ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

عورت بے چاری…ایک پہلو یہ بھی ہے! – بتول مئی ۲۰۲۱

’’کل رات کچھ سرسری مطالعہ کےدوران آئن اسٹائن کی بیوی کے بارے میں جان کر میں چکرا کر رہ گیا ۔ کچھ لوگوں کے مطابق وہ قابلیت میں آئن اسٹائن سے زیادہ نہیں تو کم ازکم ہم پلہ ضرور تھی۔لیکن ایسا کیوں ہؤا کہ وہ نمایاں نہ ہوسکی ؟‘‘
معزز قارئین ! یہ الفاظ ڈاکٹر شیمازیم کے ہیں جوانہوں نےدو سال پہلے اپنی ٹوئٹ میں کہے تھے ۔مجھ تک بذریعہ محترمہ صائمہ اسما پہنچے جس کے لیے میں ان کی شکر گزار ہوں ۔ڈاکٹر نے ٹوئٹر میں اپنے تعارف میں بہت سے حوالوں کے ساتھ ایک تعارف بطور باپ کروایا ہے جو ان کے خواتین اور خاندان سے متعلق احساسات کا مظہر ہے ۔
اپنی ٹوئٹ میں وہ استفسار کرتے ہیں کہ ہم سب مادام کیوری کو جانتے اور یاد رکھتے ہیں ۔ کیوں ؟
اس لیے کہ وہ نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں ۔ وہ پہلی شخصیت اور واحد خاتون ہیں جنہوں نے دو مرتبہ یہ اعزاز جیتا اور یہ اعزاز بھی صرف ان کے پاس ہے کہ انہوں نے سائنس کے دو مضامین طبیعات اور کیمیا میں نوبل پرائز جیتا ۔
اس کے بعداپنی بات وہ یوں آگے بڑھاتے ہیں کہ:
’’ اب آئیں میلاوا میرک آئن اسٹائن کی طرف جو البرٹ آئن اسٹائن کی اہلیہ تھیں ۔ وہ زیورچ پولی ٹیکنیک میں شعبہ طبیعات کی واحد طالبہ تھیں جہاں آئن اسٹائن زیر تعلیم تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ میلاوا واحد شخصیت ہیں جن کے شعبہ ریاضی میں داخلہ کے وقت آئن اسٹائن سے زیادہ نمبر تھے۔ یہ ان کی قابلیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان دونوں قابل خواتین میں کیا فرق ہے ؟ ایک تو تاریخ ساز شخصیت بن کر ابھری اور دوسری محض آئن اسٹائن کی زوجہ کی حیثیت میں نظر آئی ! اس کی وجہ ان کے شوہر حضرات ہیں !
میلاوا آئن اسٹائن سے شادی کے بعداگرچہ بہت سے ایسے سائنسی حقائق درج کرنے میں اپنے شوہر کی مدد گار رہیں جو تاریخ ساز ٹھہرے مگر آئن اسٹائن نے کہیں اس کا حوالہ یا نام نہیں دیا۔ جبکہ ماری کیوری نے پیری کیوری جیسے شریف النفس شخص سے شادی کی جو زوجین کے باہمی تعلق کوبہتر سمجھتا تھا ۔
1903 میں نوبیل پرائز کمیٹی نے جب پیری کیوری کو ان کے نوبیل پرائز حاصل کرنے کی خوش خبری سنائی تو انہوں نے اس سے پوچھا کہ آیا ان کی اہلیہ ماری بھی اس انعام میں شریک ہیں ۔جب انہیں بتا یا گیا کہ وہ اس میں شامل نہیں ہیں تو پیری نے کمیٹی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ وہ نوبیل انعام جیتنے پر فخر محسوس کررہے ہیں مگر اپنی بیوی کا نام اس میں شامل نہ ہونے پر اسے وصول کرنے سے معذرت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سائنسی تحقیقات میں بڑا حصہ ان کی بیوی کا ہے لہٰذا وہ برابر کی حقدار ہے چنانچہ کمیٹی نے اپنے بجٹ پر نظر ثانی کرنے کے بعد ماری کیوری کو شریک انعام کیا اور یوں وہ پہلی نوبیل انعام یافتہ خاتون ٹھہریں۔ جبکہ دوسری جانب آئن اسٹائن ذاتی توصیف اور شناخت کا اتنا دلدادہ تھا کہ اس نے اشاعت تک پر اپنی بیوی کا نام درج نہ کیا۔ اس کے یہ اقدامات آج تک سائنسی دنیا میں متنازعہ تصور کیے جاتے ہیں اوران پر بحث جاری ہے‘‘ ۔
دو بڑے سائنس دان جوڑوں کے اس موازنے کے بعد ڈاکٹر زیم کا کہنا ہے کہ ان کے درمیان فرق شادی کے فیصلے کا ہے ۔ شادی کا درست فیصلہ آپ کی صلاحیتوں کی میراث کو آگے بڑھاتا ہے تو غلط انتخاب اس میراث کو مٹا کر رکھ دیتا ہے جیسا کہ میلاویا کے ساتھ ہؤا۔ ان کا کہنا ہے کہ خیال رہے کہ آپ کی زندگی کا ساتھی حقیقی ساتھی ہو، وہ جو آپ کے اعتراف کی شناخت کے لیے نوبل انعام تک کو ٹھکرادے (گویا

شریک حیات کے بغیر جنت میں جانے سے بھی منع کردے !)۔
اختتامی جملے یوں لکھتے ہیں:
’’مجھے آخر میں یہ بھی کہنا ہے کہ پیری اور ماری کیوری کی سب سے بڑی بیٹی آئرین جولیٹ کیوری نے اپنے شوہر فریڈرک جولیٹ کے ساتھ مشترکہ طور پر 1935 ء کا نوبیل پرائز برائے کیمیا کا اعزاز جیتا ۔ ٹھیک 32 سال بعد اس نے والدین کی کہانی دہرائی کیونکہ اس نے بھی تعاون کرنے والا شوہر ڈھونڈا تھا‘‘۔
٭٭٭
عزیز قارئین ! تقریباً 500 الفاظ کے اس مائکرو بلاگ پر بہت سے پہلو سے بات کی جاسکتی ہے ۔کیا یہ محض دو عظیم سائنسدان گھرانوں کا مقابلہ ہے یا دو شخصیات کا موازنہ ہے ؟ ایک ہی پیشے سےتعلق رکھنے والوں میں اتنا تفاوت کیوں ؟ سائنس میں برتری اخلاقی کبڑے پن کے ساتھ کیسی لگتی ہے ؟ کیا تمام مرد اپنی خواتین کو شناخت دینے کے معاملے میں آئن اسٹائن کی تھیوری پر عمل کرتے ہیں یا پھر پیری کیوری کو مثال بناتے ہیں ؟ کیا شادی کے بعد عورت کی ذہانت اور کار کردگی منقسم ہوجاتی ہے ؟ وغیرہ وغیرہ !
ڈاکٹر شیمازیم نے حسن رفاقت کو آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت کے حوالے سے دلچسپ بنانے کی کوشش کی ہےپہلے تو اس پر داد بنتی ہے ۔ بیسویں صدی کا عظیم سائنسدان جو کائنات کی اتنی گتھیاں سلجھاتا ہےمعمولی سی غلطی کی بھی گنجائش اس کے دیے گئے فارمولے میں نہیں ملتی،وہ شریک زندگی کے معاملے میں کیسے اتنی بڑی حماقت کرسکتا ہے ! واضح طور پر یہ اس کی شخصیت پرستی کا مظہر ہے۔ ایک نامور شخصیت کے کردار کا جھول بہت سے افراد کو جھٹکا کھانے پر مجبور کردیتا ہے جیسا کہ اس بلاگ پر تبصروں سے ظاہر ہوتا ہے ۔کچھ نے اس کو جھٹلایا تو کچھ نے آئن اسٹائن کی ازد واجی زندگی کی ناکامی پر افسوس کا اظہار کیا ہے یہ کہتے ہوئے کہ ان دونوں کے درمیان کچھ عرصہ علیحدگی بھی رہی تھی ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ دونوں مثالیں مغربی معاشرے سے تعلق رکھتی ہیں اور دونوں ہی سائنس کے شعبے سے ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے یہ تحریرمعاشروں یا پیشوں کے درمیان فرق ثابت کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ مختلف ا فراد کے اخلاقی پیمانوں کو ظاہر کرتی ہے۔
ڈاکٹر زیم نے خاندان کی تشکیل میں درست انتخاب کو موضوع گفتگو بنایا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شادی کے پیمانوں میں اس معیار کو کس حد تک قابل عمل بنایا جا سکتا ہے ؟ آئیے اس بات کو اپنے معاشرے پر منطبق کر کے دیکھتے ہیں ۔
ہمارے ہاں شادی میں انتخاب صرف دو افراد نہیں بلکہ عموماً دو خاندان مل کر کرتے ہیں ۔ اس موقع پر ترجیحات کے تعین میں ہم مزاجی کے بجائے ہم پلہ ہونے کو مدنظر رکھا جا تا ہے ۔کبھی کبھار ہم مزاجی یا ہم آہنگی بھی زیر بحث آہی جاتی ہے مگر بعد میں یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی یکسانیت کا شکار ہوکر رہ گئی ہے ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اکثر ڈاکٹر حضرات گھریلو بیویوں کو پسند کرتے نظر آتے ہیں ۔رحجان یہ ہے کہ لیڈی ڈاکٹرز شادی کے لیے ہاٹ فیورٹ ٹھہرتی ہیں خواہ بعد میں گول روٹیاں پکاتی رہ جائیں ! اکثر بڑے کنبے سے لڑکی لائی جاتی ہے کہ سسرالیوں کی قدر کرے گی مگر ہوتا ہے کہ وہ اپنے بڑے کنبے اور جوائنٹ فیملی سے اس قدر بیزار ہوتی ہے کہ موقع ملتے ہی علیحدگی کا راپ الانے لگتی ہے ! کبھی اس کا الٹ بھی ہوتا ہے کہ مختصر کنبے کی لڑکی کے متعلق یہ سوچ ہو کہ وہ اتنے رشتے دار ملنے پر خوش ہوگی جبکہ وہ تنہائی کی اتنی عادی ہوتی ہے کہ اسے رشتے برتنے کی مہارت اور عادت ہی نہیں ہوتی۔ اکثر مالی مستحکم نوجوان کا بطور داماد انتخاب کیا جاتا ہے بمقابلہ ایک بے روز گار نوجوان کے! بعد ازاں وہ سول سروس میں منتخب ہوکر زندگی میں بہت آگے نکل کر مسترد کیے جانے والے خاندان کے لیے وجہ حسرت بن جاتا ہے۔ ایسے بہت سے مفروضات ہوتے ہیں جو شادی کے بعد یکسر متضاد نتائج دے رہے ہوتے ہیں۔
زوجین کےمابین صرف سائنسی یا تخلیقی شناخت دینا ہی تعاون کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ یہ زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتا ہے خواہ یہ مذہبی شعور ہو یا ادبی دنیا ! اپنے ارد گرد ہمیں اس معاملے میں تین طرح کے ازواج نظر آتے ہیں ۔ایک وہ گھرانہ جہاں مکمل ہم آہنگی اور یکسوئی پائی

جاتی ہے صلاحیتوں کا اعتراف اور بڑھاوا دیا جاتا ہے ۔اس سلسلے میں ایک مثال یہ ہے کہ ایک صاحب اپنے عالمی تحقیقی پرچے میں بطور معاون تحقیق کار اپنی بیگم کا نام ڈال دیتے ہیں تاکہ ا ن کے کریڈٹ پر بھی کچھ آجائے حالانکہ بیگم کا اس تحقیق میں صرف اتنا کردار ہوتا ہے کہ وہ انہیں گھر واپسی کے لیے لینے آئیں تو ان کے پراجیکٹ پر ایک نظر ڈال لیں ! ایک دوسری طرح کی مثال ہے کہ جہاں خاتون بمقابلہ خاوندارفع شعور رکھتی ہے مگراس کا ادراک کرنے کے بجائے شوہر اسے اپنے دائرے میں مقید رکھتا ہے کبھی اپنی فرمائشوں کے ذریعے تو کبھی خاندانی مسائل کے گرداب میں ! تیسری طرح کی مثال اس گھرانے کی ہے جہاں شوہر ایک نامور تخلیق کار ہے مگر بیوی اس کو کسی طرح گھاس ڈالنے کو تیار نہیں ہے ۔ معمولی معمولی معاملات میں اسے الجھائے رکھتی ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ شعور کے مکمل اظہار سے معذور رہتا ہے ۔ کہیں کہیں استثنیات کے ساتھ یہ تین طرح کے رویے ہر طبقے ، معاشرے اورزندگی کے ہر میدان میں نظر آتے ہیں۔
لیکن یہاں پر تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایک عمومی رحجان جسےمرد کی نفسیاتی بالا تری ہی کہا جائے گا کہ وہ اپنی بیوی کی برتری کو تسلیم نہیں کرسکتا ۔ ایک ڈاکٹر خاتون کا کہناتھا کہ ایک بار کسی فنکشن میں ان کے سینئر استاد نے ان کے شوہر کے سامنے ان کی قابلیتوں کی تعریف کے پل باندھ دیے جس کا نتیجہ ان کے شوہر کے موڈ بگڑنے کا با عث بنا اگرچہ زبان سے کچھ نہ کہا مگر بحیثیت ایک بیوی انہوں نے اس کو محسوس کیا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اگر کسی بیوی کے سامنے شوہر کی قابلیت اور اخلاق کی تعریف کی جائے تو شاید وہ کوئی رد عمل ظاہر نہ کرے ہاں یہ اور بات ہے کہ شکایتوں کے انبار لگاکر ان کی برتری کو کم کرنے کی کوشش کرے ۔ یہ دو مخالف جنس رکھنے والوں کی اپنی اپنی نفسیات ہے ! مستثنیات کے طور کہیں شوہر حضرات اپنی بیگمات کی قابلیت کے گن گاتے نظر آتے ہیں جو ظاہر ہے جورو کے غلام یا زن مرید کے طعنے سہتے ہیں ۔جبکہ ایسا کرنے والی خواتین اس الزام سے بری رہتی ہیں گویا یہ ایک نارمل بات ہے کہ بیوی شوہر کی تعریف میں رطب اللسان رہے!
اپنی بات کہنے کے لیے کسی تحقیقاتی ویب سائٹ یا پر اعداد و شمار کا سہارا لینے کے بجائے میں اپنے مشاہدے کو بنیاد بناتی ہوں ! زندگی کے ابتدائی سال جس ماحول میں گزرے وہاں خواتین کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی جن میں ڈاکٹر ، پروفیسر، سائنسدان خاصی تعداد میں تھیں ۔ ان میں سے کچھ تو شوہروں کے ہم پلہ تھیں مگر کچھ ایسی بھی تھیں جن کے شوہر وں کی پہچان کچھ اور تھی ۔ ایسی کوئی مثال نہیں یاد آتی کہ کسی نے اپنے ہم پلہ خاتون سے شادی کے بعد اسے صرف چولہے اور بچوں تک محدود کردیا ہو۔ بلکہ ایک مرحوم پروفیسر کی مثال یاد آتی ہے کہ جن کی شادی اپنی خالہ زاد سے ہوئی وہ انڈیا سے ادھوری تعلیم کے ساتھ آئی تھیں ۔ انہوں نے پہلے اپنی بیوی کی تعلیم مکمل کروائی حتیٰ کہ اسے بھی لیکچرر بنا ڈالا۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ نوبل پرائز کے نہ طلب گار تھے نہ اہل مگر بہر حال ان کا تعاون اسی درجے کا ہےجو پیری کیوری کا تھا۔بات اگرہمارے خطے میں سائنس کی ہو تو ڈاکٹر نسیمہ ترمذی کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی ! وہ پاکستانی خواتین سائنسدانوں کی فہرست میں صف اوّل میں ہیں ۔شعبہ حیوانیات کی پروفیسر ہونے کے ساتھ بحری حیاتیات کی ڈائریکٹر تھیں ۔ ایک اسٹائلش خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ کالم نگار بھی تھیں ۔ ان کے شوہر سید معصوم علی ترمذی طبیعات کے پروفیسر ، جامعہ کراچی کے وائس چانسلر تھے۔ کچھ عرصہ ہم ان کے پڑوس میں رہے ۔ وہ والد محترم کے مسجد کے بھی ساتھی تھے ۔ان دونوں کے درمیان گھریلو گفت و شنید بھی رہتی تھی۔ میری یاد داشت میں ایسا کوئی مکالمہ یا منظر نہیں جب وہ اپنی بیوی سے مرعوب نظر آئے ہوں یا ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ بنے ہوں !
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ راوی سب چین لکھتا ہے! اگر میں ایسے کسی منظر نامے سے واقف نہیں جہاں خواتین پر پابندی ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا نہیں ہوتا ! کچھ چیزیں روایات سے ٹکراتی ہیں تو کچھ مرد کی انا اور برتری سے ! جن کا اثر یقیناً خواتین کی کارکردگی پر پڑٹا ہے ۔ ان تمام باتوں کے باوجود ڈاکٹر کیم کم سے اس حد تک اتفاق ہے کہ حسن رفاقت کسی بھی فرد کی کارکردگی کو مثالی بناسکتا ہے جس کی مثال بانو قدسیہ اور اشفاق احمد ہیں ۔
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x