ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ماں واہلی- بتول مئی ۲۰۲۱

جب بابا تاج فوت ہو گیا تو ریاست بہاولپور میں مقیم اس کے بھائی اس کی تعزیت کے لیے اپنی بھاوج کے پاس ہمارے گائوں میں آئے ۔ وہ ایک مدت پہلے یہاں سے اپنا زرعی رقبہ فروخت کر کے چلے گئے تھے ۔
نواب بہاولپور کو ان کے ایک ڈپٹی کمشنر نے زمینوں کو زیر کاشت لانے کے لیے اچھے مشورے دیے تھے جن کے تحت ہیڈ سلیمانکی سے ایک نہر ضلع بہاول نگر کو سیراب کرنے کے لیے نکالی گئی تھی ۔ پنجاب کے مشرقی شمالی اضلاع کے لوگ نہایت جفا کش اور بہتر کاشت کار تھے لیکن ان کے پاس زرعی اراضی فی خاندان کم تھی۔ ضلع بہاولنگر کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے نواب صاحب کو تجویز دی کہ وہ اپنی ریاست کی بے کار پڑی ہوئی زمین کی اُسی طرح چک بندی کرائیں جیسے انگریزوں نے پنجاب میں گنجی بار اور ساندل بار میں چکوک بنوا کر لوگوں کو زراعت میں ترقی کا موقع دیا تھااور پنجاب کے زمین داروں کو مناسب داموں پر آباد کاری کے لیے آنے کا اعلان کروائیں ۔
اس اعلان کا فائدہ یہ ہؤا کہ اُدھر کے کاشتکار اپنا ایک ایکڑ بیچ کر جب ریاست بہاولپور آتے تو اسی قیمت میں انہیں پچیس ایکڑ کا قطعہ اراضی مل جاتا۔ اگرچہ زمین غیر ہموار اور سرِ دست کاشت کاری کے لیے غیر ممکن دکھائی دیتی تھی لیکن کچھ محنت کے بعد وہ بہت زرخیز ہونے والی تھی۔
بابا تاج کے بھائی ہمارے گائوں سے اپنا رقبہ بیچ کر یا مزارعت پر دے کر بہاول پور چلے گئے تھے ۔ ان کی پریشانی یہ تھی کہ جیتے جی ان کے بھائی نے اپنے یہاں کے رقبہ کو نہیں چھوڑا اور ہمارے ساتھ نہیں آئے تو اب اس کی بیوہ کیسے یہاں کی زمینداری سنبھالے گی جبکہ اس کے بچے ایک بیٹی اور ایک بیٹا ابھی چھوٹے ہیں لیکن ان کی بھاوج رضا مند نہ ہوئی۔
اس خاتون کا اصل نام تو ہمیں معلوم نہیں ، لیکن سب لوگ اسے ماں واہلی کہتے تھے ، ان کا بیٹا بشیر ہمارے ساتھ کھیلتا اور سکول آتاتھا۔ اس وقت بہاولنگر میں گائوں میں سکول نہیں کھلے تھے ۔ مگر ہمارے گائوں میں سکول تھا۔ماں واہلی نے گھسیٹا عیسائی کو اپنا آتھڑی بنا لیا ، آتھڑی وہ ملازم ہوتا تھا جسے فصل ربیع و خریف کے موقع پر پیداوار میں میں سے مقرر حصہ بطور معاوضہ دیا جاتا تھا ۔ نقد روپیہ بالعموم لوگوں کے پاس کم ہی ہوتا تھا۔
گھسیٹا اچھا معاون ثابت ہؤا اور اس نے ماں واہلی کے ساتھ زمینداری کا رشتہ وفا داری سے نبھایااور اس کے ساتھ اس کا بیٹا سراج مسیح بھی ہاتھ بٹاتا ، ماں واہلی نے جس طرح اپنے بزرگوں کو کاشت میں جان ماری کرتے دیکھا تھا، اس نے بھی محنت سے کام کیا ۔ وہ گوبر کی کھاد کو نہایت توجہ سے گڑھوں میں سنبھالتی اور اپنے گائوں کے کمیوں کے گھروں والے کوڑے کے گڑھوں سے بھی کھاد کے لیے جمع شدہ گوبر اور فالتو چارے سے بنا ہؤا مواد گڈوں سے اٹھوا کر اپنے کھیتوں میں ڈلوا لیتی۔ اس زمانے میں آج کل کی کیمیائی کھاد کا چلن نہ تھا لیکن یہ کھاد بھی فصلوں کے لیے کیمیا ثابت ہوتی تھی۔
ماں واہلی نے اپنا کاشت کاری کا طریقہ بدل دیا۔ ہمارے گائوںمیں گُڑ اور شکر بنانے کے لیے زمیندار شوق سے کماد کا شت کرتے تھے ۔ یہ فصل طویل عرصہ تک پانی اور کھاد کے علاوہ مسلسل محنت طلب کرتی ہے ۔ اس خاتون نے دیکھا کہ وہ اس فصل کو سنبھال نہیں سکے گی ۔ اُس نے اس کی بجائے گندم ، چاول،کپاس کی طرف توجہ دی ۔ اس پر شاید کچھ اللہ تبارک و تعالیٰ کی کرم فرمائی زیادہ تھی۔ ہمارے گائوں میں اس زمانے میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار آٹھ دس من ہوتی تھی لیکن ماں واہلی نے ہمیشہ بیس من سے زیادہ گندم برداشت کی ۔ اسی طرح دوسری فصلیں

بھی اس کے بھرپورمعاوضے کا ذریعہ ثابت ہونے لگیں ۔ درمیان میں وہ جانوروں کے لیے چارے کی فصلیںکاشت کر لیتی ۔ مکئی ، باجرہ ، جوار برسیم وغیرہ میں اس کے کھیت خزانہ غیبی کی کنجیاں ثابت ہوئے ۔ شہر ہمارے گائوں سے دس میل دور تھا ۔ وہاں اس چارے کی بڑی مانگ ہوتی تھی اس لیے وہاں کے تاجر چارے کے گڈے بھر بھر کر لے جاتے اور ماں واہلی کو نقد روپیہ ملنے لگتا۔ خاص طور پر اس کے بھوسہ کے انبار عام لوگوں کے مقابلے میں گرںبہا آمدنی دلاتے۔
ماں واہلی نے ایک اور جدت کی۔ اپنی زمین پر وہ فصلوں کی بیرونی منڈیروں کے علاوہ ہر ایکڑ کو دو دو کنال کے قطعات میں تقسیم کرنے کے لیے منڈیریں بنواتی۔ اس کے پانی کی سیرابی جلد اور بھرپور ہوتی اور ان منڈیروں پر وہ تل کا بیج ڈلوا کراتنی یافت حاصل کرتی کہ گائوں والے حیران ہوتے۔بالعموم وہ ایک ایکڑ کی منڈیروں سے ڈیڑھ یا دو من تل حاصل کرتی اور یہ تل بڑی قیمت پر شہر کے بیوپاری لے جاتے ۔ اس طرف کبھی ہمارے گائوں کے دوسرے کاشت کاروں کا دھیان ہی نہیں جاتا تھا ۔ اس زمانے کے جاٹوں کا یہ واہمہ تھا کہ پیاز، لہسن اور دیگر ترکاریاں کاشت کرنا ان کے لیے امتیاز و عزت کا ذریعہ نہیں لیکن ماں واہلی ایک ایکڑ زمین کو چار حصوں میں تقسیم کر کے اچھی طرح یہ تر کاریاں کاشت کرواتی ۔ آج ہم جو پیاز ساٹھ روپے فی کلو خرید کر سبزی منڈی سے لاتے ہیں ، وہ اس زمانے ایک آنہ ( چھ پیسے) کا سیر ہوتا تھا ۔ اس طرح لہسن بھی آج کے نرخ کے ساتھ مقابلہ کر کے دیکھیں کہ جہاں اب ہمیں ڈھائی تین سو روپے فی کلو خریدنا ہوتا ہے ، اس زمانے میں دو آنے (بارہ پیسے) فی سیر اٹھا لیا جاتا تھا، اسی طرح کدو، ٹینڈے، بھنڈی، بینگن، پیٹھا کی قیمتیں ٹکوں اور آنوں کے حساب لگتی تھیں ۔ یہ اشیا بیچ کرماں واہلی زمینداروں کے گھر سے بکنے والا گھی ایک روپے سیر کے مقابلے میں زیادہ روپیہ لے لیتی ۔ زمینداروں کو اپنی بھینسوںکی تعداد پر فخر ہوتا تھا لیکن ان کے چارے کے لیے انہیں کئی ایکڑ رقبہ مخصوص کرنا ہوتا تھا ۔ ماں واہلی وہی چار افروخت کر کے جلدی اور کثیر روپیہ حاصل کر لیتی تھی۔
اگلے ایک دوسال بعد ماں واہلی نے دیکھا کہ خان ماشکی ایک گدھی پر خورجی ڈال کر شہر سے خربوزے اور تربوز لاتا ہے ۔اس زمانے میں یہی دو چیزیں ایک بڑا فروٹ ہوتا تھا اور اناج کی ایک پڑوپی (ایک سیر کا چوتھائی حصہ) دے کر مائیں بچوں کے لیے آدھ سیر خربوزہ خرید کر ایک ایک قاش اپنے بچوں کو کھلا کر انہیں خوش کر لیتی تھیں۔ ماں واہلی نے چار کنال زمین میں خربوزے کاشت کرائے اور ساتھ ہی تربوز بھی بو لیا ۔ اس پر قدرت مہر بان تھی ۔ یہ پھل بیچنے کے لیے اس نے گائوں کے چوکیدار لبھُّو کو بلالیا۔ وہ دن بھر میں ایک دو گائوں میں جا کر سبزی ترکاری کے ساتھ وہ خربوزے بیچتا اور شام کو وہ جتنا دانہ اپنی گدھی پر لے کر لوٹتا تو ماں واہلی اسے آمدنی کا آٹھواں حصہ دے کر خوش کرکے گھر بھیجتی اور لبھو کی یہ گدھی ماں واہلی کے بیلوں اور ایک بھینس کے ساتھ چار اکھاتی، اس سے لبھو کو مزید سہولت ہو گئی۔
کہنے کو سبزی ترکاری کی یہ کاشت یکا یک امیر بننے کا ذریعہ نہ تھی لیکن اِکنی دُوّنی کر کے ماں واہلی کے پاس ہمیشہ نقد روپیہ دیگر زمینداروں سے زیادہ ہی ہوتا تھا اور گائوں والے جب کبھی روپے کی ضرورت محسوس کرتے تو وہ اپنی بیویوں یا مائوں کو بھیج کر اُس سے ادھار مانگتے ۔ یوںسارے گائوں والوں کے لیے ماں واہلی ایک معزز خاتون شمار ہوتی تھی۔یہ ضرورہے کہ فصل آنے پر وہ لبھو چوکیدار کو ساتھ لے کر غلے والے کھلیان سے ہی اپنے قرضے کے عوض اناج اٹھوا لیتی تھی۔ پچھلا حساب بے باق کر کے وہی لوگ آئندہ نیا قرضہ لینے جا پہنچتے اور ماں واہلی انہیں مایوس نہ کرتی۔
ان زمینداروں کی جاہلیت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے (یہ تذکرہ ہفتہ وار اقدام کے ایڈیٹر جنا ب م ش مرحوم نے بھی اپنی تحریر میںکیا تھا ) کہ کسی ساہو کار سے پنجاب کا کوئی چھوٹا کاشت کار قرض لیتا اورفصل آنے پر قرض خواہ پہنچ جاتا تو وہ زمیندار کو اس طرح حساب سمجھاتا:
’’ چودھری جی ! آپ کے ذمہ ایک سو روپیہ میرا اُدھار تھا ۔ آپ کی فصل سات بیسیوں (۷x۲۰) کی ہوئی اور اب آج کی ادائیگی کے بعد آپ کے ذمہ تین بیسیاں (۳x۲۰)قرض باقی رہ گیا ‘‘۔
یہ کہہ کر وہ زمیندار کے بایاں ہاتھ کے انگوٹھے کا نشان اپنی بہی

کھاتے پر لگا لیتا ۔ پنجاب کے کسانوں پر وزیر چودھری چھوٹو رام نے جو نواب سکندر حیات کا بینہ میں شامل تھے بڑا احسان کیا تھا ۔انہوں نے ساہو کاروں کی اسی طرح کی ستم رانی سے بچانے کے لیے ایک قانون بنوایا کہ بیس سال سے زائد رہن رکھی ہوئی زمین فک کی جاتی ہے اور قرض خواہ مقروض سے قرض کی رقم کا مطالبہ نہیں کر سکے گا ۔ اس کا بڑا فائدہ چھوٹے کاشت کاروں کوہؤا جو کبھی اصل زر لوٹا نہ سکتے تھے اور قرض ہر سال بڑھتا جاتا تھا۔
ماں واہلی کی پوری توجہ اپنے رقبہ کوزیادہ سے زیادہ بارآور بنانے پر رہتی تھی ۔ اُسے محسوس ہؤا کہ ایک دوسرا نوکر بھی رکھ لینا چاہیے تاکہ سبزی ترکاری کے کھیتوں میںاز خود اُگنے والی مختلف خود رَو بوٹیاں اور گھاس جو بوئی گئی سبزیوںکی خوراک کا زیادہ حصہ کھا جاتی تھیں انہیں گوڈی کر کے زمین صاف کرلی جائے ۔نئے ملازم کا نام آسو عیسائی اور اس کی بیوی کا نام بنتی تھا ۔ آسو کھرپا اور درانتی سنبھال کر کھیتوںمیں بنائی گئی ایک ایک ناند اور منڈیر کو صاف کرتا ۔ اس طرح کھیتوں میں پیداوار اچھی ہوگئی اور پیداوار میں پہلے سے زیادہ منافع ہونے لگا ۔ ماں واہلی نے آسو کو اپنے فارم ہائوس میں رہنے کے لیے ایک کمرہ دے دیا۔ اس کی بیوی نے وہاں دیسی مرغیاںپالنا شروع کردیں اوروہ انڈے اورچوزے فروخت کر کے نقد روپیہ بنانے لگی ۔ لچھمن ہل چلاتااورکھیتوں تک جانے والے نالوں کو کسّی سے صاف کرتا اور کھیتوں کے کونوں میں کسّی سے اس زمین کو کھود ڈالتا جہاںہل کا پھالا نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ آسو گوڈی کے دوران کٹی ہوئی گھاس بیلوںکے چارہ میں شامل کر دیتا ۔ اس طرح یہ دونوں ملازم نیک نیتی اور وفا داری سے کام کرتے جس سے ماں واہلی خوش ہوتی اور حسن اخلاق اور مالی سر پرستی اور خوش دلی کے طریقوں سے انہیں نوازتی اور وہ بھی زیادہ کام کرنے سے نہ گھبراتے تھے۔
بابا تاج کی وفات کے بعد اس کی بیوہ نے جس ذہانت ، محنت ، لگن اور اخلاص سے اپنے خاندانی پیشے زراعت کو چار چاند لگائے اس کی اب گائوں والوں کے علاوہ محکمہ زراعت کے تحصیل آفس میں موجود انسپکٹر زراعت نے بھی حوصلہ افزائی شروع کی ۔ حلقہ پٹواری یا گرداور سے انہوں نے جو تفصیلات معلوم کیں تو گویا وہ قطعہ اراضی بہت مثالی نظر آیا انہوں نے اس خاتون کی مہارت ، محنت اور جدوجہد کا ذکر افسران بالا سے بھی کیا اور یہ پہلی دفعہ ہؤا کہ کسی زرعی کارکن کواعلیٰ فنون ِ کاشتکاری پر تعریفی سند عطا کی گئی۔
ماں واہلی کا تذکرہ نا مکمل رہے گا اگر گائوں کے اُن زمینداروں کی تعلیم سے عدم دلچسپی کا ذکر نہ کیا جائے جن کے پاس اس خاتون سے زیادہ رقبہ تھا۔ اس گائوں کے آباد کاروں کی آمد کے ساتھ ہی پرائمری سکول نے کام شروع کردیا تھا ۔ سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ اور پسرور سے آنے والے جاٹوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ سکول کی منظوری ملنے کے باوجود مقامی طور پر میٹرک تو کیا مڈل پاس استاد کی تعیناتی بھی ممکن نہ تھی ، چنانچہ اپنے سابقہ وطن سے وہ قاضی نجمالدین کو لائے جو اگرچہ آٹھ جماعتیں پاس کر چکے تھے لیکن بے روز گار تھے ۔ ماں واہلی نے اس استاد کے رہنے کے لیے اپنے گھر کے شمال مشرقی کو نے میںایک کمرہ تین شہتیروں والا بنوایا جس کے دالان سے آگے انہوں نے ایک دروازہ لگوادیا تاکہ قاضی صاحب اور دیگر لوگ جوان سے کبھی ملنا چاہیں تو کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔استاد صاحب کا کھانا ماں واہلی بھیجتی تھی۔ اس کا بیٹا بشیر سکول جا کر پڑھتا تھا لیکن بیٹی گھر میں ہی قاضی صاحب سے پڑھتی ۔ اس خصوصی توجہ سے وہ لڑکوں سے زیادہ قابل اورذہین ثابت ہوئی ۔قاضی صاحب نے اس بچی کو اپنے سکول میں داخلہ دے رکھا تھا جو سالانہ امتحان تو طلبہ کے ساتھ دیتی اور وہاں اسکول ریکارڈ میں اس کی حاضری اور امتحانی نتیجہ درج ہو جاتا ۔ اس کا فائدہ یہ ہؤا کہ پرائمری سکول کی اعلیٰ یعنی چوتھی جماعت پاس کر لینے کا اسے سر ٹیفکیٹ مل گیا۔
ہر روز اپنی تحصیل کے شہر سے سکول میں حاضری دے کر گائوں میں واپس آنا بہت مشکل تھا۔ ماں واہلی نے شہر میں ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لیا اور اپنے سبزی فروش لبھو کی بیوی شریفاںکو شہر میں بچوں کے پاس رکھا اور اُسے پندرہ روپے تنخواہ دینا منظور کیا ۔ اس بات پر گائوں والوں نے حیرت کا اظہار کیا ۔ وہ جس کمیں کارکن کو کھیتوں میں نوکر رکھتے بھی تھے تو اسے بارہ روپے ماہوار تنخواہ دیتے تھے ادھر لبھو کی بیوی

شریفاں شہر میں اپنی مالکن کے بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔کھانا اس کا وہیں تھا۔ صابن تیل بھی اُسے وہاں سے ہی استعمال کرنا ہوتا تھا ۔ خود ماں واہلی چاہتی تھی کہ شریفاں اب اچھا لباس پہنے اور صاف ستھری رہ کر اپنا کام کرے۔
اسی دوران ماں واہلی نے مجید ا جو لاہے کو گھوڑا تانگہ بنا کر دیا تھا اس زمانے میں بس کے آج کے 35روپے کرایہ کے مقابلے میں تانگے والا ایک اٹھنّی(Rs.0.50)شہر تک لیتا تھا اور یوں آنے جانے میں وہ چھ روپے روز کما تا تھا ۔ اس یَکّے پر شریفاں اپنی مالکن کے بچوں کو مہینے میں ایک دن گائوں لاتی ۔ ان کی بیٹی طالبات کے سکول میں داخل تھی اور بشیر طلبہ کے ہائی سکول میں پڑھتاتھا۔ دونوں بچوں نے اعلیٰ ڈویژن میں میٹرک پاس کرلیا۔ انہیں مزید تعلیم دلانے کی سوچ ان کی والدہ کو فکر مند کر دیتی تھی لیکن ماسٹر قاضی نجم الدین نے انہیںحوصلہ دلایا ۔ یوں بچے ضلعی ہیڈ کوارٹر میں کالجوں میں داخل کرادیے گئے جہاں انہیں ہاسٹلوں میں رہنے کا موقع ملا۔
گائوں میں ماں واہلی کے اس فیصلہ کا بڑا چرچا ہؤا۔ اکثر لوگ اس خاتون کے مقروض تھے، اس لیے اپنی محدود سوچ کے تبصرہ سے اجتناب کرتے ۔ بہاولنگر سے چلے جانے والے اس بیوہ خاتون سے ملنے سال میں ایک دفعہ آتے تھے۔ اس کی کاشت کاری کی محنت کو سر اہتے اور اس کے فیصلے کی داد دیتے تھے ۔ تعلیم کے بغیر اپنے فطری رحجان اور خدا داد ذہانت سے اس نے رنڈاپے کو کاٹنے میں شرم و حیا، حمیت و غیرت اور خود شناسی و خود نگری کی ایک روشن مثال قائم کرلی۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x