ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

جب قائد اعظم ؒ نے ہمیں راستہ لے کر دیا – بتول اگست ۲۰۲۲

سرسہ سے بیکانیر کے راستے فورٹ عباس پہنچنے کا حال…جب موت چاروں طرف منڈلاتی تھی

ملازمت چھوڑنے کے بعد انہوں نے سرسہ میں ہی مستقل رہائش اختیار کرنے کا ارادہ کر لیا ، اور فیئر ڈیلرز ٹریڈنگ کمپنی کے نام سے ایک تجارتی ادارہ قائم کیا ،رہائش کے لیے والد صاحب نے حکیم محمد عبد اللہ صاحب اورجماعت اسلامی سے متعارف اور کئی ساتھیوں سے مل کر شہر سے باہردارالسلام کے نام سے ایک بستی تعمیر کی ۔مقصد یہ تھاکہ ایک ایسی بستی بنائی جائے جہاں مکمل طور پر اسلامی اخوت کاماحول ہو اوربچے اس پاکیزہ فضا میں پروان چڑھیں۔
اس سے پہلے سیدابو الاعلیٰ مودودی ؒ پٹھانکوٹ میںدارالسلام کے نام سے بستی تعمیر کر چکے تھے اوردارالسلام سرسہ کی تعمیر میں بھی وہی جذبہ کار فرما تھا۔1946ء کے آغاز تک اس نئی بستی میں تقریباً پندرہ گھر آباد ہوچکے تھے اور ایک مسجد بھی تعمیر کرلی گئی تھی ۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ محترم الطاف حسن قریشی مدیراردو ڈائجسٹ کا گھرانہ بھی سرسہ شہر میں ہی آباد تھا اور جب 1946ء ء میں رمضان المبارک آیا تو ان کے برادر بزرگ حافظ افروغ حسن نے ہمیں تراویح کی نماز پڑھائی ۔
1946ء 1947ء کادور ہندوستان میں سیاسی سرگرمیوں کے عروج کادور تھا ۔ یہ بات طے ہوچکی تھی کہ انگریز اس ملک کو چھوڑ دیں گے ۔ قائد اعظم ؒ کی قیادت میں اسلامیان ہند اپنے نئے علیحدہ وطن کامطالبہ کر چکے تھے اور ہندو کانگریس کی شدید مخالفت کے باوجود پاکستان کا قیام بھی ایک طرح سے طے ہوچکا تھا ۔ لیکن ہندو قوم کی گھٹیا ذہنیت اورکمینہ پن مسلمانان ہند کی آزادی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کو تیار نہ تھا اور اس کا بدلہ انہوں نے نہتے مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ بنا کر لیا۔ پنجاب ،بنگال ،حیدر آباد دکن اورملک کے بیشتر صوبوں میں لاکھوں مسلمان قتل کردئیے گئے ۔پنجاب میں سکھوں نے سب سے زیادہ ظلم کیا۔ ریاست پٹیالہ میں سکھوں کی حکومت تھی وہاں سے سکھ دستے تمام پنجاب اور دیگرنزدیکی علاقوں میں پھیل گئے اورمسلمانوں کے خون سے تاریخ کی بد ترین ہولی کھیلی گئی۔
ہم نے 1947ء کارمضان کا مہینہدارالسلام سرسہ ہی میں گزارا ۔ عید الفطر بھی اپنے گھر میں منائی ،27رمضان المبارک 14اگست کوپاکستان کے قیام کا اعلا ن ہؤا۔یہ خبر سرسہ کے لوگوں نے بھی نئی دلی ریڈیو سے سنی ۔ شہر میں اس خبر کے پھیلتے ہی فسادات شروع ہوگئے ۔ درالاسلام سرسہ کی بستی چاروں اطراف سے ہندوآبادیوں میں گھری ہوئی تھی اور ہر وقت حملے کا خطرہ تھا اس لیے سب بڑوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ بچوں اورعورتوں کو سرسہ شہر میں کسی محفوظ جگہ بھیج دیا جائے ۔شہر کے ایک ایسے محلے میں جہاں مسلمان آبادی اکثریت میں تھی حکیم عبد اللہ صاحب کے بھانجے حکیم رحمت اللہ صاحب کاگھر تھا ۔ چنانچہ حکیم صاحب کے ہمراہ بچوںاور عورتوں کو وہاں منتقل کر دیا گیا اور باقی مرد لوگ سبدارالسلام اپنے گھروں میںرہ گئے ۔ ان میں ہماری فیملی میں سے والد محترم کے علاوہ بھائی ظہور احمد بھی تھے جن کی عمر اس وقت پندرہ سال تھی۔مقصد یہ تھا کہ حالات دیکھتے ہیں ، اگر حالات بہتر ہو گئے تو بچوں کو واپس بلا لیں گے کیوں کہ شہر میں امن کی کوششیں ہورہی تھیں ہندوئوں مسلمانوں کی ایک امن کمیٹی تشکیل پائی ۔ ایک بہت بڑا جلسہ ہؤا جس میں ہزاروںلوگوں نے شرکت کی ۔ ہندوئوں کی طرف سے ڈاکٹر مرلی منوہر نے نمائندگی کی اورمسلمانوںکی طرف سے حکیم عبد اللہ صاحب نمائندہ تھے ۔
ڈاکٹر مرلی منوہر نے جلسے میںاعلان کیا کہ میں گئو( گائے) کی قسم کھا کر اعلان کرتا ہوں کہ ہندوئوں کی طرف سے مسلمانوں کی حفاظت کی جائیگی اور ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اس کے بعد حکیم عبد اللہ صاحب نے کھڑے ہوکر اعلان کیا میں گئو کے پیدا کرنے والے کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مسلمانوںکی طرف سے ہندوئوں پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی ۔
اس سب کے باوجود حالات بگڑتے چلے گئے اورہندوئوں اور سکھوں نے مسلمانوں پر حملے کرنے شروع کردئیے۔ شہر میں کرفیو لگا دیا گیا اور مسلمانوںکا وہ محلہ جس میں ہم لوگ حکیم عبداللہ صاحب کے ساتھدارالسلام سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر حکیم رحمت اللہ کے گھر منتقل ہوگئے تھے ،مسلمانوں کا کیمپ قرار دیدیا گیا اور گورکھا فوجی اس کیمپ کی حفاظت کے لیے چاروں طرف تعینات کرائے گئے ۔ باقی سارا شہرہندو اور سکھ غنڈوں کے رحم و کرم پر تھا ۔وہاں سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا، عورتوںکی مسجدوںمیں لے جاکر بے حرمتی کی گئی، مسلمانوں کے گھر جلادئیے گئے ۔یہ سب خبریںہمیں اپنے محصور کیمپ میںملتی رہیں ۔ میری عمر اس وقت 11سال تھی ہم بچوں میں دو بڑی بہنیں آپا رابعہ ، آپا ظہورہ ، چھوٹا بھائی نثار ، اس سے چھوٹی شکورہ جس کی عمر اس وقت چار سال تھی اور سب سے چھوٹا چھ ماہ کا وقار امی کی گود میں تھا ۔ بڑے بھائی جان ظہور احمد مجاہد والد صاحب کے ساتھدارالسلام میں رہ گئے تھے اور ان کے ساتھ حکیم عبد اللہ صاحب کے بڑے بیٹے عبدالحمید سلمانی بھی تھے ۔
دارالاسلام میںرہ جانے والے سب مرد ہی تھے ۔ ان لوگوں نے اپنی بستی سے شہر کے کئی علاقوںکو جلتے ہوئے دیکھا۔ بدامنی ، جان کاخطرہ اورکرفیو، ایسے حالات میںان کاشہر میں داخل ہونا ناممکن ہوگیا۔
یہ بیس کے قریب لوگ بالآخر چند ہی دنوں میںدارالسلام میں اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبورہوگئے اورپیدل ہی چل پڑے ، جہاں سے بھی گزرے ہر طرف ویرانی تھی۔ گائوں کے گائوں آبادیوں سے خالی ہوچکے تھے۔ وہاں انہیں معلوم ہؤا کہ مسلمانوں کا ایک قافلہ پیدل پاکستان کی طرف روانہ ہوچکا ہے اوروہ سرسہ شہر کے باہر سے گزر رہاہے ۔ان لوگوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھااوراس قافلے کو تلاش کر کے اس میںشامل ہوگئے ۔یہ لوگ کئی روز پیدل چلتے رہے۔بیل گاڑیاں ، اونٹ ، گدھے وغیرہ ان کے پاس تھے ،منصوبہ یہ تھا کہ قافلہ بھارتی پنجاب سے ریاست بیکانیر میں داخل ہوگا اور وہاں سے ریاست بہاولپور کے سرحدی شہر فورٹ عباس کے راستے پاکستان پہنچے گا ۔ بیکانیر کاراجہ ہندو تھا ، جب قافلہ بیکا نیر کی سرحد پر پہنچا تو راجہ کی فوج نے اسے وہیں روک لیا ۔ اس سازش میں ریاست پٹیالہ کے سکھ راجہ کابھی ہاتھ تھا جس نے بیکانیر کے راجہ کو ایسا کرنے پر آمادہ کیا اور اس کے علاوہ اس نے سکھ غنڈوں کے دستے بھی روانہ کئے جو اس قافلے پر حملے کرتے رہے ،اگرچہ مسلمان ان کے حملے پسپاکرتے رہے ۔اس وقت قافلہ ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔
یہ نئی صورت حال بے حد تشویشناک تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ ساٹھ ہزار انسان بیکانیر کے ریگستان میں بھوکے پیاسے مرجائیں گے یا ان پر حملہ کر کے ان کا قتل عام کردیا جائیگا ۔اس وقت قافلے کے ذمہ دار لوگوں نے ایک بڑا جلسہ کیا اورلوگوں سے مشورہ کیا کہ ایسی صورت میں کیاکرنا چاہئے۔آخر یہ طے پایا کہ دوبا اثر شخصیتوں کو کسی طرح پاکستان بھیجا جائے جہاں وہ ریاست بہاولپور کے حکمران سے ملیں اور ان سے مدد طلب کریں ۔ اس کا م کے لیے قافلہ والوں نے والد محترم چوہدری نذیر احمد اوردارالاسلام سرسہ ہی کے ایک اور معزز شخص حاجی جان محمدکو منتخب کیا، اورطے یہ ہؤا کہ یہ دونوں حضرات ٹرین کاسفر کر کے فورٹ عباس کے ذریعے پاکستان پہنچیں گے ۔ ان دنوں مسلمانوں کے لیے ریل کا سفر موت کودعوت دینے کے مترادف تھا۔ ٹرینیں روک کر مسلمانوںکو چن چن کر قتل کردیا جاتا تھا۔لیکن یہاں ساٹھ ہزار مسلمانوں کے تحفظ کا سوال تھا اور یہ ایک اجتماعی فیصلہ تھا جس کی پابندی ضروری تھی۔ اس لیے یہ دونوں حضرات پاکستان جانے کے لیے تیار ہوگئے۔
بھائی ظہور احمد مجاہد نے بتایا کہ جہاں قافلہ رکا ہؤا تھا وہاں قریب ہی ایک کتے وڈھ نام کاگائوں تھا جوویران ہوچکا تھااس گائوں کی ویران مسجد میں ان دونوں حضرات نے نماز ادا کی اور سب ساتھیوں سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے کہ اب حشر میں ہی ملاقات ہوگی ۔ وہاں سے یہ دونوں حضرات پیدل سفر کر کے سورت ریلوے سٹیشن پہنچے اور ریل پر سوار ہوکر بحفاظت فورٹ عباس کے راستے بہاولپور پہنچ گئے ۔ پاکستان پہنچ کر محترم والد صاحب نے اپنے بخیریت پہنچ جانے کاپیغام ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کرایا جو قافلہ میں موجود شیخ یاسین ( ڈاکٹر محمد یقین آئی سپیشلسٹ کے والد ) نے اپنے بیٹری ریڈیو پرسنا ، یہی پیغام ہم لوگوں نے بھی سرسہ میں ہمسایوں کے گھر میں ریڈیو پر سنا۔
بہاولپور پہنچ کر انہوں نے سب سے پہلے نواب مشتاق احمد گورمانی سے ملاقات کی جو اس وقت ریاست بہاولپور کے وزیر اعظم تھے اور انہیں ساری صورت حال سے آگاہ کیا(بعد میں گورمانی صاحب پنجاب کے گورنر بھی رہے )۔نواب گورمانی صاحب نے ٹیلی فون پر قائد اعظم ؒ سے رابطہ کیا جواس وقت تک کراچی پہنچ چکے تھے ۔ قائد اعظم ؒ نے ہدایت کی کہ نواب آف بہاولپور بیکانیرکے راجہ سے رابطہ کریں اور اسے قافلے کو راستہ دینے پر آمادہ کریں۔ اس وقت بہاولپور کی نہر عباسیہ سے بیکانیر کو پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ نواب بہاولپور نے بیکانیر کے راجہ کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا اور اسے دھمکی دی کہ اگر قافلے کو راستہ نہ دیا گیا تو بیکانیر کو پانی کی سپلائی بند کردی جائے گی ۔اس پر راجہ نا صر ف اس قافلے کو بلکہ اس کے بعد آنے والے مسلمانوں کے قافلوں کو بھی راستہ دینے پر آمادہ ہوگیا۔لیکن اس قافلے کو ایسا راستہ دیا گیا جس میں پانی کا کوئی انتظام نہ تھا اور ریگستانی علاقہ تھا ۔راستے میں یہ لوگ اور ان کے جانورجوہڑوں کا پانی پیتے آئے۔ بھائی جان نے بتایاکہ جب کبھی بارش ہو جاتی تو ہم گیلی ریت میں سے پانی چوس کر پیاس بجھا تے ۔ ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی کئی لوگ ہلاک ہوگئے ۔ بالا ٓخر یہ لوگ فورٹ عباس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے وہاں محترم والد صاحب ان کو لینے کے لیے آئے ہوئے تھے ۔ان کا ارادہ منٹگمری شہر ( ساہیوال) جانے کا تھا لیکن والد صاحب کے ملازمت کے زمانے کے ایک ساتھی اشفاق بھی جہانیاں میں مالی افسر تعینات تھے۔ انہیں پتہ چلا تو انہیں جہانیاں لے آئے اور ہندوئوں کے خالی کردہ مکان الاٹ کئے ۔
ادھر ہم لوگ ابھی تک سرسہ کیمپ میں محصور تھے وہاں ہمیں پتہ چلا کہ ایک اورقافلہ سرسہ شہر کے قریب سے گزر کر بیکانیر کے راستے پاکستان جارہاہے۔ ادھر یہ خبر تھی کہ حکومت کی طرف سے کچھ ریل گاڑیوں کاانتظام کیا جارہاہے جس کے ذریعے اس کیمپ کے لوگوں کو پاکستان پہنچایا جائے گا ۔اس پر کیمپ کے لوگوں میں اختلاف ہوگیا۔ کچھ لوگوں نے ریل کے سفر کو ترجیح دی لیکن زیادہ تر لوگ قافلے میں شامل ہونے پر آمادہ تھے کہ ریل گاڑی کاسفر محفوظ نہیں تھا۔کئی جگہ ریل گاڑیاں روک کر قتل عام کیا جاچکا تھا ۔یہ سوچ کر کیمپ کے ہزاروں لوگ جن میںدارالسلام کے سب خاندان بھی شامل تھے ، حکیم عبداللہ صاحب کی سرکردگی میں قافلے میں شامل ہوگئے۔ راستے میں اور لوگ ہمارے ساتھ ملتے رہے اور قافلے کی تعداد ایک لاکھ ہوگئی۔ اس قافلے کو جو راستہ دیا گیا اس کا زیادہ تر حصہ ایک نہر کے ساتھ ساتھ تھا اس لیے ہمیں پانی کی کوئی دقت نہ ہوئی۔ بیکانیر کا کافی حصہ طے کرنے کے بعد ہمیں سروپ سر ریلوے سٹیشن سے مال گاڑیوں میں سوار کرادیا گیا جو ہمیں فورٹ عباس کے قریب ایک سٹیشن پر اتار گئیں ۔ اس طرح اس ریگستانی علاقے میں پیدل سفر کر نے سے ہم لوگ محفوظ رہے لیکن ابھی پاکستانی سرحد کافی دور تھی ۔ مال گاڑی سے اتر کر ہم لوگ پھر پیدل چل پڑے اور سارا دن چلتے رہے یہاں تک کہ رات ہوگئی۔ پھر یکا یک ہمیں بتایا گیا کہ ہم پاکستان کی سرحد میں داخل ہوچکے ہیں۔ وہاں والد محترم ہمیں لینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔
عین اس وقت ایک سانحہ یہ ہؤا کہ بہن ظہورہ ہم لوگوں سے الگ ہوگئی اور اس نے رونا شروع کردیا ۔قافلے کے ایک شخص نے اس کا بازو پکڑ لیا اور پوچھا تمہارا نام کیا ہے ؟تم کس کی بیٹی ہو؟ اس نے اپنا نام بتایا اورشاید اس خیال سے کہ والد صاحب تو ہمارے ساتھ نہیں ہیں اس نے کہہ دیا کہ میں مولوی عبد اللہ روڑی والے کی بیٹی ہوں۔ اس شخص کو بہن کا نام ظہورہ کی بجائے صفورہ سمجھ میں آیااور زورزور سے آوازیں لگانی شروع کردیں’’ مولوی عبد اللہ روڑی والے دی بیٹی صفورہ‘‘ والد محترم جو ہمیں اندھیرے میں قافلے میں تلاش کر رہے تھے۔ ان کے کان میں یہ آواز پڑی تو فوراً اس شخص کے پاس پہنچے اور بہن ظہورہ کو اپنی حفاظت میں لے لیا اور تھوڑی ہی دیر میں ہم سب سے بھی آملے۔ بعد میں بہن ظہورہ کی یہ بات اس طرح پوری ہوئی کہ حکیم عبد اللہ صاحب کے بیٹے بھائی عبد الحمید سلمانی سے ان کانکاح ہؤا اوراس طرح وہ مولوی روڑی والے کی بیٹی بن گئی ۔
قافلے میں سفر کے دوران ایک اورنا خوشگوار واقعہ پیش آیا۔ ایک جگہ قافلہ پڑائو کئے ہوئے تھا تو کوچ کا اعلان ہؤا ،ہم سب اٹھ کر چل پڑے ،تقریباً نصف گھنٹہ چلنے کے بعد قافلہ رک گیا ۔آپا رابعہ نے ایک دم محسوس کیا کہ چھوٹی بہن شکورہ جو اس وقت چار سال کی تھی ہمارے ساتھ نہیں ہے ۔ حکیم عبد اللہ صاحب نے اپنے ایک قریبی عزیز محمد حنیف اورایک اورنوجوان کوپیچھے دوڑایا ۔یہ دونوں وہیں پہنچے جہاں سے نصف گھنٹہ پہلے قافلہ روانہ ہؤا تھا تو دیکھا کہ شکورہ اکیلی وہاں بیٹھی ہوئی تھی ، اسے اٹھا کر لے آئے اور وہاں سے ایک گدھا بھی مال غنیمت کے طور پر ساتھ لائے ۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت سو گئی تھی جب قافلہ چلا تھا اس لیے پیچھے رہ گئی ۔اس نے بھی ہم لوگوں کی طرح یہ سارا سفر پیدل طے کیا تھا۔اب ہم سوچتے ہیں کہ خدا نخواستہ اگر شکورہ ہمیں نہ ملتی تو اس کا کیا انجام ہوتا ۔ یا تو قتل کر دی جاتی یا کسی ہندو سکھ کے گھر میں پلتی یہ تصور ہی انتہائی روح فرسا ہے۔
سرسہ شہر سے روانہ ہوکر فورٹ عباس پہنچنے تک ہمیں تقریباً پندرہ دن لگے ۔راستے میں کھانے کی کمی تھی ،مائیں چنے ابال کر بچوں کی جیب میں ڈال دیتیں، بس یہی ان کا کھانا تھا۔ میری جیب میں بھی چنے ہوتے تھے اور پینے کے لیے نہر کا مٹی والا پانی تھا ۔بیل گاڑیوں کی کمی تھی اس لیے ہر فرد کے لیے سامان کی ایک گھٹڑی ہوتی تھی ۔ ایک گھٹڑی میرے پاس بھی تھی جو میں پندرہ دن سر پر اٹھاتا رہا ۔ ہم عید الفطر کے فوراً بعد اپنے گھروں سے نکلے تھے اور عید الضحیٰ ہم نے فورٹ عباس میں مسافرت اورمہاجرت کی حالت میں منائی ۔ وہاں ہندوئوں کے خالی گھروں میں ہم نے کچھ دن گزارے۔ والد محترم ہمیں وہاں چھوڑ کر جہانیاں میں رہائش کا انتظام کرنے چلے گئے اور پھر ہم بھی ان کے ساتھ جہانیاں پہنچ گئے ۔ جہانیاں پہنچتے ہی ہیضہ کی وبا نے آلیا۔ امی اور ننھا وقار دونوں ہیضے میں مبتلا ہوگئے ایسی تشویشناک حالت تھی کہ پتہ نہیں تھا کہ کون ان میں سے ہمیں پہلے چھوڑ کر چلا جائے گا۔
ایک وقت تو ایسے لگا کہ امی کے آخری سانس ہیں۔ہم سب رونے لگے ۔امی ہوش میں تھیں ، کہنے لگیں کہ میں تو جارہی ہوں ، اگر وقار زندہ بچ جائے تو اسے میری بھابھی کے سپرد کر دینا ۔اللہ کی رحمت جوش میں آئی امی بچ گئیں لیکن وقار چل بسا ۔
یہ سب مصیبتیں اٹھانے کے باوجود خوشی اس بات کی تھیکہ اللہ تعالیٰ نے ایک آزاد اسلامی ملک میں رہنے کا موقع عطا کیا جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر اٹھائی گئی تھی ۔ تریسٹھ سال گزرنے کے بعد اور وں کی طرح میں بھی یہ سوچتا ہوں کہ کیا کھویا کیا پایا؟لیکن اب بھی یہی ملک ہماری امیدوںکا مرکز ہے اور ہماری آئندہ آنیوالی نسلوں کاگہوارہ ہے ۔اوراسلام کے غلبے کی تحریک بھی انشا ء اللہ یہیں سے اٹھے گی۔
(بتول،اگست۲۰۱۰)
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x