ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

قصیدہ برد ہ – روبینہ قریشی

جس کا فیض آج بھی جاری ہے، کیا خاص بات اس سے منسوب ہے؟

مصر کے ایک مشہور بزرگ شرف الدین بوصیری گزرے ہیں۔انہوں نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔جیسا کہ والدین بچوں کو سکولوں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے ہیں اسی طرح بوصیری کو بھی والدین نے مدرسے بھیجنا شروع کیااور جلد ہی آپ نے قرآن پاک حفظ کر لیا۔
اس کے بعد آپ کے والد صاحب کی خواہش تھی کہ اب آپ کچھ کام کاج کریں تا کہ گھر سے غربت کا خاتمہ ہوجبکہ بوصیری ابھی مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک زیادہ روشن مستقبل چاہتے تھے۔گھر میں باپ بیٹے کے درمیان کھینچا تانی شروع ہو گئی۔آخر کار بوصیری نے اپنی والدہ کو اپنے ساتھ ملا کے والد سے مزید پڑھنے کی اجازت لے لی۔
اس کے بعد آپ نے تجوید، فقہ اور باقی ضروری مضامین کو پڑھا اور بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔اس وقت تک آپ ایک دنیادار شخص تھے اور مادی کامیابیوں کو ہی ترجیح دیتے تھے۔آپ غربت سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔شاعری کا وصف آپ کو اللہ کی طرف سے ودیعت کیا گیا تھا۔اب آپ بادشاہوں کی شان میں قصیدے بھی لکھتے تھے اور نئے شعراکی اصلاح بھی کیا کرتے تھے۔درس و تدریس سے بھی منسلک تھے۔
ایک دن آپ گھر سے باہر کہیں جا رہے تھے جب ایک شخص نے آپ کو روک کے آپ سے پوچھا۔
’’کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی زیارت ہوئی؟‘‘
اس شخص کا یہ سوال کرنا امام بوصیری کی زندگی کو بدلنے کا سبب بن گیا۔اب امام بوصیری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا بغور مطالعہ شروع کر دیا۔آپ جوں جوں مطالعہ کرتے جارہے تھے آپ کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بڑھتی جا رہی تھی۔اورجوں جوں وقت گزر رہا تھا یہ محبت عشق کی تڑپ میں بدل رہی تھی۔
اسی دوران میں انہیں فالج کا حملہ ہؤا اور یہ صاحب فراش ہو گئے۔اسی حالت میں پندرہ سال گزر گئے۔وہ بادشاہ جن کے قصیدے امام بوصیری لکھتے تھے انہوں نے پلٹ کے نہ پوچھا۔آپ بہت دل گرفتگی کے عالم میں ایک رات لیٹے ہوئے تھےجب آپ نے سوچا کہ زندگی بھر دنیا کے بادشاہوں کے قصیدے لکھے آج کیوں نہ ان کا قصیدہ لکھوں جن کے سامنے ان بادشاہوں کی کوئی اوقات نہیں۔
جب ٹوٹے ہوئے دل سے ، سچی محبت کے ساتھ الفاظ نکلے تو وہ اس بارگاہ میں مقبول ہوگئے جس کے بعد وہ الفاظ امر ہو گئے۔ اس سے پہلے بھی امام بوصیری نے عرب کے صحراؤں پہ، صحراؤں کے خیموں پہ اور خوش جمال چہروں پہ شاعری لکھی لیکن اس رات وہ اس بدرالدجٰی،شمس الضحٰی کی شان بیان کر رہے تھے جن کی خاطر رب نے اس دنیا اور اس کی ہر چیز کو تخلیق فرمایا۔ میرا ایمان یہ ہے کہ یہ کلام بھی رب کی ہی دین ہے اور وہی رب ہی اسے انسان پہ اتارتا ہے۔
جب آپ قصیدہ لکھ چکے تو آپ نے قلم دوات رکھی اور سو گئے۔اسی رات آپ نے خواب دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور فرمایا :
’’اٹھ بوصیری!‘‘
امام بوصیری نے کہا ’’ میں ہزار جانوں سے قربان لیکن کیسے اٹھوں؟‘‘کیونکہ وہ فالج زدہ تھے اور اٹھنے سے قاصر تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست شفقت ان کے جسم پہ پھیرا اور فرمایا۔
’’اٹھ اور مجھے وہ سنا جو تو نے لکھا‘‘۔
امام بوصیری اٹھ بیٹھے اور جھوم جھوم کے سنا نے لگے:
’’مولا یا صلِّ وسلِّم دائماً ابداً۔
اے اللہ! آپ دائمی اور ابدی سلامتی بھیجیےاپنے محبوب پہ
میری آنکھیں آپ کی یاد میں آنسو بہا رہی ہیں اور رواں دواں ہیں۔
مدینہ پاک سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے۔اندھیری رات میں بجلی چمک رہی ہے۔
میرے عشق کا تذکرہ لوگوں تک پہنچ چکا ہے۔ اب میرا راز محبت بھی نہیں چھپ سکتا اور نہ ہی میرا مرض ختم ہو گا۔
تیری محبت کی، میرے آنسو اور میری بیماری گواہی دے رہے ہیں،میں اپنے عشق کو کیسے چھپا سکتا ہوں۔
اے دل!اگر تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا عاشق نہیں تو مکہ کو دیکھ کے آنسو کیوں بہاتا ہے۔
کیا محبت میں رونے والا عاشق خیال کرتا ہے کہ بہتے آنسوؤں اور سوختہ دل کی آڑ میں محبت کا راز چھپا پائے گا ۔
تیری آنکھوں کو کیا ہؤا ہے کہ تو انہیں آنسو روکنے کیلئے کہتا ہے اور یہ بہائے جا رہی ہیں۔
تیرے دل کو کیا ہو گیا ہے کہ سنبھلنے کی بجائے مزید غمناک ہو رہا ہے۔
جب رات مجھے محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم) کا خیال آیا تو میں رات بھر جاگتا رہا۔
درد ِمحبت نے میرے چہرے پہ آنسو اور رخساروں پہ زردی پیدا کر دی ہے ۔
اے غریبوں کا خیال رکھنے والے
اے دل گیروں کی دلجوئی کرنے والے
اے مظلوموں کا ہاتھ پکڑنے والے
اے سچ کہنے والے
اے گناہگاروں کا پردہ رکھنے والے
اے ازل کا نور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
آپکے منہ میں آپ کے دانت ایسے ہیں جیسے سیپ کے اندر قیمتی موتی۔
اے اللہ آپ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پہ ابدی اور دائمی سلامتی نازل فرمائیں‘‘۔
اب امام بوصیری جھوم جھوم کے پڑھ رہے ہیں اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی محبت کو قبول فرماتے ہوئے ان کے ساتھ سن رہے ہیں۔جب قصیدہ ختم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے خوش ہوئے کہ آپؐ نے اپنی چادر(بردہ) اتار کے انہیں مرحمت فرمائی۔
اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو چادر ان کے پاس ہی رکھی ہوئی تھی۔وقت دیکھا تو تہجد کا وقت تھا۔امام بوصیری پندرہ سال کے بعد ہشاش بشاش صحت مند اٹھے ۔ فالج کا کہیں دور دور تک نام و نشان بھی نہیں تھا ۔وضو کیا اور مسجد کا رخ کیا کہ تہجد ادا کریں۔
گھر سے نکلے تو ایک فقیر نے آواز لگائی:
’’ہمیں بھی تو سناؤ وہ قصیدہ‘‘۔
امام بوصیری نے تجاہل عارفانہ سے کہا’’کون سا؟‘‘
’’وہی جس کے بدلے یہ بردہ بھی ملا‘‘مجذوب نے چادر کی طرف اشارہ کیا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔
اس قصیدے میں 100 سے اوپر اشعار ہیں اور کسی شعر میں لفظ ’’بردہ‘‘استعمال نہیں ہؤا،لیکن جو چادر آپ کو دی گئی اس کی مناسبت سے اس کا نام قصیدہ بردہ شریف زبان زد خاص و عام ہؤااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شرف قبولیت سے نوازا تو آج تک اس کا ورد جاری ہے۔
مولا یا صلِّ وسلِّم دائماً ابداً!
٭٭٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x