ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سراجاً منیر – نور جنوری ۲۰۲۱

حضرت محمد ؐ سید المرسلین ، رحمتہ اللعالمین خاتم النبین کی حیات طیبہ ، شریعتِ اسلامی کا اہم ماخذ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی زندگی کے لیے واجب التقلید نمونہ ہے ۔ اس سے جہاں شریعت کے احکام و ہدایات ملتی ہیں ، وہاںاسلامی زندگی کا ایک مثالی نمونہ بھی نظر آتا ہے ۔ اس حیاتِ مبارکہ کو پڑھ کر اور سن کر ، مسلمان کا دل و دماغ جو اخذ کرتا ہے، اُس سے اس کی دنیا بھی بنتی ہے اور دین بھی ۔
حضورؐ کا مقام بہ حیثیت نبی بہت اونچا ہے کہ آپؐ امام الانبیا ہیں ۔ لیکن اسی کے ساتھ بہ حیثیت انسان آپ اخلاق، روا داری ، ہمدردی ، تواضع، مہمانداری ، غربا پروری، غرض تمام انسانی خوبیوں کا اعلیٰ پیکر تھے ۔ ارشادِ ربانی ہے۔ لَقدَ کَانَ لکم فیِ رَسولِ اللہ اُسوۃ حَسنَۃ۔(تمھارے لیے نبی کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔)
آپ ؐ عظیم معلم تھے ۔ مُقنن تھے ۔ مدبر تھے ۔بہترین فرماںروا تھے ۔ دیانت دار تاجر ۔ غم گسار ساتھی تھے۔ مہر بان شوہر اور پر شفقت باپ تھے ۔ غرض زندگی کے ہر شعبہ میں آپ ؐ کی شخصیت کے نقوش جگمگا رہے ہیں۔
حق وہی ہے جو آپ ؐ کی ذات سے منسوب ہو۔ جو آپ ؐ کی ادائوں سے عیاں ہو۔ جو آپؐ کی سیرت میں ڈھلا ہو۔ اس کے سوا کوئی بھی من پسند راہ اختیار کرنا فریب نفس ، انا پرستی اور حق سے انحراف ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرما دیا : مَن یُّطع الرّسول، فَقَد اَطاع اللّٰہ۔( جس نے رسول کی اطاعت کی ، اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔) حدیث مبارک میں ارشاد ہوا : جس نے میری سنت سے منہ موڑا ، وہ مجھ سے نہیں ۔ گویا معیارِ بندگی فقط اتباع ِ سنت کا نام ہے۔
اسلام صرف چند مناسک ، روایات اور روحانی تعلیمات کا مجموعہ نہیں ، اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہر مسلمان کی زندگی کو مرتب اور منظم کرتا ہے اور اس کی فکر کو درست رکھتا ہے ۔ حتیٰ کہ سیاسیات، معاشیات اور اس جیسے دوسرے تمام شعبوں میں اس کی رہنمائی کرتا ہے ۔ یہ ضابطہ حیات ، عزت و احترام ، دیانت ، حسنِ عمل اور عدل و انصاف کے بلندترین اصولوں پر مبنی ہے ۔ مساوات ، حُریت اور اخوت اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہیں ۔ اور ان سب کا ماخذ حضرت محمدؐ کی سیرت مبارکہ ہے۔
کوئی پیغمبر نہیں جس کی سیرت محفوظ رہی ہو، یہ شرف صرف خاتم الانبیا حضرت محمدؐ کو حاصل ہے کہ اُن پر جو کتاب اتاری گئی ، وہ بھی جوں کی توں موجود ہے اور جس طرح آپؐ کی زندگی ، ولادت سے وصال تک بسر ہوئی ، اس کا ایک ایک سانس ، ایک ایک حرکت ، ایک ایک بول کماحقہ محفوظ ہے ۔ زندگی کا کوئی خفی یاجلی گوشہ ایسا نہیں جو روایتوں کی پوری کڑی کے ساتھ مرتب ومدون نہ ہو۔ چوں کہ اسلام اللہ کا آخری دین تھا اور حضرت محمد ؐ آخری پیغمبر، اس لیے مقصود ِ الٰہی بھی یہی تھا کہ آپؐ کی سیرت ہر آنچ سے محفوظ رہے ۔ سیرت کایہی کامل و اکمل، احسن و اجمل نمونہ تھا کہ اس کی تعلیمات سے جو ملت پیدا ہوئی اور جو معاشرہ وجود میں آیا ، وہ ساری کائنات کے لیے مثالی ہو گیا ۔ یہ رسول اکرم ؐ کا معجزہ تھا کہ ان کے فیض سے وقت کے بڑے بڑے حکمران ، جرنیل، دانش ور ، حکیم ، عالم و فلسفی ، بڑے بڑے عابد و زاہد اور وارثانِ سیف و قلم پیدا ہوئے کہ ایکا ایکی ساری دنیا ان کی تابع ہو گئی ۔ مسجد نبوی کے فرش نشین،تخت و تاج کے وارث ہو گئے اور پھر جب تک انھوں نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا، سیرت نبویؐ کو مشعلِ راہ بنایا اور خود ’’بُنیانٌ مرصوص‘‘ بن کر رہے ، ان کا پرچم چاردانگ عالم میں لہراتا رہا ۔ مگر جوں ہی اس سے ہٹے ، سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا۔
آج ہم امت مسلمہ پر نظر دوڑائیں تو بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب نے اہل اسلام پر اپنا تمدن مسلط کر کے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ، وہ ان کامیابیوں سے بد ر جہا بڑی ہیں جو انھوں نے میدان ِ جنگ میں حاصل کی تھی ۔ مسلمانوں کو سیاسی ، اقتصادی ، ثقافتی، تمدنی اور سماجی لحاظ سے مفلوج اور نکما بنانے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں ۔ اب ان کی فلاح اور بقا کا دارو مدار صرف اسی پر ہے کہ وہ اپنے اسلاف کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے سنت ِ رسول ؐ پر عمل پیرا ہو جائیں ۔ اگر مسلمان اس پر عمل پیرا ہو گئے ، تویقینا اسلام دنیا کے بھٹکے ہوئے انسانوں کے لیے آج بھی مشعلِ راہ اور نجات دہندہ ثابت ہو گا۔

سرورِ عالمؐ کی ہر سنت جہاں بھر کے لیے
سہل بھی اسہل بھی ہے اجمل بھی ہے اکمل بھی ہے

سنتِ سرکارِ دو عالم پر چل کر دیکھیے
سارے عالم کے مسائل کا یہ واحد حل بھی ہے

صاحبِ قرآن کی توہین کا ہر مرتکب
صرف جاہل ہی نہیں ہے ، دوستو اجہل بھی ہے
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x