ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

دوستی – نور نومبر ۲۰۲۰

انیس ، احد، مسعود اور امین اسکول کے میدان میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔
’’ یار ! یہ عبد اللہ آج کل مستقیم کے ساتھ کچھ زیادہ نہیں بیٹھنے لگا ۔‘‘ امین نے کہا ۔
’’ ہاں یار ! دونوں کی پکی دوستی ہو گئی ہے ۔‘‘احد بولا۔
’’ عبد اللہ ہی ہر وقت مستقیم کے پیچھے پڑا رہتا تھا ۔بہانے بہانے سے اُس سے باتیں کرتا اور اُس کے آس پاس منڈلاتا رہتا تھا۔‘‘انیس نے منہ بنایا۔
’’ میرا خیال ہے کہ عبد اللہ نے اُس سے دوستی اُس کی دولت اور امارت دیکھ کر کی ہے۔‘‘مسعود نے کہا۔
’’ ہاں یقینا یہی بات ہو گی ۔‘‘ امین فوراً بولا۔
’’ لیکن میرا یہ خیال نہیں ۔‘‘ احد نے کہا۔
’’ مستقیم مذہب سے بے حد لگائو رکھتا ہے ، پانچ وقت کا نمازی ہے ، سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔عبد اللہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ، وہ دین والوں کی صحبت میں رہنا پسند کرتا ہے ، ممکن ہے اُس نے مستقیم سے دوستی اُس کا پیسہ اور امیری دیکھ کر نہ کی ہو ، بلکہ دین کی خاطر کی ہو ۔‘‘
’’ تم چپ رہو!‘‘ مسعود نے احد کو ڈانٹ کر کہا :’’ جیسا میں کہہ رہا ہوں ، ویسا ہی ہے ۔‘‘
احد اسے دیکھ کر رہ گیا ۔
’’ بہر حال ! اللہ ہی بہتر جانتا ہے !‘‘ امین نے کندھے اُچکائے۔

٭…٭…٭

امین ، انیس ، احد اور مسعود چاروںبہت گہرے دوست تھے ۔ وہ ایک ہی جماعت میں پڑھتے تھے ، ان کی شرارتیں پورے اسکول میں مشہور تھیں، پہلے ان کے ٹولے میں عبد اللہ بھی ہوا کرتا تھا لیکن پھر وہ ان سے کھینچاکھینچا رہنے لگا اور آخر ایک دن اُن سے دوستی توڑ کر مستقیم کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا۔ یہ بات ان چاروں کو ناگوار گزری تھی اور ان کے دل میں عبداللہ کے خلاف بغض پیدا ہو گیا۔

٭…٭…٭

’’بڑی دوستی ہے تم دونوں کی!‘‘ مسعود نے عبداللہ اور مستقیم کو ایک ساتھ دیکھ کر کہا۔
’’ ہاں ! ‘‘ مستقیم نے مختصراً جواب دیا ۔
’’ واہ بھئی عبداللہ ! ‘‘ مسعود طنز بھرے انداز میں عبد اللہ سے مخاطب ہوا: ’’ دولت مندوں سے دوستیاں نبھائی جا رہی ہیں !‘‘
’’ دولت مندوں سے نہیں ، اللہ کے ماننے والوں سے !‘‘ عبد اللہ مسکرایا۔
’’ ہاہا ہا ہا …!‘‘ مسعود قہقہے لگا کربولا:’’ سب جانتاہوں میں … مستقسیم سے دوستی لگا کر تم اس کی جیب خالی کر رہے ہو اور ہمارے سامنے یہ بہانہ بنا رہے ہو کہ میں اللہ کے ماننے والوں سے دوستی کرتا ہوں ۔‘‘
’’ صحیح کہا مسعود!‘‘ امین نے اُس کی تائید کی ۔
’’ تم لوگ ایسا کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘مستقیم نے نا گواری سے کہا۔
’’بھئی ہمیں جو نظر آ رہا ہے ، ہم وہی بیان کر رہے ہیں !‘‘ انیس ہنسا۔
’’ مطلب یہ کہ جو کچھ بھی تم کو نظر آتا ہے ، حقیقت میں وہی ہوتا ہے !‘‘ مستقیم نے ’تم کو‘ پر زور دیتے ہوئے طنزاً کہا۔
اُن سے کوئی جواب نہ بن پایا۔
’’ یار چھوڑو انہیں ، ہم بھی کیسے لوگوں کے منہ لگنے لگے !‘‘ مسعود نے شرمندگی چھپاتے ہوئے کہا اور وہ چاروں ایک طرف کو چل دیے۔عبد اللہ اور مستقیم مسکرا کر رہ گئے۔
’’ بس بھئی ، عبد اللہ نے مستقیم سے اس کی امارت دیکھ کر دوستی کی ہے ۔‘‘ وہ پھر وہی موضوع چھیڑے بیٹھے تھے۔
’’ ہاں تو اور کیا !‘‘ امین ، مسعود کی ہر بات کی تائید کرتا تھا۔
’’ بس ، اب اس موضوع کو چھوڑ بھی دو ، باتیں کرنے کے لیے اور کم موضوعات ہیں ، تم تو ہر وقت یہی ایک موضوع لیے بیٹھے رہتے ہو۔ ‘‘ احد نے بے زاری سے کہا، پھر مسعود سے مخاطب ہوا :
’’ مسعود ! تمہیں بڑی چڑ ہے نا اُن کی دوستی سے ؟ تمہیں ایک کتاب لکھنی چاہیے ، جس کا نام ’’ مستقیم اور عبد اللہ کی دوستی‘‘ ہو۔‘‘
’’ میں اُن کی دوستی پر کتاب کیوں لکھوں ؟ وہ میرے کیا لگتے ہیں ؟‘‘ مسعود تیز لہجے میں بولا ۔
’’ پھر ہر وقت یہی راگ کیوں الاپتے رہتے ہو کہ ضرور عبد اللہ نے مستقیم سے دوستی اس کی امیری دیکھ کر کی ہے۔‘‘ احد نے اس کی نقل اتارتے ہوئے کہا۔
’’ تم کیوں ان کی اتنی طرف داری کررہے ہو!لگتا ہے تم نے بھی اس سے مال پانی وصول کیا ہے ۔‘‘ مسعود اب اوچھی باتوں پر اتر آیا۔
احد نے اُسے جواب دینا چاہا مگر اس سے پہلے ہی انیس بول پڑا:’’ یار بس! اب آئندہ ہم مستقیم اور عبد اللہ کی دوستی پر کوئی بات نہیں کریں گے ۔ چلو اب کوئی نئی شرارت کرنے کا پروگرام بنائو ، بڑے دن ہوئے ، کوئی شرارت نہیں کی ۔‘‘ اس نے جھگڑا ختم کرتے ہوئے کہا۔
’’ ٹھہر جائو پہلے ہماری دوستی کا راز تو جان لو ، ورنہ شرارت کرنے میں بھی مزہ نہیں آئے گا۔‘‘عبد اللہ کی آواز ان کے کان میں آئی ۔وہ چونکے اور مڑ کر دیکھا ، پیچھے عبد اللہ اور مستقیم کھڑے مسکرا رہے تھے ۔
’’ ہماری دوستی کا راز جانے بغیر تم لوگوں کو چین نہیں آئے گا ناں ، خاص طور پر مسعود کو ۔ ‘‘
مستقیم دھیرے سے ہنسا۔
انھیں شرمندگی محسوس ہونے لگی۔عبد اللہ نے آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا۔
’’ میں نے جب دیکھا کہ مستقیم اللہ اور اس کے رسولؐسے محبت کرتا ہے اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہے تو مجھے مستقیم بے حد اچھا لگنے لگا اور میں نے اس سے دوستی کرلی ، میں نے اس سے دوستی اس کی امارت دیکھ کر نہیں ، اللہ سے اس کی محبت دیکھ کر کی ہے ۔حضور اکرم ؐ کا فرمان ہے :
’’ قیامت میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا وہ لوگ کدھر ہیں جو صرف میرے لیے لوگوں سے محبت کیا کرتے تھے ، آج میں ان کو اپنے سائے میں جگہ دوں گا ۔‘‘( مسلم)
عبد اللہ کہتا چلاگیا۔مسعود اور اس کے ساتھی اپنی گزشتہ سوچ پہ شرمندگی سے زمین میں گڑے جا رہے تھے۔

٭…٭…٭

’’ کیا تم چاروں واقعی عبد اللہ اور مجھ سے دوستی کرنا چاہ رہے ہو ؟‘‘ مستقیم نے حیرت سے مسعود کے اپنی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ، کیوں کہ ہم بھی روز محشر اللہ تعالیٰ کا سایہ چاہتے ہیں ۔‘‘ مسعود نے دل کی گہرائی سے کہا۔انیس ،احداور امین بھی اس کے ساتھ تھے۔
عبد اللہ اور مستقیم نے مسکرا کر اُن کے بڑھے ہوئے ہاتھ تھام لیے۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x