظم ہندوستان کے حالات اور مسلمانوں کی سیاست سے مایوس ہو کر انگلستان چلے گئے تھے ۔ انگلستان میں قیام کے دوران ان سے کئی سیاستدان بشمول لیات علی خان اور نوجوان ملتے رہے اور انہیں ہندوستان واپسی پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ کیمبرج سے چودھری رحمت علی اور خواجہ رحیم سمیت کئی طلبہ اُن سے چند ایک بار ملے اور پاکستان کے قیام کی تجویز پیش کی لیکن قائد اعظم کا فرمانا تھاکہ ’’ نوجوان جلدی نہ کرو۔ پانی کو بہنے دو ۔ یہ اپنی جگہ خود بنا لے گا ‘‘۔
او رپھر وہی ہؤا کہ اس تصور نے آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا لی ۔ کیمبرج میں چودھری رحمت علی نے جنوری 1933ء میں نیشنل موومنٹ فار پاکستان قائم کی اور پاکستان پر پمفلٹ (Now or Never)اور متعلقہ مواد انگلستان کے اراکین پارلیمنٹ کو بھجوانا شروع کیا تاکہ پارلیمنٹ میں پاکستان کے تصور کے لیے ذہن ہموار کیے جائیں کیونکہ بالآخر پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ برطانوی پارلیمنٹ نے ہی کرنا تھا ۔ قائد اعظم اس دوران ہندوستان آتے جاتے رہے ۔ بقول خواجہ رضی حیدر مسلم لیگ کونسل نے 12مارچ 1933ء کو ایک قرارداد منظور کی جس کی تائید علامہ اقبال نے بھی کی ۔اس قرارداد میں قائد اعظم کو ہندوستان واپسی کی اپیل کی گئی تھی ۔1934ء میں بمبئی کے مسلمانوں نے اپنی دیرینہ محبت وعقیدت کا ثبوت دیتے ہوئے قائد اعظم کو ان کی غیر حاضری میں بلا مقابلہ مرکزی اسمبلی کا رکن منتخب کروا دیا ۔چنانچہ قائد اعظم 1935ء میں انگلستان سے لوٹ آئے ۔
قائد اعظم 1919ء سے لے کر 1930ء تک مسلم لیگ کے صدر رہے ۔ انگلستان سے واپسی کے بعد وہ مسلم لیگ کو منظم کرنے میں مصروف ہو گئے اور دن رات مسلمانوں کے اتحاد کے لیے کوششیں کرنے لگے ۔ اس دوران وہ اسمبلی میں مسلمانوں کے حقوق کی آواز بھی مسلسل اٹھاتے رہے ۔1936ء میں قائد اعظم لاہور آئے تو علیل علامہ اقبال سے ملنے ان کے گھر گئے ۔ چنانچہ علامہ اقبال ،ملک برکت علی ، خلیفہ شجاع الدین ، غلام رسول اور پیر تاج الدین نے ایک مشترکہ بیان میںقائد اعظم کی مکمل حمایت کی ، اُن کی سیاسی بصیرت کو خراجِ تحسین ادا کیا اور اُن کی ’’ بے نفسی ‘‘ کی کھلے دل سے داد دی ۔
اُس وقت علامہ اقبال پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے ۔1935ء کے ایکٹ کے تحت انتخابات کا مرحلہ قریب آرہا تھا اور انتخابات میں قومی وجود کو منوانے کے لیے مسلمانوں کے اتحاد اور ایک ایسے لائحہ عمل کی ضرورت تھی جو مسلمانوںکو متحد اور متحرک کر سکے ۔ اسی عرصے میں علامہ اقبال نے (1937-1936ء) کے دوران قائد اعظم کو خطوط لکھے جو کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں ۔ میرے مطالعے کے مطابق علامہ کے خطوط نہایت اہم پیش رفت تھی جس نے قائد اعظم کے نظریات اور حکمت عملی کی تشکیل میں اہم کردار سر انجام دیا ۔ ان خطوط میں علامہ اقبال نے قائد اعظم کو مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں پر مشتمل آزاد اور مقتدرریاست کے مطالبے پر قائل کیا ، مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس کسی مسلمان اکثریتی صوبے میںمنعقد کرنے کی مدلل تجویز دی جس کے نتیجے کے طور پر لاہور کا انتخاب عمل میں آیا ۔ علامہ اقبال نے پنجاب کے موسم کو ذہن میںرکھتے ہوئے مارچ کی تجویز دی ۔ یہی وجہ ہے کہ قرارداد پاکستان ( لاہور) کی منظوری کے بعد قائد اعظم نے کہا کہ اگر آج علامہ اقبال زندہ ہوتے تووہ بہت خوش ہوتے کہ ہم نے وہی کر دکھایا جو وہ چاہتے تھے ۔25 مارچ 1940ء کو یومِ اقبال ( لاہور) پر صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ:
’’ اگر کبھی مسلمان ریاست معرض وجود میں آجائے اور مجھے اس ریاست کی حکمرانی اور کلام اقبال میںچوائس(Choice)دیا جائے تو میں کلام اقبال کو ترجیح دوں گا ‘‘۔
1935ءسے لے کر 1940ء تک میرے مطالعے کے مطابق اہم ترین سیاسی پیش رفت 1935ء کے ایکٹ کے تحت انتخابات تھے جس میں کانگرس نے بڑی کامیابی حاصل کر کے گیارہ صوبوں میں سے سات صوبوں میں حکومت بنائی ۔ بعد ازاں ایک اور صوبے کی آمد کے بعد کانگرس آٹھ صوبوں کی حکمران جماعت بن گئی ۔ ان انتخابات نے مسلمانوں کی حالتِ زار اور مسلم لیگ کی کمزوری کو عیاں کر دیا لیکن آٹھ کانگرسی صوبوں میں حکمرانوں نے مسلم لیگ اورمسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روارکھا اس نے نہ صرف مسلمانوں کی آنکھیںکھول دیں بلکہ ان میں اتحاد کا شعور بھی پیداکیا۔ کانگرسی صوبوں میں مسلمان طلبہ کو مسلم دشمن ترانہ’’ بندے ماترم‘‘ پڑھنے پر مجبور کیا جاتا تھا اور طلبہ کے لیے گاندھی کے بُت کی پرستش بھی لازمی قراردی گئی تھی ۔ مسلمانوں پرسرکاری نوکریوںکے دروازے بند کردیے گئے اور مسلم لیگ سے شرکت اقتدار کے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پس پشت ڈال دیے گئے ۔
کانگرس کے مسلمان دشمن اقدامات نے مسلمانوں کے دلوں میں خطرات کی گھنٹیاں بجا دیں اور ان میں یہ احساس پیدا کیا کہاگر انگریزوں کے ہوتے ہوئے کانگرس کا یہ رویہ ہ تو پھر انگریزوں کی رخصتی کے بعد کانگرس مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کرے گی ؟ میرے مطالعے کے مطابق کانگریسی رول وہ واحد واقعہ ہے جس نے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کرنے میں سب سے اہم کردار سر انجام دیا ۔ کانگرسی حکومتوں نے ہندوئوں کے اصل عزائم اور مسلمانوں سے نفرت کو عیاں کر دیا ۔ چنانچہ وہ الگ وطن کے قیام کے بارے میں سوچنے لگے ۔ چنانچہ 1939ء میں کانگرس نے اقتدار سے استعفیٰ دیا تو مسلم لیگ نے ملک بھر میں یوم نجات منایا ۔ کانگرسی زیادتیوں اور بے انصافیوں کے حوالے سے مسلم لیگ کی قائم کردہ کمیٹی کی رپورٹ ( پیر پور رپورٹ ) پڑھنے کے لائق ہے۔
قائد اعظم اور مسلم لیگ قیادت اس سفر سے گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک آزادانہ مسلمان مملکت کے قیام کی ضرورت محسوس کرنے لگے تھے جس کا پہلا واضح اظہار اکتوبر 1938ء میں ہؤا جب سندھ مسلم لیگ کانفرنس میں قائد اعظم کی صدارت میں تقسیم ہندکے بارے میں غور کیا گیا۔ سندھ پراونشل مسلم لیگ کا نفرنس میں قائد اعظم نے اپنی تقریر میں چیکو سلواکیہ کی تقسیم کا حوالہ دیا اور کہا کہ مسلمان ہندوستان میں اپنے قومی تشخص کو ہر حال میں قائم رکھیں ۔ استقبالیہ کمیٹی کے صدر جناب عبد اللہ ہارون نے مسلمان ریاستوں کے وفاق کا امکان ظاہر کیا اورشیخ عبد المجید نے کہا ، اگر کانگرس ہمارے مطالبات تسلیم نہیںکرے گی تومسلمانوں کو بہرحال ’’پاکستان سکیم‘‘ پر عمل درآمد کرنا پڑے گا ۔ چنانچہ سبجیکٹس کمیٹی نے ایک قرارداد پاس کی ، جس میں آل انڈیا مسلم لیگ سے سفارش کی گئی کہ وہ ایک ایسی سکیم بنائے جس کے تحت مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد وفاق کا قیام عمل میںلایا جائے ۔ہندوستان کو دو حصوںمیںتقسیم کیا جائے۔
جناب ایم اے کھوڑو نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ اکتوبر ، نومبر 1938ء میں قائد اعظم نے کراچی میں قیام کے دوران حاجی عبد اللہ ہارون سے کہا کہ وہ مسلمانوں کےعلیحدہ وطن کے قیام کے ضمن میںمواد اکٹھا کریں تاکہ اس مسئلے کے تمام پہلوئوں پر غورکرنے کے بعد مضبوط کیس بنایا جائے ۔ کیونکہ کانگرس مسلمانوں کے مسائل طے کیے بغیر آزادی کا مطالبہ کر رہی ہے ۔ عبد اللہ ہارون نے یہ کام پیر علی محمد راشدی کے ذمے لگایا جو 1939ء میں سال بھر اس موضوع پر مواد اکٹھا کرتے رہے اور رپورٹ لکھتے رہے ۔ چنانچہ اس رپورٹ کے بعد مسلم لیگ کا 23 مارچ 1940ء والا تاریخی اجلاس لاہور میں بلایا گیا ۔
اسی دوران تقسیم ہند اور ’’ قیام پاکستان‘‘ کے لیے بہت سی سکیمیں پیش کی گئیں اور حضرت قائد اعظم کی خدمت میں بھجوائی گئیں ، جن کا ذکر شریف الدین پیر زادہ نے اپنی کتاب’’ قائد اعظم محمد علی جناح اینڈ پاکستان‘‘ میں کیا ہے ۔ ان سکیموں کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا با شعور طبقہ اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ اب تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے علاوہ اور کوئی چارۂ کار باقی نہیںرہا۔ اس لحاظ سے 23 مارچ کی قراردادِ پاکستان مسلم لیگ کا فوری فیصلہ نہیں تھا ، نہ ہی کسی فردِ واحد کا کارنامہ تھا بلکہ یہ قرارداد ایک طویل اور گہری سوچ و فکر کی عکاسی کرتی تھی اور سیاسی صورتحال کا منطقی نتیجہ تھی۔
اس ضمن میں ایک اہم پیش رفت26 مارچ1939ء کو مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس تھا ، جس کا مقصد ہی تقسیم کی سکیموں پر غور کرنا تھا ۔ پنجاب کے گورنر نے کوششیں کیں کہ وہ سر سکندر حیات کے ذریعے عبد اللہ ہارون کی سکیم کا راستہ روکے۔ بہرحال ورکنگ کمیٹی نے نوافراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی جسے ان متعدد سکیموں پرغور کرنے کا فرض سونپا گیا ۔ 8اپریل کو دلی میں مسلم لیگ کونسل کا اجلاس ہوا جس میں حضرت قائد اعظم نےتقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سامنے بہت سی سکیمیں ہیںجن میں ہندوستان کو تقسیم کر کے ہندو انڈیا اور مسلمان انڈیا کے قیام کی سکیم بھی شامل ہے ۔ انہوں نے کونسل کو یقین دہانی کرائی کہ ان پر غور و خوض کر کے ایک ایسی سکیم وضع کی جائے جو مسلمانوں کے بہترین مفاد میں ہو۔
تین ستمبر کو برطانیہ نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردیا اور اگلے دن ہندوستانی وائسرائے لارڈلنلتھگو نے قائد اعظم اور گاندھی کو گفتگو کے لیے بلایا ۔ اس عرصے میں مسلم لیگ کے ارادوں کو خاصی ہوا مل چکی تھی ۔ ہندوستان کی تقسیم کی باتیں کی جارہی تھیں اور جیسا کہ ٹرانسفر آف پاور کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے ، سرکاری ایجنسیاں بشمول انٹیلی جنس حکومت کو مسلسل رپورٹیں بھجوا رہی تھیں کہ مسلم لیگ ہندوستان کو تقسیم کروانے کا فیصلہ کرچکی ہے چنانچہ وائسرائے نے اس ملاقات کے دوران قائد اعظم سے تقسیم ہند کے بارے میں پوچھا جس کے جواب میںانہوںنے کہا کہ انہیںموجود صورتحال کا بہترین حل تقسیم میں نظر آتا ہے ۔ وائسرائے نے کہا کہ یہ سکیم قابل عمل نہیں ۔ قائد اعظم نے جواب دیا کہ آپ کا برما کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ وہ بہت خوش ہیں ( اس وقت برما الگ ہو چکا تھا ) بظاہر وائسرائے لاجواب ہو گیا۔
کے ایم منشی ایک ممتاز کانگرسی لیڈر تھے ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وائسرائے کا کانگرسی لیڈروں سے مسلسل رابطہ تھا ، چنانچہ وائسرائے نے منشی صاحب کو وارننگ دی کہ گاندھی کو بتا دو ہمارا کام کانگرس کے بغیر اور کانگرس کا کام ہمارے بغیرنہیںچل سکتا ۔ مجھے دستور کے وفاقی حصے پر عمل کرنے دو تاکہ کانگرس مرکز میں اقتدار سنبھال لے ۔ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو جناح ہندوستان کودو حصوں میں تقسیم کردے گا ۔ گویا حکومت برطانیہ اور ہندوستانی وائسرائے کو سمجھ آچکی تھی کہ جناح فیصلہ کر چکے ہیں ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ولی خان نے اس گفتگو کو دلچسپ رنگ دیا ہے اور نتیجہ یہ نکالا ہے کہ قائد اعظم نے مطالبہ پاکستان وائسرائے کی منظوری سے کیا ۔ حالانکہ حکومت مختلف حیلوں بہانوں سے اس مطالبے کو ٹالنے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ مسلم لیگ اور قائد اعظم اس پر ڈٹے ہوئے تھے ۔ چنانچہ2 فروری 1940ءکو قائد اعظم کی مقرر کردہ فارن کمیٹی کا اجلاس عبد اللہ ہارون کی صدارت میں ہؤا جس میں تقسیم سے متعلقہ سکیموں کا جائزہ لیا گیا اور ان کے مصنفین سے ملاقات کی گئی ۔ تین فروری کو مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہؤا جس میں فیصلہ ہؤا کہ مسلمانوں کا مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک وفد لندن بھیجا جائے ۔ بقول چودھری خلیق الزمان اس وفد کو مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کے مطالبے کی لائن دی گئی۔
خطبہ الٰہ آباد سے لے کر قرارداد پاکستان تک سب سے اہم ترین سنگ میل قرار داد پاکستان ( لاہور) تھی جو قیام پاکستان کی بنیاد بنی ۔ قراردادِ پاکستان 23 مارچ1940ء کو پیش کی گئی اور اگلے دن 24 مارچ کو منظوری ہوئی ۔ کئی دہائیاں گزر چکیں لیکن اس کے مختلف پہلوئوں پر ابھی تک بحث جاری ہے ۔ قرارداد کی تشکیل اور اس کے مصنفین سے لے کر اس کے متن تک لاکھوں صفحات لکھے جا چکے ہیں ۔ دلچسپ اور عجیب بات یہ ہے کہ اس قرارداد کا مفہوم بھی لوگوں کا اپنا اپنا ہے جس طرح سچ ہر کسی کا اپنا اپنا ہوتا ہے ۔ قراردادکی منظوری کے بعد کسی غیر ملکی صحافی کو انٹرویودیتے ہوئے قائد اعظم نے واضح کیا تھا کہ ہم نے ایک ریاست کا مطالبہ کیا ہے ۔ اس کا حوالہ سٹینلے والپرٹ نے اپنی کتاب ’’ جناح آف پاکستان‘‘ میں دیا ہے ۔ گاندھی سے خط و کتابت میں بھی قائد اعظم کا موقف یہی تھا کہ وہ ایک ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیںجبکہ اگر قرارداد کو بغور پڑھا جائے تو تاثر اس کے برعکس ابھرتا ہے یوں قاری کنفیوژن کے سمندر میںغوطے کھانے لگتا ہے ۔ مولانا فضل الحق سے لے کر شیخ مجیب الرحمٰن سے ہوتے ہوئے ولی خان اور دوسرے قومیت پرست سیاسی لیڈروں تک ہر کسی کا اصرار ہے کہ قرارداد لاہور دو آزاد مسلمان مملکتوںکا تصوراورمطالبہ تھا جس نے 1971ءمیںمشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد عملی شکل اختیار کرلی۔
جہاں قراردادِ لاہور کے متن کے بارے میںکنفیوژن اور کئی آراء ہیں وہاں اس کے مصنفین کے بارے میں بھی ایک ایجنڈے کے تحت شکوک پیدا کیے جا رہے ہیں ۔ ڈاکٹر مبارک علی نے پھر وہی دعویٰ دہرایا ہے کہ 1940ء میںہندوستان کے وائسرائے لارڈ لنلتھگو نے وائسرائے کونسل کے رکن سر ظفر اللہ خان سے تقسیم ہند پر نوٹ تیار کرنے کو کہا ۔ لارڈ لنلتھگونے حکومت سے منظوری لے کر وہی نوٹ قائد اعظم کو دے دیا اور قائد اعظم نے اسے 23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور کروالیا۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ولی خان اور ڈاکٹرمبارک علی دونوں بظاہر اس حقیقت سے بھی لا علم ہیں کہ خود چوہدری ظفر اللہ خان قرارداد پاکستان سے کسی قسم کے بھی تعلق کی نفی اور تردید کر چکے ہیں ۔25 دسمبر 1981ء کو ان کا ایک انٹرویو دوسرے اخبارات کے علاوہ ’’ڈان‘‘ کے پہلے صفحے پر چھپا جس کے بعد اس بحث کا سلسلہ بند ہو جانا چاہیے تھا ۔
سر ظفر علی خان نے واضح کیا کہ انہوں نے وائسرائے لنلتھگو کے کہنے پر ایک اسکیم بنائی جس میں متحدہ ہندوستان کے اندر فیڈریشن کا تصوردیا تھا نہ کہ تقسیم ہند کا ۔ اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہ اسکیم پروفیسر اکرام کی کتاب ’’ٹرتھ از ٹرتھ(Truth is Truth)‘‘ میں بطور ضمیمہ شامل ہے ۔ مسلم لیگ ریکارڈکے مطابق قرارداد لاہور ڈرافٹ کرنے کے لیے سر سکندر حیات ، ملک برکت علی اور نواب اسماعیل خان پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی تھی ۔ اس کمیٹی کے تیار کردہ ڈرافٹ پر سبجیکٹ کمیٹی نے قائد اعظم کی صدارت میں 23 مارچ کو سات گھنٹے بحث کی ۔ یہ ڈرافٹ مسلم لیگ کے آرکائیوز میںموجود ہے ۔ اس میں علی محمد راشدی ، محمد نعمان ،ظہیر الدین فاروقی ، مشتاق گورمانی ،حسین امام، زیڈ ایچ لاہوری، رضوان اللہ، عبد الحمید خان ، نواب آف چھتاری ، عزیز احمد اور عاشق حسین بٹالوی وغیرہ وغیرہ نے ترامیم تجویز کیں ۔ خود قائد اعظم کے اپنے ہاتھ سے لکھی ترمیم بھی قرارداد میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ڈرافٹ وائسرائے کی طرف سے آیا تھا تو یہ ترامیم ہوا میں کی جا رہی تھیں ؟
یہ بات شواہد سے ثابت ہو چکی ہے کہ قرارداد پاکستان کا ظفر اللہ خان سے کوئی تعلق نہیںتھا ۔وہ متحدہ ہندوستان کے حامی تھے سوال یہ ہے کہ بنیادی مسودہ کس نے تیار کیا جس میںڈھیروں ترامیم کی گئیں اور مسلم لیگ کے بہترین دماغ سات گھنٹے اس پر غور کرتے رہے ؟
قرارداد پاکستان کی منظوری سے تقریباً ایک سال بعد پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی میں اس حوالے سے بھی سوال پوچھا گیا جس کا جواب دیتے ہوئے پنجاب کے پریمیئر ( وزیر اعظم ) سر سکندر حیات نے کہا کہ قرارداد کا بنیادی ڈرافٹ میں نے تیار کیا تھا لیکن ورکنگ کمیٹی نے بے شمار ترامیم کر کے اسے یکسر بدل دیا۔ سر سکندر حیات نے یہ وضاحت بھی کی کہ انہوں نے متحدہ ہندوستان کے اندر فیڈریشن کی بنیاد پر قرار داد تیار کی تھی لیکن ورکنگ کمیٹی نے اسے تقسیم ہند اور مکمل آزادی کا مطالبہ بنا دیا ۔ ظاہر ہے کہ تقسیم ہند اور مکمل آزادی کی قرارداد تیار کر کے سر سکندر حیات وائسرائے کی ناراضگی کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے کیونکہ جناب شریف الدین پیر زادہ اور پروفیسراکرام کی کتابوں میں دیے گئے مواد سے واضح ہوتا ہے کہ وائسرے نے مسلم لیگ کے اجلاس کو ملتوی کروانے کے لیے خاصا دبائوڈالا تھا اور اس مقصد کے لیے سر ظفر اللہ کو بھی استعمال کیا تھا ۔ سرسکندر حیات نے بحیثیت پریمیئر پنجاب یہ بیان پنجاب اسمبلی میں دیا جس کی مسلم لیگ نے کبھی تردید نہیں کی اس لیے تاریخی حقیقت یہ ہے کہ قراردادِ پاکستان کابنیادی ڈرافٹ سکندر حیات نے تیار کیا جسے مسلم لیگ کی سبجیکٹ (Subject)کمیٹی نے یکسر تبدیل کر کے اپنی امنگوں کے سانچے میں ڈھالا۔
محترم ڈاکٹر مبارک علی بھی عجب سکالر اور مورخ ہیںکہ انہیں نہ ظفر اللہ خان کے 25دسمبر1981ء کے انٹرویو کا علم ہے جو تمام اخبارات میں نمایاں طور پر چھپا ، نہ سرسکندر حیات کے اسمبلی کے فلور پر بیان کا علم ہے ، نہ انہوں نے مسلم لیگ ریکارڈ میں موجود قرارداد دیکھی ہے تاکہ انہیںترمیمات کا اندازہ ہو سکتا ، نہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی شعبہ تاریخ کے سابق پروفیسر اکرام علی ملک کی کتاب ’’Truth is truth‘‘پڑھی ہے جس میں اس قرارداد کی ڈرافٹنگ کے حوالے سے نا قابل تردید مواد دیا گیا ہے اور نہ ہی انہوں نے شریف الدین پیرزادہ کی کتاب پڑھی ہے ۔ اس کے باوجود انہیںسکالر محقق اورمورخ ہونے کا دعویٰ ہے اور وہ مسلسل ڈھٹائی سے یہ پراپیگنڈہ کیے جا رہے ہیں کہ قرارداد پاکستان وائسرائے لنلتھگو نے قائد اعظم کو دی اور انہوںنے مسلم لیگ کے اجلاس سے منظور کروالی ۔ ظاہر ہے کہ ایسے حضرات کا مخصوص ایجنڈا ہے اور وہ یہ کہ قائد اعظم کو انگریزوںکا ایجنٹ اور پاکستان کو انگریزوں کا تحفہ قرار دے کر نہ صرف نوجوان نسلوں کے ذہن میںزہر گھولا جا ئے بلکہ پاکستان کی بنیادوںمیں بھی نقب لگائی جائے ۔قرارداد پاکستان کے حوالے سے میںان کے مضامین بھی پڑھ چکا ہوں اور اُن کے پروگراموںکی وڈیوز بھی دیکھ چکا ہوں ۔ افسوس تو اُن حضرات پر ہوتا ہے جواُنہیںپاکستان کے خلاف پراپیگنڈے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں اور ان کی ہرزہ سرائی کو ہوا دیتے ہیں۔
قرارداد پاکستان ہماری تاریخ کا اہم ترین سنگ میل اور روشن ترین باب ہے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ قرارداد پاکستان ڈے 1940ء سے لے کر 1947ء تک مسلسل مناتی رہی اور بعض اوقات قرارداد ِ پاکستان کے ہفتے بھی منائے گئے مختصر یہ کہ23مارچ 1940ء کو جلسے کا آغاز قرآن مجید کی تلاوت سے ہؤا۔ چودھری فضل الحق نے قرارداد پیش کی اور چوہدری خلیق الزمان نے اس کی تائید کی اور پھر مولانا ظفر علی خان ، سردار اورنگ زیب اور عبد اللہ ہارون نے اس کی حمایت میں تقاریر کیں۔ اتنے میں نمازکا وقت ہو گیا تو اجلاس 24مارچ تک ملتوی کر دیا ۔
24مارچ کو قرارداد کی حمایت میں بہت سی تقاریر ہوئیں ۔ نہایت جوش وخروش اور اعلیٰ ترین جذبات کے ساتھ قرار داد کو منظور کرلیا گیا ۔ اگرچہ قرارداد 24مارچ کو منظور ہوئی لیکن یہ مسلم لیگ کی قیادت کا فیصلہ تھا کہ یوم قرارداد پاکستان ہر سال 23مارچ کو منایا جائےجس دن قرارداد پیش ہوئی تھی ۔ یہ قرارداد مسلمانانِ ہندو پاکستان کے لیے ایک نئی صبح کا طلوع تھا جس نے شک و شبہات اور مایوسیوںکے اندھیروں کو ختم کردیا اور ان کی منزل کاتصور واضح کردیا ۔ نشانِ منزل سے لے کر حصولِ منزل تک کا سفر سات سال میں کیسے طے ہؤا ، تاریخ اسے معجزہ قراردیتی ہے اور مسلمان اسے رضائے الٰہی سمجھتے ہیں۔
ستائیسویں رمضان ، قیام پاکستان اور غلط بیانیاں
ہمیں صرف یہ یاد ہے کہ پاکستان چودہ اور پندرہ اگست 1947ء کی نصف شب بارہ بجے معرض وجود میں آیا لیکن ہم یہ بھول چکے ہیں کہ اسلامی کیلنڈر کی رُو سے پاکستان ستائیسویں رمضان کی شب معرض وجود میں آیا اور عام تصور کے مطابق ستائیسویں رمضان لیلۃ القدر ہوتی ہے ۔ پہلا یوم آزادی ستائیسویں رمضان15اگست کو منایا گیا جو جمعۃ الوداع کا دن تھا ۔ گویا یہ مبارک ترین لمحات تھے ۔1948ء میں یوم پاکستان منانے سے قبل کابینہ نے قائد اعظم کی منظوری سے فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ ہر سال یوم پاکستان 14اگست کو منایا جائے گا۔
یوم آزادی کی تقریبات کے حوالے سے میں دو ’’ غلط بیانیوں‘‘ ، سنی سنائی کہانیوںاورتخلیق کردہ افسانوں کے فسوں کا پردہ چاک کرنا چاہتا ہوں تاکہ تاریخ پاکستان کو مسخ ہونے سے محفوظ رکھا جا سکے ۔آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ تحقیق کس قدر جان سوزی ، محنت اور یکسوئی کا تقاضا کرتی ہے ۔ چھبیسویں رمضان ، چودہ اگست قیامِ پاکستان کے حوالے سے اہم دن تھا ۔اُس روز برطانوی حکومت کے نمائندے اور آخری وائسرائے مائونٹ بیٹن نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں برطانوی عہد غلامی کے خاتمے اور اقتدار کی منتقلی کا اعلان کرنا تھا ۔
آٹھ بج کر دس منٹ پر قائد اعظم نامزد گورنر جنرل آف پاکستان اور مائونٹ بیٹن ایک بڑی بگھی میں دستور ساز اسمبلی کے لیے رخصت ہوئے ۔ پھولوں کی پتیوں، فلک شگاف نعروں،جوش و خروش اور جذ بو ں کے درمیان سفر کرتے ہوئے وہ تقریباً نو بجے صبح اسمبلی ہال میں پہنچے ۔شاہ برطانیہ کے نمائندے نے انتقال اقتدار کا اعلان کیا ، بادشاہ برطانیہ کی جانب سے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ کل سے زمام اقتدار حکومت پاکستان کے پاس ہوگی اور دوسری طرف بھارت کے پاس۔ اس کے بعد قائد اعظم نے خطاب فرمایا اور برطانوی حکومت کا شکریہ ادا کیا ۔ اجلاس ختم ہؤا ۔ قائد اعظم اورمائونٹ بیٹن اپنی نشستوں سے اٹھے اور اسمبلی کے باب داخلہ (Main Enterance)کی طرف بڑھے۔ تمام اراکین اسمبلی اور معززین منظردیکھنے کے لیے باہر جمع ہو گئے۔اسمبلی کے باب داخلہ پر برطانوی جھنڈا لہرا رہا تھا اسے فوج کی پسپائی کی غمگین دھنوں میںبگل کی آواز کے ساتھ اتارا گیا اور تہہ کر کے قائد اعظم نے مائونٹ بیٹن کے حوالے کر دیا ۔پھر پاکستان کا قومی پرچم جسے اسمبلی منظور کر چکی تھی قائد اعظم نے خود لہرایا اسے 31توپوںکی سلامی دی گئی ۔واپسی پر قائد اعظم اورمائونٹ بیٹن نواب آف بہاول پور سے ادھار مانگی گئی پرانی رولز رائس پر گورنر جنرل ہائوس پہنچے ۔ مائونٹ بیٹن فوراً دلی کے لیے محو پرواز ہوگئے۔
26 اور 27 رمضان (15-14)کی نصف شب بارہ بجے جب ریڈیو سے انگریزی میں ظہور آذر اور اردو میں مصطفیٰ علی ہمدانی نے یہ اعلان کیا کہ ’’ یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے ‘‘ تو ساری قوم خوشیوں اور جذبوں سے جھوم اُٹھی۔ پھر مولانا زاہد قاسمی نے عظیم کامیابی کی مناسبت سے سورۃ الفتح کی پہلی چار آیات کی تلاوت اورترجمہ کی سعادت حاصل کی ۔ سورج طلوع ہونے پر پہلے یوم آزادی کو 31 توپوں کی سلامی دی گئی ۔27 رمضان 15 اگست کو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حلف برداری ہوئی تھی۔ یہ تقریب گورنمنٹ ہائوس کے وسیع کورٹ یارڈ اور سرسبز لان میںمنعقد ہوئی ۔ جہاں نئی کابینہ کے اراکین کے علاوہ بہت سی اہم شخصیت اور سفارتی نمائندے بھی موجود تھے ۔
قائد اعظم پونے نو بجے اپنے تین اے ڈی سی کے ساتھ تشریف لائے ۔ اسٹیج پر راسٹرم کے پاس دو کرسیاں تھیںایک گورنر جنرل کے لیے دوسری لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرمیاں عبد الرشید کے لیے جنہوں نے حلف لینا تھا ۔ ٹی وی اینکر اور کالم نگاروں نے خاکے میں سنسنی اور رنگینی کا رنگ بھرنے کے لیے یہ افسانہ تخلیق کرلیا ہے کہ قائد اعظم آتے ہی کرسی پر بیٹھ گئے ۔ سرعبدالرشید مسکرائے اور کہا کہ یہ کرسی گورنر جنرل کے لیے مخصوص ہے ۔ آپ نے ابھی حلف نہیں اٹھایا اس لیے آپ ابھی نہیںبیٹھ سکتے ۔ قائد اعظم نے کہا I am very sorryاور اٹھ کر دوسری کرسی پر بیٹھ گئے ۔ تحقیق کی تو پتہ چلا کہ سارا قصہ افسانہ ہے جس کا آغاز معروف کالم نگار اور سیاسی کارکن میاںمحمد شفیع(م ش) نے کیا تھا ۔ انٹرویوز ،کاغذات، کتابیں اور یاد داشتیں پڑھیںتو جھوٹ کا بھانڈا پھوٹا اور سچ سامنے آیا ۔اللہ بھلا کرے ایک مہر بان کاکہ انہوںنے مجھے وڈیو بھجوا دی جو حکومت پاکستان کے محکمہ تعلقات عامہ نے اس تقریب کی کوریج کے لیے بنائی تھی ۔ اسے کئی دفعہ دیکھ چکا ہوں ۔قائد اعظم نو بجے تشریف لاتے ہیں دواے ڈی سی آگے ، ایک پیچھے چل رہا ہے ۔ مہمان کرسیوں پر تشریف فرما ہیں ۔قائد اعظم کے آتے ہی سارے مہمان احتراماً کھڑے ہوتے ہیں ۔قائد اعظم انہیں اپنے مخصوص انداز میں سلام کرتے ہیں ایک اے ڈی سی کے ساتھ راسٹرم یا سٹیج پر تشریف لاتے ہیں اور کھڑے رہتے ہیں ۔چیف جسٹس بھی کھڑے ہوئے ہیں ۔تقریب کا آغاز ہوتا ہے تو مسلم لیگی کارکن الٰہی بخش کو تلاوت کے لیے بلایا جاتا ہے۔لاثانی فتح اور تاریخی کامیابی کے اس موقع پر الٰہی بخش سورۃ النصر کی تلاوت کرتے ہیںجو سیدنا عبد اللہ بن عباس کے مطابق نازل ہونے والی آخری سورۃ تھی ( النصرترجمہ: جب آجائے مدد اللہ کی اور فتح ( نصیب ہو جائے ) اور دیکھ لو تم ( اے نبیؐ) لوگ داخل ہو رہے ہیں اللہ کے دین میں فوج درفوج تو تسبیح کرو اپنے رب کی اس کی حمد کے ساتھ اور بخشش مانگو اس سے بے شک وہی ہے تو بہ قبول کرنے والا) ۔ کیا ہم نے بحیثیت قوم اللہ پاک کے اتنے عظیم انعام پر توبہ کی اور اپنے رب کی حمد کی ؟
تلاوت کے فوراً بعد کابینہ کے سیکرٹری جنرل چودھری محمد علی نے حکم نامہ پڑھا ، حلف برادری شروع ہو گئی ۔ اگرچہ حلف برطانوی حکومت کی طرف سے ملا تھا لیکن قائد اعظم نے خود اپنے ہاتھ سے اس میں کچھ ترامیم کی تھیں ۔قائد اعظم پر برطانیہ کی وفا داری کے حلف کا الزام لگانے والوںکو علم ہی نہیںکہ قائد اعظم کے حلف کے آخری الفاظ یہ تھے :’’ میں پاکستان کے بننے والے آئین کا وفا دار رہوں گا ‘‘ ۔ میرے سامنے ویڈیو چل رہی ہے اور قائد اعظم کے یہ الفاظ گونج رہے ہیں ۔ اس کے بعد قائداعظم نے نئی کابینہ سے حلف لیا اور پھر اسٹیج سے نیچے آکر پاکستان کا جھنڈا لہرایا۔ جھنڈا فضا میں پھیلا تو اسے 31 توپوںکی سلامی دی گئی ۔ اس کے بعد گورنر جنرل کو گارڈآف آنر پیش کیا گیا ۔قائد اعظم کے حلف اٹھانے تک سارے مہمان کھڑے رہے ۔ حلف اٹھانے کے بعد قائد اعظم کرسی پر بیٹھے تو حاضرین بھی بیٹھ گے ۔ اس تحقیق کے بعد یہ طے ہو گیا (1) پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حلف وفا داری کی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہؤا(2) قائد اعظم نے معمول کے حلف کے ساتھ مستقبل کے آئین پاکستان سے وفا داری کا عہد کیا (3) قومی پرچم قائد اعظم نے خود لہرایا ۔ یہ دعویٰ کہ پرچم کشائی مولانا شبیر احمد عثمانی سے کروائی گئی تھی بالکل بے بنیاد ہے ۔(4) قائد اعظم کا کرسی پر بیٹھنا اوراٹھنا محض افسانہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں سچ کا کھوج لگانے اور تحقیق کرنے کی روایت زوال پذیر ہے ۔تیز رفتار زندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کالم نگار اور اینکر پرسن زیادہ ترسنی سنائی باتوں پہ گزارہ کرتے ہیں اور ریٹنگ بڑھانے کے لیے اس میں مبالغے اور افسانے کا رنگ بھر دیتے ہیں ۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ اس طرح تشکیل پانے والی سوچ کو بدلنا نہایت مشکل کام ہے ۔ نقار خانے میں طوطی اور وہ بھی مجھ جیسی نحیف آواز کون سنے گا ؟
مثال کے طورپر ڈاکٹر مبارک علی قرارداد پاکستان (1940) کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میں تاریخی اور نا قابل تردید شواہد سے جھوٹ کا پول کھول چکا ہوں لیکن وہ پھر بھی باز نہیںآتے۔تجربے سے یہ بھی سیکھا ہے کہ اگرجھوٹ تواتر سے بولا جائے تو لوگ اسے سچ مان لیتے ہیں اور پھر ہزار تحقیق بھی اسے لوگ کے ذہنوں سے نہیںنکال سکتی ۔ کچھ مہربانوںنے اُڑا دی کہ قائد اعظم نے اپنے دوست جگن ناتھ آزاد سے پاکستان کا ترانہ لکھوایا جو ریڈیو پاکستان سے کئی سال نشر ہوتا رہا۔ میںنے ایک ماہ اس پر تحقیق کی اور نا قابل تردید شواہد سے ثابت کیا کہ یہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے لیکن افسوس کہ میڈیا حضرات چند سیکولر پروفیسروںکے ساتھ مل کر ڈھٹائی سے جھوٹ بول رہے ہیں ۔ انہیں میڈیا کے معتبر حضرات اپنے نظریات پھیلانے کے لیے میسر آگئے ہیں ۔ ان فنکاروں نے یو ٹیوب پر اپنے اپنے چینل شروع کردیے ہیں جن کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے ایسے دانشوروںاور پروفیسروںکی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں جو نہ صرف پاکستان کی بنیادوں پر ہتھوڑے چلاتے رہتے ہیں بلکہ قائد اعظم کو بھی ہوشیاری سے اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ ہماری نوجوان نسلوں کو کتابیںپڑھنے کی عادت نہیں۔کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور کی پیدا وار یہ نسلیںان چینلز کو سن سن کر اپنے ہی ملک اور بانیِ پاکستان کے بارے میںشکوک ، بدگمانیوں اور بالآخر نفرت کا شکار ہو رہی ہیں ۔قومی منافرت کے ایجنڈے کے علمبردار دانشوروں صحافیوںاور اینکر پرسنوں کے کارنامے کتاب کا موضوع ہیں ۔بلا کے اعتماد سے بے پر کی اڑاتے ہیں اور بازی لے جاتے ہیں۔
تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد ہمیںسیاسی ورثے میں صرف دو قسم کے مخالفین ملے جنہوںنے قیام پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا لیکن مجبوری کے تحت قبول کرلیا تھا ۔ اول نہرو اور گاندھی کے پیرو ۔ دوم احراری جنہوں نے ڈٹ کر پاکستان کی مخالفت کی اور قائد اعظم کے خلاف فتوے دیے تھے ۔ کمیونسٹ پارٹی نے ماسکو کے حکم کے تحت قیام پاکستان کی حمایت کی لیکن بعدازاں اور خاص طور پر پنڈی سازش کے بے نقاب ہونے کے بعد کمیونسٹ(پاکستان کے) مخالفین کی صفوںمیں شامل ہوگئے۔ روشن خیالی کے نام پرسیکولرازم پروان چڑھا تو مذہب بیزار عناصر بھی اس لہر کا حصہ بن گئے ۔ چند ایک کے علاوہ ان حضرات کا مطالعہ نہایت سطحی تھا ، سچ کی کھوج لگانا ان کی ضرورت نہیں تھی لیکن پراپیگنڈے کے فن میں یہ حضرات یکتائے روز گار تھے اور آج بھی ہیں ۔یہ ساری فکری قوتیں مل کر سیکولرازم کی آڑ میں پاکستان بیزار ، مذہب بیزار اور پاکستان کی نظریاتی اساس بیکار کی سوچ پروان چڑھا رہی ہیں اور قائد اعظم کو ایک لا دین شخصیت ثابت کرنے کے لیے رات دن مصروف ہیں ۔ اُن کا ہدف نوجوان نسلیں ہیںجن کے ذہنوںمیں وہ یہ زہر گھول رہے ہیں ۔ ان کی تان عام طور پر فوج مخالف بیانیے پر ٹوٹتی ہے ۔ غور سے دیکھیں تو یہ اکھنڈ بھارت کا منصوبہ لگتا ہے جس کے تحت قیام پاکستان کو انگریزوںکا تحفہ اور قائد اعظم کو انگریزوں کے ’’ سٹوج‘‘ کا پراپیگنڈہ نوجوان نسلوں کے ذہنوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا جا رہا ہے ۔ فکری گہرائی اور گیرائی کایہ عالم ہے کہ پروفیسر پرویز ہود بھائی 1971ء میں پاکستان ٹوٹنے کا سبب قائد اعظم کے اس بیان کو ٹھہراتے ہیں جس میں انہوں نے مارچ 1948 میں مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران اردو کو قومی زبان قرارد دیا تھا۔ پروفیسر ہود بھائی کو علم نہیں کہ قائد اعظم نے واضح طور پر کہا تھا کہ آپ اپنے صوبے میں سرکاری اور تعلیمی زبان بنگالی رکھیں لیکن قومی زبان ایک ہی ہوگی ۔ وہ معصوم یہ بھی نہیں جانتے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 25 فروری 1948ء کو اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا اور بنگالی ارا کین کی اکثریت نے اس قانون کی حمایت کی تھی ۔ قائد اعظم بطور صدر دستور ساز اسمبلی اور بحیثیت گورنر جنرل اس فیصلے کی ترجمانی کررہے تھے ۔ پھر 1954ء میں ابسی دستور ساز اسمبلی نے بنگالی کو بھی قومی زبان قرار دے کر بنگالیوں کا مطالبہ مان لیا تو کیا اس کے باوجود سترہ برس بعد اس مسئلے نے پاکستان توڑ دیا ؟ یہ حضرات اس قدر معصوم ہیں کہ جسٹس منیرکائوس جی اور پرویز ہود بھائی اپنے ساتھیوں سمیت تین چار دہائیوں تک قائد اعظم کے ایک بیان کو بنیاد بنا کر انہیں سیکولر ثابت کرتے رہے ۔ اللہ بھلا کرے برطانوی مصنفہ سلینہ کریم Saleenaکا جس نے تحقیق سے اپنی کتاب میں ثابت کیا کہ یہ الفاظ قائد اعظم کے نہیںہیں ۔ اس نے اس پر حیرت کا اظہار کیا اس بیان کی انگریزی غلط ہے ، قائد اعظم غلط انگریزی نہیںلکھ سکتے تھے لیکن ان’’ عظیم ‘‘ دانشوروں کو پتہ ہی نہیں چلا ۔
ایک احراری مولوی صاحب مجھے ایک دہائی سے یہ طعنے دے رہا ہے کہ تمہارے قائد اعظم کی تقریب حلف برداری میں تلاوت تک نہ کی گئی اور تمہارے قائد اعظم نے برطانوی حکومت سے وفا داری کا حلف اٹھایا ۔ دوسری طرف منشی عبد الرحمٰن نے اپنی کتاب میں یہ دعویٰ کر دیا کہ قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی پرچم کشائی مولانا شبیر عثمانی سے کروائی۔ ریٹنگ کے اسیر اینکرپرسنوںاور کالم نگاروں نے قائد اعظم کو اسٹیج پر رکھی کرسی پر بٹھا دیا پھر اٹھا دیا ۔ میں نے سچ کا کھوج لگانے کے لیے ان گنت کتابیں اور دستاویز کا مطالعہ کیا ۔ کسی مصنف نے بھی اس تقریب کی تفصیلات بیان نہیںکیں ۔ تحقیق کے دوران اس تقریب کی سرکاری ڈاکو منٹری مل گئی جس نے اس سہ آتشی پر اپیگنڈے کے غبارے سے ہوا نکال دی ۔ ثابت ہو گیا کہ تلاوت قرآن مجید نہ کرنے کا الزام غلط ، پرچم کشائی مولانا عثمانی سے کروانے کا دعویٰ بے بنیاد ، کرسی پر بیٹھنے اٹھنے کا افسانہ جھوٹ اور برطانیہ سے حلف وفا داری بہت بڑا بہتان ہے ۔ ڈاکو منٹری میں حلف اٹھاتے ہوئے قائد اعظم کے یہ الفاظ تقریب میں گونج رہے ہیں کہ میں وفا دار ہوںرہوں گا :
Constitution of pakistan as by law established.
یہ حلف دستور پاکستان سے وفا داری کا حلف تھا ۔ خدا را جھوٹا پراپیگنڈا بند کردو ۔ آخر اللہ کو جان دینی ہے ۔ دوستو اس تقریب کے دو مناظر میرے دل کو چھو گئے ۔ اول چودہ اگست کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کے بعد وائسرائے مائونٹ بیٹن اور قائد اعظم کا اکٹھے مین دروازے سے باہر آنا، غمگین دھنوں میں برطانوی جھنڈے کا اتارا جانا اور پھر قائد اعظم کا اسے تہہ کر کے مائونٹ بیٹن کو اس انداز سے دینا کہ ’’میں نے خون بہائے بغیر تمہاری نوے سالہ غلامی کا طوق اتار دیا ۔ جایہ اپنا طوق غلامی یونین جیک لے جا اور اسے عجائب گھر میں سجا لے ‘‘۔ دوسرا منظر تقریب حلف برداری میں سورہ النصر کی تلاوت ہے ۔ نازل ہونے والی اس آخری سورۃ کا فتح مبین تکمیل مشن اور حصول منزل کے حوالے سے انتخاب قابلِ داد ہے ۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x