ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

غزل – بتول فروری ۲۰۲۳

یہ کیا کہ سچی رفاقتوں کی گھنیری چھاؤں کو ڈھونڈتے ہو
ہرے بھرے کھیت بستیوں میں بدل کے گاؤں کو ڈھونڈتے ہو
اندھیرے گھر میں گری ہوئی سوئی ڈھونڈنا جب نہیں ہے ممکن
تو کیوں یہ پھیلائی جھوٹی باتوں کے ہاتھ پاؤں کو ڈھونڈتے ہو
کسی کے آنچل نہیں ہیں محفوظ گر سروں پر تمہارے ہاتھوں
تو کس بنا پر تم اپنے گھر کے لیے رداؤں کو ڈھونڈتے ہو
یہ نیک لوگوں کی بستیاں ہیں یہاں بنے گا مذاق ہر سو
تمہای سادہ دلی کا یارو جو ہمنواؤں کو ڈھونڈتے ہو
بتاؤ کیا اس زمیں کے تم پر تمام در بند ہو چکے ہیں
تلاش کرنے نئے ٹھکانے جو تم خلاؤں کو ڈھونڈتے ہو
نہ کوئی کنکر نہ اینٹ پتھر کسی نے مارا نہ روکا ٹوکا
تو اجنبی شہر میں بھلا تم کن آشناؤں کو ڈھونڈتے ہو
بہت پکارا تڑپ تڑپ کر پلٹ کے دیکھا نہیں تھا اب کیوں
زمین گنبد نہیں ہے جو تم مری صداؤں کو ڈھونڈتے ہو
نہیں تھا یاں آشنا ہی کوئی تو چاہیے کس کی راکھ، جو یوں
تڑپ کے مرگھٹ میں ہر طرف تم جلی چتاؤں کو ڈھونڈتے ہو
کرو بھی احسان اور احسان کرکے ہر دم جتاتے رہنا
ہے ایسا جیسے جزاؤں میں تم کڑی سزاؤں کو ڈھونڈتے ہو
وہ جھوٹے وعدے، وہ بے وفائی، وہ فرقتوں کی سیاہ راتیں
عجیب ہو تم جو ٹل چکی ہیں انھیں بلاؤں کو ڈھونڈتے ہو
ہوا ہوئیں سب ہوائیں بچپن کی، اور ہو ہو کے پاگلوں سا
حبیبؔ تم کن ہواؤں میں ہو جو اُن ہواؤں کو ڈھونڈتے ہو

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x