ڈاکٹر میمونہ حمزہ

اعتدال – بتول فروری ۲۰۲۱

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں ارضی خلیفہ بنا کر بھیجا، اور اسے تاکید کی کہ وہ اس کی نعمتوں کو صحیح طریقے سے حاصل کرے اور انہیں صحیح مقام پر خرچ کرے، خواہ وہ بدنی نعمتیں ہوں ، طاقتیں ہوں یا وسائل ۔ ان سب کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی درست ہو اور ان کا استعمال بھی اس کی رضا کے راستے میں ہو۔
دنیا میں سب سے زیادہ بے چینی، انتشار اور عدم سکون کا سبب اعتدال کی راہ کو چھوڑ دینا ہے۔ افراط و تفریط کے رویے نے افراد کو بھی صحیح راہ سے ہٹا دیا اور قوموں کو بھی عدم توازن کا شکار کیا۔عربی زبان میں میانہ روی کے لیے’’ قصد‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔یعنی ایسا عمل جوافراط اور تفریط کے درمیان ہو۔ اگر چال ہے تو درمیانی چال، گفتگو ہے تو درمیانی آواز، اگر خرچ کا معاملہ ہو تو اسراف اورتبذیر کے درمیان اعتدال کا خرچ۔ راستہ اختیار کرے تو دائیں اور بائیں جھکنے کے بجائے سیدھا راستہ اختیار کرنا اعتدال کا راستہ ہے۔
میانہ روی اسلام کی بنیادی خصوصیت ہے، جسے وہ مسلم فرد اور مسلم جماعت کی زندگی کے اندر ایک حقیقت کی شکل میں پیدا کرتا ہے، یہ خصوصیت اس کے…

مزید پڑھیں

حیاتِ دنیا کی حقیقت – بتول اکتوبر ۲۰۲۱

دنیا کی زندگی کا آغاز حضرت آدم ؑ کے زمین پر قدم رکھنے سے، اور اختتام آخری انسان کی موت اور قیامت کا وقوع پذیر ہونا ہے۔یہ اس دنیا کی طبعی عمر ہے۔ اس میں ہر انسان کی دنیا اس کی پیدائش سے موت تک کا سفر ہے۔ حدیث ہے: جس کی موت آگئی اس کے لیے وہی قیامت ہے‘‘۔ دنیا کی زندگی انسان کے لیے امتحان گاہ ہے۔ یہ دکھوں کا گھر بھی ہے اور نعمت کدہ بھی! یہ کسی مخلوق کے لیے بھی ابدی قیام کی جگہ نہیں ہے، بلکہ ایک مستقر ہے۔ عارضی ٹھکانا جس میں مسافر سفر کی منزلیں طے کرتے ہوئے کچھ وقت ٹھہر کر سستا لیتا ہے۔ یہ دنیا اس کے لیے ایک پلیٹ فارم سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی جس میں کسی کی گاڑی جلد آ جاتی ہے اور کوئی دم بھر تاخیر سے رخصت ہوتا ہے۔
حیاتِ دنیا کا لغوی مفہوم
جب کوئی شے بالکل قریب ہو تو اس کے بیان کے لیے ’’دنی، ادنی، اور دنا‘‘ کا لفظ آتا ہے۔ادنی مشکل زندگی لیے بھی آتا ہے، اور اسفل یعنی گھٹیا زندگی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ (دیکھیے سورۃ البقرۃ، ۶۱)اسی طرح یہ اکبر کے مقابلے میں اصغر یعنی چھوٹے کے مفہوم میں…

مزید پڑھیں

رسول اللہ ﷺ قرآن کے آئینے میں- بتول نومبر ۲۰۲۱

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل فرمایا جو تمام انسانوں کے لیے ابدی ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اللہ کا کلام جبریل امینؑ کے ذریعے محمد رسول اللہ ؐ کے قلبِ اطہر پر اتارا گیا۔اس کی ہر سورت اور ہر آیت ہدایت، نور اور روشنی ہے۔ اس کے پہلے مخاطب رسول اللہ ؐ ہیں اور پھر ان کے ذریعے یہ تمام انسانوں کے لیے ہے۔ کلامِ الٰہی کے ہر شذرے کا ایک خاص پس منظر بھی ہے اور موقع و محل بھی۔
رسول اللہ ؐ قرآن کی دعوت لے کر اٹھے تو انہیں دو طرح کے انسانوں سے سابقہ پیش آیا؛ وہ جنہوں نے حق کی پکار پر لبیک کہا اور کاروان ِ حق میں شامل ہو گئے۔ اور وہ جنہوں نے اس کا انکار کیا اور جاہلیت پر جم گئے۔رسول کریم ؐ نے تقریباً ۲۳ برس کی مدت میں قرآن کا پیغام دنیا تک پہنچایا، اور دین ِ اسلام غربت سے نکل کر ریاست اور پھر جزیرہ عرب کے اطراف و اکنار تک پھیل گیا۔
قرآن کریم کی پہلی وحی میں رسول اللہ ؐ کو ’’اقرأ‘‘ (پڑھیے) کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور آخری سورۃ (النصر)میں ’’فسبح بحمد ربک واستغفرہ‘‘ (اے نبیؐ، اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح…

مزید پڑھیں

رسول اللہ ﷺ قرآن کے آئینے میں – بتول دسمبر ۲۰۲۱

رسول اللہﷺ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔اور آپؐ کی بعثت کا مقصد بھی وہی ہے جو دیگر انبیاء علیھم السلام کا تھا۔آپؐ کو بھی اللہ تعالیٰٰ نے وہی ابدی پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا تھا کہ : ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے پرہیز کرو‘‘۔ (النحل،۳۶)
گویا کہ آپؐ کوئی نئی چیز نہیں لائے تھے بلکہ اسی پیغام کی تکرار تھی جو پہلے انبیاء لائے تھے، ارشاد الٰہی ہے:
’’یہ ایک ڈرانے والا ہے اگلے ڈرانے والوں میں سے‘‘۔ (النجم،۵۶)
اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو دین کی دعوت پیش کرنے کے لیے بھیجا تو آپؐ کوئی نیا دین نہیں لائے تھے، یہ وہی صاف ستھرا اور واضح پیغام تھا جو حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت عیسیؑ نے پیش کیا تھا۔ اور آپؐ کے ساتھ بھی وہی پیش آیا جو گزشتہ انبیاء کے ساتھ پیش آیا تھا۔ حق کے بیان کے ساتھ ہی آپؐ نے گویا انگاروں پر قدم رکھ دیا تھا۔ اس دعوت کا اقرار کرنے والے کم اور انکار کرنے والے زیادہ تھے۔مکہ کے مترفین نے آگے بڑھ کر اس کا انکار کردیا تو رب تعالی آپؐ کو تسلی دی اورفرمایا:
’’ان جھٹلانے والے خوشحال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو، اور انہیں کچھ…

مزید پڑھیں

اللہ کی رحمت – بتول فروری ۲۰۲۲

اللہ رحمن ورحیم ایسی ہستی ہے جس کی رحمت بے پایاں ہے۔اس کی رحمت پوری کائنات میں پھیلی ہے اور کائنات کے ہر ذرّے کو اس کی رحمت کا حصّہ ملتا ہے، اور ہر ایک کو اس کا فیض پہنچتا ہے۔سارے جہاں میں کوئی دوسرا اس ہمہ گیر اور غیر محدود رحمت کا حامل نہیں ہے۔ دنیا میں جس کے پاس بھی صفتِ رحم پائی جاتی ہے اس کی رحمت جزوی اور محدود ہے۔ اور وہ بھی اس کی ذاتی صفت نہیں ہے بلکہ خالق نے اسے کسی مصلحت اور ضرورت کے تحت عطا کی ہے۔جس مخلوق کے اندر بھی اس نے کسی مخلوق کے لیے جذبہء رحم پیدا کیا ہے، اس لیے کیا ہے کہ ایک مخلوق کو وہ دوسری مخلوق کی پرورش اور خوشحالی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے۔ یہ بجائے خود اسی کی رحمتِ بے پایاں کی دلیل ہے۔(تفہیم القرآن، ج۲،ص۴۵۹)
رحمت اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے ، وہ فرماتا ہے:
’’اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیںاور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد کوئی دوسرا کھولنے والا نہیں۔ وہ زبردست اور حکیم ہے‘‘۔ (فاطر،۲)
اللہ کی رحمت ،عطا کرنے میں بھی ہے اور روک لینے میں…

مزید پڑھیں

کریلا حلیم – بتول جون ۲۰۲۲

ہماری شادی کو تقریباً پانچ برس ہو چکے تھے، ہم نئے نئے مظفر آباد سے راولپنڈی شفٹ ہوئے تھے۔ ہمارا گھر میکے سے چند گلیاں دور تھا۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں، اور ہمارے پھوپھی زاد سعید بھائی جان بھی چھٹیاں گزارنے چلاس سے راولپنڈی آئے ہوئے تھے۔ اتنے عرصے بعد چند گھر اتنے قریب آ گئے تھے۔ دستر خوان پر کسی کو اپنے گھر کا کھانا پسند نہ آتا تو چپکے سے یا ہلکے اعلان کے ساتھ ہمارے ہاں آ جاتا کیونکہ ہمارے میاں صاحب خوش خوراک بھی تھے اور مہمان نواز بھی! جب عین کھانے کے وقت دروازے کی گھنٹی بجتی تو صاف ظاہر ہوتا کہ یہ ہمارے ودود بھائی ہوں گے، جو ایم ایس سی کے دوران دو برس ہمارے ساتھ مظفرآباد بھی رہ چکے تھے۔ کبھی ان کے ہمراہ ٹیپو بھی ہوتا، اور کبھی ان کے پیچھے باسط بھی نمودار ہوتا۔
ایک روز ہم ناشتے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ پھوپھی زاد سعید بھائی جان آگئے، وہ بازار جا رہے تھے۔ ہمارے میا ں بھی ساتھ چل پڑے۔ جاتے ہوئے اتنا ہی کہا کہ ’’باسط کے ہاتھ کھانا پکانے کا سامان بھجوا دوں گا‘‘۔
کچھ ہی دیر بعد باسط آ گیا، اس کے ہاتھ میں ایک شاپر میں…

مزید پڑھیں

نیکی کی تلقین اور برائی سے روکنا – بتول جون ۲۰۲۲

اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل علیھم السلام کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے اعلیٰ و اشرف فریضے کو انجام دینے کے لیے مبعوث کیا، تاکہ انسانوں سے جہالت کے بوجھ کو اتار دیں اور ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اس فریضے کو انجام دینے کے بارے میں مکمل رہنمائی عطا کی کہ وہ اس افضل اور اشرف کام کو کس طرح ادا کریں تاکہ انسانیت فلاح کا راستہ اختیار کر لے۔ہر نبی اور رسول نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق معروف و منکر کا فرض ادا کیا۔ ان کی دعوت کو کہیں کم اور کہیں زیادہ افراد نے قبول کیا۔ انبیاء علیھم السلام بے غرضانہ طور پر نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے رہے، خواہ ان کی بات کو کوئی پسند کرے یا ناپسند!
اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اندر پہلے انسان کو بھی جہالت اور تاریکی کی حالت میں پیدا نہیں کیابلکہ ان کی زندگی کا آغاز پوری روشنی میں کیا اور انہیں ان کا قانونِ حیات دیا۔ ان کا طریقِ زندگی اللہ کی اطاعت تھی اور اسی کا حکم وہ اپنی اولاد کو دے گئے۔آہستہ آہستہ انسان اس طریقِ زندگی سے منحرف ہو گیا،…

مزید پڑھیں

ہم نے تمہیں جوڑوں میں پیدا کیا – بتول نومبر ۲۰۲۲

اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق مالک اور فرمانروا ہے۔ اس کی کائنات بہت وسیع ہے، جس کے ایک حصّے میں اس نے انسانوں کو پیدا کیا، اور انہیں ’’خلیفۃ اللہ فی الارض‘‘ قرار دیا۔اس نے انسانوں کو عقل و شعور اور علم سے مزین کیا، تاکہ وہ جاننے بوجھنے والی سمجھدار مخلوق بن جائیں۔اس نے انہیں زمین پر اسی شعور کے ساتھ اتارا، اور گاہے گاہے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ان کی ہدایت کا اہتمام بھی کرتا رہا۔اس نے برائی اور بھالائی کی تمیز ان کے اپنے نفوس میں بھی رکھ دی تاکہ وہ کسی کے بہکاوے میں آنے سے بچیں۔ اس نے پورے اختیار اور ارادے کی قوت کے ساتھ انہیں بھیجا تاکہ وہ اپنے اعمال کے ذمہ دار بنیں۔
یہ عالم ِ بالا کی خاص مشیت ہے کہ اس کائنات میں پیدا کیے جانے والے انسان کو اس زمین کے اختیارات دے دیے جائیں، اور اسے اس دنیا میں آزاد چھوڑ دیا جائے، اور انسان کو اس زمین کی تحلیل و ترکیب، اس کی تبدیلی و ترقی اور اس کے خزانوں کا کھوج لگانے اور اس کے خام ذخائر کا پتا لگانے اور انہیں مسخر کرنے کے کام پر لگا دیا جائے۔ یہ سب کام اللہ کے حکم…

مزید پڑھیں

گناہ گاروں کی سزا – بتول فروری ۲۰۲۳

اللہ تعالیٰ نے کائنات اور اس کی ہر شے کو تخلیق کیا اور انہیں ایک نظام کا پابند بنایا، اور اپنی مخلوقات میں سے ہر ایک کی درجہ بندی کی، ان کے خواص اور صلاحیتوں کے مطابق انہیں مختلف کام تفویض کئے۔ اس دنیا کو بنایا اور اس میں انسان کو باقی مخلوقات سے افضل و اشرف بنایا، اور اس کی دائمی حیات سے قبل اس کی دنیا کی زندگی کو عارضی بنایا اور اس قیام کی مدت کو اس کے لیے ایک دار الامتحان قرار دیا۔اور اس دنیا کے پہلے جوڑے کو اس رہنمائی کے ساتھ دنیا میں اتارا:
’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ (البقرۃ،۳۸۔۳۹)
یہ نسلِ انسانی جو خلیفۃ اللہ فی الارض ہے،کے حق میں ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے، اس کو اللہ تعالیٰ کا عہد بھی کہا جاتا ہے۔اس کی رو سے انسان کا کام اپنا راستہ…

مزید پڑھیں

حکمت سے دعوت – بتول جنوری ۲۰۲۳

ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ
 
اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کرنا اور اس کے کلمے کو اس طرح سربلند کرنا کہ ہر باطل فکر اور کلمے کی بیخ کنی ہو جائے، انبیاء علیھم السلام کا مشن رہا ہے۔اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے بعد یہ مشن امتِ مسلمہ کے سپرد ہؤا ہے۔اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے جہاں اس کی تعلیمات کا علم ہونا اہم ہے وہیں حکمت کے زیور سے آراستہ ہونا بھی ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم نازل فرمایا، تاکہ ہم اس کے اوامر ونواہی کو اچھی طرح سمجھ سکیں، اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کر سکیں۔قرآن کریم اور رسول اللہ کی سنت میں ’’سیدھے راستے کی شاہراہ ‘‘ کو خوب واضح کیا گیا ہے۔اور انہیں میں امت ِ مسلمہ کو ان کا فریضہ بتایا گیا ہے، ارشاد ہے:
’’تم میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں‘‘۔ (آل عمران،۱۰۴)
یعنی یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کرہ ارض پر اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدو جہد کرے، حق کو غالب کرنے کی سعی و جہد کرے، معروف کو منکر پر اور حق…

مزید پڑھیں

موسمِ وبا میںعمرہ کی روداد – بتول مارچ ۲۰۲۲

میں گھر کے کام کاج میں مصروف تھی جب ہماری پیاری سی پڑوسن کا نام ہمارے موبائل پر چمکا۔ ہم نے سرعت سے اسے کھولا تو ایک خوبصورت پیغام تھا:
عمرہ کرنا ہے آپ نے؟ میں نے آپ کی اگلے ہفتے کی بکنگ کروا دی ہے۔ نیچے بکنگ کی تفصیلات تھیںجس کے مطابق ۳۱ مارچ ۲۰۲۱ سے سفر کا آغاز کرنا تھا، اور یکم اپریل کو عمرہ ادائیگی تھی۔ لبیک اللھم لبیک!
میاں صاحب گھر آئے تو ان سے ذکر کیا۔ انہیں بھی علم نہیں تھا، مگر انہوں نے بھی کامل اطمینان کا اظہار کیا۔ اور ہم نے ہولے ہولے تیاری شروع کر دی۔ ہمیں بدھ کو علی الصبح روانہ ہونا تھا۔ پہلی رات مدینہ منورہ گزار کر اگلی صبح مکہ روانگی تھی۔ ہم دونوں، شاہد صاحب اور توصیف صاحب کی فیملیز ہمارے ساتھ تھیں۔ ہماری منی ہمیں تیاری کرتے ہوئے دیکھ کر کئی مرتبہ سوال کر چکی تھی:
’’اس مرتبہ پھر چھوڑ جائیں گی مجھے‘‘۔
اور ہم بے بسی سے اثبات میں سر ہلا دیتے۔ اس کی عمر ابھی اٹھارہ برس نہ ہوئی تھی، اس لیے اسے ابھی عمرہ کی سہولت بھی حاصل نہ ہوئی تھی، ہم نے قمری کیلنڈر کے جمع تفریق سے بھی اس کی عمر کا تخمینہ لگایا مگر اٹھارہ…

مزید پڑھیں

علم روشنی ہے! – بتول اپریل ۲۰۲۲

علم کسی شے کی حقیقت کا ادراک ہے۔علم انسانوں کی زندگی پر بالواسطہ اور بلاواسطہ اثرات مرتب کرتا ہے، کیونکہ وہ کائنات کے اسرار کھولنے اور ان تک رسائی کا وسیلہ ہے۔ علم زندگی کے لیے روشنی اور اسے بلند کرنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص صفت عقل عطا کی اور علم انسان کی عقل کے لیے غذا کی حیثیت رکھتا ہے۔اور یہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا اہم ذریعہ ہے۔
علم کے اسلام میں بہت وسیع معنی اور مفہوم ہیں۔ہر وہ علم جو نافع ہو وہ اس کے مفہوم میں شامل ہے، اگرچہ وہ مخصوص معنی میں دینی علم نہ ہو۔رسول اللہ ﷺکے قول سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا:
’’جب انسان مر جائے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے؛ صدقہء جاریہ، یا وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جا رہا ہو، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو‘‘۔ (رواہ الالبانی، ٹحیح الجامع، ۷۹۳)
پس ہر وہ علم جو دین سے متعلق ہو یا دنیا سے، مگر ہو نفع بخش علم تو اس کے حاصل کرنے پر ابھارا گیا ہے۔
قرآن کریم میں ’’علم‘‘ کا لفظ اپنے مشتق حروف…

مزید پڑھیں

نماز مومن کی معراج ہے – بتول جولائی۲۰۲۲

نماز اللہ تعالی کے قرب اور روحانی ترقی کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ ایمان کے بعد عملی اطاعت کی اولین اور دائمی علامت نماز ہے۔نماز مومن اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی چیز ہے۔ نماز کو ترک کردینا اور ایمان کا دعوی ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔ یہ دین کا ستون ہے۔ جس نے اسے گرا دیا اس نے دین کی عمارت ڈھا دی اور جس نے اس کی حفاظت کی اس نے دین کی حفاظت محفوظ رکھی۔
نماز وہ اولین رابطہ ہے جو مومن کا زندہ اور عملی تعلق خدا کے ساتھ شب و روز جوڑے رکھتا ہے اور اسے خدا پرستی کے مرکز ومحور سے بچھڑنے نہیں دیتا۔ اگر یہ بندھن ٹوٹ جائے تو بندہ خدا سے دور اور دور تر ہوتا چلا جاتا ہے، حتی کہ عملی تعلق سے گزر کر اس کا خیالی تعلق بھی خدا کے ساتھ باقی نہیں رہتا، اور یہیں سے بگاڑ کا آغاز ہوتا ہے۔ (دیکھیے: تفہیم القرآن، ج۳،ص۷۵)
صلاۃ کے معنی: صلاۃ کے لغوی معنی دعا کے ہیں۔یہ معروف شرعی معنی میںفریضہء نماز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔اسے صلاۃ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اصلاً دعا ہی ہے۔
اصطلاح میں نماز اللہ تعالی کے لیے ادا کیا جانے…

مزید پڑھیں

اللہ کا شکر – بتول اگست ۲۰۲۲ – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

اللہ کا شکر ان خوبصورت اشیاء میں سے ہے جس کا صدور اچھے انسانوں سے ہوتاہے۔شکر تین حروف پر مشتمل مختصر سا لفظ ہے لیکن اس کے معنی بہت جامع اور بہت خوبصورت احساس لیے ہوئے ہیں۔اور کیوں نہ ہو کہ جب ہم ’’اللہ تیرا شکر‘‘ کے کلمات دل کے شعور اور احساس کے ساتھ ادا کرتے ہیں تو پورا انسانی وجود ہی نہیں، اس کی روح بھی مسکرا اٹھتی ہے۔
ہمارے بہت سے اعمال ایسے ہیں جن کا تعلق انسان کی اندرونی کیفیات سے ہوتا ہے، تو شکر کی پیدائش کا مقام بھی دل ہے۔مومن بندہ اپنے دل کی حفاظت کرتا ہے اور اس کی تربیت اس انداز میں کرتا ہے کہ وہ اللہ کا ’’شکر گزار بندہ‘‘ بن جائے۔
شکر کے لغوی معنی ’’عرفان الاحسان‘‘ کے ہیں۔ یعنی کسی کے احسان کو پہچاننا اور اس کا اظہار کرنا۔ شکر حقیقت میں ہر نرمی اور آسانی پر راضی اور خوش ہونا ہے۔ اصطلاح میں شکر نعمت کا سامنا معروف طریقے سے کرنا ہے خواہ شکر زبان سے کیا جائے یا ہاتھ سے یا دل سے۔ اس میں بندہ عطا کرنے والی ذات کا شکر ادا کرتا ہے۔یعنی بندے کی شکر گزاری یہ ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا ذکر کر…

مزید پڑھیں

انما المؤمنون اخوۃ – بتول مئی ۲۰۲۲

اسلام محبت اور رحمت کا دین ہے۔ معاشرتی زندگی میں مسلمانوں کے درمیان اخوت کا رشتہ وہ مضبوط تعلق ہے جس نے اسلام کی عمارت کو نہایت دلکش اور پائیدار بنا دیا ہے۔یہ دنیا کے تمام انسانوں کو ایک ایسی لڑی میں پروتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں اور نہ تو بکھرتے ہیں نہ منتشر ہوتے ہیں۔ اخوت کا رشتہ بھائی اور بھائی کا رشتہ ہے۔یعنی یہ ایک دوستی ، محبت، مودت اور تعاون کا رشتہ ہے جو تمام مسلمانوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔
اخوۃ ’’اخا‘‘ کا مصدر ہے، جو یک جہتی اور مودت کا اظہار ہے۔اصطلاح میں اسلامی اخوت ’’باہمی یک جہتی اور مودّت اور افرادِ معاشرہ کے درمیان تعاون کا تعلق ہے۔یہ مسلمانوں کے درمیان ایسا تعلق ہے جس کی بنیاد اللہ پر ایمان، اس کے تقوی ٰاور خشیتِ الٰہی پر ہے۔ یہ دونوں جانب الحب للہ کے فروغ کا ذریعہ ہے۔یہ بھائیوں کے درمیان ایسی محبت، اخلاص،وفا، اعتماد، اور دوستی ہے جس میں نہ کوئی دنیاوی غرض ہے نہ مفاد، بلکہ یہ ایک سچائی کی بنیاد پر قائم رشتہ ہے۔
اسلامی اخوت اللہ تعالیٰٰ کا مومنوں پر بہت بڑا احسان ہے۔ یہ محبت کی فضا ہے، اور مومن گروہوں کی باہمی مضبوطی کا نام…

مزید پڑھیں

رب کی جنت – بتول اکتوبر۲۰۲۲

نعمت بھری جنت اللہ تعالیٰ کا وہ انعام ہے جو اس نے اپنے متقی بندوں کے لیے تیار کیا ہے، اور اس کا وعدہ کیا ہے۔ اور اسے بندوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھاہے۔یہ نقص اور عیب سے پاک ایک محفوظ مقام ہے جس میں من چاہی نعمتیںمیسر ہوں گی۔یہ ابدی قیام کا ایسا گھر ہے جس کی کوئی مثیل نہیں۔جنت کا سرچشمہ اللہ کے کرم، اس کی عطا اور اس کے فضل اور عنایت سے پھوٹتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور نبی اکرمﷺ نے احادیث کے ذریعے اس جنت کا تعارف کروایا ہے، اور یہ کہہ کر اشتیاق کو دوبالا کر دیا ہے کہ:
’’ان کے لیے ان کے رب کے پاس سلامتی کا گھر ہے‘‘۔ (الانعام،۱۲۷)
یعنی ایسی جنت جہاں انسان ہر آفت سے محفوظ اور ہر خرابی سے مامون ہو گا۔
ایک اور مقام پر ان نعمتوں کو انتہائی پیارے انداز میں بیان کیا ہے:
’’پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے‘‘۔ (السجدۃ،۱۷)
یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ خفیہ تعلق کی تعبیر کا عجیب انداز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود اپنے دوستوں کے لیے…

مزید پڑھیں

قرآن ہمارا دستورِ حیات – بتول اپریل ۲۰۲۳

القرآن دستورنا
قرآن کریم آسمان والے کی جانب سے زمین والوں کے لیے عظیم تحفہ ہے۔یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے، یہ ذکرِ حکیم اور صراط المستقیم ہے۔اس سے عقل میں ٹیڑھ نہیں آتی اور نہ ہی زبان کسی التباس کا شکار ہوتی ہے۔علماء اس سے سیر نہیں ہوتے اورنہ ہی اس کے عجائب ختم ہوتے ہیں۔ یہ مضبوط ومتین کلام ہے محض ہنسی مذاق نہیں۔
انسان کی دنیا وآخرت کی حقیقی فلاح کا واحد ذریعہ اللہ کے بتائے ہوئے دستور ِ حیات کی پیروی ہے۔قرآن کے سائے میں زندگی بسر کرنا ایک نعمتِ عظمیٰ ہے۔اس کی شان اور لذت وہی جانتا ہے جو اس سے لطف اندوز ہؤا ہو۔ اس سے زندگی کتنی بابرکت ہو جاتی ہے، اس کی شان کس قدر بلند ہو جاتی ہے، اور اسے باطل سوچ اور نظریات اور فاسقانہ اعمال سے کس قدر دور کر دیتی ہے، اور اسے کس قدر پاک اور اور ہر گندگی اور نجاست سے آزاد بنا دیتی ہے، اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس نے اس کا تجربہ کیا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ایک ہی ضابطہء حیات بنایا ہے تاکہ وہ ہر معاشرے میں چلے۔انسانی ترقی کے ہر مرحلے میں اور بنی نوع انسان کے ذہنی ارتقا…

مزید پڑھیں

اعجازِ قرآن – بتول مئی ۲۰۲۳

(اس جیسا کوئی کلام نہیں )
رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو معجزات عطا ہوئے ان میں سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہیں، جو وحی آسمانی پر مشتمل ہے۔ اور یہی وہ معجزہ ہے جس پر اللہ نے تحدّی کی ہے اور اعلان ِ عام کیا ہے کہ کوئی اس کی مثال پیش کرے، اور پھر قیامت تک کے لیے اس کی پیش گوئی بھی فرما دی کہ دنیا اس کی مثالیں پیش کرنے سے عاجز اور درماندہ رہے گی۔
قرآن وہ کلامِ معجز ہے جسے حضرت محمد ؐ پر تقریباً ۲۳ برس تک مختلف شذرات کی صورت میں نازل کیا گیا، جسے صحیفوں میں لکھا جاتا ہے اور جو آپؐ سے بتواتر منقول ہے۔جس کی تلاوت عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔
اعجاز کا لفظ ’’عجز‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی عدم قدرت و استطاعت کے ہیں۔ اور معجزہ کسی کام کے خارق ِ عادت ہونے کو کہتے ہیں، یعنی جس پر عام قانون کا اطلاق نہ ہوتا ہو، اور وہ ایک چیلنج ہو۔
اعجاز ِ قرآن کے معنی یہ ہیں کہ قرآن ِ کریم فصاحت، بلاغت اور بیان کے اعتبار سے ایسا اعلیٰ اور ممتازکلام ہے کہ تمام انسان اور جن مجتمع ہو کر بھی اس جیسا…

مزید پڑھیں

ماسی نامہ – بتول جون ۲۰۲۳

بچپن کی یادوں میں ایک ہلکی سی یاد ماسی سیداں کی ہے جو گاؤں میں امی جان کی مددگار تھی۔
جب ہم واہ شفٹ ہوئے تو میں ماسی کی یاد میں بیمار ہو گئی تھی، اور جب ماسی کچھ عرصے بعد ملیں تو انہوں نے بھینچ بھینچ کر پیار کیا۔ وہ مجھے پیار سے بلی کہتی تھیں (یہ الگ بات ہے کہ یہ نک نیم مجھے کسی اور کی جانب سے گوارا نہ تھا، اور بڑی بہن کے بلی پکارنے پر تو ناراض ہو جاتی تھی)ہم گاؤں گئے تو انہوں نے مزے دارستو شکر بھون کر کھلایا۔وہ ایسی وفادار ماسی تھیں کہ ہمارے ساتھ امی جان کے میکے تک چلی جاتیں اور نانا جان کے آخری مرض میں انہیں خون کی ضرورت پڑی تو ماسی کا بلڈ گروپ ان سے میچ کر گیا، مگر ڈاکٹر نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ انہیں تو خود خون کی ضرورت ہے۔ میں سکول کی ابتدائی کلاسوں میں تھی جب ایک روز قاصد ان کے انتقال کی خبر لے کر آیا۔
راولپنڈی شہر میں سب سے زیادہ ہمارے گھر میں ماسی زیبنی کا وقت گزرا، جو گھر کے عقب میں رہتی تھیں، ہماری بھینسوں کو بھی سنبھالتی تھیں، اور چھت سے دی…

مزید پڑھیں

اجرت پر کام – بتول جون ۲۰۲۳

اسلام میں آجر اور اجیرکا تصور
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کوتکریم بخشی ہے۔ اسلام میں آجریعنی اجرت پر کام کروانے والا بھی معزز ہے اور اجیریعنی اجرت کے بدلے کام کرنے والا بھی! انسان کو روزی کمانے اور اپنی معاش کا انتظام کرنے کے لیے جسمانی، یا دماغی محنت کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اسلام اس پر ابھارتا ہے۔اور جو لوگ مشقت کر کے اپنی روزی حاصل کرتے ہیں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔انبیاء علیھم السلام جو عزت و شرافت کے اعتبار سے پوری انسانیت کا جوہر ہیں انھوں نے خود محنت مزدوری کی، اور بکریاں چرانا اور گلہ بانی کرنا تمام انبیاء علیھم السلام کا پیشہ رہا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے مزدور کے ہاتھوں میں پڑنے والے گھٹے کو بوسہ دیا ہے۔
حضرت موسیٰؑ کی مزدوری کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے کہ مدین کے کنویں پر جب انہوں نے دو لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلایا، تو کچھ دیر بعد ان میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی ان کے پاس آئی اور بولی:’’میرے والد صاحب آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو جو پانی پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں‘‘۔(القصص،۲۵)اور ایک بیٹی نے…

مزید پڑھیں

ماسی نامہ -دوسرا حصہ – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

۲۰۰۴ میں ہمارے بچے کویت منقل ہو گئے، ہم نے ان کے ہمراہ گرمیوں کی چھٹیوں کے مزے لیے، ستمبر میں ہمیں ایک سمسٹر کی پڑھائی کے لیے پھر پاکستان آنا پڑا۔ ہمارا قیام والدہ صاحبہ کے گھر تھا، جو ان دنوں کافی علیل تھیں۔بستر پر لیٹے لیٹے اپنی مددگار کو ہدایات دیتیں اور وہ ناشتا کھانا سب تیار کر کے گرما گرم انہیں پیش کر دیتی، اور اب تو ان خدمتوں میں ہم بھی شامل ہو گئے۔ ایک روز چائے کا کپ ختم کرنے کے بعد اس کی تہہ میں جھانکا تو کچھ داغ نظر آئے، ہم امّی جان کی لاڈلی رخسانہ صاحبہ کو سمجھانے باورچی خانے میں گئے، کہ کچھ داغ واقعی برے ہوتے ہیں، اور صحت کے لیے نقصان دہ بھی! رخسانہ صاحبہ نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ چائے کے کپ دوبارہ دھو کر رکھ دیے۔ اگلے روز کھانا بنانے کے لیے کچن کا رخ کیا تو ایک دو نہیں ساری دیگچیاں اور پریشر ککر داغ شدہ پائے۔ ہمیں شدید رنج ہئواا، ہماری پیاری امی جان جو اتنی نفیس اور سلیقہ مند تھیں، جو ماسیوں سے صفائی ستھرائی کرواتیں تو انہیں بھی صاف ستھرابنا دیتیں، اور آج وہ بستر پر پڑ گئیں ہیں تو ان کا کچن…

مزید پڑھیں

دوسرا حصّہ – اعجازِ قرآن – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

اس جیسا کوئی کلام نہیں !
 
حضورِ اکرم ﷺ کو اللہ تعالی نے دین کی دعوت کے لیے دو معجزوں سے لیس کر کے میدان عمل میں اتارا۔ ایک معجزہ ٔکردار اور دوسرا معجزۂ قرآن۔وہ قرآنِ عظیم جو پے در پے اور موج در موج آپؐ پر نازل ہو رہا تھا۔اس کے سامنے بڑے بڑے خطیبوں، شاعروں، ادیبوں، شعلہ بیان مقرروں اور زبان آوروں کی زبانیں گنگ تھیں۔وہ جلیل و جمیل،عظیم وکبیر، فصیح و بلیغ، زور آور و زور دار، ہولناک و ہیبت ناک ، دہشت ناک و مرعوب کن، گرفت کرنے والا اور دبا دینے والااور وراء الوراء ہیبت کا حامل بالاتر از انسان الٰہی کلام تھا۔ قرآن ایک ایسا معجزہ ، جس کا کسی کے پاس کوئی توڑ نہ تھا، جو سیلاب کی مانند یلغار کرتا، برق کی طرح کڑکتا، بارش کی طرح برستا، بادل کی طرح چڑھتا، بجلی کی طرح کوندتا، دریا کی طرح لہریں مارتا، طوفان کی طرح امڈتا اور پھولوں کی طرح مہکتا تھا، یہ دعوت ِ اسلامی کا انقلاب آفرین ہتھیار تھا۔
قرآن کی خصوصیات
قرآن کی خصوصیات حیران کن ہیں، یہ جمیع الاوصاف کتاب ہے:
ث اس میں علوم ِ عقلی اور علومِ روحانی و اخروی دو نوں پرزور دریاؤں کی طرح پہلو بہ پہلو جوش مارتے…

مزید پڑھیں

اللہ کی طرف بلانے والے رسول ﷺ – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا، اور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے پے در پے انبیاء و رسل بھیجے، جو اللہ تعالیٰ کے خاص نمائندے تھے۔ جنھوں نے ہر دور میں انسانوں کو اللہ کی طرف بلانے کا فریضہ انجام دیا۔جن کی دعوت کا پہلا نکتہ اللہ کی توحید کا بیان اور شرک کا ابطال تھا۔ ہر نبی کی دعوت یہی تھی، کہ صرف اللہ کی بندگی کرو، صرف اکیلا وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کا تقوی کیا جائے۔ کوئی دوسرا اس لائق نہیں کہ اس کی ناراضی کا خوف، اس کی سزا کا ڈر اور اس کی نافرمانی کے نتائجِ بد کا اندیشہ انسانی اخلاق کا لنگر اور انسانی فکرو عمل کے پورے نظام کا محور بن کر رہے۔
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کے دونوں گروہوں کو اپنی بندگی اور عبادت کے لیے پیدا کیا، تاکہ وہ اللہ وحدہ کی عبادت کریں اور اس میں کسی کو شریک نہ کریں، تاکہ وہ اللہ کے شکر گزار بندے بنیں اور اس کی ناشکری نہ کریں۔اور کیونکہ عبادت اور بندگی کے طریقوں کی معرفت اللہ کے رسولوں ہی کے ذریعے ممکن ہے۔اور اسی دعوت کے بیان کے لیے کتابیں نازل ہوئیں۔اللہ تعالیٰ کا امتِ…

مزید پڑھیں

اخوت – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

مؤمن تو آپس میں بھائی ہیں
 

اللہ تعالیٰ نے امت ِ مسلمہ کو ایک عالمگیر برادری بنایا ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو دنیا کے کسی اور یا مسلک کے ماننے والوں میں عنقا ہے۔یہ وہ عالمگیر برادری ہے جو شرق، غرب اور شمال جنوب کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں مضبوطی کے ساتھ جوڑ کر رکھتی ہے۔اور جماعتِ مسلمہ کے درمیان محبت، سلامتی، تعاون و اتحاد ہی باہمی تعلق کی بنیاد ہے۔
اور یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ اس نے تمام امت کو اخوت کے رشتے میں جوڑ دیا:
’’اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے‘‘۔ (آل عمران، ۱۹۳)
یہ اسلامی سوسائٹی کی بنیاد ہے۔ صرف اللہ نام پر برادری، اسلامی نظامِ زندگی کی رفاقت، اسلامی نظام ِ زندگی کے قیام کے لیے جدو جہد کرنے کی رفاقت! اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے بکثرت ارشادات میں بیان فرمایا ہے، جن سے اس کی پوری روح سمجھ میں آ سکتی ہے۔
اسلام سے پہلے پورا عرب ایک دوسرے کا دشمن تھا، بچہ بچہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کا دشمن تھا۔ ایک ایک خون کا بدلہ کئی کئی پشتوں تک چلتا تھا۔ اس…

مزید پڑھیں

آخرت- بتول ستمبر ۲۰۲۱

عقیدہء آخرت اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بعد عقیدۂ آخرت ہی انسان کی زندگی کو درست رنگ اور سمت عطا کرتا ہے۔انسان کی زندگی کے دو مراحل ہیں، ایک محدود اور دوسرا لا محدود۔دنیا کی زندگی محض ایک ساعت یا دن کا کچھ حصّہ ہے اور آخرت کی زندگی حیاتِ جاوداں ہے۔ دنیا کی زندگی اس کرۂ ارضی پر ہے اور آخرت کی مکانی وسعت میں کامیاب لوگوں کا مقام جنت ہے جو ’’کعرض السماء والارض‘‘ (زمین و آسمان کی وسعت جیسی )ہے، اور ناکام لوگوں کا مقام جہنم ہے، اور وہ بھی اتنی وسیع ہے کہ اس میں اول وآخر کے تمام فاجرین پورے آجائیں گے اور وہ پھر بھی نہ بھرے گی۔
قرآن کریم میں دنیا و آخرت دونوں کے الفاظ (۱۱۱) مرتبہ وارد ہوئے ہیں۔آخرت اپنے الفاظ اور معنی دونوں میں دنیا کے برعکس ہے۔ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی رہنے والی، دنیا لھو و لعب اور کھیل تماشا ہے تو آخرت اصلی حقیقی اور پائیدار زندگی! دنیا دھوکے اور فریب کا گھر ہے تو آخرت سچائی اور حقیقت کا مقام۔دنیا اور اس کی ہر شے فنا ہونے والی ہے اور آخرت کی زندگی کو خلود حاصل ہے۔
آخرت کا تعلق علم…

مزید پڑھیں

وعدہ پورا کرنے کی اہمیت- بتول جون ۲۰۲۱

وعدے کا پاس رکھنا اور اسے پورا کرنا یعنی ایفائے عہد انبیا و رسل علیھم السلام کی صفات میں سے اور متقین و صالحین کی نشانیوں میں سے ہے۔ایفائے عہد ربانی ادب ہے، یہ اعلیٰ اخلاقی وصف اور بلند پایہ اسلامی رویہ ہے۔مسلمان اپنے عہد کی حفاظت کرتا ہے اور اسے پورا کرتا ہے خواہ وہ لکھا گیا ہو یا محض زبانی طور پر کیا گیا ہو۔ مسلمان جب عہد کر لے تو ایفائے عہد لازم ہے، اور یہ بھی اس کے لوازمات میں سے ہے کہ عہد اللہ کی فرمانبرداری کے دائرے میں ہو اور خیر کے کاموں کا ہو، اور اس کی حدود کو توڑنے اور اس کے کسی حکم کی نافرمانی پر مبنی نہ ہو ورنہ نہ کوئی عہد ہے اور نہ اس کے ایفاکا تقاضا۔
ایفائے عہد سے مراد عہد و پیمان کی حفاظت کرنا ، وعدوں کو پورا کرنا، اور جس چیز کا وعدہ کیا ہو اسے پوری سچائی اور امانت داری سے ادا کرنا۔ عہد کی پابندی مردوں کا شیوہ اور عظیم لوگوں کی صفت ہے۔رسول کریمﷺ کے مکارم ِ اخلاق میں عہد کی پابندی بدرجہ اولٰی شامل ہے۔رسول اللہ ؐ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی عہد نہیں توڑا۔ قرآنِ کریم میں عہد کے…

مزید پڑھیں

عدل و انصاف – بتول جولائی ۲۰۲۱

اسلام میں انصاف کی تلقین کی گئی ہے۔ انصاف راست بازی اور سچائی ہی کی عملی شکل ہے۔اس کے معنی ہیں کہ ہر شخص سے وہ معاملہ کیا جائے اور اس کے بارے میں وہ بات کہی جائے جس کا وہ مستحق ہو۔انصاف ہر انسان کا حق ہے اور بحیثیت انسان اسے ملنا چاہیے۔ قرآن ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی جانب رہنمائی کرتا ہے، جہاں ایسی عالمی دعوت اور تحریک برپا کی جائے جو کسی گروہ، قبیلے اور کسی نسل کی طرف دار نہ ہو۔ اس دعوت میں اجتماعی رابطے اور تعلق کی بنیاد کسی عصبیت اور قومیت پر نہ ہو۔اور ان تعلیمات اور اصولوں پر افراد ِ اقوام اور امم کو پورا بھروسہ ہو۔ یہ ایسا عادلانہ نظام ہو، جو کسی کی خواہش سے متاثر نہ ہو۔ رشتہ داری اور اقربا پروری کا اس میں نام بھی نہ ہو۔ امیر و غریب کے لیے یکساں ہو، اور قوی اور ضعیف کے حقوق اس میں برابر ہوں۔ یہ عدل اپنی راہ میں سیدھا چلے اور اس میں سب کے لیے ایک ہی معیار اور ایک ہی پیمانہ ہو۔
انصاف کے معنی
انصاف کا مادہ ’’ن ص ف‘‘ ہے، اور یہ فعل متعدی ’’انصف‘‘کا مصدر ہے۔ اس کے معنی ہیں’’کسی کو کسی…

مزید پڑھیں

صبروثبات – بتول اگست ۲۰۲۱

صبر وہ وصف ہے جو انسان کو مصائب برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے۔وہ ایسا باہمت ہو ہر مشکل کا مقابلہ کرے، نہ مصیبت کو دیکھ کر دل ہار جائے، اور نہ جزع فزع کرنے لگے، بلکہ صبر ،مصابرت اور تحمل اور برداشت سے کام لے، اور حق کو مضبوطی سے تھام لے۔امت ِ مسلمہ کو پوری دنیا کے سامنے حق کی گواہی پیش کرنے کا منصب سونپا گیا ہے، اسے دنیا میں عدل قائم کرنا ہے اور پوری انسانیت کی اصلاح کا فرض ادا کرنا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دولتِ صبر سے مالا مال ہو۔
ایمان کے دو حصّے ہیں، ایک صبر اور دوسرا شکر۔ مومن ان دونوں کا حریص رہتا ہے،اور وہ ان دونوں کو تھامے ہوئے رب کی راہوں پر چلتا ہے اور اس کی زندگی صبر و شکر کا مجموعہ بن جاتی ہے۔صبر ایسی سواری ہے جو سوار کو اوندھے منہ نہیں گراتی، اور مشکلات میں سیدھا کھڑا رکھتی ہے۔وہ ایسا لشکر ہے جو پسپا نہیں ہوتا، اور ایسا قلعہ ہے جو مضبوط ہے۔صبر کے ساتھ نصرت ملتی ہے اور کرب کے بعد فراخی میسر آتی ہے۔اور تنگی کے ساتھ آسانی ملتی ہے، زندگی کی مشکلات اور مصائب میں صابرین ہی کامیاب ہوتے…

مزید پڑھیں

نگاہِ عشق ومستی میں وہی اوّل وہی آخر عشقِ رسول ﷺ-بتول فروری ۲۰۲۱

اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کو رسالت کا فریضہ ادا کرنے کے لیے مبعوث فرمایا، اور آپؐ نے اس فرض کو پوری لگن اور جانفشانی سے ادا کیا، اور انسانوں کو قعرِ مذلت سے اٹھا کر شرفِ انسانیت کی بلندی پر لا کھڑا کیا۔ آپؐ سے جتنی بھی محبت کی جائے اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل آپؐ کی محبت کے اسیر ہیں۔ وہ اس ذات سے عشق کرتے ہیں جو محسنِ انسانیت اور رحمت للعالمین ہے۔
عشقِ رسولؐ کیا ہے؟
مومن کے دل کا ایسا لگاؤ کہ وہ اس ذات کے سامنے اپناسب کچھ لٹانے کو تیار ہو جائے، اس کے والدین، اولاد، بہن بھائی، ازواج، قوم، قبیلہ، مال و دولت، گھر، تجارت، عیش پسند زندگی اور اس کے سب لوازمات اللہ اور اس کے رسولؐ کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہ رکھتے ہوں، بلکہ اسے اپنے آپ سے بھی وہ محبت نہ ہو جیسی خالص محبت اللہ اور اس کے رسول ؐ کے لیے ہو۔وہ ہر آن اس فکر میں غلطاں رہے کہ اللہ اور اس کے رسول ؐکو کس طرح خوش اور راضی رکھے۔اپنے قول اور عمل سے مسلسل اسی محبت کو پیش کرتا رہے، اور یہ اس…

مزید پڑھیں

اللہ کا تقویٰ-بتول مئی ۲۰۲۱

اللہ کا تقویٰ بندے کوگناہ سے بچانے کا بڑا سبب ہے، اور یہ ایمان کے بڑے مقامات میں سے ہے۔ تقویٰ قیامت کے روز نجات کا سفینہ ہو گا۔قرآن کریم میں تین سوسے زائد مرتبہ تقویٰ کے مشتقات کا ذکر آیا ہے۔ اور ۸۱ مرتبہ تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جو اس کی انسانی زندگی میں اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تین مرتبہ فرمایا: ’’انّ اللہ یحب المتقین‘‘ بلا شبہ اللہ متقین سے محبت کرتا ہے۔تو یہ متقین کے لیے کس قدر خوشی کی بات ہے۔
تقویٰ کے لغوی معنی بچاؤ اور حائل ہو جانے کے ہیں، یہ’’ وقی ‘‘ سے بنا ہے۔ یعنی تقویٰ بندے کو اللہ کے غضب اور اس کی معصیت سے بچاتا ہے۔ تقویٰ بندے میں اللہ کا خوف اور اس کی خشیت پیدا کرتا ہے، بندہ اپنی عبادت کو صرف اسی کے لیے خالص کر لیتا ہے اور اس سے ڈر کر گناہوں اور معصیت کے کاموں سے اجتناب کرتا ہے۔
تقویٰ کیا ہے؟
تقویٰ وہ بنیادی شرط ہے جو ہدایت اور رہنمائی کے راستے پر چلنے کے لیے ضروری ہے۔ قرآن کتابِ ہدایت ہے اور یہ ’’ھدیََ للمتقین‘‘ ہے۔اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ’’متقی‘‘…

مزید پڑھیں

قبول ہے! -بتول اپریل ۲۰۲۱

آسمان پر بادل چھائے اور خوب برسے، پسینہ میں شرابور نفوس نے جہاں سکھ کا سانس لیا وہاں ان کے چہروں پر تشویش کی لہر بھی تھی۔ پہاڑی راستے کی مسافر بارات کہیں تاخیر نہ کر دے۔ ظہر کی اذان سے قبل مسجد کے قرب میں دو ویگنیں آ کر رکیں اور جن سے تین خواتین اور کچھ مرد باہر نکلے۔ بارات کا استقبال خوش آمدیدی کلمات سے کیا گیا، سب باراتیوں میں دولہا کی پہچان اس کا سہرا اور ہار نہیں بلکہ اس کے چہرے کے لو دیتے دیے تھے، اور سڈول جسم پر کھبتا ہؤا سفید قمیص شلوار اور بسکٹی رنگ کی واسکٹ!(شاید دولہا کا کردار ہی خاص ہوتا ہے)۔
نماز ِ ظہر تک کچھ اور مہمان بھی مسجد میں پہنچ گئے اور خطبہ نکاح اور’دولہا دلہن کے‘قبول ہے ‘‘ کے تحریری اقرار نامے کی خوشی میں سب کو مٹھائی پیش کی گئی۔دولہا کا تعلق آزاد کشمیر کے ایک شہر سے تھا اور دلہن راولپنڈی کی رہائشی تھی، جس نے لاہور ملتان اور فیصل آباد کے علاوہ کو ئی شہر نہ دیکھا تھا۔ آزاد کشمیر کا رہن سہن اور تہذیب و تمدن تو دور کی بات اسے تو اس کا حدود اربعہ تک معلوم نہ تھا۔ دونوں خاندانوں کے…

مزید پڑھیں

صیام اور قرآن -بتول اپریل ۲۰۲۱

مومن کے لیے صوم (روزہ) اور قرآن ، رمضان المبارک کے دو بڑے تحفے ہیں۔ان کے ذریعے وہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے۔روزے کی مشقت میں وہ صبر کر کے بڑی نیکیاں کماتا ہے،وہ دن کو تلاوت ِ قرآن کی سعادت حاصل کرتا ہے اور رات کو قیام اللیل میں قرآن کی آیات سے اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے، یہی وقت تو قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ سارا دن صبر کے ساتھ مشقت میں گزارنے والا بندہ رات کو تھکاوٹ سے چور ہونے کے باوجود نرم بستر کو چھوڑ کر جسم کی پکار کو روند ڈالتا ہے۔ یہ گویا اعلان ہے کہ اس نے اللہ کی دعوت پر لبیک کہہ دیا ہے، اور اس دعوت پر وہ سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ رات کو قرآن کریم اچھی طرح پڑھا جا سکتا ہے، قیام اللیل کی اپنی مٹھاس ہے، اس وقت کی نماز نہایت ہی خشوع وخضوع سے ادا ہو سکتی ہے۔رات کے وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض و معذرت کرنے، اور اس کے بھیجے ہوئے پیغام کو سمجھنے کے لیے جو یکسوئی درکار ہے، ان گھڑیوں میں حاصل ہوتی ہے، اس میں اللہ سے محبت پیدا ہوتی ہے، دل سکون اور…

مزید پڑھیں

دوسرا اورآخری حصہ – دعا عبادت کا مغز – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ کی اللہ تعالیٰ سے دعائیں افراد کے لیے بھی ہیں، قوم اور نسل کے لیے بھی ہیں اور معزز اور محترم شہر کے لیے بھی۔آپؑ کی زندگی اہلِ ایمان کے لیے بہترین اسوہ ہے۔ کافر باپ کے لیے دعا کا وعدہ کیا لیکن جب معلوم ہو گیا کہ وہ تو دشمن ِ خدا ہے تو اس سے بھی رک گئے۔ حضرت ابرائیمؑ نے مکہ شہر کے لیے دعا ئے امن کی تھی، اور اولاد کو بت پرستی سے بچانے کی:
’’پروردگار اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا‘‘۔ (ابراہیم،۳۵)
یہ وہ انعامات ہیں جو اللہ نے انھیں دیے تھے اور وہ ان کا دوام مانگ رہے ہیں۔فرمایا:
’’پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصّے کو تیرے محترم گھر کے قریب لا بسایا ہے۔ پروردگار! یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز ادا کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انھیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں‘‘۔ (ابراہیم،۳۷)
اس دعا میں کس قدر رقت ہے اور فضا میں کس قدر سرور ہے، دل میں کتنا گداز پیدا…

مزید پڑھیں