ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشر خیال – بتول دسمبر ۲۰۲۱

قانتہ رابعہ۔ گوجرہ
کل بتول ملا لیکن اس سے قبل ایک دو افسانے موبائل فون کی سکرین پر لکھے تو کئی محاورے یاد آگئے جیسے موت کو ماسی کہنا …..آبیل مجھے مار وغیرہ وغیرہ۔اصل میں آنکھوں کے لیے روشنی منع ہے اور اندھیرے میں لکھنے کا فن مجھ نکمی کو نہیں آتا بس نتیجہ یہ کہ پڑھنا فی الحال ناممکن ہے وگرنہ بتول آئے اور پڑھ نہ پائوں …..ایسے بھی حالات نہیں!
بتول کے اس شمارے میں فی الوقت تو دو تین تحریریں پڑھ سکی ۔ فائقہ اویس کی تحریر میں بہترین لوازمات موجود ہیں اور پھر موضوع حدود حرم ۔ میمونہ کی میزبانی کے مزے تو فائقہ نے لوٹ لیے۔ کتنا دل خوش کن تصور ہے ایک رسالے میں لکھنے والی رائٹرز کا مل بیٹھنا ! سوچ کر ہی دل خوش ہوگیا۔
دوسری تحریر ڈاکٹر مقبول شاہد کی ہے۔ کہنے کو ماضی کی ایک یاد مگر قیمتی سرمایہ…..نئ نسل کو ان چیزوں کا کیا علم!میری پر زور درخواست ہے کہ وہ اس طرح اپنی چھوٹی چھوٹی یاداشتوں کو بتول میں دیتے رہیں۔مجھے تو کہانی انشائیے سب کا ہی مزا آیا ۔
مجھے ہمیشہ شرمندگی سی محسوس ہوتی رہی کہ میری تحریر پر محترم خواجہ مسعود صاحب بہت محبت اور محنت سے تبصرہ کرتے ہیں لیکن میں نے ان کا کبھی شکریہ ادا نہیں کیا۔ انہیں کیا، کسی کو بھی نہیں کیا، بس جھجھک سی محسوس ہوتی رہی لیکن اللہ کے ہاں سوال نہ ہوجائے اس لیے میرے محترم قارئین آپ سب کادل سے شکریہ! آپ مجھے پڑھتے ہیں اور اپنی قیمتی رائےسے نوازتے ہیں۔ اللہ آپ کو تادم آخر پڑھنے کی اور مجھ ناچیز کو لکھنے کی توفیق عطا فرمائےآمین۔
٭…٭…٭
افشاں نوید ۔کراچی
قلم گوید کہ من شاہِ جہانم
چمن بتول اکتوبر 21ء کے شمارے میں محترم ڈاکٹر مقبول شاہدتو غزل کے ایک مصرع پر ایک پیرا گراف لکھ کر فارغ ہو گئے مگر قرض کا ایک بوجھ ہے جو ہم پر ڈال گئے۔شانے ہیں کہ جھکے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں اور دل منوں بوجھ تلے دبا ہؤا کہ کرنا کیا تھا اورکیا کر چلے !
ڈاکٹر صاحب کی چند سطروں کا وہ ’’برج‘‘ جس نے ہمیں اپنے اسلاف کے آئینے میں اپنا چہرہ دکھادیا۔ بات تو بہت آسان ہے کہنا کہ ٹک ٹاک کی دیوانی اس نوجوان نسل کو کیسے سدھاریں ؟ سوشل میڈیا کی ہوا اپنے پیچھے اڑائے اڑائے پھر رہی ہے کہ ہم چلو تم اُدھر کوہوا ہو جدھر کی۔
ہم بے بس ٹھہرے کہ نظام تعلیم ساتھ دیتا ہے نہ میڈیا ، نہ ریاست کو پڑی ہے کہ اپنے اصل سرمایے ( نوجوان نسل) کوبچانے کی فکر کرے ۔ گویا اقدار کے زوال کا جو نوحہ ہے اس میں ہم بے قصور کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے ہی نہیں ! تعلیم گاہیں اب منشیات کے ساتھ ’الحاد‘ کے بھی گڑھ بنتی جا رہی ہیں اور ہم آشیانے پر بجلیاں گرنے کا تماشہ دیکھ کر محض آہیں بھرنے پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک صدی پر پڑا حجاب ہٹایا کہ جیسے ان کے آباء تھے ویسے وہ ہیں اور جیسے ہم ہیں ویسی ہماری آئندہ نسلیں ہوں گی ، ذمہ داری میڈیا، سماج اور تعلیمی اداروں پر ڈالنے سے قبل سوچیں تو ہم نے کھویا کیا ہے ؟ ہم نے لکڑی کی تختی اور سر کنڈے کا قلم نہیںکھویا ہے وہ دادا کھوگئے جو پوتی پوتوں کو سبق یاد کراتے تھے کہ ’’ قلم کہتا ہے کہ میں دنیا کا بادشاہ ہوں ‘‘
رول ماڈل تو نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں ۔ جن ہاتھوں میں قلم ہوتے ہیں ان ذہنوں میں بھی اجالے ہوتے ہیں اور ذہنوں کے اجالے

کتاب اور صحبت صالح سے مشروط ہیں۔
اب کتنے دادا ہیں جو ہاتھ پکڑ کر خوش خطی سکھاتے ہیں اور جو کچھ دادا سکھاتے ہیں وہ نقشِ برآب نہیںہوتا وہ پتھر پہ لکھی تحریر ہؤا کرتا ہے جب تک بچوں کے والدین نے دادی، دادا ، نانی ، نانا کو بچوں کے ’’مینٹور‘‘ سمجھا تب تک کی نسل اور تھی جس کے ایک نمائند ہ ڈاکٹرمقبول شاہد صاحب ہیں ۔ پھر ہم گرتے گرتے پاتال آئے اور بچوں کا رشتہ اس پچھلی نسل سے کمزور پڑتا چلا گیا ۔ اب والدین ’’ پیرنٹنگ ورکشاپس‘‘ لیتے ہیں پھر بھی پریشا ن کہ بچے ہیں کہ قابو نہیں آتے ۔ اپنی پچھلی نسل وہ متبرک پتھر لگتی ہے جسے چوم کر عقیدت سے گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا گیا ہے کہ آج کے والدین اپنے بچوں کو جتنا ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں ان پرانے لوگوں کوکیا پتہ اس جدید ٹیکنالوجی کا ۔ جب کہ وقت کی گواہی یہ ہے کہ ہر نوجوان نسل کے لیے اس کا دور دور ِجدیدہی ہوتا ہے ۔ زمانہ کبھی پیچھے کی طرف نہیں پلٹتا ہم لاکھ خواہش کریں کہ
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو
احمد مرسل کو مبارک ہو کہ اس کے دادا جان نے اپنے دادا جان کی روایت کوزندہ رکھا ۔ دادا کے دادا کی روح کتنی خوش ہوئی ہو گی جب ان کے پوتے کے پوتے نے اپنی نوٹ بک پر لکھا ہوگا ’’ قلم گوید کہ من شاہِ جہانم‘‘ احمد مرسل تمہیں دادا جان کے دیے ہوئے اس سبق کو تعویذ بنا کر گلے میںڈالنا ہوگا کیونکہ قلم جھوٹ نہیں بولتا ۔ قلم تو اتنی عظیم شے ہے احمد مرسل کہ اس کی قسم قرآن نے کھائی ہے۔ یہ بھی دادا جان نے بتایا ہوگا کہ اس قلم نے قوموں کی تاریخ بدل کے رکھ دی ہے ۔ قلم کے ہتھیار سے بڑی بڑی جنگیں آج بھی جیتی جا سکتی ہیں۔
فارسی زبان کیا چھوٹی کہ ہماری نسلیں سعدیؒ اور رومیؒ سے ہی بچھڑ گئیں ۔ کلام اقبال کا عظیم الشان ذخیرہ جو فارسی میں ہے ہمیں پکار رہا ہے کہ امت کی زبوں حالی کے درد کا درماں تویہاں موجود ہے اور ہم بالوں میں خاک ڈالے منزل کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں کہ ’’زبانِ یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم‘‘ زبانِ یار من(ﷺ) تو عربی تھی ۔ عربی سے بھی ناطہ ٹوٹا اور فارسی بھی اجنبی ہوئی جب میں پرائمری اسکول میں پڑھتی تھی اس وقت تک فارسی نصاب کا لازمی حصہ ہؤاکرتی تھی ۔ جب فارسی کو نصاب سے ختم کرنے کا فیصلہ ہؤا( یہ سن ستر کی دہائی کی بات ہے ) مجھے یاد ہے کہ ابا جی مرحوم بہت آزردہ ہوئے تھے ۔ کئی دن وہ اتنے دکھی رہے تھے جیسے کسی خاندانی عزیز کا انتقال ہوگیا ہو ۔ اس وقت ان باتوں کی کوئی سمجھ نہ تھی مگر اب دل روتا ہے کہ ہم سے کیا کیا چھین لیا گیا ۔اگر ہمیںفارسی آتی تو ان کی فارسی کی کتابیں کیوںردی سمجھ کر تلف کی جاتیں ہر زبان کی بھی اپنی الگ تہذیب ہوتی ہے اور وہ نسل اس تہذیب سے جڑی ہوتی ہے ۔ سعدی، رومی، غزالی، جامی، ہوں یا حکیم الامت اقبال ۔ یہ افراد نہیں تہذیب تھے ۔ فارسی اور عربی کو ہم سے جدا کرنا کتنی بڑی سازش تھی ۔ بیس برس تعلیمی اداروں کی خاک چھاننے کے باوجود طالب علموں کو عربی زبان کی کوئی سدھ بدھ نہیں ہوتی، ہاں انگریزی زبان کو ضرور ترقی کا زینہ قرار دے کر ہم سے ہمارے اسلاف کی نشست چھین لی گئی۔
لکڑی کی تختی اور سرکنڈے کے قلم کا دور تو اب نہیں آئے گا ۔ اب تو قلم اور کاغذ سے بھی رشتہ ٹوٹ رہا ہے ۔اظہار مافی الضمیر کے لیے چاہے قلم استعمال کیا جائے یا ’’کی بورڈ‘‘ بحث اس سے نہیں ، بحث اس سے ہے کہ تم تو دنیا کی قیادت کے لیے پیدا کیے گئے تھے ۔ امت وسط بنایا گیا تھا ۔ علم اور قلم ہمارے اسلاف کی میراث تھی ۔ جب تم نے یہ میراث گنوائی تو ثریا نے بھی تمہیں آسمان سے زمین پر مارنے میں دیر نہ لگائی !
آج بھی ہم اپنی نسلوں کو اسی علم اور تہذیب سے جوڑ سکتے ہیں جب یورپ اندلس کی طرف دیکھتا تھا تہذیب اور علم کے حصول کے لیے۔ ہم نے کچھ کھویا تو زمانے نے ہمیں کھو دیا ۔ اسی علم رفتہ کو آواز دیں گے تو قوموں کی صف میں سربلند ہو سکیں گے جیسے ڈاکٹر مقبول 80برس بعد وہ علم کی میراث پوتے کو منتقل کر کے پر سکون ہو گئے ۔ یہ قرض ہماری گردنوں پر ہیں اپنی نئی نسلوں کے ، شکریہ چمن بتول اور جزاک اللہ خیر ڈاکٹر صاحب اس یاد دہانی کے لیے۔
٭…٭…٭
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
سب سے پہلے دیدہ زیب ٹائٹل پر نظر پڑتی ہے ۔ نیلے پیلے ،

سرخ اور سفید رنگوں سے مزیّن ٹائٹل دل کو بھاتا ہے ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ اداریہ میں مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما نے ہمارے سوشل میڈیا خاص طور پر یو ٹیوب، فیس بک ، ٹک ٹاک کے ہمارے معاشرے پر مضر اثرات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے ۔ آپ کے یہ جملے خاص توجہ کے مستحق ہیں ’’ اگر آزادی اظہار ہمارا حق ہے تو اظہار کی حدود ہمیں اپنے لیے خود متعین کرنے کی تہذیب سیکھنی ہو گی ، ہمیں مذہبی اور سماجی حدود کا خیال رکھنا ہوگا … آزادی کا مطلب لا قانونیت نہیں ہوتا‘‘۔
ہمارے ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے اکثر ڈراموں میں ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار کو پامال کیا جا رہا ہے لیکن میں حیران ہوں کہ ’’ بول‘‘ ٹی وی چینل پر روزانہ اوٹ پٹانگ ٹک ٹاک دکھائی جا رہی ہیں جن میں پاکستانی لڑکیاں اور لڑکے عجیب عجیب حرکات کرتے دکھائے جاتے ہیں نہ جانے پیمرا ان کے خلاف کیو ں ایکشن نہیں لیتا ؟
’’ رسول اللہ قرآن کے آئینے میں ‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحب کا بصیرت افروز مضمون اس میں آپ نے واضح کیا ہے کہ قرآن نے آپؐ کے بارے میں واضح شہادت دی ہے کہ آپؐ نے نبوت سے پہلے کوئی باقاعدہ تعلیم نہیں حاصل کی تھی یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ قرآن سراسر وحی الٰہی ہے۔ آپ ؐ کی ساری زندگی راست بازی کا نمونہ تھی ۔ قرآن پاک نے آپؐ کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی دی ہے حضرت عائشہؓ نے بھی گواہی دی کہ’’قرآن پاک آپ ؐ کا اخلاق ہے ‘‘ قرآن نے گواہی دی ہے ’’بے شک آپؐ اخلاق کے بہترین مرتبے پر ہیں ‘‘ آپؐ کی ساری زندگی احکام الٰہی اور قرآن کے مطابق بسر ہوئی ۔
’’ اللہ کی محبت اور اللہ کے لیے محبت‘‘( اسوہ بتول) آپ نے اپنے مضمون میں بجا لکھا ہے کہ اللہ کی محبت کے سرور میں انسان دنیا اور اس کی لذتوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور دنیا کی پریشانیوںاور دکھ سے آزاد ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ سے اتنی محبت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی ہی نہیں بلکہ زندگی بسر کرنے کے تمام لوازمات عطا کیے ہیں ۔ ایمان ، علم و حکمت ، عقل ، توانائی ، رزق رہائش ، لباس ، پانی ہوا ، غرض ان گنت نعمتیں ۔ اللہ سے محبت ہمیں جنت میں لے جائے گی جو اللہ سے محبت کرتا ہے اللہ بھی اس سے محبت کرتا ہے ۔
’’ مدینہ کا تاریخی پس منظر ‘‘ اپنے اس مضمون میں ڈاکٹر ممتاز عمر نے مدینہ شہر کی آبادی اور تاریخی پس منظر سے آگاہ کیا ہے کہ کتنی صدیاں پہلے ہی یہ مدینۃ النبیؐ کے طور پر منتخب کرلیا گیا تھا۔
’’ اقبال بارگاہِ الٰہی میں ‘‘ ( سید علی گیلانی) آپ نے علامہ اقبال کے فارسی کلام کا حوالہ دے کر ثابت کیا ہے کہ اقبال مسلمان قوم کے احوال پر سخت رنجیدہ ہیں کہ امت مسلمہ حرافات میں کھو گئی ہے اور دین اسلام کی اصل روح کو سمجھنا چھوڑ دیا ہے کہ آپ نے چار عناصر کو مسلمانوں کے زوال کا ذمہ دار قرار دیا ہے ۔
(۱) سرمایہ دار طبقہ جو سود خور بھی ہے اور ہوس زر میں قوم کی تباہی کا باعث بنتا ہے ۔
(۲) حکمران جو ہوس اقتدار میں مبتلا ہو کر عوام کو بھول جاتے ہیں۔ نا انصافی سے کام لیتے ہیں
(۳) مُلا… جو عالم تو ہیں لیکن خود بے عمل ہیں قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے ۔
(۴) پیر… جو اپنے مریدوں سے اپنی خوشنودی کے طالب ہوتے ہیں نہ کہ شریعت کے یہ چار طبقے صحیح ہو جائیںتو آج پھر امت مسلمہ دنیا میں سرخرو ہو سکتی ہے ۔
شعر وشاعری ’’زندگی ٹھہر ذرا ‘‘ نجمہ یاسمین یوسف صاحبہ کی خوبصورت نظم دو منتخب اشعار۔
دل ناشاد میں پیدا تیری چاہت کر لوں
ایک دو پل ہی سہی تجھ سے محبت کر لوں
تجھ سے الفت کی تمنا ہے شرارے کی طرح
جل بجھے یہ نہ کہیں ٹوٹے ستارے کی طرح
افسانہ و کہانی’’ کرے نہ ختم کبھی روشنی سفر اپنا ‘‘ (اسما ءحبیب) بڑی دلچسپ تفصیل کے ساتھ اس دلخراش واقعہ کو بیان کیا گیا ہے جب ایک بدبخت یہودن نے زہریلا کھانا بھیج کر رسول پاک ؐ کو ہلاک کرنے

کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا ۔ یہ آپؐ کے خلاف یہودیوں کی ایک بڑی سازش تھی۔
’’ درد وچھوڑے دا‘‘ ( شاہدہ اکرام ) یہ افسانہ احساس دلاتا ہے کہ دنیا کے سارے غم مٹ جاتے ہیں اگر ہم اپنے پیارے رسول پاک ؐ کی جدائی کا غم اپنے دل میں بسا لیں ۔ ہمارے دل کو صبر اور سکون مل جاتاہے ۔ آقا ؐ کی محبت مل جائے تو دنیا کے سارے غم مٹ جاتے ہیں ۔
’’ ایک کمرے میں دنیا ‘‘ ( قانتہ رابعہ صاحبہ کی کہانی ) اس کہانی میں بڑےناصحانہ انداز میں سمجھایا گیا ہے کہ اپنی اولاد کی طرف ماں باپ کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔تبھی وہ زندگی میں کامیاب ہو سکتے ہیں یہ جملہ قابل غور ہے ’’ ابھی بھی وقت ہے عیشہ اپنے بچوںکو اپنا عادی بنا لو یا موبائل فون کا … لیکن یاد رکھو اگر وہ موبائل کے عادی ہو گئے تو زندگی کے کسی موڑ پر انہیں تمہاری ضرورت محسوس نہ ہو گی ‘‘۔
’’ زود پشیماں‘‘(ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی ) ایسے سنگ دل اور کم ظرف شوہروں کی کہانی جو اپنی بیوی اور سسرال والوں کو اذیت دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن اپنوں میں بے حد خوشگوارموڈ میں رہتے ہیں یہ بیوی کے ساتھ صریحاً نا انصافی بلکہ گناہ ہے ۔
’’ پکے رنگوں کی محبت‘‘( قاضی نصیر عالم) محبت کے بارے میں ایک فلسفیانہ سوچ میں ڈوبی کہانی یہ جملے خوبصورت ہیں ’ ’ چھوٹی بستی کے مکین ایک خاندان کی طرح ہوتے ہیں ۔ آبادی جوں جوں پھیلتی جائے نہ جانے دل کیوں سکڑ نے لگتے ہیں ، شناسائی اجنبیت میں تبدیل ہو تی اور محبتیں کدورتوں میں ‘‘۔
’’ یہ کیسی راہیں ‘‘ ( طوبیٰ احسن ) ایک سبق آموز کہانی کہ کس طرح نادان اور معصوم لڑکیاں چالباز لڑکوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں۔ پھر شادی کے بعد و ہ انہیں غیر ممالک میں سمگل کر کے نا پسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر مجبور کرتے ہیں ۔ بیوٹی پارلر کی مالک عروج کی بدولت ایک لڑکی ایسے لوگوںکے چال میں پھنسنے سے بچ گئی ۔
’’ سعودی عرب میں رہنے کا تجربہ ‘‘ ( ڈاکٹر فائقہ اویس) اس بار آپ نے کرونا وبا کے دوران اپنے عمرہ کی ادائیگی کا احوال پیش کیا ہے یہ ہماری آزمائش ہے کہ حرمین شریفین میں داخل ہونے کے لیے اتنی پابندیوںکا سامنا کرنا پڑے ۔ اللہ سب مشکلات حل کرے اورسب کو حرمین شریفین میں حاضری کی سعادت نصیب فرمائے ( آمین )۔
’’ فارمی مرغیاں‘‘ ( آسیہ عمران ) آپ نے خوب سمجھایا کہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو فارمی مرغیوں کی طرح کمزور اور نازک نہیں ہونا چاہیے بلکہ دیسی مرغیوں کی طرح مضبوط اور توانا ہونا چاہیے تاکہ زندگی کے مسائل کا ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کر سکیں ۔
تبصرہ کتب’’ بارش کے بعد ‘‘ سید شہاب الدین نے ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ کے افسانوں کے مجموعہ پر تبصرہ پیش کیا ہے جس میں افسانہ نگار کے اصلاحی افسانوں کی خوشبو اور رنگ جھلکتا ہے ۔
بتول میگزین ’’ آہ ڈاکٹر عبد القدیر خان ‘‘ ( ڈاکٹر ممتاز عمر )نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کی شخصیت کو اچھا خراج تحسین پیش کیا ہے ۔
’ ’ آہ صالحہ صدیقی ‘‘ صالحہ صدیقی ایک دیندار اور مخلص شخصیت جنہوں نے ساری عمر دین اسلام کی خدمت میں گزار دی، کئی لڑکیوں کی تربیت کی شاہدہ اکرام صاحبہ نے محبت سے یاد کیا ہے ۔
’’ ملنے جلنے کی تہذیب ملحوظ رکھیے ‘‘ اچھا انسان بننے اور اچھے انسانی رویے رکھنے کے بڑے اچھے گر بتائے گئے ہیں ۔ ان پر عمل کر کے ہم پسندیدہ شخصیت بن سکتے ہیں۔
گوشہ ِتسنیم ’’ لازمی پرچے‘‘ ( ڈاکٹر بشریٰ تسنیم صاحبہ ) ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ مومن کی زندگی ایک آزمائش اور امتحان ہے ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے اس مقالے میں اس آزمائش کی تفصیل سے وضاحت کی ہے کہ ہماری زندگی ایک امتحان ہے اس میں ہمیں کئی پرچے حل کرنے ہوتے ہیں ہر پرچے میں کوئی نہ کوئی لازمی سوال ہوتا ہے جسے پاس کر کے ہی ہم فلاح پاسکتے ہیں مثلا ً توحید ، اخلاص نیت ، صلہ رحمی ، علم باعمل، حکومت انصاف کے ساتھ ، حسن اخلاق ، نفس پہ قابو ، حقوق العباد وغیرہ سب لازمی پرچے ہیں ان میں کامیابی ہی جنت کاراستہ ہے ۔
آخر میں ’’ چمن بتول‘‘ ادارہ بتول اورقارئین کے لیے نیک خواہشات ۔٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x