ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

شدتیں جدائی کی- بتول مئی ۲۰۲۳

شمائل کے ابھی گریجویشن کے آخری سال کے امتحانات ہونے ہی والے تھے کہ اس کے گھر والوں کو نبیل کا رشتہ پسند آگیا ۔
نبیل کی والدہ نے کزن کی شادی میں اسے دیکھا تھا ۔ پہلی ہی نظر میں انہیں سادہ سی سر پر دوپٹہ اوڑھے دیگر لڑکیوں سے الگ تھلگ سی شمائل دل میں اتر گئی اوروہ اسی ہفتہ اپنے اکلوتے بیٹے نبیل کا پیام لے کر آن پہنچیں ۔نبیل چارٹرڈ اکائونٹنٹ تھا گھر گاڑی اچھی تنخواہ خوش شکل و خوش لباس ۔گھر میں صرف اس کی والدہ تھیں جو انتہائی سلجھی ہوئی خاتون تھیں سو چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا اور وہ نبیل کی دلہن بن کر آگئی ۔
اس کی ساس واقعی ایک مثالی ساس ثابت ہوئیں انہوں نے بیٹے کی تربیت میں صرف ماں ہی نہیں عورت کی عزت کرنا گھٹی میں ڈالا تھا ۔ نبیل کو کبھی اس نے اپنی کسی کزن کے سامنے بھی بے باکی سے بات کرتے نہیں دیکھا تھا اور وہ خود بھی اسی مزاج کی تھی۔دونوں کی جوڑی کی سارے خاندان میں دھوم مچی رہتی ۔
آہستہ آہستہ وہ ذمہ داریوں میں گھرتی گئی اوپر تلے تین بچوں کی آمد پھر گھر ۔اور اماں ،وہ تو پردیس جو جاتیں تو چھ آٹھ ماہ بعد آتیں، ان کا تو پورا میکہ ہی امریکا میں تھا۔ پہلے نبیل کی تنہائی انہیں روکے رکھتی تھی اب وہ بے فکری سے جا کررہتیں۔ زندگی کی گاڑی بہت تیزی سے رواں تھی اسے اپنے لیے وقت ہی نہیں ملتاتھا، مشینی زندگی ہوگئی تھی۔
وہ کچھ عرصہ سے نبیل کے رویے میں تبدیلی محسوس کررہی تھی۔ ایک آدھ بار پوچھنے پر نبیل نے آفس کا مسئلہ بتا کر اسے مطمئن کردیا ، اسے بھی بچوں کے گھر کے مسائل اتنا تھکا دیتے کہ وہ کچھ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔
لیکن کب تک۔ آخر اسے نبیل کے رویے کی تبدیلی کا انکشاف ہو ہی گیا۔کل رات کے پچھلے پہر اس کی آنکھ کھلی نبیل کو بستر پہ نہ پاکر اس نے اسے تلاش کیا تو باہر ٹیرس پر اسے موبائل پر محو گفتگو دیکھا ۔اس نے سوچا کہ کوئی دوست ہوگا لیکن نبیل کے الفاظ کیا تھے،ایسا گہرا گھائو تھے جو اس کا دل چیر گئے۔
’’یار کیا بتائوں وہ میری ہر ضرورت کو پورا کرتی ہے لیکن بس اس میں اب پہلے جیسی کشش نہیں رہی…. ہر وقت تھکی ہوئی بےزار….بس دل اب اس طرف راغب نہیں ہوتا۔تم سے بات کرکے ذرا تازہ دم ہوجاتا ہوں…. تمہاری ہنسی اورباتیں میری تھکن اتار دیتی ہیں‘‘۔
اس سے آگے سننے کا حوصلہ اس میں نہیں تھا ۔وہ اپنے ریزہ ریزہ وجود کو سمیٹتے بستر پر گر گئی ۔ اسے آج اماں کی کمی شدت سے محسوس ہورہی تھی ۔اماں دیکھیں آپ کا نبیل بھٹک رہا ہے آپ کا سایہ دور ہے نا….وہ نبیل جو اپنی کزن تک سے نظریں ملا کر بات نہیں کرتے تھے آج کسی سے اتنی بے باکی سے بات کررہے تھے ۔افف اللہ میں کیا کروں !
اشک تکیہ کو نم کررہے تھے اور کنپٹیاں سلگ رہی تھیں۔پچھلے پہر کی یہ رات خاصی طویل ہوگئی تھی۔رات کی تاریکی کو چیرتی اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ وہ بھی کھڑی ہوگئی۔ اپنا من ہلکا کرنا ہو تو سب ہی اپنے رب کے دربار میں سر جھکا دیتے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔ صبح نبیل اس کی کیفیت سے لاعلم اسی طرح تیار ہوکر ناشتہ کرکے آفس چلے گئےاور وہ تھی تو عورت ہی نا، اپنا ہر دکھ بھول کر زندگی کے دھندوں میں مصروف رہنے کا ہنر اس سے زیادہ کسے آتا تھا ۔
”ہر رشتہ و تعلق کی بنیاد بھروسہ و اعتماد ہے ،یہ نہ ہوتو انسان کا وجود بے معنی اور تعلق صرف سمجھوتا ہے“۔
اس کی بچپن سے عادت تھی جو بات اسے اچھی لگتی وہ اپنی ڈائری میں نوٹ کرلیتی اور آج اسے اپنی ڈائری میں لکھے یہ الفاظ نہ صرف یاد آرہے تھے بلکہ نجانے کتنے اشک بھی بہانے پر مجبور کرہے تھے….وہ

اس وقت تنہا رہنا چاہتی تھی لیکن کتنی مجبوری تھی کہ وہ چاہ کربھی بظاہر تنہا نہیں ہوسکتی تھی جب کہ اس کے وجود کے اندر تک تنہائی اور گہرا سناٹا تھا۔
”امی امی آئیں ناں دیکھیں یہ کیا ہوگیا “۔
ابھی وہ سوچوں میں گم تھی کہ بڑی بیٹی پینٹ اور برش لیے سامنے آگئی ۔افف ایک تو یہ بچے سکون نہیں لینے دیتے، اس کی ساری جھلاہٹ اپنی پانچ سالہ معصوم بچی پر اتری ۔
”ہٹو تم میں صاف کروں تمہیں اور کام ہی کیا ہے“ ۔
ابھی وہ یہ صاف کرہی چکی تھی کہ چھ سالہ بیٹا روتے ہوئے آگیا”اماں دیکھیں میری گاڑی کا ٹائر ٹوٹ گیا “۔
’’اوہو چلو کوئی بات نہیں دوسری آجائے گی‘‘۔ اس نے یہ کہہ کر بہلانا چاہا۔
کتنا معصوم بچپن ہوتا ہے ایک گاڑی کا ٹائر ٹوٹنے پر رو رہا ہے یہاں لوگ روز رشتوں کو توڑتے ارمانوں کا خون کرتے ہیں انہیں اندازہ بھی نہیں ہوتا….ایک بار پھر اسے سب کچھ یاد آگیا۔ ابھی وہ پھر اسی ٹرانس میں تھی کہ چھوٹی والی کی رونے کی آواز نے اسے اپنی الجھنوں اور سوچوں کے وسیع سمندر سے نکال کر کار زندگی میں مصروف کردیا۔آنسو پیتے خود سے الجھتے دن تو گزر گیا مگر رات….رات کو تو دکھ جاگتے ، درد ٹیسیں دیتی اور نہ ختم ہونے والی سوچیں تھکے ہوئے بدن کو مزید تھکاتی ہیں ….بات شاید اتنی بڑی بھی نہیں تھی لیکن اتنی معمولی بھی نہیں ۔
”شمائل تم شروع سے ہی ایسی ہو ہر بات کو بڑھا چڑھا کر خود پر سوار کرکے نہ خوش رہتی ہو نہ رہنے دیتی ہو“۔
”کیا تم اسے معمولی بات سمجھتی ہو ماہا ؟ ایک مرد جس سے ہم وفا نبھاتے ہیں جس کے بچوں کی تربیت میں خود کو گھلادیتے ہیں جس کےگھر کی دیکھ بھال میں اپنا سکھ چین بھول جاتے ہیں اسے یہ زیب دیتا ہے؟“۔
”اوہو تو کون سا کمال کرتی ہو سب عورتیں کرتی ہیں “۔
”ہاں تو سب مرد کیا یہی کرتے ہیں؟“ شمائل نے تڑخ کر کہا ۔
”ہاں کم و بیش ہر مرد یہی کرتا ہے یہ دنیا ہے یہاں ذرا آنکھیں کھول کر رہو دیکھو ارد گرد کیا کیا ہورہا ہے، مرد کہاں کہاں سے خود کو بچائے؟“
”تم ماہا کیسی باتیں کررہی ہو ؟“
”جو حقیقت ہے وہی سمجھارہی ہوں….قدم قدم پر باہر مردوں کے لیے آزمائشیں کھڑی ہیں عورتیں بازار حسن سجائے ہوئے ہیں ۔شکر کرو نبیل بھائی صرف بات چیت تک ہی محدود ہیں عملاً کچھ غلط نہیں کرتے ورنہ یہاں تو سب تیار ہیں۔ تم سے رویہ بدلا تمہیں کچھ برا بھلا کہا ؟نہیں نا؟ دیکھو اپنے آپ کو بدلو اپنا حلیہ دیکھو نبیل بھائی کے آنے سے پہلے کوشش کیا کرو سب کاموں سےفارغ ہو کر اطمینان سے انہیں وقت دو“ ماہا رسانیت سے سمجھارہی تھی” باہر مرد نا جانے کتنے محاذوں سے لڑ کر گھر آرہا ہوتا ہے اسے گھر میں بھی سکون و اطمینان نہ ملے تو وہ اسے ادھر ادھر تلاش کرے گا نا “۔
”میں کون سا انہیں تنگ کرتی ہوں ‘‘اس نے نم آنکھوں کےساتھ سوال کیا۔
”ہممم….تم یقینا تنگ نہیں کرتی ہوگی لیکن شاید تم ان کی توقعات پر پورا نہ اتر رہی ہو۔ تم انہیں بس جتنا وقت دو وہ خالص ان کے لیے دو ۔تیار ہو مسکرا کر ملو، اپنی اور ان کی باتیں کرو ،دیکھو یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے، جب بچے ہوتے ہیں تو باتیں بھی بس بچوں کی ضروریات تک محدود ہوجاتی ہیں۔ اسے کچھ مرد خوشی سے قبول کرتے ہیں اور کچھ اکتاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تو شمائل تھوڑا خود کو بدل کر دیکھو شاید مسئلے کا حل اسی میں ہو“ ماہا نے تسلی و پیار سے شمائل کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے سمجھایا۔
”اور اب تم یہی دیکھ لو یہ اتنی بڑی بات بھی نہیں کہ رو رو کر خود کو ہلکان کررہی ہو تمہیں اس مسئلے سے نکلنے کا حل سوچنا چاہیے۔ تم نے خود ہی بتایا نا کہ نبیل بھائی نے تمہارے موڈ کا نوٹس لیا کئی بار تم سے پوچھا تو اس کا تو یہی مطلب ہے نا کہ انہیں تمہارا احساس ہے محبت ہے ،بس تم سے مطلوبہ وقت و توجہ نہ ملنے کے سبب شاید کسی سے دوستی ہوگئی ہو ۔دیکھو شمائل مجھے لگتا ہے غلطی اگر ان کی ہے تو تمہاری بھی ہے۔
اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی

یہ جو شعر ہےنا فرازؔ کا….بس ایسی بات لگتی ہے مجھے‘‘۔
’’ان کی غلطی، محض غلطی نہیں گناہ ہے ماہا ،جنہیں چھوٹا سمجھا جائے یا جواز تراشے جائیں تو ایسے گناہوں کا وبال نسلیں دیکھتی ہیں‘‘ اس نے حلق میں اٹکے گولے کو نگلتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں صحیح کہہ رہی ہو لیکن اس کا احساس نبیل بھائی کو دلانا بھی اب تمہاری ذمہ داری ہے۔ دیکھو بس تہیہ کرو چھوٹی چھوٹی باتوں پر خود کو آزردہ نہیں کرنا، خوش رہو گی تو خوش رکھو گی نا ۔اب اٹھ کر نہا دھو کر تیار ہوجائو میں بھی اپنے گھر کی راہ لوں کہیں میرے میاں صاحب بھی میری غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر کوئی گل نہ کھلا بیٹھیں “ ماہا نے ہنستے ہوئے آنکھ ماری اور چلتے چلتے رک کر بولی’’ اور ہاں سنو! طعنہ سے ہمیشہ گریز کرنا ۔ انہیں محبت و حکمت سے آہستہ آہستہ یہ احساس دلانا کہ اگر آپ کو کو ئی شکوہ شکایت ہو تو باہم گفتگو سے معاملے سلجھائےجاسکتے ہیں لیکن اس کے لیے فرار کی راہیں اختیار کرکے کہیں اور سکون تلاش کرنے سے انسان ایسی گھاٹی میں جاگرتا ہے جہاں سے واپسی مشکل ہوجاتی ہے۔ آئی سمجھ ؟‘‘
اس نے نم آنکھوں اور مسکراتے لبوں کے ساتھ ہاں میں گردن ہلادی۔
’’ چلو اب میں چلتی ہوں‘‘ وہ اپنا بیگ سنبھال کر اس سے گلے مل کر گھر کی دہلیز پار کر گئی۔ اچھا دوست بھی کسی نعمت سے کم نہیں اس نے اسے گاڑی میں بیٹھتےدیکھتے ہوئے سوچا ۔تھینک یو ماہا تم نے مجھے میری کمزوری سے آگاہ کیا تم صحیح ہو عورت میں وہ مقناطیسی کشش ہے جو مرد کو جامد کردیتی ہے۔ مجھے اماں کی تربیت اور اپنی محبت پر بھروسہ ہے اور اللہ پر یقین وہ میرے نبیل کو بھٹکنے نہیں دے گا۔
کمرے میں واپس پلٹتے ہوئے اسے احساس ہؤا کہ سینے پہ پڑی گھٹن کی سل جیسے ہٹنے لگی ہے۔
٭ ٭ ٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
3 1 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x