ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محبت کے رنگ – بتول فروری ۲۰۲۲

ہر طرف سرخ رنگ بکھر رہا ہے کہ یہ محبت کا رنگ ہے، خوشی کی تلاش ہے، محبت کی امنگ ہے۔ اس دل کے نشان اور سرخ رنگ کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ اور اس کہانی کی آڑ میں کتنے دل بہلاوے ہیں۔ دل کی خلش کو ختم کرنے کے کتنے جواز ہیں؟ ’’محبت‘‘ کے لفظ کے پردے میں کیا کیا تماشے ہیں؟ ہر تماشے پہ نفس کی اجارہ داری ہے۔ شیطان کی پھیلائی ہوئی دل فریبیوں میں کتنے ایمان والوں کا امتحان ہے۔ اور اس امتحان کے کتنے رنگ ہیں۔ ایک پرائی تہذیب اچانک، ایک دن یا ایک عمل سے کسی تہذیب پر قبضہ نہیں کر سکتی۔ خوشیوں محبتوں کے رنگ اتنی آسانی سے غیروں کے رنگ میں نہیں رنگ جاتے۔ قوموں کی زندگی پل بھر میں نہیں بدل جاتی۔ پہلے کسی ایک فرد کی سوچ کا رنگ تبدیل ہوتا ہے وہ فرد اپنی سوچ کو دیوار پر چپکا دیتا ہے جیسے مٹھائی والے کی دکان پر کوئی انگلی شیرے میں ڈبو کر اس انگلی سے دیوار پر ایک میٹھا قطرہ لگا دے اور پھر اس دکان کے سارے منظر بدل جاتے ہیں۔ ابتدا تو بس ایک ذرا سی مٹھاس سے ہوئی، جس کی بظاہر کوئی وقعت بھی نہ تھی۔ آج ساری امتِ مسلمہ حلوائی کی دکان ہے اور میڈیا شیرے میں ڈبوئی انگیم دیوار پر چپکا دیتا ہے۔ یہ جو محبت کے نام پر تہذیب کا رنگ بدلا گیا، کیا یہ آج کی کہانی ہے۔ جب کوئی قوم اپنی ‘‘زبان‘‘ بدلتی ہے تو پھر ’’بیان‘‘ بھی بدلنا پڑتا ہے۔ ’’بیان‘‘ کرنے کے لیے وہی کچھ پڑھنا ہوتا ہے جس کی’’زبان‘‘ استعمال ہو رہی ہو۔
کسی قوم کے صبح و شام اپنے نہیں رہتے اور دن رات کا کوئی پیراہنا نہیں رہتا جب وہ ’’تاریخ‘‘ اپنی نہ استعمال کرے۔ دن اور صبح و شام اپنی ’’زبان‘‘ کے نہ رہیں تو کھانے پینے کی’’تہذیب‘‘ اپنی نہیں رہتی۔ جب قوم دوسروں کے سامنے اپنے’’اوقات‘‘ کی پرواہ نہ کرے تو منزل کی سمت ہی بدل جاتی ہے۔
جب منزل کا رخ ہی بدل جائے تو پھر جذبات بھی اپنے نہیں رہےا وہ بھی ادھار لینے پڑتے ہیں۔ منزل بدل جائے تو راستہ بدلنا پڑتا ہے اور راہ بدل جائے تو منزل بدلے کی اجازت نہیں لینی پڑتی۔ کوئی کوشش اور تگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔ جب قافلے اپنی راہ بدل لیں تو ساتھی خود بخود بدل جاتے ہیں۔ اسی طرح محبتوں کا فیضان بہت سی آرزوؤں کا رنگ بدل دیتا ہے۔ جیسے آج ہمارے اردگرد ایسی آرزوؤں کی فراوانی ہے جس کے رنگ کچے ہیں۔ ان کچے رنگوں کو ہم اپنے دلائل سے پکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً:
یومِ محبت منانے سے ہماری مراد ہر رشتے کی محبت ہے۔ ویلنٹائن کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے اگر آج کسی کو تحفہ دے دیا جائے۔ خوش ہونے کی کوئی قید تونہیں۔ اتنی دکھ بھری دنیا میں کوئی دن تو محبت کے لیے ہو۔
محبت تو اللہ کی طرف سے تحفہ ہے۔ لو بھئی ہم اپنی بہنوں، سہیلیوں کو ہی تو wish کر رہے ہیں۔
ہرعقل دلائل دیتی ہے اور معزز شریف اور دین دار گھرانوں میں بھی یہ دلائل اپنا رنگ دکھاتے نظر آتے ہیں۔ گویا کہ یہ محبت کا دن کوئی ایسا تہوار ہے جس کو اسلامی لباس پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جیسے سود، رشوت، شراب کے نام بدل کر ان کو حلال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ابھی ہم بات کر رہے تھے صبح و شام اور دن رات کے اوقات، اور تاریخ بدلنے کی۔ ذرا غور کریں کہ جب ہم نے اپنی ہجری تاریخ کا ذکر کرنا چھوڑ دیا تو کتنے اسلامی واقعات کو محض سرسری نظرسے اخبار و رسائل میں دیکھا جانے لگا۔ چاند کی تاریخوں کو تو بس ہم نے رمضان المبارک کے لیے یاد رکھا۔ قمری مہینوں اور دنوں کے نام بھول گئے۔ یہ تسلی دے کر کہ سارے دن اور مہینے اللہ کے ہیں۔ کھانے پینے کے اوقات کو ہم نے پرائی تہذیب

کا لبادہ اوڑھا دیا تو پھر نمازوں کا انتظار، نماز کی یاد اور تلقین سے ذہن خالی ہو گئے۔ کبھی صبحانہ، ظہرانہ، عصرانہ اورعشائیہ ہوتا تھا جس سے نمازوں سے قربت کا احساس زندہ رہتا تھا۔
زندگی مکہ اور مدینہ کے قرب و جوار میں رہتی تھی جب حیات و ممات کے ساتھ عربی مہینے اور ہجری سال کا ذکر لازمی ہوتا تھا، ذہن اپنی تاریخ سے منسلک رہتا تھا۔ سچی بات ہے کہ جب سال مہینے، دن رات، صبح و شام، اور دن کے اوقات پہ غیروں کی تہذیب کا رنگ چڑھ جائے تو پر قلبی جذبات بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ باہمی رشتوں کی دلی مٹھاس بھی’’انکل آنٹی‘‘ کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ محبت کرنے اور خوش ہونے کے لیے کیا ہمارے پاس کوئی تہذیب نہیں ہے؟ مسلمان جس کا دین امن و محبت اور احساسِ طمانیت سے شروع ہوتا ہے۔ خوشی، اطمینان اور محبت کے سرور کے لئے غیروں کا دستِ نگر ہوسکتا ہے؟ مومن و مسلم ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ محبت اور امن کا سفیر ہے۔ سلامتی کا پیغامبر ہے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ محبت واخوت کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ مواخاتِ مدینہ سے بڑھ کر محبت کی کوئی مثال دنیا میں پائی جاتی ہے؟ محبت کا اس سے بڑا کوئی دن، کوئی معاملہ ہے کسی تہذیب کے پاس؟ ربِّ کائنات نے اسے ایک ہی رنگ عطا کیا ہے۔ خوشی کا رنگ، اطمینانِ قلب اور سرور کی کیفیت اسے ہر جگہ، ہر حال میں عطا کی گئی ہے۔ نیکی کرنے کا کوئی خاص لمحہ یا وقت مقرر نہیں، تو مسلمان جب بھی نیکی کرتا ہے اسے خوشی ملتی ہے۔ جب وہ اپنے رب سے دن میں پانچ بار ملاقات کرتا ہے تو اسے راحت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ کی محبت سے سرشار وہ جب اللہ کے بندوں سے خیر خواہی کا معاملہ کرتا ہے تو جواباً اسے محبت کا لازوال خزانہ عطا ہوتا ہے۔
مومن کے لئے ہر دن محبت کا دن ہے۔ ہر رشتہ محبت کا رشتہ ہے۔ انسانیت کا رشتہ، دین کا رشتہ، صلہ رحمی کرنے کی خوشی وطمانیت، حتیٰ کہ ہر جان دار نباتات و جمادات کے ساتھ لگاؤ، وہ تعلق جو محبت کے ابدی احساس کے ساتھ جڑا ہے یعنی ان تمام چیزوں کے مالک سے تعلق کا رنگ۔ ربِّ کائنات سے محبت کا رنگ۔ جب دل اس رنگ میں رنگ جاتا ہے تو ہر چیز میں اس کا رنگ نظر آتا ہے۔ آسمان کی وسعتیں ہوں، زمین کی پہنائیاں ہوں، کوئی بھی مقام ہو کوئی بھی وقت ہو، زندگی کا کوئی بھی لمحہ ہو اسی کا رنگ نمایاں رہتا ہے۔ اور اس کے رنگ سے زیادہ پختہ رنگ کون سا ہو سکتا ہے؟ صِبغةَ اللہِ ومَن احسنُ مِنَ اللہِ صِبغة۔ اس رنگ میں رنگے سارے رنگِ محبت ہمارے ہیں۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x