ڈاکٹر بشری تسنیم

لازمی پرچے – بتول نومبر ۲۰۲۱

تعلیم کی ابتدائی جماعت سے ہی سب جانتے ہیں کہ کامیاب ہونے اور اگلے درجے میں ترقی حاصل کرنے کے لیے کسی ایک یا زیادہ لازمی مضمون میں پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اور ہر مضمون کے امتحانی پرچہ میں کوئی ایک سوال لازمی حل کرنا ہوتا ہے۔
زندگی بھی ایک امتحان ہے اور جسمانی یا روحانی طور پہ زندہ رہنے کے لیے کچھ امر لازمی ہیں۔ جسم کی مشین میں دل وہ لازمی پرزہ ہے جس کے حرکت میں نہ رہنے سے جسمانی موت واقع ہو جاتی ہے۔
روح بھی دل کے سہارے قائم و زندہ رہتی ہے۔ روح کو زندہ رکھنے والا دل بھی اِسی دھڑکتے اور خون پمپ کرنے والے دل سے ہی منسلک ہے۔ مگر دھڑکتا دل زندہ محسوس کیا جا سکتا ہے اور اس کی بنا پر انسان کو تندرست قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر وہ دل جو روح کو زندہ رکھتا ہے وہ بیمار ہو، کام کرنا چھوڑ دے، زنگ لگ جائے، سیاہ ہوجائے، یا مُردہ ہو جائے تو دنیا کی کوئی مشین اس کی حالت زار کا عکس پیش نہیں کر سکتی۔ بظاہر زندہ انسان، مُردہ روح کے ساتھ پھرتا ہے…… اللہ تعالیٰ نے فرمایا سورہ الاعراف 179 میں:
’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت…

مزید پڑھیں

عورت کا گھر – بتول دسمبر ۲۰۲۱

گھر ایک ایسا مقام ہے جہاں انسان بے فکری سے اپنا وقت اپنی مرضی کے مطابق گزارتا ہے، گھر ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ گھر کوئی لگی بندھی، متعین شکل کی عمارت کا نام نہیں۔ چار دیواری اور چھت کے ساتھ ایک دروازہ ہو تو وہ بھی گھر کہلا سکتا ہے۔ چھت گھاس پھونس کی ہو، دیواریں کپڑے کی ہوں اور ٹاٹ کا ٹکڑا دروازے کا کام دیتا ہو تو وہ بھی گھر ہی ہے۔ کسی بھی جگہ پہ چھوٹا یا بڑا مکان بنایا جا سکتا ہے مگر اس کے مکین اس مکان کو گھر بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
مرد اپنے گھر کا مالک و حاکم ہوتا ہے، اور یہ بات معاشرے میں معروف ہے کہ عورت باپ کے گھر میں رہتی ہے، شادی کے بعد وہ شوہر کے گھر چلی جاتی ہے۔ اور اگر باپ اور شوہر نہ رہیں تو وہ بھائی کے گھر میں رہتی ہے۔ جب بیٹے بڑے ہو جائیں تو وہ بیٹے کے گھر میں رہتی ہے۔ عوام الناس (الا ماشاءاللہ) کے رویے یہ تاثر دیتے ہیں کہ
’’عورت کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا‘‘۔
بے شک مرد کے سربراہ ہونے کا تاثر بالکل درست ہے۔ یقیناً مرد ہی عورت کا ’’قوام‘‘ ہے۔ عورت…

مزید پڑھیں

یادِ ماضی – بتول جنوری ۲۰۲۲

انسان جب سے ہوش سنبھالتا ہے اپنے ساتھ اچھے برے ہونے والے معاملات کا سامنا کرتا ہے۔ بہت چھوٹی عمر میں ہونے وا لے زیادہ تر واقعات اس کی یادداشت سے محو ہو جاتے ہیں، کچھ غیر معمولی واقعات ہی اس کو یاد رہتے ہیں اور ان کا نقش انسان کی زندگی پہ بہت گہرا ہوتا ہے جو آخری عمر تک نہیں مٹتا۔ دانائی سے بھرا یہ قول خود پتھر پہ لکیر ہے:
’’بچپن کے نقش گویا پتھر پہ لکیر ہوجاتے ہیں‘‘
ہماری زندگی میں منفی و مثبت جذبات کا بھی ایک مقام ہے اور یہی جذبات ہماری زندگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ جذبات ہماری یادوں پر اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ ہم ان چیزوں کو بہت اچھی طرح یاد رکھتے ہیں جن کے جذباتی اثرات ہم پر گہرے ہوتے ہیں۔
مثلاً ہر شخص کو یاد رہتا ہے وہ دن، جب اس کا کوئی پیارا رشتہ دنیا سے چلا جاتا ہے۔ وہ آخری ملاقات یا بات جو فوت ہوجانے والے کے ساتھ ہوئی ہوتی ہے۔
وہ پہلے قلبی احساسات جو کسی پہلی کامیابی سے پیدا ہوئے ہوتے ہیں۔ اور وہ سب یاد آتے ہیں جنہوں نے کامیابی پہ اچھے یا برے ردعمل کا اظہار کیا ہوتا ہے۔ یا وہ پہلا صدمہ جو غیر…

مزید پڑھیں

محبت کے رنگ – بتول فروری ۲۰۲۲

ہر طرف سرخ رنگ بکھر رہا ہے کہ یہ محبت کا رنگ ہے، خوشی کی تلاش ہے، محبت کی امنگ ہے۔ اس دل کے نشان اور سرخ رنگ کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ اور اس کہانی کی آڑ میں کتنے دل بہلاوے ہیں۔ دل کی خلش کو ختم کرنے کے کتنے جواز ہیں؟ ’’محبت‘‘ کے لفظ کے پردے میں کیا کیا تماشے ہیں؟ ہر تماشے پہ نفس کی اجارہ داری ہے۔ شیطان کی پھیلائی ہوئی دل فریبیوں میں کتنے ایمان والوں کا امتحان ہے۔ اور اس امتحان کے کتنے رنگ ہیں۔ ایک پرائی تہذیب اچانک، ایک دن یا ایک عمل سے کسی تہذیب پر قبضہ نہیں کر سکتی۔ خوشیوں محبتوں کے رنگ اتنی آسانی سے غیروں کے رنگ میں نہیں رنگ جاتے۔ قوموں کی زندگی پل بھر میں نہیں بدل جاتی۔ پہلے کسی ایک فرد کی سوچ کا رنگ تبدیل ہوتا ہے وہ فرد اپنی سوچ کو دیوار پر چپکا دیتا ہے جیسے مٹھائی والے کی دکان پر کوئی انگلی شیرے میں ڈبو کر اس انگلی سے دیوار پر ایک میٹھا قطرہ لگا دے اور پھر اس دکان کے سارے منظر بدل جاتے ہیں۔ ابتدا تو بس ایک ذرا سی مٹھاس سے ہوئی، جس کی بظاہر کوئی وقعت بھی نہ…

مزید پڑھیں

خود اعتمادی – بتول جون ۲۰۲۲

انسان کے اندر خود اعتمادی ہو تو وہ ایک کامیاب اور مثالی شخصیت مانا جاتا ہے۔ اپنی ذات پہ بھروسہ یا اپنی قابلیت کا یقین خود اعتمادی کہلاتا ہے۔ لیکن درحقیقت خود اعتمادی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ہمت اور حوصلہ اور پختہ خیال ہے جو کسی بھی چھوٹی یا بڑی مہم کو سر انجام دینے کے لیے کسی فرد میں پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ منزل کی طرف اٹھنے والا پہلا قدم ہے۔ بےشک انسان کی قوتِ ارادی کو دوام اور ثبات بخشنے والی صفت ’’توکل علی اللہ‘‘ ہے۔
’’پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں‘‘۔ (آل عمران: 159)
دراصل خود اعتمادی کا وصف’’اعتماد علی اللہ‘‘ سے نشوونما پاتا ہے۔
اگر قرآن و حدیث کی رو سے دیکھیں تو خود اعتمادی دراصل اللہ تعالیٰ پہ توکل کرنا ہے۔ انسان کی ہر وہ سوچ جو اسے کسی عمل پہ ابھارتی ہے وہ توکل علی اللہ سے حُسنِ عمل میں تبدیل ہوتی ہے۔
توکل علی اللہ وہ قرآنی صفت ہے جس کی بدولت ایک نہتّا شخص پوری قوم سے اپنا آپ منوا لیتا ہے۔ اور اس سے قربِ الٰہی کی مزید راہیں…

مزید پڑھیں

بریکنگ نیوز – بتول مئی ۲۰۲۲

خبر کی دنیا بہت وسیع ہے اور اسی لیے اسی نسبت سے اس کی تعریفات میں بھی بہت وسعت ہے۔ بسا اوقات یہ تعریفیں ایک دوسرے کے متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل یہ خبر کو دیکھنے کا زاویہ ہے جہاں سے تعریف مرتب کرنے والا خبر کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر خبر کی چند ایک معروف تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں:
خلیل اللہ فراز کہتا ہے، خبر ایسا جملہ ہوتا ہے جس کا کوئی منشا ہے، اور اس جملہ کے بعد ایک انشائیہ جملہ بنے۔ جیسے کسی نے خبر دی ’’آپ کی سائیکل کا ٹائر پنکچر ہے‘‘انشا ئیہ بنا کہ پنکچر بنوا لو۔
امریکی صحافی اینڈرسن ڈانا کے مطابق’’اگر کتا انسان کو کاٹے تو یہ خبر نہیں لیکن اگر انسان کتے کو کاٹے تو یہ خبر ہے‘‘۔
ڈاکٹر عبد السلام خورشید فنِ صحافت میں خبر کی تعریف یوں کرتے ہیں ’’خبر کا تعلق ایسے واقعات اور مشاہدات سے ہوتا ہے جو معمول سے ہٹ کر ہوں‘‘۔
برطانوی پبلشر’’لارڈ نورتھ کلف‘‘ کے مطابق’’خبر وہ اطلاع ہے جسے کوئی ایک شخص چھپانا چاہتا ہے جبکہ دیگر تمام لوگ اسے مشتہر کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
امریکی صحافی ’’کرٹ لوڈر‘‘ کے مطابق’’خبر کوئی بھی ایسی چیز ہوسکتی ہے جو دلچسپ ہو جس کا تعلق دنیا میں…

مزید پڑھیں

جنت کے پھول – بتول اگست ۲۰۲۲ -بشری تسنیم

انسان خوابوں اور خیالوں میں لامتناہی خواہشوں، آرزئووں اور تمناوں کے چمن میں بستا ہے۔ اس چمن خیال پہ کچھ خرچ نہیں ہوتا، کسی کی مداخلت کا ڈر نہیں ہوتا، کسی متعین جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فرصت ہو یا نہ ہو تصور جاناں لیے زندگی کے جھمیلے نپٹاتے رہو۔ فی زمانہ مادی اسباب و علل میں یہ واحد چیز ہے جس پہ مال خرچ نہیں ہوتا بس انسان کا زندہ ہونا ضروری ہے جب کہ ہوش و حواس میں ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔
تصوراتی دنیا دراصل اگر محرومیوں، حسرتوں کا نوحہ ہے تو کبھی کچھ حاصل کر لینے کا یقین و انبساط بھی ہے۔ تصور اور خواب و خیال انسان کی ذہنی، جسمانی اور روحانی صحت کا پیمانہ ہیں۔
انسانی عمر کی ہر منزل اس پیمانے میں مثبت یا منفی تبدیلیاں لاتی ہے۔ ماحول، تعلیم و تربیت، حالات و واقعات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تصوراتی دنیا ہر فرد کا ایک ایسا ذاتی سیارہ ہے جہاں وہ اپنی مملکت کا خود بادشاہ ہوتا ہے۔ مستقبل کے سارے کردار اس کی رعایا ہوتے ہیں۔ اور وہ جس کو چاہے جس مقام پہ رکھے۔ یہ کیفیت منفی ہو یا مثبت حد سے تجاوز کر جائے تو پاگل پن کہلاتی ہے۔…

مزید پڑھیں

جیسے چاہو جیو – بتول نومبر ۲۰۲۲

اشتہاری کمپنیاں جب کسی چیز کی فروخت کے سلسلے میں سلوگن بناتی ہیں تو وہ کوئی سیدھا سادہ معاملہ نہیں رہتا۔ عوام الناس میں پذیرائی کے بعد وہ ایک نظریہ بن جاتا ہے۔
’’جیسے چاہو جیو‘‘ بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ گھر میں رہنے والے سب افراد جب اس سلوگن کے ساتھ اپنی زندگی کو آزاد سمجھتے ہیں تو میاں بیوی کے درمیان فاصلوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ بچے والدین کی مداخلت سے اپنے طرزِ حیات پہ قدغن محسوس کرتے ہیں۔پھر اس کی اگلی منزل ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ ہوتا ہے۔
بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات انجام کار فتنہ عظیم بن کر سامنے آتے ہیں۔اسلام نے ہر بڑے فتنے کے نمودار ہونے کے پہلے ہی مرحلے پہ راستے کی بندش کا انتظام کر دیا ہے۔
مرد کوعورت کی مشابہت اور عورت کومرد کی مشابہت اختیار نہ کرنے کا حکم ہے۔ یہ مشابہت چہرے مہرے کی ہو، بالوں کی تراش خراش کی یا لباس کی۔ مردوں کے لیے ہاتھوں پہ مہندی اور سونے کا زیور اور ریشم کا استعمال منع ہے۔ لباس کے رنگوں میں بھی شوخ رنگ عورتوں کے اور ہلکے رنگ مردوں کے لیے ہؤا کرتے تھے۔
لباس کی یکسانیت نے مرد و عورت کی تفریق پہ پانی پھیر دیا۔…

مزید پڑھیں

آرام دہ بستر – بتول جنوری ۲۰۲۳

ہر برسرِ روزگار فرد گھر بسانے سے پہلے اپنے ٹھکانے کی فکر کرتا ہے۔ چھوٹا سا مکان ہو جو زندگی کو آگے چلا سکے۔ اور اس کے لیے باعث سکون ہو۔
جب انسان تھک جاتا ہے تو تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے صوفہ کرسی استعمال کرتا ہے مگر آرام کی اصل جگہ انسان کا بستر ہوتا ہے۔ دنیا میں آتے ہی بچے کو بستر کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر یہ ضرورت ساری عمر رہتی ہے۔
مشترکہ خاندان میں بھی ایک نئے جوڑے کے لیے ذاتی کمرے کا انتظام لازمی امر ہے۔ وسیع و عریض گھر میں بھی وہی ایک کمرہ ذاتی ملکیت کا احساس دلاتا ہے جہاں فرد اپنی ذاتی اشیاء رکھتا اور رات گزارتا ہے۔ اور اس کمرے میں بھی ہر فرد کی مکمل دلچسپی اس بستر سے ہوتی ہے جہاں اس نے سونا ہے بلکہ بستر کی دائیں یا بائیں طرف اور اپنا ہی تکیہ نیند کے مزے لینے کو آسان بناتا ہے یعنی انسان کو جس چیز اور جگہ سے انسیت ہو جاتی ہے وہی باعثِ سہولت ہے۔ اسی لیے اکثر لوگوں کو کسی نئے مقام تکیے یا بستر پہ نیند نہیں آتی۔
انسان اپنی آرام گاہ کا انتظام کرتا ہے، اس سے مانوس ہوتا ہے اور اس…

مزید پڑھیں

لوگ کیا کہیں گے! – بتول فروری ۲۰۲۳

یہ سوچ سب سے پہلے غالباً قابیل کے دماغ میں اس وقت آئی ہوگی جب اپنے بھائی ہابیل کو اپنے ہاتھوں قتل کر کے لاش پہ نظر پڑی ہوگی۔ کاش قابیل کو یہ خیال قتل سے پہلے آیا ہوتا کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘۔ شاید اس وقت لوگ ہی کم تھے اور لوگوں کی فکر و فہم نے دوسروں کے بارے میں ’’کچھ نہ کچھ‘‘ کہنے کی رسم ایجاد نہیں کی تھی۔
اس پہ بھی تاریخ خاموش ہے کہ پہلے لوگوں نے’’کچھ‘‘ کہنے کی ابتدا کی تھی یا انسان کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہو&ٔا تھا کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
پہلا جرم سرزد ہؤا تو شاید لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ’’کچھ کہنا بھی ہوتا ہے‘‘ مگر قابیل نے کوّے کو اپنا استاد مانتے ہوئے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ:
’’کوّا میرے بارے میں کیا کہتا ہوگا؟‘‘
یہ بہت تعجب کی بات ہے کہ انسان جرم کرنے سے پہلے نہیں سوچتا کہ لوگ کیا کہیں گے۔سیدنا یوسف کے بھائیوں نے اپنے والد کے چہیتے بیٹے کو کنوئیں میں ڈالتے وقت نہیں سوچا کہ جب پتہ چلے گا تو لوگ کیا کہیں گے۔ عزیزِ مصر کی بیوی کو بھی خیال نہ آیا کہ جب بات کھل گئی تو سارے شہر…

مزید پڑھیں

جذباتی ذہانت – بتول مارچ ۲۰۲۳

(Emotion Quotient) EQ درحقیقت ایک اصطلاح ہے جو جذباتی ذہانت یا ’’Emotional Intelligence‘‘ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ ایک مکمل علم ہے اور یہ علم دراصل اپنے اور دوسروں کے جذبات کو بھانپنے اور اُنہیں کنٹرول کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔
یہ دوسروں کے ساتھ معاشرتی و سماجی رویے، رشتوں کو جوڑے رکھنے اور گھر یا معاشرے میں امن برقرار رکھنے، وقت کی پابندی، ذمہ داری، وفا داری، ایمانداری، حدود کا احترام، عاجزی کی صلاحیت کا پیمانہ ہے۔ گویا کہ اگر’’آئی کیو‘‘ دماغی یا عقلی ذہانت ہے تو ’’ای کیو‘‘ قلبی یا جذباتی ذہانت کا نام ہے۔
ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ اپنے جذبات کا اظہار اور انہیں قابو کرنے کی صلاحیت، پرسکون زندگی کے لیے کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ اسی طرح دوسروں کے جذبات کو سمجھنا، حقائق اَخذ کرنا اور ان کے جذبات پر ردِّعمل دینا بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات، اس صلاحیت کو جذباتی ذہانت کا نام دیتے ہیں۔ کچھ ماہرین اسے عقل سے بھی زیادہ اہم کہتے ہیں۔
بہت سے لوگ EQ اور IQ دونوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ دونوں میں سے کسی ایک سے زیادہ نوازے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ اپنے شعبے میں ماہر اور…

مزید پڑھیں

رومان پرور باتیں – بتول مارچ ۲۰۲۲

انسانوں کے بے شمار مزاج ہوتے ہیں۔ اور ہر مزاج کا ایک الگ ہی رنگ ہوتا ہے لیکن یہ ایک فطری تقسیم ہے کہ خوشی سچی ہو اور غم گہرا ہو تو اس پہ سارے انسانوں کا اظہار ایک جیسا ہی ہوگا۔ خوشی میں مسکرانا، ہنسنا یا قہقہہ لگانا اور اداسی، غم، تکلیف یا پریشانی میں اظہار کے سب تاثرات آفاقی ہیں۔
محبت اور نفرت آفاقی جذبے ہیں ان کے اظہار کے لیے انداز بھی ہر انسان میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی خطے میں یہ نہیں ہوتا کہ انسان جب کسی سے خوش ہو تو اظہار کے لیے اسے مار پیٹ کرے یا اسے اذیت دے اور نہ ہی کہیں یہ ملے گا کہ کوئی اپنی عزتِ نفس پامال کرنے والے سے دلی تعلق محسوس کرے۔ اور اس بات کا چرچا کرے کہ فلاں نے آج مجھے بہت بےعزت کیا اس لیے میں بہت خوش ہوں۔ یقیناً یہ غیرفطری اور لایعنی تصور ہے۔
انسانوں کی زندگی میں رومان بھی روح کی تسکین کے لیے ایک فرحت افزا اور خوب صورت جذبہ ہے۔
ہر باذوق فرد رومان پرور ماحول، رومانی باتیں، رومانی کہانیاں اور نغمے پسند کرتا ہے۔ رومان کے بارے میں بھی سب کا نقطہٴ نظر ایک جیسا نہیں…

مزید پڑھیں

رومان پرور باتیں – بتول مارچ ۲۰۲۲

انسانوں کے بے شمار مزاج ہوتے ہیں۔ اور ہر مزاج کا ایک الگ ہی رنگ ہوتا ہے لیکن یہ ایک فطری تقسیم ہے کہ خوشی سچی ہو اور غم گہرا ہو تو اس پہ سارے انسانوں کا اظہار ایک جیسا ہی ہوگا۔ خوشی میں مسکرانا، ہنسنا یا قہقہہ لگانا اور اداسی، غم، تکلیف یا پریشانی میں اظہار کے سب تاثرات آفاقی ہیں۔
محبت اور نفرت آفاقی جذبے ہیں ان کے اظہار کے لیے انداز بھی ہر انسان میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی خطے میں یہ نہیں ہوتا کہ انسان جب کسی سے خوش ہو تو اظہار کے لیے اسے مار پیٹ کرے یا اسے اذیت دے اور نہ ہی کہیں یہ ملے گا کہ کوئی اپنی عزتِ نفس پامال کرنے والے سے دلی تعلق محسوس کرے۔ اور اس بات کا چرچا کرے کہ فلاں نے آج مجھے بہت بےعزت کیا اس لیے میں بہت خوش ہوں۔ یقیناً یہ غیرفطری اور لایعنی تصور ہے۔
انسانوں کی زندگی میں رومان بھی روح کی تسکین کے لیے ایک فرحت افزا اور خوب صورت جذبہ ہے۔
ہر باذوق فرد رومان پرور ماحول، رومانی باتیں، رومانی کہانیاں اور نغمے پسند کرتا ہے۔ رومان کے بارے میں بھی سب کا نقطہٴ نظر ایک جیسا نہیں…

مزید پڑھیں

سرپرائز – بتول جولائی۲۰۲۲

زندگی میں ہر انسان کو اکثر ایسے حالات سے واسطہ پڑتا ہے جو اس کے لیے غیر متوقع ہوتے ہیں۔ جس کی امید نہیں ہوتی، انسان کی منصوبہ بندی میں شامل نہیں ہوتے، اور کسی بھی عمل کا غیر متوقع اچھا یا برا انجام حیران کن ہو جاتا ہے۔ کسی بھی فیصلہ کن امر میں غیر متوقع معاملہ کا سامنا انسان کو تعجب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ انسان کی محنت کے مقابلے میں کامیابی کا تناسب کم یا زیادہ ہو جاتا ہے، سفر کے منصوبہ میں خلل پڑجاتا ہے۔ طے شدہ ملاقاتیں یا پروگرام کسی بھی وجہ سے ملتوی ہو جاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
انسانی زندگی میں ایک اور لفظ’’اچانک‘‘ کا بھی بہت عمل دخل ہے۔
یعنی یکایک، ناگہانی، اتفاقی یا بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کچھ رونما ہو جانا۔ عربی میں ’’مفاجات‘‘ انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘
دراصل یہ انسانی زندگی میں وہ لازمی مرحلہ ہے جو انسان کو اس کی اوقات یاد دلاتا رہتا ہے۔ انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اس کے منصوبوں میں کسی ایسی مقتدر ہستی کا عمل دخل ہے جو عین آخری لمحے میں ساری کارگزاری اور منصوبے کے انجام کو بدل سکتی ہے۔
اگر ہر انسان اپنی زندگی کے…

مزید پڑھیں

ہم کہ ٹھہرے اجنبی – بتول دسمبر۲۰۲۲

شارجہ کورنیش پہ ایک بلڈنگ میں اس صبح بہت دیر سے ایک لفٹ کسی منزل پہ رکی ہوئی تھی۔ دوسری لفٹ اوپر جانے والوں کے ہاتھوں میں تھی … نیچے جانے والے لوگ اکٹھا ہوتے جارہے تھے۔ کوئی پانچ منٹ میں اوپر جانے والی لفٹ ساتویں منزل پر واپس آ کر رکی تو سب لفٹ میں داخل ہونے میں پہل کرنے کی کوشش میں تھے۔ زیادہ مرد تھے تو صائمہ اور ایک اور خاتون باہر ہی کھڑی رہ گئیں۔
’’مردوں کو لیڈیز فرسٹ والا اصول اب بھول گیا ہے‘‘۔ صائمہ نے رنجیدہ ہو کر کہا۔
ہلکے نیلے رنگ کی ساڑھی میں ملبوس پچاس پچپن کے لگ بھگ دوسری خاتون نے نو عمر صائمہ کو مسکرا کر دیکھا اور تسلی آمیز لہجے میں بولیں:
’’وہ تعداد میں جیادہ تھے … زمہوری دور ہے نا!‘‘
صائمہ نے ان بنگالی خاتون کی بات پر سر ہلا کر تائید کی ۔
’’آنٹی! آپ آئیے نا! ہماری طرف، میری امی آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔ آپ کون سے فلور پہ رہتی ہیں؟‘‘ باتونی صائمہ کو خیال آیا کہ شاید وہ یہاں نہ رہتی ہوں … کسی کو ملنے آئی ہوں۔
’’میں نیچے تیسرے فلور پہ رہتی ہوں‘‘۔
’’اچھا!‘‘ صائمہ نے سوچا میری امی کی ہم عمر ہیں ان سے…

مزید پڑھیں

تقویٰ، قرآن اور رمضان- بتول اپریل ۲۰۲۳

ارشادِ ربانی ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی اْمتوں پر فرض کیے گئے تھے، اسی سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔ (سورة البقرة: 183)
روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہے۔ اگر پہلے سے تقویٰ ہے تو اس کو مزید نشوونما دینا ہے’’تقویٰ‘‘ ایک نو مسلم یا عامی مسلمان کے لیے جس قدر ضروری ہے اُتنا ہی ایک عالم یا ولی اللہ کے لیے بھی اہم ہے۔ تقویٰ کی کوئی حد یا انتہا نہیں، موت کے آخری لمحہ تک اور زندگی کے ہر لمحہ میں اس کا ہونا لازمی امر ہے۔ قرآن پاک میں تقویٰ کا لفظ 15 مرتبہ آیا ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات سب کی بنیاد تقویٰ ہے۔ اس سے مشتق الفاظ’’متقین‘‘ 42 مرتبہ، ’’متقون‘‘ 19 مرتبہ، ’’ یتّقِ‘‘ 6 مرتبہ اور’’یتقون‘‘ 18 مرتبہ استعمال ہوا ہے حتیٰ کہ جنت میں داخلہ بھی تقویٰ سے مشروط ہے۔ مختصر الفاظ میں تقویٰ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے کوئی عمل کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے خوف سے کوئی ناپسندیدہ کام چھوڑ دینا۔
اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے نفس پر صبر کرنا اور اپنے…

مزید پڑھیں

امت مسلمہ کی خیر خواہی – بتول مئی ۲۰۲۳

اسلام آفاقی دین ہے رب العٰلمین نے سیدناﷺ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا اور قرآن مجید فرقان حمیدھدی للعالمین ہے۔اس دین کا قرآن پاک اور اسوہ رسول صلعم کی تعلیم کا لب لباب یا خلاصہ انسانیت کی فلاح ہے اور اس فلاح کا بنیادی فلسفہ انسانیت کے لیے دعا اور نصیحت ہے۔ نصیحت کے بارے میں واضح ہے کہ’’ الدین النصیحہ‘‘ دین خیر خواہی کا دوسرا نام ہے۔ یہ خیر خواہی زمین و آسمان کے درمیان موجود ہر شے کے ساتھ ہے۔
محبت کا پیمانہ ،تعلق کا درجہ جیسا ہوگا خیر خواہی اسی قدر اپنا رنگ دکھائے گی۔ دعا اور نصیحت کرنا وہ دلی خیر خواہی ہے جس کے نتیجے میں دنیا اور آخرت کی حسنات میسر آتی ہیں.لیکن قرآن نے’’ فزکر ان نفعت الزکریٰ‘‘ کی بھی تعلیم دی ہے۔گر کوئی نصیحت مشورہ رائے یا خیر خواہی کو قبول نہ کرے یا بے رخی بے توجہی اختیار کرے تو اپنی مقدور بھر کوشش کرنے کے بعد اسے اس کے حال پہ چھوڑ دینے کی بھی تلقین ہے۔نصیحت اس کا حق ہے جو اس کی طلب رکھتا ہو۔ لیکن دعا کرنا ایسا عمل ہے جو کسی طور بھی چھوڑا نہیں جا سکتا، کوئی چاہے یا نہ چاہے پسند کرے یا نہ…

مزید پڑھیں

بہترین مددگار – بتول جون ۲۰۲۳

اللہ تعالیٰ نے اپنا نام’’الناصر‘‘ اور ’’النصیر‘‘ رکھا ہے۔ مدد کا منبع و سرچشمہ اللہ رب العزت کی ذات ہے۔
’’…اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے‘‘۔(سورہ آل عمران: 126)
اسی طرح دوسری جگہ فرمان الٰہی ہے:
’’بلکہ اللہ ہی تمہارا خیرخواہ ہے اور وہی سب سے بہتر مدرگار ہے‘‘۔ (سورہ آل عمران: 150)
’’یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیاوی زندگی میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے‘‘۔ (سورہ غافر: 51)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد اور غم و خوف سے نجات کی خوشخبری اپنے فرشتوں کے ذریعے دے کر بھی کرتا ہے۔
’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جائو اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔ (سورہ فصلت :30)
یقیناً اللہ ایسے راستوں سے اپنے بندوں کا اس طرح مددگار بن جاتا ہے، جس کا انہیں گمان بھی نہیں ہو سکتا۔ اس نے اپنے بندوں کے لیے مددگار فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔
ارشادِ ربانی ہے:
’’اور وہ…

مزید پڑھیں

قصہ مصری ماسی کا – بتول جون ۲۰۲۳

ہم نے خانہ دارانہ زندگی کا آغاز’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت جدہ سے کیا۔ اور وہاں اس زمانے میں مددگار رکھنے کی عیاشی ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کے مصداق تھی۔ جان ناتواں اور اس کی ناتجربہ کاری نےکچھ قابل اور بہت سے ناقابلِ بیان کارنامے سر انجام دیے۔ پیاری ساس کا انوکھا لاڈلا اپنے متلون مزاج کی وجہ سے’’مزاجی خدا‘‘ کے مزے لوٹتا تو بچوں کی آمد ہماری مامتا کا امتحان لیتی رہی۔
ناچیز کو رب العالمین نے جدہ میں عمرہ اور حج کے زائرین کی روزانہ، ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ مہمان داری کے لیے منتخب کیے رکھا، کبھی کبھار ہاتھ بٹانے کے لیے کسی فرد کی شدت سے ضرورت محسوس ہوتی۔ اس وقت ڈسپوزیبل برتنوں کی عیاشی بھی میسر نہ تھی۔ بھلا ہو دینی بہنوں کا جنہوں نے خود سے ہی یہ اصول طے کر لیا تھا کہ جس گھر میں رسمی یا غیر رسمی ملاقات کو جانا ہوگا، میزبان کے باورچی خانے کو سمیٹ کر، برتن دھو کر آئیں گی۔ تو اسی ادا پہ نہال ہو کر ہم تھکن سے مجبور دل سے یہ دعا کرتے کہ:
’’یاللہ کرم کر دے، کسی بہن کے دل کو نرم کردے‘‘۔
دل کو دل سے ایسی راہ نکلتی کہ کسی نہ کسی بہن…

مزید پڑھیں

اے طائرِ لاہُوتی! – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

اللہ الخالق سے بڑھ کر اور کس کو علم ہو سکتا ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات کیا ہیں!
سیدنا آدم اور سیدہ حوا علیہما السلام کو اللہ رب العزت نے جنت میں داخل ہونے کا اذن فرمایا تو وہاں ان دونوں کے لیے جو نعمتیں تیار تھیں وہ بفراغت کھانا (روٹی) عمدہ لباس (کپڑا) اور رہنے کو جنت (مکان) تھی۔فرمایا سورہ طٰہٰ کی آیت ۱۱۸ میں:
’’یہاں (جنت میں) تو تمہیں یہ (نعمتیں) حاصل ہیں کہ نہ بھوکے رہتے ہو نہ ننگے‘‘۔
جب آدم و حوا دنیا میں اتارے گئے تو زمین ان کے لیے بطور مکان پہلے سے موجود تھی اور ہر نئے آنے والے انسان کی ضرورت اسی ترتیب سے منسلک ہے۔ہر بچے کے لیے ماں کا پیٹ اگر مکان تھا تو اس کی خوراک کا انتظام اسی مکان میں مہیا تھا البتہ ماں کے پیٹ سے جدا ہونے کے لیے کوئی جگہ بھی ضروری تھی جہاں وہ جنم لے سکے اور پھر فوری ضرورت کسی کپڑے کی تھی جس میں اس کا احساسِ تحفظ برقرار رہے اور انسانی فطرت کا پہلا استعارہ اس کے نام ہو جائے کیونکہ لباس ہی انسان اور جانور میں امتیازی نشان ہے۔
اس کے بعد دنیا میں آتے ہی اولادِ آدم پہ بھوک کا احساس…

مزید پڑھیں

خاص مضمون- بدعاتِ محرم – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

محرم الحرام کا اصل پیغام یہ ہے کہ حق کا بول بالا کرنے کو مقصدِ زندگی بنایا جائے
قرآن پاک کی سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
’’حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اُس کے ( اللہ تعالیٰ کے) نوشتہ میں بارہ ہی ہے ۔ اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ( رجب، ذیقعد،ذالحج،محرم)۔یہی ٹھیک ضابطہ ہے ( کیلنڈر کا ) لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو۔ جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور اچھی طرح جان لو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ہی ساتھ ہے (یعنی متقیوں کا حق ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا ساتھ دے ) ان چار مہینوں میں محرم کی اہمیت مزید رسولﷺکے اقوال مبارکہ سے بھی عیاں ہوتی ہے ۔ محرم کا معنی ہے بہت زیادہ قابل تعظیم، ان مہینوں کی حرمت ابتدائے آفرینش سے ثابت ہے۔‘‘
حج الوادع میں نبی ؐنے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا۔
’’لوگو! زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلیت پر آگیا ہے ۔ سال کے بارہ مہینے ہؤا کرتے ہیں ۔ جن میں سے چار حرمت والے ہیں ۔…

مزید پڑھیں

قصور وار کون؟ – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

شہر کی معروف اور مصروف ترین سڑک پہ ہجوم بڑھتا جا رہا تھا، ہر کسی کی خواہش تھی کہ صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنی رائے کا اظہار کرے ۔ وہاں ایک سائیکل والے مزدور کی ٹکر ایک کار سے ہوگئی تھی۔ ہجوم کی اکثریت کار والے کو برا بھلا کہہ رہی تھی، سب لوگ اپنے ضروری کاموں کو بھول کر اس حادثے کے ذمہ دار کا تعین کرنے میں لگے ہوئے تھے، راہ گیر زیادہ تر درمیانہ طبقہ تھا جس کی رائے یہ تھی کہ قصور کار والے کا ہے، عینی شاہد وں میں سے کسی نے سائیکل والے کا قصور ظاہر کرنے کی کوشش کی تو کسی نے اس بات پہ توجہ نہ دی۔ سب کار والے کی امارت کو لعن طعن کر رہے تھے اور کار کو نقصان پہنچا نے پہ آمادہ تھے ، اس بات کو جانے بغیر کہ معاملہ کیا ہے۔ سب اپنا وقت برباد کر رہے تھے جیسے دنیا میں اس سے اہم کوئی کام نہیں ہے۔
ٹریفک کے قوانین کے کچھ بین الاقوامی اصول و ضوابط ہوتے ہیں ۔دانشوروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کی ، ذہنی تربیت، اخلاقی رویے، وقت کی اہمیت ، کا اندازہ ٹریفک قانون کی پاسداری…

مزید پڑھیں

احسان کی حقیقت – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

عموماً ہمارے معاشرے میں احسان کسی کی ایسی نیکی کو کہا جاتا ہے جو ہمیں بوجھ محسوس ہو جس کو سر سے اتارنے کی جلدی ہو یا خود نیکی کر کے جیسے کسی دوسرے کو قرض دیا ہو اور اس کی واپسی کے منتظر ہوں، مثلاً:
’’میں نے اس پہ احسان کیے اور اس نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا‘‘۔
’’میں کسی کے احسان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی/سکتا’’ یا ‘‘مجھے کسی کے احسان کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
احسان کا لفظ قرآن پاک میں کثرت سے آیا ہے۔لغت میں ’’احسان‘‘ کا معنی حسین بنانا، صناعت میں عمدگی اور اس میں استحکام پیدا کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اللہ کی ذات ہی ہے جس نے ہر چیز بنائی اور بہت خوب بنائی۔ (سورہ السجدہ: ۷)
اصطلاح میں ’’احسان‘‘ شرعی مطلوب کو حسین ترین طریقہ سے پیش کرنا ہے۔اس کے علاوہ لغوی معنی کے لحاظ سے احسان، برائی کے مقابل آتا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الرعد آیت نمبر ۲۲ میں فرمایا کہ ’’…اور وہ برائی کو بھلائی سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے ہی آخرت کا گھر ہے۔‘‘اسی طرح سورہ یوسف میں آیت نمبر ۱۰۰ میں ذکر ہے کہ ’’یقیناً میرے رب نے مجھ پہ احسان کیا‘‘۔ یعنی ایک…

مزید پڑھیں

رائے، اپنا تعارف ہے – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

رائے قائم کرنے کا مطلب کسی واقعہ، معاملہ، خبر، یا کسی بات کی اطلاع ہونے کے بعد اپنے علم و فہم، ذہن، تعلیم و تربیت، حالات، ماحول، خصوصاً مزاج اور نیت کے مطابق اظہارِ بیان کرنا یا ردِّعمل ظاہر کرنا ہے۔ اور یہی بیان یا ردِّعمل انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
سب سے پہلا اظہارِ بیان جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے وہ آدم کے زمین پہ خلیفہ بنائے جانے کی خبر پہ فرشتوں کی طرف سے تھا۔ فرشتوں نے اپنے علم کے مطابق یہ رائے قائم کی کہ’’وہ تو خلیفہ بن کر فساد کرے گا‘‘ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ زمین پہ جنات کو اختیارات دیے گئے تھے تو انہوں نے زمین کو فساد سے بھر دیا تھا۔ دوسری رائے فکر و اندیشے لیے ہوئے تھی کہ ایسا تو نہیں کہ ہم الله رب العزت کی حمد و ثنا میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہوں۔
اس کے بعد شیطان کی طرف سے اظہارِ بیان، اور رائے آتی ہے تو یہ کہ’’میں اس سے بہتر ہوں‘‘ اور ردِّعمل میں اولادِ آدم سے انتقام کا جذبہ سامنے آتا ہے۔ گویا کہ شیطان نے اپنا تعارف خود کرا دیا… الله الخالق نے فرشتوں کی رائے پہ اظہار فرمایا’’انی اعلم…

مزید پڑھیں

گوشہ ِتسنیم – قیمتی سرمائے کی حفاظت – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

قوموں کی زندگی میں پیش آنے والے معرکے ہی دنیا کی تاریخ میں اچھا یا برا مقام بنا پاتے ہیں۔ اور اسی حوالے سے کوئی بھی قوم اپنے کردار کا تعین کرتی ہے۔
دنیا بھر کے تاریخی آثار ہر قوم کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ اور ان سے عقل مند لوگ ہی عبرت، نصیحت اور سبق حاصل کرتے ہیں اور یہی لوگ حالاتِ حاضرہ میں قوم کے راہنما کہلائے جاتے ہیں۔
بحیثیت امتِ مسلمہ کے جسدِ واحد ہونے کا احساس وہ قیمتی سرمایہ ہے جس سے دنیا کی قیادت کی گئی اور اب بھی کی جا سکتی ہے۔
یہ احساس زندہ رکھنا ہی امتِ مسلمہ کے سارے دکھوں کا علاج ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ قیمتی سرمایہ اور میراث کیسے گنوا دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ جب نفس پرستی اور بے لگام خواہشات نے دنیا کی زندگی میں مگن کر دیا تو پھر موت سے خوف آنے لگا اور یہی وہ بیماری ہے جس کی وجہ سے مسلمان کلمۂ حق سے ناآشنا ہوگئے اور ہر مسلمان ملت کے مقدر کا ستارہ نہ رہا۔
ہر مومن کا دل ایمان کی روشنی سے جگمگاتا ستارہ ہے۔ یہ مومنوں کے دل ہی ہیں جو امتِ مسلمہ کو کہکشاں بنا دیتے ہیں۔
یہ خوبصورت احساس صدیوں کے بعد دوبارہ…

مزید پڑھیں

رب کا شکر ادا کر بھائی! – بتول جولائی ۲۰۲۱

’’لہور لہور اے‘‘ کا احساس قلب و جان پر حاوی تھا۔ زندہ دلانِ لاہور نے ادبی لوگوں سے ملاقات کروا کے میرا لہو گرما دیا تھا اور خلوص و محبت کی جو پوٹلیاں ہر فرد اور ہر گھر سے حاصل ہوئی تھیں ان کو رکھنے کے لیے دل میں بھی خود بخود وسعت پیدا ہو گئی تھی۔ دل محبتیں پا کر کیسے کھِل جاتا ہے… جیسے ننھی سی کلی پھول بن جاتی ہے! اور مجھے لاہور کو الوداع کہنا تھا۔ میرا اگلا سٹاپ مری تھا۔
میرے شوہر نے فون پہ ہدایت کی (جو کہ خود مری میں تشریف رکھتے تھے) ’’لاہور سے بس پکڑو اور پنڈی فیض آباد پہنچو، وہاں سے وین لو جو کہ چند قدم کے فاصلے سے مل جائے گی اور بس آرام سے مری آ جائو‘‘۔
ان کی حاکمانہ سی معلومات کو سنتے سنتے میں نے فیض آباد بس سٹاپ پر دو بیگ اٹھائے چند قدم چلنے کا تصور کیا اور کہا۔
’’میں اس بس پہ آئوں گی جو سیدھی مری آتی ہو گی‘‘۔
ان کی طرف سے بہادری کے جذبات کو ابھارنے او رعورت کی کمزوری کا احساس دلانے والے لہجہ میں ارشاد ہؤا۔
’’مرد بنو‘‘۔
میں نے مردانہ زندگی کی ناہمواریوں کا سوچا اور کہا۔
’’ٹھیک ہے، میں مرد بن جاتی…

مزید پڑھیں

مفت میں پائیدار خوشی- بتول ستمبر ۲۰۲۱

انسان دنیا میں جو بھی کوشش، محنت کرتا ہے اس کی بنیادی وجہ خوشی کی تلاش ہوتی ہے ۔ یہ خوشی آخر کیا جذبہ ہے؟ اس کی وضاحت سے شاید سبھی مطمئن نہ ہوں کیونکہ خوشی کی اقسام انسانوں کی طرح مختلف ہوسکتی ہیں۔ ایک نارمل انسان کی خوشی کا تعلق اپنی زندگی کے مقصد سے منسلک ہوتا ہے اگر مقصد ہی غیر فطری ہوگا تو خوشی حاصل کرنے کے سارے پیمانے غلط ہوں گے نتیجتاًخوشی بھی بے مقصد نا پائیدار اور منفی ہوگی ۔
سچی اور پائیدار خوشی حاصل کرنے کے لیے سچے اور پائیدار جذبے درکار ہوتے ہیں اور سچے جذبے انسانیت کا شعور رکھنے والے انسانوں میں ہوتے ہیں ۔
تکبر کے ساتھ مال و دولت کے انبار ،اقتدار کی اعلیٰ مسند ، حسن و وجاہت کا مجسمہ ہوجانا سچی خوشی کی ضمانت نہیں ہو سکتے البتہ گزارے لائق وسائل زندگی کے ساتھ وسیع القلبی، عاجزی و انکساری بے بہا سچی خوشی کی ضامن ہو سکتی ہے۔ حالات کیسے بھی ہوں سچی خوشی کے لیے شرط صرف یہ ہے کہ اپنا انسان ہونا یاد رہے اور بحیثیت انسان سب کا برابر ہونا کبھی نہ بھولے ۔
کیا ہم واقعی خوش ہیں ؟
اپنے آپ سے ،اپنے شریک حیات سے ،اپنی اولاد…

مزید پڑھیں

دروازہ- بتول اکتوبر ۲۰۲۱

دروازہ ہماری زندگی کا ایک اہم جز ہے ۔ دروازہ کھلا ہو یا بند اس کے ساتھ ہماری بہت سی نفسیاتی جہتیں وابستہ ہیں ۔
بند دروازے بھی نعمت ہیں ۔حفاظت اور رازداری اور ذاتی معاملات کی پردہ داری رکھتے ہیں ۔اگر دروازے بند نہ ہوسکتے کسی الماری کے گھر یا کمرے کے تو کتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔اس موضوع پہ جتنا غور کریں تو بند کواڑ کی اہمیت سمجھ آتی ہے۔
لیکن یہی بند دروازے جب کھل نہ سکیں یا کوئی ہمارے لیے کھولنا نہ چاہے تو کتنی کوفت ہوتی ہے۔ اور در کے نہ کھلنے یا نہ کھولنے کے ساتھ بھی کس قدر جذباتی اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غرض ہر شے کے دو پہلو ہوتے ہیں اور دونوں اپنے مقام ، موقع و محل کی نسبت سے اہم ہوتے ہیں ۔
کسی زمانے میں شہروں کے بھی دروازے ہوتے تھے جو شہریوں کی حفاظت کے لیے بنائے جاتے تھے ۔اجنبی لوگوں کا داخلہ شہر میں آسان نہ ہوتا تھا۔ بڑے گھروں میں بیرونی اور داخلی دروازے ہوتے۔ مردان خانے اور زنان خانے کے درمیان بھی پردہ داری ہوتی تھی ۔ ہر شہر ، محل، حویلی ، گھر چھوٹا ہو یا بڑا یا جھونپڑی اندر داخل ہونے کا…

مزید پڑھیں

حق لے کر رہنا ہے – بتول اگست ۲۰۲۱

دنیا میں انسان نے خود اپنے لیے جو سب سے بڑا فساد کھڑا کر رکھا ہے وہ ’’حق لینے‘‘ کا ہے۔ اپنے بنیادی انسانی حقوق حاصل کرنے کی ایک لا متناہی لسٹ ہے جس میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا میں آرام و آسائش کے وسائل وافر، وسیع اور سہل الحصول ہوتے جا رہے ہیں تو حقوقِ انسانی بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
چند دہائیاں پہلے زندگی کس قدر ہلکی، آسان اور پر سکون تھی۔ جب وصول کرنے کی نسبت دینے کی فکر رہتی اور اسی میں قلبی خوشی و راحت محسوس کی جاتی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ نفسانی خواہشات، ذاتی حقوق کا حصول مقصد زندگی نہیں بنا تھا اور اپنے حقوق کےبارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں اور نہ ہی یہ اس قدر گھمبیر مسئلہ تھا۔ اب ہر انسان وہ نابالغ بچہ ہی کیوں نہ ہو اپنے حقوق کا پرچم لیے پھرتا ہے۔ والدین سر توڑ کوشش میں لگے ہیں کہ بچوں کو مطمئن کر سکیں مگر اولاد اپنے حقوق پہ سمجھوتہ کرنے پہ راضی نہیں۔
میاں بیوی نے ایک دوسرے سے حقوق لینے والی آنکھ کھلی رکھی ہوئی ہے۔ اسی طرح باہم سمدھیانوں کے دل ایک اندھا کنواں بنتے جارہے ہیں۔ ہر رشتہ، تعلق جو…

مزید پڑھیں

عہدِ وفا-بتول جنوری ۲۰۲۱

نکاح ایک ایسا عہد وفا ہے جس کو اللہ رب العزت کے نام پہ گواہوں کی موجودگی میں قائم کیا جاتا ہے۔ اور ’’عہد الست‘‘ کے بعد یہ وہ پہلا اقرار ہے جو اولاد آدم کے درمیان لازمی قرار پایا ہے ۔ رب العلمین نے اولاد آدم سے اقرار لیا کہ وہ ہر حال میں اسی کو رب تسلیم کریں گے یہ خالق اور مخلوق میں وہ ’’عہد وفا‘‘تھا جس کے گواہ فرشتے اور کل کائنات تھی ۔ دنیا کا نظام چلانے کے لیے مرد اور عورت کے درمیان ایک معاہدہ نکاح کی شکل میں لازم ہؤا جس پہ گواہ لازمی اور اعلان مستحسن ہے ۔ دنیا کی کوئی تہذیب اس سے انکار نہیں کر سکتی ۔ جانوروں اور انسانوںکے طرز زندگی میں یہی بنیادی فرق ہے ۔
’’عہد الست ‘‘میں مکمل وفا کا تقاضا ہے ۔ قولی عملی اور ظاہری و باطنی طور پہ ایک ہی رب کا ہو کر رہنا اور اور اس کو’’ ادخلوا فی السلم کآفۃ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
سیدنا آدم عليہ السلام اور اماں حوا کو اللہ تعالیٰ نے اپنی فرماں برداری کی پہلی شرط کے ساتھ ایجاب و قبول کروا کر ایک دوسرے کے ساتھ سر تاپا وفا کی پاسداری کا پابند کر…

مزید پڑھیں

تزکیہ قلب کیسے ہو؟ بتول مئی ۲۰۲۱

انسان کا قلب ایک آئینے کی مانند ہے جو اگر صاف شفاف ہو تو اس میں تجلیات کا عکس نظر آنے لگتا ہے۔ چار امور ایسے ہیں جنہیں زندگی میں قوت ایمانی سے شامل کیا جائے تو یہ عکس حاصل ہونا ممکن ہے:
۱: گناہ چھوٹے ہوں یا بڑے سب کو خالص نیت اور ثابت قدمی کے ساتھ مکمل طور پہ ترک کرنے کی ایسی ہی کوشش کی جائے جیسے جہاد اور ہجرت کے لیے کی جاتی ہے بالخصوص وہ گناہ جو جنسی شہوات یا منفی اخلاق، جذبات و خیالات سے متعلق ہوں۔
۲: استغفار کی کثرت ہو، یہ دل پر موجود گناہوں کی تاریکی اور سیاہی کو مٹاتا ہے۔ توبہ و انابت سے دل صیقل ہو جاتا ہے۔
۳: خاموشی اور تنہائی میں علمِ حقیقی کے لیے مطالعہ کرنا، غور وفکر کے ساتھ ذکر الٰہی میں مشغول رہنا، اپنا محاسبہ کرنا، اور صلہ رحمی کے ساتھ دیگر حقوق العباد ادا کرنا، اُن کی ضروریات کو احسان جتائے بغیر احسن طریقے سے پورا کرنا یہ اس آئینے کومزید چمک فراہم کرتا ہے۔
۴: آخری اور سب سے زیادہ ضروری امر ہے آیات قرآنی، صحیفہ کائنات و موجودات، نفسِ انسانی اور واقعات و حالات پر قرآن حکیم کی روشنی میں مسلسل تدبر و تفکر کرنا۔…

مزید پڑھیں

فیصلہ انسان کا ہے -بتول اپریل ۲۰۲۱

قرآنِ مجید نے پہلے انسان کی تیاری کے لیے مٹی کی مختلف کیفیات کا ذکر کیا ہے۔ وہ أحسن تقویم اس وقت بنا جب خاکی پتلے میں روح پھونکی گئی۔
بطنِ مادر میں نظامِ ربوبیت کے محیر العقول کرشموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ باری تعالیٰ بچے کی حیاتیاتی تشکیل کے یہ تمام مرحلے ماں کے پیٹ میں تین پردوں کے اندر مکمل فرماتا ہے۔ یہ بچے کی حفاظت کا کس قدر خوشگوار اِہتمام ہے۔
اِرشادِ ربانی ہے (الزمر، 39: 6):
’’وہ تمہیں ماؤں کے پیٹ میں تاریکیوں کے تین پردوں کے اندر ایک حالت کے بعد دُوسری حالت میں مرحلہ وار تخلیق فرماتا ہے۔ یہی اللہ تمہارا ربّ (تدرِیجاً پرورش فرمانے والا) ہے۔ اُسی کی بادشاہی (اندر بھی اور باہر بھی) ہے۔ سو اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، پھر تم کہاں بہکے چلے جاتے ہو!‘‘
17ویں صدی عیسوی میں Leeuwen Hook نے خوردبین (microscope) اِیجاد کی۔ صاف ظاہر ہے اِس سے پہلے اندرونِ بطن اُن مخفی حقیقتوں کی صحیح سائنسی تعبیر کس کو معلوم ہو سکتی تھی! آج سائنس اُن پردوں کی حقیقت بھی منظرِ عام پر لے آئی ہے جس کی رُو سے اس امر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ واقعی بطنِ مادر میں بچے کے…

مزید پڑھیں