دن بھر بجلی بند رہی ۔شدید قسم کے حبس اور گھٹن میں پندرہ لوگوں کا کھانا اس نے حقیقی خدا سے دعا مانگتے ہوئے اور مجازی خدا سے ڈرتے ہوئے بنایا ۔
فریزر سے ٹھنڈے یخ پانی کی بوتل نکال کے پاس رکھ لی تھی جب بھی دم گھٹنے لگتا پسینہ سے حالت خراب ہوتی غٹ غٹ کر کے بوتل خالی کر جاتی ۔
میاں کو بس ایک ہی شوق تھا یار بیلی جمع ہوں اور کھانا پینا ۔تاش کھیلے جائیں شطرنج کی بازی لگے کیرم بھی بہت عالی شان قسم کا بنوا کے رکھا ہؤا تھا کیرم بورڈ کی باری بھی آہی جاتی ۔ان سب کے ساتھ لڈو تو ویسے ہی تانیث کے صیغے میں محبوب بلکہ محبوبہ تھی ۔
کس بل سارے حرا کے نکلتے ،شاید نام کا اثر ہوگیا،سال کے بارہ میں سے گیارہ مہینے چولھے کی حرارت ہی سے فیضیاب ہوتی۔اب بھی کھانا بھجوا کے باورچی خانے کا پھیلاوہ سمیٹ کر نہانے کے لیے گئی۔خوب اچھی طرح نہا دھو کے باہر نکلی تو پنکھے کی ہوا میں آنکھیں خود بخود بند ہوتی چلی گئیں۔
دس ایک سیکنڈ کی نیند بھی نہ لی ہوگی کہ عروہ دھم سے اس کے اوپر سوار ہو گئی ۔
’’ماما جی ماما جی بھائی مجھے مارتے…
کرونا سے ڈرنا نہیںگھبرانا نہیں۔نزلہ زکام کھانسی کی قسم کو اب کرونا کہتے ہیں۔جو کرونا سے ڈرا وہ بھی پھنس کر شکارہؤااور جو ہنسی مذاق اڑاتا رہا وہ بھی کرونائی بنا ۔
آپ مبالغہ مت جانیے، تیس جمع تیس یعنی ساٹھ دن جو کرونا سے ڈر کر گھروں میں قید رہے ،سینی ٹائزر اور ماسک کو حفاظتی ضمانت سمجھتے رہے وہ محض کھڑکی سے باہر جھانکنے پر ہسپتال منتقل ہوئے۔
فلاںپرنسپل مرگیا، فلاں ہسپتال میں بیڈ ختم ہوگئے، وینٹی لیٹر منگوانا چاہئیں……
جیسے جملوں میں ذوالحج کے بعد اور ربیع الاوّل سے پہلے والے مہینے میں بالآخر کرونا نے بریک لیا ۔کرونا کے وقفے کی دیر تھی کہ جو پانچ چھ ماہ سروں پر چڑھ کے ناچتا تھا اب ایک دم ہی ذہنوں سے محو ہوگیا۔ کون سا کرونا اور کیسا کرونا! گرمیوں میں ہر سال دو سال بعد ٹائیفائڈ ہوتا ہے علامات بھی اسی کی تھیں اس لیے وجہ اور دھیان ٹائیفائڈ کی طرف ہی رہا ۔علاج معالجے کے باوجود حیرت اس بات پر تھی کہ کرونا کیا آیا ساری بیماریوں نے رنگ ڈھنگ بدل لیے۔عجیب واہیات قسم کا ٹائیفائڈ کہ دودن بخار میں سڑتے مرتے گزرتے، توبہ تائب ہوتے کچھ رجوع الی اللہ کا دھیان ہوتا ،اگلے چار دن اس طرح…
منیرہ کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں۔بڑی بیٹی ایمن سلیم ، اس سے دو سال چھوٹا طاہر سلیم پھر انعم سلیم۔
کہنے کو دونوں بیٹیوں میں ساڑھے تین سال کا فرق تھا مگر عادتوں اور مزاج میں مشرق مغرب کا فاصلہ۔
بڑی والی ایک نرم سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے رکھتی، ملنسار اور بامروت ، تو چھوٹی والی موڈی،بات بات پر بدکنے والی…… موڈ اچھا ہے تو سات پرائے بھی اپنے ہوجاتے اور اگر مزاج برہم ہے تو اپنے بھی سوا نیزے پر ٹنگے رہتے۔
ایک کو مٹر پلائو میں مٹرپسند تھے اور چن چن کر چاولوں میں سے مٹر نکال کے کھاتی تو دوسری کو مٹر کی شکل سے بھی نفرت تھی ۔وہ بھی چاولوں میں سے چن چن کے مٹر نکالتی مگر پھینکنے کے لیے۔
ایک کو بن سنور کے رہنے کا شوق تھا تو دوسری کو اول جلول حلیہ میں رہنا اچھا لگتا ۔
ایک گھر میں سب کے کام بھاگ بھا گ کے کرتی تو دوسری سب کو بھگاے رکھتی۔ یہی حال پہننے اوڑھنے میں تھا ۔ایک فیشن کے مطابق چلتی دوسری سدا ایک ہی لمبی قمیص اور کھلے پاجامے میںایک کا نام گھر والوں نے راج ہنس اور دوسری کا جل ککڑی رکھا ہوا تھا۔
منیرہ نے دونوں کی تربیت…
شادی سے پہلے تو سب لڑکیوں کی زندگی ہی عیش کی ہوتی ہے مگر ماہا کی تو موج مستی کی دنیا تھی ۔ابا دوبئی میں مقیم تھے ۔اماں بہن بھائیوں،نندوں دیوروں میں سب سے بڑے بھائی کی بیوی ۔یعنی اماں اپنے میکہ میں سب سے بڑی اولاد اور ابا اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی اولاد۔آپ کہہ سکتے ہیں رب نے ملائی جوڑی ۔
نہ نہ آگے کچھ مت کہیے ……اماں ابا دونوں ہی بڑے ذمہ دار قسم کے انسان تھے ۔اماں نے سسرال میں آتے ہی نئی نئی مرحومہ ساس کی جگہ اتنی عمدگی سے لی کہ سبھی عش عش کر اٹھے۔
یوں ابا کے دوبئی جانے کے بعد ابا کی ذمہ داریاں بھی ان کے سر پر آن پڑیں ۔پیر کو سودا سلف لاتیں، منگل کو کپڑوں کی دھلائی کا کام ، انہیں الگنی پر اتنی خوبصورتی اور عمدگی سے پھیلاتیں اور اتار کر تہہ لگاتیں کہ استری کرنے کی کم کم ہی نوبت آتی۔
بدھ کم سدھ ۔یوں بڑے کاموں کی تکمیل بروز بدھ جمعرات کے دن وہ باورچی خانے کی نذر کرتیں ۔سمجھیں لنگر ہی بناتیں محلے میں اور اریب قریب کے رشتہ داروں میں بھیجتیں خواہ دال چاول ہی کیوں نہ ہوں۔
جمعہ بہت اہتمام سے ،مرد گھر…
بات بات پر لڑائی اور تلخ مزاجی نے گھر کے ماحول کو میدان جنگ بنا دیا تھا ۔عیشہ ابھی تک نہیں سمجھ پائی تھی کہ گھر کے کس فرد کا موڈ کس بات پر خراب ہو سکتا ہے۔درگزر کرنے پر آئیں تو جلی ہوئی شرٹ، ٹوٹے بٹن ،تیز نمک، جلی روٹی بھی معاف۔پکڑنے پر آئیں تو دروازے پر دو مرتبہ گھنٹی کیوں بجنے دی ،پہلی مرتبہ ہی دروازہ کیوں نہ کھولا پر پچیس پچیس منٹ تند و تیز جملے ، طعن و تشنیع اور کچوکے مار مار کر ہی بندہ پھڑکا دو ۔
تعریف کرنے پر آئیں گے تو پھیکی دال پر بہو کو پانچ سو روپیہ انعام میں دے دیں گے اور نہ کرنی ہو تو شاہی دال ،مرغ مسلم بھی ایسے چپ چپاتے کھا کر اٹھ جائیں گے جیسے مریض پھیکا سیٹھا کھانا کھاتا ہے۔بولنے پر آئیں تو درودیوار سے بھی بولنے کی آوازیں سنائی دیں اور چپ شاہ کا روزہ رکھیں تو برتنوں کی کھنک بھی بے معنی ۔
اور بچے تو بچے ہوتے ہیں ،چچازاد تایا زاد اور اکثر تو پھپھو زاد بھی ادھر ہی پائے جاتے!
لڑائی بھڑائی کہاں نہیں ہوتی ؟ انور صاحب کے ہاں بھی ہوتی تھی خود ہی لڑ تے اور خود ہی صلح صفائی…
بچے بہت کیوٹ ،ہوتے ہیں بہت شرارتیں کرتے ہیں بہت بھولے بھالے ہوتے ہیں لیکن اپنے نہیں اوروں کے ……اپنے بچوں کی تو پیدائش کا یاد رہتا ہے ، باقی کب بڑے ہوئے،کب کیا ہؤا سب کچھ اپنی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ان کی تعمیری ،تفریحی اور تخریبی سرگرمیاں سب دوسروں کو یاد رہتی ہیں خود ماں باپ کو نہیں……اور اگر جوائنٹ فیملی ہو تو سبحان اللہ،، اللہ بچے تو دیتا ہے مگر بچوں کے بچپن سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہونے کا سوچتے سوچتے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب بچپن کی حدود سے نکل کر لڑکپن اور پھر نئی زندگی کے میدان میں بھی داخل ہوجاتے ہیں!
یہ تو قدرت نے ہی ایسے مٹھاس بھرے رشتے دے دیے کہ جب بچوں کے بچے پیدا ہوتے ہیں تو پھر ان کے بچپن سے صرف لطف اندوز ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کی بھولی معصوم اداؤں پر صدقے واری جاتے ہیں ۔مثال کے طور پر ہمارے نواسے نواسیاں!
مومنہ محسنہ کی تائی ساس کا انتقال ہوگیا تو افسوس بلکہ تعزیت کے لیے جانا ہوا۔ افسوس تو جدائی کاہوتا ہے لیکن جدا ہونے والے کی زندگی اللہ کی بندگی میں گزری ہو تو یہ جدائی تعزیت اور ایصال…
پہلی مرتبہ اسے کلاس ہفتم میں پتہ چلا کہ اس کے اندر لکھنے کی صلاحیت موجود ہے ….. تھوڑی سی کوشش اور بہت زیادہ مطالعہ سے وہ بہت بڑی رائٹر بن سکتی ہے۔
مطالعہ کے نام پر اس نے سکول کی لائبریری سے بچوں کی کتب جاری کروائیں۔پڑوسیوں کے گھر آنے والا بچوں کا اخبار پڑھنا شروع کیا۔اخبار رسالوں سے آگے کی بھی ایک دنیا تھی۔ کوئی سودا سلف سموسے پکوڑے اخبار یا رسالے کے صفحات میں پیک ہو کر آتے تو وہ پڑھے بغیر ہاتھ سے نہ جانے دیتی۔آہستہ آہستہ سب کو اس کے شوق کا پتہ چل گیا اور عید بری عید پر پیسے دھیلے کے ساتھ کتاب یا رسالہ بھی عیدی میں دے کر سستے چھوٹ جاتے ۔کلاس ہفتم سے پشتم اور اس نے کلاس دہم بھی اچھے نمبروں سے پاس کر لی۔فراغت کے دنوں میں ایسے ہی رسالہ پڑھتے پڑھتے اس کے ذہن میں کہانی کا اچھوتا سا پلاٹ آیا…..تھوڑا سا جھجھک کر اس نے قلم کاغذ سنبھال ہی لیا …..کچھ لکھتی رہی کچھ کاٹتی رہی ۔لکھتے کاٹتے بیس پچیس منٹ گزر گئے۔ ورق پھاڑے کئی بڑے سے کراس سے برباد کیے ۔اس کے بعد بالآخر یکسوئی نصیب ہوئی اور اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ بچوں…
فلموں،ڈراموں کی طرح انیلہ کا رشتہ بھی اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی طے پا گیا تھا ۔رفیق ماموں نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا۔
’’آپا اگر بیٹا ہوا تواپنی مرضی سے فیصلہ کریں اور بیٹی ہوئی تو وہ میرے عتیق الرحمن کی دلہن بنے گی‘‘۔
رفیق ماموں کے اس فیصلے سے انہیں گنوار دیہاتی اور ان پڑھ مت جانیے ۔بھئی وہ تو جنوبی پنجاب کی ایک مشہور و معروف یونیورسٹی کے پرنسپل تھے …..جی پرنسپل!
واشنگٹن ٹاؤن کی ایک یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کر کے لوٹے تھے اور واپس آتے ہی انہیں یہ عہدہ پلیٹ میں رکھا مل گیا۔اور آپا بھی کوئی گھونگھٹ نکال کر کولہو کے بیل کی طرح گھر بار کی مشقت میں مصروف عورت نہیں تھیں، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے تین گولڈ میڈل حاصل کر کے اپنے علاقے کی واحد گائنا کالوجسٹ تھیں ۔بات تو ساری محبت کی تھی جو ان دونوں سگے بھائی اور بہن میں تھی۔سکول اکٹھےجاتے ،ہر بریک میں مل بیٹھتے،ایک ٹافی بھی ملکیت میں ہوتی تو آدھی آدھی تقسیم کر کے کھاتے،ٹی وی پر کارٹون ہوں یا اشتہار ،دونوں کی ایک ہی پسند تھی ۔رفیق اپنی پسند سے نہیں اپنی بہن زیتون بیگم کی پسند سے کپڑے پہنتا اور زیتون بیگم…
’’امی آسیہ آئی ہے بہت پریشان لگ رہی ہے‘‘ ،نازیہ کی بیٹی نے اندر کمرے میں بیٹھی ماں کو اطلاع دی۔
’’کون آسیہ؟ یہاں تو آسیہ نام کی درجن بھر جاننے والیاں ہیں‘‘۔ انہوں نے بیٹی کو جواب دیا ۔
’’اوہو…..امی کیا ہوگیا ہے ‘‘آسیہ ’شمیر کی بہن‘جو دو سال تک ہمارے ہاں کام کرتے رہے ہیں پھر دونوں اچانک کام چھوڑ کر غائب ہو گئے تھے ،نازیہ کی بیٹی سمیرہ نے کہا:
’’آسی آآآ…… وہ کیسے آگئے اچانک جب ہم سب بھول بھلا گئے ‘‘۔انہوں نے پاؤں میں چپل اڑستے ہوے کہا :
’’مجھے نہیں معلوم،خود پوچھ لیں جا کے ہر مرتبہ اس کی رنگ برنگی داستان ہی ہوتی ہے……کبھی ابا مر گیا کبھی اماں کی ٹانگ ٹوٹ گئی کبھی کچھ کبھی کچھ‘‘۔سمیرہ نے بیزاری سے کہا۔
آسیہ دروازے کے باہر رکھے سٹول پر بیٹھی تھی ۔چہرہ بجھا ہؤا ، ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئیں، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ،کہاں بارہ من کی دھوبن اور کہاں چوسے آم کی گٹھلی جیسا منہ اور سوکھی چمرخ ۔
’’آسیہ؟‘‘نازیہ بیگم پہلی نظر میں تو پہچان ہی نہیں پائیں ۔اگر سمیرہ نے اس کی آمد کی خبر نہ دی ہوتی تو شاید بالکل ہی نہ پہچان سکتیں۔
نازیہ بیگم کو دیکھ کر آسیہ کھڑی ہوگئی۔
’’سلام بی بی جی…
زبدہ بیاہ کے سسرال میں داخل ہوئی تو بہت سی چھوٹی چھوٹی خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ ماں کی ایک عادت جہیز میں لے کر آئی تھی۔
اسے کم گوئی کی عادت نہیں تھی بلکہ ضرورت کے وقت الفاظ منہ سے نکالنا سکھایا گیا ۔البتہ ضرورت نہ ہو تو وہ کئی کئی گھنٹے منہ بند ہی رکھتی تھی۔
شادی بخیر و عافیت ہوئی۔ کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے سونے جاگنے سے لے کر ہزار مسائل میں سسرال کا مزاج الگ ہی تھا ۔
زبدہ کی سلجھی فطرت ،اخلاق حسنہ اور دین سے شغف نے اس میں برداشت کا مادہ وافر مقدار میں پیدا کردیا تھا ۔مزاج تو سگی بہنوں کے بھی فرق ہوتے ہیں اس لیے وہ زیادہ پریشان نہیں بلکہ پر امید ہی تھی
شادی شدہ زندگی کو دس ہفتے گزرے تھے جب ساس نے بآواز بلند اس کا نام لے کر پکارا ۔
’’جی امی جان‘‘ ،وہ پل بھر میں تابعداری سے حاضر ہوئی ۔
’’مجھے پتہ چلاہے فروہ تمہاری رشتہ دار ہے ‘‘،انہوں نے سوال کیا تھا یا بتایا تھا زبدہ کو اندازہ نہیں ہو سکا۔
’’کون فروہ ؟‘‘ وہ سوچ میں پڑ گئی ۔
ساس کے منہ پر روز روشن کی طرح طنزیہ مسکراہٹ نے جھلک دکھلائی ۔
’’تمہارے بڑے بھائی کی سالی…..‘‘کچھ کچھ چبھتا سا…
قانتہ رابعہ۔گوجرہ
ماہ مارچ کا بتول ملا۔ لوگ جرعہ جرعہ کر کے زہر غم پیتے ہیں، ہم نقطہ نقطہ اور سطر سطر کرکے بتول کا مطالعہ کرتے ہیں۔
کھولتے ہی فہرست پر نظر ڈالی ،اداریہ دیکھا، نظریں بے تابی سے اس خبر کو ڈھونڈ رہی تھیں جو اہل قلم اہل ِعلم و دانش کے لیے بے حد خوشی کا باعث ہونا تھی اور جس کے لیے طویل صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے…..لیکن افسوس خبر نہیں تھی، نہ ہی سرورق پر یا اندر کے صفحات میں مدیرہ کے نام کی تختی میں ردو بدل کیا گیا تھا۔ ایک پرانی مگر معمولی سی مصنفہ بلکہ قاریہ ہونے کے ناطے مجھے احتجاج کا پورا حق ہے ۔لوگ اس سعادت کے لیے ترستے ہیں اللہ نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا شکر الحمد للّٰہ یہ اللہ کا فضل اور احسان ہے کہ بتول کی ادارت جیسے بھاری بھرکم اور مشقت طلب کام کے دوران آپ نے علم کی سکہ رائج الوقت سب سے بڑی سند حاصل کی۔ میں اپنی طرف سے اور سب قارئین کی طرف سے آپ کواور ماہنامہ چمن بتول کی ادارت کو مبارکباد پیش کرتی ہوں،بلا شبہ یہ میرے رب کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔لوگ تو ڈاکٹروں…
بقائمی ہوش و حواس بقلم خود یہ گواہی دینے کو تیار ہوں کہ آج مورخہ پانچ کہ جس کا نصف اڑھائی اور پنجاب زدگان کے لہجہ میں ڈھائی ہوتے ہیں تاریخ کو بتول کا نیا شمارہ موصول ہوا ۔اللہ نظر بد سے بچائے تحفظ آزادی کا دو ماہ یکجا رسالہ شائع ہونے کا یہ سب سے بڑا فائدہ تھا کہ رسالہ چودہ پندرہ سے جست لگا کر پانچ کی صبح مل گیا۔ ڈاکیہ پروفیسر صاحب کا جاننے والا اور راجپوت برادری سے تعلق رکھنے کی وجہ سے موصوف خاصے بے تکلف بھی ہیں اور اس کا بھگتان ہمیشہ پروفیسر صاحب کی نصف بہتر کو بھگتنا پڑتا ہے اور چار کو ملنے والا رسالہ پانچ ،چھے کو ملتا ہے۔ کبھی کبھار یہ بے تکلفی اتنے عروج کو پہنچتی ہے کہ ہفتہ بھر کی ڈاک جمع کر کے تھیلا بھر کر لاتے ہیں۔
خیر نیلی آسمانی رنگ کی زمین پر سفید گہرے گلابی ور لالو لال ادھ کھلے پھول کا سرورق بھی بہت پیارا لگا۔
سیرت پر ڈاکٹر مقبول احمد شاہد اور ڈاکٹر میمونہ حمزہ دونوں کے مضامین بہت اچھے اور عام فہم تھے۔افسانوی حصہ میں نئے ناول کی خبرہی نہیں پہلی قسط بھی موجود ہے ۔اک ستارہ تھی میں ،مجھے یہ پورا مصرع…
اتنا تو شہناز بیگم نے دو بیٹوں کے آنے ہر بھی خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا جتنا بیٹی کے آنے پر ،بیٹی کیا پیدا ہوئی جیسے سترہ سال کی کم سن بچی بن گئی ہو۔ لوگ باگ روتے ہیں کہ مائیں ساری توجہ بیٹوں کو دیتی ہیں ان کے نخرے اٹھاتی ہیں ان کو گھی کی چوری بنا بنا کے کھلاتی ہیں پر شہناز بیگم کے ہاں الٹ معاملہ ہؤا ۔جو پیار اور توجہ انہوں نے بڑی بیٹی سیماب کو دی اتنی تو ساری اولاد کو نہیں دی ۔
پیدا ہوئی تو ہر آئے گئے کے آگے مٹھائی کی پلیٹ رکھی، تاکید کر کر کے سب کو کھلاتیں۔ آپانویدہ کو شوگر کا موذی مرض لا حق تھا ان کو بصد اصرار گلاب جامن کھلائی ۔
اور آپا نویدہ کیا سارے منہ اٹھائے انہیں دیکھ رہے تھے ۔بیٹوں کی مرتبہ تو اتنا اصرار نہیں کیا تھا !
روز نئے کپڑے پہناتیں، آنکھوں میں بطور خاص بنوایا ہؤا کاجل ڈالتیں جو بادام کے چھلکے جلا کر کوری مٹی کے ڈھکن پر مکھن لگا کر بادام کے چھلکوں کے دھوئیں پر رکھ دیا جاتا دس بیس منٹ کے بعد ڈھکن اٹھایا جاتا تو چھلکے راکھ میں بدل چکے ہوتے تھے اور دھواں مکھن میں شامل…
ملازمت کا پہلا دن دونوں کے لیے حددرجہ خوش آئند تھا۔
دونوں نے ایک دوسرے کو پہلی مرتبہ ملازمت کے پہلے دن ہی دیکھا اور دونوں نے ایک دوسرے کو دل دے دیا۔
دونوں کو ایک ہی بنک میں ملازمت ملی تھی تو دونوں کے کاؤنٹر آمنے سامنے تھے۔
دونوں نے اتفاق سے نیلے اور کالے رنگ میں ڈیزائن کیے کپڑے پہنے تھے۔
ادیبہ کے مالی حالات محنت کے طلبگار تھے۔ باپ کا انتقال ہو چکا تھا تین چھوٹے بہن بھائی ان کی پڑھائی اور دیگر ڈھیر سارے اخراجا ت! اس کی تعلیم دوسرے صوبے کی یونیورسٹی میں مکمل ہوئی تھی اور دوران تعلیم ہی اسے پتہ چلا کہ اس کی بیوہ ماں کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو چکی ہے۔ یونیورسٹی میں رہتے ہوئے ادیبہ کے حلقہ دوستاں میں بہت سے طالب علم تھے، ان میں نامور سیاستدانوں کے بچے بھی تھے اور فلمی اداکاراؤں کے رشتہ دار بھی ،کھلاڑی بھی اور بیوپاری بھی ،الغرض ان کی صحبت میں شرمیلی سی ادیبہ گھاگ اور مہا چالاک بن چکی تھی۔ ماں کے لیے خیراتی ہسپتال میں علاج اور ان کے لیے خون کی وقتاً فوقتاً ضرورت پر درجنوں ڈونرز پلک جھپکنے میں مل جاتے لیکن افسوس قدرت کا لکھا کوئی مائی کا لال…
مسعود کی زندگی میں چند چیزوں کا خاص عمل دخل تھا۔ زمین ادھر سے ادھر ہو جائے لیکن اسے بس انہی چیزوں کی پروا تھی جن کا اس نے از خود اہتمام کر رکھا تھا۔
نمبر ایک، پیسہ ہی سب کچھ ہے ،پیسہ کمانے کے لیے جو بھی کر سکتے ہو جس سے جتنا مفاد لے سکتے ہو لے لو۔
نمبر دو ،کھانا ہی بس زندگی نہیں ہے ،کھانے کے علاوہ بھی زمانے میں بڑے دکھ ہیں جب شادی بیاہ کی تقریبات میں لوگ پلیٹوں میں کھانا ڈال ڈال کر پہاڑیاں کھڑی کرتے وہ آرام سے سلاد ٹھونگ کر یا حسب ضرورت کھا پی کر فارغ بھی ہوجاتا ۔لوگ جو پیسہ کھانے پینے پر خرچ کرتے وہ اسی مد میں پیسہ جمع کیے جاتا۔ ہاں نمود و نمائش کا وہ شوقین ہی نہیں جنونی تھا ۔کھانا پینا تو کبھی موضوع گفتگو نہ بن سکا لیکن گاڑی جدید ماڈل کی ہونی چاہیے۔ گھر ایسا ہو کہ لوگ سات کوس دور سے بھی گزریں تو چونک کر پوچھیں یہ کس کا گھر ہے۔
اور یہ سب بغیر محنت مشقت کے نہیں ملتا ہے ۔محنت کرنے کو بھی اس کے پاس کون سا بیسویں گریڈ کی نوکری تھی یا وہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا ہیڈ…
چند یادیں چند باتیں ،بیاد احمد عمر مرغوب
مصنفہ :شگفتہ عمر
ناشر ،مکتبہ راحت الاسلام
کل قیمت 1600 روپے
رعایتی قیمت بمعہ ڈاک خرچ ،800روپے
ملنے کا پتہ ،مکان نمبر26, سٹریٹ 48,
F-8/4اسلام آباد
اس دنیا میں جو پیدا ہؤا اس کا کسی نہ کسی سے رشتہ موجود ہوتا ہے.ماں یا بہن بھائی،ماموں،پھوپھو یہاں تک کہ دادا،پردادا لگڑ دادا،سگڑدادا تک بتا دیے۔یہی نہیں،اس دنیا سے چلے جانے والوں کے لیے بھی رشتوں کے نام موجود ہیں شوہر مر جائے تو بیوی نہیں بیوہ،باپ مرجائے تو یتیم ،ماں مرجائے تو مسکین،بیوی مرجائے تو رنڈوا۔ہاں ایک اذیت اور تکلیف دہ مرحلہ ایسا آتا ہے کہ وہاں اظہار کے لیے کوئی نام نہیں یعنی اولاد دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس کے لیے کوئی نام نہیں۔
شاید اس لیے کہ اس کی شدت کو نام نہیں دیا جا سکتا ۔اپنے جگر کا ٹکڑا،اپنا خون اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک چلی جائے تو زندگی تو رہتی ہے لیکن محض سانسوں کی ڈوری!
ایسی ہی ایک ماں جس کو رب نے شادی کے سات سالوں کے بعد بیٹا دیا اور بیٹا گھر بھر کا ہی کیا سارے ننھیال ددھیال کی آنکھوں کا تارہ،سپر ایکٹو،فرمانبردار۔نوجوان نسل کے عام چلن کے مطابق جوانی سگریٹ،یا سوشل میڈیا کے نشے کی بجائے کتاب ہاتھ میں لے کر تفکر…
سدرہ کو کھیلنے کا ، نہ کودنے کا ،پڑھنے کا، نہ پڑھانے کا ،کوئی شوق نہیں تھا۔ آپی حفصہ چھٹی کے دن سارے محلے کے بچوں کو جمع کرکے سکول سکول کھیلتیں اور مزے سے سکول کی ہیڈ پرنسپل بن کر ٹی پائی پر ڈنڈے برسایا کرتیں ۔دو تین چھٹیاں اکٹھے آجاتیں تو محلے کی بچیوں کے ساتھ گڈے گڑیا کا بیاہ رچاتیں، تیل مایوں مہندی سارے شگن ہی چاؤ لاڈ سے پورے کرتیں . ان کی قوت مشاہدہ غضب کی تھی۔ بارہ سال کی عمر میں انہیں معلوم تھا کہ د لہن کو وداع کرتے ہوئے ماموں میاں کا ہونا ضروری ہے، نائنوں سے شادیوں پر کیا اور کیسے کام لیا جا تا ہے ،مکلاوہ کسے کہتے ہیں، بچوں کو کیا دیتے ہیں اور بڑوں کو کیا ؟ اسے ہر چیز ازبر تھی۔ لگتا تھا کسی پردادی پرنانی کی روح اس کے اندر گھسی ہوئی ہے، آپی حفصہ کے برعکس سدرہ کو بس ایک ہی شوق تھا لیپا پوتی کا ،کبھی چچی کا کاجل ان کی سنگھار میز سے اٹھا کر لپالپ آنکھوں میں بھر لیتی تو کبھی خالہ کی شوخ رنگ کی لپ اسٹک اٹھا کر ہونٹوں پر تھوپ لیتی ، اس کے بعد جتنا رگڑ رگڑ کر…
عتیق احمد اور انیق احمد،دونوں بھائیوں میں جتنی چاہت اور محبت تھی اس کے لیے دنیا کی کسی لغت میں ترجمانی کے لیے الفاظ موجود نہیں تھے۔ دونوں کے مشاغل،دلچسپیاں اور مصروفیت ایک جیسی تھی ،پسند ناپسند ایک جیسی تھی، سونے جاگنے کے اوقات ایک جیسے تھے ،لیکن کاتب تقدیر نے ان کی بیویوں میں مشرق اور مغرب کا بعد رکھاتھا۔بڑی مشقت اور خواری کے بعد ایک ہی خاندان (اور وہ بھی قطعاً غیر ) سے لڑکیاں ڈھونڈیں کہ بھائیوں کے دلی تعلقات ہمیشہ مثالی رہیں گے۔لیکن نہ نہ نہ ……سوچا ایسا ہی تھا، رشتہ بھی ہم عمر کزنز کا مگر دلچسپیاں شوق مشاغل سب ایک دوسرے سے الگ!
ایک کریلے کھاتی اور شوق سے کھاتی۔ قیمہ کریلے ،چنے کی دال کے بھرے ہوئے ،آلو ڈال کے……کریلے کے نام پر جو مرضی کھلادو رغبت سے کھائے گی اور دوسری کریلوں کو دیکھ کر ماتھے پر کریلوں سے زیادہ بل ڈال لیتی، ناک منہ چڑھاتی اور انڈے کا ہوش پوش بنا کر روٹی کھا لیتی۔ بھوکی مرجائے گی لیکن کریلے نام کی سبزی حلق سے کیا اتارے ہاتھ لگانے کی بھی روادار نہ ہوگی ۔
یہ سب فرق تو سگی بہنوں میں بھی ہوجاتا ہے بس ان میں ہر بات ہر نکتے پر…
آج سے سترہ سال قبل میاں کی ناگہانی موت کے بعد عقیلہ بیگم کا، جس زندگی پر سب سے زیادہ اعتماد تھا وہ چکنا چور ہؤا اور زندگی کی پلاننگ میں سر فہرست فرائض کی ادائیگی کو رکھا ،فضول قسم کی مصروفیات پر یک جنبش قلم ترک کرنے کا لفظ لکھا ۔
خاوند کی وفات کے وقت صرف ایک بیٹے کی شادی ہوئی تھی عدت کے دوران جو بھی افسوس کے لیے آتے وہ تلاش رشتہ کا اشتہار بن جاتیں ،عدت ختم ہوتے ہی انہوں نے یکے بعد دیگرے ساری اولادوں کو بیاہ دیا تو خدا کے گھر جانے کا جنون ،وہاں حاضری نصیب ہو گئی تو اعتکاف میں بیٹھنے کی آرزو ،اس سے بھی فیضیاب ہو چکی تو باعزت ریٹائرمنٹ اور سارے بچوں کو اکٹھے کرنا اور زندگی کا نچوڑ بیان کرنا ورثہ کی تقسیم اور دو چار پندو نصائح ،عقیلہ خانم نے اس مرتبہ سب بچوں کو حکم دے دیا تھا کہ سب بقرعید ان کے ہاں کریں گے ۔
کوئی امریکہ کوئی افریقہ میں ،بیٹی کراچی میں ہے اور داماد کی ملازمت کوئٹہ میں …..سب کو معلوم تھا کہ اپنے کہے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہوتیں اور حکم مانے بغیر گزارہ بھی ممکن نہیں سو سب نے حامی…
آج سے سترہ سال قبل میاں کی ناگہانی موت کے بعد عقیلہ بیگم کا، جس زندگی پر سب سے زیادہ اعتماد تھا وہ چکنا چور ہوا اور زندگی کی پلاننگ میں سر فہرست فرائض کی ادائیگی کو رکھا ،فضول قسم کی مصروفیات پر یک جنبش قلم ترک کرنے کا لفظ لکھا ۔
خاوند کی وفات کے وقت صرف ایک بیٹے کی شادی ہوئی تھی ۔ عدت کے دوران جو بھی افسوس کے لیے آتے وہ بیٹے کے لیےتلاش رشتہ کا اشتہار بن جاتیں ۔ پھرعدت ختم ہوتے ہی انہوں نے یکے بعد دیگرے ساری اولادوں کو بیاہ دیا تو خدا کے گھر جانے کا جنون ،وہاں حاضری نصیب ہو گئی تو اعتکاف میں بیٹھنے کی آرزو ،اس سے بھی فیضیاب ہو چکیں تو باعزت ریٹائرمنٹ اور سارے بچوں کو اکٹھے کرنا اور زندگی کا نچوڑ بیان کرنا، ورثہ کی تقسیم اور دو چار پندو نصائح ۔
سوعقیلہ خانم نے اس مرتبہ سب بچوں کو حکم دے دیا تھا کہ سب بقرعید ان کے ہاں کریں گے ۔
کوئی امریکہ کوئی افریقہ میں ،بیٹی کراچی میں ہے اور داماد کی ملازمت کوئٹہ میں ….سب کو معلوم تھا کہ اپنے کہے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہوتیں اور حکم مانے بغیر گزارہ بھی ممکن نہیں…
بہت دنوں بلکہ ہفتوں سے لان کی صفائی نہیں ہوئی تھی ۔میاں کو کسی کورس کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑ گیا اور بوڑھے مالی بابا کی بوڑھی بیوی فوت ہو گئی تھی ۔اس علاقے میں نیلم کو آئے ہوئے بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ واقفیت نکال لیتی بلکہ کچھ عرصہ تو یہی سوچتی رہی کہ خود ہی ہمت کر کے صفائی کر لے گی مگر بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہر چیز خشک مٹی سے اٹی پڑی تھی۔ لان کی صفائی تو کر بھی لیتی مگر وہ جو شیشم ،امرود اور آم کے درختوں کے پتے مٹو مٹ ہو رہے تھے ،دیواریں گندی اور انگور کی بیل لیموں کے پودے روکھے ہورہے تھے ان کا کیا کرتی !یہ تو اوپر والا ہی رحمت کی بارش برسائے تو بات بنے۔
اس کے علاوہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے خشک کھانسی اور کرونا نام کی بلا چمٹی تھی وہ جان کیسے چھوڑے۔بچوں کو ایک ماہ میں دو مرتبہ کھانسی کا دورہ پڑ چکا تھا۔ اینٹی بائیوٹک دے دے کر بھی تھک چکی تھی ۔بوڑھی عورتیں کہا کرتی تھیں ،پتر دعا کرو رب سوہنا مینہہ برسائے تو بلائیں دور ہوں،لگتا ہے رب بندوں سے ناراض ہو گیا ہے…
’’مجھے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان اتنا بھی پریکٹیکل اور محب وطن کیسے ہو سکتا ہے جتنا کہ محترمہ تسنیم عبدالقدوس ہیں ،استغفراللہ ،حد ہی ہو گئی ویسے ‘‘ نیلم نے ناک منہ چڑھاتے ہوئے اپنی اردو کی نئی ٹیچر کی شان میں کلمات ادا کیے۔
’’واقعی آنٹی ،نیلم بالکل صحیح کہہ رہی ہے۔ بلکہ سچ پوچھیں تو اس سے بھی زیادہ ،جب سے وہ ہمارے کالج میں آئی ہیں سارے کالج میں ان کی ذات کو ہی ڈسکس کیا جاتا ہے ۔عجیب سی عادتیں ہیں…. چلیں جی دوپٹہ سے چوبیس گھنٹے سر ڈھانپنا ،اپنی چیسٹ کو کور کرنا تو سمجھ میں آتا ہے اسلامیات کی منزہ عباسی بھی اسی طرح کی ہیں ویل کرنے والی…. دس سال کا بچہ بھی گزر جائے تو منہ ڈھانپ لیتی ہیں، مالی بابا تک سے پردہ کرتی ہیں ۔لیکن یہ تو بھئی ان سے سات ہاتھ آگے ہیں ،کوئی انڈین فلمیں نہ دیکھے انڈین فلمسٹاروں کو ڈسکس نہ کیا جائے کوئی بسنت یا ہولی کی بات نہ کرے اور تواور ہماری جی آر نے بولتے ہوئے چنتا کا لفظ بول دیا توبہ توبہ انہوں نے اس کا جو کریا کرم کیا جو شامت بلائی اللہ ہی معاف کرے ‘‘نیلم کی دوست عالیہ…
شاہدہ منیر کو اچھی طرح یاد تھا کہ وہ بمشکل چھ سال کی تھی جب اس نے پہلا روزہ رکھا .اس نے اپنی خالہ زاد بہن کے کہنے پر ابو سے کہا ،’’ابو میں بھی روزہ رکھوں گی….اسوہ نے بھی کل چڑی روزہ رکھا تھا ‘‘۔
ابو مسکرائے ’’جھلیے یہ چڑی روزہ کیا ہوتا ہے ؟‘‘
امی میدان میں آئیں ۔
’’بچی ہے ناں اتنی گرمی میں سارا دن کیسے بھوکی رہے گی‘‘۔
ابو نے جھٹ سے دلیل دی ’’کیوں جب ہم اسے روزہ رکھنے پر انعام بتائیں گے روزہ کے بارے میں ساری فضیلت سمجھائیں گے تو کیسے نہیں رکھے گی ؟ ‘‘
اماں نے بولنا چاہا تو ابو نے سو سنار اور ایک لوہار والی مثال دی اور کہا ’’کیوں تم بچے کو سات سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے چڑی نماز پڑھاتی ہو یا صرف قیام کے بعد روک دیتی ہو ؟ او بھلیے لوکے! روزے والے کا ساتھ اللہ سوہنا اور اس کے فرشتے دیتے ہیں‘‘۔
پھر اس نے روزہ رکھا۔ ابو نے سارا دن اس کی انگلی پکڑ کر ساتھ ساتھ رکھا۔ سہہ پہر کے بعد اس کی پسند کی سلائی مشین (کھلونا) اور ڈھیر ساری کھانے پینے کی اشیاء بھی خرید کر دیں ۔افطاری کی تیاری اس کی پسند…
مذاق ہی مذاق میں کدو کے رائتے کی خوبصورت لفاظی اور دل نشین لہجہ میں حمنہ نے یو ٹیوب پر ڈیڑھ منٹ کی وڈیو بنا کر اپ لوڈ کردی ۔
ہائیں یہ کیا ! منٹوں سکینڈوںمیں اس کو پسند کرنے والے سینکڑوں سے ہزاروں میں جا پہنچے ۔
کچھ دنوں کے بعد اس نے اپنے فریج کی صفائی کی ایک منٹ کی وڈیو کھلکھلاتے جملوں میں بنا کر اپ لوڈ کردی تو سراہنے والے پانچ ہزار ہو گئے۔ اس نے سب کے مشورے پر یو ٹیوب چینل کھول لیا۔ عجیب حیرت کی بات تھی ، وہ مکھی مارنے کی وڈیو بھی بنا کر شیئر کرتی جیسے لوگ اسی کے انتظار میں بیٹھے ہوتے۔ ٹک ٹک ٹک … لائکس کو منٹس… اللہ اللہ اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ مذاق میں شروع ہونے والے کام میں اتنی لذت، شہرت اور دولت ہے !
پھر جب اس نے اپنے ہاتھوں پر مہندی لگانے اور مخروطی انگلیوں میں نقلی ہیرے والی انگوٹھی کی وڈیو بنا کر خوبصورت کیپشن اور پس منظر میں دھیمے بہتے سُروں والا لتامنگیشکر کا گانا بھی ڈال دیا تو لوگ جیسے پاگل ہی ہو گئے ۔
آپ خود سامنے کیوںنہیںآتیں ؟ کیا آپ پردہ نشین ہیں ؟ کہیں آپ بھائی جان تو…
شکل ایک جیسی تھی نہ عقل ، قد کاٹھ ایک جیسا تھا نہ رنگ روپ ، مگر محبت ، سلوک، اتفاق سب لفظ ان دونوں کے تعلقات کے لیے بنے تھے ۔ دونوں سگی بہنیں نہیں تھیں مگر ان سے بڑھ کر تھیں ، خالہ زاد بہنیں جن کی دوستی میں چڑھائو ہی چڑھائو تھا ، اتار کا لفظ درمیان میں کبھی نہیں آیا تھا ۔ دونوں کی عمروں میں بس چار چھ ماہ کا فرق تھا ۔ ایک جاڑے کے اختتام پر ہوئی دوسری جاڑے کے آغاز پر ۔ بہت پیار تھا دونوں میں ایک ہی گلی میں دونوں کے گھر تھے ۔ ایک اس لمبی پتلی گلی کے شروع میں دوسری کا اختتام میں ۔ مگر یہ کہیں نہیں لکھا کہ شکل عقل فرق ہو ان میں دوستی نہیں ہو سکتی ۔ گو دونوں کی عادات میں بہت فرق تھا ایک پورب تھی دوسری پچھم ، ایک نکتہ چیں اور زبان کی دھار کو تیز ہی کیے رکھتی تو دوسری نرم مزاج صلح جو ، ایک کا ماتھے پر شکنوں کا جال رہتا دوسری کے ہونٹوں پر نرم نرم سی مسکراہٹ چپکی رہتی ۔
ان سگی خالہ زاد بہنوں کے نام ثوبیہ اور روہینہ تھے ۔ ثوبیہ رنگت میں…
جب سے پتہ چلا تھا کہ آنٹی ثریا سکاٹ لینڈ سے پاکستان آ رہی ہیں کوئی دہشت سی دہشت تھی۔
آہستہ بولا کرو، آنٹی ثریا آ رہی ہیں، چیزیں ٹھکانے پر رکھو، آنٹی ثریا بہت ڈسپلنڈ خاتون ہیں۔ یہ جوتا اندر کیوں پہن آئے… باہر اتار کر آئو، پتہ نہیں آنٹی ثریا آ رہی ہیں، وہ وقت کی بہت پابند، نفاست پسند اور نفیس مزاج کی خاتون ہیں۔ اور… اور… امی نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی ان کے سامنے کوئی بدتمیزی کا مظاہرہ نہ کرنا۔ اور ہاں کھانا کھاتے ہوئے دھیان رکھنا کھانے کی آواز نہ آئے، وہ ہمارے کان مروڑ دیا کرتی تھیں جب ہم کھانا کھاتے ہوئے چپڑ چپڑ کی آواز منہ سے نکالا کرتے تھے…
رہی سہی کسر ابا پوری کر دیتے…’’زیادہ ٹر ٹر کرنے کی ضرورت نہیں ان کے سامنے… وہ فضول گفتگو تو کیا ضرورت سے زیادہ ایک لفظ بولنا یا سننا پسند نہیں کرتیں۔‘‘
چھوٹی بہن حمیرا نے جل کر کہا ’’آنٹی ثریا نہ ہوئیں گویا سربراہ مملکت ہو گئیں۔‘‘
میری ہنسی چھوٹ گئی۔ ’’او چھوٹی، عقل کی موٹی، بھلا حکمران بھی کبھی وقت کے پابند، ڈسپلنڈ ہوا کرتے ہیں؟ ایسے ہوں تو سڑکوں پر ان کے پتلے کیوں جلیں؟‘‘
آنٹی ثریا کی فلائٹ پہنچنے والی تھی، ابا…
کئی دنوں سے سب گھر والے نوٹ کر رہے تھے کہ مجیداں کام میں سست ہو گئی ہے ۔ایک بات دو تین مرتبہ کہنا پڑتی ،پھر جا کر اسے سنائی دیتی ، چہرے مہرے سے بھی بیزاری اور تھکاوٹ دکھائی دیتی ،کہاں تو یہ کہ وہ کام مکمل ہونے کے بعد دس ایک منٹ سانس درست کرنے کے بہانے بے فکری سے بیٹھ کر اپنے نکھٹو میاں اور نافرمان اولاد کے قصے سناتی،کچھ مشورے لیتی اور زور دار آواز میں سلام دعا کے بعد رخصت ہوتی۔اور اب یہ حال کہ کام ادھورا رہ جاتااور وہ اچانک ہی ،اچھا بی بی جی میں تاں چلی آں ،کہہ کر یہ جا وہ جا۔
جب مسلسل ایسے ہی ہوتا رہا تو امی جی ( ساس) نے اسے وقت رخصت روک کر پوچھا ۔
’’کیا بات ہے آج کل بجھی بجھی سی رہتی ہو کام بھی ڈھنگ کا نہیں کر پارہیں کوئی مسئلہ ہے ؟‘‘
’’نئیں وڈی بی بی جی کج وی نئیں‘‘اس نے جواب دیا ۔
اس پر امی جی نے اسے اپنے سامنے بٹھا کر اس کی دماغی غیر حاضری کے دس قصے سنائے ۔
بیٹھی چپ چاپ سنتی رہی پھر سسکی بھر کر رقت آمیز لہجے میں بولی ۔
’’اپنا کرتا اوپر کرو تو اپنا ہی پیٹ…
’’چوہدری سرور اعظم کے اکلوتے بیٹے کی شادی ہے…. سات کوس تک تو پتہ چلنا چاہیے کہ چوہدریوں اور نمبرداروں کے ہاں شادی کیسے وج گج کے ہوتی ہے۔صرف دس دن شادی میں باقی ہیں، نہ کوئی واجا گاجاہے نہ ڈھول ڈھمکا ،نہ لنگر کھلا‘‘۔
چوہدری سرور نے کلف سے اکڑے سوتی سوٹ پر واسکٹ پہنتے ہوئے خفگی کا اظہار کیا ۔
’’آج ہی سے ساری کڑیوں چڑیوں کو بلاؤ۔ کوئی ناچ گانا ہلا گلا ہو….دیگیں کھڑکنے کی آواز سنائی دے….سات گلیوں تک لائٹنگ شائٹنگ کرو، یہ کیا دو زنانیاں سر جھاڑ منہ پہاڑ بیٹھی ہیں‘‘۔
اب کے چوہدری صاحب نے اپنی نصف بہترچوہدرانی حشمت بی بی کی خبر لی۔
ان احکامات کے جاری ہونے کی دیر تھی آدھے گھنٹے کے اندر اندر دو کلومیٹر کے فاصلے تک سرخ نیلی پیلی بتیوں کا بھی بندو بست ہوگیا ، ڈھولکی لے کر چوہدری سرور اور حشمت بیگم کی بھانجیاں بھتیجیاں بھی سرخی پاؤڈر تھوپ کر حویلی میں پہنچ گئیں اور گھر سے باہر جیما قصائی مرغیاں ذبح کرنے اور شیدا نائی دیگ کے اندر چمچا کھڑ کانے میں مصروف ہوگیا۔
اس دن جنوری کی تین تاریخ تھی اور شادی تیرہ جنوری کو طے پائی تھی۔ درمیان کے سارے دن ہر چھوٹے بڑے کے لیے ناقابل فراموش…
پانچ پانچ سو روپے کی مبارکبادیاں لے کر اب عملے کا رخ ان کی طرف یعنی چوہدری شہزاد وڑائچ کی بیگم اورنومولود کی دادی نصرت کی طرف ہؤا۔انہوں نےتفاخر سے ہزار ہزار روپے کے نوٹ بغیر گنے بانٹنا شروع کر دیے ،دو چار دس ،جتنے ملازم تھے سب آنے بہانے وہاں پہنچ گئے۔
ہیڈ نرس ،ہیڈ بوائے وارڈ بوائے ،پیرا میڈیکل سٹاف سب ان کے دست مبارک سے نیلے نوٹ وصول کر چکے تھے اور تقریباًپچیس تیس ہزار روپے مبارکبادیوں کی مد میں دینے کے بعد ان کے چہرے پر عجیب سا تکبر کا احساس تھا۔ ڈاکٹر کمرے میں آئیں تو اس وقت تک نومولود بچی کو والدہ کے ساتھ کمرہ میں شفٹ کردیا گیاتھا۔
ڈاکٹر فرخ اور ڈاکٹر شہناز امجد نے ہاوس جاب والی بچیوں کو کیس ہسٹری لکھوائی ۔جب ڈاکٹرز کمرہ سے رخصت ہوئے توہائوس جاب والی بچیاں بھی سینئرڈاکٹر کے ساتھ کمرے سے نکلنے لگیں۔ بیگم چوہدری شہزاد وڑائچ نے بیگ سے پانچ پانچ ہزار کے کڑکتے نوٹ نکال کر ہائوس جاب والی بچیوں کی طرف بڑھائے۔
وہ نئی تو تھیں ہی اور شاید نہیں یقیناً کسی دوسرے شہر سے تھیں جو انہیں اس ہستی کا تعارف نہیں تھا ۔جونہی بیگم نصرت وڑائچ نے مبارکبادی کے نوٹ ان کی طرف…
2011ءمیں ادا کیے ہوئے اس حج کی روداد بتول میں شائع ہوئی ۔اس کا ایک احساس جس کی تکمیل اب ہوئی، نذرِ قارئین کررہی ہوں (ق۔ر)
اللہ نے حج کے لیے جس کا جووقت لکھا ہے بندہ اس سے پہلے کر سکتا ہے نہ بعد میں۔ بنے بنائے پروگرام اچانک ایسے ختم ہوتے ہیں کہ مدت تک ذہن قبول نہیں کرتا اور بسا اوقات بیٹھے بٹھائے ایسے بلاوا آجاتا ہے کہ یقین کرتے ہوئے بھی نہیں آتا۔ اس سال بہت سے قریبی عزیزوں کے علاوہ بھی لوگ حج کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔ جو بھی جاتا ہے دعاؤں کی درخواست کی جاتی ہے اور ساتھ ہی چھم سے آنکھوں میں اپنے حج کا سفر آجاتا ہے۔ ایک ایک چیز سامنے آتی ہے اور تڑپ شدید سے شدید تر ہوتی ہے کہ دوبارہ بلاوا کب آئے گا،آنکھوں کی پیاس کب بجھے گی،کب روح کوتسکین ملے گی۔ بھلا پہلا حج بھی کوئی حج ہوتا ہے! وہ تو سراسر سیکھنے کا عمل ہوتا ہے ۔کچھ کاموں کا پہلے سے علم ہوتا ہے اور کچھ کا تو علم بھی نہیں ہوتا۔
واپس آنے کے بعد مجھے بہت مدت لگی تھی اپنے شہر کے راستوں اور گلی کوچوں سے مانوس ہونے میں…. جہاں سے گزرتی وہی سڑکیں…
صبغہ اکلوتی بیٹی ،نہ بہت ذہین فطین کہ اس کے فرمودات سوشل میڈیا کی ہر دو منٹ کے بعد زینت بنیں، نہ ہی اتنی بے وقوف کہ روٹی کو چوچی کہے!
اسی طرح پڑھنے میں بھی درمیانی ،نہ کتابی کیڑا نہ رٹو طوطا۔
کم عمری میں شادی ہوئی، پڑھائی کے دوران نکاح ہؤا اور چار چھ ماہ کے بعد پڑھائی کے دوران ہی شادی ہوگئی ۔صبغہ اشرف ،پہلوٹھی کی اولاد ابھی تو ماں باپ کے چائو لاڈ بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ میاں کو پیاری ہوگئی۔عمر اتنی کم تھی کہ ابھی دنیا کے بارے معلوم تھا نہ دنیا والوں کے۔ایک مرتبہ دور پار کی چچی زلیخا ملنے کے لیے آئیں تو لمبے سفر کی تھکاوٹ سے انہیں بخار سا محسوس ہؤا اور سارا جسم درد کرنے لگا ۔
امی نے صبغہ سے کہا ’’میری میز کی دراز سے پیناڈول اور فریج سے پانی کی بوتل لے آئو‘‘۔
چند لمحوں کے بعد صبغہ بی بی تشریف لائیں تو پلیٹ میں پانی کا گلاس اور چمچ کے ساتھ چھوٹے بھائی بہزاد کو دیا جانے والا سیرپ پیناڈول رکھا ہؤا تھا!
امی تو بیٹی کی حرکت پر خود ہی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتی رہیں لیکن چچی زلیخا بہت حیرت سے دونوں کو دیکھ رہی تھیں…
شادی سے پہلے جان پہچان تو دور کی بات نام کا بھی علم نہ تھا ۔ روائتی کہانیوں اور فلموں ڈراموں والا سین ہؤا ۔ابا کو ہارٹ اٹیک ہؤا، کارڈیالوجی سنٹر لے جاتے ہوے اماں کو شوہر کی زندگی ختم ہونے کی کم اور اکلوتے بیٹے کی شادی نہ ہونے کی ٹینشن زیادہ تھی۔
اور ہوتی بھی کیوں نہ…..اٹھارویں گریڈ کا سرکاری افسر،بنگلہ، گاڑی بمع ڈرائیور، نوکر چاکروں کی فوج ۔نہیں تھی تو بیوی …..جس کی تلاش میں دونوں بہنوں اور ماں نے جوتے گھسالیے۔ اخبارات اور رسالوں میں شائع ہونے والے ضرورت رشتہ کے اشتہار کے نیچے دیے گئے نمبروں پر رابطے کے بعد دیکھنے جاتیں۔رشتہ کروانے والیوں کی مٹھی بھی گرم رکھتیں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات،کسی بھی رشتے پر فریقین میں اتفاق نہ ہوسکا۔
بالآخر ابا کو پڑنے والا دل کا دورہ ہی کام آیا۔ حسن اتفاق سے ایک دن قبل ان کی چھوٹی بیٹی نے اپنی نند کی دیورانی کی چھوٹی بہن کا ذکر کیا تھا جو فلموں کی ہیروئن والا حسن بھی رکھتی تھی، زمانے کے ساتھ چلتے ہوے میڈیکل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی تھی اور اس کے ساتھ فارغ وقت میں بیکنگ ہی سے نہیں کڑھائی سلائی کے علاوہ اون سلائیوں سے…
بتول سے تین چار ماہ سے غائب ہوں. بہت سے لوگ لاپتہ ہونے کی وجوہات جانتے ہیں تو بہت سے لاعلم بھی ہیں۔یادش بخیر سات فروری 2020ء کو مزنہ اور تیرہ فروری 2020ء کو محسنہ کی رخصتی طے پائی۔ اللہ کے کرم سے سب کام بخیر وعافیت ہوئے ۔دھند اور شدید بارش کی شادیوں کا رج کے سواد چکھ لیا۔
شادی کے بعد اگلا مرحلہ خانہ آبادی ہی ہوتا ہے اس لیے قدرت نے محسنہ کی طرف سے یہ خوشخبری بھی جلد سنادی مگر عملی صورت میں خوشخبری کے ظہور سے پہلے کرونا کی دوسری لہر کا شکار ہوگئی ۔اس کا تفصیلی ذکر بتول کے گزشتہ سال کے کسی شمارے میں موجود ہے….. بخار ،خشک کھانسی اور سانس لینا محال!
ڈاکٹر نے جتنے ٹیسٹ لکھے سب کروائے ۔لوگوں کا خون سفید ہوتا ہے، ہمارا پھیپھڑا سفید ہونا شروع ہوچکا تھا۔ڈاکٹر نے خوب گیان دھیان سے رپورٹس ملاحظہ فرمائیں۔
’’آپ کا کرونا symptoms ٹیسٹ تو پوزیٹو ہے اور آپ دو ہفتوں کے لیے آئیسو لیٹ ہوجائیں…..مگر آپ کو کرونا نہیں ہے‘‘۔
ساری تکلیف بھگتنے کے دوران ہم ڈاکٹر کے اسی فقرے کی شرح ڈھونڈتے رہے کہ کرونا سمپ ٹمز ٹیسٹ پوزیٹوہے مگر کرونا نہیں ہے۔ہاہ! کیا مطلب ہے …..بخدا آج تک نہیں سمجھ پائے کہ…
’’آپ کو ہوأ کیا ہے پپا؟ مجھے کیوں نہیں دیں گے پیسے آپ؟ کیا میں آپ کا کچھ نہیں لگتا یا سوتیلا ہوںیا آپ نے مجھے ایدھی کے جھولے سے اٹھایا تھا؟‘‘سدید کا غصے سے تنفس تیز ہو رہا تھا ۔بات ختم نہیں ہوئی تھی، ہو بھی کیسے سکتی تھی ۔ اس کے کلاس فیلوز کالج ٹرپ پر شمالی علاقہ جات میں جارہے تھے ۔تیس بتیس ہزار روپے معمولی رقم تو نہیں ہوتی جو نوشاد علی نے بیٹے کو چپ چاپ پکڑادی ۔پتہ تھا چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔بھائی کہاں اڑیل گھوڑا،جو بدکنے کو تیار ہی رہتا ۔تیس بتیس ہزار روپے گننے میں کون سا ماہ و سال خرچ ہونا تھے ۔یوں چٹکی بجاتے گن لیے اور گننے کے بعد اس پر ايسی کوئی جنونی کیفیت طاری ہوجاتی۔آنکھوں سے شعلے نکلتے تو سب کو نظر آ ہی رہے تھے ۔
نوشاد علی نے تحمل سے کام لیتے ہوئے بلکہ ضبط کرتے ہوئے بس اتنا کہا۔
’’بیٹا اتنی رقم تو غریب چوکیدار ،ریڑھی والے ٹھیکے والے چار ماہ دن رات کی محنت سے کماتے ہیں ،تمہاری بہنوں کی ذمہ داری باقی ہے۔پیسے کوئی پتے تو نہیں ہوتے جو’’درختوں سے توڑ لیے جائیں‘‘۔تنفر سے پپا کی بات کاٹ کر سدید نے فقرہ مکمل…
’’مجھے آج اپنا اے ٹی ایم کارڈ ڈھونڈتے ہوئے کسی کی گم شدہ رقم ملی ہے ۔جس کسی کی بھی ہو نشانی بتا کے لے سکتا ہے‘‘بابا جان نے کھانا کھانے کے بعد رومال سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے سرسری سے لہجہ میں کہا۔
سب سے پہلے دادی جان کے کان کھڑے ہوئے۔
’’اے شہاب الدین میری کچھ ر قم نہیں مل رہی دو تین دن سے ‘‘ دادی جان نے بیان نامکمل ہی رکھا ۔
’’اماں بی آپ تو کہتی ہیں میں ساری رقم ہاتھ کے ہاتھ غریب غربا میں بانٹ دیتی ہوںدنیا سے چل چلاؤ کا وقت ہے تو بندہ خالی ہاتھ ہی جائے ‘‘چھوٹے چچا کمال الدین بولے ۔
’’اےسو ضرورت جیتی جان کو پڑ سکتی ہے تو بس تم سب جو پیسے پکڑاتے ہو اس سے ہی کچھ رکھ لیتی ہوں آخر کل نہلانے دھلانے والی کو بھی دینا ہوگی ناں ۔ مفت میں تو کوئی غسل دینے سے رہا‘‘اماں بی نے ناک سے مکھی اڑا ئی۔
’’مگر آپ رقم دینے کے لیے کیا کفن سے منہ نکال کے بتائیں گی کہاں رکھی ہوئی ہے ‘‘چھ ساڑھے چھ سالہ ظہیر الدین بولا ۔
’’آئے نوج ۔کفن سلواکے رکھا ہے تو بیچ میں رقم کا لفافہ بھی رکھا ہے اس میں ڈال دوں…