۲۰۲۳ بتول نومبر

احسان کی حقیقت – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

عموماً ہمارے معاشرے میں احسان کسی کی ایسی نیکی کو کہا جاتا ہے جو ہمیں بوجھ محسوس ہو جس کو سر سے اتارنے کی جلدی ہو یا خود نیکی کر کے جیسے کسی دوسرے کو قرض دیا ہو اور اس کی واپسی کے منتظر ہوں، مثلاً:
’’میں نے اس پہ احسان کیے اور اس نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا‘‘۔
’’میں کسی کے احسان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی/سکتا’’ یا ‘‘مجھے کسی کے احسان کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
احسان کا لفظ قرآن پاک میں کثرت سے آیا ہے۔لغت میں ’’احسان‘‘ کا معنی حسین بنانا، صناعت میں عمدگی اور اس میں استحکام پیدا کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اللہ کی ذات ہی ہے جس نے ہر چیز بنائی اور بہت خوب بنائی۔ (سورہ السجدہ: ۷)
اصطلاح میں ’’احسان‘‘ شرعی مطلوب کو حسین ترین طریقہ سے پیش کرنا ہے۔اس کے علاوہ لغوی معنی کے لحاظ سے احسان، برائی کے مقابل آتا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الرعد آیت نمبر ۲۲ میں فرمایا کہ ’’…اور وہ برائی کو بھلائی سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے ہی آخرت کا گھر ہے۔‘‘اسی طرح سورہ یوسف میں آیت نمبر ۱۰۰ میں ذکر ہے کہ ’’یقیناً میرے رب نے مجھ پہ احسان کیا‘‘۔ یعنی ایک…

مزید پڑھیں

محشر خیال – پروفیسر خواجہ مسعود

پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
’’ چمن بتول‘‘ شمارہ ستمبر 2023ء کا ٹائٹل ہمارے کلچر کی عکاسی کر رہا ہے ۔ ملتانی نیلے نقش ونگاروالے برتن بھلے لگ رہے ہیں۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ (مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کا فکر انگیز اداریہ ) آپ نے بجا طورپر بٹگرام کے اس جری نوجوان کی تعریف کی ہے جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کرڈولی میں پھنسے بچوں کوبچایا ۔ سندھ میں پیری مریدی اوروڈیرہ شاہی کے ظلم وستم پر آپ نے جرأت کے ساتھ آواز اٹھائی ہے ۔
’’ اعجاز قرآن‘‘ ( ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کا بصیرت افروز مضمون) آپ نے بیان کیا ہے کہ قرآن پاک وفصاحت و بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ یہ ایک معجزہ ہےیہ جملے خوبصورت ہیں ’’ یہ سیلاب کی طرح یلغار کرتا ، برق کی طرح کڑکتا ، بارش کی طرح برستا ، بادل کی طرح چڑھتا ، بجلی کی طرح کوندتا، دریا کی طرح لہریں مارتا طوفان کی طرح امڈ تا اورپھولوں کی طرح مہکتا تھا ‘‘۔
’’ بیوی کے حقوق (ندا اسلام) واضح کیا گیا ہے کہ ہمارے مذہب اسلام میں بیویوں کوبہت سے حقوق حاصل ہیں ۔ لکھتی ہیں ’’بحیثیت مرد نہ جانے ہم نے یہ کیسے سمجھ لیا…

مزید پڑھیں

غذا وصحت – دورانِ حمل باقاعدہ طبی معائنے کی اہمیت – ڈاکٹر ناعمہ شیرازی؎۱

دورانِ حمل باقاعدہ طبی معائنے کا مقصد ماں اور بچے کی مکمل صحت اورخیر وعافیت کے ساتھ اس انتہائی نازک لیکن خوش آئند سفر جس میں ایک عورت ماں بن کرنہ صرف مکمل ہوجاتی ہے بلکہ قدرت کےحسین ترین تحفے یعنی اولاد کوپا لیتی ہے ۔ اسے ان تمام مراحل کو اچھے انجام تک پہنچانا ہوتا ہے ۔ جس دوران ماں اوربچے دونوں کی زندگی محفوظ رہے ۔
دورانِ حمل طبی معائنہ جسے طب کی زبان میں قبل از پیدائش کی تشخیص(Antenatal checkup)کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک بہترین ذریعہ ہے جس سے خاتون کوحمل کے دوران یا اس سے پہلے کی مختلف بیماریوں کی تشخیص ہوسکتی ہےاور ساتھ ہی ساتھ ایک ڈاکٹر یا میڈیکل پروفیشنل سے مل کرحمل اورڈیلیوری کے بارے میںمفید معلومات اورمشورے مل سکتے ہیں جس سے نہ صرف ماں کے لیے بچہ پیدا کرنے میں آسانی ہو بلکہ آگے چل کراس کی پرورش میں بھی آسانی رہے ۔ جیسے کہ اس دوران بریسٹ فیڈنگ کے بارےمیں رہنمائی دی جاتی ہےجو نومولود بچے کے لیے انتہائی اہم ہے ۔
حمل کو عام طورپرتین سہ ماہی یعنی Trimestersمیں تقسیم کیا جاتا ہے ۔پہلے تین ماہ کے دورانیے کی پہلی سہ ماہی First trimesterکہا جاتا ہے ۔
پہلی سہ ماہی
اس دوران عام…

مزید پڑھیں

ایک خط – امریکہ سے ڈاکٹر فوزیہ ناہید مرحومہ کا ایک خط

نگران ماہنامہ بتول ثریا اسما صاحبہ کے نام

میری پیاری ثریا خالہ جان
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاۃ‘
خیر وعافیت کی دعائوں کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوں ۔ فون پر آپ کی ٹھنڈی میٹھی آواز سننے کی عادی ہو چکی ہوں ۔ اور اب یہ کمی تو مسلسل محسوس ہوتی ہے ۔امید ہے کہ آپ نئے گھر شفٹ ہو گئے ہوں گے اور وہاں پر سامان کی از سرِنو ترتیب دی گئی ہو گی۔ یہ بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتاہے ۔ لیکن اس سے بھی ایک بڑا اورمشکل مرحلہ یہ ہے جب ہماری Shifting یہاں سے اخروی گھرکی طرف ہو گی ۔ اللہ آسان کرے۔
ہم نے بھی ادھر آکر اپنا گھربسایا ہے ۔ضرورت کی تمام چیزیں اول سےآخر تک خریدنی تھیں ۔یہاں کے Life styleمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا اتنا رحجان ہے کہ ’’ عارضی گھر ‘‘ کا تصور ذہن میں جما رہتا ہے ۔ آج ادھر ہیں اورکل شاید نہ ہوں ۔ اوریہ پوری امریکی قوم کا مزاج ہے مگر پھر جب وہ زندگی کے کسی دور میں سیٹ ہوتے ہیں توپھراس طرح کہ جیسے یہی گھرآخرت میں ملنے والی جنت ہیں۔
اللہ ہمارا آخرت میں بہترین گھردے ۔فلاحِ دارین دے ۔ آمین۔
آپ کا کام اورصحت کس حال میں…

مزید پڑھیں

اے طائر لاہوتی – پروفیسر خواجہ مسعود

علامہ اقبال اپنے اشعار میںجوبھی الفاظ استعمال کرتے تھے ان کا انتخاب لاجواب اور با مقصد ہوتا تھا۔ ’ لا ہوتی‘ تصوف کا وہ درجہ ہوتا ہے جہاں سالک کو فنا فی اللہ کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے وہ انسان دنیاوی حرص و لالچ سے ماورا ہو کر صرف اللہ سے لولگا لیتا ہے اور یہ درجہ بلا شبہ ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتا ۔ خال خال متقی انسانوں کو یہ درجہ حاصل ہوتا ہے ۔
تو پھر علامہ نے بجا فرمایا ہے کہ اللہ والے انسان تجھے کبھی گوارا نہ ہوگا کہ اللہ کے سوائے کسی غیر اللہ کے آگے ہاتھ پھیلائے ۔ علامہ خود بھی عشق خدا اور عشقِ رسولؐ میں ڈوبے ہوئے تھے وہ طائر لا ہوتی کو یوں مخاطب کر سکتے تھے کوئی عام انسان ایسی جرأت نہیں کر سکتا تھا ۔
علامہ مسلمانانِ ہند بلکہ تمام عالم اسلام کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ کسی غیر اللہ کے آگے ہاتھ پھیلانا ایک ذلت سے کم نہیں ۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
اور
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
اللہ تعالیٰ تو انسان…

مزید پڑھیں

میری والدہ محترمہ – ڈاکٹر فلزہ آفاق

ڈاکٹر گلشن حقیق مرزا کی ہمہ پہلو اور متحرک شخصیت کا تذکرہ جو حسنِ عمل کی بہت سی راہیں دکھا رہا ہے
 
بے شک پوری انسانیت کے لیے ، قیامت تک کے لیے اسوۂ حسنہ ، نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ ہے۔ اُمہات المومنین تمام خواتین کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔
اخلاقِ حسنہ کی جھلک آج کے دور میں بھی جہاں کہیں ہمیں نظر آتی ہے ، وہ ہمارےعمل کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہے ۔
اپنی امی جان کی زندگی کے چند روشن پہلو اس نیت سے آپ کے سامنے رکھ رہی ہوں کہ آج کے حالات میں ، عمل کے لیے ، کسی کو کوئی نکتہ مل سکے تو اُن کے لیے اجر کا باعث ہوگا ان شاء اللہ ۔ اللہ تعالیٰ ان کو عافیت والی زندگی عطا فرمائیں آمین۔
میری والدہ محترمہ ڈاکٹر گلشن حقیق مرزا کے اتنے پہلومثالی ہیں کہ یہ فیصلہ مشکل ہے کہ کن پہلو ئوں پربات کی جائے ۔ ایک خاتون کی عمومی ذمہ داریوں کے ساتھ مصروف گائناکالوجسٹ ، مخلص سوشل ورکر، ذمہ دار کونسلر اور صوبائی کونسل کی رکن ، تمام معروف میڈیکل دینی ، ریلیف اور خواتین کے حقوق کے لیے متحرک تنظیموں سے مضبوط رابطہ رکھنے والی، علوم و فنون ،…

مزید پڑھیں

قسط14 – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

خلاصہ:نین تارا غیر ملکی مذموم مقاصد کو پورا کرتی ایک این جی او چلا رہی ہے۔وہ پون کو نوکری کی پیشکش کرتی ہےجو کہ صالحہ آنٹی کے مطابق ایک خطرناک پیش کش ہے۔مگر نین تارا خود ہی لا پتہ ہو جاتی ہے۔پون کو ہاسٹل میں ایک لڑکی نظر آتی ہے جو اسی کے محلےکی رہنے والی تھی۔وہ اس سے ڈر کرگائوں کے سکول میں استانی کی نوکری کے لیے درخواست دے دیتی ہے۔حمیرا اس کی سہیلی ہاسٹل چھوڑ کر جا رہی ہے۔خود پون کا اگلا ٹھکانہ کیا ہو گا وہ نہیں جانتی۔
 

وہ بہت دیر پہلے خاموش ہو چکی تھی اور اب گھٹنوں پہ سر رکھے بیٹھی تھی ۔ ماضی کا سفر بہت تکلیف دہ ثابت ہؤا تھا ۔ وہ ذہنی طور پر بُری طرح سے تھک گئی تھی مگر اتنا ضرورہؤا تھا کہ اس نے وہ سب کچھ کہہ ڈالا تھا جو وہ آج تک کسی سے نہیں کہہ پائی تھی۔ وہ سارے دکھ وہ ساری تکلیفیں وہ ساری یادیں جواس کے اندربیماری بنتی جا رہی تھیں ، آج اس نے نکال کراس شخص کے سامنے رکھ دی تھیں جوبیک وقت اجنبی بھی تھا اور اپنا بھی…جو بے نیاز تھا ، لا تعلق اور خود پسند تھا … پھر بھی…

مزید پڑھیں

جیل کہانی – معصوم کلیاں – آسیہ راشد

ٹھیک پندرہ روز بعد ہم سب دوبارہ کو لکھپت جیل جا رہے تھے ۔ ہمارے ساتھ لیڈی ہیلتھ وزیٹرفرحت ( مرحومہ) غزالہ ہاشمی ، فرزانہ ، اسما خان اوردونوجوان بچیاں تھیں جنہوں نے میڈیکل باکس اوربلڈ پریشر چیک کرنے والے آلات اُٹھا رکھے تھے۔
اس دن کی طرح دوبارہ ہماری شناخت ہوئی اورکچھ دیر بعد ہم جیل کی چار دیواری میں بنی چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں سے ایک عمارت میں بیٹھے تھے ۔ خالدہ بٹ صاحبہ ہمارے استقبال کے لیے موجود تھیں وہ بہت متحرک دکھائی دے رہی تھیں۔وہ ہمارے سوالات کے جواب بہت تسلی اور اطمینان سے دے رہی تھیں ۔ میرے دل و دماغ میں بہت سے سوالات پنپ رہے تھے جو میں ان سے پوچھنا چاہ رہی تھی ، قیدی بیمار عورتیں ایک ایک کرکے کمرے میں آنے لگیں اور کمرے میں پڑے بنچوں پربیٹھنے لگیں ۔سبھی لوگ مستعدی سے ان کا چیک اپ کر نے لگے ۔ ایک نے بلڈ پریشر چیک کیا ، دوسری نے تھرما میٹرلگایا، فرحت نے ان کے گلے ، آنکھیں ، کان چیک کیں اور نسخہ لکھ کر گروپ کی ایک ممبرکوپکڑا دیا جو دوائیوں کا باکس کھولے بیٹھی تھی۔ اس نے دوائیاں لفافے میں ڈال کر مریضہ عورتوں کودینا شروع کیں…

مزید پڑھیں

سیماں- رفعت محبوب

17دسمبر 1987 سردیوں کی ایک شام تھی جب ہم اپنے نئے گھر میں شفٹ ہوئے میں اپنے ساتھ اپنی پرانی مدد گار کچھ دنوں کے لیے لے آئی تھی تاکہ نئی جگہ پہ جا کرمشکل نہ ہو اورگھر سیٹ کرنے میں مدد گاربنے ۔ میرے ساس سسربھی میرے ساتھ رہتے تھے۔ میری مرحومہ ساس نے محلے میں صفائی کے لیے جلدہی ایک خادمہ کا بندو بست کردیا جس سے کافی آسانی ہو گئی لیکن کچن کے لیے مجھے مدد گار کی سخت ضرور ت تھی۔
بچے چھوٹے تھے مستقل ساس سسر کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مہمان داری بھی بہت تھی ، جب ہمارا گھر بن رہا تھا توچوکیدار اپنی فیملی کے ساتھ ادھر ہی رہتا تھا ، اس کی ایک بیٹی دبلی پتلی کمزور سی جان صبح سویرے سردی میں کسی دفتر کی صفائی کے لیے جاتی تھی ۔میری ساس نے اس کے والد سے کہا کہ تمہاری کمزور سی بچی ہے اور تم اس کو صبح سویرے اتنی ٹھنڈ میں دفتر کی صفائی کے لیے بھیج دیتا ہے۔بہتر یہ ہے کہ تم اس کو اندر باجی کے ساتھ کام پہ لگا دو، وہ اس کے پاس رہے گی اورکام میں بھی ہاتھ بٹائے گی کھائے پئے گی تو…

مزید پڑھیں

انکاری – عائشہ ناصر

سلاخوں کے پارسے اٹھتی سوندھی سوندھی گیلی مٹی کی مہک نے اسے ماضی میں گم کردیا ۔ اس کاکچی مٹی سے تعمیرکردہ ایک کمرے اورصحن پرمشتمل مکان بھی بارش کی بوندیں پڑتے ہی یوںہی مہک اٹھا تھا۔ اس کچے پکے مکان میں وہ کنچے کھیلتا ہؤا بڑا ہؤا، اورجانے کب رنگ برنگے کنچے کھیلتے ہوئے اس کی ماں انیلہ اسے سرکاری اسکول میں داخل کرا آئی ۔ اس کی عمر غالباً سات سے اٹھ برس تھی جب اس نے پہلی بارکاغذ قلم کوچھوا۔آہستہ آہستہ اسے اسکول کاماحول بھانے لگا۔ اساتذہ کے نرم گرم رویہ کا بھی وہ دھیرے دھیرے عادی ہوگیا ۔ اب وہ کاغذ قلم کے ساتھ بستہ میں کنچہ بھی بھر کرلاتا ۔ کھانے کے وقفہ میں رنگےبرنگے کنچے بستہ سےنکلتے اورکھیل کا میدان گویا کنچوں سے رنگین ہوجاتا ۔
یہ موسم گرما کا وسط تھا ۔مون سون شروع ہوچکا تھا۔بارش کی رم جھم اس کے کچے گھر کو مہکا جاتی ۔لیکن ایک دن مینہہ اس زور سے برسا کہ اس کا کچا پکا مکان ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس ہو گیا ۔لوگوں نے اسے ، اس کی ماں اورچھوٹی بہن کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا ۔ کچھ دن زیرعلاج رہنے کے بعد جب وہ واپس…

مزید پڑھیں

بند مٹھی – آمنہ آفاق

” انوبی میں نے سنا ہے کہ اگلی اتوار اپنی سونو دھی آ رہی ہے، تو نے بس مجھے ہی نہ بتایا، تیرے دکھ سکھ کی ساتھی تو میں ہوں اور پتہ چلا مجھے ماسی برکتے سے “۔
نوری کے شکوہ کرنے پر مشین پر جھکی سلائی کرتی انوبی کے ہونٹوں پر نرم سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
”جھلی ہے تُو تو ….تجھے نہ بتاؤں گی تو کسے بتاؤں گی، وہ تو برکت ماسی کے گھر میری سونودھی کا فون آ گیا یوں اس کو پتہ چلا“ انوبی نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ”تجھے پتہ ہے نوری اگلے ہفتے داماد صاحب بھی آ رہے ہیں اور ساتھ ہی میرا ننھا نواسہ بھی سوا مہینے کے بعد اپنی نانی کے گھر آ رہا ہے۔ جی چاہ رہا ہے کہ پورا گھر سمیٹ کر اس کے قدموں میں نچھاور کر دوں“ آنکھوں میں دیپ جلائے انوبی منہ سے دھاگہ توڑتے ہوئے بولی۔
”واہ بھئی ویسے قسمت کی دھنی ہے ہماری سونو، سسرال والے بھی نیک ملے اور داماد بھی بالکل بیٹوں کی طرح ۔۔۔اور تو اور اس لالچ بھرے زمانے میں جہیز لینے سے بھی انکار کر دیا ، اللہ ان لوگوں کو خوش رکھے“ نوری نے صدقِ دل سے دعا دی ، انو…

مزید پڑھیں

ویہڑا – ثانیہ رحمن – ترجمہ:ام معبد نتکانی

دھم دھما دھم دھم…. دھم دھما دھم دھم
ملک ڈتو کے گھر سے رات گئے سے ڈھول کی اواز آنا بند نہیں ہوئی تھی۔
اور بند بھی کیوں ہوتی ،خوشی ہی اتنی بڑی تھی! ملک’’ڈتو‘‘ کے گھر پوتا جو پیدا ہؤا تھا ۔پچھلے کافی سالوں سے ملک کا گھر بچوں کی شرارتوں اور رونقوں سے محروم تھا ۔اس کے بیٹے’’بالو‘‘ کے بعد کسی کی بچے کی پیدائش نہ ہوئی تو اس کے صحن نے کسی بچے کی کلکاریاں اور رونقیں نہ دیکھی تھیں….آج جیوے لکھ تھیوے ’’بالو‘‘ کو اللہ تعالیٰ نے چاند مکھڑے اور روشن پیشانی والا بیٹا دیا تھا تو ملک ڈتو ڈھول بجوا کے بیٹے کی پیدائش کی خوشی منا رہا تھا۔ڈتو کی اس خوشی میں گردونواح کے سارے علاقے والے اور دوست قرابت دار شامل ہوئے تھے۔
لالہ مبارک باد اللہ ہمارے بھتیجے کو ہنستا بستا رکھے۔
او جی خیر مبارک میرے بھائی ہماری اس خوشی کے موقع پہ شریک ہوئے۔
ملک ڈتو کے بچپن کے یار وسائے نمبردار نے اس کے پوتے کی پیدائش کی مبارک اس کے گھر پہ آ کے دی تو ملک ڈتو کا سینہ خوشی سے چوڑا ہو گیا۔
نمبردار پہلا یا آخری بندہ نہ تھا جو مبارکباد کے لیے آیا ہو۔ لوگ تو رات سے آنا شروع…

مزید پڑھیں

یہاں کیا رکھا ہے! – شہلا اسلام

اپنے کمرے میں آ کر میں نے وقت دیکھا ۔پاکستان میں اس وقت رات کے بارہ بج رہے ہوں گے ،ماما جاگی ہوئی ہوں گی میرے فون کے انتظار میں۔۔۔ ایک ٹھنڈی سانس بے اختیار میرے منہ سے نکلی، موڈ کو خوشگوار کیا ،سارے دن کی بے کلی اور کوفت کو ایک طرف رکھ کر میں نے کال ملائی ۔
وہ انتظار ہی میں تھیں ۔سلام دعا کے بعد جو پہلی خبر انہوں نےمجھے سنائی وہ حمزہ کی تھی۔ اس کا بھی باہر جانے کا ہو گیا ہے، اماں نے سادے سے انداز میں اپنی طرف سے خوشی کی خبرمجھے سنائی ۔ میری کافی عرصے سے اس سے بات نہیں ہوئی تھی ۔جب میں کال کرتا تھا وہ عموماً گھر پر نہیں ہوتا تھا۔ من موجی لڑکا تھا پڑھائی میں اچھا تھا اور اب ڈاکٹر بن چکا تھا، ہاؤس جاب مکمل ہونے والی تھی اس لیے گھر والوں کی طرف سے اس کی روٹین کے حوالے سے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔
میں نے ان کے حسب توقع خوشی کے چند جملے بولے اور فون بند کردیا۔
یہ کال مجھے آج سے چار سال پیچھے لے گئی۔ ایک انجنئیرنگ یونیورسٹی سے اچھے نمبروں سے گریجویٹ ہونے کے بعد میرے بھی یہی خیالات تھے…

مزید پڑھیں

مسئلہ فلسطین تاریخی تناظرمیں – سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ

فلسطینی مسلم آبادی پر اسرائیل کے بہیمانہ ظلم اوردہشت گردی کا پس منظرکیا ہے،مسئلہ فلسطین دراصل کیوں پیدا ہؤا ، اقوام عالم میں کس نے کیا کردار ادا کیا ، اس میں کون کون سے نمایاں تاریخی موڑ آئے ، یہ تحریرجومسجد اقصیٰ میں ہونے والی آتش زدگی کے بعد 1970 میں شائع ہوئی ان سوالوں کے جواب دیتی ہے ۔
 
یہودی عزائم کی تاریخ
بیت المقدس اورفلسطین کے متعلق آپ کویہ معلوم ہونا چاہیے کہ تقریباًتیرہ سوبرس قبل مسیح میں بنی اسرائیل اس علاقے میں داخل ہوئے تھے اوردو صدیوں کی مسلسل کشمکش کے بعد بالآخراس پرقابض ہوگئے تھے۔ وہ اس سر زمین کے اصل باشندے نہیں تھے ۔ قدیم باشندے دوسرے لوگ تھے جن کے قبائل اور اقوام کے نام خود بائبل میںتفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ، اور بائبل ہی کی تصریحات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے ان قوموں کا قتلِ عام کر کے اس سر زمین پر اسی طرح قبضہ کیا تھا جس طرح فرنیگوں نے سرخ ہندیوں (Red Indians)کو فنا کرکے امریکہ پر قبضہ کیا ۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ خدا نے یہ ملک ان کی میراث میں دے دیا ہے ، اس لیے انھیں حق پہنچتاہے کہ…

مزید پڑھیں

غزہ کے پھول – ام محمد عبداللہ

اے میرے غزہ کے پھول!
تمہیں شکوہ ہے
کہ تمہیں اس دنیا میں ٹھہرنے نہیں دیا گیا
تمہیں تو ابھی رنگوں سے کھیلنا تھا
خوشبوؤں کو محسوس کرنا تھا
پنسل سے کاپی پر کچھ لکھنا تھا
تتلیوں کے پیچھے بھاگنا
اور پھولوں کو کھلتے دیکھنا تھا
تمہیں شکوہ ہے کہ تم نے
سورج کی حرارت محسوس نہیں کی
چاند کی چاندنی بھی نہیں دیکھی
اور وہ جو جگمگ جگنو ہوتے ہیں
اور وہ جو کوئل نغمے سناتی ہے
کچھ بھی تو نہیں
تم نے یہ دنیا نہیں دیکھی
لیکن میں تمہیں بتاؤں
تم دنیا کے جس خطے میں آئے تھے
پیارے!وہ خطہ غزہ کہلاتا ہے
کھلے آسمان تلے یہ اس زمیں کا سب سے بڑا جیل خانہ ہے
اگر تم یہاں کچھ دن ٹھہر بھی جاتے
تو بحیرہ روم کے نیلے پانیوں کے ساحل پر رہنے والے پیارے بچے
پینے کے صاف پانی تک تمہیں رسائی نہ ملنی تھی
اور اب جب یہ دنیا ٹیکنالوجی کے آسمان کو چھو رہی ہے
تمہیں بجلی چوبیس گھنٹوں میں فقط چار گھنٹے ہی ملنا تھی
اور تم جی تو رہے ہوتے
مگر تم میں خون کی کمی ہوتی
اور کسی شب جب
ماں کی آغوش میں تم چھپ کے سو رہے ہوتے
اور اسرائیلی فضائیہ تم پہ آگ برساتی
شور، آگ اور دھواں
خون، زخم، آنسو اور چیخوںمیں گھِر کر
تم خوف کے عارضے کا شکار بن جاتے
یا اگر اپنے باہمت والدین کی نگہداشت…

مزید پڑھیں

ہلکا پھلکا – میاں بیوی – نبیلہ شہزاد

’’پل میں تولہ پل میں ماشہ‘‘ کا محاورہ شاید بنا ہی ان کے لیے ہے۔ جن میاں بیوی کے
درمیان محبت اور دوستی زیادہ ہوتی ہے ان کے درمیان نوک جھوک ضرور ہوتی ہے۔
 
دو انسانوں کے درمیان بننے والا سب سے پہلا رشتہ میاں بیوی کا ہے جو انسان کے اس روئے زمین پر قدم رکھنے سے پہلے جنت میں ہی بنا دیا گیاجبکہ باقی سب رشتے زمین پر بنے ۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کے لیے والدین جیسے اہم ترین رشتے کی بجائے اس کا گھر بسانے اور دل لگانے کے لیے ایک بیوی کا وجود اس کے لیے پیدا فرما دیا اور اس رشتے کے درمیان ایک خاص محبت کی سند اپنی طرف سے عطا فرما دی ۔
یہی وجہ ہے کہ میاں بیوی، لڑا کے اصیل مرغوں کی طرح آپس کی لڑائی جھگڑے میں چونچوں سے ایک دوسرے کو لہو لہان بھی کر دیں تو ہانپتے ہوئے کچھ دیر لڑائی چھوڑ کر سستانے کے لیے بھی ایک دوسرے کی گردن پر ہی سر رکھ کر آرام فرمائیں گے۔ کہتے ہیں کہ ایک جگہ پر پڑے برتن بھی آپس میں کھٹک جاتے ہیں لیکن یہ رشتہ ایسا رشتہ ہے کہ ان کے کھٹکنے کی آواز ڈھول کی تھاپ سے بھی…

مزید پڑھیں

دوسری قسط – آذربائجان کی سیر – مہ جبین

بلندیوں کا سفر
قبالا آذربائجان کا ایک تاریخی شہر ہے جو پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے منگول خان، تیمور لنگ اور ایسے کئی جنگجوؤں کے قدم اس زمین پر پڑے ہیں۔باکو سے قبالا کا بائی روڈ راستہ ساڑھے تین گھنٹے کا ہے لیکن جگہ جگہ اسپیڈ چیک اور ریڈار بورڈز نصب ہیں جس کی وجہ سے رفتار کبھی کم اور کبھی زیادہ رکھنی پڑتی ہے ۔پہاڑوں کے درمیان سطح مرتفع پر واقع وادیاں، وسیع سرسبز میدان اور چراگاہیں، کھیت، مویشیوں کے جھنڈ ، خوبصورت لکڑی سے بنے مکانات، سرائے ،ہوٹل ،دکانیں کہیں ملیں اور فیکٹریاں کہیں ہوائی چکیاں، سولر پلانٹ اور ان سب کے درمیان صاف ستھری بل کھاتی سڑک، کہیں دریائی راستوں پر پل بنائے گئے ہیں جہاں ابھی تو بالکل ہلکا سا پانی نظر آرہا تھا لیکن برف باری کے بعد یقینا ًیہ دریائی راستے پانی سے بھر جاتے ہوں گے۔
تقریباً دو ڈھائی گھنٹے چلنے کے بعد ایک جگہ گاڑی روک کر تھوڑی چہل قدمی کا فیصلہ کیا۔لکڑی کے تختوں کو جوڑ کر چھوٹی چھوٹی بیٹھکوں کی شکل میں قہوہ خانے پورے راستے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موجود تھے جنہیں مقامی لوگ ہی چلاتے ہیں، جو نہ صرف ان کی آمدنی کا ذریعہ ہے بلکہ آذری لوگوں…

مزید پڑھیں

درد وِچھوڑے دا – رضیہ سلطانہ

’’دیکھو نی میں سیراں (سائرہ ) بن گئی‘‘ گڈو خسرے نے جھوم جھوم کر تالیاں بجائیں اور ہنستی اور سب کو ہنساتی ہوئی چلی گئی۔
ہر سال ہمارے گاؤں میں جب گندم کی کٹائی ہوتی گاؤں کے غریب لوگ جنہیں کمی کہا جاتا اور بہت سے خواجہ سرا آتے ، جس جس گھر میں لڑکا پیدا ہوتا وہ وہاں خوب گانے بجانے کرتے، ودھائیاں (مبارکبادیں ) دیتے ،انہیں بدلے میں مٹھائیاں، کپڑے ، ڈھیر ساری گندم اور پیسے دے کر رخصت کیا جاتا ، اور وہ دعائیں دیتے چلے جاتے ۔
باقی لوگ تو ایک ہی دن میں چلے جاتے لیکن خواجہ سراہفتہ بھر ہمارے گاؤں میں ہماری مویشیوں والی حویلی کی ایک طرف بنے ہوئے خالی کمروں میں رہتے ، انہی میں ایک خواجہ سرا گڈو بھی تھا، گڈو ہر روز شام کو ہمارے گھروں میں آجاتا اس لیے اس کی میری پھپھو اور کچھ اور رشتہ دار خواتین سے دوستی ہو گئی . ہمارا گھر بہت بڑا تھا جس میں ہمارے دادا دادی ، پھپھو ، تایا کی فیملی اور ہماری فیملی سب اکٹھے رہتے تھے ، باورچی خانے سب کے الگ الگ تھے لیکن ایک ہی بہت بڑا صحن ہوتا تھا وہاں بہت رونق ہوتی تھی ۔
تقریباً ہر شام…

مزید پڑھیں

بارش کا گیت – شاہدہ اکرام سحرؔ

گھنگھور گھٹاؤں نے پیغام سنایا ہے
ہر دل کو لبھانے کا موسم یہ آیا ہے
گونجے ہے جہاں سارا اک شوقِ نوا سے اب
مرغانِ چمن نے بھی کیا رنگ جمایا ہے
من بھر گیا خوشیوں سے، غم دور ہوئے سارے
امیدِ وصل کا اک سندیسہ لایا ہے
رم جھم ہے بوندوں کی، دل پر بھی گرتی ہیں
آنکھوں میں بھی گویا کہ اک ابر سا چھایا ہے
یاں برکھا، واں من میں سیلاب سا اترا ہے
اک شور عجب مل کر دونوں نے مچایا ہے
اے کاش سدا یونہی، ہر جا چٹکیں غنچے
مہکائے جگ ہر سو، یہ گیت جو گایا ہے

مزید پڑھیں

سنہرے گنبد سے اپنا رشتہ – اسماء صدیقہ

سنہرے گنبد سے اپنارشتہ تو اس قدر ہے
خدا نے رکھی جہاں پہ برکت یہی وہ در ہے
گئے تھے آقا فلک کی جانب
یہی تو وہ جائے معتبر ہے
ہزار نبیوں کو جس نے پالا یہی وہ گھر ہے
حصارِ جوروجفا جہاں اب سواہوا ہے
بہت ہی ملعون وحشیوں میں گھرا ہوا ہے
زمینِ اقدس کی اس تباہی کاعکس دیکھوگےہرخبرمیں
جو مثلِ خنجر ہوئی ہیں پیوست ہرنظرمیں
ندائے اقصی میں سن سکو تو
لہو نہاتی ہزار آھیں جو مرتعش ہیں
تجلیوں سے جولاالہَ کی منعکس ہیں
جو زخمی کلیوں کی آہ و زاری میں ملتمس ہیں
نبی کی حرمت کے نام لیوا ادہر تو آؤ
کسی اخوت کے نام لیوا بکھر نہ جاؤ
تمہیں یہاں کے سوال چہرے پکارتے ہیں
زمینِ اقدس پہ بڑھتے حملے پکارتے ہیں
سپاہیانِ وفا کے لشکر کے مرد آہن چلے بھی آؤ
حروفِ قرآں کاتھامے دامن چلے بھی آؤ
قلوبِ ایماں کی بن کے دھڑکن چلے بھی آؤ
زمینِ اقصی تمھارے پرچم کی سبز رنگت سے کہہ رہی ہے
یہاں کی حرمت سے جس کا رشتہ تو دائمی ہے
اگر نہ آؤ تو پھر بتاؤ یہ لازمی ہے
تمھاری نسبت کا مان کیا بس ستائشی ہے؟
تمھاری طاقت کا زعم کیا بس نمائشی ہے؟

مزید پڑھیں

غزل – حبیب الرحمٰن

سر کی یہ آگ پیروں تک آنی ہے اور بس
اتنی سی شمع تیری کہانی ہے اور بس
پھر دیکھیے وہ جوش وہ جذبہ عوام کا
جھوٹی امید ان کو دلانی ہے اور بس
نفرت کی وہ مچے گی قیامت ہر ایک سے
ایک ایک کی ہزار لگانی ہے اور بس
ہاں آج تک اسی کی سزا کاٹتا ہوں میں
آنکھیں ہیں اور ان آنکھوں میں پانی ہے اور بس
کُل زندگی، بڑھاپا و بچپن کے درمیاں
اک مختصر سا دورِ جوانی ہے اور بس
تم کیا ہو، کس لیے ہو، کہاں لوٹ جاؤ گے
اتنی سی بات سب کو بتانی ہے اور بس
بھولا ہے مان لے گا کہاں دیر ہو گئی
گھر جاکے کوئی بات بنانی ہے اور بس
پھر دیکھیے گا رات کی سیماب پائیاں
ہر دل میں ایک جوت جگانی ہے اور بس
اُس کے حبیبؔ سارے فسانے حقیقتیں
لیکن مری کہانی کہانی ہے اور بس

مزید پڑھیں

اخوت – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

مؤمن تو آپس میں بھائی ہیں
 

اللہ تعالیٰ نے امت ِ مسلمہ کو ایک عالمگیر برادری بنایا ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو دنیا کے کسی اور یا مسلک کے ماننے والوں میں عنقا ہے۔یہ وہ عالمگیر برادری ہے جو شرق، غرب اور شمال جنوب کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں مضبوطی کے ساتھ جوڑ کر رکھتی ہے۔اور جماعتِ مسلمہ کے درمیان محبت، سلامتی، تعاون و اتحاد ہی باہمی تعلق کی بنیاد ہے۔
اور یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ اس نے تمام امت کو اخوت کے رشتے میں جوڑ دیا:
’’اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے‘‘۔ (آل عمران، ۱۹۳)
یہ اسلامی سوسائٹی کی بنیاد ہے۔ صرف اللہ نام پر برادری، اسلامی نظامِ زندگی کی رفاقت، اسلامی نظام ِ زندگی کے قیام کے لیے جدو جہد کرنے کی رفاقت! اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے بکثرت ارشادات میں بیان فرمایا ہے، جن سے اس کی پوری روح سمجھ میں آ سکتی ہے۔
اسلام سے پہلے پورا عرب ایک دوسرے کا دشمن تھا، بچہ بچہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کا دشمن تھا۔ ایک ایک خون کا بدلہ کئی کئی پشتوں تک چلتا تھا۔ اس…

مزید پڑھیں

سیرتِ نبویؐ کا سیاسی پہلو – شہناز اخترشانی ؎۱

حضور اکرم ؐ کی سیرت مبارکہ کے لاتعداد پہلو ہیں۔ آپ کی پاکیزہ زندگی کے واقعات لاتعداد کتابوں میں محفوظ اور ہر مسلمان کو ازبر ہیں۔ لیکن بنی نوعِ انسان کی پوری تاریخ کا ایک عظیم انقلاب جس نے پہلے عرب کا اور پھر پوری دنیا کا نہ صرف سماجی ، اخلاقی اور معاشرتی بلکہ سیاسی منظر نامہ بھی بدل ڈالا ،اس طرف لوگوں کی توجہ بہت کم جاتی ہے۔ یوں عام لوگوں کی نظر سے آپؐ کی زندگی کا سیاسی پہلو اوجھل رہتا ہے۔
پیارے آقا محمد ؐنے نہ تو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور نہ ہی زمام کارکفر کے ہاتھ میں رہنے دی۔اللہ تعالیٰ نے جس طرح بہت سے پہلے پیغمبروں کو حکومت سے نوازا بھی اور جہانبانی اور فرمانروائی کے گُر بھی سکھائے اسی طرح محمد ﷺ کو بھی سکھایا کہ طرز حکومت کیا ہو – فرمایا :
’’حکم اللہ کے سوا کسی اور کا نہیں۔ اس کا فرمان ہے کہ اس کےسوا کسی اور کی بندگی نہ کرو یہی صحیح دین ہے‘‘۔(یوسف 40:12)
سورہ المائدہ آیت 44 میں فرمایا:
’’ جو خدا کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی دراصل کا فر ہیں‘‘۔
سورہ آل عمران آیت 154 میں فرمایا: ’’وہ پوچھتے ہیں کہ اختیارات…

مزید پڑھیں

ابتدا تیرے نام سے – صائمہ اسما

قارئینِ کرام !
سلام مسنون
اس بار تو بیان کرنے کو بس غزہ پر ٹوٹی ہوئی قیامت ہے، اہلِ غزہ کے ایمان و استقامت پراظہارِ رشک ہے اور امت پر حکمرانی کرنے والے طبقے کی بے حسی کے نوحے ہیں۔ انتیس روز سے غزہ کی آبادی پرانتہائی مہلک بموں سے بمباری جاری ہے، جن کے مقابلے میں حماس کے پاس بس اپنی جانیں ہیں اور جذبہِ جہاد ہے۔سب کو نظر آرہا ہے کہ حماس کو ختم کرنے کے نام پہ یہ غزہ کے شہریوں کاقتل عام ہے جس میں اب تک ساڑھے تین ہزار بچوں سمیت ساڑھے آٹھ ہزار افراد جام شہادت نوش کرچکے ہیں اورجن میں ستر فیصد سے بھی زیادہ عام شہری ہیں۔اس اندھا دھند بمباری میں اسرائیل نے نہ مساجد اورہسپتالوں کو چھوڑا، نہ ہی پریس اور امدادی عملے کو،نہ خود ان کی ہدایات پر نقل مکانی کرتے قافلوں کو ۔اسرائیل نامی ناجائز قوت نے شیطانیت اور درندگی کا ایسا کھیل رچایا ہے کہ دنیا چیخ اٹھی ہے۔ ہر خطے اور ملک میں عام لوگ اپنی حکومتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے احتجاج کے لیے نکل آئے ہیں۔جس شخص کے اندر بھی انسانیت کی رمق موجود ہے اور ضمیر ذرا سا بھی بیدار ہےوہ اسرائیل کی مذمت کررہا ہے۔…

مزید پڑھیں