ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

خوش رنگ سویرا – بتول مارچ ۲۰۲۳

بات تو اتنی بڑی نہ تھی مگر اس پر علینہ کا رد عمل شدید تھا ۔ شر جیل نے بات سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر علینہ تو کچھ سننے کو تیار ہی نہ تھی اور کچھ نہ سوجھا تو وہ غصے میں بھرا ،زور سے دروازہ بند کرتا باہر نکل آیا اور اب یونہی سڑکوں پر آوارہ گردی کر رہا تھا ۔
اس کے باہر جاتے ہی علینہ نے میز پر رکھا چائے کا کپ اٹھا کر زمین پر پٹخا اور کمرے میں بند ہو گئی ۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سب کچھ تہس نہس کر دے ، ہر چیز نوچ ڈالے ، ساری دنیا بُری لگ رہی تھی۔ بول بول کر گلا سوکھ گیا ۔ اس نے پانی کا گلاس پیا اور بے دم ہو کر بستر پر گر گئی ۔ وہ بے آواز رو رہی تھی اور اس کو خود بھی علم نہیں تھا کہ وہ کیوں رو رہی ہے ۔
علینہ اور شرجیل کی شادی تین ماہ پہلے ہوئی تھی ۔ شادی پر شرجیل کو دو ہفتے کی چھٹی ملی پھر اس وعدے کے ساتھ دوسرے شہر سدھارا کہ جلد از جلد مناسب گھر کا انتظار کر کے علینہ کو ساتھ لے جائے گا اس دوران ہر ہفتہ وار تعطیل پر وہ گھر آجاتا ۔ علینہ کبھی میکے چلی جاتی ، کبھی سسرال میں ہی شوہر کی راہ دیکھتی ۔ بہر حال یہ وقت کٹ ہی گیا اور دو ماہ بعد علینہ اپنے گھر آگئی ۔ اس کے ساتھ ساس ،سسر اور نندیں بھی آئیں ۔ سب نے مل کر سامان ٹھکانے پر رکھا ۔ دو چار دن وہاں گزار کر واپس لوٹے اور یوں ان دونوں نے مکان کو گھر بنانے کا کام شروع کیا ۔شرجیل ذمہ دار ، معاملہ فہم ، متحمل مزاج تھا تو علینہ کی طبیعت میں بھی سادگی اور ٹھہرائو تھا ۔ ان کے لیے ہر دن ہی پہلے سے بڑھ کر خوبصورت تھا مگر آج …
آج صبح ہی سے علینہ کا موڈ خراب تھا ۔ مارے باندھے ناشتہ بنایا ۔ شرجیل نے پوچھا تو رُکھائی سے جواب دیا ۔
’’ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘‘۔
’’ تو کام نہ کرو نا ‘‘ وہ فوراً آگے بڑھا اور اس کے ہاتھ سے برتن لے کر میز پر رکھے ۔’’ یہاں آرام سے بیٹھو میں برتن لگا تا ہوں ‘‘۔
علینہ نے سختی سے لب بھینچے جیسے بمشکل اپنے آپ کو کچھ کہنے سے باز رکھ رہی ہو ۔
شرجیل نے اس کے سامنے انڈا ، پراٹھا رکھا اور کپ میں چائے انڈیلتا ہؤا بولا ۔’’ چلو جلدی سے ناشتہ کرو پھر آرام کرنا ‘‘۔
’’ میں صرف چائے پیوں گی ‘‘۔
’’ نہیں بھئی تھوڑا سا پراٹھا تو کھائو نا شرجیل نے اصرار کیا ،’’ پھر ایک لقمہ بنا کر اس کی طرف بڑھایا ، چلو شاباش منہ کھولو ‘‘۔
’’ میں نے کہا ہے نا کہ صرف چائے پیوں گی ‘‘۔ علینہ نے اس کا ہاتھ جھٹک کر سختی سے کہا ۔ شرجیل حق دق رہ گیا یہ انداز اس کی محبوب بیوی کا تونہ تھا مگر جلد ہی خود پر قابو پا کر نارمل انداز میں بولا ۔
’’ چلو ٹھیک ہے ‘‘ اس نے اپنا ناشتہ شروع کیا ۔ ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی باتیں کرتا جا رہا تھا مگر علینہ جیسے سُن ہی نہیں رہی تھی ۔ اس کے چہرے پر زمانے بھر کی بیزاری تھی ۔ شرجیل نے ناشتہ ختم کیا اوراُٹھتے ہوئے بولا۔
’’دوپہر کے کھانے کی فکر نہ کرنا ہم باہر چلیں گے ‘‘۔
علینہ ایک جھٹکے سے یوں اٹھی کہ کرسی پیچھے جا اُلٹی اور چلائی ۔
’’بتایا بھی ہے میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور آپ کو آئو ٹنگ کی پڑی ہے…‘‘اور پھر جو اُس نے شرجیل کے لتے لیے تو وہ ششدرکھڑا اسے دیکھتا ہی رہ گیا ، درمیان میں اس نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا مگر

وہ ایسی بپھری ہوئی تھی کہ شرجیل نے فرار ہی میں عافیت جانی ۔ اب وہ سڑکیںناپتا ہؤا ان سب باتوں کو ذہن میں دہرا رہا تھا اور ڈھونڈے سے بھی اسے اپنا کوئی قصور نظر نہیں آیا ، آخر تھک ہار کر قدم واپس گھر کی طرف بڑھا دیے ۔
کچھ دیر سونے کے بعد علینہ کی آنکھ کھل گئی مگر طبیعت پژ مردہ سی تھی اور دماغ جیسے کسی شکنجے میں جکڑا ہؤا تھا۔ اس کو شرجیل کے ساتھ کیے گئے ناروا سلوک کا احساس بھی تھا مگر وہ بے بس تھی ۔ وہ یہ سب نہیں کرنا چاہ رہی تھی مگر جیسے کوئی زبر دستی اُس سے یہ کروا رہا تھا ۔’’ اُف میں کیا کروں ؟‘‘ اس نے اپنے بال نوچے ’’ میں ایسی نہیں ہوں ‘‘ اس نے خود کو یقین دلایا۔
اسی دوران شرجیل گھر واپس آگیا ۔ کمرے میں جھانکا تو علینہ سوتی بن گئی ۔ اس کو اپنے رویے پر شرمندگی بھی تھی اور یہ احساس بھی کہ اگر شرجیل نے کوئی بات کی تو وہ دوبارہ لڑپڑے گی ۔ اس لیے غنیمت یہی تھا کہ چپکی پڑی رہے۔
شرجیل نے آہستگی سے دروازہ بند کیا ، ’’شاید کل مہمانوں کی خاطر مدارت کرتی رہی تو تھک گئی ہے ۔ اس لیے چڑ چڑی ہو رہی ہے ‘‘ اس نے اپنے آپ کو تسلی دی اور لائونج میں بکھری اشیاء سمیٹنے لگا۔
’’ اُٹھ جائیں جناب ، چائے تیار ہے علینہ نے چائے کی پیالی سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے شرجیل کے بال سہلائے اور اس کی کھنکتی ہوئی آواز سن کر شرجیل نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں ۔’’ کیا یہ میری پیاری زوجہ صاحبہ ہی بول رہی ہیں ؟‘‘ مصنوعی حیرت کا اظہار ہؤا۔
’’ جی جناب زوج صاحب، جلدی سے اٹھ جائیں اب ‘‘ وہ مسکرائی۔
وہ فٹا فٹ اٹھ بیٹھا ’’ شکر ہے بیگم تمھاری نارمل آواز بھی سنائی دی پچھلے دنوں تو لگ رہا تھا تمھیں کوئی جن چمٹ گیا ہے ‘‘۔
’’ ہاں حسام بھی یہی کہتا تھا کہ تمھیں کوئی جن چمٹ جاتاہے ‘‘ اس نے اپنے بھائی کا نام لیا۔
’’یعنی یہ کوئی پرانا جن ہے ، کہیں میری بیگم کو ہی نہ لے اڑے ‘‘۔
’’ فکر نہ کریں بیگم کہیں نہیں جانے والی‘‘ علینہ نے کچن کی طرف قدم بڑھائے اور شرجیل چائے پیتے ہوئے گزشتہ دنوں کو سوچنے لگا ۔ علینہ کا رویہ عجیب سا تھا وہ اپنی بد تمیزی پر شرمندگی کا اظہار بھی کرتی تھی مگر دوبارہ تلخ کلامی شروع کر دیتی تھی ۔ موڈ خراب ، حلیہ ابتر ، سارے جہاں سے بیزار ۔ کل شام تک یہی صورت حال تھی مگر اب توجیسے کایا پلٹ ہو گئی تھی ۔ اللہ کرے یہی صورتحال رہے ‘‘ اس نے دل سے دعا کی زندگی ایک دم خوبصورت لگنے لگی تھی۔
پھر بہت سے دن خوشگوار گزرے، انہوں نے مل کر گھر کی آرائش کی کچھ اشیا خریدیں ، چھوٹے سے باغیچے میں نئے پودے لگائے ، گھومے پھرے اور ایک دن پھر علینہ پر وہی کیفیت طاری ہو گئی ۔ گھر سے وحشت ہونے لگی ۔ ہلکے پھلکے کام بھی پہاڑ لگنے لگے ، دل چاہتا تھا کہ کوئی بہانہ ملے اور وہ لڑنا ، چیخنا چلانا شروع کردے ، کتنی ہی بار باغیچے کی طرف بڑھی کہ پودے اکھاڑ پھینکے اور اپنے آپ کو اس حرکت سے باز رکھنے میں اس کو پوری توانائی صرف کرنی پڑی۔
شرجیل کو اندازہ ہو گیا اور گزشتہ تجربہ اسے بھولا بھی نہ تھا اس لیے اس نے علینہ سے زیادہ بات چیت سے گریز کیا ۔ مگر وہ اس پر بھی ناراض ہوئی ،’’ آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتے ؟‘‘
’’ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے نا اس لیے ڈسٹرب نہیں کرتا ‘‘۔
’’ آپ کو لگتا ہے میرا دماغ خراب ہے اس لیے بات نہیں کرتے ‘‘ وہ تلخ ہوئی۔
’’ ایسی بات نہیں ہے ‘‘۔
’’ مجھے پتہ نہیں چلتا کیا ؟آپ مجھ سے بیزار ہو رہے ہیں کیونکہ میں بد زبان ہوں ، جھگڑالو ہوں ، آپ کا خیال نہیں رکھتی ‘‘ اس نے کشن اٹھا کر دور پھینک دیا ۔ شرجیل نے ترحم بھری نگاہ سے اس کو دیکھا اور خاموشی سے باہر اٹھ آیا ۔ کمرے میں علینہ ابھی بھی بلند آواز سے اپنے آپ کو کوس رہی تھی ۔ شرجیل کا دل تاسف سے بھر گیا۔
شرجیل آفس سے لوٹا تو نک سک سے تیار خوشبو میں بسی چہرے پر مسکراہٹ سجائے علینہ کو دیکھ کر خوشگوار حیرت میں گھر گیا ۔’’وا رے واہ لگتا ہے جن نے ہماری پری کا پیچھا چھوڑ دیا ‘‘ وہ مسکرا دی۔

کھانے کی میز پر علینہ نے گزشتہ چند روز کے ناروا سلوک کی معافی مانگی جسے شرجیل نے مذاق میں اڑا دیا مگر علینہ اپنے ذہن میں پنپتے اندیشوں سے جان نہ چھڑا سکی ۔
رات کو وہ بہت دیر تک جاگتی رہی ۔ بظاہر نظریں شرجیل پر جمی تھیں جو گہری نیند میں تھا مگر اندر آوازوں کا شور تھا۔
’’ یہ تمہارا اتنا خیال رکھنے والا شوہر ایسا کب تک برداشت کرے گا ؟‘‘
’’ ایک دن اُکتا جائے گا ، تم سے بیزار ہو جائے گا ‘‘۔
’’ اُس کا حق نہیں ہے کہ اسے ایک نارمل بیوی ملے ‘‘۔
’’ تم تو نفسیاتی مریض ہو … نفسیاتی مریض‘‘ بڑی مشکل سے اس نے ان خیالات کو جھٹکا اور اللہ کا ذکر کرنے لگی مگر حقیقتاً وہ بہت پریشان ہو گئی تھی۔
صبح ناشتے کی میز پر اس کا اُترا ہؤا چہرہ شرجیل سے پوشیدہ نہ رہ سکا ، استفسار پر بہت مشکل سے وہ اپنے آپ کو بولنے پر آمادہ کر سکی ،’’ میرا خیال ہے کہ ہمیں…‘‘ اس نے انگلیاں مروڑتے ہوئے نظریں جھکا لیں ۔ ہمیں کسی ماہر نفسیات سے ملنا چاہیے‘‘۔
شرجیل فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گیا مگر شرارتی انداز میں سوال کیا ، ’’کیوں بھئی کیا تمہیں اپنا میاں نفسیاتی مریض لگتا ہے ؟‘‘
علینہ نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا تو شرارتی مسکراہٹ نظر آئی ۔ ’’آپ بھی نا !‘‘ وہ جھلا گئی ۔
’’ میں اپنے لیے کہہ رہی ہوں ‘‘۔
’’ کیوں بھئی تم کوئی پاگل ہو ؟ بس ذرا کیوٹ زیادہ ہو اس لیے صرف مجھے نہیں ایک جن کو بھی پیاری لگتی ہو اس لیے وہ کبھی کبھار آجاتا ہے تم سے ملنے …‘‘
’’شرجیل … !‘‘وہ چلائی اور ادھر اُدھر متلاشی نظروں سے دیکھا کہ کوئی چیز اٹھا کر اسے مارے مگر وہ بھاگ کر دروازے تک پہنچ گیا تھا ’’ٹاٹا بائے بائے ‘‘ اور غائب۔
اُف ، علینہ نے ہاتھ ماتھے پر مارا،ا س بندے سے کوئی سنجیدہ بات کی ہی نہیں جا سکتی۔ مگر فائدہ یہ ہؤا کہ رات سے جن پریشان کن سوچوں میں گھری ہوئی تھی وہ اڑ ن چھو ہو گئیں۔
علینہ کی بات تو مذاق میں ٹال دی تھی مگر آفس میں شرجیل نے سنجیدگی سے اس بات پر غور کیا تو اسے علینہ کی بات بالکل صحیح لگی ۔ ان دنوں جو علینہ کا رویہ ہوتا تھا اس سے علینہ خود بھی پریشان تھی ۔’’ مجھے لگتا ہے کوئی میرے اندر سے زبردستی مجھ سے یہ بد تمیزی کرواتا ہے ۔ میں کرنا نہیں چاہتی مگر بس بے بس ہو جاتی ہوں ‘‘ یہ بتاتے ہوئے وہ شرجیل کے سامنے رو پڑی تھی۔
اس نے فیصلہ کیا کہ پہلے وہ خود ماہر نفسیات سے ملے گا اور اس کے مشورے سے اگلا قدم اٹھائے گا ۔
ڈاکٹر صاحب نے تسلی سے شرجیل کی بات سنی کچھ سوالات کیے اور مشورہ دیا کہ بہتر ہے اپنی بیگم کو ساتھ لے کر آئیں ۔ شرجیل کے لیے یہ کافی تھا کہ انہوں نے زیادہ تشویش کا اظہار نہیں کیا تھا ۔بظاہر زیادہ سیریس مسئلہ تو نہیں لگ رہا مگر صحیح صورتحال تو میں آپ کو مسزسے بات کرنے کے بعد ہی بتا سکوں گا ۔
شرجیل اگلے دن کا وقت لے کر کلینک سے رخصت ہؤا۔
علینہ اس کی شکر گزار تھی کہ اس نے سنجیدگی سے علینہ کی بات پر غور کیا ۔ مقررہ وقت پر وہ دونوں ماہر نفسیات کے سامنے موجود تھے ۔ انہوں نے اس کے مسئلہ سے متعلق بہت سے سوالات کیے اور علینہ نے بلا کم و کاست سب کچھ بتا دیا سوالا ت ختم ہوئے تو جیسے نتیجہ پر پہنچ گئے’’محترمہ آپ Premenstrual syndrome کا شکار ہیں ‘‘۔
’’ جی …؟‘‘ ان دونوں نے ایک ساتھ کہا ۔ سمجھانا شروع کیا ۔ مردوں میں testosteroneہار مون ہوتا جبکہ عورتوں میں estrogenاور progesteroneدو ہار مون ہوتے ہیں ۔ جسم میں ان کی مقدار گھٹتی بڑھتی رہتی ہے اور یہ نہ صرف جسمانی بلکہ جذباتی و نفسیاتی تبدیلیوں کا باعث بھی بنتے ہیں جیسا کہ آپ نے بتایا کہ ایام سے ہفتہ، دس دن پہلے آپ میں علامات آتی ہیں اور جب ایام شروع ہو جاتے ہیں تو آپ بہتر محسوس کرتی ہیں ‘‘ علینہ نے اثبات میں سر ہلایا۔

’’ کیا اس کا کوئی علاج نہیں ‘‘ شرجیل نے سوال کیا۔
’’ سب سے پہلے تو آپ ذہن سے نکال دیں کہ آپ کو کوئی نفسیاتی بیماری ہے ‘‘وہ علینہ سے مخاطب ہوئے اور وہ جیسے ہلکی پھلکی ہو گئی ۔
’’اس تبدیلی کو قبول کرلیں ۔ متوازن غذا لیں ، واک اور ایکسرسائز کی عادت ڈالیں ، نماز کی پابندی رکھیں ، تلاوت اور تسبیحات کا معمول بنائیں کسی مشغلے میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں اور ان دنوں میں کوشش کریں کہ ان کے مزاج کے خلاف کوئی بات نہ ہو ‘‘ آخری جملے کا مخاطب شرجیل تھا۔
’’حاضر جناب بندہ خیال رکھے گا ‘‘ اس کے انداز پر علینہ اور ڈاکٹر صاحب دونوں ہنس دیے ۔
’’ اور ایک آخری بات ‘‘ وہ جانے لگے تو ڈاکٹرصاحب کو یاد آیا ، ’’اگر ان باتوں سے افاقہ نہ ہو تو آپ دوبارہ بھی میرے پاس آ سکتے ہیں۔زیادہ مسئلے کی صورت میں ادویات بھی تجویز کی جا سکتی ہیں ‘‘۔
’’ جی بے حد شکریہ ڈاکٹر صاحب‘‘ شرجیل اور علینہ کلینک سے نکلے تو بہت مطمئن اور مسرور تھے انہیں محسوس ہؤا کہ بہت سے خوش رنگ سویرے ان کے منتظر ہیں ۔
٭اس تحریر میںماہر نفسیات ڈاکٹر قرۃ العین کا تعاون شامل ہے۔زث
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x