ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

یادداشت کا غم – بتول جنوری ۲۰۲۳

ہم نے دماغ کے ایک خانے کو تھپکیاں دے دے کر نیم خوابیدہ حالت میں رکھا ہؤا ہے۔ تزکیہ نفس اور تطہیر قلب کے لیے!
حیران نہ ہوں۔ جہاں یہ ترکیب تلخ باتیں نظر انداز کرنے اور بھلانے میں معاون ہے وہیں بھلکڑ پن اور غائب دماغی کے مرض نے بھی اس ترکیب سے تقویت حاصل کی ہے ۔اور یوں یہ ہمارے’سہاگ‘ کی ’رقیبِ روسیاہ‘ بھی ثابت ہوئی ہے، کوئی دن نہیں جاتا کہ تھپکیوں سے مضروب دماغ نے اس ’نامعلوم تشدد‘ کے خلاف صدائے احتجاج نہ بلند کی ہو، اور مجال ہے جو اس نے ذرا بھی ’سہاگ‘ کی پروا کی ہو!
آپ ہماری یادداشت پر کف افسوس ملیے یا ہمیں لا پروا ، غیر ذمہ دار اور لا ابالی سمجھیے ، یہ سراسر آپ کی مرضی پر موقوف ہے ، ہاں مگر اس مرضی کو غیر جانبدار ، دیانتدار اور بے لاگ نگاہ سے دیکھیں گے تو اس کیفیت کو ادبی مزاج سے ہم آہنگ سمجھتے ہوئے ، عالمانہ طرز کی اس غائب دماغی سے قلبی تعلق محسوس کریں گے ، بے شک ، اس درد کو وہی سمجھ سکتا ہے اور محسوس کر سکتا ہے جو خود بھی اس مرض کا شکار رہ چکا ہو۔ خواہ طبیب کی صورت یا مریض کی شکل میں…. لکھاری یا قاری کی صورت میں۔
اب ہم تو سمجھتے ہیں کہ خواہش سے ادیب بنا نہیں جا سکتا ، لکھاری بننے کے لیے خود فراموشی کی اس کیفیت میں مبتلا ہونا اور پھر اس کیفیت کے نتیجے میں مجنوں ، بے حس ، خود غرض کے القاب سے نوازے جانا ہی دراصل وہ گر ہے جس سے ادیبوں نے فیض حاصل کیا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ، اور بے شک یہی وہ راز ہے جس کا اعتراف کرنے سے لکھاری گھبراتے ہیں ۔ مگر ہم نے ادیب کی اس عام روایت سے بغاوت کی ہے۔یقیناً لکھنے کے جراثیم اس سے غذا لے کر لکھاری بنانے میں کردار ادا کریں گے۔
یہ تو معلوم شدہ حقیقت ہے کہ لکھاری کا مشاہدہ تیز اور تجزیہ بے لاگ ہوتا ہے مگر یقین جانئے مشاہدے اور غوروفکر کا یہی امتزاج گردو پیش سے بے نیاز کر دیا کرتا ہے۔واللہ…. ایک حساس دل لکھاری (حساسیت یوں بھی لکھاری کی خاص صفت ہے) سنجیدہ تحریر لکھے یا اس کا قلم مزاح اگلے،دونوں صورتوں میں اس کی تحریر میں قاری کے لیے سنجیدہ ہی پیغام ہوتا ہے۔ادھوری خواہشوں،محرومیوں،ٹوٹی امیدوں اور سسکتے قہقہوں کی شکل میں ۔
بہرحال قصہ کچھ یوں ہے کہ دلہناپے کا ابتدائی دور…. جس میں رومانوی منظر غالب اور روایتی مغلوب ہؤا کرتا ہے،مروت ولحاظ سے سابقہ پیش آیا کرتا ہے اور جس میں غلطیوں سے درگزر کی کافی گنجائش ہوتی ہے،شوہر حضرات کو مروتاً بھی کرنا پڑتا ہے اور جذبہ خیر بھی اس کا محرک ہوتا ہے،محبت بھی ظرف بڑا کر دیتی ہے۔
مگر وائے قسمت!
یہ دور ہمارے لیے بہت مختصر ثابت ہؤا۔کیوں مختصر ثابت ہؤا،کا جواب صیغہ راز کا متقاضی ہے تا ہم افادہ عام کے لیے اس کمزور پہلو کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے جس کی کمزوری کو ذرا سی توجہ اور حواس خمسہ کی چابک دستی کا سپلیمنٹ دے کر دور کرنا ممکن ہے۔ہمارے میاں کو تو شاید ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ کے خدشے کے تحت وسعت قلبی کے مظاہرے کے نیک ارادے (جو قبل از شادی کیے جاتے ہیں) بدلنے پڑے۔یوں ’ذہن میں نہیں رہا‘… ’بھول گئی‘…. ’یاد نہیں رہا‘ ….جیسی معصوم معذرتیں زیادہ عرصہ ہماری ’برأت‘ نہ کر سکیں۔
گیند آپ کی کورٹ میں ہے لہٰذایہ سراسر آپ کی مرضی پر موقوف ہے خواہ اسے میاں صاحب کا ’شح نفس‘ سمجھیے یا ہماری غائب دماغی کا نوحہ پڑھیے، کہ میاں صاحب ماضی کے اوراق سے کچھ سر گزشت سنانے میں یکسوئی سے مصروف ہیں اور ادھر ہمارے دماغ کہ سوئی کسی نا معلوم نکتے

گیند آپ کی کورٹ میں ہے لہٰذایہ سراسر آپ کی مرضی پر موقوف ہے خواہ اسے میاں صاحب کا ’شح نفس‘ سمجھیے یا ہماری غائب دماغی کا نوحہ پڑھیے، کہ میاں صاحب ماضی کے اوراق سے کچھ سر گزشت سنانے میں یکسوئی سے مصروف ہیں اور ادھر ہمارے دماغ کہ سوئی کسی نا معلوم نکتے کو سلجھانے میں مصروف عمل ہے،یوں جب گتھیاں سلجھاتا دماغ ،ساکت وجود،غیر مرئی نقطے پر مرکوز نگاہیں، رد عمل کا انتظار کرتے میاں صاحب کو زیادہ الجھا دیتا ہے تو واللہ…. اندھیری راتوں کی وحشت میں میاں صاحب خاموش مگرکے ’شدید‘ رد عمل میں کئی بار اضافہ ہوتے دیکھا ہے، ناکردہ ’جرم‘ (جو ہم سمجھتے ہیں اور یقینا آپ بھی سمجھیں گے) کی پاداش میں ہجر کے لمحات کو صدیوں پر محیط ہوتے بھی دیکھا ہے،اور اس صورتحال کو آپ کیا نام دیں گے جب میاں کے احساسات ہماری غائب دماغی کے ہاتھوں بارہا مجروح ہوئے ہوں اور میاں صاحب،ہماری دماغی کیفیت بھانپنے کی بجائے الجھن اور غصے میں ہمیں خود غرض،احساس سے عاری، خودپسند،مغرور کے القابات سے نواز دیں؟
آپ تو خواہ کچھ بھی نام دیں مگر ایسے میں ہماری قابل رحم دماغی حالت مزید ابتری کی جانب سرک جاتی ہے۔ایسے میں ہم نے اپنی برأت کا ثبوت دیتے آنسوؤں کے سونامی کو بھی بے اثر ہوتے دیکھا ہے،اور تو اور ،ایسے دلخراش مواقع پر اظہار محبت کے وہ سارے گر آزما کر دیکھا ہے جو سیانے قلبی ہم آہنگی اور دو قالب یک جاں ہونے کے لیے بتا گئے تھے۔
واللہ….ہمارے معاملے میں وہ سب آزمودہ نسخے ناکارہ ہی ثابت ہوئے ۔اب جانے وہ گُر ہی بوسیدہ ہو چکے تھے کہ ہم نے ان نسخوں کی صحیح ترکیب ہی پر عمل نہ کیا یا میاں صاحب ان ناز نخروں کے عادی ہی نہ تھے….واللہ ہمیں معلوم نہیں ۔بہرحال،خود پسندی،خودغرضی اور نجانے کون کون سے گھاؤ اس کیفیت کو لگ کر زمانہ حال میں رہنے کا درس سکھا چکے ہیں، تاہم دماغی سکتہ ہے کہ وقتا فوقتاً بلا استیذان طاری ہوئے جاتا ہے۔
اس سارے قصے سے بے خبر کسی مہربان نے جمبو سائز میں قرشی کی’’دماغی‘‘ تحفتاً دی ہے، امید ہے ’سہاگ‘ کو درپیش بے شمار مشکلات اور الجھنوں کو سلجھانے میں معاون ثابت ہو گی، اور تو جو بھی درس حاصل ہؤا مگر یہ حادثات تزکیہ نفس کے لیے اختیار کی ہوئی ارادی تدبیر کے بھیانک نتائج کا سامنا کروا کر ہمیں ایسی خود ساختہ تدبیروں سے تائب کروانے کا موجب ضرور بنے ہیں اور اللہ کے لیے در گزر کرنے کا ظرف سکھلا گئے ہیں۔
دلخراش حاثات کی مسلسل تکرار کا مگر ایک فائدہ یہ بھی ہؤا ہے کہ یاداشت و غائب دماغی اور سہاگ کی اس جنگ میں یادداشت کا پلہ بھاری ہوتا جا رہا ہے،دعا کیجیے یاداشت کا پلہ جنگ جیت جائے اور راوی چین ہی چین لکھے، آمین۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x