۲۰۲۴ بتول مارچ

ابتدا تیرے نام سے

قارئینِ کرام سلام مسنون
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔اللہ کرے ہم اس کے فیوض و برکات سے کما حقہ مستفید ہوں۔ بدلتےموسم کے ساتھ طوفانی ہواؤں کا زور رہا۔ بلوچستان میں غیر معمولی اور شدید بارشوں نے ساحلی علاقوں میں تباہی مچا دی ،خصوصاً گوادر، جیونی اور سربندن میں بہت نقصان ہؤاہے۔سیلابی ریلوںنےکاروبار زندگی معطل کر کے رکھ دیا ، لوگ مشکل میں ہیں اور انہوں نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے خصوصی انتظامات کی اپیل کی ہے۔
ملک میں عام انتخابات پر امن طور پہ منعقد ہوئے ، نتائج کے بارے میں فافن کی رپورٹ ہے کہ پولنگ سٹیشن تک شفافیت قائم تھی مگر ریٹرننگ افسرکی سطح پر جاکر یہ شفافیت چھوڑ دی گئی۔بہرحال اس بار ووٹروں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ یہ ملک میں جمہوریت کے لیے لوگوں کی خواہش اورجمہوری عمل کے ذریعے اپنی پسند کے اظہار کا ثبوت ہے۔اس شعورکو کام میں لاتے ہوئے سیاسی قوتوں کو آئندہ کے کسی ایسے لائحہ عمل پر اتفاق کر لینا چاہیے جس کے تحت حکومتیں بنانے اور گرانے کے فیصلوں میں وہ خود مختار ہوں ، کسی دباؤ یا لالچ کا شکار نہ ہوں، عوامی فیصلوں کو تسلیم کریں اور اپنا مقدمہ صرف عوام کی عدالت میں لے کر…

مزید پڑھیں

بھری گود – قانتہ رابعہ

شازیہ محسن کی شادی کو آٹھ سال مکمل ہوچکے تھے جب قدرت نے اسے وہ خوشخبری سنانے کے لیے منتخب کیا جس کے لیے اس کے کان ہمہ وقت منتظر رہتے تھے۔
پہلے پہل تو بزرگ خواتین اور اس کے بعد بچے بوڑھے جوان سب نے پوچھ پوچھ کر ناک میں دم کر دیا تھا۔شادی کو تیسرا مہینہ شروع ہؤا تھا جب عالیہ ممانی نے پوچھا۔
’’شازی کوئی خیر خبر؟‘‘
’’جی اللہ کا شکر ہے سب بہت اچھے ہیں سب میرا بہت خیال رکھتے ہیں ‘‘آنٹی تو مجھے ابھی کسی کام کو ہاتھ تک نہیں لگانے دیتیں ‘‘ناسمجھی سے شازیہ نے کہا۔
’’ اوہو ،بےوقوف لڑکی میں دوسری خیر خبر پوچھ رہی ہوں ،گڈ نیوز والی‘‘ انہوں نے آواز اور لہجے کو دھیما کرتے ہوئے وضاحت کی۔
شازیہ کے گلے میں پھندا سا پھنسا ،شاید ماتھے پر ناگواری سے ایک آدھ بل بھی آیا ہو ،تاہم وہ سر نیچے کر کے بیٹھی رہی کہ اس کے تاثرات چھپے رہیں مگر تابکے۔
ایک ماہ دو ماہ یہاں تک کہ نوے چھ چھیانوے ماہ بھی گزر گئے۔پہلے استفسار کیا جاتا رہا پھر استغفار کی نوبت بھی آپہنچی۔
’’شازیہ….محسن کی بیوی ،ہاں تو میری مدثرہ کی اس سے دو ماہ بعد میں شادی ہوئی تھی اللہ کا شکر ہے تین…

مزید پڑھیں

گڈّھا نہیں بھرتا – سید رفیق حسین

نا واقف لوگوں کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ گورنمنٹ کے تمام محکموں میں سب سے عجیب و غریب محکمہ نہر کا ہے ۔لیکن ناظرین اگر اس محکمے کی صرف ان دو خصوصیات پر غور کریں گے تو خود سمجھ جائیں گے ۔اول یہ کہ اس کے علاوہ تمام محکمے ایک دوسرے سے دست و گریباں کی طرح الجھے ہوئے ہیں ، یہ ایک تنہا الگ ہے ۔ نہ اسے کسی اور سے سرو کار ہے اور نہ کوئی اور محکمے والا اس کے کاموں میں دخل دے سکتا ہے ۔ دوم یہ کہ بقیہ تمام محکمے طرح طرح سے روپیہ حاصل کر کے خزانے میں جمع کرتے ہیں اور یہ خاموش، مسکین صورت ، معصوم و ضع گروہ روپیہ خزانوں سے نکال کر اطمینان سے خرچ کرتا ہے ۔ اب اس محکمے کے بقیہ حالات ناظرین خود تصور کرلیں ۔
یہاں ایک ہستی بڑی قابلِ تعریف عجائباتِ قدرت میں سے ہوتی ہے ( سب اوورسیئر کیسے کہوں ، بگڑ جائیں گے ) آپ بابو جی ہیں ۔ بڑے سیدھے ، بڑے نیک ۔ خاکساری آپ کا شیوہ ہے ، انکساری آپ کی طینت ہے ، لیکن وہیں تک یعنی صاحب علاقہ صاحب کے ڈیرے یا بنگلے تک ۔…

مزید پڑھیں

ماہِ تربیت – ڈاکٹربشریٰ تسنیم

یقین جانیے وقت کم ہے اور کام زیادہ ، سو ابھی اور اسی وقت سے اپنے معاملات کو درست کرلیجیے….یہ ماہ ِمبارک صرف بھوکا پیاسارہنے کا نام نہیں ، بلکہ اس کا مقصدانسانی کردار میں بہتری لانا ہے

الحمدُ للہ ! ماہ رمضان المبارک ہم پرسایہ فگن ہو چُکا ہے جسے ’’ماہِ تربیت‘‘ کہنا اس کا حق ادا کرنا ہے ۔ یاد رکھیے!روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ، بلکہ اس کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں خود احتسابی کاایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ نیز، ہمارے سامنے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ عام دنوں میں جن گناہوں، برائیوں اورغلط کاموں کا ذمّے دار ہم شیطان کو ٹھہراتے ہیں ،در اصل ذمّے دار ہم خود ہوتے ہیں۔ اسی لیے شیطان کے شر سے پناہ مانگنے سے پہلے اپنے نفس کے شر سے پناہ مانگنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ یہ اپنا نفس ہی ہے جو شیطان کی چالوں میں پھنس جاتا ہے ۔
روزہ ہمیں صبر و برداشت، تحمّل اور تزکیہ نفس کا درس دیتا ہے۔ لیکن ہم روزے ہی کے نام پربھوک پیاس کا پرچار کرکے یا اُسے بہانہ بنا کر دوسروں پر لعن طعن،ڈانٹ ڈپٹ اور غصّےکاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔خلقِ خدا کے…

مزید پڑھیں

غنچہ وگل کی آبیاری بچوں کی تربیت کے لیے چند اہم نکات – کوثر خان

بچوں کی تربیت والدین کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔ اولاد اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے،اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا اس کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا نعمت کی شکر گزاری ہے اور نعمتوں کا اپنی مرضی سے استعمال کرنا اور غفلت برتنا ناشکری ہے۔کسی دانا کا قول ہے:
’’ تعلیم کی کمی کو تربیت ڈھانپ لیتی ہے لیکن تربیت کی کمی کو تعلیم پورا نہیں کرسکتی‘‘۔
آ ج کے اس پرفتن دور میں والدین کے لیے خاص طور پر ماؤں کے لیے بہت توجہ اور محنت سے بچوں کی تربیت کی ضرورت ہے، کیونکہ میڈیا کے اس دور میں بچوں کے بگڑنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ خاص طور پر موبائل تک رسائی نے نئی نسل کو بہت تیزی سے بے راہ روی کی طرف گامزن کردیا ہے۔ موبائل اپنے فوائد کے ساتھ ساتھ ایک سحر انگیز اور ہلاکت خیز آلہ بھی ہے۔اس سے فرار بھی ممکن نہیں اور اس کے استعمال پر مطمئن بھی نہیں رہا جا سکتا۔مائیں بچوں کو موبائل دے کر بے فکر ہوجاتی ہیں۔ انہیں یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ آلہ بچوں کے لیے کس قدر تباہی لا سکتا ہے۔
بچوں کی تربیت کے حوالے سے چند…

مزید پڑھیں

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات – پروفیسر خواجہ مسعود

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
شاعر مشرق، مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا یہ مشہور زمانہ شعر جتنا ہمارے ماضی کے حالات پر صادق آتا ہے اتنا ہی ہمارے موجودہ حالات کی عکاسی کرتا ہے ۔بلکہ آج کے دور میں تو اس شعر کی تفسیر زیادہ عیاں و آشکارا ہوتی ہے ۔
مرگِ مقاجات سے مراد نا گہانی یا اچانک موت ہے ۔ اس شعر میں علامہ نے ہمیں سمجھایا ہے کہ جوقومیں کمزوری ، کم ہمتی اور عدم اعتماد کا شکار ہو جاتی ہیں انہیںبڑی طاقتیں زیر کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔انہیں اپنا دستِ نگر بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔
کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو
کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہانی
اور
دلِ مردہ دل نہیںہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
آج کے دور میں سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام بے حد ضروری ہے ۔ معاشی استحکام بغیر کسی ملک یا سلطنت کا قائم رہنا مشکل ہو جاتا ہے اورجب وہ ملک دیوالیہ پن کا شکار ہوتا ہے تو پھر ذلت و خواری کا سامنا کرناپڑتا ہے ۔
بنیاد لرز جائے جو دیوارِ چمن کی
ظاہر ہے کہ انجام گلستاں کا…

مزید پڑھیں

اسلام کی خاتونِ اوّل ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ – ڈاکٹر سلیس سلطانہ

اسلام میں خاتون اول کا درجہ و مرتبہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کو حاصل ہے جو قریش کے ایک نامور سوداگر خویلد بن اسد کی صاحبزادی تھیں ۔ حضرت خدیجہ ؓ 555ء میں پیدا ہوئیں ۔ اس زمانے میںبعض قبائل عرب میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا ۔ مگر آپؓ کے والد نے آپ کی پرورش نہایت پیار و محبت سے کی ۔ خویلد بن اسد مالی اعتبار سے بہت مستحکم تھے اور ان کی تجارت شام و یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ حضرت خدیجہ ؓ بچپن سے سنجیدہ ، نیک خو تھیں اور طاہرہ اور سیدۃ النسا کے نام سے معروف تھیں۔
حضوراکرم ؐ سے نکاح سے پہلے آپؓ کا نکاح ابو ہالہ بن بناش تمیمی سے ہؤا جن سے آپ ؓ کے دو بیٹے ہند اور ہالہ پیدا ہوئے ۔ ہالہ کم عمری میں انتقال کر گئے اور ہند جنگ جمل میں شہید ہوئے ۔ ابو ہالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ کا نکاح عتیق بن عائدمخزومی سے ہؤا ان سے ایک بیٹی ہند پیدا ہوئیں جو مسلمان ہو گئیں اور صحابیات میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔ عتیق کے بعد صیفی بن امیہ سے نکاح ہؤا جو حرب الفجار میں مارا گیا۔
خویلد…

مزید پڑھیں

اعتکاف – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

اعتکاف مخلوق سے تعلق کاٹ کر، اور دنیا کی مصروفیات کو ترک کرکے اللہ تعالیٰ سے جڑ جانے اوراس کی رضا حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنے کا نام ہے۔ جس میں بندہ اللہ کے ساتھ تعلق کو بڑھاتا ہے حتیٰ کہ اس کی بندوں سے انسیت سے بڑھ کر اللہ سے انسیت پیدا ہو جاتی ہے۔(زاد المعاد، ابن القیم، ۲۔۸۷)
اعتکاف ’’عکف‘‘ سے ہے، جس کے معنی ’’خود کو روک دینے‘‘ یا ’’کسی چیز پرجما دینے‘‘ کے ہیں۔اصطلاح میں اس سے مراد ہر چیز سے الگ ہو کر یادِ الٰہی کے لیے گوشہ نشین ہو جانا ہے۔اسی چیز کو اعتکاف کہتے ہیں۔ رمضان المبارک اور مسجد سے اسے خاص نسبت ہے۔آپؐ کے ارشادات اور عمل سے اسی جانب رہنمائی ہوتی ہے۔
معتکف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی رمضان کے آخری دس دن مسجد میں رہے ، اور یہ دن اللہ کے ذکر کے لیے مختص کر دے۔ اس اعتکاف میں آدمی اپنی حاجات کے لیے مسجد سے باہر جا سکتا ہے، مگر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہوانی لذتوںسے روکے رکھے۔
اعتکاف ایک ایسی سنت ہے جس کا اہتمام رسول اللہ ﷺنے ہر رمضان میں فرمایا۔اور زندگی کے آخری برس آپؐ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔
اعتکاف کیا…

مزید پڑھیں

گواہی – آسیہ راشد

صبح کا آسمان بے حد اجلا اجلا سا تھا ۔ آسمان کے وسیع سمندر میں بادلوں کے ہلکے ہلکے ٹکڑے کسی بادبانی کشتی کی مانند ادھر سے اُدھر بھٹک رہے تھے ۔ ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی جوطبیعت میں خوشگواریت کا احساس بھر دیتی تھی ۔ نماز فجر کے بعد میںدوبارہ سونے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں تھامے باہر لان میں آ بیٹھی تھی۔
ملگجے اجالے میں مجھے اپنا سارا گھر اونگھتا سا دکھائی دے رہا تھا ہر سو اللہ کی قدرتوں کی بڑائی اورنوازشوں کے شکرانے کے گیت سنائی دے رہے تھے ۔
درختوںکے پتوں میں سے گھونسلوں میں چھپی ہوئی چڑیاں ھوالرحمٰن الرحیم اللہ کی رحمانیت کے گیت گا رہی تھیں۔زمین آسمان درخت پرندے ہوا پانی سبھی سبحانہ‘ کا ورد کررہے تھے۔ دائودی لحن فضا میں بکھرا ہوا تھا۔ میں نے سورۃ الرحمٰن کی تلاوت شروع کردی ۔ مقدس کتاب کا جادو ہرسوچھا گیا تھا ۔ خاموش روشوں پر نورکی برسات دکھائی دے رہی تھی ۔ اس عظیم کتاب کی ہیبت کا احساس میرے وجود پر چھا رہا تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ سارے ماحول پرچھایا وجد اس کے اوراق کوکھول کھول کر بیان کر رہا تھا ۔
اتنے میں اخباروالے کی ’’ اخبار ‘‘…

مزید پڑھیں

جُھنڈ کے پار – عالیہ حمید

نواب غلام علی کی وسیع و عریض، سرخ اینٹوں سے بنی شاہانہ حویلی کے پچھواڑے برآمدے میں، کرسیوں پر بیٹھے دو بہن بھائی اور ان کی ماں ، سر جوڑے ایک مسئلے کو حل کرنے کی کوشش میں تھے۔ بھائی کو منٹو پارک جلسے میں شریک ہونے کے لیے امرتسر سے لاہور جانا تھا۔
’’بھائی آپ کو پتہ ہے کہ ابا جان اس کی اجازت ہر گز نہ دیں گے ،وہ پاکستان ،قائد اعظم اور دیگر قائدین کا نام بھی نہیں سننا چاہتے‘‘ فاطمہ نے کہا ۔
’’اماں آپ بات کریں ناں ابا سے ، اس بار میں قائدین کی تقاریر ضرور سننے جاؤں گا‘‘ احمد علی نے لجاجت سے کہا ۔
’’بیٹا وہ میری بات کہاں سنیں گے ،الٹا ناراض ہوں گے کہ میں تمہیں نہیں سمجھاتی، پہلے ہی آئے روز یہ طعنہ ملتا ہے کہ میں نے اصرار کرکے تمہیں علی گڑھ بھیجا ‘‘ ماں نے بے بسی سے کہا۔
’’تو پھر ایک اور راستہ ہے کہ انہیں دوستوں کیساتھ مطالعاتی دورے کا بتا کر لاہور جلسے میں چلا جاؤں گا‘‘ اس نے آنکھوں کو سکیڑ کر فاطمہ اور ماں کی طرف دیکھا۔
’’آپ ابا جان کو دھوکہ دیں گے ؟‘‘ بہن نے کہا ۔
’’نہیں…. ‘‘چند ثانیے سوچ کر جواب آیا ۔
’’آپ نہ…

مزید پڑھیں

میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے – ربیعہ ندرت

میرے میاں سابق فوجی ہیں۔ چونکہ میری زندگی کا بیشتر حصہ ان کے ہمراہ بسر ہؤا ہے لہٰذا اپنے سالہاسال کے عمیق مشاہدے اور تجربے کی بناء پر میں پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ انسان اگر ایک دفعہ فوجی بن جائے تو ریٹائر ہو جانے کے بعد وہ سابق فوجی تو ہو سکتا ہے لیکن غیر فوجی کبھی نہیں ہوتا۔
میرے میاں کو پاکستان سے انتہائی محبت ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شرعی اور اخلاقی حدود کی طرح ملک کی سرحدیں بھی عبور کرنے کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ یہ تو صرف اس لیے بنائی جاتی ہیں کہ چوکس ہو کر ان پر پہرہ دیا جائے، دشمن پر گہری نظر رکھی جائے اور ہر موسم میں، ہر حال میں، ہر قیمت پر اس کی در اندازی کو روکا جائے۔ اس لیے ہمارے بچے جب بھی اصرار کرتے ہیں کہ ہم کچھ عرصے کے لیے بیرون ملک ان کے پاس چلے جائیں تو میرے میاں فوراً حامی بھرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’فکر نہ کرو۔ میں بہت جلد تمہاری ماں کو تمہارے پاس بھیج دوں گا‘‘۔
اس کے بعد وہ خالصتاً فوجی لہجے اور سیاسیانہ شان کے ساتھ مجھے حکم دیتے ہیں۔
’’بیگم! اپنی تیاری کر لو۔ ایک دو روز میں تمہارا ٹکٹ…

مزید پڑھیں

محشرِ خیال

پروفیسر خواجہ مسعود۔ اسلام آباد
شمارہ فروری2024 اس بار ٹائٹل خوبصورت ہے اگرچہ اس میں خزاں رسیدہ درخت دکھائے گئے ہیں اور اب تو بہار کی آمد آمد ہے ۔
’’ابتدا تیرے نام سے ‘‘محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا فکر انگیز اداریہ) اداریہ کے آغاز میں آپ نے جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی نامور ہستی محترمہ زہرہ عبد الوحید کی دینی اور دنیاوی خدمات پر انہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔
اس کے بعد آپ نے ووٹ کی اہمیت کوو اضح کیا ہے کہ ہمیں اپنے ووٹ کے ذریعہ مخلص اور ملک و ملت کے خیر خواہ نمائندوں کو منتخب کرنا چاہیے۔
اسرائیل کے بارے میں آپ کے یہ جملے زبردست ہیں ’’ دنیا کی سب سے بڑی عدالت بھی اگر زمین کے اس شیطان کے آگے بے بس ہے تو شاید اب خدا کی عدالت سے ہی فیصلے کا انتظار ہے اور یہ فیصلہ ظالم کے لیے ہی نہیں بلکہ ظالم کا ساتھ دینے اور تماشا دیکھنے والی ہرقوت کے لیے ہوگا ‘‘۔ ایران پاکستان کشیدگی کے بارے آپ کا یہ جملہ قابل غور و فکر ہے ’’ بیرونی طاقتوں کی خوشنودی کی خاطر اپنے ہمسایہ ممالک سے دشمنی پالنا کسی طرح سے بھی دانشمندی نہیں ہے ‘‘۔
’’ شیطان کی صفات‘‘( محترمہ…

مزید پڑھیں

معیار – مریم فاروقی

ہماری بہت اچھی دوست نوید ہ باجی ہیں ۔ ان سے13،14 سال پرانا تعلق ہو گیا ہے ۔ قرآن کے درس کے حوالے سے دوستی بنی تھی ابھی تک چلی آتی ہے۔پہلے تو پڑوسی تھے ہمارے گھر سے کچھ گھر چھوڑ کے ، اب دو ر چلے گئے ہیں ۔ لیکن اتنے دور ہی گئے ہیں کہ ہفتے چار ہفتے بعد ملاقات ہوجاتی ہے۔
انہوں نے اپنی بیٹیوں کو درمیانہ ماحول دیا ہے ۔نہ بہت دینی نا زیا دہ دنیاوی ۔میاں زبان کے تیز ہیں ویسے مزاج کے درمیانہ ہیںنہ غصیل نہ نرم مزاج!
پہلے انہوں نے اپنی چھوٹی بیٹی کی شادی کی اٹھارہ سال کی عمر میں کیونکہ پھپھو کی طرف سے رشتہ آیا اورجلدی کا تقاضا بھی۔ میںنے دیکھا ہے کہ چھوٹی بیٹیوں کی پہلے شادی سے یہ ہوتا ہے کہ ان کو راہنمائی کے حوالے سے سمجھ نہیں آتی، کون ان کی دوست بن کر ہم دردی سے سسرالی معاملات سمجھائے ، ان کی چھوٹی چھوٹی الجھنوں کو سلجھائے اور شادی کے بعد وہی پیار کرنے والی پھپھو اوران کی اولاد کسی اور ہی نظر سے دیکھتے ہیں اور محبت کی بجائے تنقیدی نظر بھی ہو جاتی ہے ۔ تو پھر سمجھ نہیں آتی کہ کیسے اپنی بات بتائی…

مزید پڑھیں

نعیم صدیقی کی زندانی شاعری – زوبیہ لطیف

زندانی شاعری کی اصطلاح کا اطلاق دو معانی میں ہو سکتا ہے:
۱- وہ ادب جو زنداں میں تحریر کیا گیا۔
۲- وہ ادب جو زنداں اور اس کے متعلقات کے بارے میں تخلیق ہوا۔
ڈاکٹر سعادت علی صدیقی کی رائے میں زندانی ادب کی اصطلاح صرف پہلے مفہوم میں استعمال کرنی چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’وہ ادب جو زنداں اور اس کے متعلقات کے بارے میں تحریر کیا گیا ہے ہمارے خیال میں زندانی ادب نہیں ہے بلکہ عام ادب کا ہی ایک حصہ ہو سکتا ہے۔ اس میں زنداں کا استعمال اکثر ایک علامت کے طور پر بلکہ ایک رسم کے طور پر ہوتا ہے اور خصوصاً اردو شاعری میں تو زنداں اور اس کے متعلقات کے مضامین پر لاکھوں اشعار آسانی سے دستیاب ہو سکتے ہیں۔‘‘
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قفس اور زنداں اردو شاعری کی سب سے مقبول علامت ہیں۔ جن کا استعمال تقریباً ہر شاعر نے کیا ہے۔ لہٰذا زندانی شاعری سے مراد وہ شاعری ہے جو اسیری کے دوران میں پس دیوارِ زنداں رہتے ہوئے کی جائے۔ اس کے لیے حبسیہ شاعری کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔
زندانی ادب کی مختصر تاریخ
۱۸۵۷ء کی ناکام جنگِ آزادی سے قبل کی شاعری کے جائزے میں تو صرف مغل…

مزید پڑھیں

نٹ کھٹ زندگی – عینی عرفان

شازمہ اور شاہ زر کا گھر خوشیوں کا گہوارہ ہے جہاں زندگی مسکراتی ہے۔ عماد اور حماد ان کے دو نوجوان جڑواں بیٹے ہیں جن کی کرونا کی وجہ سے چوبیس گھنٹے گھر میں موجودگی شازمہ کو گھن چکر بنائے رکھتی ہے۔ ماں کے کام کا بوجھ کم کرنے کے لیے دونوں ہمہ وقت شادی کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ذرا دیر کے لیے ماضی میں جھانکتے ہیں۔ شازمہ اور شاہ زر کی کم عمری میں شادی ہوئی۔ شاہ زر کو ملازمت دوسرے شہر میں ملنے کی وجہ سے دونوں کو شادی کے بعدخاندان سے الگ رہنا پڑا۔ کم عمری اور نا تجربے کاری کی وجہ سے دونوں ہی پریشان ہوتے ہیں۔ قدرت نے جلد جڑواں بیٹوں کی نعمت سے نواز دیا۔ بچوں کا کوئی مسئلہ ہو یا گھر کا کوئی معاملہ دونوں ہی روز اپنی ماں اور ساس سے فون کرکے مشورے لیتے ہیں۔ بچے ایک سال کے ہوچکے تھے۔ کراچی میں شازمہ کے بھائی کی شادی تھی۔ شاہ زر کو چھٹی نہ ملی اور شازمہ کو شاہ زر کے بغیر بچوں کے ہمراہ کراچی جانا پڑا۔آگے پڑھیے۔

شازمہ بھائی کی شادی کے لیے بہت پرجوش تھی۔ روز روز امی کے ساتھ بازاروں کے چکر لگتے۔ بچوں کو ابو…

مزید پڑھیں

نازکی تیرے ڈنک کی کیا کہیے! – نادیہ سیف

برابر کے کمرے سے ہر تھوڑی دیر بعد تالی کی آواز آ رہی تھی….اس نے شکر ادا کیاکہ کم ازکم بڑے بچے تو اپنا دفاع خود کر سکتے ہیں

ہوا ایسی رک گئی تھی کہ جیسے پتہ بھی ہل نہ پا رہا ہو۔حبس کا عالم تھا،اسےکھینچ کھینچ کرسانس لیناپڑ رہا تھا۔وہ کمزور لاچار سی ایک ایسے بوڑھے درخت کے نیچے پڑی ہوئی تھی جس کے ارد گرد پھیلی جڑوں کے اتار چڑھاؤ اس کے جسم میں گڑتے ہوئے تکلیف دے رہے تھے۔ اچا نک کچھ شاخوں نے جادوئی انداز میں نیچے جھکتے ہوئے اسے دبوچ لیا،اتنا کہ اس کا دم گھٹنے لگا….قریب ہی ایک پھنکار سنائی دی تو خوف کے مارے اس کے دیدے پھٹ گئے۔ اور اس نے اپنے جکڑے وجود کو چھڑوانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیے….لیکن پوری طاقت لگانے کے باوجود وہ خود کو آزاد نہ کروا پائی….اور بالآخر سانپ نے اسے ڈس لیا!
اپنے ہی گال پر خود کے زور دار تھپڑ سے اس کی آنکھ کھلی ،جبکہ اصل نشانہ خطا ہو گیاتھا۔
مچھر کی بھن بھن سے بے زار ہو کر اس نے پسینہ صاف کیا۔ آنکھیں پھاڑ کر صورتحال سمجھی اور اپنی گردن سے لپٹا چار سالہ بیٹی کا بازو نکالا ،کندھے پہ رکھا…

مزید پڑھیں

ابھی ہم کچھ نہیں کہتے !

حقیقت پھر حقیقت ہے
مگر مانا نہیں جاتا
ابھی ہم کچھ نہیں کہتے
ابھی تو میری دنیا کا ہر اک دستورالٹا ہے
جو پھولوں سے بھی نازک ہو
یہاںپر خار کہلائے
وفا و عہد کا پیکر
یہاں غدار کہلائے
ملاہے بے وقاروں کو
خطاب عزت ماٰبی کا
سبب کیسے کوئی سمجھے
تباہی کا خرابی کا
کھڑی ہے چپہ چپہ پر
برائی دام پھیلائے
یہاںایمان بکتا ہے
یہاں انسان بکتا ہے
یہاں پر دام لگتے ہیں
کوئی بے دام بکتا ہے
یہاں پہ جرم کرنے پر
بڑے انعام ملتے ہیں

نوازش ان پہ ہوتی ہے
بڑے اکرام ملتے ہیں
خزانہ لوٹنے والے
بڑے انعام پاتے ہیں
جو خالی ہاتھ آتے ہیں
وہی بد نام ہوتے ہیں
انہی کے سر پہ دنیا کے
سبھی الزام ہوتے ہیں
عجب دورِ زمانہ ہے
حقیقت بھی فسانہ ہے
ابھی ہم کچھ نہیںکہتے
کہ ہم سب بے ضمیرے ہیں
برائی کے سفیر ے ہیں
کسی ظالم سے آنکھوں کو ملانا ہی نہیں آتا
حقیقت میں حقیقت کو بتانا ہی نہیں آتا
یہاں پر بولنے والا ابھی موسم نہیںآیا
مگر موسم تو آئے گا
ضمیروں کو جگائے گا
ہر اک مظلوم کا چہرہ
ہنسے گا مسکرائے گا

مزید پڑھیں

صنف نازک کمزور نہیں – ندااسلام

عورت وہ ہستی ہے جو اپنی صنف کی بنا پرظلم کی چکی میں پستی رہی ہے۔کبھی جاہلیت کے باعث اس کا استحصال کیا گیا تو کبھی نام نہاد جدید شعور اور وومن امپاورمنٹ کے نام پر اس کے جسم وروح کو رگڑا لگایا گیا۔مگراسلام صدیوں قبل عورت کی حیثیت واضح کر چکا ہے،جو اتنی منصفانہ ہے کہ اگر اس کے مطابق عورت کا مرتبہ متعین کیا جائے تو کوئی عورت ظلم کا سامنا نہ کرے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، تمہاری بیویوں پر تمہارے کچھ حق ہیں اور تمہارے اوپر ان کے کچھ حق ہیں۔تمہارا حق عورتوں پر یہ ہے کہ جس کا گھر میں آنا اور تمہارے بستر پر بیٹھنا تمہیں ناپسند ہو وہ اس کو آکر وہاں بیٹھنے کا موقع نہ دیں،پس اگر وہ ایسی غلطی کریں تو ان کو تنبیہ اور تادیب کے طورپر تم سزا دے سکتے ہو،جو زیادہ سخت نہ ہو۔اور ان کا تمہارے اوپر یہ بھی حق ہے کہ تم مناسب طریقے پر ان کے کھانے کپڑے وغیرہ ضروریات کا بندو بست اور انتظام کرو ۔
یہ بھی فرمایا کہ ،لوگو! بیویوں سےاچھاسلوک کرو کیونکہ وہ تمہاری مدد گار ہیں اور خود اپنے لیے وہ کچھ نہیں کر سکتیں ۔…

مزید پڑھیں

شیطان کی صفات – بنت الاسلام

شیطان حیلہ جُو ہے
شیطان کی ایک اور صفت جو بتائی جاتی ہے ٗ وہ یہ ہے کہ وہ بڑاحیلہ جُو ہے۔اسے اس بات کی بڑی مشق ہے کہ چکر کھا کھا کر انسان کے سامنے آئے اور فریب دے دے کر اسے مطمئن کر دے کہ جس راہ کی طرف وہ اسے لے جا رہا ہے ٗ وہ برائی کی راہ ہے ہی نہیں ٗ وہ تو عین بھلائی ہے۔
دنیا میں بڑے بڑے ظالم حکمران ایسے گزرے ہیں جو ظلم توڑتے ہوئے یہی سمجھتے رہے کہ وہ تو ملک میں نظم و نسق اور امن و امان قائم کر رہے ہیں اور شریر عناصر کا استیصال کرکے اہلِ ملک پر احسان کر رہے ہیں حالانکہ ان کے ظلم کی چکی میں شریر عناصر سے زیادہ بے گناہ پستے رہے اور ملک میں امن و امان انصاف کرنے سے قائم ہوتا ہے نہ کہ ظلم کرنے سے۔
بے شمار خوش عقیدہ لوگ دیکھنے میں آتے ہیں جو بزرگوں کی قبروں پر جا جا کر سجدے کرتے ٗ چڑھاوے چڑھاتے اور کھلے کھلے مشرکانہ اعمال کرتے ہیں مگر شیطان ان سے یہ سب کام کراتے ہوئے انہیں بالکل مطمئن رکھتا ہے کہ یہ سب کچھ عین دینداری ہے!
بہت سے ایسے ’’دیندار‘‘ موجود ہیں…

مزید پڑھیں

عرف اور دین – ڈاکٹر محمدغیاث

اپنی علاقائی اقدار و روایات کو دین قرار دینا درحقیقت افراط اور تفریط کا مظہر ہے ،معاصر تصور پردہ اور لڑکیوں کی تعلیم پر دینی تعلیمات کی روشنی میں ایک تجزیہ

میرا خیال ہے کہ ہم پاکستانی اور بالخصوص پشتون علماجب بھی سماجی مسائل پر غور کرتے ہیں تو ہم ان مسائل کو اپنے مخصوص علاقائی نفسیات،تہذیب ، ثقافت اور تمدن کو مد نظر رکھ کر ان کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے ہماری علمی آراپر شرعی رنگ کے بجائے علاقائی رنگ زیادہ غالب ہوتا ہے اور بعض اوقات تو اس کی روح شریعت اسلامی کے ساتھ بالکل مطابقت نہیں رکھتی۔جس کی وجہ سے ہم مقامی مسلمان نما لوگوں کے مسائل تو عرف کو سامنے رکھتے ہوئے حل کر سکتے ہیں لیکن ان مسائل کی حقیقت اور نوعیت کے اعتبار سے دینی تعلیمات سے مزین کوئی مطلوب حل پیش نہیں کر پاتے۔
بہر کیف ایک تو ہمارا معاشرتی مزاج اس طرح بن چکا ہے کہ ہم عرف کو دین پر ترجیح دیتے ہیں اور یہ مزاج درحقیقت اہلِ کتاب کا تھا جس کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے۔
ترجمہ: پھر یہ تم ہی ہو جو اپنے لوگوں کو قتل (بھی) کرنے لگے اور اپنے میں سے ایک گروہ کو…

مزید پڑھیں

اُترن – فریدہ عظیم

’’ امی میرے عید کے کپڑے کیسے ہیں ؟ ‘‘عمارنے ماں کے گلے میںبانہیں ڈالتے ہوئے لاڈ سے پوچھا۔
’’ بہت خوبصورت بہت پیارے بالکل شہزادے لگو گے پہن کر‘‘۔
’’ دکھائیں مجھے‘‘۔ وہ بضد ہو گیا ۔
’’ابھی تو میں کام کر رہی ہوں نا ، بیٹے ، کل چانددکھے گانا تو میں استری کر کے ٹانگ دوں گی تو پھر تم دیکھ لینا‘‘ ۔
’’امی ابھی !‘‘ عمار نے ضد کی۔
’’بری بات بیٹے امی کو تنگ نہیں کرتے‘‘۔
’’اچھا بتائیے حماداللہ جیسے ہیں ؟ چچی جان کہہ رہی تھیں حماد اللہ کاسوٹ ایک ہزار کا آیا ہے اور پانچ سوکے جوتے‘‘۔
عمار کے چہرے پر رنج اور مایوسی کی جھلک دیکھ کر وہ پریشان ہوگئیں۔ ان کا دل بیٹھنے لگا ۔ خدایا میرے بچے شدید احساس کمتری کا شکار ہو رہے ہیں ، کس طرح انہیںسمجھائوں ، طلعت بیگم پریشانی سے ہاتھ مل رہی تھیں ۔ رب العالمین میں کیا کروں ان بچوں کی ننھی ننھی خواہشوںکو پورا کرنا میرے بس میںنہیں۔ ہمیں سسرال میں دو وقت کی روٹی اورسر چھپانے کو جگہ مل گئی بہت بڑی نعمت ہے ۔ورنہ میںبیوہ عورت یہ سب بھی نہیں کر سکتی تھی۔
’’امی !‘‘ عمار نے انہیںسوچوں سے نکالا ۔’’ حماد اللہ اتناگورا کیوں ہے سب کہتے ہیںوہ…

مزید پڑھیں

ظاہرکی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی – اسماصدیقہ

آج ویک اینڈ تھا۔ وہ آفس سے گھر لوٹا تو گھر میں بڑی رونق تھی۔ دونوں بڑی بہنیں اپنے بچوں سمیت آئی امی کے ساتھ کچن میں مصروف تھیں، ان کے بچے گھر میں دوڑتے پھررہے تھے۔ نوشاد ان سب سے مل کر خوش ہوگیا ۔ادھر ہفتہ بھر بعد اس کے بڑے بھائی نعمان شارجہ سے پورے دوسال بعد آنے والے تھے ،کچھ ان کے استقبال کی تیاریاں تھیں ۔اور امی جو بڑے بیٹے کی دوری میں مرجھاسی گئی تھیں آج تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ ابو بھی بڑے ہشاش بشاش تھے۔اگرچہ دونوں کے ہی نعمان سے انٹرنیٹ پہ رابطے تھے ،ویڈیو کالز ہؤا کرتیں مگر انھیں یہ سب کھوکھلا لگتا تھا، بالکل دھوکہ سا۔
’’ بس امی اب ان دو میں سے ایک کو ڈن کرہی دینا چاہیے‘‘ سدرہ باجی نے موبائل میں تصویریں اور پروفائل دیکھتے ہوئے اطلاع دی گویا۔
’’ ہاں بھئی دیکھ لیا بہت، اب بسم اللہ کردینی چاہیے ،نعمان کے جانے سے پہلے نکاح ہوجائے دوماہ کے اندر ہی اور ان شاء اللہ سال بھر کے اندر بہو گھر آجائے‘‘ امی نے بیتابی سے فیصلہ سنادیا۔
’’مگر ابھی تو دو میں سے ایک کا چناؤ باقی ہےنا ‘‘ یسریٰ باجی نے کچن میں جاتے ہوئے کہا’’بھئی میں…

مزید پڑھیں