ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

دم ساز – بتول اکتوبر ۲۰۲۱

وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے گھر لے گئیں۔میں پہلے ہی ان کی خاموشی سے سہمی ہوئی تھی اور اب یہ اصرار…… ساتھ چلتی چلی گئی۔ گھر کے لاؤنج میں کتب پھیلی ہوئی تھیں۔ایک طرف کینوس کلر ،تو دوسری طرف گتے ،اسٹیشنری اور نہ جانے کیا کچھ اور ساتھ ہی بچوں کا شور…… کشن ادھر ادھر پڑے ایک الگ ہی ماحول بنا رہے تھے۔بچے امی امی کہہ کر ان سے لپٹ گئے ۔انھوں نے پرس سے کچھ نکال کر نو سالہ بیٹی کو پکڑایا اور ساتھ ہی اشارتاً کچھ سمجھایا ۔
وہ جہاں سے مجھے اندر لے گئیں وہاں سے پورے گھر کو جانچنے کے لیے ایک نظر ہی کافی تھی ، جو بتا رہی تھی کہ لاؤنج کے سواباقی جگہیں مرتب تھیں ۔ پھر بھی لاؤنج کایہ منظر میرے تصورات سے الگ ہی تھا ۔ میرے ذہن میں وہ ایک آئیڈیل شخصیت تھیں۔ان کے گھر اور بچے عام گھروں سے یقیناً مختلف ہو نے چاہئیں تھے۔
مجھے لیے وہ سیدھا کچن میں چلی آئیں۔انھوں نے کھانے والی میز کی کرسی گھسیٹ کر جیسے بیٹھنے کا اشارہ کیااور خود عبایا اتار کر چولہے کی طرف بڑھ گئیں۔ مجھے تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔کچن بھی بکھرا پڑا تھا۔ان کی دلآویزشخصیت کے ساتھ ان کے گھر کا یہ منظر مجھے بالکل جچتا ہؤا نہ لگا۔
ٹرے میں چائے کے دو کپ اور کچھ اسنیکس لیے جب وہ سامنے آ بیٹھیں تو جیسے مجھے بھی ہوش آیا۔چائے بننے کے دوران پورا کچن بھی سمٹ چکا تھا۔ وہ مجھے خاموشی سے جانچ رہی تھیں اور میری دھڑکنیں گویا رک رہی ہوں ۔
جو دھچکا ان چند لمحوں میں مجھے لگا تھا اس سے سنبھلنا حقیقت میں بہت مشکل تھا۔ میں نے کسی عام لڑکی سے کبھی دوستی بھی نہیں کی تھی۔اور اساتذہ چند ہی تھے جن سے میں متاثر تھی۔ یہ ٹیچر میری پسندیدہ ترین تھیں جو پروقار اور دلکش شخصیت کی مالک ہی نہیں، ان کی باتوں میں بے اندازہ اثر تھا جو سیدھی دل میں اترتی تھیں۔ان سے کوئی بھی بات کرنے میں جھجک نہیں ہوتی تھی۔پورا کالج ان کا احترام کرتا ،وہ جیسے مجمع خلائق تھیں۔میں اکثر اپنی الجھنیں انھیں بتایا کرتی۔وہ مسئلہ کی تہہ تک پہنچ جاتیں اور غیر محسوس انداز میں اسے رفع کرتیں۔ ہم سب سہیلیاں ان سے عقیدت کی دعوے دار تھیں۔ ایک بات جسے وہ سلجھا نہ پائی تھیں کہ میں پرفیکشنسٹ تھی۔ آج کالج سے واپسی پر وین میں ان کے ساتھ تھی ۔ یہ وقت غنیمت تھا ۔میں نے سب الجھنیں کہہ ڈالیں۔
چائے بھی میں بے خیالی میں پی رہی تھی ،اندر ایک جنگ جو جاری تھی۔
اب کے انھوں نے مسکراتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ ا ۔اب ایک بار پھر اسی راستے سے گزرے جہاں سے اندر داخل ہوئی تھی ۔وہاں نہ تو بچے تھے اور نہ ہی کسی بے ترتیبی کے آثار ۔سب چیزیں ترتیب میں آچکی تھیں اور ایک خاتون پوچا لگانے میں مصروف تھیں۔میں ایک بار پھر بولنے کے قابل نہیں رہی تھی ۔متضاد کیفیات تھیں۔
اب وہ مجھے اپنے بیڈ روم میں لے گئیں۔سادہ سے فرنیچر سے آراستہ ، صاف ستھراپرسکون سا بیڈ روم،تازہ خوشبو لیے، ان کی شخصیت کی طرح۔ عجیب سکینت سی محسوس ہوئی۔پچھلی طرف کے صحن سے بچوں کے شوراور جھگڑنے کی آوازیں آ رہی تھیں اور انھوں نے جیسے کان بند کیے ہوئے تھے۔
بیڈ پر ساتھ بٹھا کر مسکراتے ہوئے بولیں ۔
پریشان نہ ہو ان کے ساتھ ان کی دادی جان اور پھپھو ہیں ۔اب میں تمھیں سب بتاتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ گھر میں داخلے کے وقت

تمھارے اندر موجود آئیڈیل کا پیمانہ بری طرح متاثر ہوا ۔ پھر جھٹکا تمھیں تب لگا جب بکھرے گھر کو تھوڑی ہی دیر بعد تم نے سمٹا ہؤا پایا ۔تم حیران ہو کہ چائے پینے کے دوران جادو کی چھڑی کیسے پھر گئی۔
بات یہ ہے کہ گھر کو دن میں کئی بار الٹا ہونا ہی ہوتا ہے۔یہ شو روم نہیں آرام کی جگہ ہے،سکون کا مقام۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ یہاں کوئی اصول وضوابط نہیں۔ اس کے بھی اصول و ضوابط ہیں لیکن دفتر سے قطعاً مختلف کہ اس کی پیدا وار بہت خاص ہے۔یہ بچےجو گھر کے پھول اور اس باغ کی رونق ہیں اور اس کی اصل ہیں،ظاہری ٹیپ ٹاپ سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔چھلانگنا ،پھلانگنا، بکھیرنا اس عمر کی فطری ضرورت اور قیمتی ترین عمل ہے۔ اتنا قیمتی کہ اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ یہ لاکھوں کا فرنیچر عذاب ہے اگر یہ ان کے فطری تقاضوں کی تکمیل میں رکاوٹ بن جائے۔تکیوں کا اس سے زیادہ قیمتی استعمال کیا ہو سکتا ہے کہ بچے انھیں ادھر ادھر پھینکیں، ہنسیں، کھیلیں،قہقہے لگائیں ان لمحوں سے زندگی کشید کریں۔ عمر کے اس حصے میں یہی فطری تعلیمی عمل ہے۔دس سال کی عمر خوب کھیل کود کی عمر ہے۔ لڑنے جھگڑنے،کھلونے شئیر کرنے، اور پھر دوستی کرنے کے عمل میں جو لرننگ ہےاس کو آج کے دور میں سوشل اسکل کہا جاتا ہے جو کسی بھی میدان میں کامیابی کی نمایاں ترین اور اہم ترین مہارت ہے۔کووڈ میں میں نے تو شکر کیا ہے کہ ان کی معاشرتی مہارتوں کو نکھارنے کا، فطری ضروریات کی تکمیل کا وقت ملا ہے۔ ورنہ یہ سب تو گزرے وقتوں کے قصے بن گئے تھے ۔میں نے خود اس دوران بچوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ہفتے میں ایک دن بچوں کےسب کزنز کو اکٹھا کر کے ایک سرگرمی ترتیب دی ہے۔ ایک گھنٹہ کھیلنے کے لیے اور پھر جو کچھ اس ہفتے کے دوران سیکھا وہ شئیرنگ کرتے ہیں۔یہ سب میرے کہنے پر نہیں ان کے اندر کا تحرک ہے۔ میں تمھیں ان کی سرگرمیوں کے نمونے دکھاتی ہوں ۔
وہ ایک الماری کی طرف بڑھیں۔اب وہ پینٹنگ، خطاطی، ڈرائنگ،نقشے ،اور نہ جانے کیا کچھ دکھا رہی تھیں ۔پھر انھوں نے کچھ ڈائریاں دکھائیں جن میں سب نے اپنے روزانہ کے معمولات لکھے تھےاور یہ بھی لکھا تھاکہ اگلے دن وہ کیا کریں گے ۔بہت معصومانہ اور چھوٹے چھوٹے جملے تھے۔
یہ ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہے۔وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔
رات کو سب ایک ایک کر کے کہانی بھی سناتے ہیں ۔یہ انکی بات چیت کی مہارت کو بڑھا رہا ہےجسے دنیا کنگ اسکل کہتی ہے۔ اس سے پہلے وہ یہاں سے تیاری کرتے ہیں۔
وہ لاؤنج میں ایک الماری کی طرف اشارہ کر رہی تھیں جہاں ہر بچے کے لیے الگ حصہ مختص تھا۔اس کا اندازہ ان کے نام کی لگی تختیوں سے ہو رہا تھا۔ ہر ایک کا مختلف انداز اس کے مختص حصے کی ترتیب سے ظاہر تھا۔ بچوں کے رسائل و کتابوں کی الماریوں کے ساتھ دو بڑی الماریوں میں شاید ان کی اپنی کتابیں رکھی تھیں۔ نیچے کی قطار میں کتب کے عنوانات اوپر نیچے،اور کچھ الٹی سیدھی رکھی تھیں۔
مسکراتے ہوئےوضاحت کرنے لگیں۔
چھوٹی فاطمہ ابھی پڑھ نہیں سکتی تو اپنے حساب سے ترتیب دیتی رہتی ہے۔اور یہ اس وقت سے کرتی ہےجب اس سے کتابیں اٹھائی بھی نہیں جاتی تھیں۔
اب میں ایک الگ ہی کیفیت میں تھی۔جہاں ذہنی تغیرات نے مجھے تھکایا تھا وہاں عجیب تازگی بھی ملی تھی۔
موبائل پر امی کی کال سے میں جیسےہوش میں آئی ۔وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا تھا ۔امی دیر ہو جانے پر پریشان ہو گئی تھیں۔ انھوں نے میرے لیےرکشے والے کو فون کیا اور گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بولیں ۔
ایک بجے تک کا وقت سرگرمیوں کا ہے۔میں انھیں بالکل نہیں روکتی ۔اس جگہ کی سیٹنگ بھی سب نے اپنے حساب سے کی ہے۔اس کو ’’گوشہ سرگرمی‘‘ کا نام بھی بچوں نے دیا ہے ۔ظہر سے پہلے سب اپنی سب چیزیں سمیٹ لیتے ہیں۔انہیں چیزوں کو واپس ترتیب سے رکھنا ہوتا ہے کہ گھر کی ترتیب اور سلیقہ، اشیائے ضرورت کی حفاظت بھی ایک لازمی سکل ہے جو ان میں پیدا ہونی چاہیے۔میں کچن میں اور ماسی گھر میں

جھاڑو پوچا کرتی ہے۔بچے نماز دادی جان کے کمرے میں پڑھتے ہیں ۔ اس کے بعد پچھلے حصے میں چھوٹا سا باغیچہ ہے ۔سب نے اپنی اپنی کیاریاں بنائی ہیں۔ہم سب دن کا ایک حصہ ان پودوں کے ساتھ بھی گزارتے ہیں۔عصر کی نماز سے مغرب تک چہل قدمی کا وقت ہے۔
میں اللہ کا شکر کرتی ہوں اور مجھے ان لوگوں کا خیال آتا ہے جو ایک دو کمروں کے گھروں میں رہتے ہیں۔کتنی مشکل ہوتی ہو گی سب کچھ منظم کرنے میں کہ یہ مشکل ترین کام ہے۔پریشان نہ ہو ایک وقت تھا میری سوچ بھی تم سے قطعاً مختلف نہ تھی۔مجھے بھی ہر چیز مکمل چاہیے تھی۔میرے بھی خاص پیمانے تھے۔ تب اللہ نے ایک مربی عطا کیں جنھوں نے گھر کے بارے میں بتایا کہ اصل میں گھر کیسا ہوتا ہے۔اس کا مقصد بتایا کہ اس ادارے میں سب سے اہم کیا ہے،ترجیحِ اول کس کوبنایا جائے۔ اور یہ بھی سکھایا کہ ایک نظر یا چند ملاقاتوں میں کبھی کسی کے بارے میں رائے قائم نہ کی جائےکہ لمحے لمحے میں فرق ہوتا ہے۔اسی سے اندازہ لگاؤ کہ اس وقت کی ترتیب سے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ آدھا گھنٹہ پہلے یہاں کیسا طوفان بپا تھا ۔
اس لیے اللہ ربی نے تعلیم دی کہ بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔دوسروں کو نقصان نہ بھی ہو یہ گمان ہماری نیکیاں کھا جا تے ہیں اور دل کے اندر بغض اور کینہ جیسی بیماریوں کو راہ دیتے ہیں ۔ ہم انسان کمی کے ساتھ ہیں۔مکمل اور نقص سے پاک تو صرف اللہ کی ذات ہے۔ہم انسانوں کو پرفیکشن جچتی ہی نہیں۔
آٹو کی آواز پر میں انھیں خدا حافظ کہتے باہر نکل آئی۔ اس ایک گھنٹے نے سوچوں کی دنیا بدل ڈالی تھی۔کہاں تو آج جب میں ان کے ساتھ وین میں بیٹھی تھی تو جیسے اندر سے بھری ہوئی تھی۔میں نے انھیں اپنی بھابھی کے متعلق بتایا تھا ۔ اپنے بھائی کی قسمت پر بھی افسردگی دکھائی تھی ،نہ جانے بے بدنظمی میں کیسے گزارا کرتے ہیں اور دوسری طرف بچوں کی اچھل کود کو بدتمیزی میں شمار کیا تھا۔اپنے گھر کی خاموشی اور ترتیب مجھے بہت بھاتی تھی، مگر اب وہ خیال و خواب تھی۔بھائی کے بچے وہ طوفان اٹھاتے کہ بس۔
وہ خاموشی سے سنتی رہی تھیں ۔انھیں شاید اسی لمحے کا انتظار تھا جب میں ان کے سامنے ایسی الجھنوں کاخود تذکرہ کروں ،وہ مسئلے کی جڑ کو پکڑیں اور مجھے میری خود ساختہ دنیا سے باہر نکالیں۔اسی لیے اپنے گھر اترتے ہوئے وہ مجھےبھی اپنے ساتھ ہی لے آئیں۔
ان کے گھر نے خود ہی مجھے بہت کچھ بتا دیا تھا اور وہ یہ کہ یہ آئیڈیل وغیرہ اکثر کچھ نہیں ہوتا نظروں کا دھوکا ہوتا ہے۔سب گھر اصل میں ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ کہیں بھرم رہ جاتا ہےتو کبھی سب کیے پر پانی پھر جاتا ہے۔ یہ انسانوں کی دنیا ہے۔تکمیل کا سوچنا بے وقوفی ہی نہیں ایک بیماری بھی ہے ۔جہاں صفائی اور ترتیب کا خبط ہو وہاں بہت کچھ غلط ہو جاتا ہے اور اندازہ تب ہوتا ہے جب بہت کچھ بگڑ چکا ہوتا ہے۔چوبیس گھنٹے کی ٹیپ ٹاپ کا چکر بچوں کو ذہنی مریض بنا دیتا ہے،ان کی صلاحیتیں، مہارتیں دب جاتی ہیں اور ان سے تعلق میں آنے والے لوگ زندگی بھر ان رویوں کو بھگتتے ہیں۔
اور دوسری طرف ایک اور انتہا بھی ہے ۔کاہلی، سستی ،طبیعت میں موجود بدنظمی کی بنا پر گھر میں بے ترتیبی ۔یہ شخصیت کے نقائص ہیں اسی لیے احادیث مبارکہ میں ان سے پناہ مانگی گئی ہے۔ ہمارا دین صفائی کو نصف ایمان قرار دیتا ہے ۔طہارت ونظافت کو فرائض کی شرط قرار دیتا ہے۔لہٰذا توازن ضروری ہے۔ گھر کے اندر نہ تو صفائی کا خبط ہو کہ انسانی جذبات و احساسات پر غالب ہو جائےاور نہ ہی پہلو تہی ہو کہ دین کے تقاضے متاثر ہونے لگیں۔
یہ توازن میں نے ان کی زندگی میں پایا تھا!
واپسی کے رستے پہ گھر تک میں یہ سوچتی آئی کہ دوسروں پر تبصرے سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ انسان اپنے لیے اصول بنا لے۔دوسروں کو آسانی دے ،ہر وقت تجزیاتی موڈ میں نہ رہے۔دوسروں کی جگہ خود کو رکھ کر سوچے تو شاید یہ سب اتنا اجنبی محسوس نہ ہوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مسلمان کی عزت نفس کی توقیر لازم قرار دی ہے، زبان اور ہاتھ سے تکلیف پہنچانے کو حرام قرار دیا ہے۔یہ بھی لازم کیا کہ خود پر اپنی ہمت سے زائد بوجھ نہ ڈالے، دامن تنگ نہ

کرے۔گھر کی فیکٹری حساس ترین فیکٹری ہےجہاں ہر پہلو سے حساس ہونے کی ضرورت ہے۔ سلیقہ اورصفائی کی تربیت بھی چاہیے اور ایک پرسکون ماحول بھی۔ اس کے منتظمین سے اس میں اعلیٰ درجے کا توازن اور مہارت درکار ہے۔
ذہنی اتھل پتھل میں پھٹ پھٹ کی آواز اور اوپر نیچے کی اچھل کود کا پتہ ہی نہ چلا اور گھر آ گیا۔ داخلی دروازے پر دوسالہ بھتیجے کی کھلونا گاڑی اٹکی پڑی تھی۔ میں نے مسکرا کر اسے نکالا اور رستے سے ہٹا کرایک طرف کردیا۔
٭ ٭ ٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x