ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

سرخ مالٹوں کی سر زمین -بتول اپریل ۲۰۲۱

malto ki sarzameen

چلیے آج آپ کو ریڈ بلڈ مالٹوں کی سر زمین کی سیر کراتے ہیں ۔ آپ نے خوش ذائقہ ریڈ بلڈ مالٹے تو ضرور کھائے ہوں گے یاان کا جوس پیا ہوگا ۔ ان کا ذائقہ ہلکا سا ترش لیکن میٹھا ہوتا ہے ۔ یہ نہ صرف پاکستان میں شوق سے کھائے جاتے ہیں بلکہ سردیوں کے سیزن میں یہ عرب ممالک ، یورپ اور جاپان تک ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں اور دنیا بھر میں بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔
ہم لوگوں نے جنوری کے وسط میں ان خوش نما اور خوش ذائقہ مالٹوں کی سر زمین کی سیر کا پروگرام بنایا ۔ ہماری فیملی تھی ۔ میں ، بیٹا خرم، بہو زوبیہ اور پوتاعلی اور پوتیاں آمنہ اور مریم… دوسری فیملی ہمارے بھانجے سعید کی تھی ان کی اہلیہ صائمہ ، بچیاںدعا اور بسمہ ، تیسری فیملی ہماری بھانجی عظمی کی تھی ۔ ان کے میاں خاور ، بیٹیاں ،فاطمہ ، فارعہ اور ان کا بیٹا شہیر۔
تینوں گھرانے اپنی اپنی گاڑیوں پہ سوار تھے ۔ صبح گیارہ بجے ہم راولپنڈی سے روانہ ہوئے ۔ سفر کوئی لمبا نہیں ہے ، قریباً ایک گھنٹے میں یہ سفر طے ہو جاتا ہے ۔ راولپنڈی سے ہم پشاور روڈ پہ محو سفر ہوئے قریباً آدھے گھنٹے میں ٹیکسلا کینٹ پہنچ گئے اور وہاں سے ٹیکسلا کینٹ میں داخل ہوگئے ۔ راستے میں ہائی ٹیک یورینورسٹی ٹیکسلا آئی۔ اس کے بعد انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا آئی ۔ اس کے بعد ٹیکسلا میوزیم آیا جوبدھ مذہب اور مہا راجہ اشوک کے زمانے نوادرات سے مزین ہے ، بدھ دور حکومت کے سکے ، برتن اوزار ، زیورات مجسمے وغیرہ ۔ مہاراجہ اشوک کے زمانے میں ٹیکسلا میں ایشیا کی ایک زبردست یونیورسٹی قائم تھی جہاں دور دُور سے طلبا تعلیم حاصل کرنے آیا کرتے تھے ۔ اس یونیورسٹی کے کھنڈرات آج بھی ٹیکسلا میںموجود ہیں۔
ٹیکسلا کینٹ سے نکلیںتو خان پوری سڑک شروع ہو جاتی ہے سڑک یک رویہ اور چھوٹی ہے لیکن ٹھیک ہے کیونکہ اس سڑک پہ ٹرک کم ہوتے ہیں ۔اب آپ خان پور ڈیم کی طرف جا رہے ہیں تو سڑک کے دونوں طرف آپ کو ان مشہور زمانہ مالٹوں کے باغات نظر آئیںگے۔ سڑک کے کنارے بھی جگہ جگہ مالٹوں کی دکانیں اور سٹال نظر آئیں گے ۔ سڑک پر گاڑی کھڑی کر کے بھی آپ دکاندار سے مالٹے خرید سکتے ہیں لیکن اس میںوہ لطف نہیں آتا جو باغ کے اندر جا کر خود اپنے ہاتھوں سے فریش مالٹے توڑنے میں ہے ۔ پھر باہر سڑک پر مالٹا فروشوںکا آپ یقین نہیں کر سکتے کہ یہ مالٹے خالص ریڈ بلڈ ہیںیا ملے جلے ہیں ۔
ہم خان پور ڈیم کی طرف بڑھتے گئے کیونکہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ پہلے ڈیم کی سیر کریں گے اور واپسی پہ مالٹوں کے باغ میںجائیں گے۔
ڈیم تک سارے راستے میںمالٹوں کے باغات سڑک کے دونوں طرف ایک وسیع رقبے میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ قدرت نے اس خطے کو بڑی فراخ دلی کے ساتھ اس نعمت سے نوازا ہے ۔
جلد ہی ہم خان پور ڈیم پہنچ گئے۔ یہ بھی ایک خوبصورت پکنک سپاٹ ہے ۔ اس دن اتوار تھا اس لیے وہاں سیر کے لیے آنے والوںکا بے حد رش تھا لیکن وہاں کے پی حکومت نے بڑے اچھے انتظامات کر رکھے ہیں۔پارکنگ کے لیے وسیع صاف ستھری جگہ ڈیم کے ساتھ ساتھ بنائی گئی ہے ۔ ہزاروں گاڑیاںپارک کی جا سکتی ہے ۔ فی گاڑی پارکنگ فیس پچاس روپے ہے۔
ہم نے گاڑیاں پارک کیں اور ڈیم کے نظاروں سے لطف اندوز ہو نے لگے یہاں جھیل کی شکل میں پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے ۔ بے شمار چھوٹی بڑی ہر طرح کی کشتیاں وہاں موجود تھیں ۔ آٹھ سو اریوں والی، سولہ سواریوں والی ، بیس سواریوں والی۔ آپ نے اپنی فیملی کے مطابق کشتی لے سکتے ہیں ۔ کرایہ مناسب ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے کرائے مقرر کر رکھے ہیں ۔ فی سواری اوسطاً پچاس روپے بنتے ہیں۔
در اصل خان پور ڈیم صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواکی سرحد پر واقع ہے۔ ٹیکسلا صوبہ پنجاب میں ہے اور اس کے بعد فوراً ادھرکے پی صوبہ کی سرحد شروع ہو جاتی ہیں گویا ہم ایک صوبہ سے دوسرے صوبہ میں پہنچ گئے ۔ جہاں خان پور ضلع ہری پور کا حصہ ہے ۔ ایک بڑی کشتی ہم نے لی، سب کو سیفٹی جیکٹ پہنائی گئیں اور کشتی پانی کی سیر کے لیے روانہ ہو گئی ۔ بڑی کشتیاں یعنی مناسب رفتا کے ساتھ چلائی جاتی ہیںجبکہ دو سواروں والی ایک سپیڈ بوٹ بھی مل جاتی ہے جو بہت تیز جاتی ہے۔ لیکن وہ ماہر لوگوں کو ہی لینی چاہیے کیونکہ اس کے الٹنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے ۔
بڑی کشتی کا ٹور دو طرح کا ہوتاہے ۔ ایک چھوٹا چکراور دوسرا بڑا چکر ، بڑے چکر کا کرایہ ڈبل ہوتا ہے ۔ ایک اور شاندار تفریح بھی وہاں موجود ہے کہ ایک کشتی کے ساتھ ساتھ آپ شوق کریں تو بیلون کے ذریعے ہوا میں اڑتے اڑتے بھی جا سکتے ہیں جیسے گلدائیڈنگ ہوتی ہے ۔ کئی شوقین حضرات اس غبارہ سواری کا لطف بھی اٹھاتے ہیں ۔
کشتی کی سیر سے واپس آئے تو سب بہت خوش تھے خاص طور پہ بچے تو بہت پر جوش تھے ہماری پوتی مریم تو شور مچانے لگی کہ ایک دفعہ پھر کشتی کی سیر کروائیں لیکن اسے راضی کرلیا کہ اب آپ کو اونٹ کی سواری کرائیں گے ۔ وہاں جگہ جگہ اونٹ والے موجود تھے ۔ انہوںنے ہر اونٹ پر چھ چھ آدمیوں کے لیے سیٹیں بنا رکھی ہیں ۔جب اونٹ زمین سے اوپر اٹھا تو اتنے جھٹکے لگے کہ جسم کا ایک ایک حصہ ہل گیا ۔ گھوڑے بھی گھڑ سواری کے لیے موجود تھے اور وہاں جھولے اور رائیڈز بھی ہیں خاص طور پر بڑی کشتی والا جھولا جس سے کچھ بچے ڈرتے ہیں اس لیے اس پر ہم نہیں بیٹھے ۔ اس دن موسم خوشگوار تھا اس لیے بہت لوگ آئے ہوئے تھے۔وہاں کھانے پینے کی اشیا بھی مل جاتی ہیں ۔ بلکہ اگر آپ چاہیں تو جھیل کی دوسری جانب اب خوبصورت ریستوران اور ہوٹل بھی بن گئے ہیں۔
ہم چونکہ ہر سال خان پور ڈیم جاتے ہیں تو اکثر ادھر دوسرے کنارے پہ کسی ریستوران میں چلے جاتے ہیں۔ وہاں پر سکون ماحول میں آرام دہ کر سیوں پہ بیٹھ کے جھیل کے نظاروں سے لطف اندوز ہوں۔ واش رومز بھی اچھے ہیں، آپ آرام سے وضو کر کے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اپنی پسند کے کھانوں ، چائے اور مشروبات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، آرام کر سکتے ہیں ۔ ادھر سے بھی آپ کو کشتیاں سیر کے لیے مل جاتی ہیں ۔ اگر آپ چاہیں تو مناسب کرایہ پر رات قیام کرنے کے لیے کمرے بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔کچھ دیر ہم جھیل کے نظاروںسے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ ابھی چونکہ مالٹے کے باغوں کی سیر باقی تھی اس لیے واپسی کا سفر اختیار کیا۔
کئی باغات سڑک کے ارد گرد آ رہے تھے ۔ ہم نے تین چار جگہ رک کے مالٹوں کا بھائو پوچھا آخر ایک باغ والے سے تیرہ سو روپے فی ایکڑ مالٹے پر سودا ہؤا ۔ ہم اس آدمی کے ساتھ اس کے باغ میں پہنچے ۔ کاریں باغ کے دروازے تک آسانی سے چلی گئیں ۔ پھر ہم سب باغ میںداخل ہو گئے … واہ قدرت کی کیسی بہار تھی ! ہر طرف درخت اور ہر درخت نارنجی رنگ کے مالٹوں سے لدا پھدا ۔ ہم نے باغ والے سے پوچھا کہ ایک درخت پہ قریباً کتنے مالٹے لگ جاتے ہیں تو اس نے بتایا کہ پانچ سو سے لے کر ایک ہزار مالٹے تک ایک درخت پر لگ جاتے ہیں۔
خود باغ میں جانے کا ایک الگ ہی لطف ہے ؎۱ باغ والے نے ہم سے کہا کہ آپ کوئی ایک درخت منتخب کر لیں اور اس سے اپنی پسند کے مالٹے اتار لیں لطف یہ کہ وہاں آپ کاٹ کاٹ کے مالٹے کھا لیںاس کے پیسے آپ سے چارج نہیں کیے جائیں گے ۔ ہم احتیاطاً چھری پلیٹ ساتھ لے گئے تھے تاکہ وہاں بھی مالٹوں سے لطف اندوز ہو سکیں ۔ بچے بے حد خوش تھے کہ یہ تو ایک طرح کی پکنک ہو گئی … پھر مالٹے گنے گئے ہم تینوں فیملیز نے سو سو مالٹے خرید ے ۔ مزید وہاں بعض اوقات گریپ فروٹ آپ کو مفت تحفہ کے طو رپر دے دیتے ہیں ۔
اچانک میری نظر پڑی تو باغ میں بڑے بڑے پیٹھا کدوپڑے ہوئے تھے ۔میں نے ان کی قیمت پوچھی تو کہنے لگے ہزار روپے دے دیں ۔ میںنے کہا ’’ پانچ سو روپے ‘‘ وہ فوراً مان گئے اور پانچ سو میں میں نے دو بڑے بڑے پیٹھا کدو خریدے ،ایک کا وزن دس کلو تھا اور دوسرے کا چھ کلو ۔ باقی دونوں فیملیز نے بھی دو دو خرید لیے۔ ان کا گوشت میں سالن بھی مزیدار رہتاہے اور پیٹھے کی مٹھائی اور حلوہ ( تھوڑی سی سوجی بھون کے ساتھ ملائی جائے ) بھی مزیدار بنتا ہے ۔
باغ میںکچھ وقت گزار کے ہم باہر آئے ۔ اب کھانے کا پروگرام بنا راستے میں سڑک کنارے جگہ جگہ آپ کو ریستو ران نظر آئیں گے ۔ کہیں شنواری کڑاہی ، افغانی پلائو ، چپلی کباب، کہیں پنجابی کھانے۔ بہرحال ہم ایک مناسب ریستوران پہ رکے وہاں فیملیز کے بیٹھنے کے لیے الگ ہال تھا اس لیے آرام سے بیٹھ گئے ۔ کھانے کا آرڈر دیا ۔ ویٹر بڑے اچھے تھے بھاگ بھاگ کے آرڈرز لے رہے تھے۔
کھانا چن دیا گیا ، بہت ورائٹی تھی ۔ افغانی پلائو، چکن کڑاہی ، قیمہ مٹر، مکس سبزی، دال ماش ۔ سب کچھ تھا اور مزیدار تھا ، تازہ تھا اور گرم گرم ۔ پھر مزہ یہ کہ روٹیاںتندور سے گرما گرم مل رہی تھیں جس سے کھانے کا لطف دوبالا ہو گیا ۔ خوب سیر ہو کے سب نے کھانا کھایا ۔ کھانے کے بعد پشاوری قہوے سے لطف اندوز ہوئے ۔
ہم کوئی پندرہ سولہ افراد تھے۔ کل تین ہزار بل بنا جو بہت مناسب تھا ۔کھانا کھانے کے بعد دوبارہ واپسی کا سفر شروع ہؤا۔
راستے میں ایک اور قابل دیدچیز آپ کو نظر آئے گی ۔ جگہ جگہ پتھر کے بنے ہوئے برتن ، خوبصورت چھوٹے چھوٹے پلنگ، پیڑھیاں، دوری ڈنڈا ، گلدان ، جانوروںکی شکل کے کھلونے ، کافی ورائٹی ہوتی ہے ماربل کی بنی چیزیں بھی مل جاتی ہیں ۔ ہم ایک دکان پہ رکے اور بچوں نے اپنی اپنی پسند کی چیزیںخریدیں۔ ہماری پوتی مریم نے ایک رنگ برنگی پیڑھی خریدی ، پتھر کی بنی دوریاں بھی خریدیں ۔ مناسب قیمت پہ یہ چیزیںمل جاتی ہیں ، استعمال میں بھی آتی ہیں اور ان میں ثقافتی رنگ بھی ہے۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ خان پور ڈیم کے قریب ہی آگے سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کا گائوں ’’ ریحانہ‘‘ بھی ہے ۔ آج کل ایوب خان کے پوتے عمر ایوب اس علاقے سے ممبر قومی اسمبلی ہیں اور وزیر بھی ہیں ۔ صدر ایوب نے جب اسلام آباد کی بنیاد رکھی تھی تو یہ منصوبہ بھی بنایا گیا کہ مارگلہ کی پہاڑیوںمیں ایک ٹنل بنائی جائے اس طرح اسلام آباد سے ریحانہ اور ہری پوری کا سفر بڑا مختصر اور آسان ہو جاتا ہے ، لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا ۔ اب مارگلہ پہاڑیوں کے اوپر سے ایک چھوٹی سڑک جاتی ہے ۔ پہلے اسلام آباد سے دامن کوہ پھر وہاں سے پیر سوہا وہ جو سطح سمندر سے قریباً پانچ ہزار فٹ بلند ہے اور یہاں ایک مشہور ریستوران بھی ہے جہاں چھٹی کے دن بہت لوگ کھانا کھانے جاتے ہیں ۔
پیر سوہا وہ پنجاب میں ہے اس کے بعد خیبر پختونخوا کی پہاڑیاںشروع ہو جاتی ہیں اور ایک چھوٹی سی سڑک ہری پور کی طرف جا نکلتی ہے ۔ ابھی اس پر پبلک ٹرانسپورٹ نہیںچلتی۔اگر اس سڑک کو ذرا وسیع کر دیا جائے تو گاڑیاں آسانی سے اس پر سفر کر سکیںاور ایبٹ آباد جانا اور بھی آسان ہوجائے ۔
ہم رب کریم کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اس خدا ئے عظیم و برتر نے ہمیں چاروں موسم ( ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب تو بارہ موسم بتاتے ہیں ) عطا کیے ہیں ۔ موسم گرما ، موسم سرما، موسم بہار ،موسم خزاں ، چلیں برسات کا موسم بھی کہہ لیں ۔
اور اللہ نے ہمارے ملک میںقسم قسم کے خوش رنگ اور خو ش ذائقہ پھل بھی عطا کیے ہیں ۔ مالٹے ، کینو ، خوش رنگ اور خوش ذائقہ میٹھے سیب، سندر خانی اعلیٰ انگور ، پھلوں کا بادشاہ آم، ( جوساری دنیا میں پسند کیاجاتا ہے ۔ خاص طور پہ چونسہ آم)، کیلے ، خوش رنگ فرحت بخش چیری اور لیچی ، سٹرابیری ، خوش رنگ انار ، ناشپاتیاں ، امرود ، مزیدار آلو بخارہ ، انناس، پپیتا، چیکو اور رنگ برنگے شہتوت، اخروٹ ، جامنی اور سیاہ رنگ کے جامن جوموسم برسات کی سوغات ہے ، گرمے ، سردے ، خوش ذائقہ خربوزے اور اندرسے لال سرخ گرمی بھگانے والے تربوز، زبردست آلو بخارہ ، پیلے رنگ کے میٹھے لوکاٹ، قسم قسم کی کھجوریں ، فرحت بخش پانی والے ناریل … غرض مقدار اور معیار میں اتنی اچھی پھلوں کی ورائٹی شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ہو۔
پھر قدرت نے ہمیںانواع و اقسام کی بہترین سبزیوں سے نوازا ہے ۔ کیا کیا نام لکھوں۔ بھنڈیاں ، توریاں، کدو ، ٹینڈے ،شلغم، پالک ، آلو ، بینگن ، مٹر ، پھلیاں ، مونگرے، میتھی ، چولنگا ں، کچنار،اروی ، مولی، گاجر، کھیرے، سلاد ، خوشبو دار کریلے ، تین چار قسم کی گوبھی ، سرسوں کا ساگ (مکئی کی روٹی کے ساتھ کیا مزہ دیتا ہے ) ، ٹماٹر ، پیاز، آلو ، الغرض اللہ کی کن کن نعمتوں کا ذکر کروں ۔ خدا نے ہمیں ہر طرح کی اجناس (غلے)سے بھی نواز ہے ۔ گندم ، چاول، باجرہ، مکئی ، گنا، شکر قندی، مونگ پھلی، نقد اجناس ، کپاس وغیرہ ۔ اب تو زیتون کی کاشت بھی ہمارے ملک میں چکوال کے علاقے میں اور مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میںشرو ع ہو چکی ہے ۔ ہم پھر عزیز بھٹی شہید ( نشان حیدر) کے بھتیجے مختار احمد بھٹی کے فارم ہائوس پر گئے جو مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں ہے وہاںانہوںنے زیتون کے پودے کاشت کیے ہیں۔
خدائے برتر نے ہمیں خوبصورت پہاڑ ، وادیاں ، صحرا ، دریا ، ندی نالے سر سبز کھیت، وسیع میدانی علاقے سبھی کچھ تو عطا کر رکھا ہے ۔ بس ہم سب اس کا کما حقہ شکر ادا نہیں کرتے ۔
اگر ہم سب پاکستانی امانت ، دیانت اور محنت کو اپنا شعار بنا لیں اور ہمارے سیاسی لیڈر امانت و دیانت کے اصول اپنا لیں ہمارے افسران بھی عوامی خدمت کے جذبے سے سر شار ہوں ۔ ہم سب خدا اور اپنے پیارے رسول پاک حضرت محمد ؐ کی تعلیمات کے مطابق زندگیاں بسر کرنا شروع کر دیں تو ہمارا پاکستان ایک خوشحال اور دنیا کا بہترین ملک بن سکتا ہے اور ہم ایک عظیم پاکستانی قوم بن کر ابھر سکتے ہیں (انشاء اللہ)۔

٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x