۲۰۲۳ بتول اکتوبر

قصور وار کون؟ – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

شہر کی معروف اور مصروف ترین سڑک پہ ہجوم بڑھتا جا رہا تھا، ہر کسی کی خواہش تھی کہ صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنی رائے کا اظہار کرے ۔ وہاں ایک سائیکل والے مزدور کی ٹکر ایک کار سے ہوگئی تھی۔ ہجوم کی اکثریت کار والے کو برا بھلا کہہ رہی تھی، سب لوگ اپنے ضروری کاموں کو بھول کر اس حادثے کے ذمہ دار کا تعین کرنے میں لگے ہوئے تھے، راہ گیر زیادہ تر درمیانہ طبقہ تھا جس کی رائے یہ تھی کہ قصور کار والے کا ہے، عینی شاہد وں میں سے کسی نے سائیکل والے کا قصور ظاہر کرنے کی کوشش کی تو کسی نے اس بات پہ توجہ نہ دی۔ سب کار والے کی امارت کو لعن طعن کر رہے تھے اور کار کو نقصان پہنچا نے پہ آمادہ تھے ، اس بات کو جانے بغیر کہ معاملہ کیا ہے۔ سب اپنا وقت برباد کر رہے تھے جیسے دنیا میں اس سے اہم کوئی کام نہیں ہے۔
ٹریفک کے قوانین کے کچھ بین الاقوامی اصول و ضوابط ہوتے ہیں ۔دانشوروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کی ، ذہنی تربیت، اخلاقی رویے، وقت کی اہمیت ، کا اندازہ ٹریفک قانون کی پاسداری…

مزید پڑھیں

محشرِ خیال

پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘ ‘ اب کے مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا تحریر کردہ اداریہ دل دہلا دینے والا ہے ۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر جس پُر درد اور تلخ لہجے ( اور سچ تلخ ہی ہوتا ہے )میں آپ نے تبصرہ کیا ہےاُسے جرأت مندانہ ہی کہا جا سکتا ہے ۔ واقعی حالاتِ حاضرہ پر آپ کی کڑی نظر رہتی ہے جو ہر ماہ تبصرے کی شکل میں ہمارے سامنے آجاتی ہے ۔ کاش ارباب اختیار بھی یہ تبصرہ غور سے پڑھ لیا کریں ۔ اداریہ کے یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ نبی اکرمؐ نے جس شاندار ریاست اور معاشرے کی بنیاد ڈالی اُس کی ایک مثال دنیا کے سامنے پیش کریں ، سچ ، دیانت داری ، امانت کا پاس، عدل وانصاف ، مساوات ، شجاعت ، خودداری ، محنت ، خود انحصاری ، ایک دوسرے کی خیر خواہی ، بھائی چارہ اور حقوق العبادمیں کمال حاصل کریں ‘‘۔ مدیرہ صاحبہ نے تو اسلامی تعلیمات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے۔واقعہ کربلا پربھی آپ کا تبصرہ زبردست ہے ۔یہ جملے قابل داد ہیں ’’ واقعہ کربلا اصول پسندی، جرأت و شجاعت ، فرض شناسی اور حق گوئی کی…

مزید پڑھیں

پل صراط پر – دیارِ غیر کی ہجرت – سوشل میڈیا سے

ایک دلخراش گوشوارہ….شیخ علی طنطاوی کی پوتی کی تحریرجو بہت سی خوش گمانیاں ختم کردیتی ہے
آج بڑی تیزی سے اہل اسلام یورپ اورمسیحی ممالک کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ پہلے بھی کرتے رہے ہیں؛ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بنیاد مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے ان کی نسلیں ان کے ہاتھوں سے نکل رہی ہیں اور کنبے کا کنبہ مرتد ہوتا چلا جارہا ہے۔ معروف مصری عالم شیخ علی الطنطاوی کی پوتی مومنہ العظام کی اس سلسلے میں ایک چشم کشا، فکر انگیز اور دل و دماغ جھنجھوڑ دینے والی ایک رپورٹ پڑھیے، وہ کہتی ہیں کہ:
میرے داداشیخ طنطاوی نامور عالم و فاضل ہونے کے ساتھ بڑے روشن دماغ اور مستقبل شناس تھے۔ دادا کی عالمی شہرت کی وجہ سے ہمارے پاس یورپ جانے کے بہت سے مواقع تھے، آسانی سے ویزے مل سکتے تھے؛ لیکن وہ ہمیں ہمیشہ دیارِ غیر میں جانے سے روکتے تھے۔ مجھے بڑا غصہ آتا تھا کہ یہ کیا دقیانوسیت ہے، سارے لوگ ہجرت کررہے ہیں، زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں؛ مگر ہمارے مذہبی خاندان نے عجیب قسم کی پابندی ہمارے اوپر لگا رکھی ہے۔
لیکن جب میں بڑی ہوئی، یورپ کے دورے کیے،اور بہت سارے مہاجر خاندانوں سے…

مزید پڑھیں

غذا وصحت – ماں کا دودھ قدرت کا انمول تحفہ – ڈاکٹر ناعمہ شیرازی؎۱ , تحریر : آسیہ راشد

ماں کا دودھ قدرت کا انمول تحفہ ہے ۔ جس میں نوزائیدہ بچے کے لیے مکمل غذائیت موجود ہے ۔ اس سے بڑھ کر کوئی غذا نہیں جو بچے کی بہترین نشوونما میں مدد کر سکے اس میں نہ صرف غذائیت کے بھرپور اجزا موجود ہیں بلکہ اس میںقوت مدافعت بڑھانے والے صحت بخش لحمیات(antibodies)موجود ہیں جو بچے کو بہت سی بیاریوں سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ جیسے کہ دست ، ڈائریا وغیرہ ۔ اس کے علاوہ ماں کا دودھ بچے اورماں کے درمیان مامتا کا قریبی تعلق اور خوبصورت احساس پیدا کرتا ہے ۔ جو بچے پہلے چار سے چھ ماہ میںماں کا دودھ پیتے ہیںاور دوسرا کوئی ٹاپ فیڈاستعمال نہیںکرتے وہ نسبتاً باقی بچوں سے کم بیمار ہوتے ہیں۔ ان کی قوت مدافعت اور آئی کیو لیول باقی بچوں سے بہتر پایا گیا ہے۔ اسی طرح ایک نئی تحقیق کے مطابق دمہ (asthema)الرجی (allergy)اور دیگرایگزیما (eczema) کا کم شکار ہوتے ہیں ۔ ایک اور ریسرچ کے مطابق ماں کا دودھ پینے والے بچوں کی شرح اموات infant mortalityبھی دو اڑھائی فیصد کم ہوتی ہے نسبتاً ان بچوں کے جو کسی بھی وجہ سے ماں کا دودھ نہیں پی پاتے۔ اسی طرح اگرچہ پہلے چھ ماہ تک صرف ماں…

مزید پڑھیں

آذربائجان کی سیر – ماہ جبین

’’اس بار چھٹیوں میں جا رہی ہیں پاکستان؟‘‘سہیلی نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے عادتاً پوچھا۔
’’نہیں‘‘ ہم نے مختصر جواب دیا۔
’’پھر؟‘‘مزید استفسار ۔
’’آذربائجان جائیں گے‘‘۔
’’ہائیں‘‘حیرت کا شدید جھٹکا تھا جو انہیں لگا ’’لو بھلا یہ کون سی جگہ ہے…گھومنے کولوگ دبئی جاتے ہیں ترکی جاتے ہیں‘‘۔
ہم شرمندہ سے ہو گئے ۔دل میں پہلے ہی چور تھا لہٰذا شام کو میاں کے آتے ہی ان پر چڑھائی کر دی۔
’’بھلا آپ کو آذربائجان کی کیا سوجھی؟ آج تک کسی سے نہیں سنا کہ کوئی گھومنے گیا ہو۔ بندہ ایسی جگہ تو جائے کہ بتاتے ہوئے کچھ فخر محسوس ہو‘‘۔
میاں صاحب جو فیس بک کے سمندر میں غوطے لگا رہے تھے جھٹ باہر نکل آئے اور منہ اونچا کر کے ہمیں یوں گھورنے لگے گویا ہم نے دنیا کی کوئی احمق ترین بات کر دی ہو۔ دوسرے ہی لمحے ہمارے سامنے مختلف یوٹیوبرز کی ویڈیوز تھیں، گوگل پر آذربائجان ٹور گائڈز کی ویب سائٹ، لوگوں کے ریویوز ،تصویریں وغیرہ وغیرہ۔ بچے پہلے ہی ہر چیز سرچ کر کے رکھ چکے تھے ۔آذربائجان کا نقشہ، مشہور مقامات، اہم چیزیں ۔یوں بھی وسط ایشیا کے مسلم ممالک خصوصاً روس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کی سیر یقینا ًایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوگا۔ ہمیں…

مزید پڑھیں

آذربائجان کی سیر – ماہ جبین

’’اس بار چھٹیوں میں جا رہی ہیں پاکستان؟‘‘سہیلی نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے عادتاً پوچھا۔
’’نہیں‘‘ ہم نے مختصر جواب دیا۔
’’پھر؟‘‘مزید استفسار ۔
’’آذربائجان جائیں گے‘‘۔
’’ہائیں‘‘حیرت کا شدید جھٹکا تھا جو انہیں لگا ’’لو بھلا یہ کون سی جگہ ہے…گھومنے کولوگ دبئی جاتے ہیں ترکی جاتے ہیں‘‘۔
ہم شرمندہ سے ہو گئے ۔دل میں پہلے ہی چور تھا لہٰذا شام کو میاں کے آتے ہی ان پر چڑھائی کر دی۔
’’بھلا آپ کو آذربائجان کی کیا سوجھی؟ آج تک کسی سے نہیں سنا کہ کوئی گھومنے گیا ہو۔ بندہ ایسی جگہ تو جائے کہ بتاتے ہوئے کچھ فخر محسوس ہو‘‘۔
میاں صاحب جو فیس بک کے سمندر میں غوطے لگا رہے تھے جھٹ باہر نکل آئے اور منہ اونچا کر کے ہمیں یوں گھورنے لگے گویا ہم نے دنیا کی کوئی احمق ترین بات کر دی ہو۔ دوسرے ہی لمحے ہمارے سامنے مختلف یوٹیوبرز کی ویڈیوز تھیں، گوگل پر آذربائجان ٹور گائڈز کی ویب سائٹ، لوگوں کے ریویوز ،تصویریں وغیرہ وغیرہ۔ بچے پہلے ہی ہر چیز سرچ کر کے رکھ چکے تھے ۔آذربائجان کا نقشہ، مشہور مقامات، اہم چیزیں ۔یوں بھی وسط ایشیا کے مسلم ممالک خصوصاً روس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کی سیر یقینا ًایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوگا۔ ہمیں…

مزید پڑھیں

خفتگانِ خاک – آئو فلاح کی طرف – نعیمہ ندیم

نومبر کا آخری ہفتہ آن لگا ۔ دن بہت چھوٹے ہو گئے تھے اس لیے نمازوں کے اوقات بھی کافی پیچھے آچکے تھے ۔ ابا جی پر ضعف و کمزوری غالب تھی ۔ دن دوبجے کے قریب وہ بڑی مشکل سے اٹھے ہانپتے کانپتے وضو کیا اور نماز ظہر ادا کی پھر جائے نماز پرہی لیٹ رہے۔ بڑے بھائی بھی ان کے قریب بیٹھے ، قرآن کریم کے مطالعے میں مصروف تھے ۔ ابا جی نے وقت پوچھا تو بڑے بھائی نے کہا تین بجے ہیں کہنے لگے کہ کیا عصر کی اذان ہو گئی ۔ بھائی نے بتایا کہ سوا چار بجے ہو گی، بولے مگر اہلحدیثوں کے یہاں تو اذان کچھ جلد ی ہو جاتی ہے ذرا باہر جا کر سنوشاید اذان ہو ہی رہی ہو ۔ بڑے بھائی صحن میں آئے انتہائی توجہ سے آنے والی آوازیں سننے لگے۔اندازہ ہؤا کہ محمدی مسجد اہلحدیث میں اذان ہو رہی ہے۔ مؤذن نماز اور فلاح و کامرانی کے لیے پکار رہا ہے ۔
بڑے بھائی نے کمرے میں آکر ابا جی کو بتایا کہ ہاں مسجد اہلحدیث سے اذان کی آواز آ رہی ہے جس پر وہ اٹھ بیٹھے اورمنہ قبلے کی طرف کر کے نماز ادا کرنے لگے ۔…

مزید پڑھیں

خفتگانِ خاک – یہی ہے رخت سفر میرکارواں کـے لیــے – ثریا اسما

جماعتِ اسلامی حلقۂ خواتین کی گل سرسبد تو محترمہ حمیدہ بیگم مرحومہ تھیں مگر اُن کے ساتھ ساتھ ایک پورا گروہ جس سے لوگوں نے تربیت حاصل کی محترمہ بلقیس صوفی مرحومہ، محترمہ ام زبیر مرحومہ، محترمہ زبیدہ بلوچ مرحومہ،محترمہ بنت الاسلام مرحومہ اور محترمہ نیر بانو مرحومہ تھیں۔ موخر الذکر کا انتقال دسمبر ۲۰۰۹ء میں ہؤا۔ یہ وہ خواتین تھیں جنھوں نے اپنی ایمانی و اخلاقی کیفیات سے جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے پودے کو جسم و جاں کی تمام توانائیوں سے سینچ کر ایک تن آور درخت بنایا۔
تین چار سال پیشتر ترجمان القرآن کے خاص نمبر میں حمیرا مودودی صاحبہ کا ایک مضمون ’’ہمارے والدین شجر ہائے سایہ دار‘‘ شائع ہوا جسے بعد میں انھیںبتقاضہ وسعت دے کر ایک کتابچے کی شکل میں چھپوانا پڑا۔ میں نے بہت تعریف کی اور انھیں کہا کہ ایسے مضامین و واقعات ایک دو بتول کے لیے بھی لکھیے۔ کہنے لگیں۔
’’مرحوم والدین کے حالاتِ زندگی لکھنے کے لیے ماضی میں جانے کی ہمت اب مجھ میں نہیں رہی۔ بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے، کاغذ بار بار آنسوئوں سے بھیگ بھیگ جاتے ہیں اور مجھے دوبارہ لکھنا پڑتاہے‘‘۔
بات اُن کی بالکل ٹھیک تھی اگرچہ میری وہ کیفیت تو نہیں مگر آپا جی…

مزید پڑھیں

منتخب افسانہ – متبادل راستہ – خالدہ حسین

اب میں واقعی پشیمان ہو رہا تھا۔
اورپشیمانی عجب تجربہ ہے ۔ کہیںاندر ہی اندر آدمی اپنے آپ کو ڈوبتے دیکھتا ہے ، اس وقت بھی مجھے اپنے کان بند ہوتے محسوس ہوئے ، جیسے گہرے پانی میں غوطہ لگا دیا ہو۔ مجھے اپنے آپ پر حیرت کے ساتھ ساتھ بے حد افسوس بھی ہونے لگا کہ آخر میں نے یہ سب کچھ کیوں کیا۔
وہ بڑے مزے سے میرے برابر کی سیٹ پر اپنے جملہ ساز و سامان کے ساتھ براجمان تھی۔ گاڑی کے کھلے شیشے میںسے اس کا مووی کیمرہ معلوم نہیں کیا کچھ فلم بند کرتا چلا جا رہا تھا ۔ اچانک گاڑی ایک کھڈے سے بچتی بچاتی دوسرے میں گر کر اچھلی اور سامنے وہ نابکار پتھر معلوم نہیں کہا سے آگیا ۔
’’ سوری‘‘ میں نے معلوم نہیں کتنویں بار کہا اور وہ پھر اُتنویں ہی بار اپنے پتلے پتلے لکیر نما ہونٹوں میں مسکرا دی ۔ وہ مسکراہٹ بھی نہ تھی ۔ عجب آسیبی جنبش تھی ۔ کیونکہ اس وقت وہ باہر کے دھول مٹی اَٹے مناظر فلمانے میں مصروف تھی ۔ اس لیے میں نے اسے غور سے دیکھنے کی مہلت پا لی ۔ گو سچی بات تو یہ ہے کہ اس کو اپنے اتنے قریب…

مزید پڑھیں

قسط13 – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

اظفر سے ملاقات نے پون کو مایوسیوں میں دھکیل دیا۔وہ ملک اور قوم کے مجرم کے روپ میں اس کے سامنے تھا۔ پون نے قبولِ اسلام کا اعلان کردیا اس کے والد اور بھائی سخت ناراض ہیں۔اور اس کا رشتہ چچا زاد انیل سے طے کر دیتے ہیں۔ پون خدیجہ کے گھر آ جاتی ہے جو لاہور منتقل ہو گئی تھی۔ زندگی ایک بہت بڑی آزمائش بن چکی ہے۔مگروہ تنہا نہیں ہے۔اسے یقین ہے کہ اللہ اسے ضائع نہیں ہونے دے گا۔
اُس پر آج کل کام کا بہت بوجھ تھا۔ صالحہ آنٹی اپنے کسی عزیز کی وفات کی وجہ سے دوسرے شہر گئی ہوئی تھیں لہٰذا اب ساری ذمہ داری اُسی پر تھی ۔ سارا دن کیسے گزرتا پتہ بھی نہ چلتا ۔ نین تارا کی پیشکش کے بارے میں سوچنے کا وقت ملا تھا نہ ہی وہ صالحہ آنٹی سے کوئی بات کر پائی تھی ۔ اُن سے واپس آتے ہی وہ بات کرے گی اُس نے سوچ رکھا تھا ۔
اور پھر اس نے یہی کیا تھا ۔ اُس کی بات سن کر وہ بے حد پریشان ہو گئی تھیں جس کی اسے توقع نہیں تھی۔
’’ آپ اتنا پریشان کیوں ہو رہی ہیں ؟ اگر آپ کومیرے لیے یہ نوکری…

مزید پڑھیں

بتول فائل – امّی – صبیحہ نبوت خان

’’آپ اتنے دن بعد آئی ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر میں نے آگے بڑھ کر امی کا استقبال کیا۔ میں نے امی کا ہاتھ تھاما۔ دیکھا تو دو موتی سفید براق ہاتھ پر جگمگا رہے تھے۔ یہ کس کے آنسو تھے؟ اب نظریں سوالیہ نشان تھیں۔ میں نے ان کی طرف دیکھا لیکن وہ اپنی عادت کے مطابق مسکرا رہی تھیں او رکسی خیال میں گم۔
پھر یہ کس کے آنسو تھے؟ … یہ جاننے کے لیے میں نے اپنے رخسار پر ہاتھ رکھا تو وہاں دو کیا بے شمار موتی پھیل رہے تھے۔ لیکن میں نے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی اور امی سے مخاطب رہی۔
’’آپ اتنے دن سے کہاں تھیں۔ میں روز انتظار کرتی ہوں اور آپ کو یاد کرتی ہوں‘‘ ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ میں نے ان کی طرف دیکھا۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہہ رہی تھیں۔
’’میں یہیں تو تھی تمھارے پاس! اس دن جب تم پریشان تھیں… میں نے ہی تو تمھیں پیار کیا تھا۔ کیا تم بھول گئی ہو۔‘‘ وہ رک رک کر بولتی رہیں …’’ تم بیمار ہوتی ہو تو کون تمھاری خدمت کرتا ہے؟ کون تم کو دوا پلاتا ہے ؟ کون تمھارا سر دباتا ہے؟ کون تسبیح…

مزید پڑھیں

بتو ل میگزین

مضبوط جڑیں
شازیہ نعمان
امی امی! وہ دیکھیں درخت کی جڑوں نے کیسے پہاڑ کے ایک حصے کو باندھ کر رکھا ہؤاہے اور جو حصہ پہاڑ کے ساتھ نہیں تھا وہ گر گیا ہے‘‘۔
عافیہ نے اپنی امی سے کہا جو اپنی فیملی کے ساتھ سوات کی سیر کررہی تھی۔ہاں بیٹا! جو جڑیں مضبوط ہوں اور ان کے ساتھ جڑ کر رہا جائے وہ جڑیں مضبوط حصار فراہم کرتی ہیں ۔
جیسے ہم بہن بھائی امی بابا، دادا دادی کے ساتھ مل کر رہتے ہیں اور دادا دادی ہمیں اچھی اچھی باتیں اور اپنے تجربے بتاتے ہیں۔
بالکل صحیح سمجھی میری بیٹی ۔
صائمہ کی یہ کوشش رہتی کہ کھیل وتفریح میں بھی اپنے بچوں کی تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔
یہی وجہ تھی کہ بچے بھی ہر موقع پر اچھے اچھے سوالات کرتے نصیحتیں سنتے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے۔
وقت تیزی سے گزرتا رہا ۔دیکھتے ہی دیکھتے عافیہ شادی کی عمر کو پہنچ گئی ۔
عافیہ اپنے گھر کی ہوگئی ۔عافیہ کی ساس تیز مزاج اور اس کا شوہر غصہ کا تیز تھا ۔عافیہ نے کبھی گرم مزاجی کا سامنا نہیں کیا تھا ۔اس کے امی بابا ٹھنڈے مزاج کے حامل جبکہ ساس اور شوہر بالکل متضاد ۔
شروع میں…

مزید پڑھیں

نہاں خانہِ دل – میرا حج – قانتہ رابعہ

2011ءمیں ادا کیے ہوئے اس حج کی روداد بتول میں شائع ہوئی ۔اس کا ایک احساس جس کی تکمیل اب ہوئی، نذرِ قارئین کررہی ہوں (ق۔ر)
اللہ نے حج کے لیے جس کا جووقت لکھا ہے بندہ اس سے پہلے کر سکتا ہے نہ بعد میں۔ بنے بنائے پروگرام اچانک ایسے ختم ہوتے ہیں کہ مدت تک ذہن قبول نہیں کرتا اور بسا اوقات بیٹھے بٹھائے ایسے بلاوا آجاتا ہے کہ یقین کرتے ہوئے بھی نہیں آتا۔ اس سال بہت سے قریبی عزیزوں کے علاوہ بھی لوگ حج کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔ جو بھی جاتا ہے دعاؤں کی درخواست کی جاتی ہے اور ساتھ ہی چھم سے آنکھوں میں اپنے حج کا سفر آجاتا ہے۔ ایک ایک چیز سامنے آتی ہے اور تڑپ شدید سے شدید تر ہوتی ہے کہ دوبارہ بلاوا کب آئے گا،آنکھوں کی پیاس کب بجھے گی،کب روح کوتسکین ملے گی۔ بھلا پہلا حج بھی کوئی حج ہوتا ہے! وہ تو سراسر سیکھنے کا عمل ہوتا ہے ۔کچھ کاموں کا پہلے سے علم ہوتا ہے اور کچھ کا تو علم بھی نہیں ہوتا۔
واپس آنے کے بعد مجھے بہت مدت لگی تھی اپنے شہر کے راستوں اور گلی کوچوں سے مانوس ہونے میں…. جہاں سے گزرتی وہی سڑکیں…

مزید پڑھیں

پونچھ لو اشک ذرا دیدہِ تر سے پہلے – طیبہ سلیم

’’یہ گڑیا اتنی پیاری ہے…. اس کے کپڑے کتنے اچھے ہیں‘‘….نورین نے حسرت سے لائبہ کے ہاتھ میں پکڑی گڑیا کو دیکھ کر کہا۔
’’ ہاں یہ مجھے بھی بہت اچھی لگتی ہے ۔ یہ میرے بابا نے مجھے پاس ہونے کی خوشی میں گفٹ دیا تھا‘‘ ۔ لائبہ نے فخریہ لہجے میں کہا ۔
’’ تمھارے بابا نے بہت اچھا گفٹ دیا تمہیں!‘‘نورین کی نظریں گڑیا پر ہی جمی تھیں۔
’’چلو لائبہ چلیں ! بہت دیر ہو گئی ہے ۔ بہت کھیل لیا‘‘ ۔
دانیہ اپنی پانچ سالہ بیٹی کو پارک میں کھیلنے لائی تھی۔ یہیں اس کی دوستی اپنی ہم عمر نورین سے ہوئی جوکہ بہت معصوم اور پیاری بچی تھی ۔
’’مما ! نورین کے پاس گڑیا نہیں ہے میں اسے یہ گڑیا دے دوں؟ ‘‘لائبہ نے اپنی والدہ سے اجازت چاہی ۔
’’ ہاں دے دو آپ کے پاس اور بھی ہیں‘‘ ۔
لائبہ نے خوشی خوشی وہ گڑیا نورین کو دے د ی۔ نورین کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا ۔’’ نورین آپ کہاں رہتی ہو ؟‘‘
’’یہیں قریب ہی میں‘‘….نورین ابھی تک گڑیا کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی جیسے اسے اپنی آنکھوں پہ یقین نہ آرہا ہو کہ یہ گڑیا اس کی بھی ہوسکتی ہے۔
’’ اچھا کبھی آپ کی امی…

مزید پڑھیں

بے شکن – فرح ناز

ترتیب کا اس کی زندگی میں بڑا عمل دخل تھا۔ صبح کتنے بجے اٹھنا ہے اور کتنے بجے سونا ہے سب طے شدہ تھا۔گھرشخصیت کاآئینہ ہوتا ہے ۔بکھری ہوئی یا لاابالی شخصیت کا گھر بھی بکھرا ہؤا بے تر تیب ہؤاکرتاہے اور رباب کاگھر اس کی شخصیت کی طرح مکمل اور باترتیب تھا۔
لیکن یہ ترتیب دا نیا ل کے آنے تک تھی ۔وہ جب بھی ان کے گھر آتا ہر چیز تہس نہس کر دیتااور رباب اس کےپیچھے پیچھے گھومتی رہتی۔ جہاں چادر پہ کوئی شکن پڑی اور وہیں رباب نے کھینچ کر اسے شکنوں سے پاک کیا ۔دانیال جانتا تھارباب کی کمزوری، اسی لیے اسے چڑانے کو مزید پھیلاوا کرتا اور رباب کے غضب کا نشانہ بنتا۔
’’خالہ ! آپ کے گھر مہمانوں کی خاطر تواضع کا رواج نہیں ہے کیا‘‘۔دانیال کچھ دیر پہلے ہی وارد ہؤا تھا اور اب صوفہ پہ نیم درازتھا اس کے پاؤں میز پر تھے۔ شکر ہے جوتے اس نے کمرے سے باہر ہی اتار دیےتھے۔
’’ بدتمیز مہمانوں کی تواضع کا واقعی رواج نہیں ہے ہمارے گھر‘‘۔ رباب نے جلے کٹے انداز میں کہا ۔
’’ جاؤ بیٹا چائے لے کر آؤ‘‘۔ فاطمہ خالہ کو اپنا یہ بھانجا بڑا عزیز تھا۔ انہوں نے دل ہی دل…

مزید پڑھیں

کبھی ہم خوبصورت تھے – فاطمہ طیبہ

صبا اپنی سوچوں میں گم تھی، اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ پڑوس کے گھر سے نیرہ نور کی مترنم آواز آ رہی تھی۔
ہمیں ماتھے پر بوسہ دو
کہ ہم کوتتلیوں کے، جگنوئوں کےدیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو، روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
کبھی ہم خوبصورت تھے
صبا تصور میں اس منے سے خوبصورت بچے کو دیکھ رہی تھی جو پھولوں کے ، تتلیوں کے ، جگنوئوں کے دیس میں رہتا تھا ۔ وہ اور اس کی چھوٹی بہن سارا دن اپنی جنت میں دوڑتے بھاگتے کبھی تتلیوں کے پیچھے ، کبھی جگنوئوں کوامی کے نیٹ کے دوپٹے میں قید کرنے ، دوپٹے میں جگمگ کرتا جگنو ، بہت خوبصورت لگتا ۔
وہ بچہ احمد اور اس کی بہن صبا ایبٹ آباد میںپہاڑوں سے گھری ہوئی ایک چھائونی میں اپنے امی ابو اور بڑے بھائی کے ساتھ رہتے تھے ۔ اس وادی میں سبزے کی ، پھولوں کی اورپھلدار درختوںکی بہتات تھی ۔ انگریزوں کے زمانے کی بنی ہوئی لکڑی کی بیرک نماHuts تھیں جن کی ڈھلواں چھتیں جن کی ڈھلواں چھتیں سرخ،سفیداورگلابی گلاب کی بیلوں سے ڈھکی ہوئی بہت خوبصورت منظر پیش کرتیں ۔ باغیچوں میں رنگا رنگ پھول خوبانی ، لوکاٹ اور آلوبخاروں کےدرخت ہوتے ۔ ان…

مزید پڑھیں

جیل کہانی – وہ جو قافلے سے بچھڑ گئے – آسیہ راشد

ان کی آہ و بکامیں ان راستوں کی تلاش تھی جوان کے گھروں کوجاتے تھے …. ایک انوکھے تجربے کا احوال
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ویمن ایڈ ٹرسٹ کا ایک گروپ قیدی خواتین کے مسائل حل کے لیے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں اپنی خدمات انجام دے رہا تھا۔ جو خواتین کسی بھی وجہ سے جیلوںمیں قید تھیں اور ان کے پیچھے کوئی پر سانِ حال نہیں تھا اور نہ ہی ان کو دیکھنے والا تھا، دوران قید فی سبیل اللہ ان کی مدد کی جا رہی تھی ۔ ان کی صحت کی دیکھ بھال ، تعلیم و تربیت قانونی مشورے اور وکیل کی خدمات (WAT)کی طرف سے سبھی ان کو مفت فراہم کیا جا رہا تھا ۔ قید سے رہائی کے بعد اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے مواقع بھی فراہم کیے جا تے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وسائل اور رہنمائی بھی دی جاتی۔
خواتین کا ایک گروپ ہر ہفتے یا پندرہ دن کے بعد جیل جا کر خواتین کا میڈیکل چیک اپ کرتا ۔ ان کے ساتھ ایک لیڈی ڈاکٹر یا ہیلتھ وزیٹر ہوتیں جو ان خواتین کا بلڈ پریشر چیک کرتیں ان کا مکمل طبی معائنہ ہوتا اور روز مرہ کے معمولی بخار ،…

مزید پڑھیں

قحط ہے – اسما صدیقہ

گیت کیا سناؤں میں ،شادماں نظاروں کا
غم زدہ سے موسم میں خوش بیاں نظاروں کا
تلخ سی حقیقت میں قہقہوں کے افسانے
کھوکھلی سی جدت میں لذتوں کے دیوانے
روشنی کی قیمت میں جل رہے ہیں پروانے
ماجرا تو ایسا ہے بس ٹھہر کے دیکھو تو
واسطہ تو ایسا ہے آنکھ بھر کے دیکھو
٭
عجیب ہیں یہ معرکے یہ روزوشب کے حادثے
قدم قدم ہیں دور تک شقاوتوں کے سلسلے
یہ روگ نارسائی کا یہ سوگ کج ادائی کا
نہیں رہا ہےدسترس میں مول ناروائی کا
نظر نظر میں روگ ہے نفس نفس میں یاس ہے
تو منظروں میں سوگ ہے یا خوف ہے ہراس ہے
تھما تھما رکا ہؤا،ڈرا ہؤا ہے ہرکوئی
عجیب کشمکش میں جیسے ڈولتا ہے ہرکوئی
یقیں بھی پاش پاش ہے،گماں فقط نراش ہے
سکوت بھی ہے چیختا،پکار میں بھی یاس ہے
عجب طرح کی وحشتوں میں گھر چکا معاش ہے
یہ قلتیں عجیب ہیں ہراک کا جو نصیب ہیں
کہ رابطوں کے شور میں نہ رابطے قریب ہیں
نہ فاصلوں میں حوصلے،نہ حوصلوں کی پشت پہ
لگن کی کوئی آس ہےملن کی کوئی پیاس ہے
کہ مرگِ جذب وچاہ میں ہے زندگی بکھر گئی
ٹٹولتا ہے ہرکوئی کہ روشنی کدھر گئی
نظرمیں دور دورتک نہیں بہارِ شادماں
بچانہیں ہےآنکھ میں کوئی بھی خوابِ خوش بیاں
نگر سبھی جھلس گئے ہیں حسرتوں کی آگ میں
ڈگر سبھی جھلس گئے ہیں قلتوں کی…

مزید پڑھیں

خاص مضمون – تنظیم اپنے مقاصد کیسے حاصل کرسکتی ہے – خرم مرادؒ

’’ کارکن اورقیادت سےتحریک کے تقاضے ‘‘ کاایک باب

ہر تنظیم کسی مقصد کے لیے قائم ہوتی ہے اور اس مقصد کے حصول میں وہ جتنی مؤثر (effective) اور جتنی کارگر (efficient) ہوگی اتنا ہی وہ تنظیم زیادہ کامیاب ہوگی۔ اس لحاظ سے ہم سب کے لیے یہ جاننا ضروی ہے کہ وہ کون سے اصول اور تدابیر ہیں جو کسی ایسی تنظیم کے مقاصد کے حصول کے لیے مؤثر اور کارگر ہو سکتے ہیں جو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے قائم کی گئی ہو۔

تنظیم کیا کرتی ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟

عمومی نقطہ نظر سے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ تنظیم کے دو کام ہیں:ایک یہ کہ وہ افراد کو جمع کر کے ایک ایسا مجموعہ بنائے جس کی طاقت اور قوت افراد کے مجموعے سے کئی گنا زیادہ ہو۔ اگر آپ ریاضی کے جمع کے فارمولے سے افراد کی قوتوں اور طاقتوں کو جمع کریں تو تنظیم میں آکر وہ اَضعافاً مُضاعَفَۃ ،یعنی کئی گنا زیادہ بڑھ جائیں گی۔ اس کو اردو کے ایک عام محاورے کے لحاظ سے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک اور ایک کو جمع کر کے دو بنانا تنظیم کا کام نہیں ہے، بلکہ ایک اور ایک کو گیارہ بنانا تنظیم…

مزید پڑھیں

نئی صبحیں – زینب جلال

’’امامن بوا شام کے جھٹپٹے میں کیسے نکل آئیں ‘‘۔
مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر بیگم ڈیوڑھی کی بتی جلانے باہرآئیں تو پوٹلی سنبھالے بوا کو بیٹھا دیکھ کر حیران ہوگئیں۔
’’ارے بیوی صبح کس نے دیکھی ہے،ہم توزندگی کی شام گزار آئے۔اللہ تمہیں نئ صبحیں مبارک کرے۔ سنا ہے پاکستان جانے کا قصد کرلیا ہے‘‘ بوا جذبات سے لبریز ہوکر بولیں ۔
’’ہاں بوا کتنی جانگسل جدوجہد کے بعد ہمیں الحمدللہ اپنا وطن ملا ہے‘‘۔ بے ساختہ بیگم کے لہجے میں جوش سا نمایاں ہؤا، وہ امامن بوا کے قریب بیٹھ گئیں۔’’ مگرپاکستان بننے کی خبر کے ساتھ ہی فسادات کی آگ بھڑک گئی ہے‘‘۔
’’اب امن صرف اپنے وطن کی فضا میں ملے گا۔ تم بھی چلو ہمارے ساتھ ایک اکیلی جان ہو‘‘ بیگم نے بوا کو سمجھایا۔
’’اپنے پیاروں کی قبریں چھوڑ کر کیسے جائوں بی بی !‘‘ بوڑھے چہرے کی شکنوں میں چند آنسوخاموشی سے نکل کر کھو سے گئے ’’ہاں اپنی امانت حضرت جی کو دینے آئی ہوں ‘‘۔
امامن نے سینے سے لگی پوٹلی , ان کے سامنے کھول دی , حضرت جی مسجد سے آکر وہیں بیٹھ گئے تھے، بچےبھی اردگرد کھڑے ,سب حیران نظروں سے کھلے سامان کو دیکھ رہے تھے۔ ماں کی یادگار چاندی کی بالیاں…

مزید پڑھیں

ابھی یہ عمر باقی ہے – اسماء جلیل قریشی

ابھی یہ عمر باقی ہے
ابھی یہ سانس چلتی ہے
ابھی یہ دل دھڑکتا ہے
یہ دھڑکن شور کرتی ہے
ابھی قوسِ قزح
آنکھوں کے پردے پر اترتی ہے
ابھی پلکوں کی باڑوں پر
سجے ہیں ان گنت سپنے
ابھی دہلیزِدل پہ نت نئے موسم ابھرتے ہیں
ابھی ہے دلکشی باقی ابھی ہے چاشنی باقی
وہ جیسے گرتی بوندوں کی
ہے رہتی راگنی باقی
لبِ دریا ابھی وہ چاندنی راتیں لبھاتی ہیں
پہاڑی راستوں میں آبشاریں گیت گاتی ہیں
ابھی جوبن پہ بزمِ دوستاں ہے مسکراہٹ ہے
ہنسی سرگوشیاں ہیں بولتے جذبوں کی آہٹ ہے
ابھی دامن پہ
جھلمل سے ستارے ٹانک لیتے ہیں
دریچے یاد کے ہم کھولتے ہیں جھانک لیتے ہیں
ابھی شبنم کے قطروں کی مہک کاہے فسوں باقی
ابھی سرخی شفق کی دیکھنے کا
ہے جنوں باقی
ابھی گاؤں کی پگڈنڈی پہ چلنے کی تمنا ہے
ابھی تو بھاگ کر جگنو پکڑنے کی تمنا ہے
ابھی تو ریل کی سیٹی کی باقی بازگشتیں ہیں
ابھی چھک چھک سے پٹری سے جڑی کچھ داستا نیں ہیں
غباروں نے ہواؤں میں ابھی بھرنی اڑانیں ہیں
ابھی خواہش ہے ہم دیکھیں جو برفیلی چٹانیں ہیں
ابھی تو ارغوانی بدلیاں منظر سجاتی ہیں
نئی کچھ منزلیں آواز دیتی ہیں بلاتی ہیں
ابھی پت جھڑ کے موسم میں غزل فرقت پہ لکھنی ہے
دسمبر کی کہانی بھی بڑی فرصت سے لکھنی ہے
ابھی مصرع ادھورا ہے کہر آلود خنکی پر
ابھی لکھنا ہے افسانہ…

مزید پڑھیں

غزل – حبیب الرحمٰن

وہ جو ماں کے تلخ سے تند سے مجھے چھٹ پنے میں رلا گئے
وہی لہجے ڈانٹ کے پِیٹ کے مری زندگی کو بنا گئے
مرے سب گناہ مٹا گئے، ترا آسمان ہلا گئے
مرے نالے تیری جناب میں عجب ایک حشر اٹھا گئے
نہ وہ چہرہ اب ہے گلاب سا نہ رہا ہوں مثلِ شہاب سا
وہ جو دن تھے ہجر و فراق کے مرے رنگ روپ کو کھا گئے
وہ جو بت تھے ریت کے راکھ کے وہ تو دودھ تھے کسی آکھ کے
نہ تھے اہل عزت و ساکھ کے جنھیں ہم سے جانے خدا گئے
وہ جو روز و شب تھے وصال کے وہ جو روز و شب تھے فراق کے
کبھی یاد آکے رلا گئے کبھی یاد آ کے ہنسا گئے
وہ جو اٹھے لے کے کتاب کو بنا حرص اجر و ثواب کو
کیے ترک چنگ و رباب کو وہی اس جہان پہ چھا گئے
وہ جو ظلمتوں سے جہاد میں کبھی اپنے خوں سے جلائے تھے
یہ و ہی تو گھر کے چراغ ہیں جو مرے ہی گھر کو جلا گئے
میں تو اب بھی ان کا غلام ہوں، میں غلام ابنِ غلام ہوں
وہ عجب تھے لوگ سفید سے مرا خوں سفید بنا گئے
کبھی نیم شب کی دعاؤں میں جو گرے خطا کی چتاؤں میں
وہی چند اشک…

مزید پڑھیں

قولِ نبیؐ – وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا – اسما معظم

سیرت طیبہ سے رحمت وشفقت کی چند کرنیں
اللہ تعالیٰ نے انسان کے اپنے اندر خیر و شر اور نیکی و بدی میں تمیز کرنے کی فطری صلاحیت ودیعت فرمائی ہے۔
اسلام کی نعمت ہر زمانے میں انسان کو دو ہی ذرائع سے پہنچی ہے۔ ایک اللہ کا کلام، دوسرے انبیاء علیہ السلام کی شخصیتیں۔ جن کو اللہ نے نہ صرف اپنے کلام کی تبلیغ ، تعلیم اور تفہیم کا ذریعہ بنایا بلکہ اس کے ساتھ عملی قیادت و رہنمائی کے منصب پر بھی مامور کیا ۔تاکہ وہ کلام اللہ کا ٹھیک ٹھیک منشاء پورا کرنے کے لیے انسانی افراد اور معاشرے کا تزکیہ کریں اور انسانی زندگی کے بگڑے ہوئے نظام کو سنوار کر اس کی تعمیر صالح کریں ….یہ دونوں چیزیں ہمیشہ سے لازم و ملزوم رہی ہیں کہ ان میں سے کسی کو کسی سے الگ کرکے انسان کو کبھی دین کا صحیح فہم نصیب ہو سکا اور نہ وہ ہدایت سے بہرہ یاب ہوسکا۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے خدا نے آ پ ؐ کی بعثت کا مقصد ان الفاظ میں بیان فرمایا:
’’ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین…

مزید پڑھیں

اللہ کی طرف بلانے والے رسول ﷺ – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا، اور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے پے در پے انبیاء و رسل بھیجے، جو اللہ تعالیٰ کے خاص نمائندے تھے۔ جنھوں نے ہر دور میں انسانوں کو اللہ کی طرف بلانے کا فریضہ انجام دیا۔جن کی دعوت کا پہلا نکتہ اللہ کی توحید کا بیان اور شرک کا ابطال تھا۔ ہر نبی کی دعوت یہی تھی، کہ صرف اللہ کی بندگی کرو، صرف اکیلا وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کا تقوی کیا جائے۔ کوئی دوسرا اس لائق نہیں کہ اس کی ناراضی کا خوف، اس کی سزا کا ڈر اور اس کی نافرمانی کے نتائجِ بد کا اندیشہ انسانی اخلاق کا لنگر اور انسانی فکرو عمل کے پورے نظام کا محور بن کر رہے۔
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کے دونوں گروہوں کو اپنی بندگی اور عبادت کے لیے پیدا کیا، تاکہ وہ اللہ وحدہ کی عبادت کریں اور اس میں کسی کو شریک نہ کریں، تاکہ وہ اللہ کے شکر گزار بندے بنیں اور اس کی ناشکری نہ کریں۔اور کیونکہ عبادت اور بندگی کے طریقوں کی معرفت اللہ کے رسولوں ہی کے ذریعے ممکن ہے۔اور اسی دعوت کے بیان کے لیے کتابیں نازل ہوئیں۔اللہ تعالیٰ کا امتِ…

مزید پڑھیں

ابتدا تیرے نام سے – صائمہ اسما

قارئینِ کرام سلام مسنون
اکتوبر کا آغاز ہے مگر گرمی ابھی تک پھن پھیلائے کھڑی ہے۔ خیر ،موسم آج نہیں تو کل بہتر ہو ہی جائے گا، مگر جس کا بہتر ہونا مطلوب ہے وہ تو مسلسل خرابی کی طرف رواں دواں ہے۔ مہنگائی اوربجلی کے بلوں میں مسلسل اضافے کے خلاف ملک گیر ہڑتال بھی ہوئی ۔ہر جگہ عوام سراپا احتجاج بن گئے کہ بجلی کا بل دیں تو پٹرول کہاں سے خریدیں اور پٹرول لے لیں تو کھائیں کہاں سے!خود کشی کے واقعات بھی ہوئے جو اشارہ کرتے ہیں کہ حالات سنگین تر ہو گئے ہیں۔ ایسے میں حکمرانوں کی تفریحات اور عیاشیاں زخموں پہ نمک چھڑک رہی ہیں۔ بے حسی انتہا پر ہے۔ مالِ مفت ہے اور دلِ بے رحم۔ قرض کی مے ہے اوررنگ لائی ہوئی فاقہ مستی۔ انتخابات کب ہوتے ہیں ، کن حالات میں، اور ہوتے بھی ہیں یا نہیں، کوئی خبر نہیں۔ جن کاکام انتقال اقتدار کی نگرانی تھا انہیں برسراقتدار ہونے کی غلط فہمی ہوگئی۔ وہ راستے کو منزل بنا بیٹھے اور خیمے کو گھر۔ دنیا میں جگ ہنسائی ہورہی ہے کہ بیرونی دوروں کی کیا تک بنتی تھی جبکہ وہاں کرنے والے کام منتخب حکومت کے ہوتے ہیں۔
کند تلوار سے طاقت نہیں…

مزید پڑھیں