۲۰۲۳ بتول اگست

اے طائرِ لاہُوتی! – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

اللہ الخالق سے بڑھ کر اور کس کو علم ہو سکتا ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات کیا ہیں!
سیدنا آدم اور سیدہ حوا علیہما السلام کو اللہ رب العزت نے جنت میں داخل ہونے کا اذن فرمایا تو وہاں ان دونوں کے لیے جو نعمتیں تیار تھیں وہ بفراغت کھانا (روٹی) عمدہ لباس (کپڑا) اور رہنے کو جنت (مکان) تھی۔فرمایا سورہ طٰہٰ کی آیت ۱۱۸ میں:
’’یہاں (جنت میں) تو تمہیں یہ (نعمتیں) حاصل ہیں کہ نہ بھوکے رہتے ہو نہ ننگے‘‘۔
جب آدم و حوا دنیا میں اتارے گئے تو زمین ان کے لیے بطور مکان پہلے سے موجود تھی اور ہر نئے آنے والے انسان کی ضرورت اسی ترتیب سے منسلک ہے۔ہر بچے کے لیے ماں کا پیٹ اگر مکان تھا تو اس کی خوراک کا انتظام اسی مکان میں مہیا تھا البتہ ماں کے پیٹ سے جدا ہونے کے لیے کوئی جگہ بھی ضروری تھی جہاں وہ جنم لے سکے اور پھر فوری ضرورت کسی کپڑے کی تھی جس میں اس کا احساسِ تحفظ برقرار رہے اور انسانی فطرت کا پہلا استعارہ اس کے نام ہو جائے کیونکہ لباس ہی انسان اور جانور میں امتیازی نشان ہے۔
اس کے بعد دنیا میں آتے ہی اولادِ آدم پہ بھوک کا احساس…

مزید پڑھیں

محشر خیال

قانتہ رابعہ۔ گوجرہ
آج بتول (جولائی) ملا ہے، ماشاءاللہ مددگار سپلیمنٹ بھی خاصے کی چیز ہے۔
تمہاری تحریر اس مرتبہ شائع ہوجانی چاہیے تھی۔ گزشتہ شمارے میں میری روک کر اپنی دے دیتیں، میں تو لکھنے کی بک بک کرتی رہتی ہوں البتہ تمہاری خوبصورت تحریر پڑھے مدتیں بیت گئیں۔
میمونہ حمزہ کا ماسی نامہ اس مرتبہ بھی ٹاپ پر رہا۔آسیہ راشد کا مردم گزیدہ افسانوی رنگ میں شروع ہؤا لیکن وعظ و نصیحت لیےختم ہؤا۔پڑھ کر دل بہت افسردہ ہؤا۔ جن حالات میں والدین مددگار بچیوں کو کام کے لیے بھیجتے ہیں تربیت نام کی چیز تو دور رہ جاتی ہے ۔غریب بھی چاہتے ہیں ان کی بیٹیوں کو عزت سے بلایا جائے مگر جہالت کی انتہا ہے کہ بچی کو چار چوٹ کی مار ماں باپ سے اس لیے کھانا پڑی کہ وہ پکڑی کیوں گئی۔اگر چوری کا سراغ نہ چھوڑتی تو یہی والدین شاباشی دیتے۔دل بہت دکھا ۔ آخرت ان کی بھی ہوگی اور آخرت کام لینے والوں پر بھی برپا ہوگی۔ اللہ ہی جانے روز قیامت کن کا پلڑا نیکیوں میں اور کن کا زیادتیوں میں بھاری نکلے گا۔ لازم نہیں کہ ہمیشہ اور ہر جگہ کام لینے والے ہی ظالم ہوں، بسااوقات کام کرنے والیوں کی زیادتیاں اتنی…

مزید پڑھیں

بتول میگزین

یوں ہی تو نہیں!
ثروت اقبال
امی میں شاہد بھائی کی شادی میں لہنگا پہنوں گی۔ آپ مجھے لہنگا بنا دیں نا! میں نے امی سے بڑی لجاجت سے کہا۔
امی نے کہا ،دیکھو بیٹا آج کل ہاتھ بہت تنگ ہے اور پھریہ میرے بھانجے کی شادی ہے تو شادی کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، تحائف دینا شادی کی تقریبات میں آنا جانا تمام اخراجات مشکل سے پورے ہو رہے ہیں۔
میں نے کہا، امی کل سب کزنز نے یہی طے کیا ہے کہ سب شادی میں لہنگا پہنیں گی، اگر میں نہیں پہنوں گی تو کتنا عجیب لگے گا نا! مجھے بھی اچھا نہیں لگے گا،اور ہاں بڑی پھپھو ،چھوٹی پھپھو، چچی اور تائی امی سب ساڑھی پہنیں گی اور امی آپ بھی ساڑھی پہنیں گی۔
ساڑھی کا نام سن کر امی کی آنکھیں کچھ چمک اٹھیں ۔میں سمجھ گئی، امّی تو اپنی وہی پسندیدہ ساڑھی پہنیں گی جسے انہوں نے بہت سنبھال کر دوہرے شاپر میں بند کرکے الماری میں رکھا ہؤا ہے۔ مجھے امّی کی اس ساڑھی کو دیکھے ہوئے بھی کئی سال ہوگئے تھے کیونکہ امی نے وہ ساڑھی ایک یا دو مرتبہ ہی خاص موقعوں پر پہنی تھی۔
یہ سوچتے سوچتے میں سو گئی۔ رات خواب میں بھی میں لہنگا پہنے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کتب – ماہنامہ بتول مدد گار نمبر – پروفیسر امینہ سراج

نام کتاب/رسالہ : چمن بتول مدد گار نمبر
شمارہ : جون2023
قیمت : 200روپے
عملی کاوش : مخلص و باصلاحیت قلم کاروں کی ٹیم
تنظیم، ترتیب : مجلس ادارت
مرہون منت : نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْر
چمن بتول ( مدد گار نمبر) کی خوبصورتی ، جامعیت اور تنوع احساسِ زیاں پیدا کر رہی ہے کہ میں اس شمارے کے مصنفین میں کیوں شامل نہ ہو سکی ۔میں نے سوچا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد مطالعے اور تحریر کو زیادہ ٹائم دے سکوں گی خصوصاً ’’چمن بتول‘‘ کو لیکن ایک دو سال ہی ایسا ہو سکا ۔ بعض اوقات حالات ایسی کروٹ لیتے ہیں کہ آپ کی مصروفیات یکسر بدل جاتی ہیں ۔ گھر ، شریکِ حیات اور خاندان شاید میرا زیادہ ٹائم لینے لگے ہیں بہ نسبت اپنی ذاتی دلچسپیوں کے لیکن میں اس میں بھی مطمئن رہتی ہوں کہ یہ بھی فرائض زندگی کا حصہ ہے۔ کئی لوگ ( بشمول صائمہ اسما) مجھ سے سوا ل کرتے ہیں کہ ’’ آپ بہت کم لکھتی ہیں ؟‘‘ میری کمزوری یہ ہے کہ میں تیزی سے نہ تو پڑھ سکتی ہوں اور نہ لکھ سکتی ہوں ۔کئی لوگ ایک ہی نشست میں کتاب یا رسالہ ختم کر لیتے ہیں لیکن میری تسلی نہیں ہوتی محض ورق…

مزید پڑھیں

موبائلی سیاپے – نبیلہ شہزاد

مسکین مائوں کی جرأ ت ہی نہیں ہوتی کہ فون پکڑ کر کسی کو فون کر لیں …پہلے وہ اس لڑاکا مخلوق کے سو جانے کی دعائیں مانگتی ہیں … ایک حسبِ حال تصویرکشی
سمارٹ فون ابھی نئے نئے آئے تھے کہ کسی اللہ والے، دانا، سائیں لوک آدمی نے ایک خیالی تصویر بنا کر پیشین گوئی کی تھی کہ جب ہاتھ میں موبائل ہوگا تو انسان کو اپنے اردگرد کی کسی چیز کا ہوش نہیں رہے گا۔
تصویر کچھ اس طرح تھی کہ عورت اپنی گود میں پڑے بچے کو ایک ہاتھ سے فیڈر پلا رہی ہوتی ہے اور دوسرے ہاتھ سے موبائل پکڑ کر دیکھ رہی ہوتی ہے۔ پھر مصور اس کے ساتھ ہی ایک اور تصویر بنا کر تھوڑی دیر بعد کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس منظر میں دکھایا جاتا ہے کہ فیڈر بلی پی رہی ہوتی ہے، بچہ گود سے گر کر قریب ہی فرش پر پڑا رو رہا ہوتا ہے اور خاتون خانہ موبائل میں مگن مسکرا رہی ہوتی ہے۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ دودھ بلی پی رہی ہے اور بچہ رو رہا ہے۔
موبائل نے ہمیں اتنا زیادہ بے خبر کیا ہے یا نہیں اس کا تو مجھے علم نہیں لیکن اتنا ضرور سنتے…

مزید پڑھیں

با مروّت ہیڈ ماسٹر – دانش یار

حریک پاکستان کے ایک کارکن کا تذکرہ جس نے سید مودودیؒ کی تحریروں سے دو قومی نظریہ پھیلانے کا کام کیا
1961ء میں ہمارے ملک میں انگریزی زبان کی تدریس کے لیے نیا نصاب رائج کیا گیا تھا ۔ اس کی تدریس میں اہم جدت Teaching by direct methodتھی۔ سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں انگریزی کی تدریس کے استاد شیخ عبد الحق ؒ ہوتے تھے ۔ انہیں نصابی سفارشات کے مطابق چھٹی جماعت سے دسویں جماعت تک کی درسی کتب لکھنے والی فاضل شخصیات میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا ۔ وہ بعض اسباق لکھتے اور ساتھ ہی ہمیں وہ پڑھا کر دکھاتے۔ یوںپڑھاتے ہوئے استاد کو مستعدی اور پورے تحرک سے طلبہ کو متوجہ رکھنا پڑتا تھا ۔دوران تدریس یہ ممکن نہ تھا کہ استاد کرسی پر بیٹھ سکے ۔ مجھ جیسے طلبہ کو بیداری بخت کے سبب جو تصور ِ تعلیم تحریکی لٹریچر سے ملا تھا اس کے تحت استاد کی شخصیت خود نمونہ بن کر طلبہ کی رہنمائی کرتی تھی۔
میں نے اپنے ٹریننگ کے دورانیہ سے فراغت کے بعد 22اگست 1961ء سے ہائی سکول میں پڑھانا شروع کردیا تھا ۔ ستمبر  1962ء میں گورنمنٹ سروس میں تقرر ہؤا اور میں اگست 1963ء میں بہاول پور کے گورنمنٹ ہائی…

مزید پڑھیں

سفر سعادت( ۲) – اور سامنے منزل آجائے – آمنہ راحت،برطانیہ

باہر نکل کر میںنے بھائی سے رابطہ کیا جو طواف مکمل کر چکے تھے ۔ میں بھائی کا انتظار کرنے کے لیے مطاف ہی میںجائے نماز بچھا کر بیٹھ گئی۔ جب بھائی آئے تو انہوں نے خانہ کعبہ کے سامنے میری تصویر اتاری۔ ہم اس کے بعد اپنی بہن کا انتظار کرنے کے لیے پہلی منزل کی سیڑھیوںپر جا بیٹھے ۔ وہاں سے خانہ کعبہ سامنے نظر آ رہا تھا ۔ میں نے اوربھائی نے ابھی اپنے ہاتھ دعا کے لیے بلند کیے ہی تھے کہ شرطوں نے ہمیں وہاںبیٹھا دیکھ لیا اور ’’یلہ حجہ‘‘ کرکے وہاں سے اٹھا دیا ۔ ہم وہاں پاس ہی زمین پر بیٹھ گئے ۔ بہن کے واپس آتے ہی واپس جانے کا ارادہ کیا ۔ میں باربار اپنے ہاتھ اور بازو کو دیکھ رہی تھی سبحان اللہ ! اللہ جی کیسے نا ممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں۔
قیام اللیل کے بعد ایک بار پھر میں طواف کے لیے چکروں کا قصد کر کے ہجوم میں شامل ہو گئی ۔ لا تعداد لوگ تھے ، بے انتہا رش تھا اور سب انتہائی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہے تھے ۔ کہیں فرش پر کسی کا جوتا گرا تھا تو کسی کی جراب ۔ لگتا تھا کہ…

مزید پڑھیں

منتخب کہانی – مگر ایک شاخِ نہالِ غم – الطاف فاطمہ

ایک وفا دار ملازم کی انوکھی کہانی جو تقسیمِ ہند کے نشیب و فراز سے ہوتی ہوئی کشمیریوں کی جدوجہد ِ آزادی پر ختم ہو جاتی ہے مگر بہت اہم سوالات اٹھا دیتی ہے ۔
آج کا خبرنامہ ابھی ابھی اختتام کو پہنچا ہے ۔ خارجہ سیکرٹری کی سطح پر ایک بار پھر بات چیت کا آغاز ہؤاہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دور تو مکمل بھی ہو لیا ، اب دوسرے کی تیاری ہے ۔
آج کی یہ اہم خبر جو قطعی تازہ نہیں اور بے پرت ہے ، اس کا گہرا تعلق ایسے تسلسل سے ہے جس میں نقطۂ آغاز ہی جاری و ساری ہے ، سارے اعداد و شمار پر حاوی ہے ۔اور مجھے تو آج بھی وہ اس گھر کی بالائی منزل کی چھت پر کھڑا نظر آتا ہے ….اَنتھک ، مستقل اور سنگی ستون ، ایک مخصوص سمت کی جانب گھورتا ہؤا۔ یہ قصہ ہے نصف صدی کا مگر کہاں ، کیسے ؟ اور میں کس طرح یقین کر لوں کہ ابھی ٹی وی پر کشمیر فائل دیکھی ہے….فلیش بجلی کے کوندے کے مانند لپک کر سامنے آتا ہے اور معدوم ہو جاتا ہے ۔
خبر نامے اور موسم کی غیر یقینی کیفیت کے بعد کشمیر فائل کی سرسری…

مزید پڑھیں

قسط11 – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

ایک جملہ ہے جس نے پون کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔وہ اسے کسی خزانے کی چابی سمجھ رہی ہے مگر اس کی سہیلی خدیجہ بتاتی ہے کہ یہ کلمہ شہادت ہے۔خدیجہ سے مل کر ماضی کی یادوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ایک خواب اسے اکثر بے چین رکھتا ہے۔وہ ہر طرف آگ لگی دیکھتی ہے۔اس کی زندگی عجیب کش مکش کا شکار ہے۔وہ آگ سے شدید خوف زدہ بھی ہے مگر اس سے بچنے کے لیے جو اسے کرنا چاہیے وہ سب کرنے کی ہمت نہیں ہے اس میں۔اور پھر ایک دن وہ فیصلہ کر لیتی ہے۔اسلام قبول کرنے کا فیصلہ۔
عائشہ کو اس کی حالت پر تشویش ہو رہی تھی ۔
’’ خوش ہوں ….اب تو بہت خوش ہوں ‘‘ وہ بڑے یقین کے ساتھ بولی تھی ’’ آج تو میرا ذہن بہت سکون میں ہے ، ورنہ آج سے پہلے تک سوتے میں وہ سب کچھ پریشان کرتا تھا جو لا شعور میں تھا اور جاگتے میں وہ جوشعور میں تھا ۔ ایک وقت پر تو مجھے لگتا تھا کہ مجھے پاگل ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ میری بھوک باقاعدہ طور پر مر گئی تھی ۔مگر آج تو میرا دل بہت مطمئن ہے ۔ اس سے بھی…

مزید پڑھیں

کرم اور تقدیر – شہلا خضر

سورج اپنی بانہیں سمیٹنے کو پر تول رہا تھا تمام دن اپنی کرنیں زمین کے باسیوں پر نچھاور کرتے کرتے وہ نڈھال ہو چکا تھا ۔ تھکے ماندے قدموں سے افق کے اس پار کہیں چین کی نیند سونے جارہا تھا۔زرد ، نارنجی ، گلابی نرم نرم روشنی نے آسمان کو رنگین چادر اوڑھا دی تھی۔مارچ کے اوائل کی خنک ہواؤں کی ہلکی سرسراہٹ چاروں جانب محسوس کی جا سکتی تھی۔
’’امجد اینڈ سن ‘‘بناسپتی گھی فیکٹری کے عقبی میدان میں آج میلے کا سا سماں تھا۔بھانت بھانت کی وضع قطع کےسینکڑوں مزدور جمع تھے ۔
جان توڑ مشقت کے پورے ایک ماہ بعد معاوضہ لینے سب جفا کش لمبی قطاروں میں کھڑے تھے۔اس روز ان گنت مسائل کا وزن ہلکا ہو جانے کی مبہم سی امید جاگ جاتی ہے ۔سب بے شمار تفکرات دل و دماغ میں سموئے ہم’’بدرالدین کیشئر‘‘ کی آمد کے منتظر تھےکچھ ہی دیر میں وہ آتا دکھائی دیا ۔
چیک لینے کا سلسلہ شروع ہؤا ‘تو صدمے کا ایک زبردست جھٹکا لگا\سیٹھ امجد کے حکم پر سب کی تنخواہ سے سیلابی بارشوں کے دوران غیر حاضری پر پورے چار دن کی اجرت کاٹ دی گئی تھی حالانکہ شہر کی تمام سڑکیں پانی میں ڈوب جانے سے شہر کئی…

مزید پڑھیں

زیتون کہانی – بنتِ سحر

ایک صحن سے دوسرے صحن تک کا فاصلہ لامتناہی بن جائے گا، کسے خبر تھی! اس سرزمین کی کہانی جہاں لکھی جانے والی ہر داستانِ محبت جدائیوں کی پُرپیچ راہوں سے ہو کر گزرتی ہے
 
” ٹک “کر کے کچھ اس کے سر میں لگا تھا۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا اور سامنے دیکھا۔ وہ نظروں کے بالکل سامنے تھا۔ وہ جس کی آنکھیں بولتی تھیں۔ نیلی آنکھوں میں شوق کا جہاں آباد کیے ، ذرا ذرا سی ندامت بھری نرمی لیے وہ صالح نضال….جو صلاحیت، قوت اور طاقت میں اپنے نام کا ایک تھا ، اس لڑکی کے سامنے کھڑا تھا۔ یقیناً وہ اپنے ہم دیوار گھر میں جھکی چچا کے زیتون کی واحد ٹہنی سے لٹک کر اسی کے ذریعے ان کے گھر میں کودا تھا۔
اور وہ سنہری تاروں سے بنے بالوں اور سبز آنکھوں والی خلیلہ یحییٰ جو چند لمحے قبل سر جھکائے اپنی سوچوں میں گم تھی، صالح کو دیکھتی اس کی آنکھوں میں پہلے غصے اور پھر دُکھ نے جنم لیا اور لمحے بھر میں اس کی آنکھیں بھرآئیں۔
صالح نے ایک لمحہ نہیں لگایا اور جلدی سے اس کے سامنے پتھر کی سل پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ آس پاس چند سبز زیتون…

مزید پڑھیں

قفس کو آشیاں سمجھے – عالیہ حمید

سامنے جھیل کے نیلے پانیوں پر سفید بگلے اور گرما کے اواخر کی ہلکی مست ہوائیں جو جسم و جان میں تراوت بھر دیں۔ اور آس پاس کے درختوں پر رنگ برنگے پھول پھل اور بہت سے پرندے ، جن کو آج میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ ایک گھنے درخت کی شاخ کے اوپر سبز پتوں میں چھپا بیٹھا میں دنیا کو اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے حیران ہو کر دیکھ رہا تھا۔ایک بار نہیں کئی بار میں نے پروں کو جی جان سے کھول کر انگڑائیاں لی تھیں۔ دائیں بائیں پلٹے کھائے تھے، گر کر سنبھلا اور سنبھل کر گرا تھا، کہ بند پنجروں میں اتنی جگہ کہاں ہوتی ہے۔
دنیا اتنی حسین ،عجوبہ روزگار اور وسیع ہے۔ اور میری کمر پر لگے پر اتنے مضبوط ہیں کہ یہ مجھے پنجرے کی قید سے نکال کر اس درخت تک لے آئے اور اگر میں ہمت کروں تو اس کے آگے بھی ان گنت جہاں ہوں گے۔
میں درخت کی شاخ پر بیٹھا، سامنے کی آذاد رنگیلی اور شفاف ہواؤں کا مشاہدہ کر کے حیران و پریشاں تھا۔ اور اس نئی نویلی دنیا میں میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں فکرمند بھی۔ کیونکہ کچھ منٹ پہلے ہی…

مزید پڑھیں

حرمتِ قرآن مجید – اسماء جلیل قریشی

ہم عظمت ِقرآن کی حرمت کے امیں ہیں
ہم نورِوحی نورِہدایت کے امیں ہیں
ہیں دل میں بسائےہوئے قرآن کو اپنے
ہم زیر زبر پیش ہر آیت کے امیں ہیں
عالم میں ہے گونج اس کی ہر اک سمت ہر اک وقت
صد شکر کہ ہم اس کی تلاوت کے امیں ہیں
مصحف یہ ملا آخری محبوبِ خدا کو
ہم نسبتِ آقا سے سعادت کے امیں ہیں
بچوں کی زباں پر ہے یہ، حفاظ کے دل میں
یوں ذکرِالٰہی سے عبادت کے امیں ہیں
محراب سے، منبر سے، مساجد سے، مکاں سے
ہر طور سے ہم اس کی اشاعت کے امیں ہیں
اعجازِ نبوت ہے یہ شہکارِ الٰہی
ہم اس کی فصاحت کے بلاغت کے امیں ہیں
الحمد سے الناس تلک سب ہے حقیقت
ہرحرف پہ ہم اس کی صداقت کے امیں ہیں
یدعون الی الخیر کی دے ہم کو یہ تلقیں
ہم خیر امم اس کی نصیحت کے امیں ہیں
لاریب ہدایت کا یہ سرچشمہ سراسر
ہم خادم ِقرآن شریعت کے امیں ہیں
اک نقطہ تلک اس کا کبھی مٹ نہیں سکتا
خود ربِّ جہاں اس کی حفاظت کے امیں ہیں
یہ کفر کی سازش سے نہ بدلے نہ مٹے گا
سینے ہیں کئی اس کی جوقرأت کے امیں ہیں
باطل کا کہاں دم تھا اگر ہم یہ دکھاتے
دنیا میں بہت اس کی فضیلت کے امیں ہیں
قرآن کے عاشق ہیں دکھانا ہے عمل…

مزید پڑھیں

خاص مضمون- بدعاتِ محرم – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

محرم الحرام کا اصل پیغام یہ ہے کہ حق کا بول بالا کرنے کو مقصدِ زندگی بنایا جائے
قرآن پاک کی سورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
’’حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اُس کے ( اللہ تعالیٰ کے) نوشتہ میں بارہ ہی ہے ۔ اور ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ( رجب، ذیقعد،ذالحج،محرم)۔یہی ٹھیک ضابطہ ہے ( کیلنڈر کا ) لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو۔ جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور اچھی طرح جان لو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ہی ساتھ ہے (یعنی متقیوں کا حق ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا ساتھ دے ) ان چار مہینوں میں محرم کی اہمیت مزید رسولﷺکے اقوال مبارکہ سے بھی عیاں ہوتی ہے ۔ محرم کا معنی ہے بہت زیادہ قابل تعظیم، ان مہینوں کی حرمت ابتدائے آفرینش سے ثابت ہے۔‘‘
حج الوادع میں نبی ؐنے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا۔
’’لوگو! زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلیت پر آگیا ہے ۔ سال کے بارہ مہینے ہؤا کرتے ہیں ۔ جن میں سے چار حرمت والے ہیں ۔…

مزید پڑھیں

انوارِ ربانی/قولِ نبیؐ – فضائل حرمین شریفین – عبد الغفار

فضائل مکہّ مکرّمہ
روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب اور افضل شہر شہرِ مکہ مکرمہ ہے ۔ جس کی فضیلت کا تذکرہ بارہا خود رب العالمین نے کیا ۔ محض تذکرہ ہی نہیں بلکہ اس کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر اُس کی قسم بھی کھائی چنانچہ سورت التین میں رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔
’’ قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طور سینا کی اور اس امن والے شہر کی ۔ــ(سورہ التین۹۵،۴)
اور دوسری قسم اللہ تعالیٰ نے سورہ البلد کے شروع میں کھائی ‘‘۔ (البلد90:1)
ارشاد فرمایا :
نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔
اور اس شہر کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا ہے ؟ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امام الانبیاء افضل الرسل، خاتم الانبیاءرحمتہ اللعالمین جناب محمد ﷺ کی بعثت بھی اسی شہر مبارک میں فرمائی اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کر کے یوں ارشاد فرمایا :
اور سی طرح حضرت عبد اللہ بن عدیؓ کا یہ بیان ہے کہ انہوں نے آپ ؐ کو دیکھا کہ آپ (حزورۃ)مقام پر کھڑے ہو کر ( مکہ مکرمہ کو مخاطب…

مزید پڑھیں

غزل – شاہدہ اکرام سحرؔ

امیدِ صبحِ بہار رکھنا
سدا گلوں پہ نکھار رکھنا
بُھلا کے رکھنا خزاں کا موسم
بہار یوں ذی وقار رکھنا

سہانی رُت ہے اب آنے والی
یہ زرد پتے اتار رکھنا
اچھلتی موجیں سمندروں میں
یونہی دلِ بےقرار رکھنا

چھلکنے پائے نہ چشمِ پُرنم
چھپا کے غم صد ہزار رکھنا
اداس موسم کے رتجگوں میں
نئی رتوں کا خمار رکھنا

کبھی تو آئے گا لوٹ کر وہ
ہر آن یہ اعتبار رکھنا
جدا نہ ہوں گے یہ سوچ لینا
نہ پھر دنوں کا شمار رکھنا

فلک کو چھونا ہے،سو ہے لازم
طویل اک انتظار رکھنا
ستاروں پر ڈالنی ہے آخر
کمند اپنی سنوار رکھنا

نہ قافلہ چھوٹ جائے اپنا
نگاہ کو ہوشیار رکھنا
تلاشنا نقشِ پائے محبوبٌ
جبیں وہاں بار بار رکھنا
سحرؔ جو لائی ہے گُل کی خوشبو
اسے نفس میں اتار رکھنا

مزید پڑھیں

غزل – حبیب الرحمٰن

نہ ہم نے کھلتے گلاب دیکھے نظر نہ شکلِ ببول آئی
عجیب منزل تھی جس کی راہوں میں گرد دیکھی نہ دھول آئی
لکھے تھے قسمت میں اس کی شاید نشاط کے صرف چند جھولے
وگرنہ خواہش درختِ جاں کی تمام شاخوں پہ جھول آئی
جو چند اچھے سمے مقدر سے میری جھولی میں آ گرے تھے
انھیں بھی ظالم یہ دشمنِ جان موت جا کر وصول آئی
یہ سچ ہے میں زندگی کے ہاتھوں کئی برس پہلے مر چکا تھا
اے موت اب میری جان لینے تو آئی ہے تو فضول آئی
جو شرک و تثلیث و بت پرستی کی رد میں اخلاص میں اتاری
اُس آیتِ لم یلد کی لوگو سمجھ میں وجہِ نزول آئی
نہیں تھا جب میری آنکھوں، چہرے، جبیں پہ غم کا کوئی تاثر
تو پھر کوئی آہ میرے اندر سے ہو کے کیسے ملول آئی
مجھے تو لگتا ہے زندگی بھی فقط کوئی ایک دائرہ ہے
دنوں میں جس کے نہ عرض دیکھے نہ کوئی شب مثلِ طول آئی
عجب ہے بے کیفیت کا عالم میں ہوکے بھی جیسے میں نہیں ہوں
خدارا اے زندگی مجھے تو بتا کہاں جا کے بھول آئی

مزید پڑھیں

اداریہ – ابتدا تیرے نام سے – صائمہ اسما

قارئین کرام سلام مسنون!
محرم الحرام سے نئے قمری سال کا آغاز ہے۔ اللہ اس سال کو امت کی بیداری کا سال بنائے آمین۔ساتھ ہی اگست ہے، وہ مہینہ جس میں ہم نے آزاد وطن حاصل کیا، یہاں آکر بسنے کے لیے بڑی قربانیاں دیں تاکہ لاالٰہ الا اللہ کی بنیاد پر لیے گئے خطہِ زمین کو اسلام کی سربلندی کا مظہر بنائیں، نبی کریمﷺ نے جس شاندار ریاست اور معاشرے کی بنا ڈالی آج کے دور میں اس کی ایک مثال دنیا کے سامنے پیش کریں، سچ، دیانتداری، امانت کا پاس، عدل و انصاف، برابری،شجاعت، خودداری، محنت، خود انحصاری ، ایک دوسرے کی خیرخواہی، بھائی چارہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کمال حاصل کریں، غیر اللہ سے کنارہ کش ہوجائیں، شرکیہ اعمال ہماری مجبوری نہ رہیں،ہم صرف خدا کی ذات سے ڈرنے والے ہوں، اسی کے آگے خود کو جوابدہ سمجھیں، قرآن کے احکامات کو اپنے ریاستی و سیاسی امور، معیشت اورمعاشرت سازی میں رہنما اصول بنائیں۔ سیرت ِ نبیؐ سے رہنمائی لے کر خارجہ و داخلہ حکمتِ عملی ترتیب دیں۔ تعلیم وتربیت کے ذریعے ایسے انسان تیار کریں جو اس مملکتِ خداداد کو سنبھالنے والے ہوں اور اس کے قیام کے مقاصد کو بدلتے ہوئے عالمی حالات میں…

مزید پڑھیں