افشاں نوید

اولاد کی تمنا کیوں – مارچ ۲۰۲۱

اولاد کی قدر کسی بے اولاد جوڑے سے پوچھیے۔اولاد کی تمنا انسان کا فطری داعیہ ہے۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے لیکن ایک مسلمان اولاد کی خواہش جس وجہ سے رکھتا ہے اس کو قرآن بڑے خوبصورت الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
’’کھیعص۔ذکر ہے اس رحمت کا جو آپ کے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی جب انہوں نے چپکے چپکے اپنے رب کو پکارا‘‘۔
انہوں نے عرض کیا،اے میرے رب میری ہڈیاں تک گھل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا ہے، اے میرے رب میں تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا، مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے اور میری بیوی بانجھ ہے۔ تو مجھے اپنے فضل خاص سے ایک وارث عطا کر دے جو میرا وارث بھی ہو اور آل یعقوب کی میراث کابھی، اے میرے رب اس کو ایک پسندیدہ انسان بنا۔(سورہ مریم۔آیت 1-6)
یہاں دیکھیے حضرت زکریاؑ کے دل کی یہ دعا ہے کہ اے میرے رب اس کو پسندیدہ انسان بنا۔ کس کا پسندیدہ؟
کیا سماج کا پسندیدہ یا رب کا؟
کیا پیغمبروں کی اساس دھن دولت ہوتی ہے؟
وہ کونسی میراث ہے جس کا وارث بنانے کے لیے پریشان ہیں ؟
رب کے سامنے جھولی پھیلا رہے ہیں۔ پھر اپنا…

مزید پڑھیں

یہودیوں کے تاریخی جرائم – بتول فروری ۲۰۲۱

مصنف :پروفیسر ڈاکٹر محمد آفتاب خان واہلیہ
پروفیسر ڈاکٹر محمد آفتاب خان صاحب ایک منجھے ہوئے لکھاری ہیں۔مختلف موضوعات پر درجن بھر سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی ہو تو زندگی چین سے گزر جاتی ہے۔عموماً زوجین اولاد اور خاندان سے آگے کم ہی سوچتے ہیں۔یہ جوڑا زمین پر اللہ کی رحمت ہے جو تمام خانگی امور کے ساتھ سالہا سال سرجوڑے مختلف تفاسیر قرآن سے لفظوں کے موتی چن رہے ہیں، کتاب کی مالا میں پرو رہے ہیں۔ یہ سارا غور و خوض اور کاوش اس لیے ہے کہ مسلمانوں کو اور پوری انسانیت کو ان خطرات سے آگاہ کریں جو یہودیوں سے درپیش ہیں۔
انھوں نے مختلف تفاسیر سے ان مضامین کو یکجا کیا اور مسلمانوں کو یاد دلایا کہ اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہی قوم ہے۔نسلی طور پر خود کو معزز سمجھنے والی یہ متکبر قوم دوسرے انسانوں کو کمتر بنیادی حقوق دینے کی بھی روادار نہیں ہے۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ تاریخ کے اولین دور سے آج تک یہودی ایک سازشی گروہ اور احسان ناشناس قوم رہی ہے۔ چار ہزار سال تک لاتعداد انبیاء کی تعلیمات کے باوجود یہ اپنی منافقت اور سازشی تھیوری سے باز نہیں آئی۔
مذکورہ کتاب کا…

مزید پڑھیں

محشر خیال – بتول دسمبر ۲۰۲۱

قانتہ رابعہ۔ گوجرہ
کل بتول ملا لیکن اس سے قبل ایک دو افسانے موبائل فون کی سکرین پر لکھے تو کئی محاورے یاد آگئے جیسے موت کو ماسی کہنا …..آبیل مجھے مار وغیرہ وغیرہ۔اصل میں آنکھوں کے لیے روشنی منع ہے اور اندھیرے میں لکھنے کا فن مجھ نکمی کو نہیں آتا بس نتیجہ یہ کہ پڑھنا فی الحال ناممکن ہے وگرنہ بتول آئے اور پڑھ نہ پائوں …..ایسے بھی حالات نہیں!
بتول کے اس شمارے میں فی الوقت تو دو تین تحریریں پڑھ سکی ۔ فائقہ اویس کی تحریر میں بہترین لوازمات موجود ہیں اور پھر موضوع حدود حرم ۔ میمونہ کی میزبانی کے مزے تو فائقہ نے لوٹ لیے۔ کتنا دل خوش کن تصور ہے ایک رسالے میں لکھنے والی رائٹرز کا مل بیٹھنا ! سوچ کر ہی دل خوش ہوگیا۔
دوسری تحریر ڈاکٹر مقبول شاہد کی ہے۔ کہنے کو ماضی کی ایک یاد مگر قیمتی سرمایہ…..نئ نسل کو ان چیزوں کا کیا علم!میری پر زور درخواست ہے کہ وہ اس طرح اپنی چھوٹی چھوٹی یاداشتوں کو بتول میں دیتے رہیں۔مجھے تو کہانی انشائیے سب کا ہی مزا آیا ۔
مجھے ہمیشہ شرمندگی سی محسوس ہوتی رہی کہ میری تحریر پر محترم خواجہ مسعود صاحب بہت محبت اور محنت سے تبصرہ کرتے…

مزید پڑھیں

مصور اور حسن -بتول دسمبر ۲۰۲۱

پچھلے ماہ ترکی جانا ہؤا ایک کانفرنس کے سلسلے میں۔
استنبول کے’پل مین ہوٹل‘ میں وقفوں میں استقبالیہ سے متصل اس گیلری کا رخ کرتی جہاں مایہ ناز مصوروں کے فن پاروں میں اہلِ ذوق کی’’ تسکین‘‘ کا سامان میسر تھا۔
آپ کو اکثر پینٹنگز میں ایک چیز مشترک نظر آتی ہے اور وہ عورت کے خدوخال کی مختلف زاویوں سے تصویر کشی ہے۔
ہوٹل کی گیلری میں میرے سامنے جو پینٹنگز تھی اس میں عورت کی پشت نمایاں تھی۔ لکیریں اور رنگ ہی تو ہیں۔
رنگ بھی باتیں کرتے ہیں اور باتوں سے خوشبو آتی ہے۔
اس کی پشت پر نیم کھلے بال تھے اور جسم پر آسمانی ساڑھی، سامنے کئی درخت اور ایک درخت پر گھونسلہ۔
اس نے اپنے ہاتھ یوں اُٹھائے ہوئے تھے جیسے کسی پرندے کو ابھی ابھی آزاد کیا ہو۔
ایک دوسری پینٹنگ میں عورت کا پورا وجود گویا اس کی آنکھوں میں سمٹ آیا تھا۔وہ آنکھیں جو نم ناک تھیں۔پس منظر میں ٹوٹی ہوئی چوڑیاں تھیں،آسمان پر شفق اور کوچ کرتے پرندے۔
ایک پینٹنگ میں دیہاتی پس منظر کے ساتھ لہنگے اور بلاؤز میں بڑے سے دوپٹے کو بازوؤں کے نیچے سے سنبھالے ہوئے دیہاتی عورت تھی۔ اپنے حجم جتنا گھاس کا گٹھا سر پر رکھے ہوئے سنسان راستےپر چل رہی تھی۔
ایک…

مزید پڑھیں

آس کے دیپ – شاہدہ سحر کا مجموعہ کلام – بتول جنوری ۲۰۲۲

محترمہ شاہدہ سحر صاحبہ کا مجموعہ کلام آس کے دیپ بذریعہ ڈاک روبینہ فرید بہن کی وساطت سےمو صول ہؤا ۔
سرورق پر بنی آبی پینٹنگ نے بہت متاثر کیا اور آس کے دیپ کے عنوان نے امید کے جگنو چمکائے ۔
شاعری احساس کے مترنم اظہار کا نام ہے ۔اللہ تعالی نے یہ کائنات بے حد حسین و جمیل بنائی ہے اسے حسن سے آراستہ کیا ہے اور کائنات میں بکھرا جمالیاتی حسن رب کی مدح اور تسبیح کرتا نظر آتا ہے ۔ اسی مدح کو نغمگی کے قالب میں ڈھال دیا جائے اور لفظوں کا پیرہن دے دیا جائے تو شاعری بن جاتی ہے ۔
پیڑوں پر ہوا سے جھولتے اور جھومتے پتوں کی سرسراہٹ صبح کے اولین سحر آگیں لمحات میں چڑیوں کی چہچہاہٹ زبان فطرت کی شاعری ہے ۔
اللہ نے جن دلوں کو حساسیت سے نوازا وہ عجب لذت کرب سے دوچار رہتے ہیں اور یہ کرب گویائی مانگتا ہے ۔ کبھی یہ کرب ذات کا ہوتا ہے کبھی اجتماعی صورت حالات کا ۔اور جنھیں رب اظہار کا سلیقہ اور ہنر عطا کرتا ہے وہ نثر اور شعر میں اس ہنر کا کمال دکھاتے ہیں ۔
شاعری کیسے اور کیوں کر ہوتی ہے اس کا جواب آسان نہیں ۔کبھی بے…

مزید پڑھیں

اُمّت کی ایک بیٹی – بتول فروری ۲۰۲۲

حضرت عمرؓسے روایت ہے کہ مدینہ کی ایک عورت نے حضورؐ کے پاس آکر زنا کا اعتراف کیا اور کہا کہ میں حاملہ ہوں۔ حضورؐ نے ان خاتون کے ولی کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اورجب اس کا بچہ پیدا ہوجائے تو مجھے خبر کرنا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر آپؐ نے حکم دیا تو ان کے کپڑے ان کے بدن کے ساتھ باندھ دیے گئے پھر آپؐ نے رجم کا حکم دیا اور ان کو رجم کر دیا گیا ۔ پھر آپؐ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔
اس پر حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ؐ آپ ہی نے اس کو رجم کیا اور پھر آپ اس کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں ۔ حضور ؐ نے فرمایا اس خاتون نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ میں سے 70 اشخاص پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہو جائے ۔ کیا تم اس سے زیادہ افضل توبہ کا تصور کر سکتے ہویعنی کہ انہوں نے اپنی جان اللہ کے لیے دی۔(مسلم کتاب الجدود ، ابو دائود ،کتاب الجدود)
اس حدیث مبارکہ میں مدینہ کی پاکیزہ سوسائٹی کی ایک جھلک دیکھی جا…

مزید پڑھیں

صنفی شناخت کا بحران کیوں؟ – بتول نومبر ۲۰۲۲

ایک دن شبانہ مسجد کی تیسری صف میں ہاشمی صاحب کے برابر میں آکر کھڑی ہو گئیں ۔ ان کی پڑوسن تھیں حال ہی میں تبدیلی جنس کا آپریشن کرا کے اپنی شناخت بدل لی تھی۔ ہاشمی صاحب ذرا ہچکچائے تو انہوں نے بے تکلف قریب ہو کر کندھے سے کندھا ملالیا، اس لیے کہ نادر ا کے ڈیٹا میں اب وہ شبانہ نہیں ’’ سلیم ‘‘ تھیں !
سندھ کے ایک دور افتادہ گائوں میں نہر سے سر بریدہ لاش ملی ۔ ریشماں کو لواحقین نے پیر کی انگلیوں سےپہچانا ۔ یہ لرزہ خیز قتل ایک جائیداد کے جھگڑے کا شاخسانہ تھا ۔ برادری میں وراثت میں بہنوں کے حقوق غصب کر لیے جاتے تھے مرحوم والد صاحب جو بڑے جاگیر دار تھے ۔ کئی شہروںمیں ہزاروں کینال زمین چھوڑ کر رخصت ہوئے ۔ ریشماں نے اپنا حصہ طلب کیا تو اسے دھمکیاں دی گئیں ۔ وہ بارہ جماعت پاس با شعور لڑکی تھی ۔ بھائیوں کو اعتراض اس کی تعلیم پر تھا کہ ماں نے اس کے لاڈ اٹھا کر اسے اسکول اور کالج نہ بھیجا ہوتا تو آج وہ منہ کو نہ آتی۔
ایک نام نہاد وکیل نے مشورہ دیا کہ نادرا کے آفس جا کر اپنی شناخت تبدیل…

مزید پڑھیں

ماہِ رمضان میںقبولیت کی آرزو – بتول اپریل ۲۰۲۲

کائنات کا وہ حسین ترین منظر ثبت ہے تاریخ کے سینے میں ۔ یہ ایک مثالی باپ بیٹا ہیں ۔عزیمت کی وہ داستانیں رقم کی ہیں انہوں نے جنہیں قیامت تک خراجِ تحسین پیش کیا جاتا رہے گا۔
اس وقت یہ دونوں معمارِ حرم تعمیر میں مصروف ہیں ۔ اللہ کا گھر تعمیر کر رہے ہیں ، دنیا کے گھروں میں عظیم گھر ، جس کی اینٹیں رکھی جا رہی ہیں۔ بیٹا ردّے اٹھا اٹھا کر دیتا ہے اور باپ ردّے پر ردّا رکھتے ہوئے صرف گا را نہیں لگاتا بلکہ وہ دعائیں کرتا ہے جن کو قرآن نے رہتی دنیا تک ثبت کر دیا ۔
کتنی پیاری تھی وہ دعا … اللہ کو کتنی پسند آئی … قرآن میں محفوظ ہے ۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم
ترجمہ: اے ہمارے رب ہم سے قبول فرما لے ۔ بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔ چشم تصور کو وا کریں ۔ یہ دو عظیم ہستیاں جو پیغمبر کے منصب پر فائز ہیں اس سے قبل آزمائشوں کی کن کن بھٹیوں سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں ۔ کوئی فخر کا جذبہ نہیں ہے ۔ خود پراعتماد نہیں کہ اللہ نیتوں کو جانتا ہے ، سب قربانیاں اسی کے لیے ہیں…

مزید پڑھیں

ختم قرآن کی تقریبات – بتول مئی ۲۰۲۲

رمضان کریم کے اختتام پر مساجد میں تراویح کے موقع پر اور حلقہ ہائے دروس میںترجمہ یاتفسیر کے اختتام پردعائیہ تقاریب منعقد ہونے سے ایک نورانی سماں بندھ جاتاہے ۔
قرآن مجید کےہر نسخے کے اختتام پرایک ’’دعا‘‘ درج ہوتی ہے ۔معوذتین کے بعد اس دعا کا ورد کر کے ہم نئے قرآن کی تلاوت کا آغاز کرتے ہیں۔
آج ہمارے حلقے میں دعائے ختم قرآن تھی ۔ ہم سب شرکاء محفل نے اجتماعی طور پر ختم قرآن کی دعا پڑھی ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے ۔
’’ اے اللہ میری قبر کے اندر مجھے جو وحشت ہو گی اسے میرے لیے مانوس کر دے ۔ اے اللہ مجھ پر اس قرآن عظیم کی بدولت رحم فرما۔ اس کو میرے لیے امام، نور ،ہدایت اور رحمت بنا دے ۔ اے اللہ مجھے یاد کرادے جو کچھ میں اس میں سے بھول جائوں اور مجھےسکھا دے اس میں سے جو میں نہیں جانتا اور مجھے توفیق عطا فرما کہ میں اسے پڑھتا ہوں۔ رات اور دن کے اوقات میں اور اے تمام جہانوں کے پروردگار ! اس قرآن کو میرے حق میں دلیل اور گواہ بنا دے ‘‘۔
کتنی پیاری یہ دعا ہے جس کو ہم اکثر فہم کے بنا ہی پڑھ لیتے ہیں…

مزید پڑھیں

مردِ حُر سید علی گیلانی مظفر آباد ، ودایٔ نیلم کا خراج تحسین – بتول اکتوبر۲۰۲۲

ہم نے پچھلے ماہ ہی تو جشنِ آزادی منایا ہے ۔ ابھی تو گھروں پر پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں مگر آزادی کا وہ مفہوم پہلی بار سمجھ میں آیا جب مظفر آباد اورنیلم وادی میں شہدا کے گھرانوں سے ملاقات ہوئی۔
وہ کیا مانگتے ہیں ؟
زندہ رہنے کا حق اور زندگی گزارنے کی آزادی !
یہاں کتنی مائیں اور بہنیں ہیں جن کے کلیجے میں جدائی کے تیر پیوست ہیں ! سبزے کا دو شالہ اوڑھے یہ پہاڑ پیلٹ گنوں سے بے نور کتنی آنکھوں کے نوحے سن چکے ہیں !
ان بے نورآنکھوں کی قسم !
جوان لاشوں پر بہنوں کے نوحے کی قسم !
مائوں کے پارہ پارہ دلوں کی قسم !
بوڑھے باپ کے شانوں کی قسم جو جوان لاشہ اٹھا کر ڈھلک گئے ہیں ان تار تار آنچلوں کی قسم جو آزادی کی قیمت ادا کر تے ہوئے ہوس کی نذر ہو گئے آزادی کی قیمت ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ۔ کبھی نہیں جان سکتا ۔ اس ماں کے جسم کے ہر رونگٹے پر آزادی کی قیمت درج تھی جو اپنے دو بیٹے کھو چکی تھی اور تیسری لاپتہ ہے۔
ان کے لیے وہ زندگی کتنی خوب صورت ہے جس کی سحر آزادی کے بعد طلوع ہو گی ۔
اس روز…

مزید پڑھیں

وہ آئیں گھر میں ہمارے – افشاں نوید

وہ آئیں تو بھانجی کی شادی میںشرکت کے لیے تھیں مگر قانتہ رابعہ کراچی آئیں اور لکھاریوں کی محفل نہ سجے ایسا ممکن ہی نہیں !
ابھی ان کے آنے کی اطلاع ہی ملی تھی کہ ادبی حلقے میں ہلچل مچ گئی اور بے چینی سے ان کی آمد کا انتظار ہونے لگا ۔ اتنی محفلیںسجیں کہ بھانجی کے ساتھ وقت گزارنے کاموقع تومشکل ہی سے مل سکا ہوگا ۔
اصل میں اتنے معروف لوگوں کامسئلہ یہ ہو جاتا ہے کہ ہر ایک انہیں اپنا ’’اثاثہ‘‘ سمجھنے لگتا ہے یعنی ہمارا بھی حق ہے تم پر ۔ قانتہ نے اس حق کو خوب نبھایا اورکسی محفل میں شرکت پر اپنی ذاتی مصروفیت کا کوئی عذر نہ رکھا ۔
صدر حریم ادب عالیہ شمیم کے گھر سجی لکھاریوں کی اس محفل میں ہم بھی شریک ِ محفل تھے ۔ گھر کے برآمدے میں ایک کشادہ اونچا چبوترا سا ہے ۔ اس پر صوفے قرینے سے رکھے تھے اور نیچے کمرۂ جماعت کے انداز میں ایک کے پیچھے ایک کرسیاںدھری تھیں اہل مجلس کے لیے ۔ دائیں طرف دو میزیں سفید میز پوش سے ڈھکی نفاست کا پتہ دیتی تھیں۔ بیلے کے پھولوں کے ساتھ ائیر فریشزکی مہک بھی عجب تازگی دے رہی تھی۔ تازگی…

مزید پڑھیں

خاص مضمون – اہلِ فلسطین کی جدوجہد تاریخی تناظرمیں – افشاں نوید – ترتیب و ترمیم: صائمہ اسما

غزہ کی پٹی پر فلسطینیوں پر مظالم بڑھنے کی خبریں جب میڈیا پر موضوع بنتی ہیں تو نوجوان نسل کے ذہن میں سوال اٹھ سکتے ہیں کہ آخر فلسطین کا مسئلہ ہے کیا؟
فلسطین انبیا کی مقدس سرزمین ہے۔ توریت و انجیل میں جس نبیِ برحقؐ کے آنے کی خوش خبری تھی الحمدللہ اس نبی ؐکی امت میں ہونے کا شرف ہمیں حاصل ہے ۔جس مسجد اقصیٰ کے اطراف بمباری کی جاتی ہے، اس کی بے حرمتی کی کوششیں کی جاتی ہیں ،اسی مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کرکے ہمارے نبی پاک ؐ نے سترہ ماہ نماز ادا فرمائی تھی۔ اس مقامِ مبارک سے آپؐ معراج کے سفر پر تشریف لے گئے تھے جہاں آپؐ نے انبیا ؑ کی امامت فرمائی۔ یہ عالم اسلام کے تین مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔
ہمارے چھوٹے سے گھر پر کوئی ناجائز قبضہ کر لے تو ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پہنچ جاتے ہیں۔ راتوں کی نیند اچاٹ ہو جاتی ہے۔
کیا اپنے اتنے مقدس مقام کو ہم خدا کے باغیوں، توہین رسالتؐ کرنے والوں، انبیا ؑ کو قتل کرنے والے اسرائیلیوں کے حوالے کر دیں؟
اگر نہیں اور یقیناً ہمارے دل کی گہرائی سے نکلے گا کہ ’’نہیں‘‘! تو پھر ہمیں مسئلۂ فلسطین کی تاریخ کو…

مزید پڑھیں

پل صراط پر – خود انحصاری کا ایک اندازہ یہ بھی ہے ! – افشاں نوید

پچھے چھ ماہ میں میں نے خود انحصاری کا نیا مفہوم جانا ۔ اس کے فائدوں سے میں نے لطف اٹھایا۔
ہمیشہ یونہی ہوتا رہا ہے کہ صبح ہوئی تو ماسی کا انتظار شروع کردیا ۔ ماسی دیر سے آئی توصبر کا پیمانہ لبریز ۔ پہلے اپنی توانائی اس کو صلواتیں سنانے پر خرچ کی، لہجہ تندوتیز ہو تو ذہن الگ مائوف ہوجاتا ہے ۔ ان بے چاری ماسیوں کے دسیوں گھر اور ہر ’’ باجی‘‘ کا الگ الگ مزاج ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ چونکہ ہم مطلوبہ معاوضہ دیتے ہیں لہٰذا ہماری خدمت پوری ہونی چاہیے ۔
ہم میں کون ایسا ہے جو اپنی کام والی کی کار کردگی سے مطمئن ہو؟ دل عجیب مضطرب سا رہتا ہے کہ کاش اس سے اچھی کام والی مل سکتی۔
یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ آدھے دن گھر پھیلا ہؤا بے ترتیب پڑا رہا تب ماسی دوپہرڈھلے ماتھے پردوپٹہ باندھے ’’ پینا ڈول‘‘ طلب کرتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی ۔ ادھر ہانڈی چڑھانا دوبھر کہ اتنے پھیلے بے ترتیب کچن میں یہ کیسے ممکن ہو !
اس بے کسی و محتاجی میں ایک عمرگزری ۔ دن کا سب سے بہترین وقت تا عمر ماسیوں کی صحبت میں گزرتا رہا ۔ یہ حقیقت ہے کہ…

مزید پڑھیں

زوال کو عروج میں کیسے بدلیں- بتول جون ۲۰۲۱

تہذیب و تمدن اسی کا ہوتا ہے جس کی علوم وفنون میں اجارہ داری ہوتی ہے۔ اندلس کی گمشدہ تہذیب و ترقی کا ایک نوحہ!
غزہ پر اسرائیل کی حالیہ ظالمانہ کارروائیوں کے بعد ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہم صرف فنڈنگ اور مظاہروں پر اکتفا نہ کریں ۔ ہم اپنی تاریخ کو بھی جانیں، اپنے ماضی سے نسبت جوڑلیں۔مسلمانوں کاشاندار ماضی اس بات کا پیغام رکھتا ہے کہ اس امت کا مستقبل بھی شاندار ہو سکتا ہے اگر یہ اپنے اسلاف سے نسبت جوڑ لیں،اپنے سازشیوں سے ہوشیار رہیں اور تاریخ کے جھروکوں کو کھلا رہنے دیں تاکہ اس حبس زدہ ماحول کو عظمت رفتہ کی ٹھنڈی ہوائیں معطر رکھیں ۔ تاریخ کا مطالعہ حیات تازہ ہے ۔ حکیم الامت اقبال یونہی تونہیں بار بار مسلمانوں کو عہد رفتہ کی یاد دلاتے ہیں۔ رومیوں کے مقابل جس شیر کی بابت علامہ اقبال نے پیش گوئی کی تھی، فلسطین سے آتی نعرہ تکبیر کی آوازیں بتارہی ہیں کہ وہ شیر عنقریب ہوشیار ہونے کو ہے ۔
آج ہم امریکہ اور یورپ کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ہماری نوجوان نسل کو علم بھی نہیں ہوگا کہ کسی زمانے میں مسلمان یورپ کے استاد تھے۔ اگرچہ اندلس کی سر زمین سے مسلمانوں کا نام و…

مزید پڑھیں

تہذیب ہے حجاب -بتول ستمبر ۲۰۲۱

ٱدنیا کا ہر مذہب اپنی ایک تہذیب رکھتا ہے اور اس تہذیب کے تناظر میں ہی مسائل کا جائزہ لے کر ان کے حل تلاش کیے جاتے ہیں۔الحمدللہ ہمارا دین ایک مکمل تہذیب ہمیں دیتا ہے۔ جس کے اصول و ضوابط متعین ہیں۔ایک پاکیزہ سوسائٹی کیسے قائم ہوگی۔ صرف ہمیں احکامات ہی نہیں دیے گئے بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اصولوں کی روشنی میں ایک پاکیزہ سوسائٹی ہمیں قائم کرکے دکھائی۔
ہم کہیں کہ یہ اصول و ضوابط خاص اس دور کے لیے تھے آج ان احکامات میں ترمیم وتبدل کی ضرورت ہے تو معاذ اللہ انسان کو تخلیق کرنے والا کیا یہ نہ جانتا تھا کہ قیامت تک حضرت انسان میں کیا کمزوریاں پیدا ہوسکتی ہیں؟اور کیا ان کے حل نہ بتائے ہوں گے؟ سورۂ الملک میں ارشاد ہے:
’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا‘‘۔
ہم ان اصول و ضوابط پر عمل نہ کریں،خود فساد کے بیج بوئیں،من چاہا لائف اسٹائل اپنائیں یعنی نیم کے درخت بو کر آموں کی خواہش رکھیں تو وہی فساد پیدا ہوگا جس کا سامنا اس وقت ہماری سوسائٹی کر رہی ہے۔خواتین پر تشدد کے پے در پے واقعات سامنے آرہے ہیں اور پھر سوال یہ پوچھا جاتا ہے…

مزید پڑھیں

محشر خیال- بتول اکتوبر ۲۰۲۱

افشاں نوید۔ کراچی
ستمبر کے شمارے کی فہرست پر ایک نظر ڈالی اور’’بتول ‘‘ کا مطالعہ شروع کیا جس نے حاضر و موجود سے گویا بےنیاز کردیا ۔اتنے مختلف عنوانات اور ہر قلم کار نے اپنے عنوان کا حق ادا کردیا۔ بتول کی بڑی خوبی یہی ہے کہ معیار پرسمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔یقیناً صائمہ اسما بھی تحریروں کی نوک پلک درست کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتیں۔
اداریے میں افغانستان کی موجودہ صورتحال سے متعلقہ حقائق کو پیش کیا گیا۔نائن الیون کے بعد اس صدی کا بڑا واقعہ ہے طالبان کو اقتدار ملنا۔مگر اس سے جڑی توقعات،خدشات،غیروں کی پیش گوئیاں اور اپنوں کی امیدیں ۔ درست کہا کہ ؎
کشتی بچا تو لائے ہیں عاصمؔ ہواؤں سے
پیوند سو طرح کے سہی بادبان میں
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے اپنے مضمون میں آخرت کی تیاری کے حوالے سے قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کی۔یہ سچ ہے کہ ؎
اللہ کی رہ اب تک ہے کھلی آثار و نشاں سب قائم ہیں
اللہ کے بندوں نے لیکن اس راہ پہ چلنا چھوڑ دیا
سلیس سلطانہ صاحبہ کی تذکیر قارئین کے لیے نافع ہوگی انشاءاللہ۔اچھی یاد دہانی کرائی۔پاکستان میں یکساں نظام تعلیم کے حوالے سے جو اصلاحات ہورہی ہیں یہ وقت کا اہم ترین موضوع ہے۔ادارہ بتول اس…

مزید پڑھیں

کتاب پر تبصرہ – بتول اگست ۲۰۲۱

نام کتاب: گوشہِ تسنیم
قیمت: 400 روپے
پبلشرز:ادارہ بتول لاہور
منگوانے کاآرڈر37424409-042
ہمارے اطراف بہت سے لوگ بہت سے کام ’’شوقیہ‘‘کرتے نظر آتے ہیں۔لیکن شوق کی ایک مدت اور موڈ ہوتا ہے۔آپ نے سنا ہوگا کہ:
یہ اس وقت کی بات ہے جب گھڑسواری میرا شوق تھا،
مصوری میرا جنون ہوتا تھا،
سرساز کی دنیا کا میں دھنی تھا….. یا
قلم سے میرا رشتہ بڑا استوار تھا…… وغیرہ۔
ایسے کم لوگ ہوتے ہیں جو شوق کو جنون بنا لیں۔زندگی بھر تسلسل کے ساتھ اس شوق کو پورا کریں اور اس کو عبادت کا درجہ دے دیں۔بلاشبہ لفظ قیمتی ہیں زبان سے نکلیں یا قلم سے۔بشریٰ تسنیم نے ماشاءاللہ قلم سے بہت سوچ سمجھ کر رشتہ استوار کیا ہے۔کئی عشروں پر محیط یہ رشتہ تاریخ بنتا جارہا ہے ان کی کتابوں کی اشاعت کی صورت میں۔
چھبیسواں روزہ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم کی کتاب’’گوشہ تسنیم‘‘کے ساتھ گزرا ۔یہ بھی کسی مصنف کی کتنی بڑی کامیابی ہے کہ اس کا قاری کتاب ہاتھ میں لے اور کتاب ختم کرتے ہی بن پڑے۔افطار سے قبل کتاب مکمل ہو چکی تھی۔
ان کی تحریر میں قرآن کی تفسیر بھی ملتی ہے اور کائنات کی تعبیر بھی۔دھیرے سے قاری کا ہاتھ تھامے آفاق کی وسعتوں میں لے جاتی ہیں۔قدم زمین پر اور ذہن آفاق کی نشانیوں میں…

مزید پڑھیں

یہ ہیں مولانا مودودیؒ کی والدہ – بتول اگست ۲۰۲۱

جماعت اسلامی کے قیام کو اگست2021 میں 80 برس ہو جائیں گے ۔ اس موقع پر آپ مولانا مودودیؒ کی مربوط اور جامع فکر ، ان کے تعلیمی افکار ، لسانی و ادبی خدمات، تشکیل جماعت ، دارالاسلام سے منصورہ تک کے سفر وغیرہ کے بارے میں بہت کچھ پڑھیں گے ۔ مولاناابو الاعلیٰ مودودیؒ جیسی’حکیم جہادآرا‘ شخصیات جس گود میں پروان چڑھی ہوں ان کے بارے میں جاننے کی امنگ پیدا ہوتی ہے!
ہر بڑے آدمی کو جان کر جب اس کی ماں کے بارے میں جانا، تو پتہ یہی چلا کہ گہوارے کی تربیت شخصیت سازی کا لازمی عنصر ہے ۔ ہم کسی فردکو ڈگریوں میں ناپیں تو یہ ہماری کم فہمی ہو گی ۔ تعلیم ، تربیت، خاندانی پس منظر ان کاغذی ڈگریوں سے بہت بلند سطح کی چیز ہے ۔
جب مولانا مودودیؒؒ کی والدہ کے بارے میں پڑھا تو جی چاہا کہ ان کی عظیم ماں کا ذکر بھی بار بار کیا جائے جس نے عالم اسلام کو ایسا فقید المثال مجتہد عطا کیا۔
خواجہ اقبال احمد ندوی ’’ مولانا مودودی کی رفاقت میں‘‘ نامی کتاب جو ان مضامین پرمشتمل ہے جو اخبار ’دعوت ‘ اورماہ نامہ زندگی نو میں شائع ہوئے تھے ۔ سلیم منصور خالد نے…

مزید پڑھیں

محشر خیال -بتول اپریل ۲۰۲۱

افشاں نوید۔کراچی
مارچ کے پرمغز اداریے کے اختتام پر صائمہ کی اس معصوم خواہش نے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا کہ رسالہ پڑھ کر چند جملوں کے ذریعے قارئین اپنا فیڈ بیک دیا کریں۔ یقیناً اس محنت شاقہ کا حق ہے قاری پر کہ فیڈ بیک دیا جائے۔مزید بہتری کی گنجائش ہر جگہ موجود رہتی ہے سو،اپنے رسالے کو اپنی رائے سے مزید بہتر بنایا جائے۔
عبدالمتین صاحب نے خوشگوار زندگی کے لیے عملی ٹپس دیے، یہ باتیں بار بار دہرائی جانی چاہئیں۔ میمونہ حمزہ کی علمیت و عملیت کا قائل ہونا پڑتا ہے،ہر موضوع کا ماشاءاللہ حق ادا کردیتی ہیں۔امانت کا ہر جہت سے مفہوم بیان کر دیا۔ شمارے کا ’’خاص مضمون‘‘ واقعی بہت خاص ہے۔ یہ تو کسی پی ایچ ڈی مقالے کے لیے بہترین لوازمہ فراہم کرسکتا ہے۔ دجالی فتنوں کے اس دور میں اصطلاحات کو جس طرح redefine کیا جا رہا ہے یہ مضمون اسی کو آشکارا کر رہا ہے ۔مضمون ایک سے زیادہ بار پڑھ کر سمجھنے سے دلیل کی قوت مہیا کرے گا۔ڈاکٹر آسیہ شبیر اور صائمہ آپ کا شکریہ۔
’’گیسوئے اردو کو شانہ ملا‘‘میں صائمہ اسمانے تحریر کیا کہ ان لفظوں کی جڑیں اور مادے عربی مبین سے ہیں جس سے ہمیں اپنے نبی پاک…

مزید پڑھیں