۲۰۲۴ بتول جنوری

گوشہ ِتسنیم – قیمتی سرمائے کی حفاظت – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

قوموں کی زندگی میں پیش آنے والے معرکے ہی دنیا کی تاریخ میں اچھا یا برا مقام بنا پاتے ہیں۔ اور اسی حوالے سے کوئی بھی قوم اپنے کردار کا تعین کرتی ہے۔
دنیا بھر کے تاریخی آثار ہر قوم کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ اور ان سے عقل مند لوگ ہی عبرت، نصیحت اور سبق حاصل کرتے ہیں اور یہی لوگ حالاتِ حاضرہ میں قوم کے راہنما کہلائے جاتے ہیں۔
بحیثیت امتِ مسلمہ کے جسدِ واحد ہونے کا احساس وہ قیمتی سرمایہ ہے جس سے دنیا کی قیادت کی گئی اور اب بھی کی جا سکتی ہے۔
یہ احساس زندہ رکھنا ہی امتِ مسلمہ کے سارے دکھوں کا علاج ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ قیمتی سرمایہ اور میراث کیسے گنوا دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ جب نفس پرستی اور بے لگام خواہشات نے دنیا کی زندگی میں مگن کر دیا تو پھر موت سے خوف آنے لگا اور یہی وہ بیماری ہے جس کی وجہ سے مسلمان کلمۂ حق سے ناآشنا ہوگئے اور ہر مسلمان ملت کے مقدر کا ستارہ نہ رہا۔
ہر مومن کا دل ایمان کی روشنی سے جگمگاتا ستارہ ہے۔ یہ مومنوں کے دل ہی ہیں جو امتِ مسلمہ کو کہکشاں بنا دیتے ہیں۔
یہ خوبصورت احساس صدیوں کے بعد دوبارہ…

مزید پڑھیں

محشر خیال

ام ریان۔لاہور
چمن بتول میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ چلنے والا ناول ’’ اک ستارہ تھی میں ‘‘ اپنے اختتام کو پہنچا ۔ ایک نسبتاً نئے نام والی مصنفہ کے قلم سے اتنی پختہ تحریر پر خوشگوار حیرت ہوئی ۔کہانی پر مصنفہ کی گرفت مضبوط رہی ۔ کردار نگاری اورمنظر کشی عمدہ تھی ۔ گائوں ہو یا خواتین کا ہوسٹل ، مصنفہ نے بڑی چابک دستی سے اس کا احاطہ کیا ہے۔ سکول کی ہیڈ مسٹریس کا کردار بڑا مختصر مگر دلچسپ اوربھرپور تھا ۔پون ، بی بی اور زرک کے کردار نمایاں ہیں ۔ زرک دیر سے کہانی میں شامل ہؤالیکن پوری کہانی پر چھا گیا۔کہانی میں تجسس تھا ۔ دل پون کے ساتھ ساتھ دھڑکتے رہےکہ اب کیا ہوگا ؟ چنانچہ خوشگوار انجام پر مسرت ہوئی ۔جہاں یہ بات اچھی ہے کہ مصنفہ نے لسی میں پانی ڈال ڈال کر کہانی کو اتنا نہیں بڑھایا کہ قاری بور ہوجائے ، وہیں بعض مقامات پر تشنگی کا احساس بھی ہؤا۔ گائوں ، بی بی اور خواتین ہاسٹل دو تین بھرپور قسطوں کے متقاضی تھے ۔ آخری قسط بہت خوبصورت تھی ۔ایک کامیاب ناول پر اسما اشرف بجا طورپر تحسین کی مستحق ہیں ۔ امید ہے آئندہ بھی ان…

مزید پڑھیں

روداد – بیت احسن کی ادبی نشست کا احوال – ام ایمان(غزالہ عزیز)

لاہور پہنچے دوسرا دن تھاکہ حریم ادب کی نشست میں شرکت کی دعوت ملی۔ یہ بیت احسن میںہونے والی ماہانہ نشست تھی ۔ ہماری رہائش سے ایک گھنٹے کا فاصلہ تھا ۔ فرزانہ چیمہ اس میںشرکت کا کراچی میںہی وعدہ لے چکی تھیں، لانے لے جانے کا وعدہ بھی کر لیا تھا جو انہوں نے نبھایا۔ ان سے بہترین قلم کار کے لحاظ سے تو خوب واقفیت تھی اب دوستی بھی ہو گئی اور وہ بھی با وفا دوست ثابت ہوئیں ۔ ایک گھنٹے کا سفر کچھ عدم واقفیت اور کچھ راستے کی خرابی کے باعث ڈیڑھ گھنٹے پر محیط ہؤا اور ان کی پیشانی خندہ ہی رہی۔
سو کراچی سے لاہور پہنچنے کے وقت کے برابر وقت میں ہم بیت احسن پہنچ گئے۔ یہ اسلامیہ پارک میں واقع ہے گلی میں داخل ہوئے تو پہلے لال اینٹوں کے احاطے والے تاریخی گھر ’’ فصیح منزل‘‘ کو بھی دیکھا ۔ ہاں بھئی تاریخی ہی ہؤا کہ بنت الاسلام کا گھر تھا جن کی کہانیاں اور افسانے پڑھ پڑھ کر مجھ سمیت کتنی ہی نسلیں جواں ہوئیںاورلکھنے کے شوق میںبھی مبتلا ہوئیں۔
ہمیںفرزانہ باجی کی زبانی یہ سن کر بڑا مزا آیا کہ بنت الاسلام کے بھی ہماری طرح تین نام تھے ۔…

مزید پڑھیں

ہلکا پھلکا – ایک کرایہ دار کی آپ بیتی -ام عبدالرحمن

اس دلہن کا جب سرخی پاؤڈر اترتا ہے، تو بس پھر یا تو قسمت پر رشک آتا ہے یا قسمت پھوٹ جانے پر
رونا …. اور ہم کرائے داروں کو تو اکثر رونا ہی نصیب ہوتا ہے….ایک ستم ظریف تحریر
 
انسان کہیں بھی ہو مگر موت کی تلوارہمیشہ اس کے سر پر منڈلاتی رہتی ہے ۔ بالکل اسی طرح کسی کرایہ دار کے سر پر بھی ایک دو دھاری تلوار منڈلاتی رہتی ہے، اور وہ ہے گھر خالی کرنے یا کرایہ بڑھانے کی تلوار۔ لہٰذا ایک کرایہ دار کی حیثیت سے آج مالک مکان نے ہم پر بھی اس تلوار سے وار کیا ،بولا یا تو کرایہ بڑھا دو ،یا اگر اسی کرائے پر رہنا ہے تو اسی بلڈنگ کے نئے فلیٹ میں شفٹ ہو جاؤ جوکہ سائز میں اس فلیٹ سے آدھا ہے پر نیا ہے، یا فلیٹ خالی کر دو۔
ہمارے مقدر میں تیسری آپشن کا قرعہ نکلا۔ پہلی آپشن پر عمل ناممکن تھا۔ دوسری آپشن میں مسئلہ یہ تھا کہ اس نئے فلیٹ میں سامان پورا نہیں آئے گا۔ ہمارا سامان اتنا زیادہ ہے کہ کچھ نہ پوچھیں، بس ہم اور ہمارے شوق۔ ہمارے سامان کا حال یہ ہے کہ ہر گھر میں ہم ایک کمرے کو مکمل سٹور بنا…

مزید پڑھیں

ہلکا پھلکا – حیدرآبادی چٹکلے – آمنہ رمیصا زاہدی

حیدرآباد دکن سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے والوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان میں ایک یہ بھی تھا کہ یہاں آتے ہی لوگ ان کا شین قاف درست کروانے میں جت گئے۔ متاثرین میں ہمارا خاندان بھی شامل تھا۔
سکول میں ہماری بلند خوانی پر دبی دبی ہنسی سنائی دیتی تھی اور ہماری چھوٹی بہن سے تو سہیلیاں فرمائش کرتیں کہ بولو’’قرطبہ کا قاضی‘‘ اور وہ جھوم کے کہتی’’خرطبہ کا خاضی‘‘ تو سب کے کھلکھلا نے کی وجہ ہمیں کبھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ لیکن چونکہ بچپن سے بغیر کسی وجہ کے خوش رہنے کی عادت ہے تو وجہ تلاش کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہماری ایک دوست کہتی بولو’’کائد اعظم‘‘، دو نکتوں والی بڑی کاف سے ’’کائد اعظم‘‘ اور ہم کہتے کیوں؟ جب ہمیں پتہ ہے کہ خائد اعظم ہوتا ہے تو کیوں کائد اعظم بولیں. وہ جھلا کے کہتی نہیں کائد اعظم …. کائد اعظم…. مگر جناب ہمیں اپنے حق پر ہونے کا اتنا یقین تھا کہ ہم بڑی خوداعتمادی سے کہتے خائد اعظم…. خائد اعظم! اور دل ہی دل میں ان معصوموں کی حالت پر ترس کھا رہے ہوتے تھے کہ ان لوگوں کو کتنی شرمندگی ہوگی جب صحیح تلفظ…

مزید پڑھیں

تبصرہ کتب – قیادت کا سفر – ڈاکٹر صائمہ اسما

نام کتاب:قیادت کا سفر
مرتّبہ:روبینہ فرید
صفحات :216، قیمت:۱۰۰۰روپے
شائع کردہ:تدوینِ تاریخ کمیٹی،حلقہ خواتین،جماعت اسلامی پاکستان
ملنے کا پتہ:الفلاح مرکز کراچی،مرکز خواتین منصورہ لاہور
دورِ حاضر میں یہ تصور کہ اسلام بطور دین زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور دینِ حق کے طور پہ انسانیت کے دکھوں کا ازالہ کرنے، دنیا کو حق و انصاف پر قائم رکھنے کے لیے بطور نظام اس کا غلبہ ناگزیر ہے، اسلامی تحریکوں کی بنیاد ہے۔ یہ تحریکیں اس وقت دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں اور اپنے اپنے جغرافیائی، تمدنی،اور سیاسی حالات کے مطابق اقامتِ دین کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ یہ جدوجہدایک طرف ذاتی زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالنے، تزکیہِ نفس اور کردار سازی پر مشتمل ہے تو دوسری طرف اجتماعی نظام کو خدائی احکام کے تابع لانے کی کوششیں بھی اس کے دائرے میں شامل ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اس تصور کی فکری بنیاد سید ابولاعلیٰ مودودیؒ نے فراہم کی جنہیں بیسویں صدی کا مجدد دین کہا جاتا ہے۔
مولانا مودودی نے جماعتِ اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی اس کا حلقہ خواتین منظم کرنے کی طرف بھی توجہ کی ۔ بیگم محمودہ مودودی، حمیدہ بیگم، ام زبیر اور نیر بانو وہ ابتدائی خواتین تھیں جنہوں نے اقامتِ دین کے…

مزید پڑھیں

پل صراط پر – خود انحصاری کا ایک اندازہ یہ بھی ہے ! – افشاں نوید

پچھے چھ ماہ میں میں نے خود انحصاری کا نیا مفہوم جانا ۔ اس کے فائدوں سے میں نے لطف اٹھایا۔
ہمیشہ یونہی ہوتا رہا ہے کہ صبح ہوئی تو ماسی کا انتظار شروع کردیا ۔ ماسی دیر سے آئی توصبر کا پیمانہ لبریز ۔ پہلے اپنی توانائی اس کو صلواتیں سنانے پر خرچ کی، لہجہ تندوتیز ہو تو ذہن الگ مائوف ہوجاتا ہے ۔ ان بے چاری ماسیوں کے دسیوں گھر اور ہر ’’ باجی‘‘ کا الگ الگ مزاج ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ چونکہ ہم مطلوبہ معاوضہ دیتے ہیں لہٰذا ہماری خدمت پوری ہونی چاہیے ۔
ہم میں کون ایسا ہے جو اپنی کام والی کی کار کردگی سے مطمئن ہو؟ دل عجیب مضطرب سا رہتا ہے کہ کاش اس سے اچھی کام والی مل سکتی۔
یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ آدھے دن گھر پھیلا ہؤا بے ترتیب پڑا رہا تب ماسی دوپہرڈھلے ماتھے پردوپٹہ باندھے ’’ پینا ڈول‘‘ طلب کرتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی ۔ ادھر ہانڈی چڑھانا دوبھر کہ اتنے پھیلے بے ترتیب کچن میں یہ کیسے ممکن ہو !
اس بے کسی و محتاجی میں ایک عمرگزری ۔ دن کا سب سے بہترین وقت تا عمر ماسیوں کی صحبت میں گزرتا رہا ۔ یہ حقیقت ہے کہ…

مزید پڑھیں

صحت کہانی – امتحان – ڈاکٹر زاہدہ ثقلین

گھر میں عجیب سی بے چینی پھیلی ہوئی تھی سب اپنی اپنی جگہ پریشان اور سوچوںمیں گُم تھے ، ’’ بھلا ڈاکٹر نے یہ کیوںکہا ؟‘‘
’’ یہ کینسر کے مریضوںوالا انجکشن ہم کیوںلگوائیں ؟‘‘
’’ نمرہ کوکینسر تو نہیں‘‘۔
’’ اس سے زیادہ نقصان ہو گیا تو…‘‘
’’ کسی اورسے مشورہ کر لینا چاہیے….‘‘
’’فلاں کہہ رہی تھی….‘‘
’’فلاں کےساتھ یہ ہؤا ….‘‘
’’ ڈاکٹر تو یونہی ڈرا کررکھ دیتے ہیں‘‘
’’ اللہ خیر کرے گا ‘‘
اسی شش و پنج میں مزید کچھ دن گزرگئے اور پھر وہی ہؤا جس کا ڈر تھا ۔ اور وہ نمرہ کو ہسپتال لے کر بھاگے۔
کچھ روزقبل کی بات تھی۔
’’ بھابھی لگتا ہے دوبارہ good newsہے‘‘ فرح نے نمرہ کی اُتری ہوئی صورت اورکھانے سے عدم دلچسپی سے نتیجہ اخذ کیا ۔
نمرہ مسکرادی’’ صحیح کہہ رہی ہو، کل ہی ٹیسٹ کیا ہے ، پازیٹو (مثبت) ہے ‘‘ اس نے دیورانی کے شک کی تصدیق کی ۔
’’ ڈاکٹر کے پاس کب جانا ہے ؟‘‘
’’ اب اتنی تو تجربہ کار ہو گئی ہوں، خود ہی فولک ایسڈ یک گولی کھانا شروع کردی ہےاگلے ماہ ہی چیک کرائوں گی ‘‘ نمرہ مسکرائی۔
’’ شکر ہے آپ کے تینوںبچوں کی بار کوئی پیچیدگی نہیں ہوئی ۔ اللہ اب بھی کرم کرے گا ۔میرےلیے بھی دعاکیجیے گا…

مزید پڑھیں

جیل کہانی – شانزے کی کہانی – آسیہ راشد

جیل آفیسر کی زبانی
جیل آفیسر شمیم چیمہ نے کہانی شروع کی ۔
ضلع چکوال کے نواح میں گھومتی ، پہاڑیوںکے درمیان واقع گھنے جنگل سے گھرا ہؤا کاشانہ فصیح اس کے مکینوں کے دولت اور امارت کامنہ بولتا ثبوت تھا ۔ یہ ایک عظیم الشان پرانا گھر تھا جس میںبلوط اور شیشم کے بلند و بالا دروازے سپین کی طرز کی بنی ہوئی محرابوںوالی شیشے کی کھڑکیاں اس کی شان و شوکت میں اضافہ کر رہی تھیں ۔ اس گھر کی دیواروں پر لگے ہوئے آبائو اجداد کے کرخت چہروںوالے بڑے بڑے پورٹریٹ اس گھر سے جڑی تاریخ کی عکاسی کر رہے تھے جس میں وہاں کے مکینوںکی وضع داری ، روایت پسندی، جدت طرازی اورکہیںکہیں رحم دلی کی داستان رقم تھی ۔ بیرون ملک سے لائے گئے انواع و اقسام کے نوادرات اس گھر کی سطوت کو بڑھا رہے تھے ۔شاہ بلوط اور صندل کی لکڑی کے بھاری سامان ، قدیم طرز کی پوشش اورپرانی یادوںکی دیر پا خوشبو کاشانہ فصیح کے اندر کے ماحول کو خوشگوار بنا دیا تھا ۔
جب اس گھر کی اکلوتی بیٹی شانزے کے اٹھلاتےہوئے قدم گھر کی راہداریوں میں چلتے پھرتے ،اوراس کے گونجتے ہوئے قہقہے زندگی کا احساس دلاتے تو اس گھر کی رونق…

مزید پڑھیں

بابو بھائی – آمنہ آفاق

وہ پراٹھے بناتے تھے ، گول گول لچھے دار پراٹھے ، ان کی خوشبو ہی دور سے اپنی جانب کھینچ لیتی۔ وہ اپنے کام میں بہت ماہر تھے ایسی پھرتی سے ان کے ہاتھ چلتے کہ دیکھنے والا پلک جھپکنا بھول جاتا ۔بڑے سے توے پر گھی ڈال کر وہ ایک کے بعد ایک بل دار پیڑے کو بیل کر اس پر ڈالتے جاتے اور مشینی انداز میں ان کو سینکتے اور پلٹتے اور بڑی مہارت سے کاغذ پر ڈال کر گاہک کے ہاتھ میں پکڑا دیتے۔ مجھے ان کی آنکھوں میں ایک درد کا جہاں نظر آتا تھا ۔کبھی انھیں نماز چھوڑتے نہ دیکھا تھا۔
’’ سنا ہے آپ کا بیٹا باہر ملک جا رہا ہے روزی روٹی کی خاطر“۔
آج انھوں نے پراٹھے بناتے ہوئے ہاتھوں کو باقاعدہ روک کر پوچھا تو میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
”جی ہاں بابو بھائی، رکھا کیا ہے اس ملک میں جی …نہ نوکری نہ تعلیم ڈھنگ کی، آخر بہترین مستقبل کے لیے بیرون ملک تو جانا ہی پڑے گا ، بڑی مشکل سے میں نے پائی پائی جمع کی ہے اپنا آبائی گھر بیچ کر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں منتقل ہو گیا ہوں کہ بس اس کا مستقبل سنور جائے“…

مزید پڑھیں

لمبی ہے غم کی شام مگر… – نادیہ سیف

جب اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف اندھیرا تھا۔اس نے بے ہوشی سے پہلے کا منظر یاد کرنے کی کوشش کی۔اچانک ہلکی ہلکی تلاوت کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی جو غورکرنے پر اسے اپنے بالکل نیچے کی طرف سے آتی محسوس ہوئی۔
’’ کیا ہم شہید ہو کر اجتماعی قبر میں ہیں؟‘‘
’’ شہید بے شک زندہ ہوتے ہیں لیکن ابھی ہمارے حصے کا کچھ کام باقی ہے‘‘۔
حمدان کی آواز نے اسے سب کچھ یاد دلا دیا، کیسے وہ ہاسپٹل میں لائے جانے والے مریضوں اور زخمی بچوں کی وڈیوز بنا رہا تھا کہ اسی دوران قریب ہی ہونے والےدھماکے کے بعد ہونے والی افرا تفری میں حمدان اور وہ تیزی کے ساتھ بھاگنے لگے،عمارتیں گرتی جارہی تھیں۔ جانے کب ڈھیتی ہوئی چھتوں سے بچتے بچاتے،بھاگتے آخر وہ بھی زد میں آ ہی گئےاور انہوں نے اپنے ہوش گنوا دیے۔
’’حمدان….حمدان…. تم ٹھیک ہو؟‘‘
’’ہاں شاید….ابھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا‘‘۔
اوہ میرا کیمرہ ۔
اس نے جلدی سے اپنی کمر اور کندھے کے گرد بیلٹ کو ٹٹولا اور الحمدللہ کہہ کر بڑی کوشش کے بعد خود کو سیدھا کیا۔ جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کرتے ہی اسے ارد گرد کا منظر واضح نظر آنے لگا۔ ایسا لگتا تھا کہ ملبے کا…

مزید پڑھیں

قدرت – حمیرا بنت فرید

نقاہت زدہ وجود میں تھوڑی سی حرارت وقوت محسوس ہونے پر اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔
’’ممی ابھی لیٹی رہیں‘‘، لائبہ نے گرم سوپ کا آخری چمچہ ان کے منہ میں دیتے ہوئے کہا۔
’’الحمدللہ اب تو طبیعت کافی بہتر محسوس ہو رہی ہے بیٹا‘‘، نازیہ نے کہا۔
’’اللّہ کا شکر احسان ہے۔ میرا خیال ہے آپ تھوڑی دیر سو جائیں، پھر عصر تک اٹھ جائیے گا‘‘،لائبہ ان کا کمبل درست کرتے ہوئے بولی’’میں بھی اتنی دیر اپنا اسائنمنٹ پورا کر لوں‘‘لائبہ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تو نازیہ نے مسکرا کر جیسے اسے اجازت دی۔
ایک ہفتے کی علالت کے بعد وہ رات کو ہی ہسپتال سے گھر آئی تھیں لیکن شدید کمزوری نے انہیں اٹھنے بیٹھنے سے بھی مجبور کیا ہؤا تھا۔ اس عرصے میں لائبہ نے جس جانفشانی سے دن رات ان کی خدمت کی تھی، وہ اس کی احسان مند تھیں۔ ان کے کھلانے ، پلانے، دوائی اور دوسری ضروریات کا لائبہ نے ہی خیال کیا تھا تب جا کے ان کی طبیعت میں ٹھہراؤ آیا تھا۔
لیٹے لیٹے نازیہ کچھ اکتا سی گئی تھیں، انھوں نے اپنے کمزور و ناتواں جسم کو کھینچتے ہوئے بیٹھنے کی کوشش کی۔ دکھتی کمر کو بستر کا سہارا دیتے ہوئے انہوں نے اپنا…

مزید پڑھیں

آخری دستک – عشرت زاہد

وہ کراچی کا ایک گنجان آباد علاقہ تھا۔
چھوٹی چھوٹی گلیوں پر مشتمل درمیانے طبقے کی آبادی تھی۔ انہیں میں سے ایک گھرانہ فوزیہ کا تھا۔
’’چلو آ جائو، جلدی سے سب لوگ ناشتہ کر لو۔ پھر کہیں گے چائے ٹھنڈی ہو گئی‘‘فوزیہ کی اماں نے روز کی طرح صدا لگائی۔
یہ ناشتہ صرف دو چیزوں پر مشتمل ہوتا۔ کبھی کبھار اگر رات کا سالن بچا ہؤا ہو تو اور بات ہوتی۔ ورنہ پتیلی بھر چائے میں اماں ایک پاؤ دودھ ڈال کر ابال دیتیں جو دوسری مرتبہ گرم ہو جائے تو مزید گہرے رنگ کی ہو جاتی۔ اس کے ساتھ اماں کے ہاتھ کے پراٹھے۔ ہاں پراٹھوں پر اماں کبھی سمجھوتا نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صبح کا ناشتہ پیٹ بھر کھا کر ہی گھر سے باہر نکلنا چاہیے، تبھی بندہ دن بھر توانا رہتا ہے۔ وہ گرما گرم سرخ اور خستہ پراٹھے بناتیں جن کو چائے سے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا۔ ایسے میں اس پتلی اور گہرے رنگ والی چائے کی کلفت بھی دور ہو جاتی۔
فوزیہ کے ابو کسی سبزی والے آڑھتی کے پاس نوکر تھے۔ اس لیے انہیں صبح تڑکے ہی سبزی منڈی جانا پڑتا۔ اور جب شام میں واپسی ہوتی تو کوئی سبزی ساتھ…

مزید پڑھیں

نصیب – ام ایمان

علیزے کی چلبلاہت پورے خاندان میں مشہور تھی ۔ شوخ چنچل ہنسنے مسکرانے والی بات بات پر چٹکلے چھوڑتی ساری سہیلیاں اور چچا زاد خالہ زاد اس پر فدا اور وہ ان پر فدا ۔ جس محفل میں ہوتی باتوں کی آوازیں اور ہنسی بتادیتی کہ علیزے یہاںموجود ہے۔
کالج میں بھی سب کی سہیلی تھی اساتذہ کو بھی اس کا نام اور کام خوب پتہ تھے ۔ چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے سب کو ہنسنے مسکرانے پر مجبور کر دیتی ۔ ابھی انٹر کا رزلٹ نہیں آیا تھا کہ اسے کھونٹے سے باندھنے کا بندو بست ہو گیا ، لڑکے کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ وہ پڑھا لکھا اور بھاری تنخواہ والا تھا ۔ دوسری دو بڑی خوبیاں علاوہ تھیں کہ مناسب عمر اور اکیلا … والدین دور… سب کی نظر میں تو جیسے علیزے کی لاٹری نکل آئی۔
جھٹ پٹ رشتہ طے ہؤا ۔ والدین رخصتی کے لیے مقررہ تاریخ سے پہلے آگئے ۔ تصویر دیکھ کر پہلے ہی خوشی سے حامی بھر لی تھی ۔ سارے خاندان والے علیزے کی قسمت کے گن گا رہے تھے ۔ رخصتی کی تاریخ اتنی جلدی آگئی یہ کوئی علیزے سے پوچھے ۔ یونیورسٹی جانے کا خواب لیے علیزے پیا دیس سدھار…

مزید پڑھیں

علامتی افسانہ – آخری چراغ – عبد الرحمان

گئے وقت کے کسی لمحے میں فلک سے دو قطرے زمین پر برسے اور صدیوں سے سوئے ہوئے براعظم جاگ اٹھے۔ مگر یہ دونوں قطرے مختلف سمت میں ایک دوسرے سے کئی میلوں دور گرے۔ اور ایک دوسرے کو پانے کی کھوج میں نکل پڑے۔ یعنی وجود کی زندگی ایک تلاش ہے۔ مزار کی سیڑھیوں سے اتر کر کچھ فاصلے پر نظر آنے والی ساحلی پٹی کی طرف جاتے ہوئے میرا ذہن کا ئنات کے اسرار ورموز جاننے کی سوچوں میں مگن تھا۔ رات گہری ہو رہی تھی۔ ساحل پر سیر کو آئے لوگ گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ سمندر سے لہروں کا شور بدستور اٹھ رہا تھا۔ دن بھر کی دھوپ سہنے اور تھکاوٹ کے باوجو دافق پر چمکتے ہوئے چاند نے ان کا سکوت چھین لیا تھا۔ بھنور سے لے کر ساحل اور دوبارہساحل سے لے کر گرداب تک ان لہروں کا سفر بھی کسی کی تلاش میں ہی ہوتا ہوگا۔
’’تلاش کا سفر بہت لمبا اور کٹھن ہے مگر پھر بھی یہ طے ہو ہی جاتا ہے۔ مگر کیسے؟ وہ کونسی چیز ہے جو انسان کو راستے کے پتھروں سے ٹکرا کر گرنے کے بعد اٹھنے کا حوصلہ دیتی ہے؟ کچھ تو ہے ‘‘۔ ساحل کنارے چلتے ہوئے…

مزید پڑھیں

مقناطیس – عینی عرفان

’’ٹین ڈبے والا، بھوسی ٹکڑے والا، ردی والا، کباڑ والا‘‘۔
جون کے وسط کا سورج سوا نیزے پہ نہ تھا مگر اس کی تپتی شعاعیں کسی انی کی طرح جسم کے آر پار ہورہی تھیں۔ کنپٹی سے رستا پسینہ اور تر بتر گریبان اس کی مشقت کے گواہ تھے۔ وہ خستہ حال ہوائی چپل اور ابا کے بوسیدہ، پیوند زدہ کتھئی شلوار قمیض میں ملبوس اس پوش علاقے میں صبح سے اپنا ٹھیلا گھسیٹتا چلا جارہا تھا۔ ان علاقوں میں اس کے دوچار اچھے گاہک لگ جاتے تو اس کا کافی فائدہ ہوجاتا ورنہ گلی محلوں میں تو چند لوگ فقط بھوسی ٹکڑے ہی بیچنے آتے کہ زیادہ کوئی کباڑ ان کے گھروں سے نہ نکلتا یا شاید دل سے ہی نہ اترتا تھا۔ تمام بیکار چیزوں کو یہ سوچ کے سنبھال لیتے کہ شاید کبھی نہ کبھی کام آجائے۔ پھپھوند زدہ روٹی بیچتے بھی یوں دام طے کرنے میں چک چک کرتے گویا کوئی خزانہ ہو۔ روٹی کے انمول ہونے میں اسے کوئی شک نہیں تھا۔ وہ روٹی کی قیمت سمجھتا تھا۔ یہ روٹی ہی تو تھی جو سترہ سال کے فیقے کو یوں در بدر پھراتی تھی۔
ہسپتال کے پرچے میں جانے ماں نے اس کا نام توفیق لکھوایا تھا…

مزید پڑھیں

کچھ خلاہے کہیں – قانتہ رابعہ

صبغہ اکلوتی بیٹی ،نہ بہت ذہین فطین کہ اس کے فرمودات سوشل میڈیا کی ہر دو منٹ کے بعد زینت بنیں، نہ ہی اتنی بے وقوف کہ روٹی کو چوچی کہے!
اسی طرح پڑھنے میں بھی درمیانی ،نہ کتابی کیڑا نہ رٹو طوطا۔
کم عمری میں شادی ہوئی، پڑھائی کے دوران نکاح ہؤا اور چار چھ ماہ کے بعد پڑھائی کے دوران ہی شادی ہوگئی ۔صبغہ اشرف ،پہلوٹھی کی اولاد ابھی تو ماں باپ کے چائو لاڈ بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ میاں کو پیاری ہوگئی۔عمر اتنی کم تھی کہ ابھی دنیا کے بارے معلوم تھا نہ دنیا والوں کے۔ایک مرتبہ دور پار کی چچی زلیخا ملنے کے لیے آئیں تو لمبے سفر کی تھکاوٹ سے انہیں بخار سا محسوس ہؤا اور سارا جسم درد کرنے لگا ۔
امی نے صبغہ سے کہا ’’میری میز کی دراز سے پیناڈول اور فریج سے پانی کی بوتل لے آئو‘‘۔
چند لمحوں کے بعد صبغہ بی بی تشریف لائیں تو پلیٹ میں پانی کا گلاس اور چمچ کے ساتھ چھوٹے بھائی بہزاد کو دیا جانے والا سیرپ پیناڈول رکھا ہؤا تھا!
امی تو بیٹی کی حرکت پر خود ہی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتی رہیں لیکن چچی زلیخا بہت حیرت سے دونوں کو دیکھ رہی تھیں…

مزید پڑھیں

خاص مضمون – محصور فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم کی مذہبی بنیادیں – ڈاکٹرحافظ محمد ثانی

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کی اصلاح کی سب سے زیادہ امید اس قوم سے کی جا سکتی ہے ، جو حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد میں سب سے پہلے وحی الٰہی کی امانت دار بنی، اسی لیے قرآن نے ان سے کہا : وَلَا تَکُوْ نُوْ ا اَوّلَ کَافِرِ بِہٖ( البقرہ /۴۱)اور سب سے پہلے تم ہی پیغام ِ الٰہی کے منکرنہ بنو ، مگر یہ قوم سخت جان ہونے کے ساتھ ساتھ سخت دل بھی ثابت ہوئی ۔ اس نے مختلف زمانوں میں اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا، انہیں تکلیفیںدیں ، بلکہ قتل تک کر ڈالا، حضرت موسیٰ ؑاور ان کے بعد کوئی پیغمبر ایسانہ ہوگا ، جس نے ان کی سنگ دلی کا ماتم نہ کیا ہو اور ان کی سر کشی پر ان کے حق میں بد دعا نہ کی ہو ۔ ان کی سر کشی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے انبیاء کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا ۔قرآن کریم کا بیان ہے :
’’ اور وہ نا حق پیغمبروں کو قتل کر تے ہیں ، اس لیے کہ وہ نا فرمان اور حد سے بڑھنے والے ہیں‘‘ ۔(البقرہ۶۱)
’’ سورہ آل عمران ‘‘ میں اس سے بھی بڑھ کر…

مزید پڑھیں

قولِ نبیؐ – مہمان اورپڑوسی کے حقوق – سید محمود حسن

رسولؐ نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخر ت پر ایمان رکھتا ہؤا اسے اپنے مہمان کا احترام کرنا چاہیے ایک دن رات تو عمدہ اور بہتر کھانے سے اس کی خاطر داری کرنی چاہیے ، مہمان تین دن تک ہے اس کے بعد بھی اگر مہمان کھانا کھتا رہے تو وہ میزبان کی طرف سے صدقہ خیرات ہے مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنےمیزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے ۔(بخاری)
مہمان کا احترام کرنے کے معنی یہ ہیں کہ میزبان ،
ث خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرے۔
ث جہاں تک ہو سکے اسے راحت اور سکون دینے کی کوشش کرے۔
ث اس کی عزت نفس کو مجروح نہ کرے ۔
ثاس کی دلآزاری اور تحقیر سے پرہیز کرے۔
پہلے دن تو میزبان کو اپنی استطاعت کے مطابق نہایت عمدہ اور پر تکلف کھانے سے اپنے مہمان کی تواضع کرنی چاہیے دوسرے اور تیسرے دن اسےوہ کھانا کھلائے جوگھرمیں تیارہوتا ہے ۔ جوشخص تین دن تک کسی کے یہاں ٹھہرتا ہے اور اس کے گھر سے کھانا کھاتا ہے وہ اس کا مہمان ہے اور اپنے میزبان سے دعوت کھاتا ہے ۔
رہا وہ شخص جو تین دن کے بعد بھی اپنے میزبان کے پاس رہتا ہے…

مزید پڑھیں

غذا و صحت – چھوٹے بچے کی غذا – ڈاکٹر ناعمہ شیرازی

ماں کا دودھ بچے کے لیے بہترین غذا ہے ۔ لیکن جب بچہ چار سے پانچ ماہ کا ہو جاتا ہے تو صرف ماں کا دودھ اس کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتا ۔ چنانچہ اس کی غذا میں دوسری چیزوں کا اضافہ کرنا پڑتا ہے ۔
بہت سی مختلف چیزیں بچے کو کھانے کے لیے دی جا سکتی ہے ۔ اچھی صحت کے لیے ضروری ہے کہ بچے ہر قسم کی خوراک کھائیں ۔ اکثر چیزیں موسمی ہوتی ہیں ۔ سال کے کچھ حصوں میں وہ نہ تو خریدی جا سکتی ہیں اور نہ ہی اُگائی جا سکتی ہیں ۔ اس وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ یا کمی ہوتی رہتی ہے ۔ اس کے علاوہ خوراک کی قیمتیں موسم اور اس کے ملنے اور اس کی ضرورت کے مطابق اور نیچے ہوتی رہتی ہیں یہ ضروری نہیں کہ بچے کو صرف مہنگی اورخاص خوراک ہی کھلائی جائے ۔ اگر عام اور سستی خوراک بچے کو صحیح طریقے سے کھلائی جائے تو وہ بھی اتنی ہی اچھی ہوتی ہے جتنی کہ مہنگی خوراک اچھی ہوتی ہے ۔
بچے کی ٹھوس غذا کے بارے میں کچھ ضروری باتیں یہ ہیں ۔
(۱) بچے کو چھ ماہ کی عمر میں ٹھوس غذا کھلانی…

مزید پڑھیں

خفتگانِ خاک – خالی ہاتھ – بنتِ سحر

اصل رونق تو دو بوڑھے وجود تھے جن کے دم سے زندگی ہنستی تھی!
 
دسمبر شروع ہے۔ ہڈیوں میں گھستی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگی ہیں۔ شاعر لوگ دسمبر کو اداس کہتے ہیں ، ہم شد و مد سے اس تصور کی نفی کر دیا کرتے تھے۔ جب تک کہ امی جی (نانی امی) کا گرم نرم محبت میں پور پور بھیگا وجود دسمبر کی ایک سرد ٹھٹھرتی سہہ پہر ساکت جامد پڑا نہ دیکھا تھا۔
نجانے کس احساس کے تحت میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کا چہرہ چھو لیا ، مگر اس سے پہلے ہاتھ رگڑ کر گرم کرنا نہ بھولی ۔ اب خیال آتا ہے کہ تب یہ نہ سوچا کہ بھلا اب گرم سرد کہاں کچھ کہے گا!چھو کر دیکھ بھی لیا تو زندگی کی کوئی رمق نہ اس چہرے پر نظر آئی ،نہ ہمیں دیکھ دیکھ پیار چھلکاتی آنکھیں ہی وا ہوئیں۔ کرب سے آنکھیں میچ کر آنسوؤں کو راستہ دیتے دھیرے سے ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
کبھی کبھی ہاتھ بالکل ہی خالی لوٹ آتے ہیں۔ اور ہم وقت کی تمسخر اڑاتی ہنسی سے بچنے کے لیے مٹھی زور سے بند کر کے خالی ہاتھ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وقت کے ساتھ گھر میں کئی تبدیلیاں ہو گئیں۔ وہ…

مزید پڑھیں

انتظار – اسماء صدیقہ

درد کی رفاقت میں بے طرح کی شدت ہے
بے کسی کے ہاتھوں میں چیختی ہے تنہائی
منتظر زمانوں میں مضطرب فسانوں میں
وحشتوں کے پہرے ہیں اور بہت ہی گہرے ہیں
جسم وجاں بھی گھائل ہیں،یاسیت پہ مائل ہیں
دل کشی کے منظر بھی ہرقدم پہ زائل ہیں
بے حسی کے نرغے میں بے بسی کے قبضے میں
یہ خیال چبھتاہے ،اک سوال اٹھتا ہے
دکھ کو سکھ میں آنے تک،زہرکتنا پینا ہے
کتنا جی کے مرنا ہے کتنا کرکے جینا ہے
بے کراں سے جنگل کے اک سفر کے سنگم پہ
دہشتوں کے سناٹے راستوں میں حائل ہیں
کیسی نارسائی ہے ،قید یا رہائی ہے
قسمتوں کے پھیرے میں کیسی کج ادائی ہے
اس عذابِ پیہم سےمل سکے گا کیوں کر پھر
راستہ خلاصی کا
منصفی کے چرچے میں واسطہ ثلاثی کا
غفلتوں کی شدت جب جرم بن کے چھاجائے
دہشتوں کی جدت جب ظلم بن کے آ جائے
بےحسی وقلّت سے کیسے ہو مسیحائی
وقت کتنا گزرا ہے ،اور کتنا گزرے گا
قید سے نکلنے میں ،بیڑیوں کے کٹنے میں
بےحسی کے مٹنے میں ،بےبسی کے کٹنے میں

مزید پڑھیں

غزل – حبیبؔ الرحمٰن

اے کاش جرمِ معاصی پہ اتنا رولوں میں
جو داغ دامنِ دل پر لگے ہیں دھولوں میں
تمام عمر ہی گزری اسی کشاکش میں
وہ پہلے پہل کرےگاکہ پہلے بولوں میں
کسی کے دل کو کوئی ٹھیس کیسے پہنچے گی
ہر ایک بات جو کہنے سے پہلے تولوں میں
اک اور رنگ کی دنیا ہو سامنے، آنکھیں
جو بند کرکے کبھی دل کی آنکھیں کھولوں میں
سبب ہے کیا سبھی مجھ سے کھچے کھچے کیوں ہیں
کبھی اکیلے میں خود کو ذرا ٹٹولوں میں
نہ کٹ سکیں گے اکیلے یہ عمر کے رستے
نہ دے جو ساتھ کوئی، ساتھ اپنے ہولوں میں
میں جھوٹ، جھوٹ کو اور سچ کو سچ ہی کہہ کہہ کر
کیوں زندگی کے فسانے میں زہر گھولوں میں
جہاں بھی سچ پہ زبانوں کو کاٹا جاتا ہو
وہیں تو فرض ہے مجھ پر کہ سچ ہی بولوں میں
جو اہلِ بیت سے نسبت اگر نہ ہو مجھ کو
تو شہرِ علم کا دروازہ کیسے کھولوں میں
جو شب گزار کے لوٹا ہو، گھر کا دروازہ
تو ایسے صبح کے بھولے پہ کیسے کھولوں میں
کبھی لگے نہ زمانے کی بد نظر، سر سے
حبیب بڑھ کے تمہارے بلائیں تو لوں میں

مزید پڑھیں

ابتدا تیرے نام سے – صائمہ اسما

قارئین کرام سلام مسنون! غزہ میں زمینی جنگ جاری ہے اور مزاحمت کی قوتیں اس بے جگری سے لڑ رہی ہیں کہ قابض فوج کواپنی کامیابی کا وہم تک نہیں ہونے دیا۔ شہریوں کے قتل عام پردنیا میں احتجاج کا دائرہ اس قدر وسیع ہوگیا ہے کہ بعض ممالک میں ان کی تاریخ کے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں۔تازہ معرکے میں فلسطینیوں نے جانیں دے کر نئے سرے سے اپنا مقدمہ بطور مقبوضہ محصور آبادی دنیا کے سامنےپوری قوت سے پیش کیا ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کی حمایت تاریخ کی نچلی ترین سطح پر آگئی ہے۔اس مقام پر اگر عرب ممالک ذرا سی بھی حمیت دکھائیں اور مسلم دنیا کو ساتھ ملائیں تو فلسطین کی آزادی کچھ بھی دور نہیں،مگر افسوس ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھی مہینےبھر سے اسلام آباد میں دھرنا دیےاحتجاج کررہے ہیں۔ان کے لانگ مارچ پر اسلام آباد میں داخل ہونے پر لاٹھی چارج کیا گیا،راستہ روکا گیا اور شہر سے باہر دھکیلنے کی کوشش کی گئی مگرسوشل میڈیا پر بات اتنی پھیل گئی کہ اتھارٹیز کے لیے مشکل پیدا ہوگئی۔ ان کا مطالبہ ان کے غائب کیے گئے افراد کی بازیابی ہے ۔ بہت عرصے سے بلوچستان…

مزید پڑھیں

دوسرا اورآخری حصہ – دعا عبادت کا مغز – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ کی اللہ تعالیٰ سے دعائیں افراد کے لیے بھی ہیں، قوم اور نسل کے لیے بھی ہیں اور معزز اور محترم شہر کے لیے بھی۔آپؑ کی زندگی اہلِ ایمان کے لیے بہترین اسوہ ہے۔ کافر باپ کے لیے دعا کا وعدہ کیا لیکن جب معلوم ہو گیا کہ وہ تو دشمن ِ خدا ہے تو اس سے بھی رک گئے۔ حضرت ابرائیمؑ نے مکہ شہر کے لیے دعا ئے امن کی تھی، اور اولاد کو بت پرستی سے بچانے کی:
’’پروردگار اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا‘‘۔ (ابراہیم،۳۵)
یہ وہ انعامات ہیں جو اللہ نے انھیں دیے تھے اور وہ ان کا دوام مانگ رہے ہیں۔فرمایا:
’’پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصّے کو تیرے محترم گھر کے قریب لا بسایا ہے۔ پروردگار! یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز ادا کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انھیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں‘‘۔ (ابراہیم،۳۷)
اس دعا میں کس قدر رقت ہے اور فضا میں کس قدر سرور ہے، دل میں کتنا گداز پیدا…

مزید پڑھیں