ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بزرگوں کی نگہداشت – بتول اپریل ۲۰۲۲

ہمارے بزرگ ہمارے لیے بہت بڑی نعمت، رب کی رحمت اور برکت کا باعث ہیں ، ان کی خدمت بہت بڑی سعادت ہے ۔
اس دنیا میں انسانی زندگی کے مختلف مراحل ہیں ۔ اپنی زندگی میںانسان بچپن ، جوانی ، ادھیڑ عمر اور بزرگی کے مختلف ادوار سے گزرتا ہے(بشرط زندگی ) قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ اے انسان تو کشاں کشاںاپنے رب کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے ‘‘۔
بزرگ جب تک چلتے پھرتے ہیں ، اپنے ہاتھ سے اپنے کام کرنا پسند کرتے ہیں بلکہ دوسروں کے کام بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ عمر کے ساتھ البتہ جو جسمانی تبدیلیاں آتی ہیں ، جن کا زمانہ زندگی کے تیسرے عشرے سے شروع ہو جاتا ہے، اس سے کچھ بیماریوں کا تناسب بڑھ سکتا ہے ۔
Geriatric Careیابزرگوں کی نگہداشت کے ماہرین کے مطابق بڑھاپا دو قسم کا ہے ۔
(۱) Physiolgicalیا قدرتی تبدیلیاں جو عمر کے ساتھ آتی ہیں ۔
(۲)Pathalogical جو کسی بیماری کی وجہ سے بڑھاپے کے اثرات کو بڑھا دیتی ہیں۔
عمر کے ساتھ کچھ تبدیلیاں تو نا گزیر ہیں ۔ بچپن ، جوانی ، ادھیڑ عمر ، پھر بڑھاپا جس میں بچپن کی کچھ عادتیں واپس آجاتی ہیں مگر ان کی رفتار اس بات پرمنحصر ہے کہ انسان کی عمومی صحت کیسی ہے ۔ ماہرین کے مطابق جو لوگ متناسب غذا، قدرتی اشیا استعمال کرتے ہیں وہ عموماً بڑھاپے کے اثرات سے زیادہ دیر تک محفوظ رہتے ہیں ۔
جو لوگ ورزش /سیر کرتے ہیں ، چاق و چوبند رہتے ہیں ، زندگی میں دلچسپی لیتے ، مصروف رہتے ہیں ، وہ بھی عموماً زیادہ دیر تک مستعد زندگی گزارتے ہیں ۔ چنانچہ نوے سال کی عمر میں پی ایچ ڈی کرنے کی مثالیں بھی ہمارے سامنے آتی ہیں ۔
ہماری ایک بزرگ جنہوں نے 100سال کی عمر پائی، ان کے بارے میں سنا کہ ان کے دانت بھی اصلی رہے۔ آنکھیں بھی درست رہیں اور تقریباً آخری عمر تک چلتی پھرتی رہیں ۔ یہ بھی دیکھا کہ وہ ہر قسم کی سبزی استعمال کرتی تھیں بلکہ سبزی کے چھلکے بھی ضائع نہ کرتیں۔
عمر کے ساتھ بھولنے کی بیماری بھی عام ہے ۔ چنانچہ اس وقت دوائوں کو وقت پر دینا دوسروں کی ذمہ داری بن جانی چاہیے تاکہ ناغہ نہ ہو اور غلطی سے زیادہ دوا بھی نہ چلی جائے ۔ ڈاکٹر کو وقت پر دکھانا، ہدایات پر عمل کروانے کی ذمہ داری بھی گھر والوں کو لینی ہوتی ہے ۔
ایک اچھا عمل یہ ہے کہ کم از کم ،ادھیڑ عمر کے بعد سال میں ایک دفعہ طبی معائنہ کرالیا جائے بغیر اس کے کہ کوئی تکلیف ہو ۔ بعض اوقات بیماری کے اثرات شروع ہو چکے ہوتے ہیں لیکن ابھی محسوس علامات ظاہر نہیں ہوتیں ۔ اس مرحلے پر بیماری کی تشخیص بہت سی پیچیدگیوں سے بچا لیتی ہے ۔ مثلاً شوگر کا ٹیسٹ، بلڈ پریشر چیک وغیرہ ۔ میری ایک بزرگ مریضہ ، جو کسی خاص بیماری میں مبتلا نہ تھیں ، بڑے پیار سے کچھ عرصے بعد آتی تھیں اور کہتی تھیں کہ ’’ مینوں ٹوٹی لگا کے دیکھ لے ، مینوں کوئی بیماری تے نہیں ‘‘۔
خدا نخواستہ کسی بیماری کے نتیجے میں بزرگ اگر بستر پر آجائیں تو انہیں سنبھالنا ایک بڑی آزمائش ضرور ہے مگر اس کا اجر سامنے ہو تو یہ محبت ، خلوص ، خوش دلی سے کیا جانے والا ایسا کام ، ایسی خدمت ہے جس کی بے حد قدر رب کریم کے ہاں ہے ۔ اور اس خدمت کے بدلے میں جو برکت اس گھر کو عطا ہوتی ہے اس کا بھی کوئی بدل نہیں اللہ تعالیٰ ہر آزمائش سے محفوظ رکھیں آمین۔
اس ضمن میں چند باتیں اہم ہیں ۔
۔ـ عمر کے اس دور میں بزرگوں کو پر سکون ، خوش رکھنا ، ان کی تکلیف کو کم کر کے ان کو آرام پہنچانا اہم ہے ۔
۔بزرگوں کی خدمت، بچوں کی نگہداشت سے زیادہ نازک معاملہ ہے بچے تو رو کر اپنی ضرورت کا اظہار کر دیتے ہیںمگر بزرگ اکثر اپنی تکلیف کا اظہار نہیں کرتے ۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے ان کی اندرونی کیفیت کا اندازہ لگانا ہوتا ہے ۔ اس کے لیے یکسوئی اور قریبی تعلق ضروری ہے تاکہ ان کہی باتوںکو سنا جا سکے ۔
۔یہ کام کسی ایک فرد کے لیے مسلسل اکیلے کرنا مشکل ہے ۔ اپنے کسی عزیز کو جنہوں نے بھرپور زندگی گزاری ہو،بستر پر دیکھنا پریشان بھی کر سکتا ہے ۔ پھر جتنی توجہ کی انہیں ضرورت ہوتی ہے جسمانی ، ذہنی وہ ایک فرد اپنی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ بہ مشکل نبھا پاتا ہے ۔ اس لیے جہاں بھی ایسی صورتحال ہو ،وہاں تمام متعلقین کو اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنا حصہ ڈالنا چاہیے ۔اہل خانہ کو بھی ایک دوسرے سے اس ضمن میں بھرپور تعاون چاہیے ہوتا ہے ۔
اس کار خیر میں اچھے پڑوسی بھی اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں آپ کے ہمسائے میں کوئی بزرگ ہوں توکچھ وقت ان کے پاس بیٹھ کر ان کا دل بہلایا جا سکتا ہے البتہ کرونا نے اس سلسلے میں کچھ پابندیاں لگا دی ہیں ان کے پاس جانے سے پہلے ہاتھ دھونا ، ماسک پہننا ضروری ہے تاکہ باہر کی انفیکشن ان کو نہ لگے ۔
پہلے وقتوں میں اس بات کا بہت اہتمام کیا جاتا تھا ۔ اپنے کاموں سے وقت نکال کرخصوصیت سے بزرگوں سے ملنے جانا ، ان کی دعائیں لینا ، ان کی خدمت میں حصہ ڈالنا بڑی سعادت سمجھی جاتی تھی ۔ یقینا یہ عمل جو خلوص سے کیا جائے اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کا باعث ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ جہاں گناہوں سے بچنے کی تلقین کی ہے وہاں شرک کے بعد والدین کی نا فرمانی سے بچنے کی ہدایت ہے ۔ حدیث مبارک میں بھی یہی ترتیب بتائی گئی ہے۔ توان کی فرمانبرداری کا کتنا اجر ہوگا۔
بزرگوںکی نگہداشت کے کئی پہلو ہیں مثلاً جسمانی ، نفسیاتی ، سماجی، روحانی سب سے پہلے ہم نفسیاتی اور سماجی پہلو کو لیں جن پر کم بات ہوتی ہے ۔
نفسیاتی پہلو
۔ہر انسان کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اپنے چھپے جذبات کا اظہار کیا جائے ۔ بزرگوں کو اس کی خاص ضرورت ہوتی ہے کہ بار بار اپنی محبت اور ان کے لیے شکر گزاری اپنے الفاظ ، اپنی مسکراہٹ ، اپنے لہجے کی مٹھاس اپنی توجہ سے ان تک پہنچائی جائے ۔
انتہائی خوشدلی سے ان کے کام کیے جائیں اور کسی بھی قسم کی تکلیف یا مشکل جو آئے ، اسے ان کے سامنے ظاہر نہ کیا جائے ۔
اس عمر میں بزرگ بہت حساس ہوتے ہیں ، وہ اپنی وجہ سے کسی کو تکلیف نہیں دیناچاہتے ،اس لیے ان کی ضروریات کا احساس بڑی توجہ سے ہمیں خود کرنا ہوتا ہے ۔
۔ان کی خوشی کاخیال رکھا جائے ، ان کے سامنے مثبت گفتگو کی جائے خوش کن باتوں اور اچھی خبروں کو ان کے سامنے دہرایا جائے کوئی منفی بات ، جو خاندان کو ہو یا کوئی ایسی ملکی خبر جسے سن کر تکلیف ہو ، ان کے سامنے بالکل نہ دہرائی جائے۔
پیارے نبیؐ کی ذات جوہمارے لیے ، ہر پہلو سے مکمل نمونہ ہے۔ انہوں نے ہر رشتے اور تعلق میں انسانی نفسیاتی پہلو کو مد نظررکھا جائے ۔ ایسی بات جودوسرے کو تکلیف دے ، شرمندہ کرے ، وہ ان کی زندگی میں ہمیں دوردور تک نظر نہیں آتی ۔وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں تھے اور اللہ سے بڑھ کر کون انسانی نفسیات سے واقف ہو سکتا ہے ! آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر تھے اور یہی راستہ ہمیں بھی دکھا گئے کہ :
’’ تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی وہ پسند نہ کرو ، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو‘‘۔
یہ معیار سامنے ہو تو ہمارا دل خود بتاتا ہے کہ ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔
بزرگوں کے سامنے ان کی بیماری کا ذکر بھی نہ کیا جائے ، نہ کوئی آنے والا ان کے سامنے گھر والوں سے پوچھے یہ بھی بار بار سننا اور سنانا ، تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ کوئی مشورہ دینا ہو تو علیحدگی میں پوچھا جا سکتا ہے ۔
۔بزرگوں کو ان کی اہمیت کا احساس دلایا جائے ۔ ان کی زندگی کے خوشگوار لمحات کا ذکر کیا جائے ۔ ان کے اچھے کاموں کو یاد کر کے اظہار تشکر کیا جائے ۔
بہت سے گھر وں میں دیکھا کہ بزرگ اگر بستر پر بھی ہوں تو بھی گھر کا مرکز ہیں ۔ صحن والے گھروں میں برآمدے میںچار پائی بچھی ہے ، اس کے ارد گرد کرسیاں ہیں ۔ گھر والے بھی وہیں بیٹھتے ہیں۔ باہر سے جو آتا ہے پہلے انہیں سلام کرتا ہے ۔ مہمان بھی آتے ہیں تو وہیں ان کے پاس بیٹھتے ہیں ۔ بیماری کے باوجود وہ سب سے اہم ہیں سب کے لیے دعا گو ہیں ۔
اسی طرح نئی طرز کے گھروں میں بھی، بستر میں علیحدہ سے لیٹے رہنے کی بجائے ویل چیئر پر اس جگہ لایا جائے جہاں سارے افراد خانہ بیٹھے ہوں یا کھانا کھا رہے ہوں تو اس کا ان پر بہت خوشگواراثر پڑتا ہے ۔
یہ بھی دیکھا کہ بعض اوقات بیماری کی وجہ سے کوئی بزرگ بات نہیں کر پاتے ، چہرے پر تاثر نہیں ہے ، پہچان کا احساس بھی نہیں ہے ۔ لیکن پاس بیٹھنے والا فرد باتیں سنا رہا ہے ، باتیں کر رہا ہے تو رفتہ رفتہ آنکھوں میں پہچان بھی آگئی اورچہرے پر مسکراہٹ بھی اور اس فرد کے لیے جس نے یہ محنت کی کتنا بڑا تحفہ ہے ، کتنا قیمتی خزانہ ہے یہ وہی جانتا ہے۔
در اصل چہرے پر تاثر کا نہ ہونا بھی بیماری کا حصہ ہوتا ہے عموماً اور یہ ضروری نہیں ہے کہ اندرونی طور پر وہ محسوس نہ کر رہے ہوں بلکہ اکثر سنتے ، سمجھتے محسوس کرتے ہیں البتہ اظہار نہیں کر پاتے ۔ سوچتے ہیںمگر لفظوں میں ڈھال نہیں پاتے ۔
جب بھی ان کے پاس جائیں خوشدلی اورجوش سے مسکرا کر سلام کریں ۔ اس سے انہیں بہت خوشی ہو گی اور رب کی رحمت آپ کو گھیر لے گی انشا ء اللہ۔
سماجی پہلو
بزرگوں کو آرام سکون کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ کسی کے ساتھ کی ضرورت بھی ہوتی ہے ۔ کمرے میں اکیلا ہونا بھی گھبراہٹ کا باعث بن سکتا ہے ۔
گھر کے افراد باری باری پاس بیٹھیں ، باتیں کریں ، کچھ پڑھ کر سنائیں ، تلاوت لگا دیں ، کوئی اچھا پروگرام سنا دیں ۔کوئی اچھی بات ، خوشی کی بات سنا کر ، انہیں خوش رکھیں۔ اکثر پرانی باتیں یاد رہتی ہیں اور کچھ دیر پہلے کی بات انہیں بھول جاتی ہے۔
جب تک وہ متحرک تھے ، لوگوں کے پاس جاتے تھے ، ملتے جلتے ، خوشی اور غم بانٹتے تھے کوئی اچھی بات سکھاتے تھے ، کام میں ہاتھ بٹاتے تھے ، اب وہ ایک جگہ میں سمٹ گئے ہیں ، اب دوسروں کا فرض ہے کہ ان کے پاس جائیں ، خوشگوار ملاقات کریں ، انہیں ان کی موجودگی کی اہمیت کا احساس دلائیں ، ان کے کام کر کے اس بہتے دریا سے رب کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ کسی بھی مریض کی عیادت کے لیے فرشتے راستے میںدعائیں کرتے ہیں تو بزرگ بیمار ہو تو اجر کی کیا کیفیت ہو سکتی ہے !
اس کو اپنی خوشیوں میں ، کامیابیوں میں شریک کریں ۔ چھوٹی چھوٹی خوشی کی تقریبات، مواقع ان کے پاس ان کے کمرے میں منائیں ممکن ہو تو انہیں وہاں لے کر جائیں جہاں سب مل کر بیٹھے ہوں ۔ ان کے متعلقین کی خیریت ، کامیابیوںاور خوشیوں کی خبریں انہیں سنائیں ۔ اللہ کی نعمتوں کی طرف توجہ دلائیں تاکہ دل امید اور مثبت خیالات سے پر رہے اور یہ خوشی اور شکر گزاری ان کی تکلیف اور بیماری کو کم کرنے کا باعث بنے ۔
جسمانی صحت :
اس کے کئی پہلو ہیں مثلاً:
خوراک : عمر کے ساتھ ہاضمے کے نظام میں کمزوری آ سکتی ہے ۔ بہت سی چیزیں آسانی سے ہضم نہیں ہوتیں ۔کچھ کھانے اچھے نہیں لگتے ، کچھ چیزوں کی طرف زیادہ رغبت ہوتی ہے بعض اوقات دانتوں کی خرابی کی وجہ سے خوراک چبانے میں مسئلہ ہوتا ہے بعض بیماریوں میں نگلنے میں مسئلہ ہوتا ہے ۔
تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر کے مشورے سے خوراک کا چارٹ بنایا جا سکتا ہے کہ تمام ضروری اجزاء مثلاً دودھ ،انڈا، سبزی ، پھل ، گوشت ،متوازن طریقے سے خوراک میں شامل ہو ۔
۔ خوراک تھوڑے وقفے سے مناسب مقدار میں دی جائے ۔
۔نگلنے میں مشکل ہو تو پیس کر یا شیک کر کے دی جا سکتی ہے اگر خوراک کی نالی لگی ہو تو خصوصاً اور ویسے بھی عموماً لیٹے ہوئے کوئی چیز ہر گز نہ دی جائے ، بٹھا کر کھانا کھلایا جائے اور کچھ دیر بعد لٹایا جائے ۔اگر ہلکی پھلکی سیر کر سکیں تو اس کی حوصلہ افزائی کریں ۔ ہاتھ پکڑ کر ، یا کسی چیز کے سہارے اگر چل سکیں یا ویل چیئر پرتازہ ہوا کے لیے باہر لایا جائے ، موسم کے مطابق ان کے چلنے کے راستے میں ریلنگ ہو جسے پکڑ سکیں ، اسی طرح کموڈ کے ساتھ بھی کوئی سہارا ہو ۔
۔اگر بزرگ بستر میں لیٹنے پر مجبور ہوں تو کم از کم صبح شام بازو اور ٹانگوں کی مالش اور ورزش ضروری ہے ۔ اس سے انہیں آرام بھی بہت ملتا ہے اور بہت سی پیچیدگیوں سے بھی بچا جا سکتا ہے ، قربت کا احساس بھی ہوتا ہے اسی طرح 2گھنٹے کے بعد پوزیشن کو بدلنا بھی ضروری ہے تاکہ جسم کے کسی حصہ پر زیادہ بوجھ کی وجہ سے زخم نہ بنیں ۔ زیتون کا تیل ، پٹرولیم جیلی جلد کے مساج کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
صفائی: وہ جوخود ساری عمر صفائی کا بے حد خیال رکھتے رہے ، آج ان کا حق ہے کہ ان کے جسم ، لباس، بستر ، کمرے کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے دانتوں کی صفائی ، کلی کرانا ، غسل کرانا ، سر دھونا ، ناخن تراشنا سب اس میں شامل ہیں ۔
آب و ہوا: ان کا کمرہ روشن اور ہوا دار ہو اور موسم کی تبدیلیوں کے مطابق درجہ حرارت مناسب رکھا جائے ۔ کمرہ دوسرے کمروں سے دور نہ ہو ملحق ہو رات کو ان کے ساتھ کوئی موجود ہو تاکہ ضرورت پڑنے پر مشکل نہ ہو ان کی دوائیاں اور ضرورت کی چیزیں ترتیب سے رکھی ہوں ۔
بستر: اگر بیماری کی وجہ سے زیادہ دیر لیٹنا پڑے تو ائیر میٹر یس کا استعمال ضروری ہے تاکہ جسم کے کسی حصے پر زیادہ دبائو نہ پڑے اور دوران خون درست رہے اگرکھانا کھانے ، نگلنے میں مسئلہ ہو تو مخصوص پلنگ استعمال کیے جاتے ہیںجو بجلی سے بھی اوپر نیچے ہوتے ہیں اور ہاتھ سے ہینڈل گھما کر اوپر نیچے کرنے والے بھی ہوتے ہیں دیر پا استعمال کے لیے بجلی والے بہتر رہتے ہیں۔
کسی تکلیف کی صورت میں اگر فوری ہسپتال جانے کی ضرورت نہ ہو تو Tele medicineکی سہولت بھی بڑے ہسپتالوں میںدستیاب ہے جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔
بزرگوں کے لیے خصوصی دعا رب الرحمھما کما ربیانی صغیرا کثرت سے مانگی جائے ۔بزرگوں کی خدمت بہت بڑی نیکی ، بے حد اجر کا باعث ہے ۔یہ خوش نصیب لوگوں کے حصے میں آتی ہے ۔ اسے بہت خوشگواری اور شکر گزاری کے ساتھ انجام دینا بہت بڑی سعادت ہے ، گھروں میں برکت اور رب کی بے پناہ رحمت کا باعث ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے بزرگوںپر اور ان کی خدمت کرنے والوں پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں ہمیشہ ، آمین ۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x