ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

حیاتِ دنیا کی حقیقت – بتول اکتوبر ۲۰۲۱

دنیا کی زندگی کا آغاز حضرت آدم ؑ کے زمین پر قدم رکھنے سے، اور اختتام آخری انسان کی موت اور قیامت کا وقوع پذیر ہونا ہے۔یہ اس دنیا کی طبعی عمر ہے۔ اس میں ہر انسان کی دنیا اس کی پیدائش سے موت تک کا سفر ہے۔ حدیث ہے: جس کی موت آگئی اس کے لیے وہی قیامت ہے‘‘۔ دنیا کی زندگی انسان کے لیے امتحان گاہ ہے۔ یہ دکھوں کا گھر بھی ہے اور نعمت کدہ بھی! یہ کسی مخلوق کے لیے بھی ابدی قیام کی جگہ نہیں ہے، بلکہ ایک مستقر ہے۔ عارضی ٹھکانا جس میں مسافر سفر کی منزلیں طے کرتے ہوئے کچھ وقت ٹھہر کر سستا لیتا ہے۔ یہ دنیا اس کے لیے ایک پلیٹ فارم سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی جس میں کسی کی گاڑی جلد آ جاتی ہے اور کوئی دم بھر تاخیر سے رخصت ہوتا ہے۔
حیاتِ دنیا کا لغوی مفہوم
جب کوئی شے بالکل قریب ہو تو اس کے بیان کے لیے ’’دنی، ادنی، اور دنا‘‘ کا لفظ آتا ہے۔ادنی مشکل زندگی لیے بھی آتا ہے، اور اسفل یعنی گھٹیا زندگی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ (دیکھیے سورۃ البقرۃ، ۶۱)اسی طرح یہ اکبر کے مقابلے میں اصغر یعنی چھوٹے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔(سورۃ المجادلۃ، ۷) اسی طرح یہ دور کے مقابلے میں قریب کے لیے بھی مستعمل ہے۔ (سورۃ الانفال، ۴۲)
حیاتِ دنیا کا اصطلاحی مفہوم
حیاتِ دنیا سے مراد تمام زندہ اجسام کے دنیا میں بقا کی مدت ہے۔انسانوں کے لیے یہ مدت دار الامتحان ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے:
’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کر نے والاہے‘‘۔ (الملک،۲) ذہنِ انسانی میں یہ حقیقت بٹھانے کا مقصد یہ ہے کہ اے انسان تجھے بے مقصد نہیں پیدا کیا گیا ، تو ایک ذمہ دار مخلوق ہے۔ نہ تو اتفاقاً پیدا ہؤا اور نہ اتفاقاً ایک روز مر جائے گا۔ یہ کام اور یہ عظیم تخلیقی عمل بے مقصد نہیں ہے بلکہ یہ انسانوں کو آزمانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے تاکہ اللہ کے علم میں جن لوگوں کو جو مظاہرہ کرنا تھا وہ سامنے آجائے، جس کا اللہ کوپہلے سے علم تھا۔ اور وہ اپنے اعمال پر مناسب جزا و سزا کے حق دار ہو جائیں۔
دنیاوی نعمتیں بھی امتحان ہیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھودنیاوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔ وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تیرے رب کا دیا ہؤا رزقِ حلال ہی بہتر اور پائندہ تر ہے‘‘۔ (طہ، ۱۳۱)
اس آیت میں حیات الدنیا کو چھوڑ دینے کی دعوت نہیں ہے لیکن اس میں یہ پیغام ضرور ہے کہ حقیقی اور پائیدار اقدار کو اہمیت دو۔ اور یہ پائیدار اقدار تعلق باللہ اور اللہ کی رضامندی میں ہیں۔ لوگوں کو دنیا کے سازو سامان کے آگے ِگر نہیں جانا چاہیے۔ دنیا کا سازو سامان جس کی چکا چوند نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہو، اس سے ایسی وابستگی نہیں ہونی چاہیے کہ ہماری نگاہیں اس کے سامنے جھک جائیں، بلکہ نگاہ ہمیشہ بلند صفات اور اقدار پر رہنی چاہیے۔ اللہ کا دیا ہؤا رزق ِ حلال ایک نعمت ہے، آزمائش نہیں۔ رزق ِ حلال اچھا ہوتا ہے اور باقی رہتا ہے۔ وہ دھوکہ بھی نہیں دیتا اور فتنہ بھی پیدا نہیں کرتا۔(دیکھیے: فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
متاعِ دنیا قلیل ہے
انسان کو متاعِ دنیا جتنی بھی مل جائے ، وہ آخرت کے مقابلے میں قلیل ہے اور عارضی ہے، ارشادِ الٰہی ہے:
’’کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا ؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں

بہت تھوڑا نکلے گا‘‘۔ (التوبۃ، ۳۸)
یہ نفاق ہے جو بندے کو موت سے اور کبھی فقروفاقہ سے ڈرا کر جہاد سے روکتا ہے، حالانکہ موت بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور رزق بھی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آخرت کے مقابلے میں اس کی پوری زندگی کا مال و متاع قلیل اور عارضی ہی ہے۔
قرآن ِ کریم میں دنیا اور اس کی صفات کا جہاں بھی تذکرہ کیا گیا ہے، اسے حقیر اور کم حیثیت ہی قرار دیا ہے، کہیں اسے متاع کہا اور کہیں متاع الغرور(دھوکے کی ٹٹی) قرار دیا۔ کہیں اسے اللھو واللعب یعنی کھیل تماشا قرار دیا اور کہیں دنیا کی زینت اور مال اور اولاد پر فخر اور اس میں آگے بڑھنے کی دوڑ بتایا۔
بھاگتی دوڑتی دنیا
دنیا کی زندگی انسان کو اپنے اندر مگن کر لیتی ہے۔ صبح شام اس تیزی سے بسر ہوتے ہیں کہ عمر ِ عزیز کے رخصت ہونے کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ اور اس بھاگتی دوڑتی جیتی جاگتی زندگی کے دریا میں تلاطم اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اس کی کوئی نعمت چھن جاتی ہے یا اس کے چھن جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔آدمی پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو عمر کی نوے ، اسی ،یا ستر بہاریں بھی اس کے لیے پلک جھپکنے سے زیادہ ثابت نہیں ہوتیں۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تو اس دنیا میں آئے تھے، اور ابھی جانے کا وقت بھی ہو گیا۔
جوں جوں انسان کے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت قریب آتا ہے، وہ گزشتہ زندگی کے بارے میں لا محالہ سوچتا ہے۔ اس دنیا میں دو قسم کے لوگ بستے ہیں؛
۱ ۔ اللہ کا انکار کرنے والے،
۲۔ اللہ پر ایمان رکھنے والے
۱۔ پہلی قسم کے لوگ زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف ترجیحات رکھتے ہیں۔ وہ زندگی کا کچھ حصّہ اپنے والدین کے لیے جیتے ہیں، پھر بیوی اور بچوں کے لیے۔لیکن موت سے اگلی منزل میں ان کا کیا انجام ہو گا؟ ایک غیر متوقع انجام ان کا منتظر ہو گا۔
۲۔ دوسری قسم کے لوگ اپنی زندگی کا ایک نصب العین رکھتے ہیں، اور رب کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔اور ان سوالات کے صحیح جواب تلاش کرتے ہیں جن کے بغیر وہ امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ان سوالوں میں سب سے اہم اور پہلا سوال اس رب کی عبودیت اور بندگی کا ہے، جس نے انسان کو تخلیق کیا، کہ اس کی بندگی کتنے شوق، اور چستی سے کی اور اس کو اچھے طریقے سے کس طرح ادا کیا۔حقیقت یہ ہے کہ سب سے اہم سوال یہی ہے، کہ اس ارضی حیات کے دوران اپنی باگیں کس کے سپرد کیں؟ اللہ رب العالمین نے اس دار الامتحان کا سارا نصاب اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے انسانوں تک پہنچانے کا مکمل انتظام کیا ہے۔اور جسے معلوم ہو کہ اس دنیا کی چمک دمک اک دھوکا ہے، یہاں کی لذتیں عارضی ہیں، اور زندگی تو پلک جھپکنے میں گزر جائے گی، وہ اس میں کیسے مگن ہو سکتا ہے۔مگر اللہ کو ماننے والوں میں ایسے بھی ہیں جو اسے مانتے تو ہیں مگر اس کی اطاعت کے دائرے سے نکل جاتے ہیں۔ اور مقصدِ حیات ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ارشاد ہے:
’’اگر تم ان سے پوچھو کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہو الحمد للہ۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔ (لقمٰن،۲۵)
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کو رب ماننے والوں کا انبوہ ِ کثیر زندگی کے معاملات میں اللہ کے طریقے کو اختیار نہیں کرتا اور یہ ایمان محض زبانی عقیدہ بن کر رہ جاتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’لوگ دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں‘‘۔ (الروم،۷)
بعض اوقات ظاہر میں لوگ بڑے جبہ و دستار دکھائی دیتے ہیں، اور معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس علم کی بڑی مقدار ہے لیکن ان کا علم سطحی ہے اور زندگی کے ظاہری علوم سے متعلق ہے۔ اور اس ظاہر کے پیچھے جھانکنے کی وہ سعی نہیں کرتے۔ یہ ظاہری دنیا تو بہت چھوٹی اور حقیر ہے مگر انہیں یہ دنیابہت ہی وسیع نظر آتی ہے۔ انسان اس حقیر دنیا کو پانے کے

لیے بڑی جدو جہد کرتا ہے لیکن نہ تو اس کے کچھ کرنے کے بہت وسائل ہیں نہ وقت۔ کائنات کی وسعتوں کے مقابلے میں اس کا حصّہ بہت مختصر ہے۔ وہ چونکہ آخرت سے غافل ہے اس لیے نہ اس کی زندگی میں کوئی ثبات اور پختگی پائی جاتی ہے نہ وہ تصور حیات کے درست پیمانے کو پا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسا انسان جو آخرت کا قائل ہے اور اس کے لیے تیاری کر رہا ہے اس انسان کے ساتھ اکٹھا نہیں رہ سکتا جس کا ہدف محض دنیا کا حصول ہے۔(دیکھیے: فی ظلال القرآن، نفس الآیۃ) دھوکے باز دنیا
انسان دنیا کے ظاہر سے دھوکا کھاتا ہے۔ اس کی ظاہری چمک اس کو متوجہ کرتی ہے اور دنیا کی زینتیں اور لذتیں اسے گھیر لیتی ہیں۔ وہ انہیں حقیقی آسائش سمجھ کر ان میں گم ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے متنبہ فرمایا:
’’لوگو، اللہ کا وعدہ یقیناً برحق ہے۔ لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے پائے‘‘۔ (فاطر،۵)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں جو متاعِ دنیا عطا کی ہے وہ دو قسم کی ہے:
۱۔ متاعِ حَسن؛ یعنی دنیا کا سامانِ زیست جس سے انسان خوش حال اور قوی بازو ہو کر اپنے خدا کا اور زیادہ شکر گزار بنتا ہے، خدا اور اس کے بندوں کے اور خود اپنے نفس کے حقوق زیادہ اچھی طرح ادا کرتا ہے۔ اور خدا کے وسائل سے طاقت پا کر دنیا میں خیر و صلاح کی ترقی اور شرو فساد کے استیصال کے لیے زیادہ کار گر کوشش کرنے لگتا ہے، اسے قرآن’’متاع حسن ‘‘ قرار دیتا ہے۔
۲۔ متاع ِ غرور؛ یعنی وہ سروسامان جو خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لیے دیا جاتا ہے اور جس سے دھوکا کھا کر ایسے لوگ اپنے آپ کو دنیا پرستی اور خدا فراموشی میں اور زیادہ گم کر دیتے ہیں۔ یہ بظاہر تو نعمت ہے مگر بباطن خدا کی پھٹکار اور اس کے عذاب کا پیش خیمہ ہے۔(تفہیم القرآن، ج۲، ص۳۲۳)
دنیا طبعی طور پر دھوکے کا گھر ہے، وہ انسان کو دھوکا دیتی ہے اور اپنی عارضی لذتوں اور رنگینیوں میں محو کر لیتی ہے، اور عمل کے بجائے امیدوں اور آرزؤں کو بڑھاتی رہتی ہے ، جیسا کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’عمر رسیدہ لوگوں کا دل دو چیزوں میں جوان رہتا ہے: دنیا کی محبت اور لمبی آرزوئیں‘‘۔ (رواہ البخاری، ۶۴۲۰) اور مسلم کے الفاظ میں: ’’بوڑھے کا دل دو محبتوں میں جوان رہتا ہے: لمبی عمر اور مال کی محبت‘‘۔(رواہ مسلم، ۱۰۴۶)
کعب بن مالک اپنے والد مالک انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیے جائیں تو وہ بھی اتنا فساد (خرابی) نہ کریں جتنا مال اور جاہ کی حرص آدمی کے دین کو خراب کرتی ہے‘‘۔ (رواہ الترمذی، ۲۳۷۶)
انسان جوان ہو یا بوڑھا، اس کی ہر دور میں کچھ خواہشات ہیں جو اس سے لپٹ جاتی ہیں اور آخرت کی یاد سے غافل کر دیتی ہیں۔اور دنیا کے بیٹے انہیں خواہشات کے حصول میں اندھے ہو جاتے ہیں۔ جب ان کی ممکن الحصول خواہشات پوری ہوتی ہیں تو کچھ نئی خواہشات ان کے دل میں بسیرا کر لیتی ہیں۔ اور وہ پہلے سے بڑھ کر جانفشانی سے ان کو حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔ وہ دنیا کی نعمتوں سے سیراب ہونا چاہتے ہیں، مگر وہ جس قدر اسے حاصل کرتے جاتے ہیں ان کی پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ قبر کی مٹی ہی ان کی خواہشات کا خاتمہ کرتی ہے۔
دنیا شہوات سے گھری ہے
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس، عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیںبڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے‘‘۔ (آل عمران،۱۴)
شہوات ِ دنیا انسانوں کو مرغوب ہیں۔وہ ان کی نگاہوں اور دل کو بھلی لگتی ہیں۔ان کی محبت میں عیب نہیں مگر ان کی محبت میں حد سے گزر جانا درست نہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان کی چھ قسمیں بیان کر کے متنبہ کیا

ہے۔وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ عورتیں ؛ مرد کا دل طبعاً عورتوں کی جانب میلان رکھتا ہےاور یہ میلان بہت سی غلط شکلیں اختیار کر سکتا ہے۔ رسول ؐ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں چھوڑا‘‘۔
انہیں عورتوں کی وجہ سے مردفواحش کا ارتکاب بھی کرتے ہیں اور کبھی حرام کمانے پربھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔
۲۔ بیٹے؛ یہ جگر کے ٹکڑے اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں،لیکن یہ مال کی مانند فتنہ بھی ہیں۔اور چوکنا رہنا چاہیے کہ یہ بیٹے دنیا کی ایسی زینت نہ بن جائیں کہ آدمی اپنے مقصدِ حیات کو فراموش کر دے۔
۳۔ سونے چاندی کے ڈھیر؛ مال کی کشش اپنی جانب متوجہ کرتی ہے، کیونکہ وہ انسانی ضروریات اور خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ مال بذاتِ خود مذموم نہیں ہے، یہ تو اللہ کی نعمت ہے۔ پس مال سرکشی، تکبر اور اللہ کی نافرمانی کی جانب نہ لے جائے۔اور اللہ کی پسندیدہ راہوں، نیکی کے کاموں صلہ رحمی اور شکر ِ نعمت کے طور پر خرچ ہو۔
۴۔ نشان زدہ گھوڑے؛ یہ ایسی نعمت ہیں جن پر انسان فخر اور تکبر کا شکار ہوتا ہے، اور باہم مقابلے اور منافست میں پڑ جاتا ہے، لیکن یہ گھوڑے اگر جہاد فی سبیل اللہ اور زندگی کی آسانی اور خوشی کے لیے جمع کیے جائیں تو وہ محمود ہیں، آج کل کے رسل و رسائل کے ذرائع عمدہ گاڑیاں اور جہاز بھی اسی قبیل میں داخل ہیں۔
۵۔ مویشی؛ ماضی قریب تک یہ زینت اور انسانی معیشت کے لوازم میں سے تھے۔اور ان کی کثرت پر فخر اور ان میں مسابقت کی جاتی تھی۔ اگر ان کو معیشت کے لیے رکھا جائے تو درست ہے اور اگر فخر اور مقابلے کے لیے جمع کیا جائے تو غیر محمود ہے۔
۶۔ کھیتی؛ اس کا معاملہ بھی دیگر اشیاء کی مانند ہے، اس سے نفع اٹھانا اور خیر کے لیے جمع کرنا درست عمل ہے اور اس کو فخر و غرور اور تکبر کا ذریعہ بنانا محض دنیا کا فائدہ ہے۔
یہ تمام نعمتیں ابرار کو ملیں تو ان کے جنت کے راستے کو قریب کر دیتی ہیں اور اشرار کو ملیں تو جہنم کا راستہ بن جاتی ہیں۔ ہر انسان اس کا انجام اپنی نیت اور عمل کے مطابق پائے گا۔دنیا کی نعمتوں کے بارے میں بندے کو متوازن رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ انہیں حاصل کرتے ہوئے اور انہیں استعمال کرتے ہوئے انسان اپنی ’’احسن تقویم‘‘ کی حالت کو قائم رکھے اور’’ اسفل السافلین‘‘ کے درجے پر نہ پہنچے۔
انسان کی زندگی جوں جوں بڑھتی جاتی ہے وہ دنیا کی شہوات اورلذات سے متمعئ ہونے کے قابل ہی نہیں رہتا، مزے دار کھانوں کے بجائے پرہیزی کھانے کھانے پر مجبور ہو جاتا ہے، اس کی چلت پھرت محدود ہو جاتی ہے، اس کے باوجود دنیا دار انسان کی طلبِ دنیا بڑھتی چلی جاتی ہے، اور کبھی وہ دنیا کو اپنی مکاری اور چالبازی سے حاصل کرنے کو ہی اپنا مقصدِ حیات بنا لیتا ہے۔ اگر مالی سکینڈلز کا جائزہ لیا جائے، تو اس میں عمر رسیدہ افراد کی کثرت دکھائی دیتی ہے، وہ پانامہ لیکس ہوں یا کوئی اور بے ضابطگیاں۔کچھ عرصہ پہلے عدل کا کوڑا لہرانا شروع ہؤا تو ہمارے ملک کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز افراد عدالتوں کے بلانے پر پیش ہوئے، ان میں سے اکثر بے تحاشا بیمایوں کا شکار تھے، عمر کے اس دور میں جہاں استغفار بڑھ جانا چاہیے، توبہ اور رجوع الی اللہ کے بجائے اس دنیا کے مال و جاہ کے لیے ’’ھل من مزید‘‘ پکارتے دکھائی دیتے ہیں۔کتنے ہی لوگ ہیں جو زمینوں کے فراڈ میں ملوث ہیں، اور جن کی موت کے بعد انہیں لوگوں کی جانب سے مغفرت کی دعاؤں کے بجائے احتجاج اور بددعائیں حصّے میں آئیں۔ اس طرح یہ دنیا کی زندگی ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہونے کے بجائے ان کے خلاف مقدمہ کا ثبوت بن گئی۔متاعِ غرور کی طلب میں ساری زندگی گزار دی تو اللہ کے حضور حاضری پر دامن کو متاعِ حسن سے خالی پایا، کیوں کہ دل کا فقیر ہمیشہ تنگدست ہی رہتا ہے خواہ اس کے پاس ڈھیروں مال ہو، اور دل کا غنی تھوڑے سے مال پر بھی خود کو مطمئن رکھتا ہے۔
رسول اللہ ؐ نے اپنے صحابی سے پوچھا: ’’اے ابوذر، کیا تم مال کی کثرت کو غنا (تونگری) سمجھتے ہو؟ غنا تو دل کا غنا ہے۔اور فقر دل کی تنگدستی ہے۔اور جس کا دل غنی ہواسے دنیا میں جو کچھ بھی ملے وہ اس کے لیے ضرر رساں نہیں ہوتا۔اور جس کے دل میں فقر ہوتا ہے اسے جتنی

کثرت سے بھی دنیا مل جائے اسے غنی نہیں بناتی، اور اس کے نقصان کے لیے اس کے دل کا شحّ (بخیلی) ہی کافی ہے‘‘۔(رواہ النسائی، صحیحہ الالبانی)
آپؐ نے فرمایا: ’’جس شخص کی نیت آخرت کی طلب ہوتی ہے، اللہ اسے دل کا غنی بنا دیتا ہے، اس کے معاملات کو اکٹھا کر دیتا ہے، اور دنیا ذلیل ہو کر اس کے سامنے آتی ہے۔اور جس کے لیے دنیا ہی اس کی پریشانی بن جاتی ہے، اللہ اس کے فقر کو اس کی آنکھوں کے سامنے رکھ دیتا ہے، اور اس کے معاملات بکھر جاتے ہیں۔ اور اسے دنیا اسی قدر ملتی ہے جتنی اس کی تقدیر میں لکھی ہے‘‘۔ (رواہ الترمذی، ۲۴۶۵)
پس دنیا کا طالب کبھی سیر نہیں ہوتا اور نہ اسے آرام ملتا ہے۔ وہ ہمیشہ پریشان اور مضطرب رہتا ہے، اسے راحت نہیں ملتی۔ امام احمدؒ سے پوچھا گیا: ’’راحت کا ذائقہ بندے کو کب ملے گا؟انہوں نے کہا:’’جب وہ جنت میں پہلا قدم رکھے گا‘‘۔(المقتصد الارشد)
مومن کی دنیا
مومن دنیا کی مہلت کو غنیمت تصور کرتا ہے اور دوڑ لگا کر آخرت کے لیے حسنات جمع کرتا ہے۔وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے لیے کبھی رات کی گھڑیوں میں جب دنیا سو رہی ہوتی ہے اس کے حضور کھڑا ہو جاتا ہے اور تہجد ادا کرتا ہے۔ وہ فرائض کو ان کے اول وقت میں ادا کرتا ہے۔ اس کی زندگی میں محبوب مقام ’’مسجد‘‘ ہوتی ہے، جس جانب اس کے قدم بڑی سرعت سے اٹھتے ہیں۔ قرآن کی تلاوت ، تفہیم اور اس پر عمل اس کا شوق بن جاتا ہے۔ وہ اللہ کی راہ میں اپنی خون پسینے کی کمائی خوشی سے خرچ کرتاہے۔ وہ اپنے والدین عزیز و اقارب اور بال بچوں پر بھی خرچ کرتا ہے اور معاشرے کے ضرورت مندوں پر بھی! وہ کمائی کے لیے نکلتا ہے تو حلال راستے کا انتخاب کرتا ہے اور مالِ حرام سے اپنا دامن بچاتا ہے خواہ اس کی کثرت کتنی ہی نگاہوں کو خیرہ کرنے والی کیوں نہ ہو۔ وہ دنیا میں توحید کا علم بلند کرتا ہے، رسول اللہ ؐ کی اطاعت اور اتباع کو اللہ کی محبت کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ اور دین ِ اسلام کا پرچم سربلند کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔وہ دنیا میں ایک مسافر کی طرح رہتا ہے ، جو دنیا کے مناظر سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے اور اس کی نعمتوں کو خوشی سے استعمال بھی کرتا ہے مگر اپنی منزل ’’آخرت‘‘ کو نہیں بھولتا۔
اس کے لیے دنیا ایک کھیتی ہے، جو یہاں بوئے گا وہی آخرت میں کاٹے گا۔ اس کھیتی میں اللہ کی راہ میں خرچ کا ایک دانہ سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ نفع بخش ہو سکتا ہے۔اس لیے وہ ضرورت سے زائد اشیاء کی سرمایا کاری اللہ کے ہاں کرتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ فتح سے پہلے کے خرچ اور جانفشانی کا اجر فتح کے بعد کے خرچ اور جانفشانی سے زیادہ ہے، اسی لیے وہ پسے ہوئے مسلمانوں کی مدد کے لیے تڑپ اٹھتا ہے، خواہ وہ اس کے ملک میں ہوں یا دنیا کی حدود میں کہیں بھی! کہیں وہ مال سے اعانت کرتا ہے کہیں اخلاقی اور سفارتی حمایت، کہیں ان کے لیے ڈھال بن جاتا ہے اور کبھی بے بسی سے اللہ کے حضور ان کے لیے دست بستہ دعا کرتا ہے۔اس کی زندگی محض اس تک محدود نہیں بلکہ وہ تمام انسانوں کی خیر کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
رسول ِ کریم ؐ نے فرمایا: ’’جس نے اپنے سارے غموں کو ایک ہی غم بنا لیا، یعنی آخرت کا غم، اللہ تعالیٰ اس کے سارے غموں کے لیے کافی ہو جائے گا۔اور جس کی ساری پریشانی دنیا کے غم ہوئے، اللہ کو کوئی پرواہ نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوتا ہے‘‘۔ (رواہ ابن الماجہ)
ارشاد ِ الٰہی ہے:
’’لوگو، تمہاری یہ بغاوت تمہارے خلاف ہی پڑ رہی ہے۔ دنیا کے چند روزہ مزے ہیں (لوٹ لو)، پھر ہماری طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے۔اس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ دنیا کی یہ زندگی( جس کے نشے میں مست ہو کر تم ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو)اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایاتو زمین کی پیداوار جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہو گئی، پھر عین اس وقت جب کہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آگیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔اس طرح ہم اپنی نشانیاں

کھول کھول کر پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جوسوچنے سمجھنے والے ہیں‘‘۔ (یونس، ۲۴)
دنیا کی زندگی کی عجیب بات ہے، یہ جلد زوال پذیر ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے ’’عاجلہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود لوگ اس پر فریفتہ ہیں۔جیسے بارش سے کھیتی سرسبز ہو جاتی ہے، اور باغ کے پھل تروتازہ ہو جاتے ہیں، زمین شاداب اور پر رونق ہوتی ہے۔ اس کے مالک سمجھتے ہیں کہ اب ہماری کھیتی ہر حادثہ سے نکل گئی ہے، اب اس پر کوئی مصیبت نہیں آئے گی، کہ یکدم اللہ کا حکم آ پہنچتا ہے۔ (مختلف ارضی و سماوی حوادث کی وجہ سے) اللہ بھرے پرے باغوں، اور سرسبز لہلہاتی کھیتوں کو تباہ کر کے ریزہ ریزہ اور بھوسہ بنا دیتا ہے۔ یہی حالت دنیوی زندگی کی ہے۔ قتادہؒ کہتے ہیں: دنیا پر بھروسہ رکھنے والے اور سامانِ دنیا میں ڈوبے ہوئے شخص پر اللہ کا حکم اور اس کا عذاب انتہائی غفلت کی حالت میں آ پہنچتا ہے۔(فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پانی سے تشبیہ دی ، کیونکہ اس کی پانی سے مماثلت کئی وجوہ سے ہے:
٭ پانی ایک جگہ نہیں رہتا اسی طرح دنیا بھی ہے۔
٭ پانی باقی نہیں رہتا ، ختم ہو جاتا ہے اسی طرح دنیا بھی فانی ہے۔
٭ جس طرح پانی میں داخل ہونے والا لازماً گیلا ہو جاتا ہے اسی طرح دنیا میں داخل ہونے والا بھی اس کی آفتوں اور فتنوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
٭ اور یہ کہ پانی جب تک کم مقدار میں ہوتا ہے وہ نفع بخش ہوتا ہے اور اس میں نمو کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن جب اس کی مقدار بڑھ جائے تو وہ ضرر اور ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے، یہی حال دنیا کا ہے۔اس کی ضروری مقدار نفع دیتی ہے اور اس کا زائد ہونا ضرر رساں بن جاتا ہے۔
٭ اگر آپ پانی کو مٹھی میں بند کرنا چاہیں تو وہ اس سے بہہ جائے گا، اسی طرح دنیا ہے، آپ اسے جتنا بھی قابو کرنے کی کوشش کریں وہ آپ سے پھسل جائے گی۔
غافلوں کی دنیا
امام ابن القیمؒ فرماتے ہیں:
غفلت میں ڈوبے ہوئے اہل دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ لوگ ایک کشتی میں سوار ہوئے، اور وہ انہیں لے کر ایک جزیرے میں پہنچی۔ ملاح نے انہیں باہر نکلنے کا حکم دیا، تاکہ وہ حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہو جائیں۔انہیں کاہلی سے منع کیا اور انہیں خبر دار کیا کہ اگر وہ وقت پر واپس نہ لوٹے تو کشتی چلی جائے گی۔ لوگ کشتی سے اترے اور جزیرے میں پھیل گئے۔ کچھ لوگوں نے حاجت پوری کی اور واپس کشتی میں آگئے۔کشتی میں کھلی جگہ موجود تھی، انہیں جو جگہ پسند آئی وہ اس میں بیٹھ گئے۔
کچھ لوگ جزیرے میں ہی رک گئے اور اس کے پھولوں اور خوشنما مناظر میں مگن ہو گئے، وہ پرندوں کی چہچہاہٹ اور خوبصورت پتھروں سے لطف لینے لگے۔ان کے دل میں خیال آیا کہ کہیں انہیں دیر نہ ہو جائے اور کشتی انہیں چھوڑ کر نہ چلی جائے،وہ بھاگ کر کشتی میں آئے تو انہیں بہت تنگ جگہ ملی۔اور وہ اسی میں بیٹھ گئے۔ کچھ لوگ ابھی تک جزیرے کے پتھروں اور پھولوں کے حسن میں کھوئے ہوئے تھے، ا نہو ں نے ان خوبصورت پتھروں اور حسین و جمیل پھولوں کو جمع کیا اور کشتی میں سوار ہو گئے، انہیں کشتی میں بہت کمزور جگہ ملی، اور اپنے ساتھ لائی ہوئی چیزوں کے بوجھ نے انہیں اور بھی بوجھل کر دیا۔ان سب چیزوں کو کشتی میں رکھنے کی جگہ بھی نہ تھی، انہوں نے ان اشیاء کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا، اور تھکن سے چور ہو گئے۔انہیں سخت ندامت ہوئی کہ وہ اتنا بوجھ کیوں اٹھا لائے، لیکن اب ندامت بے سود تھی۔کچھ دیر نہ گزری تھی کہ پھول مرجھانے لگے اور ان کی خوشبو بھی ختم ہو گئی، بلکہ ان کی بساند تکلیف دہ بن گئی۔
کچھ لوگ جزیرے میں سیر کرتے ہوئے بہت دور نکل آئے تھے۔انہیں کشتی بالکل بھول گئی تھی۔ حتیٰ کہ جب ملاح نے کوچ کا اعلان کیا تو انہیں اس کی آواز بھی نہ آئی، کیونکہ وہ جزیرے کے معطر پھول

سونگنے اور اس کے مزیدار پھل کھانے میں مگن تھے، جزیرے کے مناظر نے انہیں مبہوت کر رکھا تھا، انہیں کسی اور شے کا ہوش تک نہ تھا۔انہیں نہ تو کسی اچانک نکل آنے والے سانپ کا خوف تھا، نہ ان کانٹوں کی پروا تھی جو ان کے کپڑوںمیں گھس کر انہیں زخمی کر رہے تھے، اور ان کے قدموں کو فگار کر رہے تھے۔کبھی کوئی شاخ ان کے جسم کو مجروح کر دیتی، اور کہیں کوئی کانٹے دار جھاڑی ان کے کپڑے تار تار کر دیتی کہ خود کو ڈھانپنا ممکن نہ رہتا۔کبھی کوئی خوفناک آواز انہیں لرزا دیتی۔ان میں سے کچھ لوگ جب سمندر کے کنارے پہنچے تو کشتی میں جگہ نہ ملی اور وہ ساحل پر ہی ہلاک ہو گئے۔کچھ جزیرے کی رنگ رلیوں میں مگن تھے کہ کسی درندے نے انہیں چیر پھاڑ دیا۔کسی کو زہریلے سانپ نے ڈس لیا۔جو ان سب سے بچ گیا وہ بھی اسی انتظار میں ہلاک ہو گیا۔یہی مثال اہلِ دنیا کی ہے، جو دنیا میں مشغول ہو جاتے ہیں اور منزل سے دور ہو جاتے ہیں۔اور اس شخص کی عقل کا کیا کہنا جو پتھروں اور پھولوں اور خوشنما مناظر میں محو ہو کر اپنے باقی ماندہ سفر کو بھول جائے اور ہلاکت کا شکار ہو جائے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ ؐکے پاس گیا۔ آپؐ چٹائی پر سو کر اٹھے تھے اور آپ کے جسم مبارک پر اس کے نشانات تھے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ، آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لیے گدا بنا دیں تاکہ وہ آپ کے جسم اور چٹائی کے درمیان حائل ہو کر آپ کو بچائے۔ آپؐ نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا سروکار۔میرا دنیا سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا ایک مسافر کا، جو ایک سایہ دار درخت کے نیچے لیٹا، اور پھر اسے چھوڑ کر چل دیا۔ (رواہ الترمذی، صحیح)
ہم سب کے لیے رسول کریم ؐ نے کتنی پیاری وصیت کی ہے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ آپؐ نے مجھے کندھوں سے پکڑ کر فرمایا: ’’دنیا میں اس طرح رہو جیسے تم اجنبی ہو یا کوئی راہ گزرتے مسافر‘‘۔ ابن عمرؓ کہا کرتے تھے: ’’جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کر،اور جب صبح ہو تو شام کا انتظار نہ کر۔ اپنی صحت کے زمانے میں مرض کے لیے بھی توشہ جمع کر لے،اور اپنی زندگی ہی میں موت کی تیاری کر لے‘‘۔(صحیح بخاری)
اے دنیا کے مسافرو! بخدا دنیا کی عمر بہت تھوڑی ہے، ہمارے اندازے سے بھی کہیں مختصر مدت، جیسے سمندر میں سوئی ڈالی، اور اس کے ساتھ کچھ پانی لگ گیا۔اس میں سب سے غنی وہ اہل الدنیا ہیں جنہیں اللہ نے غنی کر دیا، اور وہ دنیا کے فقیر نہ بنے۔پس غفلت سے بیدار ہو جاؤ۔ یہ دنیا کوچ کر رہی ہے، اور زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، زمین اپنے کناروں سے لپٹتی چلی جا رہی ہے، اور کوئی دن اس دنیا کی جدائی کا آیا ہی چاہتا ہے۔ پھر کچھ کرنے کے لمبے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔جس بڑھاپے، فرصت، تونگری اور مثالی صحت کی آس اور امید میں موجود لمحات اور مہلتِ عمل کو ضائع کر رہے ہیں، وہ شاید کبھی میسر نہ ہو۔ روز و شب کی اسی حرکت اور آنے جانے میں نجانے کون سا لمحہ ہماری زندگی کے چراغ گل ہونے کا لمحہ ہے۔موت اچانک جھپٹ لیتی ہے۔ مرض اچانک حملہ آور ہوتا ہے، اور کبھی کوئی اچانک حادثہ زندگی سے محروم کر دیتا ہے، اور کبھی آپ صحیح سلامت اپنے بستر پر سوتے ہیں اور بیدار ہی نہیں ہوتے۔
٭٭٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x