ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

بُرے القاب سے مت پکارو – بتول جنوری ۲۰۲۲

کسی بزرگ کا قول ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ دوسروں کے دل میں تمہاری عزت و احترام ہو تو تمہیں چاہیے کہ لوگوں کو ان کے پورے نام سے مخاطب کرو۔ کسی کو برے القاب سے مخاطب کرنا بھی بد اخلاقی و حقارت آمیزرویہ کی قسم ہے ۔
معنی و مفہوم
برے القاب سے منسوب کرنے کا مطب یہ ہے کہ کسی متعین شخص کو ایذا پہنچانے کی نیت سے کوئی لقب دینا یا کسی ایسے لقب سے منسوب کرنا جس سے مخاطب کو نا حق تکلیف پہنچے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں :
’’اور آپس میں ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو اور نہ ہی کسی کو برے لقب دو ۔ ایمان لانے کے بعد گنہگاری برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں ‘‘۔( سورہ الحجرات۱۱)
نبی کریم ؐ جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں ہر شخص کے دو دو تین تین نام تھے حضور ؐ ان میں سے کسی کو کسی نام سے پکارتے تو لوگ کہتے یارسول اللہ ؐ یہ اس سے چڑتا ہے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح احکامات نازل فرمائے اور اس فعل کی سختی سے ممانعت کی گئی اور پھر آپ ؐ نے فرمایا:
’’ ایمان کی حالت میں فاسقانہ القاب سے آپس میں ایک دوسرے کو نامزد کرنا نہایت بری بات ہے ۔ اب تمہیں اس سے توبہ کرنی چاہیے ورنہ ظالم گنے جائو گے‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر : جلد نمبر 4)
وضاحت
تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کو طعنے نہ دے پھر فرمایا کسی کی کوئی چڑ نہ نکالو جس لقب سے وہ ناراض ہو تا ہو اس لقب سے نہ پکارو نہ نامزد کرو‘‘۔
کسی کا نام بگاڑنا ، برے القاب سے پکارنا یا طنزاً کوئی ایسا لقب یاکنیت سے پکارنا جوکسی کے لیے اذیت یا دل آزاری کا باعث بنے ، گناہ کا کام ہے ۔
ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ ا س کا یا اس سے جُڑے اس کے محبوب لوگوں کوکوئی برے الفاظ سے مخاطب کرے ۔ نام کا شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے ۔ والدین بچو ںکے نام خوب سوچ سمجھ کر معنی و مفہوم دیکھ کر تجویز کرتے ہیں لیکن بعد میں پیار سے مخاطب کیے گئے نام مشہور ہو جاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو اس کے اصل نام سے پکارا جائے ۔اور وہ اس میں زیادہ عزت محسوس کرتےہیں۔اسی لیے والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے بچوں کوان کے اصل نام سے مخاطب کریں۔
ہمارے معاشرہ کا المیہ ہے کہ یہا ں کسی کی دل آزاری کرنا معیوب نہیں سمجھاجاتا ۔ کسی کا نام بگاڑناایک غیر اخلاقی حرکت ہے جس کی وجہ سے کس کی دل آزاری ہوتی ہے اور ساتھ ہی کئی برائیاںجنم لیتی ہیں جن میں بد گمانی ، نفرت و کینہ اور بعض وعداوت پیدا ہونا قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ متعین شخص کودلی رنج و تکلیف پہنچتی ہے اور نفساتی طور پر متاثر ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے یہ سب باتیں شرعیت میں ممنوع ہیں ۔جیسا کہ حدیث نبوی ؐ ہے:
’’مسلمان کو اذیت نہ دو انہیں عار نہ دلائو اوران میں عیوب مت تلاش کرو کیونکہ جوشخص اپنے مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا ہے او رجس شخص کی عیب گیری اللہ کرنے لگے وہ

ذلیل ہو جائے گا ۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو‘‘۔(جامعہ ترمذی :جلد اول، حدیث نمبر 2121)
اسی طرح ایک اور جگہ نبی کریم ؐ فرماتے ہیں کہ:
’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اورہاتھ سے دوسرےمسلمان ایذا نہ پائیں ‘‘۔(صحیح بخاری ، جلد اول حدیث نمبر9)
برے القاب سے پکارنا بد زبانی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیث میں ارشاد ہؤا ہے ۔
’’ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کوچاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ‘‘۔(صحیح بخاری ،جلد سوم، حدیث نمبر 977 )
حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ:
’’ زبان وہ چیز ہے جودشمن کو دوست اوردوست کو دشمن بناتی ہے‘‘۔
اسلام دین کا مل ہے ۔ اسلام زندگی کے تمام فکری ، اخلاقی اور روحانی پہلوئوں سے انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے ۔ ایک مہذب معاشرہ اسی وقت وجود میں آ سکتا ہے جب اس میں بسنے والے تمام لوگ آپس میں ایک دوسرے سے پیار و محبت ، عزت و احترام سے پیش آئیں ۔
٭

 

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x