ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

امیر بریانی ، غریب بریانی-بتول اپریل ۲۰۲۱

ہم لوگ گورنمنٹ کے جی او آر ون کے گھر میں رہتے تھے۔ عمارت تو اندر سے اتنی ہی تھی جتنی ایک کنال گھر کی ہوتی ہے مگر آگے پیچھے بہت بڑے بڑے باغ تھے پھر دیوار اورگیٹ ۔گھنٹی بجتی تو گھر کے اندر سے نکل کر کافی چل کر گیٹ تک جانا پڑتا ۔ پچھلے پہر تو بچے اور بڑے گھر آجاتے تو گھنٹی سن کر کوئی نہ کوئی باہر چلا جاتا مگر صبح کے وقت مشکل ہو جاتا کیونکہ سب چلے گئے ہوتے ۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ اب جب آزاد کشمیر چھٹی پر جائو گے تو کوئی چھوٹا لڑکا لے آنا جو گھنٹیاں سننے باہر جائے ۔
ڈرائیور جب چھٹی گزار کر واپس آیا تو اُس کے ساتھ ایک گیارہ بارہ سال کا لڑکا تھا ۔
’’ یہ لڑکا میںلایا ہوں یتیم بچہ ہے نام جاوید ہے حادثہ میں ماں باپ دونوں فوت ہو گئے تھے ۔ پہلے تو چچا نے اس کو اور اس کی تین بہنوں کو رکھا پھر بیوی نے جھگڑا شروع کر دیا کہ میں اپنوں کو پالوں یا ان چار کو ‘‘۔ اس کے چچا نے مجھے دیا کہ اس کو لاہور لے جائو کہیں نوکر کرا دو جب یہ پیسے بھیجے گا تو میری بیوی چپ ہو جائے گی ۔میرے دل کو بہت کچھ ہؤا۔
’’ تم اسے ساتھ والے کوارٹر میں لے جائو جو سامان پڑا ہے ایک طرف کر دو اور جو چار پائی ہے اسے بچھا دو یہ وہاں تمہارے قریب ہی رہ لے ‘‘۔
بہت جلد وہ سب بچوں سے گھُل مل گیا ۔ طبیعت کا بہت نرم تھا ہر ایک سے بنا کر رکھتا اور ہر ایک کا کام آگے بڑھ کر کرتا ۔کچھ عرصے بعد ہی میں نے دیکھا کہ یہ باورچی خانے میں ماسی کھانے والی کے ساتھ بھی اس کی مدد کرتا ہے ۔ کبھی سبزی بنا کر دیتا کبھی برتن دھوتا ،پھر میں نے دیکھا کہ چولھے کے پاس کھڑے ہنڈیاں میں چمچ بھی چلا رہا ہوتا ۔ ماسی کی والدہ بیمار ہو گئی وہ ایک ہفتے کی چھٹی لے کر گھر چلی گئی ۔ میں کھانا پکانے باورچی خانے گئی ۔جاوید نے تمام برتن دھو لیے تھے اور وہ پیاز کاٹ رہا تھا ۔
’’ باجی آج کیا پکانا ہے ؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
’’ مرغی میں مٹر ڈال لوں گی اور سفید چاول پکا لوں گی ،اتنی روٹیاں کون بنائے گا ‘‘۔
’’باجی کھانا میں بنا لوں گا ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ تمہیں کھانا بنانا آگیا ہے ؟‘‘ میں حیران ہو گئی۔
’’جی میں نے ماسی سے سب کچھ سیکھ لیا ہے ‘‘۔
’’ جاوید کھانا خراب نہ ہو جائے ۔‘‘
’’ نہیں باجی انشاء اللہ نہیں ہوگا ‘‘۔ اس نے پورے وثوق سے کہا۔
’’ چلو بنا لو ‘‘۔میں کمرے میں آگئی مگر دل میں خوف زدہ ہی تھی کہ خراب نہ کر دے مگر جب دوپہر کو سب نے کھانا کھایا تو کوئی نہ بولا کہ ذائقہ ٹھیک نہیں ۔ اگلے دن اُس نے ناشتہ بھی بنایا دوپہر کا کھانا بھی اور رات کا بھی ۔اس کے بعد میں بے فکر ہو گئی ۔ ہفتے بعد ماسی کا فون آیا کہ اُس کی والدہ کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے اور اُسے ہسپتال داخل کروا دیا ہے اس لیے فی الحال وہ نہیں آ رہی ۔ جاوید نے باورچی خانہ پوری طرح سنبھال لیا تھا اس لیے ماسی کے نہ آنے کا مجھ پر کوئی اثر نہ پڑا۔
وقت بھاگا جا رہا تھا ۔ جاوید نے آہستہ آہستہ تمام کام سنبھال لیے۔ ایک دن ڈرائیور کے ساتھ بازار جا رہی تھی تو ڈرائیور بولا ۔
’’ باجی آپ ہمیں مٹھائی کھلائیں جاوید نے گاڑی چلانی بھی سیکھ لی ہے ‘‘۔
’’ کب سیکھی؟‘‘ میں حیران ہوئی۔
’’ ہم دو ماہ سے صبح فجر پڑھ کر باہر گاڑی لے کر نکل جاتے تھے۔ اب تو جاوید کافی ماہر ہو گیا ہے آپ اس سے چلوائیں اور ہمارا منہ میٹھا کرائیں ‘‘۔
گھر آکر میں نے بیٹے سے کہا کہ وہ جاوید سے گاڑی چلوا کر دیکھے اور ٹسٹ کرے کہ کیسی چلاتا ہے ۔ بیٹے نے جاوید سے گاڑی چلوائی اور اُسے پاس کر دیا ۔ پھر ایک ماہ بعد اُسے بھی گاڑی لے دی جس پر وہ بھی ضرورت کے وقت بچوں کو سکول لے جاتا اور لے بھی آتا ۔
جاوید میں اور تو ساری صفتیں تھیں مگر ایک چیز مجھے بہت پریشان کر رہی تھی کہ اس کا ہاتھ بہت کھلتا جا رہا تھا ۔اتوار بازار سودا لینے جاتا تو اگر مٹر دو کلو لکھے ہیں اور اُن کی قیمت کچھ کم ہے تو یہ چار پانچ کلو لا کر نکال کر دھو کر پیکٹ بنا کر ڈیپ فریزر میں رکھ دیتا ، آدھا ڈیپ فریزر مٹروں اور ٹماٹروں سے بھر جاتا۔ کیلے لینے بھیجو ، اگر ایک درجن لکھے ہوتے تو گُچھے میں جتنے بھی ہوتے سارے ہی لے لیتا چاہے وہ ڈیڑھ درجن ہوں یا دو درجن ہوں ۔ انڈے اگر پانچ چھ فرج میں ہیں ، میں لکھ دوں چھ اور لے آئو تو چھ انڈے اس کی ہتک ہوتی ، یہ پورے بارہ انڈوں کا پیکٹ لاتا ۔ چینی ایک کلو لکھو تو تین یا چار کلو پیکٹ لاتا ۔ چینی نہ میں چائے میں ڈالوں نہ بیٹا نہ بہو، سب بڑے یہاں پھیکی چائے پیتے یا(Sweetener)ڈالتے ۔ بچے دودھ میں روح افزا یا چاکلیٹ ڈالتے ۔ چاول کی فضل اکتوبر میں تیار ہوتی شروع میں میں چار بوریاںمنگواتی جب سے جاوید نے باورچی خانہ سنبھالا چاول جولائی اگست میں ختم ہوجاتے پھر اکتوبر نومبر تک بازار سے چاول آتے ۔ اگلے سال میں نے چھ بوریاں کردیں وہ بھی جولائی اگست میں ختم ہو گئیں ۔ اس سے اگلے سال آٹھ بوریاں منگوائیں اُن کا بھی وہی حشر ہؤا، اگست میں ختم ہو گئیں پھر بازار سے چاول آئے۔ اس سال دس منگوائی ہیں اللہ بہتر جانتا ہے ان کا کیا انجام ہوگا ۔ جوں جوں بوریاں بڑھ رہی ہیں پتیلے کا سائز بھی بڑھتا جا رہا ہے اور چاولوں کی مقدار بھی ۔ شروع شروع میں تو میںروز بتاتی تھی چاول اتنے پکانے ہیں مگر یہ بات اس کے دماغ میں نہیں جاتی ۔ اب کہنا چھوڑ دیا ہے ، باورچی خانے میں پوری طرح اس کا قبضہ ہے ۔
شام کو سودا لاتا ہے ہر روز جو بھی پیسے دوں وہ ختم کر کے آتا ہے بلکہ کسی دن میں دکاندار کی مقروض ہوتی ہوں اور کسی دن جاوید کی۔
’’ ڈیڑھ سو مجھے دے دیں کل دکاندار کو دوں گا ۔ پچاس روپے میں نے دکاندار کو اپنے پاس سے دیے تھے وہ مجھے دے دیں ‘‘۔
اب میں نے پانچ ہزار کا نوٹ دینا بند کر دیا ہے کیونکہ پانچ ہزار کا نوٹ لے کر اُسے بازار میں وہ وہ چیزیں یاد آجاتی ہیں جو میرے خواب و خیال میں بھی نہیں آ سکتیں۔
ایک دن میں اور میری بہن زری درس سے واپس آ رہے تھے گاڑی جاوید چلا رہا تھا ۔ باتوں باتوں میں زری نے کہا ۔
’’ کل ہماری ماسی نے بہت ہی مزیدار بریانی پکائی اگر ڈرائیور ہوتا تو تمہیں بھی بھجواتی‘‘۔جاوید گاڑی چلاتے بولا۔
’’ اگر کوئی میری پکائی ہوئی بریانی کھائے تو سب کی بریانیاں بھول جائے ‘‘۔
’’ جاوید تمہیں بریانی پکانی آگئی ہے؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’ ہم تو جب بھی تمہیں بریانی کا کہتے ہیں تم پلائو پکا کر کھلا دیتے ہو ‘‘۔
’’ میں اب جب چھٹی پر گھر گیا تھا تو وہاں ایک ریسٹورنٹ جو بریانی کے لیے بہت مشہورہے میں سات دن وہاں رہا اور بریانی پکانی سیکھ لی ‘‘۔ جاوید نے کہا۔
’’ چلو کل تم بریانی پکانا آج کا کھانا تو تم نے پکا لیا ہے ‘‘۔ میں نے کہا۔
اگلے دن نو بجے کے قریب جاوید میرے کمرے میں آیا اندر آکر سلام کیا میں نے جواب دیا ۔
’’ جی بریانی پکانی ہے ؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
’’ ہاں ہاں کیوں نہیں ‘‘ میں نے فوراً کہا۔
’’ تو پھر ڈیڑھ ہزاردے دیں ‘‘ اُس نے ہاتھ آگے کیا ۔
’’ وہ کس لیے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ جی بادام ، کاجو ، میوے ، اخروٹ کی گریاں لانی ہیں ‘‘۔
’’ وہ کیوں‘‘ میں حیران تھی۔
’’ بریانی میں ڈالنی ہیں ‘‘جواب ملا۔
میں نے ڈیڑھ ہزار دے دیا ۔
’’ سو روپیہ اور دیں ‘‘ اس نے ڈیڑھ ہزار جیب میں ڈالا ۔
’’ کس لیے ؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’ آلو لانے ہیں چپس بنائوں گا کچھ چاولوں میں ڈالوں گا کچھ اوپر سجائوں گا ‘‘جواب ملا ۔سوروپیہ دیا ۔
’’ سو اور دے دیں ‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’ انڈے لانے ہیں ، اُبال کر کچھ چاولوں میں ڈالوں گا کچھ اوپر سجائوں گا ‘‘ میں نے دے دیے۔
’’ سو روپیہ او ردیں ‘‘ اب مجھے کچھ کچھ غصہ آنے لگا ۔
’’ اب کاہے کو ؟‘‘
’’ جی نیشنل کا اچار لائوں گا کچھ چاولوں میں ڈالوں گا کچھ اوپر سجائوں گا ‘‘۔میں نے سو روپیہ دے دیا۔
’’ پچاس لیموں کے لیے ، ساٹھ کھیرے کے لیے ، ایک سو دس دہی کے لیے ‘‘ اب اُس نے ایک ہی سانس میں باقی سارے پیسے اور چیزیں بھی بتا دیں۔بٹوے کی زپ جو میں بند کر چکی تھی دوبارہ کھول کر دو سو بیس روپے اُس کو دیے۔
وہ چلا گیا میں کمرے میں اپنا کام کرنے لگی۔ ڈیڑھ بجے اذان ہوئی میں نے وضو کیا ظہر کی نماز ادا کی ۔ اس دوران جاوید میرے کمرے میں نہیں آیا ۔ دو بجے کے بعد میں اُٹھی یہ دیکھنے کے لیے کہ جاوید کیا کر رہا ہے ۔ باورچی خانے کادروازہ کھولا ۔اوپر سے سر گھوما نیچے سے زمین پائوں کے نیچے سے کھسکی۔ سامنے چولھے پر و ہ پتیلا پڑا تھا جو قربانی والے دن گائے کے گوشت کے لیے استعمال ہوتا تھا جس میں 25سے30کلو گائے کا گوشت باہر قصائیوں سے لے کر گھر لاتے تھے اوپر ایلومینیم فوئل کا دم دیا جا رہا تھا اُس کے اوپر پتیلے کا ڈھکنا تھا ۔ میںابھی اسی حالت میں کھڑی تھی کہ باورچی خانے کا باہر والا دروازہ کھلا جاوید اندر آیا ہاتھ میں ایک بڑا سا لفافہ تھا ۔
’’ جاوید تم نے بارات کو بریانی کھلانی تھی ؟‘‘ میں نے غصے سے کہا۔
’’ صائمہ باجی اور اُن کے بچے بھی کھائیں گے کل بھی کام آجائے گی ‘‘ جو اب ملا ۔
’’ یہ کل بھی کام آئے گی ، پرسوں بھی آئے گی ، ترسوں بھی آئے گی پھر بھی بچے گی ‘‘میں نے کہا۔
’’ یہ ہاتھ میں کیا ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ آپ نماز پڑ ھ رہی تھیں میں پیسے نہ لے سکا، ایک فانٹا ایک پیپسی، ایک سیون اپ ہیں ، دکاندار سے اُدھار کر آیا ہوں آپ تین سو روپے دے دیں اُسے دے آئوں ‘‘ ۔تسلی سے جواب دیا۔
’’ وہ تو میں بعد میں دوں گی پہلے چمچ دو میں اسے دیکھوں‘‘ میں نے کہا ۔
’’ نہیں آپ نے ڈھکنا نہیں کھولنا نہ ڈیشوں میں ڈالنا ہے یہ میں ایسے ہی میز پر لے کر جائوں گا یہ ڈھکنا تب اُٹھانا ہے جب سب بیٹھ جائیں ‘‘ وہ جلدی سے بولا ۔
’’ تم اتنا بڑا اور گرم پتیلا شیشے کی میز پر رکھو تاکہ وہ ٹوٹے ‘‘ میں نے کہا۔
’’ نہیں ٹوٹے گا میں نے Caneکے میٹس رکھے ہیں پتیلا اُن پر رکھوں گا ‘‘۔وہ بوتلیں لے کر اندر گیا میں پیچھے پیچھے گئی ، میز سجی ہوئی تھی پلیٹیں ، چمچ، گلاس، رائتہ دو ڈونگوں میں ، سلاد دو ڈیشوں میں کٹے ہوئے لیموں ، کٹی ہوئی سبز مرچیں ، باریک باریک ادرک، چپس کی بھری ہوئی دو ڈیشیں، برائون پیاز۔
بوتلیں رکھ کر وہ پتیلا اٹھا کر لے آیا اور بڑے آرام سے رکھ دیا ۔
’’ اب میں سب کو بلا کر لاتا ہوں پھر آپ نے ڈھکنا اُٹھانا ہے ‘‘۔ وہ یہ کہہ کر صائمہ اور بچوں کو بلانے چلا گیا ، صائمہ کا گھر اورصائم کا گھر ساتھ ساتھ ہیں بیچ کی دیوار نہیں اس لیے ہر وقت آنا جانا رہتا ہے ۔ گھر کے بچوں اور بڑوں کو آواز دے کر بلالیا۔ تھوڑی دیر میں صائمہ بچوں سمیت آگئی سب بیٹھ گئے جاوید ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا میں نے بسم اللہ پڑھ کر ڈھکنا اٹھایا ۔
’’ جاوید یہ پکڑو اتنا بھاری ہے ‘‘۔ میں نے ڈھکنا جاوید کو پکڑایا پھر ایلومینیم فوئل ہٹایا ۔
’’ اوہ کتنا خوبصورت ہے دادی اماں ٹھہریں پہلے میں تصویر لے لوں‘‘۔ پوتا جلدی سے جیب سے موبائل نکال کر بولا ۔
’’ میں دوستوں کو تصویر بھیجوں گا ‘‘۔ اور پتیلے کے اندر سے تصویریں لینے لگا اس کے دیکھا دیکھی باقی بچوں نے بھی میز اور بریانی کی تصویریں لینی شروع کردیں۔ بریانی اتنی خوبصورت سجائی تھی کہ واقعی داد دینی پڑ گئی ۔ نیچے برائون پیاز کی تہ اوپر کٹے انڈے ، چپس، اچار کی پھانکیں ، کٹے لیموں ، لمبے پتلے پیس ادرک کے ، سب چیزیں خوبصورتی سے سجائی گئی تھیں ۔
’’ جاوید فوٹو گرافی ہو گئی ہے اب تم وہ بڑا چمچ لائو جس سے دیگ میں سے چاول نکالتے ہیں‘‘۔ وہ دیگی چمچ لے آیا ۔
’’ سب سے پہلے تو جاوید کو دیا جائے جس نے اتنی محنت کی ہے جاوید تم اپنی پلیٹ لائو ‘‘۔ میں نے سب سے پہلے جاوید کو بریانی ڈال کر دی باقی سب چیزیں بھی اس کی پلیٹ میں رکھیں پھر باقی سب کو چاول ڈال کر دیے۔
’’ اب باقی چیزیں تم اپنی پسند سے ڈال لو‘‘۔ میں بیٹھ گئی ۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسی بریانی کبھی نہیں کھائی تھی ہر لقمہ میں کبھی بادام ، کبھی میٹھا میوہ ، کبھی کاجو ، کبھی اخروٹ آتا ۔ ہر انسان واہ واہ کر رہا تھا ۔ صائم (بیٹا) نے کھاتے ہوئے کہا ۔
’’ امی جاوید آج انعام کا حقدار ہو گیا ہے‘‘۔
اس کے بعد کیا ہؤا، مہینے میں کوئی سات آٹھ مرتبہ بریانی بننے لگی اورمیں نے دیکھا کہ مہینے کے آخری دنوں میں میرا بجٹ اوندھا ہو جاتا ہے ۔
ایک دن اسی طرح سب بریانی کھا رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے ، جب کھا کر اٹھنے لگے تو میں نے کہا کہ سب بیٹھ جائیں اورمیری بات سنیں ۔ سب بیٹھ گئے ۔
’’ آج میں ایسی بات کہوں گی جو آپ سب کو ماننی پڑے گی ۔ میں نے بریانیوں کو نام دیا ہے ۔ یہ بریانی جو آپ کھا رہے ہیں اس کا نام امیر بریانی ہے اور جو عام لوگ گھروں میں بناتے ہیں اس کا نام غریب بریانی ہے ۔ امیر بریانی مہینے میں ایک مرتبہ اور غریب بریانی ہفتہ میں ایک مرتبہ ‘‘۔
’’ دادی اماں آپ اس کو اُلٹ کر دیں ، امیر بریانی ہفتے میں ایک بار اور غریب بریانی مہینے میں ایک بار ‘‘۔ پوتا بولا ۔
’’ دادی اماں اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ ایسا کیوں کریں گی ؟‘‘ پوتی نے پوچھا۔
’’ آپ لوگ جو ہر تیسرے چوتھے دن یہ امیر بریانی پکواتے ہیں تو مہینے کے آخر میں میرا بجٹ اوندھا ہو جاتا ہے ‘‘۔
’’ امی آپ بجٹ کو اوندھا کیوں کرتی ہیں ، اوندھا ہونے سے پہلے ہی آپ بینک میں سے اور پیسے نکلوا لیا کریں ‘‘۔
بیٹے نے فوراً مشورہ دیا ۔
’’ نہیں ، میں بس اپنے گھر کا حساب کتاب ویسے ہی رکھوں گی جیسے ابا جی کے گھر کا تھا ‘‘۔ میں نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ۔ ابا جی کا نام سن کر صائمہ تو فوراً اپنے بچے لے کر گھر چلی گئی ، اپنے گھر والے بھی سب اپنے اپنے کمروں کی طرف چلے گئے میں فتح یاب ہو کر اپنے کمرے میں آگئی۔
جونہی کمرے کے اندر آئی ایک خیال بجلی کی طرح دماغ میں کوندا۔ اس وقت لوہا تو گرم ہے چوٹ لگا ہی دی جائے ، یہ جو شام کو جاوید سودا لاتا ہے کبھی مجھے دکاندار کا مقروض بناتا ہے کبھی اپنا آج اس کا بھی مکو ٹھپوں۔ فوراً الماری کھولی ، چیک بک نکالی ایک چیک بھرا اور باورچی خانے گئی ۔ جاوید برتن دھو رہا تھا ۔
’’ جاوید برتن دھو کر گاڑی نکالو میں نے بینک جانا ہے ‘‘۔ آکر برقع پہنا دس منٹ بعد ہارن بجنے کی آواز آئی ، مطلب یہ کہ جاوید گاڑی نکال چکا ہے ۔ فوراً جا کر گاڑی میں بیٹھی ۔
’’ مسلم کمرشل بینک چلو ‘‘ میں نے کہا۔
MCB پہنچی اندر گئی کیشئر دیکھ کر کھڑا ہو گیا ۔ MCB میں میرے اکائونٹ ہیں ایک ڈالر کا ،ایک پاکستانی کرنسی کا، ضرورت کے وقت میں ڈالر کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کروا لیتی ہوں اس لیے یہاں کافی واقفیت ہو گئی ہے ۔چیک نکال کر کیشئر کو دیا ساتھ ہی کہا ۔
’’ دس روپے والی گٹھی دے دیں، کیشئر بٹر بٹر میری طرف دیکھنے لگا وہ حیران تھا کہ میڈم جوڈالر کیش کرواتی ہے آج دس روپے والی گٹھی مانگ رہی ہے ‘‘۔
’’ بیس والی ، ایک پچاس والی ، ایک سو والی ، باقی پیسوں کے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ ہوں پانچ ہزار کا کوئی نہ ہو ‘‘۔وہ بھی سوچتا ہوگا نہ عید الفطر ، نہ عید الاضحی اتنے چھوٹے نوٹ کیا کرنے ہیں بہرحال وہ سیف کی طرف گیا اور میرے پسند کے نوٹ لا کر مجھے دیے ۔
شام ہوئی نما ز ختم ہی کی تھی کہ جاوید آگیا پہلے تو جاوید بتاتا تھا کہ کیا کیا لانا ہے آج میں نے جاوید سے پوچھا کیاکیا لانا ہے وہ بولا ۔
’’Premaدودھ ایک ‘ *
’’ کتنے کا آئے گا؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’ ایک سو چالیس روپے کا‘‘ اس نے بتایا ۔ میں نے بٹوے کی زپ کھولی ایک سو کا نوٹ دو بیس بیس کے دیے ۔
’’ اور کچھ ؟ میں نے پوچھا۔
’’ گُڈ ملک ‘‘ ا س نے کہا۔
’’ کتنے کا آئے گا ؟‘‘میں نے پوچھا
’’ ایک سو بیس کا ‘‘ میں نے ایک سو کا نوٹ ایک بیس کا دیا ۔
’’ اور کچھ ؟‘‘
’’ انڈے 95روپے کے ایک درجن‘‘ اس نے جب دیکھا کہ میں قیمتیں پوچھ رہی ہوں تو خود ہی بتا دیا ۔ مجھے تھوڑی سی گھبراہٹ ہوئی مگر میں نے جلدی ہی حساب کرلیا۔ ایک پچاس کا نوٹ دو بیس بیس کے یہ نوے ہو گئے ،پانچ روپے کا سکہ میں نے ڈبیا میں سے نکال کر دیا یہ وہ ڈبیا تھی جس میں میں سکہ جمع کرتی تھی جب وہ بھر جاتی تو کسی بیمار بچے کو دے دیتی وہ اتنے زیادہ سکے لے کر خوش ہو جاتا ۔
’’ اب پیسے پورے ہیں مجھے دکاندار کا یا اپنا مقروض نہ کرنا ‘‘ میں نے تنبیہہ کی وہ کھڑا رہا ۔
’’ اب کیا مسئلہ ہے ‘‘ میں نے پوچھا
’’ جی سبات باجی (بہو) نے بھی لسٹ دی ہے وہ چیزیں بھی آنی ہیں ‘‘ اس نے بتایا۔
’’ کیا کیا آنا ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ ایک پنیر ، ایک ٹکیہ مکھن ، ایک سٹرابیری جیم ‘‘
’’ کتنے کتنے کے آتے ہیں ؟‘‘ میں نے پوچھا ۔
’’ مجھے تو معلوم نہیں میں تو چیزیں شیلف سے اٹھاکر کائونٹر پر رکھ دیتا ہوں رسید تو وہی کمپیوٹر پر بناتے ہیں میں رسید آپ کو دے دیتا ہوں آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ کیا قیمت ہے ‘‘۔ میں وہ رسید کبھی نہیں پڑھتی تھی کیونکہ لفظ اتنے چھوٹے ہوتے کہ عینک کے بغیر پڑھنا ممکن نہ ہوتا ۔
’’ کتنے پیسے دوں ؟‘‘ میں نے پوچھا
’’ دو ہزار دے دیں ‘‘ اس نے آرام سے کہا میں نے بٹوے میں سے دو ہزار نکال کر اُسے دے دیے وہ سودا لینے چلا گیا ۔ جاوید کیونکہ آزاد کشمیر کا ہے اس لیے جو دکاندار بھی آزاد کشمیر کا ہوگا وہ اس کا پکا دوست ہو گا سودا بھی انہی سے لیتا ہے چاہے وہ کتنا بھی گندا ہو اور دیر تک ان سے باتیں بھی کرتا رہتا ہے۔ وہ تو چلا گیا میں نے سوچا اب یہ گھنٹے ڈیڑھ گھٹنے کے بعد ہی آئے گا اس لیے میں اپنے کام کرنے لگی عشاء کی نماز میں پڑھ چکی تھی جب یہ آیا ۔ اس کی عادت ہے سودا کھانے کی میز پر رکھ دیتا ہے اوررسید اور بچے ہوئے پیسے مجھے دے جاتا ہے۔ رسید مجھے پکڑائی میں نے عینک لگائی اور رسید پڑھی ۔ دو عدد چیز، دو عدد مکھن ٹوٹل ایک ہزار نو سو چورانوے روپے ۔
’’ جیم نہیں آیا ؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’ جی یہ روپے بچے تھے جیم کیسے آتا ‘‘ اس نے ایک پانچ روپے کاسکہ اور ایک ایک روپے کا سکہ جیب سے نکال کر مجھے پکڑا دیا۔
’’ تم چیز اور مکھن دو دو کیوں لائے ہو سبات نے تو ایک ایک لکھا تھا ‘‘ میں حیران تھی ۔
’’ جی ہر تیسرے چوتھے دن چیز اور مکھن آتا تھا میں نے سوچا ہفتہ آرام سے گزر جائے گا آپ مجھے پانچ سو دے دیں میں جیم لے آتا ہوں‘‘۔
’’صبح کے لیے جیم ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا ۔
’’ صبح کے لیے تو ہے ‘‘
’’ تو پھر کل لانا اب جائو گے تو آدھی رات کو آئو گے میں آدھی رات تک دروازہ بند کرنے کے لیے بیٹھ نہیں سکتی ‘‘ وہ تو چلا گیا میں نے دل میں سوچا اتنی ہوشیاری کے بعد پھر بھی ہاری تو میں ہی۔
اخبار پڑھتے پڑھتے اس چوکھٹے پر نظر پڑی جہاں نمازوں کے اوقات درج تھے صبح صادق 5:30پر مغرب 5:00بجے ، ایک دم خیال آیا کہ روزہ تو ساڑھے گیارہ گھنٹے کا ہو گیا ہے چلو پیر اورجمعرات کے روز کے شروع کردیں ان دو روزوں کی بہت فضیلت ہے چنانچہ پیر کا روزہ رکھ لیا میری عادت ہے کہ فجر پڑھ کر نماز اشراق کا انتظار کر کے وہ پڑھ کر سو جاتی ہوں پھر چاہے نو بجے اٹھوں یا دس بجے مجھے کوئی نہیں جگاتا اکثردس بجے جاوید میرا ناشتہ کمرے میں ہی لے آتا ہے ۔ اس کے دروازہ کھٹکھٹانے سے میں جاگ اٹھتی ہوں ۔ حسب عادت جاوید نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے اٹھ کر کھولا اس کے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھی ۔
’’جاوید میرا تو روزہ ہے‘‘ میں نے بتایا۔
’’ آپ نے روزہ رکھنا تھا تو سحری کو مجھے جگا دیتے میں سحری بنا دیتا ‘‘۔ جاوید نے کہا
’’ لو دوتوس ایک فرائی انڈا ایک کپ چائے تمہیں کیا جگاتی سات منٹ میں سب کچھ بن گیا ‘‘ وہ افسوس کرتا چلا گیا۔ سارا دن محسوس ہی نہ ہؤا کہ روزہ ہے مغرب سے ایک گھنٹہ پہلے جاوید کمرے میں آیا ۔
’’ آپ روزہ کس چیز سے کھولیں گی ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ بس ایک کھجور سے کھول لوں گی پھر چائے کا ایک کپ اورتھوڑے سے چپس بنا دینا پھر رات کو سب کے ساتھ ہی کھانا کھائوں گی‘‘۔ وہ اچھا کہہ کر چلا گیا ۔ افطاری سے دس منٹ پہلے آیا ہاتھ میں پلیٹ تھی اس میں نو دس کھجوریں تھیں ایک کھجورکی دس بن گئی تھیں ۔ پلیٹ میرے قریب رکھ کر چلا گیا ۔ ہمارے محلے میں پانچ مسجدیں ہیں اور پانچ اذانیں ہوتی ہیں ۔ پہلی اذان سے ایک منٹ پہلے جاوید ٹرے لے کر آیا اس میں ایک چائے کا کپ اور ایک بڑا ڈونگا جو چپس سے بھرا ہؤا تھا ۔
’’ جاوید اتنے چپس!‘‘ میں حیران رہ گئی ۔
’’ بس میں تھوڑے سے پلیٹ میں ڈال لیتی ہوں باقی تم بچوں کو کھلا دو ‘‘۔ میں نے اندازے کے چپس پلیٹ میں ڈالے ۔
’’ اور ڈالیں، بچوں کے لیے تو میں کڑاہی بھر کر آیا ہوں ابھی تیار ہو جاتے ہیں تو دے دوں گا اُن کا کون سا روزہ ہے کہ وقت پر کھانا ہے آپ اور چپس لیں ‘‘۔ وہ اصرار کر رہا تھا میں نے تین چار اور ڈا ل لیے اور ڈونگا واپس دے دیا ۔ رات نو بجے آیا ۔
’’ جی سب نے کھانے سے انکار کر دیا ہے سب کہتے ہیں اتنے چپس کھائے ہیں کہ ہضم ہی نہیں ہوئے ‘‘۔
میں نے دل میں سوچا جتنے چپس کھائے اوپر سے پانی پیا انہوں نے پیٹ میں پھولنا ہی تھا ۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ جمعرات کے روزے پر چپس نہیں کھائوں گی ۔ جمعرات کو روزہ رکھا ۔ افطاری سے پہلے جاوید کمرے میں آیا۔
’’جی روزہ کس سے کھولنا ہے ؟‘‘
’’بس ایک کھجور اور تین چار پکوڑے ‘‘ میں نے جواب دیا ۔ دس منٹ پہلے آیا کھجوروں کی بھری پلیٹ رکھ کر چلا گیا ، افطاری سے دو منٹ پہلے آیا ۔ ٹرے میں تین ڈونگے تھے ۔’’ یہ جی ایک ڈونگے میں آلو والے پکوڑے ہیں ایک میں بینگن کے اور تیسرے میں انین(onion) رنگز ہیں ‘‘۔ اب میںنے روزہ خراب نہیںکرنا تھا چپ چاپ دو دو پکوڑے تینوں ڈونگوں سے نکالے۔
’’ باقی لے جائو بچوں اوربڑوں سب کو دو ‘‘۔
’’ آپ اور لیں بہت مزے کے بنے ہیں باقی سب کے لیے تو بہت سارے اور بھی بنا رہا ہوں ‘‘۔اُس نے التجا کی میں نے ایک ایک پکوڑا اور نکالا وہ دکھی سا ٹرے لے کر چلا گیا ۔ رات نو بجے آیا ۔’’ جی سب نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا ہے صائم بھائی نے کہا ہے سونف الائچیوں کا قہوہ بنا کر سب کو پلائو تاکہ پکوڑے ہضم ہو جائیں ‘‘۔
اگلے ہفتے پیر کو پھر روزہ رکھا یہ گھنٹہ پہلے آیا ۔
’’ آپ ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھیں گی ؟‘‘ جاویدنے پوچھا۔
’’ ہاں جب تک ہمت ہو گی ‘‘۔ میں نے جواب دیا ۔
’’ آپ روزہ کس سے کھولیں گی ؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’ بس ایک کھجور اورآدھا گلاس پانی میں سب کا کھانا برباد نہیں کرنا چاہتی ‘‘ میں نے جواب دیا۔ وہ دکھی دل سے کمرے سے باہر چلا گیا۔
آج جو کچھ ہؤ ا اس نے مجھے بہت ہی پریشان کر دیا ۔ میری ایک جاننے والی کو کینسر ہو گیا ۔ گنگا رام ہسپتال میں میری جاننے والی ڈاکٹر کی طرف میں نے اسے بھجوایا ، فون پر اس نے بتایا کہ اس کا آپریشن ہو گیا ہے اور انہوں نے اسے انمول ہسپتال بھجوا دیا ہے ۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ مجھے پتا چلے کہ کس گریڈ کا کینسر نکلا ہے ۔ میں نے اسے کہا کہ جب انمول جائے تو پہلے مجھ سے ملے اور اپنی اس رپورٹ کی فوٹو کاپی مجھے دے جائے ۔ جوکنگارام والوں نے اسے دی تھی کچھ دنوں کے بعد وہ ہمارے گھر آئی اس نے بتایا کہ کسی وجہ سے وہ فوٹو کاپی نہیں کروا سکی ، ساتھ اس نے بتایا کہ بارہ بجے اس نے انمول پہنچنا ہے ۔ اس وقت ساڑھے گیارہ ہو چکے تھے میں نے سوچا کہ رپورٹ تسلی سے پڑھوں گی جاوید کو بازار بھیج کر فوٹو کاپی کروا لیتی ہوں ۔
باورچی خانے گئی جاوید کھانا پکا رہا تھا ۔
’’ جاوید یہ رپورٹ کی ایک فوٹو کاپی کروا لائو‘‘ میں نے رپورٹ بھی دی اور پچاس کا نوٹ جوجلدی میں بٹوے سے نکالا تھا اسے دیا۔
’’ گاڑی پر جائوں یا سائیکل پر ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ نہیں گاڑی پر جائو اسے جلدی ہسپتال پہنچنا ہے ‘‘ میں کمرے میں آگئی بمشکل پانچ منٹ گزرے ہوں گے جب دروازہ کھٹکا۔ میں نے کھولا ، جاوید تھا ۔ ایک ہاتھ میں رپورٹ تھی دوسرے ہاتھ میں بنڈل فوٹو کاپیوں کا ۔
’’ میں نے پچیس کاپیاں کروا لی ہیں ، آپ کو عادت ہے فوٹو کاپیاں دینے کی ، میں پہلے ہی کروا لایا ہوں ‘‘۔ میں اکثر شفا، مصیبت نماز حاجت،دعائے استخارہ وغیرہ کی بہت سی کاپیاں کروا رکھتی ہوں جو ضرورت کے وقت لوگوں کو دے دیتی ہوں۔
وہ جاننے والی تو اپنی رپورٹ لے کر ہسپتال چلی گئی میں وہ بنڈل لے کر پلنگ پر بیٹھ گئی ۔ اب ان پچیس کاغذوں کا کیا کروں؟میں سوچ رہی تھی کہ بیٹا دروازہ کھول کر اندرآیا۔
’’ امی آپ پریشان نظر آ رہی ہیں ‘‘
’’ ہاں صائم اس جاوید نے میرا سر گھما چھوڑا ہے میں سارا دن اس کی لا پروائیوں سے پریشان ہوتی رہتی ہوں ۔ یہ آپریشن نوٹس کی پچیس کاپیاں کروا لایا ہے شکر ہے میں نے سو روپیہ نہیں پکڑایا ورنہ پچاس کاپیاں میرے ہاتھ میں ہوتیں ‘‘۔
’’ امی آپ پریشان نہ ہؤا کریں جب وہ کوئی ایسی حرکت کرے۔ آپ اس کی خوبیوں کو گننا شروع کر دیں ۔ پینتیس چالیس سال سے یہ ہمارے پاس ہے ، اتنے عرصے میں کبھی گلاس یا پلیٹ نہیں ٹوٹی، کوئی چمچ یا چھری غائب نہیں ہوئی، کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہؤا ۔ ہم سے تو جو محبت کرتا ہے وہ تو ہے ہی ، ہمارے بچوں سے ہم سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے ۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس ایسا نوکر ہے ‘‘۔
بیٹا تو تقریر کر کے چلا گیا میں دل میں ہنسی کہ تم لوگوں کو کیا پتہ ہے کہ جاوید تو جب سے آیا ہے میںدو نفل نماز شکرانے کے ادا کرتی ہوںاور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ اس کا دانہ پانی ہمیشہ ہمارے پاس ہی رہے۔

٭…٭…٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Nayyar Sultana
Nayyar Sultana
3 years ago

بہت دلچسپ تحریر۔ ہماری دادی اماں کہتی تھیں کہ بہو اور بوا( یعنی گھریلو کاموں کی مدد گار عورت) کو ایک آنکھ بند کر کے دیکھنا چاہیے۔ یعنی بہت کچھ نظر انداز کرمے میں ہی عافیت ہے۔

1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x