Please log in to view this content.
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
ماہ نومبر2020ء کا ’’ چمن بتول‘‘ ملا خوب صورت ٹائٹل سبز، نیلے اودے اور جامن رنگ کے پھولوں اور رنیلگوں پانیوں سے مزّئین ہے ۔
اداریہ میں مدیرہ محترمہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ تمام مسلمانوں کے دل کی آواز اور جذبات کی ترجمانی ہے۔ اہل مغرب کو دوسروں کے مذہبی جذبات کا احترام کرنا سیکھنا چاہیے۔ آپ نے یہ جملے بڑے زبردست لکھے ہیں ’’ اہل مغرب جب تک اس معاملے میں تکبر ، تعصب اور دشمنی سے باہر آکر نہیں سوچیں گے صورت حال مزید ان کے قابو سے باہر ہوتی جائے گی … ہم اپنے جرم ضعیفی کا مداوا کرنے کے لیے سوچ بچار کریں ۔ اپنے زوال کے اسباب ڈھونڈیں، ان کو دور کرنے کا لائحہ عمل بنائیں ۔‘‘پھر یہ جملہ بھی خوب لکھا ہے ’’ قصور وار تو اُمت ہے جس نے دوسروںکا دست نگر ہونا منظور کرلیا … کمزوروں کو غصہ کرنے کا کیا حق !‘‘
’’ قرآن کی پیش گوئیاں ‘‘ ڈاکٹر مقبول احمد شاہد صاحب نے بڑے تفصیل کے ساتھ قرآن پاک کی ان پیش گوئیوں کی نشاندہی کی ہے جو آنے والے وقتوں میں حرف بحرف سچ ثابت ہوئیں ۔ مثلاً جنگ بدر میں فتح کی…
دلفریب نظاروں ، آبشاروں ، پہاڑوں ،بپھرتے دریا ئے کنہار اورپرفسوں جھیل سیف الملوک کی سیر کا احوال
میں نے اپنی ننھی پوتی مریم کو ایک دن جھیل سیف الملوک پہ پریوں کے آنے کی کہانی سنا دی ، بس اسی دن سے وہ اصرار کر رہی تھی کہ اسے بھی وہ جھیل دیکھنی ہے ۔ اس کا اصرار سن کر میرے بھانجے ، بھانجیوں کو بھی شوق پیدا ہو گیا کہ ہم سب بھی چلیں گے۔
ان سب کی خواہش پوری ہونے کا وقت آگیا اور پچھلے سال 2019ء جولائی کے آخری عشرے میں ہمارا اس پریوں کے دیس کی سیر کا پروگرام بن گیا ۔ میں تو پہلے بھی چاردفعہ اس خوبصورت علاقے اور اس خوبصورت جھیل کی سیر کر چکا ہوں لیکن میرے بھانجے ، بھانجیوں اور پوتے پوتیوں کے لیے ادھر جانے کا یہ پہلا موقع تھا اس لیے وہ سب بہت پر جوش تھے۔
ایک موٹر سائیکل کی ٹکر کی وجہ سے میری ایک ٹانگ میں کچھ پرابلم ہے اور پیدل چلنا مشکل ہوتا ہے ۔ سٹک لے کر چلتا ہوں ۔ میں نے بہت کہا کہ آپ لوگ چلے جائیں میں گھر پہ آرام کروں گا لیکن وہ سب بضد تھے کہ ہم آپ کے بغیر بالکل…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
اس ماہ’’ چمن بتول‘‘ کے ٹائٹل پر ایک طرف تو برف پوش پہاڑ دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں تو دوسری طرف خزاں رسیدہ درختوں کے سنہرے پتے نظر آ رہے ہیں ۔ قدرت نے بہار کو حسن بخشا ہے تو خزاں کو بھی اس سے نوازا ہے ۔ در حقیقت اللہ نے اس کائنات کے ذرے ذرے میں ایک حسن پیدا کیا ہے یہ تو انسان ہے جو اس حسن کو پامال کرتا رہتا ہے۔
مدیرہ محترمہ نے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے بہت کچھ لکھا ہے کشمیر کے بارے میں یہ زبردست جملہ لکھا ہے ’’ ہمارے جسم کا یہ حصہ ابھی تک تکلیف میں ہے … ہم نا مکمل ہیں جب تک ہمارے کشمیری ہم وطن آزاد فضا میں سانس نہیں لیتے ‘‘
کرپشن کے حوالے سے بھی فکر انگیز جملے تحریر کیے ہیں …… ’’عجیب کہانی ہے جب ہم صبح آنکھ کھولتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آج ہم پر سوئے سوئے ایک نیا قرضہ چڑھ گیا ہے ۔ اپنے حکمرانوں کی بد اعمالیوں کے باعث ، شاید سوئے رہنے کا یہی شاخسانہ ہوتا ہے ‘‘ اور ملک میں طلاق اور خلع کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بھی بجا طور پر تشویش کا اظہار…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
جنوری2021کے ’’چمن بتول‘‘ کا خوش رنگ ٹائٹل نئے سال کی نوید سنا رہا ہے ۔ اللہ کرے یہ سال ہم سب کے لیے عافیت ، صحت اورامن وامان و خوشحالی کا سال ثابت ہو (آمین)۔
اداریہ میں مدیرہ محترمہ نے بجا طور پر متنبہ کیا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنا عالمِ اسلام کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے ۔ آپ نے عبید اللہ علیم کے خوبصورت اشعار بھی لکھے ہیں اور یہ شعر تو ہمارے موجودہ حالات کی بخوبی عکاسی کرتا ہے ۔
؎ نہ شب کو چاند ہی اچھا ، نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی
’’قرآن میں سائنسی حقائق کا بیان ‘‘ ڈاکٹر مقبول احمد شاہد کا تحقیقی مضمون ہے ۔ آپ نے اپنے مضمون میں واضح کیا ہے کہ قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے کئی سائنسی اور طبی حقائق بیان کردیے ۔ مثلاً حمل کی کم از کم مدت تخلیق کائنات کا عمل ، چاند ، سورج ، ستارے دن رات کا آنا جانا ، موسموں کا تغیر سب کچھ قرآن پاک میں ہے اور آج کی سائنس انہی حقائق سے مدد لے کر زبردست ترقی کر…
’’ چمن بتول‘‘ ماہ دسمبر 2021 کا ٹائٹل ’’ سقوط ڈھاکہ‘‘ کی یاد تازہ کر رہا ہے جب ہمارا وطن دو لخت کردیا گیا تھا ۔ ٹائٹل میں ایک چوڑی سفید پٹی جیسے ایک خوبصورت قدرتی منظر کو الگ الگ کر رہی ہے بالکل ایسے ہی ہم دو بھائی ایک دوسرے سے جدا کر دیے گئے تھے ۔ آرٹسٹ نے کمال مہارت سے یہ منظر تازہ کردیا ہے ۔ گویا دلوں کے زخم ہرے ہوگئے ہیں۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما نے اپنے اس اداریےمیں ملک کی گھمبیر صورت حال پر روشنی ڈالی ہے ۔ آپ کے یہ جملے ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں ’’ ابھی تک تبدیلی کے ایجنڈے کا کوئی مثبت اثر عوام تک نہیں پہنچا مہنگائی کا طوفان البتہ ضرور آگیا ہے جس نے زندگی مزید مشکل کردی ہے … سرکاری محکموں میں کرپشن کا راج اُسی طرح ہے انصاف کا حصول اور زیادہ مشکل ہوگیا ہے…مگر اب تک کے حالات نے مایوسی پیدا کردی ہے‘‘۔ آپ نے اپنے اداریے میں میڈیا کے اہم کردار کے بارے میں بجا طور پر لکھا ہے۔ ’’حکومت پر میڈیا کی بے لاگ تنقید سے حکومت پراپنی کار کردگی بہتر بنانے کے لیے…
بظاہر کسی میگزین کا مدیریا مدیرہ ہونے میں بڑی دلکشی نظر آتی ہے اوربلاشبہ یہ ایک بڑا اعزاز بھی ہے ۔ اکثر ایڈیٹر ز نامورشخصیت بن جاتے ہیںاورعلمی ادبی حلقوںمیں ان کو ایک با وقار حیثیت حاصل ہوجاتی ہے ، میگزین کے سب سے پہلے صفحے پر ان کا نام نمایاں طور پر شائع ہوتا ہے ۔
نگارشات بھیجنے والے ان کی نگاہ ِ انتخاب کے منتظر ہوتے ہیں کہ ان کا مضمون ، غزل ، کہانی یا افسانہ ایڈیٹر کی شرف قبولیت کی سند حاصل کرلے اور میگزین کے صفحات کی زینت بن جائے اس سلسلہ میں کبھی مضمون نگار کو خوشی حاصل ہو جاتی ہے اور کبھی انتظار اور مایوسی ،آخری رائے بہر حال ایڈیٹر کی ہوتی ہے ۔
البتہ ایڈیٹر کے کام کے پیچھے انتھک محنت لگن اور لگا تار کوشش پوشیدہ ہوتی ہے ۔ ایڈیٹر کا کام اتنا آسان نہیںہوتا جتنا بظاہر نظر آتا ہے ۔ بقول شاعر
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اورڈوب کے جانا ہے
ایڈیٹرکا کام بے حد محنت طلب اور کٹھن ہوتا ہے اور سارے مہینہ جب تک پرچہ پریس میں نہ چلا جائے ایڈیٹر کی جان پہ بنی رہتی ہے ۔ بس مہینے کے آخری دوچار دن شاید…
’’ چمن بتول ‘‘ ماہ مئی 2022ء بغور شوق سے پڑھا ۔ اس بار اداریہ میں مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا لہجہ خاصا سخت اور تلخ ہے ۔ آپ نے پاکستان کے مفادپر ست اور موقع پر ست سیاستدانوں کو کھری کھری سنائی ہیں اور کیوں نہ سنائیں ، ہمارے ملک کی سیاست ہی ایسی ہے ۔ آپ نے صحیح فرمایا کہ عمران خاں سے لوگوںنے بہت امیدیں باندھ لی تھیں کہ شاید اب ایک نیا صاف ستھرا پاکستان ابھر کر سامنے آئے لیکن آہستہ آہستہ پر امید بھی دم توڑنے لگی کیونکہ عمران خان کی ترجیحات بد ل گئیں اور وہ نام نہاد جیتنے والے گھوڑوں کی طرف مائل ہو گئے ۔ آپ کے یہ جملے نہایت قابل غور ہیں ’’ کپتان ایک مضبوط ٹیم کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا اور انہوں نے اپنی ٹیم کے انتخاب میں انتہائی حماقت کا مظاہرہ کیا … پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا بھی مضحکہ خیز فیصلہ کیا ‘‘ اللہ کرے پاکستان کے سیاستدان ذاتی مفاد ، اقربا پروری ، بد عنوانی اور کرپشن سے پاک ہو کر پاکستان اور پاکستان کے عوام کی خدمت کریں تبھی پاکستان علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر اور قائد اعظم کے وژن کے مطابق…
قانتہ رابعہ۔گوجرہ
ماہ مارچ کا بتول ملا۔ لوگ جرعہ جرعہ کر کے زہر غم پیتے ہیں، ہم نقطہ نقطہ اور سطر سطر کرکے بتول کا مطالعہ کرتے ہیں۔
کھولتے ہی فہرست پر نظر ڈالی ،اداریہ دیکھا، نظریں بے تابی سے اس خبر کو ڈھونڈ رہی تھیں جو اہل قلم اہل ِعلم و دانش کے لیے بے حد خوشی کا باعث ہونا تھی اور جس کے لیے طویل صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے…..لیکن افسوس خبر نہیں تھی، نہ ہی سرورق پر یا اندر کے صفحات میں مدیرہ کے نام کی تختی میں ردو بدل کیا گیا تھا۔ ایک پرانی مگر معمولی سی مصنفہ بلکہ قاریہ ہونے کے ناطے مجھے احتجاج کا پورا حق ہے ۔لوگ اس سعادت کے لیے ترستے ہیں اللہ نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا شکر الحمد للّٰہ یہ اللہ کا فضل اور احسان ہے کہ بتول کی ادارت جیسے بھاری بھرکم اور مشقت طلب کام کے دوران آپ نے علم کی سکہ رائج الوقت سب سے بڑی سند حاصل کی۔ میں اپنی طرف سے اور سب قارئین کی طرف سے آپ کواور ماہنامہ چمن بتول کی ادارت کو مبارکباد پیش کرتی ہوں،بلا شبہ یہ میرے رب کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔لوگ تو ڈاکٹروں…
ماہنامہ ’’ چمن بتول‘‘ شمارہ جنوری2023ء پیش نظر ہے ۔اس پہ اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہوں۔ اس دفعہ ٹائٹل بڑازبردست آرٹسٹک ہے۔ خزاں اور موسم سرما کا منظر بڑا دلکش دکھایا گیا ہے کسی اچھے آرٹسٹ کا ترتیب دیا ہؤا ٹائٹل نظرآتاہے۔
’’ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما نے ایک خوبصورت دعا کے ساتھ نئے سال کے پہلے اداریے کا آغاز کیا ہے ۔ یہ جملے خوب ہیں ’’ نئے سال کا آغاز اس دعا کے ساتھ کہ رب ِ کریم اس سال کوہماری ذاتی اور اجتماعی زندگیوں میں خیر وعافیت کا سال بنائے ۔ زوالِ امت کے اس گنبدبے در میں کوئی امید کی کرن دکھائی دے ۔ کرہ ارض پر بسنے والوں کو فساد سے امن کی طرف ،گمراہی سے ہدایت کی طرف اورنفرت و انتشار سے سکون و سلامتی کی طرف راستہ دکھائے ‘‘۔(آمین)
آپ نے گوادرکے باسیوں کے حق میں بھی زبردست آواز بلند کی ہے ۔
’’ حکمت سے دعوت‘‘ (ڈاکٹر میمونہ حمزہ) ڈاکٹر صاحبہ نے قرآن و حدیث کے حوالے سے دعوتِ دین کے بہترین اصول بتائے ہیں کہ بھلائی کی طرف دعوت اور برائیوں سے روکنا ہرمومن کافریضہ ہے لیکن یہ کام نہایت دانائی اورعمدہ نصیحت کے ذریعہ کیا جائے…
شمارہ دسمبر 2022ء دھند بادلوں اور سخت سردی کا تاثر دیتا ہوا ٹائٹل بہت ہی دلکش ہے ۔ اور ’’ابتدا تیرے نام سے‘‘ مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کے جاندار حالاتِ حاضرہ پر تبصروں پہ مبنی اداریہ دعوتِ فکر د ے رہا ہے ۔ارباب بست وکشاد کی آنکھیں کھولنے کے لیے اداریے کے یہ جملے ہی کافی ہیں ’’ سیاست کے نام پہ شیطانیت کا رقص جاری ہے ہوسِ اقتدار اور خاندانی حکومتوں کے تسلسل کی خاطر انسانیت بالائے طاق رکھ دی گئی ہے ، تیس پینتیس برس تک مادرِ وطن کی لوٹ کھسوٹ سے اب تک شکم بھرے نہ نیت ۔ البتہ خزانے خوب بھر گئے ، جائیدادیں بن گئیں ۔ اب یہ سب اپنی آل اولاد کے لیے چھوڑ کر خود دو گز زمین کے منظر ہیں ، آج ملے یا کل‘‘۔ اداریے کا اختتام بڑے زبردست اشعار سے کیا گیا ہے ۔
وقت سے پوچھ رہا ہے کوئی
زخم کیا واقعی بھر جاتے ہیں
زندگی تیرے تعاقب میں ہم
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
۔’’دعوت دین ‘‘ چند گمنام گوشے ( عبد المتین ) اس شاندار مضمون میں دعوت دین دینے کے اسرار و رموز بنائے گئے ہیں کہ داعی کو بھرپور حکمت عملی سے کام لینا چاہیے اُسے معاشرے…
ام ریان۔ لاہور
فروری کا بتول موصول ہؤا۔ سر ورق متاثر نہ کر سکا ۔ اس ماہ حصہ نظم کم رہا لیکن افسانوں نے ساری کمی پوری کردی۔ اتنے افسانے کم ہی کسی ماہ میں شائع ہوئے ہیں اوروہ بھی سب ہی اچھے۔
پہلے نمبر پر تو بلا شبہ عینی عرفان کا ’’ کن ‘‘ تھا ۔ اس موضوع پر بہت لکھا جاتا ہے لیکن جس خوبی سے اس افسانے میں پیغام پہنچایا گیا ہے ،وہ اکثر تحاریر میں عنقاہوتا ہے ۔ افسانے کی بجائے ایک لمبی چوڑی نصیحتی گفتگو معلوم ہوتی ہے جبکہ ’’ کن‘‘ میں افسانوی ہیٔت قائم و دائم ہے۔
نبیلہ شہزاد مزاح تو اچھا لکھتی ہی ہیں مگر ’’ رمضان جی‘‘ میں بھی ان کے قلم نے خوب جوہر دکھائے ہیں ۔ شہلا خضر کی تحریر دن بدن نکھرتی جا رہی ہے اور زیادہ مربوط ہو گئی ہے ۔ عالیہ حمید کے لکھنے کا اپنا ایک انداز ہے اور خوب ہے ۔ ’’ ہیں کواکب کچھ ‘‘ میں صائمہ صدیقی نے ماہر نباض کی طرح معاشرے میں بڑھتی ہوئی نا آسودگی اورڈپریشن کی وجہ کی نشاندہی کی ہے ۔ عالیہ زاہد بھٹی نے بھی اچھا لکھا ہے ۔ ام ایمان نے افسانے کے تاروپود عمدگی سے بنُے، تاہم شہلا…
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی
علامہ اقبال کے اس شعر میں مطالب و معانی کا ایک سمندر موجزن ہے۔ اس شعر میں علامہ کے دل کی تڑپ جھلکتی ہے ایک درد پنہاں ہے، دردِ دل ۔ مسلم قوم کے لیے ایک پیغام بیداری کا ، اولولعزمی کا ، اپنے کھوئے ہوئے وقار کو ، مقام کو حاصل کرنے کا پیغام ۔ علامہ جب مسلمانان ہند اور مسلمانانِ عالم کی دگر گوں حالت دیکھتے ہیں تو ان کا دل روتاہے ۔ وہ مسلمان کوان کا شاندار ماضی یاد دلاتے ہیں جب مسلمان ایمان کی دولت سے مالا مال تھے ، یقینِ محکم ان کے اندر موجزن تھا ۔
یقیں محکم، عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
علامہ بار بار اپنے اشعار میںمسلمانوںکو ان کی عظمت رفتہ یاد دلاتے ہیں اوران کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوتی ہے کاش مسلمان پھر اپنا وہ کھویا وہ مقام دنیا میں حاصل کر سکیں ، کاش مسلمان نوجوان یہ یاد رکھیں !
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے…
کئی سال پہلے اپنے طالب علمی کے زمانہ میں اردو کی درسی کتاب میں ایک مضمون پڑھا تھا جس کا عنوان تھا ’’ مجھے میرے دوستوں سے بچائو‘‘۔سو میں نے سوچا میں بھی آج اپنے مضمون کا عنوان کچھ ایسا ہی اچھوتا رکھوں تو میرے ذہن میں یہی عنوان آیا ’’ مجھے ان ماسیوں سے بچائو‘‘۔
چلیے پہلے ماسیوں کے بارے میں اپنے کچھ تلخ تجربات شیئر کروں جب تک بیگم کی صحت اچھی رہی انہوں نے کبھی کسی کا م والی ماسی کی ضرورت محسوس نہیں کی ، کھانا پکانا، گھر بھر کی صفائی ، واشنگ مشین میں کپڑے دھونا ، برتن دھونا ، کپڑے استری کرنا ،سب کام خود ہی شوق سے کرتی رہیں ۔ ساتھ ہی تین بچوں کی پرورش! لیکن جب بیگم کو گھٹنوں کا مسئلہ ہؤا تو مجبوراً گھر کی صفائی کے لیے کام والی عورت رکھنی پڑی ۔ موصوفہ چند دن تو شرافت سے کام کرتی رہی لیکن پھر ہمیں محسوس ہؤا کہ کچن سے ہمارے چمچ دن بدن کچھ کم ہوتے جا رہے ہیں ۔ کچھ دن تو صبر کیا لیکن آخر ایک دن اُس کی چوری پکڑی گئی ۔ بیگم اچانک کچن میں گئیں تو ماسی دو چمچ اٹھا کے جیب میں ڈال…
انسان کہاں سے چلا اور کہاں پہنچا ….کرۂ ارض کی تاریخ میں انسانی سفر پر ایک طائرانہ نظر
باغ بہشت سے مجھے حکم ِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
(علامہ اقبالؒ)
اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کی ابتدا اُس وقت ہو گئی تھی جب حضرت آدمؑ اور اماں حواؑ کو یہاں اتارا گیا اور پھر اس کرہ ارض پر انسان کا ایک طویل سفر شروع ہو گیا۔ حضرت آدمؑ سے نسلِ انسانی چلی ۔ ان کے ہاں لڑکے لڑکیاں پیدا ہوتے رہے اور نسلِ انسانی بڑھتی رہی ۔ پھر دنیا میں انسان کا پہلا قتل ہؤا۔ قابیل نے جذبہ رقابت میں اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا ۔
ث حضرت آدمؑ دنیا میں پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی ۔ چشمِ فلک نے اس کرہ ارض پر ان گنت واقعات وحادثات رونما ہو تے ہوئے دیکھے ۔حضرت نوحؑ کی قوم نے جب گمراہی کا راستہ ترک نہ کیا تو ایک خوفناک سیلاب آیا جو سب کچھ بہا کر لے گیا ۔ چند ایمان لانے والے مرد و خواتین اور جانوروں، پرندوں کے جوڑے کشتی میںسوار ہو کر حضرت نوحؑ کے ساتھ کوہِ جودی پہ پہنچے اور زندہ بچے ، حضرت نوحؑ سے دوبارہ نسلِ انسانی چلی…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘ ‘ اب کے مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا تحریر کردہ اداریہ دل دہلا دینے والا ہے ۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات پر جس پُر درد اور تلخ لہجے ( اور سچ تلخ ہی ہوتا ہے )میں آپ نے تبصرہ کیا ہےاُسے جرأت مندانہ ہی کہا جا سکتا ہے ۔ واقعی حالاتِ حاضرہ پر آپ کی کڑی نظر رہتی ہے جو ہر ماہ تبصرے کی شکل میں ہمارے سامنے آجاتی ہے ۔ کاش ارباب اختیار بھی یہ تبصرہ غور سے پڑھ لیا کریں ۔ اداریہ کے یہ جملے خوبصورت ہیں ’’ نبی اکرمؐ نے جس شاندار ریاست اور معاشرے کی بنیاد ڈالی اُس کی ایک مثال دنیا کے سامنے پیش کریں ، سچ ، دیانت داری ، امانت کا پاس، عدل وانصاف ، مساوات ، شجاعت ، خودداری ، محنت ، خود انحصاری ، ایک دوسرے کی خیر خواہی ، بھائی چارہ اور حقوق العبادمیں کمال حاصل کریں ‘‘۔ مدیرہ صاحبہ نے تو اسلامی تعلیمات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے۔واقعہ کربلا پربھی آپ کا تبصرہ زبردست ہے ۔یہ جملے قابل داد ہیں ’’ واقعہ کربلا اصول پسندی، جرأت و شجاعت ، فرض شناسی اور حق گوئی کی…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
’’ چمن بتول‘‘ شمارہ ستمبر 2023ء کا ٹائٹل ہمارے کلچر کی عکاسی کر رہا ہے ۔ ملتانی نیلے نقش ونگاروالے برتن بھلے لگ رہے ہیں۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ (مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا فکر انگیز اداریہ ) آپ نے بجا طورپر بٹگرام کے اس جری نوجوان کی تعریف کی ہے جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کرڈولی میں پھنسے بچوں کوبچایا ۔ سندھ میں پیری مریدی اوروڈیرہ شاہی کے ظلم وستم پر آپ نے جرأت کے ساتھ آواز اٹھائی ہے ۔
’’ اعجاز قرآن‘‘ ( ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا بصیرت افروز مضمون) آپ نے بیان کیا ہے کہ قرآن پاک وفصاحت و بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ یہ ایک معجزہ ہےیہ جملے خوبصورت ہیں ’’ یہ سیلاب کی طرح یلغار کرتا ، برق کی طرح کڑکتا ، بارش کی طرح برستا ، بادل کی طرح چڑھتا ، بجلی کی طرح کوندتا، دریا کی طرح لہریں مارتا طوفان کی طرح امڈ تا اورپھولوں کی طرح مہکتا تھا ‘‘۔
’’ بیوی کے حقوق (ندا اسلام) واضح کیا گیا ہے کہ ہمارے مذہب اسلام میں بیویوں کوبہت سے حقوق حاصل ہیں ۔ لکھتی ہیں ’’بحیثیت مرد نہ جانے ہم نے یہ کیسے سمجھ لیا…
علامہ اقبال اپنے اشعار میںجوبھی الفاظ استعمال کرتے تھے ان کا انتخاب لاجواب اور با مقصد ہوتا تھا۔ ’ لا ہوتی‘ تصوف کا وہ درجہ ہوتا ہے جہاں سالک کو فنا فی اللہ کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے وہ انسان دنیاوی حرص و لالچ سے ماورا ہو کر صرف اللہ سے لولگا لیتا ہے اور یہ درجہ بلا شبہ ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتا ۔ خال خال متقی انسانوں کو یہ درجہ حاصل ہوتا ہے ۔
تو پھر علامہ نے بجا فرمایا ہے کہ اللہ والے انسان تجھے کبھی گوارا نہ ہوگا کہ اللہ کے سوائے کسی غیر اللہ کے آگے ہاتھ پھیلائے ۔ علامہ خود بھی عشق خدا اور عشقِ رسولؐ میں ڈوبے ہوئے تھے وہ طائر لا ہوتی کو یوں مخاطب کر سکتے تھے کوئی عام انسان ایسی جرأت نہیں کر سکتا تھا ۔
علامہ مسلمانانِ ہند بلکہ تمام عالم اسلام کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ کسی غیر اللہ کے آگے ہاتھ پھیلانا ایک ذلت سے کم نہیں ۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
اور
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
اللہ تعالیٰ تو انسان…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
’’ چمن بتول‘‘ شمارہ اکتوبر2023ء زیرمطالعہ آیا۔ سب سے پیشتر سر ورق کے بارے میں کہناچاہوں گا کہ فوٹوگرافک سر ورق کی بجائے آرٹسٹ کا ہاتھوں سے ڈیزائن کردہ سر ورق زیادہ دیدہ زیب لگتا ہے ۔ آرٹسٹ کے بنائے رنگ برنگے پھولوں سے سجے سر ورق دل کو بھاتے ہیں اور ’’ چمن بتول ‘‘ کو سجاتے ہیں ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ حالات حاضرہ پر ڈاکٹر صاحبہ کی کڑی نظر رہتی ہے ۔ اس لیے ہمیں آپ کے تند و تلخ سچے تبصرے پڑھنے کوملتے ہیں۔ اداریہ کے یہ جملے قابل غور و فکر ہیں ’’ حالات سنگین تر ہوگئے ہیںایسے میںحکمرانوں کی تفریحات اورعیاشیاں زخموں پرنمک چھڑک رہی ہیں ۔ بے حسی انتہا پر ہے مالِ مفت دل بے رحم ۔ قرض کی مَے ہے اور رنگ لائی ہوئی فاقہ مستی ‘‘ غالب کے شعر کا خوب استعمال کیا ہے ۔
’’ اللہ کی طرف بلانے والے رسولؐ ‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ کا بصیرت افروز مضمون اس مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ ہمارے پیارے رسول پاک ؐ نے دعوت حق لوگوںتک پہنچانے کا فریضہ بہترین طریقہ سے انجام دیا ہے اور اس سلسلہ میںکسی لالچ ،خوف یا مصیبت سے متزلزل…
پروفیسر خواجہ مسعود۔ راولپنڈی
خوبصورت شفاف پانیوں کی ندیوں اور گھنے سر سبز درختوں سے مزین ٹائٹل سے آراستہ ماہ اگست 2021 کا چمن بتول سامنے ہے ۔ کاش ہمارے ملک میں ایسے درختوں کے جنگلات بے شمار ہوں۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ اپنے اداریہ میں محترمہ مدیرہ صاحبہ نے بارشوں سے بے تحاشہ نقصانات کا ذکر کیا ہے ۔آپ کے یہ جملے قابل غور ہیں ’’ ہم تو ویسے ہی اللہ کے حوالے ہیں ۔ اسلام آباد کا ایک سیکٹر ڈوب گیا تو کوئی حیرانی نہیں ‘‘۔خواتین کے بڑھتے ہوئے بہیمانہ قتل کے واقعات پر بھی آپ نے بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ آپ کے یہ جملے غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں ’’ ظلم کسی بھی شکل میں ہو اس کو روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے …ریاست کا یہ بھی فرض ہے کہ ملک میں اسلامی تعلیمات کو عام کرے‘‘۔
’’ صبرو ثبات‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا بصیرت افروز مضمون آپ نے یہ جملے خوب لکھے ہیں ’’ ایمان کے دو حصےہیں ایک صبر اور دوسرا شکر ۔ایک مومن ان دونوں کا حریص ہوتا ہے اور ان دونوں کو تھامے ہوئے دین کی راہوں پر چلتا ہے۔ بے صبری دکھانے والا مایوسی…
افشاں نوید۔ کراچی
ستمبر کے شمارے کی فہرست پر ایک نظر ڈالی اور’’بتول ‘‘ کا مطالعہ شروع کیا جس نے حاضر و موجود سے گویا بےنیاز کردیا ۔اتنے مختلف عنوانات اور ہر قلم کار نے اپنے عنوان کا حق ادا کردیا۔ بتول کی بڑی خوبی یہی ہے کہ معیار پرسمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔یقیناً صائمہ اسما بھی تحریروں کی نوک پلک درست کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتیں۔
اداریے میں افغانستان کی موجودہ صورتحال سے متعلقہ حقائق کو پیش کیا گیا۔نائن الیون کے بعد اس صدی کا بڑا واقعہ ہے طالبان کو اقتدار ملنا۔مگر اس سے جڑی توقعات،خدشات،غیروں کی پیش گوئیاں اور اپنوں کی امیدیں ۔ درست کہا کہ ؎
کشتی بچا تو لائے ہیں عاصمؔ ہواؤں سے
پیوند سو طرح کے سہی بادبان میں
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے اپنے مضمون میں آخرت کی تیاری کے حوالے سے قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کی۔یہ سچ ہے کہ ؎
اللہ کی رہ اب تک ہے کھلی آثار و نشاں سب قائم ہیں
اللہ کے بندوں نے لیکن اس راہ پہ چلنا چھوڑ دیا
سلیس سلطانہ صاحبہ کی تذکیر قارئین کے لیے نافع ہوگی انشاءاللہ۔اچھی یاد دہانی کرائی۔پاکستان میں یکساں نظام تعلیم کے حوالے سے جو اصلاحات ہورہی ہیں یہ وقت کا اہم ترین موضوع ہے۔ادارہ بتول اس…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔ راولپنڈی
شمارہ جولائی 2021ء سامنے ہے وادی ہنزہ اور گلگت کے حسین پہاڑی مناظر سے مزین ٹائٹل دلکش ہے ۔ آج کل تو دل یہی چاہتا ہے کہ اُڑ کے وہاں پہنچ جائیں۔
اداریہ میں مدیرہ محترمہ نے ریلوے کے سانحہ گھوٹکی کے موقع پر ’’الخدمت‘‘والوں کی احسن کار کردگی کا ذکر کیا ہے یہ لائق تحسین ہے ۔ بجٹ سیشن کے موقع پر ہماری پارلیمنٹ میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی اس پر آپ نے بڑی درد مندی سے تبصرہ کیا ہے ۔ خواتین پر بڑھتے ہوئے حملوں کے واقعات پر آپ نے صحیح تجزیہ پیش کیا ہے کہ سب سے پہلے انٹر نیٹ پر چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے ، پھر ان جرائم پر کڑی سزائیں بھی دی جائیں ۔
’’ عد ل و انصاف‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ نے اہم موضوع کا انتخاب کیا ہے اسلام میں انصاف کی بہت تلقین کی گئی ہے ۔ہمارے رسول پاک ؐ سب سے بڑے عادل تھے ۔ عدل و انصاف کسی معاشرے میں امن و سلامتی کی پہچان ہے، ظلم امن عالم کو تباہ کر دیتا ہے ۔
’’ خطبہ حجۃ الوداع‘‘ (ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی ) آپ نے یہ تاریخی خطبہ اردو ترجمہ کے ساتھ لفظ لفظ پیش کیا ہے…
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ابھی پاکستان پر دہشت گردی کے مہیب بادل نہیں چھائے تھے اور ہماری وادی سوات میں ہر طرف بہار تھی ، رونقیں تھیں امن و سکون تھا ۔ ہمارے خاندان کی چار فیملیز نے وادی کی سیر کا پروگرام بنایا۔ایک کوچ ہائر کی گئی اور ہم اس سفر پر روانہ ہو گئے ۔ ہمارے گروپ میں بچے بھی تھے بڑے بھی ۔ سب ہی اس سفر کے لیے نہایت پر جوش تھے۔
پشاور روڈ پہ کوچ روانہ ہوئی تو ٹیکسلا، واہ کینٹ ، حسن ابدال ، برہان سے گزرتے ہوئے کامرہ اور لارنس پور سے آگے جہانگیرہ آیا۔ اب ہم صوبہ پنجاب کراس کر کے صوبہ سرحد ( کے پی ) میں داخل ہو چکے تھے۔ وہاں سے پھر مشہور شہر نوشہرہ پہنچے۔
نوشہرہ میں ملکی وغیر ملکی کپڑوں کی بہت بڑی مارکیٹ تھی اس لیے خواتین نے تھوڑی دیر رُک کے اپنا شاپنگ کا شوق پورا کیا۔ نوشہرہ کے بعد رسالپور اور پھر رشہ کئی آیا ۔ یہاں بھی غیر ملکی کپڑے کی ایک مشہور مارکیٹ تھی جس میں شاپنگ کے لیے خواتین کا رش تھا ۔ ہمارے ساتھ کی خواتین بھی نہ رہ سکیں اورشاپنگ کا شوق پورا کیا ۔ رشہ کئی اترنے…
پروفیسر خواجہ مسعود ۔راولپنڈی
’’چمن بتول‘‘ شمارہ دسمبر2020 سامنے ہے سب سے پہلے نیلے، پیلے ، اودے،سبز رنگوں سے مزین سر ورق دل کو بھاتا ہے۔
’’ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ صاحبہ نے کرونا کی بڑھتی ہوئی وبا پر بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے ، اس کے بعد آپ نے سقوط ڈھاکہ پرمختصر لیکن جامع تبصرہ پیش کیا ہے ۔ آپ کے یہ جملے غور کے لائق ہیں ’’سقوط ڈھاکہ ایک ایسی المناک داستان ہے کہ جب تک سینے سے باہر نہ آجائے سینوں کو چیرتی رہتی ہے اور دلوں پر آبلے ڈالتی ہے ‘‘۔
’’ قرآن کی اثر انگیزی ‘‘( ڈاکٹر مقبول احمد شاہد) نے خوب لکھا ہے ’’ قرآن جس زبان میں نازل ہؤا وہ اس کے ادب کا بلند ترین اور مکمل ترین نمونہ ہے ۔ کلام اتنا اثر انگیز ہے کہ کوئی زبان دان آدمی اسے سن کر سر دُھنے بغیر نہیں رہ سکتا حتیٰ کہ یہ کلام سن کر مخالف کی روح بھی وجد کرنے لگتی ہے ‘‘۔
’’ رسولؐ اکرم کی حکمت تبلیغ‘‘ ( الماس بن یاسین امان اللہ)اس مضمون میں رسول پاکؐ کی تبلیغ اسلام کے چیدہ چیدہ اصول واضح کیے گئے ہیں ۔ مثلاًاصول تدریج، حکمت، عمدہ نصیحت، مجادلہ حسنہ، نرم بات،…
’’چمن بتول‘‘ شمارہ مئی2021ء پر تاثرات پیش خدمت ہیں ۔
خوبصورت پہاڑوں ، سر سبز وادیوں ، نیلے پانیوں اور خوش رنگ پھولوں سے مزین ٹائٹل د کو بھا گیا ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ مدیرہ صائمہ اسماکا اداریہ حسب روایت اہم مسائل کا احاطہ کیے ہوئے ہے جو اس وقت ہمارے وطن عزیز کو درپیش ہیں ۔ یہ جملے خوب ہیں :
’’ سیاسی قوتوں کے لیے بھی سبق ہے کہ وہ حقیقی سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنائیں استعمال ہونے سے بچیں ۔فطری انداز سے عوام میں اپنی جگہ بناتے ہوئے آگے بڑھیں اپنا سوچا سمجھا پروگرام اور سیاسی ایجنڈا لے کر چلیں جو آئین کی بالا دستی ، عوا م کے مسائل اور دنیا میں ہمارے با وقار مقام کے گہر ے شعور کا آئینہ دار ہو‘‘۔
ان میں آپ نے ہمارے سیاستدانوں کے لیے ایک بہترین منشور کا خلاصہ اور نچوڑ بیان کر دیا ہے ۔
’’ اللہ کا تقویٰ‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحب نے بخوبی واضح کیا ہے کہ تقویٰ گناہوں سے بچانے کا سبب ہے اور یہ قیامت کے روز نجات کا سفینہ ہو گا یہ جملہ بڑا خوبصورت لکھا ’’ تقویٰ کا شجر ایسا بلند پایہ ، سایہ دار درخت ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں…
چلیے آج آپ کو ریڈ بلڈ مالٹوں کی سر زمین کی سیر کراتے ہیں ۔ آپ نے خوش ذائقہ ریڈ بلڈ مالٹے تو ضرور کھائے ہوں گے یاان کا جوس پیا ہوگا ۔ ان کا ذائقہ ہلکا سا ترش لیکن میٹھا ہوتا ہے ۔ یہ نہ صرف پاکستان میں شوق سے کھائے جاتے ہیں بلکہ سردیوں کے سیزن میں یہ عرب ممالک ، یورپ اور جاپان تک ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں اور دنیا بھر میں بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔
ہم لوگوں نے جنوری کے وسط میں ان خوش نما اور خوش ذائقہ مالٹوں کی سر زمین کی سیر کا پروگرام بنایا ۔ ہماری فیملی تھی ۔ میں ، بیٹا خرم، بہو زوبیہ اور پوتاعلی اور پوتیاں آمنہ اور مریم… دوسری فیملی ہمارے بھانجے سعید کی تھی ان کی اہلیہ صائمہ ، بچیاںدعا اور بسمہ ، تیسری فیملی ہماری بھانجی عظمی کی تھی ۔ ان کے میاں خاور ، بیٹیاں ،فاطمہ ، فارعہ اور ان کا بیٹا شہیر۔
تینوں گھرانے اپنی اپنی گاڑیوں پہ سوار تھے ۔ صبح گیارہ بجے ہم راولپنڈی سے روانہ ہوئے ۔ سفر کوئی لمبا نہیں ہے ، قریباً ایک گھنٹے میں یہ سفر طے ہو جاتا ہے ۔ راولپنڈی سے ہم پشاور روڈ پہ محو سفر…