۲۰۲۴ بتول اپریل

اب کسے رہنما کرے کوئی – عاصمہ غنی

وہ خاتون جسے زندگی کے اہم حقائق اور مسائل عورت اور اس کے دائرہ کار کے اندر رہ کر قرآن وسنت کی روشنی میں پڑھنا ، سمجھنا ، برتنا ، نبھانا ، سہنا سکھائے۔
وہ کوئی مقررہ، حافظہ ، عالمہ یا زبان و الفاظ سے لچھے دار گفتگو کرنے والی قصہ گو خاتون نہیں تھیں ۔اس دور میں شریعت کی روشنی میں عقل و شعور کے ساتھ علم و عمل کا جذبہ بیدار کرنے والی خانہ دار اور خاندان ساز معلمہ تھیں جو ایمان و اخلاص کی نیت کا بیج کاشت کر کے زندگی کی جنگ کو مؤحد مسلم اور مومن بن کر لڑنا سکھاتی تھیں ۔ عقیدہ توحید کے آفاقی تصور کے ساتھ اپنے نفس، ذات سے لے کر خاندان ، معاشرہ قوم ، امت اور عالمی اسلامی تحریک کے لیے جدوجہد کرنا سمجھاتی تھیں۔
وہ اپنے ہمہ پہلو علم کے ساتھ اپنے شاگردوں کو قرآن و سنت کی صرف انفارمیشن نہیں دیتی تھیں، وہ احکام و حقائقِ قرآن پر یقین اعتماد اور یکسوئی @(کنفرمیشن )منتقل کرتی تھیں ۔ان کے ساتھ رہ کر اندازہ ہؤا کہ اہل قرآن کیسے ہوتے ہیں۔
ان الذین قالو ربنا اللہ ثم اسقامو ا جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر…

مزید پڑھیں

ابتدا تیرے نام سے

قارئین کرام! سلام مسنون
حسبِ وعدہ ’’زہرہ عبدالوحید نمبر‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ان کی متحرک اور فعال شخصیت کےمختلف پہلوؤں پرفرمائش کرکے تحریریں لکھوائی گئی ہیں۔ایک تاریخ ہے جو ان تذکروں میں بین السطور بولتی ہے۔لکھنے والوں نے بھی دل سے لکھا ہے ۔ وہ محبت فاتح عالم کی تصویر تھیں جبھی تو محبتوں کے اسیر لاتعدادہیں اور ان میں بہت سے اپنی یادیں لکھنے کو بے قرار۔لوگوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے جس نے جو بھی پُرزہ دیا ،وہ کوشش کرکے شامل کردیا ہے، البتہ باتیں دہرائے جانے کے خیال سے کہیں کاٹ چھانٹ بھی کرنی پڑی۔ تحریریں جمع کرنےمیں آسیہ راشد صاحبہ اور راحیلہ سلمان صاحبہ کا تعاون بطورِ خاص شامل رہا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ان تذکروں کو مرحوم ہستی کے حق میں قبول کرلے اور ان کے محبان کو ان کا صدقہِ جاریہ بنائے،آمین۔
رمضان المبارک بھی گزر گیا مگراہلِ غزہ کی آزمائش میں کوئی کمی نہ آئی۔ناجائز اور غاصب ریاست اسرائیل نے دنیا بھر میں اپنی حمایت کھو دی ہے بلکہ اب تو اس کا باپ امریکہ بھی اس کی حمایت میں محتاط ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود ریاستی سطح پر مسلم ممالک کی جانب سے کسی عملی اقدام کی عدم موجودگی دراصل اسرائیل…

مزید پڑھیں

اماں جی – محمد عبداللہ

1984ء میں ادارہ بتول لنک میکلوڈ روڈسےسلطان احمد روڈ اچھرہ منتقل ہوا۔یہ اماں جی کے گھر کے سامنےان کے بڑے بھائی کی بلڈنگ میں تھا ۔
ان کے گھر حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی عہدے دار خواتین آتیں ۔ایک دن ان کے ہمراہ آ پا نیر بانو (قیمہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان) اور آ پا زبیدہ بلوچ تشریف لائیں اور مختلف ا مور جن میں کتابوں کی اشاعت ، ترسیل اور نور ، بتول کے سلسلہ میں پوچھا اور ہدایات دیں۔یہ میری اماں جی سے پہلی ملاقات تھی۔ یہاں دفتر تقریباً ڈیڑھ سال رہا۔ اس دوران وہ ، کوئی کام ہوتا کتابیں منگوانا ہوتیں یا نور،بتول جاری کروانے کے لیے ایڈریس دینا ہوتےتو گھر بلوا لیتیں۔ کام بتانے کے بعد پوچھتیں کہ کھانا کھایا ہے کہ نہیں اور بضد ہوکر کھانا کھلا کر ہی بھیجتیں۔
میں انہیں اماں جی کہہ کر مخاطب کرتا تھا اور میرے بچے دادی اماں کہتے تھے۔ مجھےانہوں نے ہمیشہ بیٹا کہہ کر ہی بلایا۔
ایک دفعہ آ پا نیر بانو کے ہمراہ دفتر تشریف لائیں، آپا جی نیر بانو نے پوچھا کہ آ پ کا اپنا گھر ہے یا کرائے پر رہتے ہیں ۔’’ یہ کرائے پر رہتا ہے ،اسے کہا ہےکہ کوشش کرکے اپنا گھر بنائو…

مزید پڑھیں

امی جی فرد نہیں ادارہ، شخصیت نہیں کیفیت – سلمان غنیــ

ہر ذی نفس کے لیے موت کا وقت مقرر ہے اور زندگی کا سفر موت پر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔ غیر معمولی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ایسے ان مٹ نقوش دنیا میںچھوڑ جاتے ہیں کہ دنیا ان کو یاد کرتے ہوئے ان کی تعریف کرتی ہے ،ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
آپا زہرا وحید بلاشبہ ایک غیر معمولی شخصیت تھیں بلکہ اگر انہیں ایک ادارہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ ان کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت تھی خواتین اور خصوصاً بچیوں میں قرآن اور اسلام کی تعلیمات کی ترویج کے لیے انہوں نے زندگی وقف کر رکھی تھی اور اس طرح انہوں نے ہزاروں نہیں لاکھوں میں اسلام کی تڑپ قرآن پاک کے ذریعے پیدا کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہر طبقہ کی خواتین میں ان کا احترام تھا اور زیادہ تر خواتین اور عام عزیز و اقارب میں انہیں ’’امی جی‘‘ ہی کہہ کر پکارا جاتا تھا اور وہ امی جی حقیقی معنوں میں سب سے اپنی بچیوں کی طرح پیار کرتی تھیں۔جو بھی ان کے پاس اپنے مسئلے اور مشکلات لے کرجاتا تو وہ ایک ماں کے طور پر اس کے حل کے لیے سرگرم ہو جاتیں اور اس…

مزید پڑھیں

امی سے میرا رشتہ – سعدیہ ناصر

امی کو میں نےپہلی دفعہ اپنے گھر مغل پورہ میںدیکھا ۔ میری والدہ فرزانہ شوکت اُن سے ترجمے سے قرآن پڑھتی تھیں۔ مغل پورہ ریلوے کالونی میں امی کی بہت سی شاگردتھیں جو ہفتہ میںایک دن ہمارے گھر درس قرآن میںموجود ہوتی تھیں ۔ میرے والدمحترم شوکت خلیل ریلوے میںسینئر پوسٹ پہ انجینئرنگ کے شعبے میں کام کرتے تھے اور ہمیں ریلوےڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ایک گھر ملا ہؤا تھا ۔ ہم تین بہنیںاورتین بھائی ہیں ۔ میرے والد محترم اور والدہ محترمہ اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں ۔
اچانک ایک دن پتہ چلا کہ امی ( زہرہ آپا ) نے اپنے بیٹے ناصر حمید خان کے لیے میری والدہ سے میرے رشتے کی بات کی ہے ۔میری والدہ بہت خوش ہوئیںاور امی سے کچھ وقت مانگا کہ وہ اپنے عزیز و اقارب سے مشاورت کریں گی ۔ ہمارے عزیز و اقارب کراچی میں رہائش پذیر ہیں ۔ کچھ دن بعد جب سب لوگوںسے خاندان میں مشورہ ہو گیا تو پتہ چلا کہ میری ممانی جان کاکراچی جماعت کی بہترین رکن آپا بلقیس صوفی کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور اُن کا امی ( زہرہ آپا ) سے بہت گہرا تعلق ہےتو اطمینان ہو گیا یہ اللہ کا فیصلہ تھا…

مزید پڑھیں

امی ،میری ساس – ناصرہ پروین خان

ایک بہو کے لیے اپنی ساس کی توصیف میں قلم اٹھانا اور وہ بھی بعد از مرگ یقیناََ ایک بے حد خوشگوار اور خوبصورت ماضی کی غمازی کرتا ہے اور پھر اپنی ساس جوکہ سگی چچی تھیں اپنے حسنِ اخلاق اور محبت کی وجہ سے ماں سے بھی بڑھ کر درجہ حاصل کرلیں یقیناََ قابلِ تحریر ہے ۔
میری والدہ کا انتقال 1998 میں امریکہ میں ہؤا۔ چچی صاحبہ نے پچھلے 25 سال نہ صرف اس خلا کو انتہائی محبت و شفقت سے پُر کیا بلکہ اپنے حسنِ سلوک سے اپنی بہوؤں کے دل جیت لیے ۔ ہمارا گھر ایک بھرا پُرا گھرانہ ہے اور 9 بیٹیوں اور 4 بیٹوں کے ساتھ ہمیشہ خوشیوں اور قہقہوں سے گونجتا،چچا صاحب کے مترنم اور گونجدار قہقہے اسے مزید جاندار و شاندار بنا دیتے۔ چچی صاحبہ کے اپنے اصول تھے جن کے تحت سب لوگ اپنی اپنی حدود کی حفاظت کرتے۔ صوم وصلوٰۃ کی پابندی رمضان میں سحر و افطار کی رونقیں ، عید بقر عید پر دعوتیں۔ تحریکی اجتماعاتِ خواتین ، درس قرآن و دورہ قرآن کی محافل ، اکثر اوقات دیگر شہروں سے آئی ہوئی جماعت کی خواتین جن کا قیام و طعام بھی ہمارے ہی گھر ہوتا، گھر کی رونقوں اور…

مزید پڑھیں

امی ! – راشد حمید خان

کیا کہا جائے اور کیا لکھا جائے ۔ فقط اس کے کہ مرنے والی کی یادیں ہیں آہیں ہیں اور اِن یادوں سے اکتساب نور ہے۔ یہ ایک عجیب ہستی کی داستانِ حیات ہے جسے خلقِ خدا نے بے انتہا چاہا، عقیدت اور عزت دی، نہ انہیں نام و نمود کی خواہش نہ ستائش کی تمنا اور نہ صلے کی پروا۔ ایسے لوگ دنیا میں کمیاب ہی نہیں ، نایاب ہوتے ہیں بلکہ نادر و نایاب ۔ آپ چراغ لے کے بھی ڈھونڈیں تو شاذ ہی کبھی کوئی مل پائے گا ۔آپ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ کس طرح اللہ کی رحمت ان ہستیوں پہ ٹوٹ کے برستی ہے ۔ ایسے لوگ کبھی کبھی کہیں کہیں ملتے ہیں کسی بستی میں کسی قریہ میں ، جب تک کہ گردشِ لیل و نہار قائم ہے ۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ زمین پر اللہ کا نام لینے والا ایک بھی نہ ہوگا، تب قیامت قائم ہوگی۔
والدہ محترمہ عام عبادت گزاروں سے قدرے مختلف، کچھ سوا اور سچ تو یہ ہے کہ بہت کچھ سوا ۔ ایک سچا مسلمان تعصبات سے آزاد ہوتا ہے شاید اس لیے بھی کہ کوئی ضرورت مند محروم نہ رہ جائے، جو بھی چلا آئے…

مزید پڑھیں

دو پاکیزہ روحیں – ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

آپا زہرہ عبدالوحید ؒ ایک مثالی تحریکی خاتون رہنما تھیں، ان کے شوہر محترم عبد الوحید خان ؒ بھی ایک مثالی تحریکی رہنما تھے،اور آپا زہرہ اور محترم عبد الوحید خان ؒ کا گھرانہ بھی ایک مثالی تحریکی گھرانہ تھا،اور ہے۔
محترم عبدالوحید خان ؒ کو میں نے پہلی مرتبہ 1963 ء کے اجتماع عام کے موقع پر دیکھا تھا۔میں اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ابا جی مولانا گلزار احمد مظاہری مرحوم تو پہلے ہی لاہور میں تھے۔اور میں اماں جی مرحومہ کے ہمراہ سرگودھا سے قافلے کے ساتھ آیا تھا۔جب اجتماع عام پر حکومتی غنڈوں کا حملہ ہؤا اور انہوں نے سٹیج پربراہ راست فائرنگ کی تو میں اسٹیج پر ہی اپنے ٹیپ ریکارڈر کے ہمراہ موجود تھا۔ مولانامودودی ؒ محترم کھڑے تقریر فرما رہے تھے۔کسی نے کہا کہ مولانا آپ بیٹھ جائیےآپ نشانہ ہیں۔تو مولانا نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ اگر آج میں بیٹھ گیا تو یہاں کھڑا کون رہے گا۔یہ تاریخی جملہ میں نے خود سنا۔جب غنڈے قناتیں توڑ کر نکلے تو میں اور ارشاد اصلاحی بچگانہ تجسس میں ان کے پیچھے نکلے۔
اسٹیج کے دائیں طرف کتابوں کے اسٹال تھے۔ہم نے دیکھا کہ غنڈے اسٹالوں کو الٹا رہے تھے۔ایسے میں محترم عبد الوحید خان ؒ…

مزید پڑھیں

بتول میگزین

نا ممکن کو ممکن کردینے والی خاتون
ڈاکٹر شگفتہ اطہر۔گلاب دیوی ہسپتال
آپا کے بارے میں مَیں اپنے اندر کچھ بھی کہنے کی ہمت نہیں پا رہی دل غم سے لبریز ہے ۔ان کی ذات ایک سمندر کی مانند تھی ۔آپ بلا شبہ بہت خوبیوں کی مالک تھیں ۔ آپا جان سے اگر ہم کسی مریض کا ذکرکر دیتے کہ اسے مدد کی ضرورت ہےتووہ اسے اپنا ایمان بنا لیتی تھیں ۔ اسے پورا کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتی تھیں اور ہمیں پتا ہوتا تھا کہ جب ہم اپنا یہ مسئلہ آپا جان کےسامنے رکھیں گے تو وہ اسے ضرور حل کریں گی اور ہم انہیں اپنی مشکل بتا کر بے فکرہوجاتے ۔آپا ہروقت مالی اورفزیکل سپورٹ دینے کو تیار رہتیں ۔ وہ ہمیں دین کی طرف لے کرآئیں۔ ترجمےکے ساتھ قرآن پاک پڑھنا سکھایا اورہم لوگوں نے آپا کے توجہ دلانے کے بعد حجاب کرنا شروع کیا ۔ وہ ایک عظیم انسان تھیں ان کے دنیا سے جانے کے بعد ہم ایک بہت بڑی نعمت سے محروم ہوگئے ۔ جب میرے والد صاحب کی وفات ہوئی توآپا نے کہا تمہاری کمر ٹوٹ گئی ہے۔ اس کے بعد وہ میری کمر بن گئیں ۔ ان کا میرے اورمیرے شوہر اطہرکے ساتھ انتہائی…

مزید پڑھیں

چراغم باتو سوزم، بے تومیرم – رافعہ قیوم

امی جی جو ہماری نانی جان تھیں، اگرچہ ہماری زندگی کا کوئی بھی پہلو اُن کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں اور ان کی باتوں سے جی نہیں بھرتا،مگر ان کی ذات سے جُڑے اس تعلق پرلکھنا کس قدر مشکل ہو سکتا ہے،اس کا اندازہ نہیں تھا۔ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے اور ربط ہے کہ ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک نیوکلئیس جس کے گرد ہماری پوری دنیا گھومتی تھی، وہ ختم ہوگیا، کوئی محرومی سی محرومی ہے ، اور کس میں یارا کہ اس محرومی کو الفاظ میں بیان کر سکے۔
لوگ عام طور پر ماں باپ کے گھر کو میکہ کہتے ہیں مگر میری لغت میں امی جی کا گھر ‘جگت میکہ ‘ہے۔اچھرہ میں اس گھر کی بنیاد مولانا محترم نے رکھی اور اس کا نام دارالعباد طے پایا۔ اور پھر چشمِ زمانہ گواہ ہے کہ کیسے یہ دارالعباد ہمیشہ لوگوں سے بھرا رہا۔ اکرام اور اہتمام اس گھرانے کی اہم ترین خصوصیات ہیں۔ ہم نے ہمیشہ تمام لوگوں کے لیے جو کسی بھی حوالے سے امی جی یا ابا جی (نانا جان اور نانی جان) سے ملنا چاہتے تھے، ایک جیسی توجہ، اکرام، التفات اور اہتمام پایا جس سے ہر ملنے والا باغ باغ ہو جاتا۔یہ گھر امی…

مزید پڑھیں

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو – گلِ رعنا مسعود تحریر : آسیہ راشد

فی سبیل للہ ٹرسٹ کا قیام محنت ، عزیمت، استقامت کی قابل تقلید داستان ہے ۔ یہ ان درد دل رکھنے والوںکی کہانی ہے جو بنی نوع انسان کی بہتری اورخدمت کے لیے اپنے شب و روز کا آرام تج کے صرف اور صرف اللہ کی رضا اورانسانیت کی بھلائی کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں ۔ اس ٹرسٹ کی بانی آپا زہرہ وحید صاحبہ بلا شبہ انتھک محنت ، ہمت اور خلقِ خدا کی خدمت کا استعارہ تھیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب 1970ء کی دہائی میں بہت سے محب الوطن پاکستانی مشرقی پاکستان سے ہجرت کر کے پاکستان آگئے ۔ یہ لوگ بہاری کہلائے ۔ ان کی رہائش کے لیے حکومت پاکستان نے لاہور میں ایک جگہ مختص کی یہاں بہاریوں کے لیے گھر بنائے جائیں گے۔ یہ علاقہ ٹائون شپ اور گرین ٹائون کے درمیان واقع ہے ۔اس زمین پر جماعت اسلامی نے 5،5مرلہ کے تین سو گھر تعمیر کیے اوریہ جگہ بہاری کالونی کہلائی ۔ اس علاقے میں آپا جی نے بہاریوں کی امداد ان کی صحت اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہت کام کیے ۔ جومہاجر یہاں آتے وہ بے شمار بیماریوںمیںمبتلاہوتے جن میں سر فہرست ٹی بی ، پیٹ…

مزید پڑھیں

اِک دور تھا جو گزر گیا – شاہدہ اکرام

2022ءکے آخری مہینوں کی بات ہے آپا زہرہ وحید صاحبہ سرپرست ادارہ بتول کی زیر صدارت زوم پرمیٹنگ طے ہوئی ۔ اُن کی بیٹی راحیلہ کو خصوصاً تاکید کی گئی کہ اُن کو لازمی شرکت کروائیں۔ آپا جی چونکہ اپنی شدید علالت کی وجہ سے آنے سے قاصر تھیںلیکن اُن کے بغیر پروگرام کے انعقاد کا تصور محال تھا ۔ انہوں نے حامی بھر لی اور یہ پروگرام انہی کی زیر صدارت ان کے گھر میں ہؤا جس پر ہم سب بہت خوش تھے ۔ آپا زہرہ نے ہی خاص نکتہ ایجنڈا میں رکھوایا تھا کہ ’’ میں اپنی مستقل علالت اور بیماری کی شدت کی وجہ سے چیئر پرسن ادارہ بتول کی ذمہ داری سے رخصت چاہتی ہوں ، یہ ذمہ داری کسی اور ٹرسٹی کو سونپ دی جائے ‘‘۔
اُن کی موجودگی میں نئے ذمہ دار کا انتخاب عمل میں آیا ، اور یہ طے ہؤا کہ آپا زہرہ تا حیات سر پرست ادارہ رہیں گی اور کام کی نگرانی نئے چیئر پرسن کو دے دی جائے گی ۔ زہرہ آپا نے ہی 2000ء کی دہائی میں چیئرپرسن کی ذمہ داری اٹھائی تھی جبکہ بنت ِ مجتبیٰ مینا مرحومہ کی وفات کے بعد یہ مرحلہ پیش آیا تھا ۔…

مزید پڑھیں

ایک عہد تھا جو تمام ہوا – ڈاکٹر حمیرا طارق

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایاہے:
آ خر ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے،رہی یہ دنیا تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے(آل عمران :۱۸۵)
آج سے پینتیس سال قبل ایک الیکشن کے جلسے میں زہراآپا کو سیاسی تقریر کرتے سنا۔ایک پر وقار اور وجیہہ خاتون ،تقریر کا خصوصی ملکہ حاصل تھا۔پورا مجمع مسحور تھا۔بغیر مائیک کے بلند آواز میں انتخابی تقریر کی کہ مجمع میں موجود مخالف بھی کوئی اعتراض نہ کرسکے۔
اٹھائیس سال قبل میں نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی پھر زہرا آپا کے ساتھ دن رات کا ساتھ تھا۔اُن کی پوری زندگی سراپا تحریک تھی۔لاہور ڈویژن میں کسی جگہ بھی چلے جاؤ ہر خاتون زہرا وحید صاحبہ سے واقف تھی ۔لاہور، قصور اور شیخوپورہ کی شاید ہی کوئی گلی یا محلہ ہوگا جہاں زہرا آپا نے درس قرآن نہ دیا ہو،اورجہاں انتخابات کے دنوں میں سیاسی جلسہ سے خطاب نہ کیا ہو۔
اُن کی مجلس میں بیٹھ کر ،اُن کی گفتگو سن کر اُن کے آفاقی نظریے اور اُس نظریے کے حق میں علمی دلائل اور پھر نظریے…

مزید پڑھیں

اک ستارہ تھا جو کہکشاں ہو گیا – ثمینہ سعید

بعض ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہوتی ہے۔وہ اللہ کے دین کی سربلندی کومقصد حیات بنا کر اس پر اپنی ساری ترجیحات قربان کر رکھتی ہیں۔ زہرا خالہ جان بھی کچھ اسی طرح کی ہستی تھیں۔نصب العین کے حصول کے لیے کوشاں،تحریکی زندگی بھی بے مثال اور خانگی زندگی بھی ؎
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
مشک میں جب تک خوشبو رہے گی وہ مشام جاں کو معطر کرتا رہے گا۔ چراغ جب تک روشن رہے گا روشنی پھیلاتا رہے گا۔ مگر جب مشک کی خوشبو قریب والے کو بھی محسوس نہ ہو اور چراغ کی روشنی اپنے ماحول کو بھی روشن نہ کرے تو ہر شخص یہی کہے گا کہ مشک مشک نہیں رہا اور چراغ اپناچراغ پن کھو چکا ہے۔ یہی حال مومن کا ہے۔ اگر وہ خیر کی طرف دعوت نہ دے نیکی کا حکم نہ دے بدی کو برداشت کرے اور اس سے روکے نہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں خوف خدا کی آگ سرد پڑ گئی ہے اور ایمان کی روشنی مدھم ہو گئی ہے۔
سید ابو الاعلی مودودی ؒکے ان الفاظ کو اگر ہم زہرہ وحید خالہ جان کی شخصیت کے اندر…

مزید پڑھیں

سیرت سے فتح کرتے ہیں لوگوں کے دلوں کو – فوزیہ عبداللہ

آپا زہرہ وـحید جماعت اسلامی کا درخشاں ستارہ، ایک فعال رکن اور دردِ دل رکھنے والی عظیم خاتون تھیں۔ وہ انتہائی زیرک، مدبر اور فہم و فراست کی مالکہ تھیں ۔ اُن کا لہجہ انتہائی پر شفیق اور سادہ تھا گویا کہ آپ کا وجود خلوص و محبت کی بے نام مہک تھا۔ کسی بھی معاملے کو بہت حکمت سے طے کرنے والی اماں جان جب کوئی فیصلہ لینے پر آتیں تو ڈٹ جاتیں، مجبور اور بے بس کے لیے عصائے موسیٰ کا سا کردار ادا کرتیں۔
وہ اپنی اور بے شمار خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایک بے مثال ماں بھی تھیں جو نہ صرف اپنی حقیقی اولاد کے لیے قیمتی اثاثہ تھیں بلکہ اپنے ماتحت اور متعلقہ افراد کے لیے بھی ماں کا درجہ رکھتی تھیں اور اُن کے مسائل کو ایک حقیقی ماں کی طرح سلجھانے کی کوشش کرتیں۔
میں اُن کے تعلیمی ادارے ’’دبستانِ زہرہ‘‘ کی طالبہ رہ چکی ہوں اور ان کی دخترانِ نیک اختر کی تعلیم و ترتیب سے فیض یاب ہونے کا شرف حاصل کر چکی ہوں۔ والدہ (زہرہ وحید) کا عکس میری تمام اساتذہ میں بخوبی جھلکتا ہے۔کوئی فہم و تدبر میں بے مثال، تو کوئی نرم خو اور شفیق اورکسی کو بہترین منتظم ہونے…

مزید پڑھیں

بزرگ شجر ِسایہ دار – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

زندگی اپنا آپ دہراتی رہتی ہے ۔ جیسے صبح و شام ، بہار خزاں ، دن رات کا آنا جانا ایک معمول کے ساتھ ہمیشہ سے چل رہا ہے اور ابد تک اس کی گردش چلتی رہے گی ۔بچپن ،جوانی اور بڑھاپا بھی اسی گردش کا نام ہے ۔ بس انسانوں کی شکلیں اور نام بدل جاتے ہیں ۔ آج جو پوتا ہے وہ کبھی دادا بن جائے گا اور جو آج دادا ہے وہ کبھی کسی کا پوتا تھا۔
موجودہ دور میں یہ بات درست ہے کہ باہمی تعلقات میں بہت سے عوامل نے قربت میں پہلے جیسی مٹھاس نہیں رہنے دی ۔ بزرگ تو بعد کی بات ہے اس وقت اولاد اور والدین ، بہن بھائیوں میں بھی والہانہ وابستگی کا فقدان ہے ۔ اس کی وجہ گھر کے ہر فرد کی الگ الگ مصروفیات اوقات کار اور ان میں ترجیحات کے فرق کی وجہ سے مل بیٹھنے کے مواقع کا نہ ہونا ہے ۔ہر گھر میں سارے افراد کسی ایک کام میں مشترک ترجیح متعین کر لیں تو سب کو ایک مشترکہ مصروفیت مل سکتی ہے۔وہ مشترکہ مصروفیت کیا ہو سکتی ہے ہر گھرانے کا الگ انتخاب ہو سکتا ہے۔
کسی بھی گھر میں اگر بزرگ موجود ہوں تو…

مزید پڑھیں

ان کی گود سے ان کی اوٹ تک – صائمہ اسما

زہرہ خالہ سے میں پہلی بار کب ملی ہوں گی کچھ یاد نہیں!
البتہ یہ اچھی طرح یاد ہے کہ لڑکپن میں آکر بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ پڑھاجس میں کہانی کا مرکزی کردار اپنی ماں کاتذکرہ کرتا ہے تو یوں کہ اپنے بچپن والے گھر کے آنگن کی جزئیات کے ساتھ منظر کشی کرتا ہے۔اس آنگن میں ہرطرف سرگرمی جاری ہےجو ماں کے دم سے ہے خواہ ماں اس میں ہو یا نہیں۔ اس کا جملہ شاید یوں ہے’’ماں کہیں نظر نہ آتی تھی مگر ماں ہر جگہ تھی‘‘۔یہ آنگن ان سب مختلف سرگرمیوں سے بھرپور تھا جوحویلی میں ایک روایتی گاؤں کی زندگی کا احاطہ کرتی ہیں۔
میں نے پڑھنے کے بعد غور کیا کہ پڑھتے ہوئے میرے تخیل میں اس آنگن کا جو نقشہ بن رہا تھا وہ بہت حد تک اس صحن سے ماخوذ تھا جو میں نے لاشعوری کی عمر سے دیکھ رکھا تھا۔۔۔۲،اے سلطان احمد روڈ اچھرہ کا گھر!اینٹوں کے اس صحن میں ہر وقت آمدورفت، چہل پہل،رونق اور سرگرمی رہتی۔ایک طرف پورا سکول لگا ہوتا، چھوٹی بچیاں اور بچے سبق یاد کررہےہوتے، کسی جانب مہمان داری ہورہی ہوتی، کہیں سوئی سلائی، کہیں کھیل کود۔۔۔ شاید ایک کونے میں چولھا بھی تھا ،اور کسی طرف…

مزید پڑھیں

خالہ جان زہرہ میری راہبر – رشیدہ صدف

وہ لوگ تو ایسا زیور تھے
جسے مٹی تلے چھپاتے ہیں
زندگی کے اس سفر میں جب بھی کوئی ہم سے جدا ہوتا ہے تو دل میں شدید ٹیس اٹھتی ہے،درد بھری آہ نکلتی ہے ، زبان پہ صرف اورصرف اِنَّاللہ وَاِنَّا الیہ راجعونْ ہوتا ہے کہ حکم یہی ہے ۔ کل خالہ جان کی وفات کی خبرملی دل سے ان کے لیے مغفرت کی دعائیں کیں بے اختیار زبان پر یہ جملے تھے کتنی عظیم تھیں وہ ! جب بھی ملاقات ہوئی کچھ نہ کچھ سیکھا ہی۔
جب بھی لاہور ارکان کے اجتماع میں جایا کرتے ملاقات ہوتی یا پھر آل پاکستان اجتماع عام میںملتے، لیکن حقیقت یہ ہے یہ بڑی ادھوری ملاقاتیں ہوتیں ، ہربارایک طویل ملاقات کی خواہش لے کرواپس آجا تے ۔ سال تو مجھے یاد نہیںاتنا یاد ہے بچے میرے چھوٹےہی تھے ، لاہور دورہ قرآن کے لیے جانا ہؤا ،وہاںجن دو بزرگ خواتین سے عملاً بہت کچھ سیکھا و ہ تھیں خالہ جان،بلقیس صوفی صاحبہ(مرحومہ ) جو کراچی سے آئی تھیں اوردوسری بزرگ نگران خالہ جان زہرہ وحید صاحبہ مرحومہ ، تب مجھے سمجھ آئی تھی ان تھک محنت کیاہوتی ہے جہد مسلسل کسے کہتے ہیں ۔
ان کی باتیں ، ان کی نصیحتیں ، ان کی بھاگ…

مزید پڑھیں

خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر – حمیرا ترنم

’’گڑیا بیٹے جاؤ ذرا سلمیٰ کے پاس جا کر میری رپورٹ بناکر لےآؤ ‘‘ امی نے مجھے اعدادوشمار سے متعلق کاغذات کا پلندہ تھماتے ہوئے کہا ۔
’’جی امی لیکن اس وقت تو دوپہر کا ایک بج رہا ہے اور شادباغ جاتے گھنٹہ اور لگ جائے گا تو دوپہر کے دو بجے میں ان کے پاس پہنچوں گی ۔ ان کے آرام کا وقت ہو جائے گا‘‘۔
’’نہیں بیٹے وہ اس وقت بچوں کو کھانا کھلاکرسلاکر فارغ ہوتی ہے تم چلی جاؤ‘‘۔
جی امی کہہ کر کاغذات کا پلندہ اُٹھایاورمیں ڈرائیور کے ساتھ سلمٰی حمید باجی کے پاس چل دی۔
امی جب لاہور کی ناظمہ تھیں تب سے ان کی رپورٹس اور لکھنے لکھانے کی ذمہ داری میری تھی۔ اور اسی وجہ مجھے امی کی پرنسپل سیکریٹری ہونے کا لقب بھی مل چکا تھا۔ کیونکہ اس کے ساتھ ایک اضافی خوبی یہ تھی جو امی کے لیےبہت سہولت کا سبب تھی کہ مجھے امی کے تمام فون نمبرز زبانی یاد تھے اور اس وجہ سے انہیں اپنی ڈائری دیکھنے یا کھنگالنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی، اسی وجہ سے میں امی کی ڈائریکٹری بھی کہلاتی تھی۔ کچھ امی کی اور ابا جی کی لاڈلی بھی زیادہ ہی رہی (خوش فہمی!) اس کا فائدہ…

مزید پڑھیں

ماں جیسی استاد – رفعت محبوب

زہرہ آپا ایک عہد ساز شخصیت اورمجاہدہ خاتون تھیں ۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی مسلسل جدوجہد میں گزاری اور ہمیشہ مشکل راستے کا انتخاب کیا۔زلزلوں، سیلابوں کے پانیوں میں جب سبز جیپ کا ڈرائیور پانی میں جانے سے انکار کر دیتا تو نڈر اور بہادر ایسی کہ اپنے چند ساتھیوں سمیت پانی میں اتر جاتیں اور کہتیں کہ ہم اللہ کے راستے پر جا رہے ہیں ، سانپ ہمیں اللہ کے حکم سے کچھ نہیںکہیں گے ۔ یہ اُن کا اللہ کی ذات پر کامل یقین تھا جو وہ بخیریت اپنی منزل مقصود پر پہنچ جاتیں ۔پھر ضروریاتِ زندگی کا سامان وہ گائوں گائوںاور گھر گھرمتاثرہ لوگوں تک پہنچا کرآتیں۔
زکوٰۃکے معاملے میںوہ حد درجہ محتاط تھیں ۔ کہتی ہیںکہ ایک دفعہ میں نے ایک عورت کو زکوٰۃ کی رقم دے دی لیکن جیسے ہی میںنے اس کے کانوں میں سونے کی بالیاں دیکھیں تو فوراً زکوٰۃکی رقم واپس لے کر خیرات کی مد سے اس کی مدد کردی۔
13 سال کی عمرمیں مولانا مودودی کی شاگردی میں جانے کے بعد زندگی کے آخری لمحوں تک اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہوئے اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں روحانی اولاد کو بھی قرآن و حدیث سے جوڑ گئیں۔
قرآن پڑھاتے…

مزید پڑھیں

منور، میری سہیلی – ام راشد

رخشندہ کوکب مرحومہ کی یادیں زہرہ عبد الوحید صاحبہ کے قلم سے

ڪمنورمیری ہم راز تھیں ، میری اور ان کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں تھی۔ وہ آسمان کاستارہ تھیں آسمان کے ستارے بننا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ستارے وہی بنتے ہیں جو سنت نبویؐ پر عمل پیرا ہوں۔
انہوں نے اپنی مختصر سی زندگی میں وہ کچھ چھوڑا جوایک نوجوان لڑکی کبھی نہیں چھوڑتی انہوں نے وہ کام کیے جو اس عمر کی لڑکیاں کم ہی کرتی ہیں ۔
منور سے میری پہلی ملاقات مولانا مودودیؒ صاحب کے گھر پر ہوئی۔1948ء سے1959تک ہم سائے کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رہے یہ 1948ء کی بات ہے میںان دنوں مولانا مودودی صاحب کے ہاںقرآن پڑھنے جایا کرتی تھی۔ میں اور باجی منور آمنے سامنے بیٹھے تھے ( وہ عمر میں مجھ سے کچھ بڑی تھیں اس لیے میں انہیں باجی کہا کرتی تھی) انہیںدیکھتے ہی میرے دل نے کہا یہ کسی بہت اچھے خاندان کی اعلیٰ مزاج والی لڑکی ہے ۔ ان کے چہرے سے اس بات کی شناخت ہو رہی تھی کہ یہ کسی بہت اچھے خاندان کی روح رواں ہیں ۔ درس کے دوران ایک آیت ایسی آئی جب مولانا مودودی صاحب نے اس آیت کی تشریح کی تو میںاور…

مزید پڑھیں

میری باہمت امی – عمار وحید خان

امی کے بارے میں لکھنے بیٹھا ہوں اور سوچ رہا ہوں کیا اور کیسے لکھوں ۔پچھلےتیس بتیس سالوں سے میرا قلم محض امراض کی تشخیص ، نسخے، ادویات یا تحقیقی طبی مقالے لکھتا آیا ہےجس میں ذاتی جذبات کے بجائے صرف پیشہ ورانہ حقائق مد نظر ہوتے ہیں لیکن اس تلخ حقیقت کا ادراک پہلے کہاں ہوتا ہے حتیٰ کہ کوئی عزیز از جان ہستی رخصت ہو جائے اور جذبات کا ایک امڈتا سمندر آنکھوں سے رواں ہو اور یہ قلم ان کی یادوں میں ڈوب کر ان کی شفقتوں اور محبتوں کے بے بہا خزینہ سے انمول موتی چن کر پیش کر سکے۔
پلٹ کر دیکھوں تو ایک لا متناہی سلسلہ ان تمام یادوں اور احساسات کا نظروں میں آن موجود ہوتا ہے۔ ایک بھرا پرا ہنستا کھیلتا گھرانہ امی ،ابا جی اور بہن بھائیوں کی خوبصورت محفلیں اٹھکیلیاں کرتے ہم شرارتی بچے بڑاسا صحن،باورچی خانہ میں بیٹھ کر اکٹھے ناشتہ کرتے ہم چھوٹے بہن بھائی اور کھل کھلا تے لہلہاتے شب و روز،جیسے پلک جھپکتے میں گزر گئے۔
بس خواب کی طرح یاد ہے ہمارے گھر کے باہر ایک ہجوم نعرے لگا رہا تھا اور کوہستان اخبار کے ملازمین جن کی تنخواہیں نہیں ملی تھیں احتجاج کر رہے تھے۔ ہم…

مزید پڑھیں

محشر خیال – حمیرا مودودی

’’ چمن بتول‘‘شمارہ مارچ 2024ء ماہ رمضان المبارک میں ملا ہے ، ٹائٹل پہ درختوں کی خوبصورت بہار دل و نگاہ کو بھارہی ہے ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ (مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا فکر انگیز اداریہ ) اب کے ہمارا خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کا انتخابات پر تبصرہ نہایت تندو تیز ہوگا لیکن آپ نے نہایت تحمل کے ساتھ ایک مدبرانہ تجزیہ پیش کیا ہے ۔ آپ کے یہ جملے زبردست ہیں ’’ بہر حال اس بار ووٹروں کا جوش و خروش دیدنی تھا ۔ یہ جمہوریت کے لیے لوگوں کی خواہش اور جمہوری عمل کے ذریعے اپنی پسند کے اظہار کا ثبوت ہے ۔ اس شعور کو کام میں لاتے ہوئے سیاسی طور پر بہتری کی نوید لائیں آمین‘‘۔ آپ نے فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیل کے وحشیانہ ظلم و ستم پر بھی صدائے احتجاج بلند کی ہے ۔ پھر آپ نے سوشل میڈیا پر فحش مواد کی بھرمار کے خلاف بھی آواز اٹھائی ہے اوراسے ایک سنگین مسئلہ قرار دیا ہے جس کا بر وقت تدارک ضروری ہے ۔
’’ بتول کی دیرینہ لکھاری اور خوبصورت شاعرہ نجمہ یاسمین یوسف صاحبہ کی رحلت کا پڑھ کے بے حد افسوس ہؤا۔ وہ اپنی خوبصورت شاعری کی…

مزید پڑھیں

میری بچپن کی ساتھی – حمیرا مودودی

جونہی ذہن ماضی کی طرف پلٹتا ہے آنکھوںکے سامنے ایک سراپا گھوم جاتا ہے ۔ بے حد خوبصورت ناک نقشہ گورا رنگ درمیانہ قد ایک بہت ہی خوبصورت پرسنیلٹی خوبصورت آواز اور سب کے ساتھ بہت محبت سے پیش آنا ۔یہ تھیں ہماری زہرہ آپا جو ہماری اماں جان کی شاگرد تھیں ، روزانہ ہمارے گھر 5۔ اے ذیلدار پارک آتی تھیں اورہماری اماں جان سے قرآن شریف کا ترجمہ پڑھتی تھیں۔
زہرہ آپا اچھرے کے گھر میں رہتی تھیں ۔ گھر کے چاروں طرف سبزیوں کے کھیت تھے اور درمیان میں اِکّا دُکاّ گھر تھے ۔ زہرہ آپا صبح کے وقت آتیں ، تقریباً دس بجے ہماری اماں جان ان کوقرآن شریف ترجمے سے پڑھاتیں، پڑھاتے وقت مجھے اور اسما کو بھی شامل درس کر لیا کرتی تھیں۔ہم تینوںقرآن شریف پڑھتے ، درمیان میں اِدھر اُدھر دیکھنے کی اجازت نہیںتھی ۔ اماںجان کا اصرار تھا کہ پورادھیان قرآن شریف کے ترجمے کی طرف ہونا چاہیے۔
جب ہم سبق سے فارغ ہو جاتے تو شام تک ہمارا کھیل کود کا وقت ہوتا تھا ۔ہم زہرہ آپا کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلتے تھے ، رسّی کودتے تھے جھولا جھولتے تھے ۔ جب کھیل کود سے فارغ ہوجاتے تھے تو زہرہ آپا کے ساتھ…

مزید پڑھیں

مصائب پر صبر – قانتہ رابعہ

صبر اللہ کی راہ کا بہترین توشہ ہے، کیونکہ یہ راہ مشکلات اور کانٹوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ طویل اور پر مشقت راستہ ہے جس میں جگہ جگہ ابتلاو آزمائش ہے۔ہر جگہ چوٹ ،اذیت اور جان کی قربانی کے مواقع ہیں، اور بار بار ایسے مقامات آتے ہیںجہاں صبر کی ضرورت پیش آتی ہے۔انسانی خواہشات پر صبر، نفس کے مرغوبات پر صبر، ہر قسم کی طمع و لالچ اور آرزؤوں پر صبر، اپنے ضعف اور نقص پر صبر، مزاج کے انحراف پر صبر، نفس کی جلد بازی اور افسردگی پر صبر، کرب اور بے چینی کے اوقات میں شیطانی وسوسوں پر صبر اور تمام انفعالات اور نفسیاتی تاثرات پر صبر!
صبر مومن کے دل کی خوب صورتی اور زینت کو بڑھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے صبر کرنا اور تکالیف و ایذائیں برداشت کرنا درجات کو بلند کرتا ہے۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’صبر ایک روشنی ہے‘‘۔(متفق علیہ)
مزید فرمایا: ’’جو صبر کی کوشش کرے، اللہ اسے صبر عطا کرتا ہے اور صبر سے بہتر اور وسیع کسی کو کوئی چیز نہیں ملی‘‘۔ (رواہ البخاری)
صبر کی صورتیں
صبر کی کئی صورتیں ہیں:
ث ابتلاوآزمائش پر صبر؛ یعنی نفس کو غصّے اور جزع فزع سے روکنا۔
ث نعمتوں پر صبر؛ یعنی نفس کو شکر میں…

مزید پڑھیں

مثالِ زہرا حیات تیری – قانتہ رابعہ

یادش بخیر یہ انیس سو اسی کی دہائی تھی جب میں نے میٹرک کا امتحان دیا۔ جہانیاں کوئی پسماندہ علاقہ نہیں تھا کہ وہاں کالج ،یونیورسٹی کاقیام مشکل تھا اور نہ ہی اتنا چھوٹا کہ وہاں اعلٰی تعلیم کے دروازے بند رہتے ۔جہانیاں سے کہیں زیادہ پسماندہ اور چھوٹے علاقوں میں اس وقت ہائی سیکنڈری سکول اور کالجز قائم تھے۔مگر جہانیاں شہر میں لڑکیوں کے لیے ہی نہیں لڑکوں کے لیے بھی میٹرک کے بعد کوئی کالج نہیں تھا اور نجی تعلیمی ادارے جو آج کھمبیوں کی طرح پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں ان کا آغاز نہیں ہؤا تھا۔
وجہ صرف اور صرف ایک ہی تھی اور وہ تھی مخصوص جاگیر دارانہ سوچ کہ عوام الناس کے بچے بھی پڑھ لکھ گئے تو ہمارے بچوں کے مقابلے میں آجائیں گے۔ یوں میں نے جب میٹرک کا امتحان پاس کیا تو اچھے نمبروں کے باوجود مزید تعلیم ممکن نہ تھی۔آمدم بر سر مطلب ،بسوں ویگنوں پر لٹک لٹکا کر دوسرے شہروں میں بغرض تعلیم روزانہ دھکے کھاتے ہوئے جانے کی ہمت نہیں تھی اور ہاسٹل میں رہنے کی گھر والوں کی طرف سے اجازت نہیں تھی۔اب قانتہ جائے تو کہاں جائے اور کرے تو کیا کرے !
ایسے میں قدرت نے ہاتھ…

مزید پڑھیں

محبت کا زم زم – آسیہ راشد

کاروانِ آخرت بر ق رفتاری کے ساتھ دن بدن اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے ۔ یہ اپنے ساتھ ایسے لعل و گوہر سے بھی زیادہ قیمتی مشاہیر اور چراغِ راہ جیسی شخصیات کو اپنے ساتھ بہالے جا رہا ہے ۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جن کی مثل اور نظیر ملنی مشکل ہے ۔ دستِ اجل کے بے رحم ہاتھوںنے میری خالہ جان زہرہ کو ہم سے دور کر دیا۔
وہ جب دنیا میںآئیں تو خوبصورت پھول کی مانند ہوں گی اسی لیے زہرہ کہلائیں ۔ جوان ہونے پراللہ سے محبت اور عشقِ رسولؐکی سر شاری میں گراں قدر دینی ، علمی اور سماجی خدمات انجام دیں جس کے بدلے میں بحکم ربی انہیں زہرہ کا مقام ملا۔ وہ تمام عمر زہرہ ستارے کی مانند آسمان دنیا پر چمکتی رہیں۔دم رخصت ان کا چہرہ روشن، بلاشبہ وہ ہر لحاظ سے زہرہ ہی تھیں۔
مجھے وہ دن یاد نہیں ہے کہ میں کب اپنی عزیز خالہ جان زہرہ سے ملی تھی ۔ ان سے میرا تعلق میری پیدائش سے پہلے ہی قائم ہو گیا تھا۔ ان کا سراپا، ان کی محبت و خلوص میرے رگ و پے میںشروع سے ہی موجود تھی۔آپ کی ذات گو نا گوں صفات کی حامل ، محنت…

مزید پڑھیں

آپا زہرا – محمد اظہار الحق

تین دن قیام کرنے کے بعد ، واپس آتے ہوئے، نوجوان ڈاکٹرسے الوداعی کلمات کہے توضبط کا بندھن ٹوٹ گیا ۔ وہ بھی رونے لگا اور میں بھی!
اس کی والدہ، اُسے چھوڑ کر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوگئی تھیں! میں نے اُسے کہا کہ اب اُسے محتاط اور ہوشیار رہنا ہوگا کیونکہ حفاظتی حصار اس کے ارد گرد تھا ، وہ اٹھ گیا ہے اوریہ کہ اب He is on his own۔ روایت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نہ رہیں توانہیں وارننگ دی گئی کہ اب ذرا سنبھل کر کہ معاملات پہلے جیسے نہیں ! اب پشت پرماںکی دعائیں نہیں رہیں!
ماں باپ کی قدرجیتے جی کم ہی ہوتی ہے! اس لیے کہ ہمارے پاس اس زندگی کا تصورنہیں ہوتا جو اُن کے بغیرہو سکتی ہے ۔ وہ ہماری زندگی کا ، ہماری ذات کا ، ہمارے وجود کا ، یا ہم ان کے وجود کا حصہ ہوتے ہیں ! ہم انہیں Taken for granted لیتے ہیں ! بالکل اسی طرح جیسے ہم ہاتھوں یا آنکھوں کے بغیر اپنی زندگی کا تصورنہیں کر سکتے ! ہاتھوں کی معذوری یا آنکھوں کی بے نوری کا احساس اسی کو ہوتا ہے جس سے یہ چیزیں چھن جائیں ! ہم آئے…

مزید پڑھیں

پیاری خالہ جان – شازیہ عبد اللہ

اللہ پاک خالہ جان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین۔ غالباً جنوری بروز جمعرات صبح 9:30بجےواٹس ایپ پر راحیل باجی کا Farwardedپیغام موصول ہؤا کہ ہماری پیاری خالہ جان زہرہ آپا صاحبہ کا انتقال ہو گیا ہے ۔ ہر ذی روح نے اپنی مدت عمر پوری کر کے اپنے ابدی گھر سدھارنا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیںہماری زندگی میںجن کی جدائی آپ کے لیے بہت ہی تکلیف کا باعث ہوتی ہے ۔ خالہ زہرہ بھی میرے لیے ایسی ہی ایک ہستی تھیں۔
آپا زہرہ کا نام سامنے آتے ہی بچپن سے لے کر شادی تک کی میری زندگی کی پوری کہانی آنکھوںکے سامنے ایک فلم کی طرح چلنے لگ گئی ۔ میرے گھر کے چھوٹے بڑےمعاملات حتیٰ کہ میری شادی تک کے تمام مراحل میںان کی مشاورت ، رہنمائی اوربھرپورتعاون شامِل حال رہا ۔یہ 1988ء میںآنے والے تباہ کن سیلاب کے دنوںکی بات ہے جب ہمارے چچا جان عنایت اللہ روز گھر آکر شاہدرہ میں آئے ہوئے سیلاب اوراس میں جماعتِ اسلامی کی جفا کش خواتین خاص طور پر آپا زہرہ اور گلفرین خالہ جان کا بہت ذکر کیا کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ کس طرح یہ خواتین پانی اورکیچڑ میںسے گزر کر سیلاب زد گان تک…

مزید پڑھیں

پیاری زہرہ آپا – ثریا اسما

اللہ آپ کی قبر کو نور سے بھر دے ۔
صائمہ بیٹی کئی دنوں سے مجبور کر رہی تھی کہ امی پرچہ تیار ہوتا جا رہا ہے آپ کی طرف سے ابھی تک کچھ نہیں آیا ۔ میں کچھ لکھنے کی ہمت نہیں کرپا رہی تھی ۔ لوگوں کی نگار شات پڑھ کر سوچتی تھی کہ سبھی کچھ تو لکھا ہؤا آ رہا ہے ایک سے ایک بڑھتا چڑھتا ، میں دل کو دُکھی نہ کروں ۔ مگر پھر خود ہی سوچا ان کا ایک استحقاق ہے میرے اوپر ، مجھے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور گواہی دینی بنتی ہےاور پھر :
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
کے مصداق لکھنے کی ہمت کی۔
سب سے اہم واقعہ میرا ایک خواب ہے ۔ میں نے دیکھا ایک بہت بڑی لمبی اونچی دیوار ہے جسے تازہ پالش کیا گیا ہے ۔ اس ساری دیوار میں دو دو انچ کے مربع (Squares) بنے ہوئے ہیں اور اُن میں ایک گولڈن کیل فٹ کیا ہؤا ہے جو بڑا نمایاں ہے عین دیوار کے بیچ میں ایک گول دائرہ ہے جس میں چابی لگانے کانشان ہے جس نے اُسے ایک دیوار کی بجائے دروازے کی شکل دے دی ہے ۔میں اس دروازے سے بڑی…

مزید پڑھیں

بیاد زہرہ وحید – شاہدہ اکرام سحرؔ

بیاد زہرہ وحید

خیر کا استعارہ تھیں زہرہ وحید
ایک روشن ستارہ تھیں زہرہ وحید

نورِ توحید سے جگمگایا ہؤا
صبحِ کاذب کا تارا تھیں زہرہ وحید

عالمِ کہکشاں میں تھیں بدرالنساء
بزم میں ماہ پارہ تھیں زہرہ وحید

اک سمندر سخاوت کا تھا موجزن
بےکسوں کو سہارا تھیں زہرہ وحید

سرو قامت تھیں وہ سب کوتھامے ہوئے
ڈوبتوں کو کنارا تھیں زہرہ وحید

دردِ امت میں گھلتے ہوئے روز و شب
یوں دلِ پارہ پارا تھیں زہرہ وحید

حلقۂ سرو و لالہ میں مہکا گلاب
کیا نظر، کیا نظارا تھیں زہرہ وحید

رہروِ کاروانِ ادب ہے’’بتول‘‘
اور مجسم ادارہ تھیں زہرہ وحید

آپا جی
یہ اس دنیا کا انمٹ اصول ہے کہ لوگ گزر جاتے ہیں لیکن ان کی یادیں ہمارے ساتھ ہمارے دل میں روز اول کی طرح باقی رہ جاتی ہیں ۔
میں جن کے بارے میں لکھ رہی ہوں ان کی حیثیت میری زندگی میں بہت خاص ہے وہ میری ماں تو نہیں تھیں لیکن میرے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ ماں سے بڑھ کر تھا زندگی گزارنے کا ہر اصول اور ہر ایک گر سکھایا اور بھرپور طریقے سے سکھایا یہ ان کی تربیت ہی تھی کہ زندگی کے سارے مشکل ترین مراحل ہمیشہ میں نے خوش اسلوبی سے انجام دیے ہمارے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ مشفقانہ اور محبت بھرا ہوتا تھا وہ…

مزید پڑھیں

لہو کے چراغ – ڈاکٹر بشری تسنیم

اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ سرزمینِ فلسطین نہایت مبارک اور محترم ہے ، یہ سرزمین آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے ، اس سرزمین پر بکثرت انبیا ء و رسل آئے ہیں ، یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہا ہوئی ، یہ آسمان کا دروازہ ہے ، یہ سرزمین میدانِ حشر بھی ہے۔اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو خیر وبرکت والی زمین فرمایا ہے ۔
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ:
’’جس سرزمین کے تعلق سے اللہ عزوجل نے یوں فرمایا ہے ’’بَارَکْنَا حَوْلَہُ‘‘اس سے مراد ملک شام اور اس کا گردو نواح ہے‘‘ ۔
سریانی زبان میں ’’شام ‘‘ کے معنی پاک اور سر سبز زمین کے آتے ہیں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک شام کے گردونواح کو مبارک اس لیے کہا گیا کہ یہ انبیاءؑ کا مستقر، ان کا قبلہ اور نزول ملائکہ اور وحی کا مقام رہا ہے ، حضرت حسن ؓاور حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اس مبارک سرزمین سے مراد ملک شام ہے۔ عبد اللہ بن شوذب کہتے ہیں :
’’اس سے مراد سرزمین فلسطین ہے ‘‘۔سرزمین فلسطین کو قرآن کریم میں متعدد مواقع پر بابرکت زمین سے مخاطب…

مزید پڑھیں

شمع محبت – شمیلہ تنویل صدیقی

دنیا فانی ہے ۔ یہاںآنے والی ہر ذی روح کو موت کا مزا چکھنا ہے ۔ ہرکوئی اپنا مقررہ وقت پورا کر کے یہاںسے چلاجاتا ہے ۔
جن لوگوںکے ساتھ ہمارا تعلق زیادہ قریبی ہوتا ہے اُن کے جانے کا افسوس بھی زیادہ ہوتا ہے ۔پھپھو جان یوںتوہماری امی کی پھپھو تھیںلیکن انہوںنے ہمیںجس قدر محبت دی اس سے ہماراان کے ساتھ ایک مضبوط تعلق بن گیا ۔
آج صبح تقریباً سات بجے پھپھو جان کی وفات کی اطلاع ملی۔ ہماری امی اورخالائیں ، ماموں ان کو پھپھو جان کہہ کر پکارتے تھے ۔ان کی دیکھا دیکھی ہم سب بچے بھی ان کو اسی نام سے پکارا کرتے تھے ۔
پھپھو جان سے ہمارے کئی تعلق بنتے ہیں۔ میرے دادا جناب نعیم صدیقی، پھوپھا جان یعنی ان کے شوہر عبد الوحید خان صاحب اور میاں طفیل محمد صاحب جماعت اسلامی کے ابتدائی دور میں ایک ہی کرائے کے مکان میں رہا کرتے تھے ۔ یہ سب اصحاب ماشاء اللہ کثیر الاولاد تھے لیکن اس کے باوجود سب مل کر رہتے رہے ۔ پھپھو جان نے اپنے بھائی جناب ریاض الحق اعوان صاحب ( میرے نانا) کی بیٹی یعنی میری امی کی شادی جناب نعیم صدیقی مرحوم ( میرے دادا) کے بیٹے یعنی میرے…

مزید پڑھیں

اے کہ تیری یاد سے آباد ہیں تنہائیاں ایک تذکرہ، ایک تاریخ – عفت کمال پروین

یادیں بھی کیا عجیب چیز ہوتی ہیں کبھی ہنساتی ہیں کبھی رلاتی ہیں اور کبھی دل چاہتا ہے کہ خاموشی ہو اور ہم ان یادوں میں کھوئے رہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی فلم چل رہی ہے اور ہم اس میں مدہوش ہیں۔ امی کے جانے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہو گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جانے کے بعد امی ہمارے اندر اتر گئی ہیں۔ ہر وقت ان کی بتائی ہوئی باتیں اور کیے ہوئے کام ہمیں آمادہ کرتے رہتے ہیں کہ ہم بھی ان کی طرح زندگی گزاریں۔
اے کہ تیری یاد سے آباد ہیں تنہائیاں
مرتسم ہیں شیشۂ دل پر تیری پرچھائیاں
ایسا کہاں سے لاؤں….
امی نے اپنی زندگی اتنی مصروف اور ہمہ تن فعال گزاری ہے کہ مجھے امی کے ساتھ گزارا کوئی وقت ایسا محسوس نہیں ہوتا جس میں کوئی ہلچل کوئی مصروفیت نہ رہی ہو یا جسے ہم فراغت کہہ سکیں ۔
میری یادوں کا دریچہ اس وقت سے کھلتا ہے جب امی ہمیں اپنے بچپن کے واقعات سناتی تھیں ۔امی کے مطابق امی چھے سال کی تھیں تو ان کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ۔چار بہن بھائی تھے دو بھائی اور دو بہنیں ،امی سب سے چھوٹی تھیں. کچھ…

مزید پڑھیں

امت ِمسلمہ معتدل امت – عبدالمتین

اللہ ربّ العزت نے امت محمدیہ کی جو خصوصیت اس آیت میں بیان کی کہ’’ اور اسی طریقے سے ایک بہت بڑی نعمت ہم نے تمہیں یہ دی کہ ہم نے تمہیں ایک معتدل امت بنا دیا‘‘۔لہٰذا ہمیں ہر عمل میں اعتدال پیداکرنے کی ضرورت ہے، عقیدے میں بھی، عبادت میں بھی ، حقوق کی ادائیگی میں بھی، خرچ میں بھی، سیاست میں بھی، نیکیوں میں بھی، آپس کے تعلقات میں بھی اور ہمارے مزاج اور اہم فیصلوں میں بھی اعتدال ہونا چاہیے تاکہ ہم امت مسلمہ کا فردہونےکے تقاضوں کو پورا کرسکیں۔

’’اور (مسلمانو !) اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو ، اور رسول تم پر گواہ بنے‘‘۔ (سورۃ البقرہ :143)
اللہ ربّ العزت اس آیتِ کریمہ میں امت محمدیہ کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے ایک خاص اصطلاح ذکر فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہیں ’’امتِ وسط‘‘ بنایا ہے۔ عربی میں’’وسط‘‘ درمیانہ پن، اعتدال، میانہ روی اور بیچ کے راستے کو کہتے ہیں۔
اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ جو چیز درمیان میں ہوتی ہے وہ زیادہ اچھی لگتی ہے اور زیادہ آویزاں ہوتی ہے اور اسی طرح کسی مجلس میں اسٹیج جب بنتا ہے تو بالکل بیچ…

مزید پڑھیں

یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب – طیبہ فاروق

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے ۔
’’ مومنوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے اپنے عہد کو سچ کر دکھایا ہے ۔ان میں کچھ اپنی نذر پوری کر چکے اور کچھ وقت آنے کے منتظر ہیںاورانہوںنے اپنے رویے میںکوئی تبدیلی نہیں کی‘‘ (الاحزاب۲۳)
آپا زہرہ وحید اللہ تعالیٰ سے اپنے وعدے کو پورا کر کے اپنی ساری نذرور نیاز مکمل کرنے کے بعد کامیاب و کامران اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئی ہیں۔ ایک عہد تھا جو ان کے جانے کے بعد ختم ہوگیا ۔ وہ نو عمری میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئیںاور پھر پوری زندگی اپنے مقصد کی تکمیل کی خاطر جدوجہد میں مصروف رہیں ۔ دنیا کی کوئی مصروفیت کوئی خوف کوئی لالچ اورکوئی ترغیب انہیں اپنے مقصد سے بیگانہ نہ کر سکی ۔ وہ خوشحالی اورتنگی میں غم اورخوشی میں ہر لمحہ خدمت دین میںمصروف رہیں ۔ انہیںاپنے مقصد کی حقانیت پرپورا یقین تھا اوراس اعتماد نے زندگی بھر انہیں سکون سے نہ بیٹھنے دیا ۔مولانا مودودیؒکی جماعت سے تعلق جوڑا تو جماعت کے ساتھ ساتھ مولانا محترم کی محبت کا حق بھی ادا کیا ۔انہوںنے قرآن کا علم براہ راست مولانا سے حاصل کیا اوراس علم نے انہیں قوت فیصلہ ،…

مزید پڑھیں

زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر – نزہت جمال نسرین

کوئی دنیا میں رہا ہے نہ رہے گا باقی
اک تیرا نام کہ باقی ہے، رہے گا باقی
یا وہ اک صاحبِ دل جو تیری خاطر اُٹھے
ہاں وہ باقی ہے زمانے میں رہے گا باقی
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ۔اللہ تعالیٰ میرے والد ین کو جنت میں بہترین مقام عطا فرمائے آمین۔ میں اپنے والدین کی سب سے بڑی بیٹی ہوں اور میری پیدائش 1951 میں ہوئی۔ ہم نو بہنیں اور چار بھائی ہیں، والدین نے بہت ہی محبت اور خیال سے ہم لوگوں کو پالا اور تربیت کی ۔دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم سے آراستہ کیا ،سب کچھ سکھایا ادب آداب سکھائے۔
ابا جی اور امی جماعت کے بانی اراکین میں سے تھے بلکہ ان کا رشتہ ہی اسی بنیاد پر ہؤا تھا اور محترم مولانا مودودی اور ان کی بیگم صاحبہ نے ان کی شادی کا اہتمام کیا تھا۔ جب اتنے نیک لوگ رشتے میں شامل ہوں تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالتا ہے۔ امی اور ابا جی دونوں نے اپنا تن من دھن جماعت اسلامی کے کاموں میں لگا دیا ۔گھر کے کاموں اور ذمہ داریوں کے ساتھ یہ ذمہ داری بھی خوب نبھائی۔ یہ 1951 کی بات ہے۔ مجھے اپنا بچپن یاد ہے کہ 12 -بی…

مزید پڑھیں

زہرہ عبد الوحید صاحبہ اپنے ماضی کے اوراق کھولتی ہیں – آسیہ راشد

یہ انٹرویو ۲۰۱۱ اور ۲۰۱۳ کے عرصے میں کسی وقت لیا گیا تھا اب ٹھیک سے یاد نہیں۔ اس
بات چیت میں میرے ساتھ گل رعنا مسعود، راحیلہ سلمان اور ذروہ احسن بھی شامل تھیں(ا-ر)
س: السلام علیکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاۃ‘
س: آپ اپنے والدین اورخاندان کے بارے میں کچھ بتائیں ؟
ج: میرے والد صاحب کا نام ملک علی حسن اعوان تھا۔ میرے والد صاحب جماعت اسلامی کے پہلے 75 لوگوں میںسے تھے ۔ میں ابھی صرف سات سال کی تھی جب والد صاحب فوت ہوگئے ۔ہم لوگ عون بن علیؓ کی اولاد میں سے ہیں اسی لیے اعوان کہلاتے ہیں۔ عون حضرت علیؓ کی دوسری بیوی میں سے تھے ۔ پشت در پشت ہم پر زکوٰۃ نہیں لگتی۔ والد صاحب محکمہ انہار میںاوور سیئر تھے ۔ ہیڈ مرالہ ، ہیڈ برکی اور ہیڈ رسول انہی کی ملازمت کے دوران میں تعمیرہوئے ۔والد صاحب جاگیر دار بھی تھے انہیں جاگیر داری کی وجہ سے نمبر داری بھی ملی ہوئی تھی والدصاحب مشرقی پنجاب حصار میںرہائش پذیر تھے، رہنے والے شیخوپورہ کے تھے۔
س: آپ لوگوں کی تربیت میں کس کاکردار اہم رہا والد کا یا والدہ کا ؟
ج: ہمارے والد صاحب نے اپنے بچوں کی تربیت بہترین طریقے سے کی انہیں پڑھایا لکھایا…

مزید پڑھیں