بتول جون۲۰۲۳

بہترین مددگار – بتول جون ۲۰۲۳

اللہ تعالیٰ نے اپنا نام’’الناصر‘‘ اور ’’النصیر‘‘ رکھا ہے۔ مدد کا منبع و سرچشمہ اللہ رب العزت کی ذات ہے۔ ’’…اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے‘‘۔(سورہ آل عمران: 126) اسی طرح دوسری جگہ فرمان الٰہی ہے: ’’بلکہ اللہ ہی تمہارا خیرخواہ ہے اور وہی سب سے بہتر مدرگار ہے‘‘۔ (سورہ آل عمران: 150) ’’یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیاوی زندگی میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے‘‘۔ (سورہ غافر: 51) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد اور غم و خوف سے نجات کی خوشخبری اپنے فرشتوں کے ذریعے دے کر بھی کرتا ہے۔ ’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرو،

مزید پڑھیں

بتول میگزین – بتول جون ۲۰۲۳

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں سعدیہ نعمان ہمارے ارد گرد ایسے کردار موجود ہوتے ہیں جو کسی کی نظر میں بھی اتنے اہم نہیں ہوتے اور دراصل وہی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتے ہیں وہ اپنے حصے کا بوجھ بہت ذمہ داری سے اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں ان کی قدر جان کر ان کی حوصلہ افزائی کر یں معاشرے میں مجموعی طور پہ پھیلتی مایوسی میں وہ امید کی کرن ہیں ایسے ہی کچھ کرداروں سے آج میں آپ کو ملوانا چاہوں گی۔ یہ حفیظ انکل رکشہ والے ہیں ٹھیک سات بج کے دس منٹ پہ ”چلو جی ی ی صاب جی ی ی‘‘ کی گرجدار آواز کے ساتھ وہ گیٹ پہ موجود ہوتے اور بچے کبھی سکول سے لیٹ نہ ہوتے وہ پورے ٹاؤن کے حفیظ انکل ہیں ان کا دن صبح فجر کی با جماعت نماز سے شروع ہوتا ہے اور رات دس بجے تک مسلسل

مزید پڑھیں

مجھے ان ماسیوں سے بچائو – بتول جون ۲۰۲۳

کئی سال پہلے اپنے طالب علمی کے زمانہ میں اردو کی درسی کتاب میں ایک مضمون پڑھا تھا جس کا عنوان تھا ’’ مجھے میرے دوستوں سے بچائو‘‘۔سو میں نے سوچا میں بھی آج اپنے مضمون کا عنوان کچھ ایسا ہی اچھوتا رکھوں تو میرے ذہن میں یہی عنوان آیا ’’ مجھے ان ماسیوں سے بچائو‘‘۔ چلیے پہلے ماسیوں کے بارے میں اپنے کچھ تلخ تجربات شیئر کروں جب تک بیگم کی صحت اچھی رہی انہوں نے کبھی کسی کا م والی ماسی کی ضرورت محسوس نہیں کی ، کھانا پکانا، گھر بھر کی صفائی ، واشنگ مشین میں کپڑے دھونا ، برتن دھونا ، کپڑے استری کرنا ،سب کام خود ہی شوق سے کرتی رہیں ۔ ساتھ ہی تین بچوں کی پرورش! لیکن جب بیگم کو گھٹنوں کا مسئلہ ہؤا تو مجبوراً گھر کی صفائی کے لیے کام والی عورت رکھنی پڑی ۔ موصوفہ چند دن تو شرافت سے

مزید پڑھیں

جب عقل بٹ رہی تھی – بتول جون ۲۰۲۳

جب عقل بٹ رہی تھی یہ سب کہاں تھے ؟   معلوم ہے آپ کو جامعہ میں تین یا جوج ماجوج ہیں ۔ ویسے تو دنیا میں دو ہی ہیں مگر جامعہ اہم جگہ ہے نا ، یہاں تین ہیں ! نمبر ایک : رات والا چوکیدار مشتاق ۔ وہ سارا دن کا تھکا ماندہ ہوتا ہے ا س لیے چار پائی بچھائی ، پنکھا چلایا اور وڈیروں کی طرح لیٹ جاتا ہے۔ کوئی کام کہو تو راستہ بتاتا ہے کہ جامعہ کے نگران کو فون کر کے بتائیں کہ جامعہ میں یہ اور یہ مسئلہ ہو گیا ہے ۔ مجھے اس کی سمجھداری اور اپنی نالائقی اور کم عقلی پر شرمندگی ہوتی ہے کہ اسے معلوم ہے کام کس سے کروانا ہے ۔ چوکیدار ہے مگر رات بھر خراٹے لیتا ہے ۔ آوازیں دینے پر بھی نہیں اُٹھتا ۔ قابل رشک ہے یہ بھی کہ کسی چیز کی فکر

مزید پڑھیں

ماسی نامہ – بتول جون ۲۰۲۳

بچپن کی یادوں میں ایک ہلکی سی یاد ماسی سیداں کی ہے جو گاؤں میں امی جان کی مددگار تھی۔ جب ہم واہ شفٹ ہوئے تو میں ماسی کی یاد میں بیمار ہو گئی تھی، اور جب ماسی کچھ عرصے بعد ملیں تو انہوں نے بھینچ بھینچ کر پیار کیا۔ وہ مجھے پیار سے بلی کہتی تھیں (یہ الگ بات ہے کہ یہ نک نیم مجھے کسی اور کی جانب سے گوارا نہ تھا، اور بڑی بہن کے بلی پکارنے پر تو ناراض ہو جاتی تھی)ہم گاؤں گئے تو انہوں نے مزے دارستو شکر بھون کر کھلایا۔وہ ایسی وفادار ماسی تھیں کہ ہمارے ساتھ امی جان کے میکے تک چلی جاتیں اور نانا جان کے آخری مرض میں انہیں خون کی ضرورت پڑی تو ماسی کا بلڈ گروپ ان سے میچ کر گیا، مگر ڈاکٹر نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ انہیں تو خود خون کی

مزید پڑھیں

قصہ مصری ماسی کا – بتول جون ۲۰۲۳

ہم نے خانہ دارانہ زندگی کا آغاز’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت جدہ سے کیا۔ اور وہاں اس زمانے میں مددگار رکھنے کی عیاشی ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کے مصداق تھی۔ جان ناتواں اور اس کی ناتجربہ کاری نےکچھ قابل اور بہت سے ناقابلِ بیان کارنامے سر انجام دیے۔ پیاری ساس کا انوکھا لاڈلا اپنے متلون مزاج کی وجہ سے’’مزاجی خدا‘‘ کے مزے لوٹتا تو بچوں کی آمد ہماری مامتا کا امتحان لیتی رہی۔ ناچیز کو رب العالمین نے جدہ میں عمرہ اور حج کے زائرین کی روزانہ، ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ مہمان داری کے لیے منتخب کیے رکھا، کبھی کبھار ہاتھ بٹانے کے لیے کسی فرد کی شدت سے ضرورت محسوس ہوتی۔ اس وقت ڈسپوزیبل برتنوں کی عیاشی بھی میسر نہ تھی۔ بھلا ہو دینی بہنوں کا جنہوں نے خود سے ہی یہ اصول طے کر لیا تھا کہ جس گھر میں رسمی یا غیر رسمی ملاقات کو جانا

مزید پڑھیں

زمانے بھر کے غم اور اک ترا غم! – بتول جون ۲۰۲۳

کام والیوں کے قصے سننا اور سنانا خواتین کے پسندیدہ مشاغل میں سے ایک ہے۔ ہمارے گھروں کا نظام کچھ اس طرح ان گھریلو ملازمین پر منحصر ہے کہ ان کے بغیر گھر چلانے کا تصور بھی بہت مشکل لگتا ہے۔ ان کام والیوں کی کئی قسمیں ہیں۔ کچھ گشتی ماسیاں ہیں کہ محلے بھر کے پھیرے لگا کر’کھلا‘ کام کرتی ہیں۔ اگر آپ کو بھاگتے چور کی لنگوٹی پکڑنے کا کچھ تجربہ ہے تو آپ ان سے اچھا کام کروا سکتی ہیں۔ کچھ ’بندھا‘ کام کرتی ہیں یعنی سارا دن آپ کے گھر میں ہی ہوتی ہیں اور جو کام گشتی ماسیاں چند منٹوں میں کر کے چلتی بنتی ہیں یہ وہی کام صبح سے شام تک کرتی رہتی ہیں۔ پہلے زمانے میں محلے کی سنسنی خیز خبریں ادھر سے ادھر کرنے کا فریضہ بھی یہی کام والیاں انجام دیا کرتی تھیں۔ ہماری کام والی کو واٹس ایپ ایجاد

مزید پڑھیں

اماں حشمت – بتول جون ۲۰۲۳

اماں سچ بتائو تم کہیں جن تو نہیں؟ ایک انوکھی ہستی کا تذکرہ، مرحومہ طیبہ یاسمین کے چٹکیاں لیتے طرزِ تحریر میں جو انہی کے ساتھ خاص تھا۔ اگرچہ اماں حشمت کو اس دنیائے فانی سے کوچ کیے ہوئے تین برس ہو چکے ہیں مگر اپنی عظیم اور عجیب و غریب شخصیت اور گوناں گوں خصوصیات کی بنا پر آج بھی ہمارے دلوں اورذہنوں میں زندہ و جاوید ہے۔ دن میں کئی بار مختلف مواقع پر سب افراد خانہ کو اپنی یاد اور کمی کا احساس دلاتی ہے ۔ آپ بھی سوچیں گے کہ آخر اماں کون تھی اور اس میں ایسی کون سی خاص بات تھی کہ وہ ہمیں اتنا یاد آتی ہے تو جناب یوں تو اماں مدد گار کی حیثیت سے ہمارے گھریلو کاموں کے لیے آئی تھی مگر پھر گھر بھر پر یوں چھا گئی کہ ہم سب پس منظر میں چلے گئے اور اماں کی

مزید پڑھیں

ماسی اور باجی کے باہمی تعلقات – بتول جون ۲۰۲۳

بات اگر ہو گھر کی کام والی یا ماسی کی تو ہرخاتون خانہ کے پاس کم ازکم دس فٹ طویل ماسی نامہ موجود ہوتا ہے جس کو سنتے سنتے آپ اپنا ماسی نامہ سنانا بھول جائیں گے ۔ دوسری طرف اگر ماسی کام والی سے پوچھا جائے تو ان کے پاس بھی کم و بیش اتنا ہی طویل باجی نامہ موجود ہوتا ہے جس کو وہ مناسب وقت ملنے پر ایک دوسرے کو سناتی ہیں ۔ اپنے اپنے شجرے بیان کرتے ہوئے ایک دوسرے کو خوب پٹیاں پڑھاتی ہیں ۔ کیا بات کس باجی سے کیسے کہنی ہے ؟ کس باجی کو کیا پسند ہے کیا ناپسند ہے ؟ کس بہانے سے باجی موم ہو جاتی ہیں ؟کاموں کے کیا ریٹ چل رہے ہیں ؟ کون سے کام اوپر سے کر لینے ہیں اور کون سے کاموں سے انکار کر نا ہے ؟ کام کرتے ہوئے کون کون سی احتیاط

مزید پڑھیں

جبر سہ لیتا ہوں کہ …مزدور ہوں میں ! – بتول جون ۲۰۲۳

میں چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی ۔ ہمارے گھر سفیدی ہو رہی تھی ۔ سفیدی کرنے والے ادھیڑ عمر کے صاحب سورج چڑھے دوپہر کے کھانے کے لیے جاتے تھے ۔ ہم گھر کے بچے ان کے جانے کے بعد خوشی خوشی جائزہ لیتے کہ کمرہ میں یہ رنگ ، داروازے پر یہ پینٹ کتنا بھلا لگ رہا ہے ۔ اُس دن چھوٹی بہن نے ان کے چمڑے کے کالے بیگ میں ایک موٹی سی ڈائری دیکھی بولی ’’ انکل تو پڑھے لکھے ہیں ‘‘۔ بھائی نے شرارتاً وہ ڈائری نکال لی اور با آوازبلند پڑھنے لگا ۔میں بھی شوق میں ڈائری لے کر صفحے پلٹنے لگی ہر صفحہ پر کوئی غزل یا نظم تھی ۔ شاعر کا نام مقطع میں سفیدی والے انکل کا نام تھا۔ امی بھی بہت متاثر ہوئیں کہ گفتگو سے تو مہذب آدمی ہی معلوم ہوتے ہیں ۔ جب ان کی واپسی پر

مزید پڑھیں

مہربان مدد گار کی تلاش- بتول جون ۲۰۲۳

عربی ادب کا قصہ ہے کہ ایک غلام ایک ایسے مالک کے پاس تھا جو خود میدے کی روٹی کھاتا تھا،اور اس کو بے چھنا آٹا کھلاتا تھا۔تو یہ چیز اسے ناپسند لگی ،اس لیے اس نے بیچنے کی درخواست کی تو آقا نے اسے بیچ دیا۔ اس کو ایسے شخص نے خریدا جو بھوسی کھاتا تھا اور اسے کچھ بھی نہیں کھلاتاتھا۔غلام نے اس کو بھی بیچنے کی درخواست کی چنانچہ اس شخص نے بھی اس کو بیچ دیا۔ اب کے اس کو ایسے شخص نے خریداجو خود کچھ نہیں کھاتا تھا،اور اس کا سر مونڈ کر رات میں اسے بٹھاتا اور دیوَٹ( شمع دان) کی جگہ اس کے سر پر چراغ رکھتا۔ وہ اس کے پاس ٹھہر گیااور بیچنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ غلام فروش نے کہا، تو کس وجہ سے اس مالک کے پاس اتنی مدت اس حال میں راضی رہا؟ غلام کہنے لگا،مجھے اندیشہ ہؤا کہ

مزید پڑھیں

ہمارے ملازم – بتول جون ۲۰۲۳

زندگی کی گاڑی کئی اسٹیشنوں سے گزری ۔ پہلے کوئٹہ پھر گوجر ا نو ا لہ میں مختصر قیام ہؤا۔آخری اسٹیشن لاہور کا تھا جہاں مستقل قیام ہؤا تو وہاں پہلے گھر بنایا پھر گھر داری کا شعور آیا ۔ گھر کو گھر سمجھا تو رہنے سہنے کا سلیقہ بھی آیا۔ اس وقت ہر کام مشکل لگا تو کسی ہمدرد کی ضرورت ہوئی جو گھر کے کاموں میں مدد گار ثابت ہو سکے یوں ملازم رکھنے کا سوچا لیکن تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ فکر لاحق تھی کہ وہ نہ جانے کیسا ہوگا ۔ کسی اجنبی پر بھروسہ کرنا پھر اس کا رات دن سر پر سوار رہنا یا آنے جانے کے اوقات پر نظر رکھنا بھی مشکل گا۔ ابھی سوچ بچا ر کا مرحلہ جاری تھا اور لوگوں سے مشورے کیے جا رہے تھے کہ گھر بنانے والے مستری نے کہا میرے بیٹے کو رکھ لیں ۔

مزید پڑھیں

وہ کامنی سی چھوکری – بتول جون ۲۰۲۳

داخلی دروازے کی گھنٹی بجی ۔گرمیوں کی دوپہر میں عام طور پہ یہ وقت آرام کا ہوتا ہے۔ اس وقت کون آ گیا؟میں نے کی ہول سے جھانکاسیاہ برقعہ میں ملبوس ایک درمیانی سی عمر کی خاتون اور ساتھ چادر میں لپٹی ایک نوجوان لڑکی کھڑی تھی۔ ’’جی کس سے ملنا ہے؟‘‘ ’’خالہ جی ہیں ؟ ‘‘انہی سے ملنا ہے پتہ چلا تھا کہ صفائی کے لیے انہیں کام والی کی ضرورت ہے۔ تسلی کے بعد میں نے دروازہ کھول دیا۔انہیں بٹھا کے میں امی کو بلا لائی۔ خالہ جی ہم کام والیاں نہیں ہیں عزت دار لوگ ہیں۔بڑی مجبوری میں آئے ہیں آپ مہربانی کریں ۔بڑا خاندان ہے اب گزارا مشکل ہو رہا ہے ۔ نظریں جھکائے وہ جھجکتے ہوئے کہہ رہی تھی – سانولی سلونی سی چہرہ قدرے گولائی لیے ہوئے، درمیانہ قدو قامت ،محنت اور معصومیت کا امتزاج ،آنکھوں میں ایک خاص چمک،گفتگو میں تہذیب کا عنصر

مزید پڑھیں

میری مارگریٹ – بتول جون ۲۰۲۳

خاندان کی چند مشہور و معروف ’’فلمی سٹائل‘‘ شادیوں میں ہماری شادی خانہ آبادی سر فہرست ہے ۔ ہماری ساس امی کا بچپن ممبئ اور کلکتہ شہر میں گزرا۔تمام عمر ان شہروں کے رسم و رواج کا سحران کے دل و دماغ پر چھایا رہا۔ شادی کے موقع پر ان کی ہدایات کے عین مطابق باجے گاجے اور ڈھول تاشے کے ساتھ شادی منعقد ہوئی ۔ ایک وجہ اور تھی اس قدر ہنگامہ آرائی کی وہ یہ کہ ہماری ساس امی کی اولادوں میں آخری اور ہماری اماں جان کی آدھی درجن کی ٹیم میں پہلی بار کسی کے ہاتھ پیلے ہونے جا رہے تھے۔دادی ، نانی، پھپو، خالہ، مامی،چاچی سب نے اپنے ارمان ہماری شادی میں بھرپور طور پر نکالے۔ کئ روز جاری رہنے والی تقریبات میں مہندی کا فنکشن بھی بےحد منفرد انداز میں منعقد کیا گیا۔لڈی، ڈانڈیاں، ڈسکو ، سب نے اپنے اپنے انداز سے محفل میں

مزید پڑھیں

اوکھی – بتول جون ۲۰۲۳

مددگار نمبر کے لیے تحریر لکھنے بیٹھی تو سوچ کے پنچھی کو آزاد چھوڑ دیا، اس نے اڑا ن بھری اور کئی برس پیچھے تیزی سے مسافت طے کرتا چلا گیا اور پھر اچانک ٹھٹک کر ایک ڈال پر بیٹھ گیا، اور میری یادداشت نے ایک بھولی بسری کہانی یاد دلائی۔ یہ ملازمین ، خدمت گار ، مددگار …کیسی کیسی کہانیاں ان کی زندگیوں سے جڑی ہیں، جنھیں سوچ کر ہی دل اداس ہو جائے ۔ ایسی ہی ایک کہانی میرے ذہن کے کسی کونے میں نقش ہے۔ جب یادوں کی پٹاری کھلی تو ایک کے بعد ایک پرت ہٹتی چلی گئی ۔ ٭ وہ ہماری کام والی باجی کی منجھلی بیٹی تھی، کم عمر، خوش مزاج، شوقین اور زندگی سے بھر پور ، کبھی کبھی ماں کے ساتھ آجاتی ، ماں کا ہاتھ بٹا دیتی، ہنستی مسکراتی آتی اور کام کرکے چلی جاتی ۔ وقت کے ساتھ عمر بڑھی،

مزید پڑھیں

ملاقات – بتول جون ۲۰۲۳

جس طرح بند کمرے کے ایک چھوٹے سے سوراخ سے پتہ چل جاتا ہے کہ باہر دن نکل آیا ہے اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں سے آدمی کاکردار بے نقاب ہوجاتا ہے ۔ ساجدہ ماسی کا حال کچھ ایسا ہی تھا جہاں کام کرتی وہاں کے لوگ اس کو چھوڑ کردوسری ماسی رکھنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ہاں اگر وہ خود گاؤں جانے کا ارادہ کرلے جو کہ ہر سال ہی کر لیتی تھی تو کسی کے روکے نہ رکتی ۔ جہاں جہاں کام کرتی تھی ….وہاں وہاں کے لوگ مجبوراً کسی دوسری ماسی کو رکھ تو لیتے لیکن دل سے اس کے جلد آنے کی دعائیں کرتے ….واقعی اچھامدد گار بھی تو اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے خاص طور سے خواتین کے لیے…. اُن میں سے بھی خاص اُن خواتین کے لیے جو جاب کرتی ہوں ۔ ساجدہ کی ایک باجی صبح بچوں کو اسکول بھیج

مزید پڑھیں

فیروزہ – بتول جون ۲۰۲۳

الحمدللہ خدائے بزرگ نے تخیل کی پرواز وسیع رکھی ہے۔ لفظوں کی بنت کیسے کہانی میں ڈھل جاتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔ مگر اس دفعہ صائمہ جی کی منفردتجویزتھی۔ خیال کو مہمیز دینے کے لیےیادوں کی پٹاری کھولنی تھی۔ ہم نے سوچ کے در وا کیے اور ماضی کے جھروکوں میں کسی مددگار کو ٹٹولا۔ ٭ ہر خاندان کا اپنا مزاج اپنا اصول ہوتا ہے۔ شادی کے بعد سسرال میں مدد گار رکھنے پہ سختی سے ممانعت تھی۔ دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ ریت برقرار رہی۔ سو یادوں کے گھوڑے کو ایڑ دی اور سر پٹ دوڑاتے جا ٹھہرے سولہ سال کی کھٹی میٹھی بانکی عمر میں،جب بچپن کو دامن سے جھٹکنے کی کوشش ہوتی ہے، خود کو عقلِ کل سمجھا جاتا ہے۔ میکے کا آنگن، بے فکر عمریا، حسن کے چرچے، ذہانت کے ڈنکے، اترانے کے لیے اور کتنے لوازم کی ضرورت ہوگی؟ سو مغرور تھے

مزید پڑھیں

مجھے تلاش ہے – بتول جون ۲۰۲۳

کہتے ہیں کبھی کوئی ایک شخص کسی کی منزل بن کر سوچوں کا محور و مرکز بن جاتا ہے ۔ماسی زلیخا میں کوئی ایسی خاص بات تو نہ تھی کہ لیس دار محلول کی طرح ہزارجتن کے باوجود ذ ہن کےپردے سے یاد مٹ کر نہ دے لیکن کچھ ایسا ضرور تھا کہ اس کی یاد محو ہوکر نہ دے رہی تھی ۔ میری پہلی ملاقات جب ہوئی تھی تب میرا تیسرا بچہ کم وقفہ سے دنیا میں شان سے آچکا تھا ۔کچی عمر میں امی نے شادی کر دی تھی ۔پہلوٹھی کی لڑکی ربیعہ فطرتاً ضدی تھی ہمہ وقت وہ میرے پلو سے چپکی رہتی یا میں۔ بہر حال میں ،ربیعہ پھر تنزیل پھر صفورا کے دھندوں میں پھنسی رہتی ۔ میاں سمیت ہر قریبی فرد یک زبان یہی شکوہ کرتے نظر آتے کہ اپنے بچوں ہی کے پیچھے لگی رہتی ہو اپنے دائیں بائیں بھی دیکھ لیا کرو

مزید پڑھیں

انمول تھی وہ – بتول جون ۲۰۲۳

میری نور 9مہینے کی تھی جب فیروزاں میرے گھرآئی تھی ۔میں دفتر جاتی تھی اور بچی کی دیکھ بھال کے لیے ایک عورت کی ضرورت تھی ۔ ایک سکول کی پرنسپل مسز سعید نے اس کی ایمانداری اور وفا داری کی گارنٹی دی ۔ وہ اکیس سال ہمارے گھر میں رہی، وہ نہ ہوتی تو میںسکون سے ملازمت نہیں کر سکتی تھی ۔ اس کی ایک چودہ سال کی بیٹی تھی ۔ اس نے سید پور روڈ پر کسی گھر میں ایک کمرہ کرایہ پر لے رکھا تھا ، شام کوجب میں گھر آتی تو وہ بھی چلی جاتی اس لیے کہ اسے اپنی بیٹی کی فکر رہتی تھی جوسارا دن اکیلی ہوتی تھی ۔ فیروزاں نے پہلے دن نور کوگود میں اٹھا کر کہا تھا ، ’’ باجی آپ بے فکر ہو جائیں یہ میری بیٹی ہے ‘‘۔اس وعدے کو اس نے مرتے دم تک نبھایا ۔ میں اکثر

مزید پڑھیں

اے کاش! – بتول جون ۲۰۲۳

بلا کی گرمی اور دوپہر کا وقت ۔پنکھا سر پر چل رہا تھا پھر بھی حال برا تھا ۔میں نے سر اٹھا کر چاروں طرف دیکھا ۔عورتیں ہی عورتیں …چند کی گود میں بچے۔ اُف آج تو تین بج گئے! میں نے اپنے آپ سے کہا ۔ نہ جانے کیوں لاشعوری طور پر میں نے اس ایک مخصوص کونے کی طرف دیکھا ۔وہ وہاں اسی طرح کھڑی تھی۔ ایک بچہ دائیں ایک بچی گود میں اور بڑی لڑکی اس کا دامن پکڑے ۔وہ تینوں کبھی مجھے دیکھتے کبھی دبی نظروں سے مریضوں کو ۔مجھے سخت کوفت شروع ہوئی ۔اس کو آنا ضروری تھا ایک دن بھی نہیں رکتی ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی میں امن کی ندیاں بہتی تھیں اور میری کلینک پر مریضوں کا بے تحاشہ رش ہوتا تھا ۔عموما ًدو ڈھائی بجے میں فارغ ہوجاتی تھی لیکن کبھی کبھی رش بہت ہوتا تو تین بھی

مزید پڑھیں

چوڑھا ہی اوئے! – بتول جون ۲۰۲۳

آج برسوں پرانی یادوں نے میرے گھر کے دروازوں اور کھڑکیوں پردستک دینا شروع کردی ہے ۔ خوش آہنگ صدائوں اور خوش رنگ مناظر نے یاد رفتہ کو جگا دیا ہے میں نے پہلی کھڑکی کھولی تو وہ ہماری قدیم مین بازار اچھرہ کی حویلی تھی جو کہ سہ منزلہ تھی ۔ اوائل عمری کے چار پانچ برس میں نے اسی گھر میں گزارے ۔ بچپن کی بہت سی باتیں اکثر یاد آتی ہیں جو آخری عمر تک سرمایۂ حیات بن کر ہمارے ساتھ رہتی ہیں ۔ یہی وہ حویلی تھی جہاں میں نے آنکھ کھولی اور یہی وہ گھر تھا جہاں سے میری والدہ رخشندہ کوکب( بانی مدیرہ عفت و بتول) کا جنازہ اٹھا ۔ اس حویلی کے ساتھ پرانے دور کے طرز تعمیر اور رہن سہن کی ایک تاریخ جڑی ہوئی ہے ۔ اس کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ زمینی یا نچلی منزل میں ایک برآمدہ او

مزید پڑھیں

گودڑی میں لعل -بتول جون ۲۰۲۳

للہ بھلا کرے مدیرہ بتول کا جنہوں نے برسوں سے اُبلتے دماغی لاوہ کو قلم و قرطاس کے حوالے کرنے کے لیے ایسا اچھوتا عنوان دیا کہ دل باغ باغ ہو گیا۔ ایسے تمام جذبات، احساسات، تجربات اور اسباق کو ’’ چمن بتول‘‘ کے صفحات پر بکھیرنے کا موقع دینے پر میری طرف سے پیشگی مبارکباد! بچپن جوانی اور بڑھاپا آنے تک ہم نے خدمت گاروںسے سبق پڑھا بھی اور پڑھایا بھی ، سیکھا بھی اور لکھایا بھی ، سُنا بھی اور سنایا بھی ، بعض اوقات ہمارا علم اور حکمت دونوں دھرے کے دھرے رہ جاتے ، ہم مات کھا جاتے ، چاروں شانے چت پڑے ہوتے نانی یاد آجاتی، پرہمت نہ ہارتے ، ہم نے بھی تہیہ کیا ہؤا تھا کہ ؎ وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں تو قارئین کرام ! تلخ و شیریں یادوں کی پٹاری سے انمول موتی آپ کی

مزید پڑھیں

امین شاہ – بتول جون ۲۰۲۳

سیاہ رنگت ، ماتھے پر بکھرے سیاہ بال ، آنکھوں پر عینک ، بھاری بھرکم ، صاف ستھرے کپڑے پہنے ،یا تو باورچی خانے میں یا پھر ٹوکری پکڑے بازار کی طرف رواں دواں ۔ شادی کے بعد جب میں پہلی مرتبہ اپنے سسرال ساہیوال گئی تو امین شاہ مجھے ہر طرف چھایا نظر آیا۔’’ سلام بھین جی ‘‘ ٹانگے پر سے سامان اُتارتے ہوئے اس نے شرما کر مجھے سلام کیا ۔ ہم لوگ شام کے وقت گھر پہنچے تھے ۔ امی شکوہ کر رہی تھیں تم لوگ اپنے آنے کا فون کردیتے تو امین شاہ سٹیشن جا کر تم کو لے آتا ۔ سہیل نے مسکراتے ہوئے کہا :’’ ابھی میں اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولا ‘‘۔ کھانا وغیرہ کھا کر ہم اپنے کمرے میں چلے گئے ۔ باتھ روم سے میں کمرے میں آئی تو سہیل نے کتاب کھولی ہوئی تھی ۔ میں نے بستر پر

مزید پڑھیں

جاوید کی واپسی – بتول جون ۲۰۲۳

شادی کے بعد جب الگ گھر میں رہنا پڑا تو محسوس ہؤا کہ بڑے گھر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ گیٹ پر بیل ہو اور آپ کو سب کام چھوڑ چھاڑ گیٹ پر جانا پڑے یہ دیکھنے کے لیے کہ کس نے بیل کی ہے۔ ڈرائیور سے کہا کہ کوئی چھوٹا لڑکا لائو جو گھر کے چھوٹے موٹے کام بھی کر لے اور گیٹ پر بیل بھی اٹینڈ کر لے۔ ہفتے کے بعد ڈرائیور ایک خستہ حال بارہ تیرہ سال کا لڑکا لایا۔ پرانے کپڑے، پھٹے ہوئے جوتے، نین نقش خوبصورت مگر فاقوں کی وجہ سے چہرہ سوکھا ہؤا، رنگ جلا ہؤا ’’باجی یہ ہمارے گائوں کا ہے، باپ فوت ہو چکا ہے۔ دو بہنیں بڑی ہیں اور دو چھوٹی ہیں، چھوٹے ہونے سے ہی یہ محنت مزدوری کر رہا ہے۔‘‘ ڈرائیور نے بتایا۔ ’’کیا نام ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’جی جاوید‘‘ اس نے آہستہ سے

مزید پڑھیں

کوڈو – بتول جون ۲۰۲۳

میں دھوپ میں بیٹھی بال خشک کر رہی تھی جب بھیا اسے لے کر آئے۔ اس کے ہاتھ، منہ، ٹانگیں اس بری طرح سے پھٹ رہی تھیں کہ دیکھ کر وحشت ہونے لگی۔ ’’لو عذرا اسے کچھ کھانے کو دو، کل سے بھوکا ہے، باہر آوارہ گردی کر رہا تھا‘‘۔ بھیا نے اسے میری طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔ ’’مگر یہ ہے کون بھیا؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔ ’’جانے کون ہے۔ نوکری چاہتا ہے۔ کہتا ہے میرا کوئی نہیں‘‘۔ لڑکے نے سر اوپر اٹھایا اور سیڑھیوں کی طرف دیکھنے لگا۔ میں بھی غیر شعوری طور پر ادھر دیکھنے لگی مگر وہاں کوئی نہ تھا۔ بھیا کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’یہ تیری طرف دیکھ رہا ہے پگلی، کم بخت بھینگا ہے۔ مگر دیکھو اس کی آنکھوں سے کس بلا کی ذہانت ٹپک رہی ہے‘‘۔ میں بھی ہنس دی، وہ غالباً میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ مگر اس کی آنکھیں 120o

مزید پڑھیں

اک ستارہ تھی میں – قسط٩ – بتول جون ۲۰۲۳

زرَک کئی دنوں سے پوَن سے تفتیش کرنے نہیں آیا۔وہ کسی انسان کی شکل کو ترس جاتی ہے۔اسے یاد آتا ہے بی بی کے گھر آخری دن کا سبق تھا اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جانا یہ سوچ کر ہی اسے نئے سرے سے امید ملتی ہے۔زرَک پون کے شہر جا کر اس کے والدین اور سہیلی سے ملتا ہے۔اس پر کچھ ایسے انکشافات ہوتے ہیں جو ناقابلِ یقین ہیں۔مگر اصل بات تو پون ہی بتا سکتی ہے ۔ اور آج پورا ایک ہفتہ گزر چکا تھا وہ نہیں آیا تھا۔ وہ چاہتی تھی وہ اسے سزا دے رہا ہے۔ ایسی سزا جو اسے پاگل بنا دے اور واقعی وہ آہستہ آہستہ پاگل ہوتی جا رہی تھی۔ کبھی اسے لگتا اس کا دماغ اس کے اختیار میں نہیں ، ایسی ایسی عجیب و غریب سوچیں آتیں کہ اسے یقین ہو جاتا اس نے اپنے ہوش و حواس گم

مزید پڑھیں

کوڑے کے ڈھیر پر – بتول جون ۲۰۲۳

وہ کوڑے کا ڈھیر تھا جس پہ وہ سب دائرے کی شکل میں بیٹھے تھے۔ سب کی شکلیں بگڑی ہوئیں جن پہ مردنی چھائی تھی۔بچوں کے چہروں پر بچپن میں ہی بڑھاپے کی جھریاں نمایاں تھیں۔ سب کے پاس ایک ایک آٹے کی خالی بوری دھری تھی جن پر مکھیاں ایسے بھنبھنا رہی تھیں جیسے روشنی کے گرد پتنگے… مکھیاں ہی ان کی واحد رفیق تھیں جو بھری دوپہروں میں بھن بھن کرتی ان کی سوتی زندگیوں میں ارتعاش پیدا کرتیں۔ وہ سب ایسے ہی روز وہاں آتے ۔ابھی دکانوں کی اور سبزیوں کے ٹھیلوں کی شٹریں نہ اٹھی ہوتیں کہ وہ اپنی اپنی بوریاں لیے حاضر ہو جاتےاور یوں کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھ کر انتظار کرتے۔ سب کے چہروں بشروں سے بے فکری عیاں تھی مگر انتظار نمایاں ہوتا، مانو ابھی دکانوں کے شٹر اٹھیں گے اور یہ سب دھاوا بول دیں گے – ان میں بچے، بوڑھے،

مزید پڑھیں

روشنی اور سایا – بتول جون ۲۰۲۳

نہ جانے کس مخصوص غذائی جز کی کمی تھی کہ ’ روشنی‘ نام ہونے کےباوجود بھی وہ سیاہ رنگت کی تھی۔ بنگلہ نمبر بی تینتیس میں روشنی کی ماں جب اپنی گیارہ برس کی بچی کو کام کے لیے چھوڑ کر گئی تو چھ ماہ کے پیشگی معاوضہ کے طور پر اس کی پوٹلی میں ستر ہزار سکہ رائج الوقت بھی بندھا تھا ، اس ستر سے اس کے کنبے کی سات ضروریات کچھ عرصہ ہی پوری ہوتیں، جس میں غذا کی فراہمی سے لے کر موبائل کارڈ کی خریداری بھی تھی۔ اب بھی دس ہزار کم ملے تھے۔ پچھلی گلی کے سفید بنگلہ والی اماں جی نے سال بھر کا ایڈوانس اور پیسے بھی بہو کی ناپسندیدگی کے باوجود زیادہ دیے لیکن روشنی دو ماہ میں ہی بھاگ گئی ، وہ تو شکر ہے بھاگ کر کالونی باغ ہی گئی جہاں اس کا ماموں مالی تھا۔ ماموں گیٹ کے

مزید پڑھیں

صدقہ – بتول جون ۲۰۲۳

کئی دنوں سے سب گھر والے نوٹ کر رہے تھے کہ مجیداں کام میں سست ہو گئی ہے ۔ایک بات دو تین مرتبہ کہنا پڑتی ،پھر جا کر اسے سنائی دیتی ، چہرے مہرے سے بھی بیزاری اور تھکاوٹ دکھائی دیتی ،کہاں تو یہ کہ وہ کام مکمل ہونے کے بعد دس ایک منٹ سانس درست کرنے کے بہانے بے فکری سے بیٹھ کر اپنے نکھٹو میاں اور نافرمان اولاد کے قصے سناتی،کچھ مشورے لیتی اور زور دار آواز میں سلام دعا کے بعد رخصت ہوتی۔اور اب یہ حال کہ کام ادھورا رہ جاتااور وہ اچانک ہی ،اچھا بی بی جی میں تاں چلی آں ،کہہ کر یہ جا وہ جا۔ جب مسلسل ایسے ہی ہوتا رہا تو امی جی ( ساس) نے اسے وقت رخصت روک کر پوچھا ۔ ’’کیا بات ہے آج کل بجھی بجھی سی رہتی ہو کام بھی ڈھنگ کا نہیں کر پارہیں کوئی مسئلہ ہے

مزید پڑھیں

چند سکّوں کے عوض – بتول جون ۲۰۲۳

عفت نے پڑھنا شروع کیا۔لکھتا تھا۔ ’’زویا چندے آفتاب و چندے ماہتاب تو ہرگز نہیںپر دلکش اور سلیقے طریقے والی ضرور ہے۔والدین بھی نجیب الطرفین ہیں‘‘۔ کچھ طنزیہ ،کچھ ناگوار سا تاثر چہرے پر بکھرا اور جیسے اندر کی ہلکی سی سٹرانڈ اس کے لہجے میں گھل کر ہونٹوں کے راستے باہر بھی آگئی۔ ’’لو یہ تو جیسے اُن کا جدّی پشتی وہ گوانڈی تھاجو ایک دوسرے کے پوتڑوں تک کے بھیدی ہوتے ہیں‘‘۔ نجیب الطرفین پر دوبارہ نظریں پڑیں ۔اس بارتلخی ایک دوسرے رنگ میں باہر آئی۔ ’’نہ گئی اس کی یہ بھاری بھرکم بوجھل سے الفاظ استعمال کرنے کی گندی عادت۔پوچھے کوئی مطلب بھی آتا ہے تمہیں اس کا۔ بس فضول کی علمیت بھگارنی ہے‘‘۔ ’’عفت تم آگے چلو۔تبصرے بعد میں کرنا‘‘کمرے میں موجودعباس کی تیز آواز گونجی تھی۔ ’’سن 1926میں گورداسپور سے زویا کا دادا اپنے بال بچوں اور بھائی کے ساتھ یہاں کیپ ٹائون آئے تھے۔زویا

مزید پڑھیں

لینڈنگ – بتول جون ۲۰۲۳

’’ آج تو بہت دیر ہوگئی ہے ۔‘‘ بلال بالوںمیں کریم لگا کر کنگھاکر رہا تھا ۔ پھر اپنے لیپ ٹاپ کو بیگ میں بند کر تے ہوئے رانیہ سے کہا ’’میرا بلیزر لا دو دوسری الماری میں ہے۔‘‘ رانیہ اپنا سامان پیک کر رہی تھی۔ آج اس کی فلائٹ پر ڈیوٹی تھی۔ ائیر ہوسٹس کا اپنا کام ہی وقت پر ختم نہیں ہو پاتا ۔ ’’ لادو ‘‘ بلال نے جوتے کے بند باندھتے ہوئے رانیہ کی طرف دیکھ کر کہا ۔ رانیہ کی زبان پر کچھ آتے آتے رہ گیا پھر جلدی سے بلیزرلاکر دے دیا ۔ بلال نے اسے دیکھتے ہی ہاتھ پھیلا دیا کہ پہنادے ۔ رانیہ نے دیکھ کر بھی نظر انداز کر دیا اور کوٹ مسہری پر رکھ دیا ۔ اس کے پاس وقت کہاں تھا ۔ گاڑی کسی بھی لمحہ اسے لینے آنے والی تھی ۔ دیر کر کے وہ کوئی خطرہ تو

مزید پڑھیں

صابن کی پرچ – بتول جون ۲۰۲۳

فہمیدہ غسل خانے سے نہا کر نکلی تو اس کے ہاتھ میں ایک چینی کی پرچ تھی جس میں لائف بوائے کی ایک ٹکیہ تھی۔ اس کی نوکرانی نے دیکھ کر کہا۔ ’’میں بھی نہانا چاہتی ہوں، مجھے صابن دیجیے‘‘۔ فہمیدہ نے اسے وہ پرچ دے دی اور خود آ کر تلاوت قرآن شریف میں مصروف ہو گئی۔ مسلم پاس بیٹھا اسکول کا کام کر رہا تھا۔ وہ لکھتے لکھتے رک گیا اور پوچھا۔ ’’مائی کہاں ہے؟‘‘ ’’غسل خانے میں ہے‘‘۔ فہمیدہ نے جواب دیا۔ مسلم نے کہا ’’پرچ ٹوٹ گئی ہے‘‘۔ مائی نے غسل خانے میں بہت دیر لگائی اور جب باہر نکلی تو ڈرتی جھجکتی فہمیدہ تک آئی اور کہنے لگی۔ ’’میں… ایک نشکان (نقصان) ہو گیا ہے‘‘۔ فہمیدہ نے پلٹ کر دیکھا تو مائی کے ہاتھ میں پرچ کا ایک بڑا ٹکڑا تھا اور زرد چہرے پر افسوس اور ندامت کے آثار ۔ فہمیدہ نے کہا ’’کوئی

مزید پڑھیں

غزل – بتول جون ۲۰۲۳

آرزو کا شمار کیا کیجیے وصل کا انتظار کیا کیجیے کوئی قابض ہؤا خیالوں پہ تو بہانے ہزار، کیا کیجیے ان کی اب گفتگو کسی سے ہے لفظ اپنے شمار کیا کیجیے آپ ہی آپ مسکرانے لگے ان کا بھی اعتبار کیا کیجیے جس نےتھاما ہے ہاتھ اوروں کا اس پہ یہ جاں نثار کیا کیجیے دل کی پروا رہی کہاں ان کو دل کو پھر تار تار کیا کیجیے چھن گیا جو عزیز تھا سب سے آیتوں کا حصار کیا کیجیے موت کی منتظر ہوئیں نظریں زندگی کا خمار کیا کیجیے

مزید پڑھیں

انسانوں میں طاقت کا توازن – بتول جون ۲۰۲۳

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے تو پھر ان کی خود مدد بھی کر دیا کرے۔(بخاری ) مندرجہ بالا حدیث ایک انقلابی پیغام لیے ہوئے ہے ۔ جس پر عمل سے معاشرے، ملک و ملت کے حالات سدھارے جا سکتے ہیں ۔ بنیادی طور پرفساد کی شروعات اہلِ طاقت کی اس ذہنیت سے ہوتی ہیں کہ وہ بڑا ہے اس کے لیے کمزور پرہر رویہ یا حربہ جائز ہے۔ اسلام نے ہر مقام پر کمزوروں کے حقوق کو نمایاں کر کے ان کے دفاع

مزید پڑھیں

گھریلو ملازمین اور قانون – بتول جون ۲۰۲۳

پاکستان میں گھریلو ملازمین کو کئی مسائل کا سامنا ہے ۔وہ طویل دورانیہ ملازمت ، بہت زیادہ کام لینا ،قانونی تحفظ نہ ہونا، دوران ملازمت بدسلوکی اور کبھی مار پیٹ بھی ہونا ۔چھوٹے بچوں کو کام کے لیے رکھنا ،بچوں کے والدین کو ایڈوانس رقم دے کر بچوں کو کام کے لیے رکھ لینا ، تنخواہ کا مقرر نہ ہونا اور کم ادائیگی کرنا ،بروقت ادائیگی نہ ہونا ادارہ جاتی پشت پناہی مہیا کرنا ،کھانا پورا اور بروقت نہ دینا ،پرائیویسی کا لحاظ نہ رکھا جانا وغیرہ گھریلو ملازمین کی کم سے کم تنخواہ اوقات کار وغیرہ صوبائی ملازمین سوشل سکیورٹی آرڈنینس کے دائرے میں آتا ہے۔ دنیا بھر میں کل کتنے افراد گھریلو ملازم ہیں ،اس کے کوئی مستند اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں مگر ایک سروے کے نتیجے میں جو تخمینہ سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ ہر چوتھے گھر میں ایک ملازم موجود ہےاور

مزید پڑھیں

اپنے ہاتھ سے کمانے والے – بتول جون ۲۰۲۳

محنت کشوں اور خادمین سے متعلق سیرت پاکؐ سے رہنمائی اللہ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں تمام انسان مساوی ہیں۔ شروع ہی میں یہ واضح کر دیا جانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شرف انسانیت میں سب مساوی ہیں،احترام آدمیت پانے میں سب مساوی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ کائنات کے اس نظم کو چلانے کے لیے تمام کے تمام لوگوں کو اعلیٰ مناصب نہیں دیے جا سکتے تھے لہٰذا اسلام نے یہ ذہنیت پیدا کی کہ تمام مناصب ہی قابل تکریم ہیں،محنت کی عظمت واضح کی،انبیاء کی مثال پیش کی گئی جو اپنے ہاتھ کی محنت سے کماتے تھے،داؤد علیہ السلام باوجود حکمران ہونے کے،اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے اور زرہیں بناتے تھے۔ ’’آپ ﷺنے فرمایا،اللہ تعالیٰ نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔صحابہؓ نے عرض کیا اور آپؐ نے بھی چرائیں؟آپؐ نے فرمایا: ہاں میں چند قیراط اجرت پر مکہ

مزید پڑھیں

اجرت پر کام – بتول جون ۲۰۲۳

اسلام میں آجر اور اجیرکا تصور اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کوتکریم بخشی ہے۔ اسلام میں آجریعنی اجرت پر کام کروانے والا بھی معزز ہے اور اجیریعنی اجرت کے بدلے کام کرنے والا بھی! انسان کو روزی کمانے اور اپنی معاش کا انتظام کرنے کے لیے جسمانی، یا دماغی محنت کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اسلام اس پر ابھارتا ہے۔اور جو لوگ مشقت کر کے اپنی روزی حاصل کرتے ہیں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔انبیاء علیھم السلام جو عزت و شرافت کے اعتبار سے پوری انسانیت کا جوہر ہیں انھوں نے خود محنت مزدوری کی، اور بکریاں چرانا اور گلہ بانی کرنا تمام انبیاء علیھم السلام کا پیشہ رہا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے مزدور کے ہاتھوں میں پڑنے والے گھٹے کو بوسہ دیا ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی مزدوری کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے کہ مدین کے کنویں پر جب انہوں نے دو لڑکیوں

مزید پڑھیں

ابتدا تیرے نام سے – بتول جون ۲۰۲۳

قارئینِ کرام سلام مسنون! حسبِ وعدہ جون میں مددگار نمبر حاضر ہے۔ اس موضوع پر ایک نمبر کی شکل میں توجہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ ہماری زندگیوں کے اس اہم پہلو سے جڑے مسائل و معاملات پر بات کی جائے، اس کوہم قدرےمختلف زاویہ نظر سے دیکھنے کے قابل ہوسکیں، روزمرہ سے ہٹ کرمعاشرتی اور قانونی تناظر کی بڑی تصویرمیں رکھ کر دیکھیں، اور سب سے بڑھ کران معاملات میں دینی رہنمائی سے مستفید ہوں۔شمارے کے مندرجات پہ نظر ڈالیں تو کم وبیش یہ مقاصد پورے ہوتے نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر لکھنے والوں نے حقیقی کرداروں اور تجربوں پر لکھنے کو ترجیح دی ہے، اگرچہ افسانے کا کینوس بہت وسیع ہوتا ہے اور مہارت سے لکھاجائے تو حقیقت سے بڑھ کر متاثر کرنے کی صلاحیت اس صنفِ سخن میں موجود ہے۔تجربات زیادہ تر مثبت ہیں۔ یہ اچھی بات ہے،البتہ اجرت پر کام کرنے والوں کے ہاتھوں جو

مزید پڑھیں

اُف یہ ماسیاں! – بتول جون ۲۰۲۳

ڈیوٹی پہ آئے دن نہیں آتی ہیں ماسیاں سو سو طرح کے حیلے بناتی ہیں ماسیاں رو رو کے اپنے دکھڑے سناتی ہیں ماسیاں اس ایکٹ سے بھی پیسے کماتی ہیں ماسیاں حیراں ہے اِس نظارے پہ شوہر کی بے بسی بیگم کو جیسے آنکھیں دکھاتی ہیں ماسیاں جھاڑو ادھر کو پھینک، چلی ہاتھ جھاڑ کر پل بھر میں اپنا رنگ دکھاتی ہیں ماسیاں ماسی کو ہیں شکایتیں اپنی کولیگ سے اک دوسرے کو نیچا دکھاتی ہیں ماسیاں یعنی اسامیوں سے ہیں زائد امیدوار جاتی ہے ایک، دو نئی آتی ہیں ماسیاں دشواریاں ہیں کام میں جن بیگمات کو دن بھر سو ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں ماسیاں شوہر کو کیوں گلہ نہ ہو خاتونِ خانہ سے فارغ ہیں آپ، گھر تو چلاتی ہیں ماسیاں ان ہی کے دم سے آج محلے میں ربط ہے قصے یہاں وہاں کے سناتی ہیں ماسیاں ہوتی ہیں دیس میں تو بہت انڈر ایسٹِمیٹ

مزید پڑھیں

ماسی – بتول جون ۲۰۲۳

ازل سے اپنا تو ایک منظر ابد بھی ایسا ہی ہو گا منظر ازل یہی ہے ابدیہی ہے ہمارا کوئی ازل نہیں ہے ہمارا کوئی ابد نہیں ہے سنا ہے صدیوں کی صدیوں پہلے ہماری صبحیں اسی طرح تھیں ہماری شامیں اسی طرح تھیں محل ہمارے مقدروں میں لکھے ہوئے تھے محل ہمارے مقدروں میں لکھے ہوئے ہیں ہماری عمریں مگر گزاری ہیں دوسروں نے ہماری خوشیاں مگر منائی ہیں دوسروں نے محل سجے ہیں ہمارے ہاتھوں کچن چلے ہیں ہمارے ہاتھوں سبھی لباسوں کے داغ مٹتے ہیں اپنے دم سے سبھی بزرگوں کے عیب چھپتے ہیں اپنے دم سے ان انگلیوںسے ہی برتنوں کوچمک ملی ہے ان انگلیوں سے ہی خواہشوں کو کھنک ملی ہے نہ جانے کتنی بہکتی نظریں ہمارے آنچل سنبھالتے ہیں نہ جانے کتنی ہی پیش رفتیں ہمارے اعصاب ٹالتے ہیں ہماری نسلیں تو کتنی صدیوں سے یوں ہی جیتی ہیں زخم سیتی ہیں، خون پیتی

مزید پڑھیں

غزل – بتول جون ۲۰۲۳

بس بہت ہو گیا اپنے دل میں ذرا الفتوں چاہتوں کو جگہ دیجیے مدتوں سے جما نفرتوں کا غبار اپنے ذہن و نظر سے اڑا دیجیے ظلمتِ شب سے شکوہ بجا آپ کا پھر بھی لازم ہے یہ روشنی کے لیے ہو سکے اپنے خونِ جگر سے کوئی اک دیا راستے میں جلا دیجیے مر چکے ہیں اگر دل تو غم کس لئے ان کو زندہ کریں حشر برپا کریں صور اک پھونک دیں ہر طرف اور پھر ہر قدم پر قیامت اٹھا دیجیے آپ بیشک نہیں راہبر مہرباں رہنما ہی سہی، راہ میں جو کئی لے کے جائے جو منزل کی جانب مجھے ان میں وہ راستہ تو بتا دیجیے دشمنوں کی نہ باتوں میں آپ آئیے شک نہیں کیجئے میرے اخلاص پر میں نہیں بے وفا بے وفائی کروں پھر جو دل چاہے مجھ کو سزا دیجیے منزلیں دور ہیں اور رستہ کٹھن ،کوئی تو لے مرے ہاتھ

مزید پڑھیں

انہیں اس آخری خطبے کا وہ پیغام پیار دو – بتول جون ۲۰۲۳

کوئی دارو تو اس مرضِ کہن کا بھی خدارا دو جو خدمت گار کا حق ہے، اسی کو حق وہ سارا دو غلام اب ہے کوئی، کوئی نہ آقا اب کسی کا ہے انہیں اس آخری خطبے کا وہ پیغام پیارا دو جہالت، درد، غربت کی نہ چکی پیس دے ان کو اخوت، عدل، شفقت اور محبت کا نظارا دو سفینہ ڈوبنے پائے نہ ان مجبور لوگوں کا انہیں طوفان سے لڑنے کو چپو دو، کنارا دو علوم و فن کے جوہر سے انہیں بھی آشنا کر دو پلٹ دو روز و شب ان کے، اک ایسا استعارا دو پڑھاؤ نونہالوں کو، جگاؤ نوجوانوں کو جہادِروزوشب میں آگے بڑھنے کو سہارا دو پلٹ دیں گے زمانے کو، یہ ایسا عزم رکھتے ہیں بس ان کو اپنا جوہر آزمانے کا اشارا دو اٹھاؤ خاک سے ان کو، بناؤ سیرتیں ایسی کوئی خالد، کوئی غزنی، سکندر اور دارا دو ادا سیکھیں جہاں

مزید پڑھیں