ڈاکٹر رخسانہ جبین۔ کھاریاں
بتول کا مددگار نمبر جون ۲۰۲۳ دیکھا، بہترین کاوش ہے۔جتنے مضامین میں پڑھ سکی سب بہترین تھے۔ یہ موضوع وقت کی بہت ضرورت تھی۔ گھریلو یا نچلے درجے کے ملازمین، دیکھا گیا ہے کہ عموماً استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔اجرت کم ہوتی ہے۔ دس دس پندرہ پندرہ ہزار کے لباس پہنے ہوں، بچہ ایک بار تقاضا کرے تو مہنگی فاسٹ فوڈ دلا دی جاتی ہیں، مگر ان کی تنخواہ ہزار دو ہزار بڑھانے میں بہت ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔ معمولی چیزوں باسی کھانوں پہ ٹرخا دیا جاتا ہے۔ کام زیادہ لیا جاتا ہے، اوورٹائم کی اجرت کا بھی الا یہ کہ ڈرائیور ہو یا کوئی اور ملازم، ماسیوں کے لیے عموماً رواج نہیں۔عزتِ نفس مجروح کی جاتی ہے، تشدد بھی ہے حتیٰ کہ پڑھے لکھے گھرانوں میں۔ آجکل بھی ایک ایسا واقعہ خبروں کی زینت بنا ہؤا ہےمگر سب واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔اس اعتبار سے بہت اچھا شمارہ ہے، تقریباً تمام پہلوؤں کو مختلف انداز میں سامنے لایا گیا ہے۔ اسے بڑے پیمانے پہ پھیلانا چاہیے،دینی حلقوں کے علاوہ اپنے اردگرد ہمسائیگی میں، محلہ اور اقارب میں جہاں جہاں ملنا جلنا ہے اسے پھیلائیں، لوگ پڑھیں تو ہو سکتا ہے کسی کے لیے نصیحت کاباعث ہو۔ٹائٹل پر مزید…
روداد ایک اجتماع کی
عالیہ حمید
ہم تحریکی سوچ والے کوئی لمحہ بھی ضائع نہیں ہونے دیتے، اسی لیے اجتماع ارکان کی منزل کے سفر میں ہماری امیر سفر نے ہمیں راستے میں لہسن جلدی چھیلنے، چھیل کر فریج میں محفوظ کرنے ،کڑوے کریلے لذیذ کیسے پکائیں، لہسن موٹا اگانے اور شرارتی بچوں کو قابو کرنے کے نسخے بتانے کے ساتھ چند قرآنی دعائیں بھی یاد کروائیں۔ ہم ہنستے مسکراتے اجتماع گاہ میں پہنچے تو تقریب حلف برداری جاری تھی جس نے سنجیدہ کر دیا پھر ڈرتے ڈرتے حمیرا بہن کا خطاب سنا کہ نہ جانے کون دھر لیا جائے….اور اس بار سب ہی دھر لیے گئے کہ تیس تیس سال حلف کو اٹھائے پھرتے ہیں اور نہ مطالعہ ہے نہ ڈسپلن۔
ڈاکٹر رخسانہ جبین کی’’ کتاب الایمان‘‘ کی رونمائی کے لیے رکھے ہوئے موتیا اور گلاب کے گجروں پر ہماری نظر بھی تھی کہ کیا پتہ کوئی ایک آدھ بچ جائے مگر نہیں….یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ گجرا ہوتا!
’’ایمان‘‘ پر پروگرام کرتے ہوئے طیبہ صاحبہ کو اگر ایک چھڑی بھی پکڑا دی جاتی تو یونہی لگتا کہ ہم سب ڈگری کالج میں ان سے تاریخ کا لیکچر پڑھ رہے ہیں اور سر ہلانے کی بھی گنجائش نہیں۔ ویسے پروگرام پر…
بچپن کا ایک واقعہ اکثر یاد آتا ہے کہ ہمارے ہمسائے میں فوتگی ہو گئی۔ میں اور میرا بھائی اپنے گھر کے بیرونی دروازے کے پاس کھڑے ہو کر ان کے گھر آتے مہمان دیکھنے لگے۔ جوانی کی موت تھی وہ بھی اچانک کرنٹ لگنے سے واقع ہوئی۔ گھر میں کہرام مچا ہؤا تھا۔ لواحقین غم میں مدہوش، بے ہوشی کی کیفیت میں تھے۔ قریبی رشتہ دار روتے کرلاتے بھی آ رہے تھے اور کچھ خاموشی سے لیکن اس فوتگی کا غم سب کے چہروں سے جھلک رہا تھا۔ اس وقت ہماری عمر ہی ایسی تھی کہ رویوں کی گہرائی سمجھ سے بالاتر تھی لیکن اب یہ باتیں یاد آئیں تو عجیب سا محسوس ہوتا ہے کہ ہم لوگ دوسروں کے انتہائی کرب اور مصیبت کے وقت بھی دوغلے پن کی پالیسی نہیں چھوڑتے۔
ہؤا کچھ ایسے کہ مہمانوں میں ایک درمیانی عمر کا جوڑا راستے میں آتے ہوئے ہمارے قریب سے ہی گزر رہا تھا۔ مرد نے آسمان کی طرف منہ کیا، اپنا بازو اپنی آنکھوں پر رکھا، ایک سو اسّی کے زاویے پر منہ کھول کر ابھی باں…. ہی کیا تھا کہ اس کی زوجہ محترمہ نے اسے پیچھے سے ٹہوکا دیا اور کہنے لگی ۔
’’ذرا گھر کے سامنے…
جس کا فیض آج بھی جاری ہے، کیا خاص بات اس سے منسوب ہے؟
مصر کے ایک مشہور بزرگ شرف الدین بوصیری گزرے ہیں۔انہوں نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔جیسا کہ والدین بچوں کو سکولوں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے ہیں اسی طرح بوصیری کو بھی والدین نے مدرسے بھیجنا شروع کیااور جلد ہی آپ نے قرآن پاک حفظ کر لیا۔
اس کے بعد آپ کے والد صاحب کی خواہش تھی کہ اب آپ کچھ کام کاج کریں تا کہ گھر سے غربت کا خاتمہ ہوجبکہ بوصیری ابھی مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک زیادہ روشن مستقبل چاہتے تھے۔گھر میں باپ بیٹے کے درمیان کھینچا تانی شروع ہو گئی۔آخر کار بوصیری نے اپنی والدہ کو اپنے ساتھ ملا کے والد سے مزید پڑھنے کی اجازت لے لی۔
اس کے بعد آپ نے تجوید، فقہ اور باقی ضروری مضامین کو پڑھا اور بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔اس وقت تک آپ ایک دنیادار شخص تھے اور مادی کامیابیوں کو ہی ترجیح دیتے تھے۔آپ غربت سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔شاعری کا وصف آپ کو اللہ کی طرف سے ودیعت کیا گیا تھا۔اب آپ بادشاہوں کی شان میں قصیدے بھی لکھتے تھے اور نئے شعراکی اصلاح بھی کیا کرتے تھے۔درس…
کانفرنس، سیمینار اور سیر و تفریح بھی
ملائشیا میں چند روز… مکالمہ، مباحثہ، کانفرنس، سیمینار اور سیر و تفریح بھی’’کیا آپ ہماری کام یابی،خوشیوں میں شریک ہونے اور ہماری دو تین کانفرنسز میں بطور مہمان مقرّر ہمارے پاس ملائشیا آسکتی ہیں؟‘‘ہماری بہت ہی عزیز دوست اور ملائشیا کے صوبے، کلنتان کی ویمن ڈیویلپمنٹ کی وزیر ،حاجۃداتو ممتاز ناوی کا اصرار کے ساتھ دعوت نامہ اور فون آیا ۔اُن کا کہنا تھا کہ ’’ملائشیا میں ہماری اسلامی پارٹی کی، جسے عرفِ عام میں’’پاس‘‘ کہا جاتا ہے، پانچ صوبوں میں حکومت بن چُکی ہےاوریوں ہم سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھرے ہیں، تو کلنتان اور ترنگانو میں ’’خواتین اور علماء کانفرنسز‘‘ اور کوالالمپور میں ’’انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین‘‘ کا اجلاس منعقد کررہے ہیں، جس میں آپ کی شرکت ہمارے لیے باعثِ افتخار ہوگی۔‘‘
ان کی محبّت و چاہت دیکھ کر ہم نے گھر اور پارٹی دونوں سے اجازت لی، تو امیر جماعت، سراج الحق صاحب کا اجازت نامے کے ساتھ حوصلہ افزائی سے بھرپور فون بھی آیا کہ ’’آپ حلقۂ خواتین، جماعت اسلامی اور ہمارا فخر ہیں کہ پوری دنیا میں اسلام اور پاکستان کی نمایندگی کرتی ہیں۔ہماری دُعائیں آپ کے ساتھ ہیں اور انقلاب کی جو لہریں تُرکیہ اور ملائشیا میں اُبھری…
محترمہ قانتہ رابعہ۱۳ نومبر ۱۹۶۳ء کو ضلع خانیوال اور اس وقت کے ضلع ملتان کے شہر جہانیاں میں پیدا ہوئیں ۔آپ نے ابتدائی تعلیم جہانیاں سے حاصل کی اور شادی کے بعد اپنے سسرال گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ منتقل ہو گئیں، بعد ازاں آپ نے وہاں سے ہی گریجویشن کیا ۔ آپ بہترین لکھاری ہیں جن کا قلم سماجی رویوں کے ساتھ ساتھ سچائی اور صراط مستقیم کی راہ بھی دکھاتا ہے ۔ قانتہ رابعہ کو ننھیال اور ددھیال دونوں طرف سے ادبی ماحول ملا۔ آپ کی دادی اماں شاعرہ تھیں اور ان کی بہنیں بھی فارسی میں شعر کہا کرتی تھیں ۔ محترمہ کے نانا ابو بھی شاعر تھے ۔ محترمہ کے والد کی بھی کتاب شائع ہوئی اور ماموں بھی مشہور مصنف تھے ۔آپ کی چچی رشیدہ قطب نے خواتین کے لیے لکھا ۔ گویا ادبی ماحول آپ کو گھر میں میسر تھا ، اس لیے آپ کو اپنی صلاحیتیں نکھارنے کا خوب موقع ملا۔
محترمہ نے بچپن سے ہی لکھنے لکھانے کا آغاز کردیا تھا۔ بتول ، اردو ڈائجسٹ ، سیارہ ڈائجسٹ اور ایشیا ابتدا سے ہی گھر میں آتے تھے ، اس لیے بچپن سے ہی ان کا مطالعہ کرتی رہیں۔ آپ کی والدہ کو رسائل…
پون اور عائشہ کی باتیں اظفر نے سن لی تھیں۔بعد میں اس نے خود اس بات کا اعتراف کیا اور پون کو ہر طرح کی مدد کا یقین دلایا حتٰی کہ شادی کی پیش کش بھی کی جو پون کے لیے ان حالات میں بہت بڑی امید اور تسلی بن گئی۔یونیورسٹی میں اظفر بہت بدل گیا تھا وہ پون سے باہر ملنا چاہتا تھا جو اسے قبول نہیں تھا۔یونیورسٹی کے دو سال ختم ہونے کے بعد اظفر نے شادی کا کوئی ذکرنہیں کیا تھا،تب پون نے اس کے دفتر جا کر اس سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
’’ کہو کیسے آنا ہؤا کوئی خاص کام تھامجھ سے ؟ اُس کے پہلے ہی سوال نے اس کی ہمت توڑ دی تھی۔
’’ نہیں کام تو کوئی نہیں تھا ۔ بس ایسے ہی اس طرف سے گزر رہی تھی سوچا تم سے بھی ملتی چلو ں‘‘ اس نے اپنا بھرم رکھنے کی کوشش کی تھی ۔
’’ سوری میں نے بھی بہت دنوں سے فون نہیں کیا سخت مصروف تھا ‘‘۔
’’ کیا کام کر رہے ہو تم آج کل ؟ ‘‘اس نے برسبیل تذکرہ پوچھاتھا۔
’’ ہر وہ کام جو میرا بینک بیلنس بڑھائے‘‘ وہ مزے سے بولا تھا ’’تم تو جانتی ہو میں نے بہت…
ایک وفا دار ملازم کی انوکھی کہانی جو تقسیمِ ہند کے نشیب و فراز سے ہوتی ہوئی کشمیریوں کی جدوجہد ِ آزادی پر ختم ہو جاتی ہے مگر بہت اہم سوالات اٹھا دیتی ہے ۔
کھانا وہ بڑا لذیذ پکاتا تھا ،مگر کبھی کبھی ہنڈیا جلا دیتا ۔ اماں اس پر ناراض ہوتیں کہ آئے دن تم ہانڈی ساڑ دیتے ہو ۔ تو شرمندہ سا ہو کر بڑی حلیمی سے جواب دیتا ،’’ میں کیا کروں ، مجھے بڑے بڑے دیگچوں میں بہت سا پکانے کی عادت ہے ۔ یہاں تین چار بندوں کے لیے پکاتا ہوں ، اسی لیے جل جاتا ہے‘‘۔ خیر رفتہ رفتہ اس نے اپنے آپ کو اس کا بھی عادی بنالیا۔
بہت صاف ستھرا اور پاک صاف ، نماز اور تلاوت کا سختی سے پابند تھا ۔ سرونٹ کوارٹروں میں رہنے والوں کی عادتیں اس سے مختلف تھیں۔ زبان کابھی مسئلہ تھا ، یہ کشمیری اردو اور پنجابی ملا کر بولتا تھا ۔ اور بلتی زبان بولتے تو غل کی آوازیں اس کے پلے نہ پڑتیں ۔ اوپر سب سے بالائی منزل پر ایک چھوٹا سا کمرا خالی پڑا رہتا تھا ، وہ اسے رہنے کے لیے دے دیا گیا ۔ بہت سویرے اٹھ کر غسل کرتا…
آج معیز کے انتقال کو چار ماہ دس دن گزر چکے تھے۔اچھا خاصاجواں سال معیز اسنیچنگ کا شکار ہو گیا۔
راحمہ کے میکے میں دور دراز کے رشتے داروں کے سوانہ والدین نہ بہن بھائی ….شادی کےوقت صرف اس کی امی تھیں وہ بھی شدید بیمار۔ راحمہ کی ساس اور امی اسکول کے دَور کی سہلیاں تھیں۔راحمہ کی شادی کےایک سال بعد اس کی امی بھی ساتھ چھوڑ گئیں۔یوں راحمہ کی مکمل دنیا اب اس کی سسرال تھی۔
معیز نہایت پیار کرنے والا اور خیال رکھنے والا شوہر تھا ۔راحمہ کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔تین سالہ معوذ، راحمہ اور بوڑھے ماں باپ….بس اللہ ہی بہتر جانتاتھا ۔ یقناًاس نے کچھ اچھاہی سوچا ہوگا۔
” دیکھو بیٹا اب تمھاری عدت کی مدت پوری ہو گئی ہے تم شادی کرلو “راحمہ کی ساس آمنہ بیگم نے اپنی جواں سال بیوہ بہو کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
” نہیں امی میں اپنے بیٹے کے بنا نہیں رہ سکتی۔ میرے لیے بس آپ لوگ ہیں نا‘‘۔
’’آپ بابا اور معوذ“اس نے گود میں لیٹے معوذ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’پھر معیز کی یادیں میرے کافی ہیں‘‘اس کی آنکھیں چھلک پڑیں’’مجھے اور کچھ نہیں چاہیے‘‘اس نے قطعیت سے جواب دیا۔
’’اور اگر کوئی معوذ کے ساتھ…
پانچ پانچ سو روپے کی مبارکبادیاں لے کر اب عملے کا رخ ان کی طرف یعنی چوہدری شہزاد وڑائچ کی بیگم اورنومولود کی دادی نصرت کی طرف ہؤا۔انہوں نےتفاخر سے ہزار ہزار روپے کے نوٹ بغیر گنے بانٹنا شروع کر دیے ،دو چار دس ،جتنے ملازم تھے سب آنے بہانے وہاں پہنچ گئے۔
ہیڈ نرس ،ہیڈ بوائے وارڈ بوائے ،پیرا میڈیکل سٹاف سب ان کے دست مبارک سے نیلے نوٹ وصول کر چکے تھے اور تقریباًپچیس تیس ہزار روپے مبارکبادیوں کی مد میں دینے کے بعد ان کے چہرے پر عجیب سا تکبر کا احساس تھا۔ ڈاکٹر کمرے میں آئیں تو اس وقت تک نومولود بچی کو والدہ کے ساتھ کمرہ میں شفٹ کردیا گیاتھا۔
ڈاکٹر فرخ اور ڈاکٹر شہناز امجد نے ہاوس جاب والی بچیوں کو کیس ہسٹری لکھوائی ۔جب ڈاکٹرز کمرہ سے رخصت ہوئے توہائوس جاب والی بچیاں بھی سینئرڈاکٹر کے ساتھ کمرے سے نکلنے لگیں۔ بیگم چوہدری شہزاد وڑائچ نے بیگ سے پانچ پانچ ہزار کے کڑکتے نوٹ نکال کر ہائوس جاب والی بچیوں کی طرف بڑھائے۔
وہ نئی تو تھیں ہی اور شاید نہیں یقیناً کسی دوسرے شہر سے تھیں جو انہیں اس ہستی کا تعارف نہیں تھا ۔جونہی بیگم نصرت وڑائچ نے مبارکبادی کے نوٹ ان کی طرف…
بیسویں صدی میں اسلام کی انقلابی دعوت کو اپنے علم ، فھم سے متعارف کرانے والے ، اہم ترین مفکر
سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا سن ولادت 1321ھ بمطابق1903ء ہے۔ جائے پیدائش اور نگ آباد دکن ہے اور آبائی تعلق سادات کے ایک ایسے خاندان سے ہے جو ابتداءمیں ہرات کے قریب چشت کے معروف مقام پر آکر آباد ہؤا تھا ۔ اس خاندان کے ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی تھے جوخواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے ۔
سید مودودی کا خاندان خواجہ مودود ِ چشتی کے نام نامی سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلا تا ہے۔ انہوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ ایک مکمل مذہبی گھرانا تھا۔ ان کے والدِ محترم اور والدہ ماجدہ دونوں کی زندگی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ سید مودودی کی تربیت ان کے والد نے خاص توجہ سے کی۔ وہ انہیں مذہبی تعلیم خود دیتے تھے۔ اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ ساتھ فقہ اور حدیث کی تعلیم بھی اتالیق کے ذریعے گھر پر دی جانے لگی۔ تعلیم کے ساتھ اخلا قی اصلاح کا بھی وہ خاص خیال رکھتے تھے۔ اسی لیے سید مودودی کے والد نے انہیں کسی مدرسے میں داخل نہیں کرایا، بلکہ گھر پر…
غزل
نہیں ہے بیری تو کیوں مرے گھر برس رہے ہیں
سبب تو ہوگا جو اتنے پتھر برس رہے ہیں
خطاؤں کے داغ سب دھلیں گے جو آنسوؤں کے
اگر یہ بادل جو دل کے اندر برس رہے ہیں
بجھے گی کس طرح پیاس دھرتی کی میری یارو
جو سارے بادل سمندروں پر برس رہے ہیں
بشر میں شر ہے تو کیوں یہ پتھر ملامتوں کے
ہر اک طرف سے مرے ہی سر پر برس رہے ہیں
جو کوئی بولا ہمیں بھی حق دو تو حاکموں کے
انھیں پہ غیظ و غضب کے خنجر برس رہے ہیں
تجھے خبر ہے جہاں بھی ظلمت کی کھیتیاں ہیں
انھیں پہ کیوں تیرے بادل آ کر برس رہے ہیں
جہاں بھی قانونِ عدل و انصاف حکمراں ہے
انھیں زمینوں پہ لعل و گوہر برس رہے ہیں
جو ظلمتوں کے مقابلے پر ڈٹے ہوئے ہیں
انھیں پہ ابرِ ستم برابر برس رہے ہیں
جو چاہتے ہیں جہاں میں ظلمت کا خاتمہ ہو
انھیں پہ تاریکیوں کے لشکر برس رہے ہیں
حبیبؔ ہمارے سوا قفس میں کہیں ہیں زندہ
دکھائیں ہم کو بھی جو پچھتر برس رہے ہیں
ماں خوشبو کے جیسی ہے
ماں روشن چاند ستارہ
ماں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا
ماں دل کا سکون آنکھوں کی ٹھنڈک
گہراپیار سمندر
دکھ سہہ کےبھی سکھ دیتی ہے
میرے اشکوں کو آنچل میں
اپنے وہ سمو لیتی ہے
گھر جنت جیسا ہوتا ہے
جس گھر میں ماں ہوتی ہے
شب بھر جو دعائیں مانگے
تو پھر وہ کہاں سوتی ہے
ماں موتی ہیرے جیسی
ماں صبح کی شبنم جیسی
مجھ کو وہ چھوڑ گئی ہے
جو رونے نہ دیتی تھی
اب اشکوں پہ وہ میرے
اک ٹک خاموش پڑی ہے!
ساون آیا، برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے
ڈالی ڈالی کوکے کوئل، کیا یہ سندیسہ لائی ہے
سکھیوں نے ڈالیں پینگیں اور اُڑیں فلک کو چھونے
رنگ برنگے آنچل بکھرے، قوس ِ قزح سی چھائی ہے
ساون آیا برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے
پیار کا موسم آ پہنچا، ہے ساون کا پیغام یہی
ٹپ ٹپ گرتی بوندوں نے تیری ہی یاد جگائی ہے
ساون آیا برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے
ایک تو برکھا برسے باہر، اور اک برسے آنکھوں سے
مل کر دونوں ایسا حشر اٹھائیں بس کہ دہائی ہے
ساون آیا برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے
سحر تلک تھم جائے گا پانی، ابر بھی چھٹ ہی جائے گا
موسم اور میں، دونوں نے ہی وفا کی ریت نبھائی ہے
ساون آیا برسی برکھا، رت یہ سہانی آئی ہے
عقیدت یاد رہتی ہے اطاعت بھول جاتے ہیں
نبی کے نام لیوا ہو کے سنت بھول جاتے ہیں
بصد تعظیم جاتے ہیں سبھی آقا کے روضے پر
زیارت یاد رہتی ہے ہدایت بھول جاتے ہیں
رسولؐپاک کی حرمت پہ ہم کٹنے کو راضی ہیں
مگر معمول میں نبوی طریقت بھول جاتے ہیں
بھلا کر سیرتِ احمد رہِ اغیار چنتے ہیں
وہ امت کے لئے آقا کی کلفت بھول جاتے ہیں
کہ دیں کے واسطے وہ ہجرتیں، قربانیاں ساری
جو طائف میں ملی وہ ہر اذیت بھول جاتے ہیں
دلوں میں بغض رکھتے ہیں خصومت پال لیتے ہیں
نبیؐ کی درگزر کی ہم روایت بھول جاتے ہیں
بڑی بے جاں نمازیں ہیں، جبینیں شوق سے خالی
یہی آقا کی آنکھوں کی تھی راحت بھول جاتے ہیں
ہمیں اپنی ستائش کی تمنا یاد رہتی ہے
نبیؐ کی منکسر رہنے کی عادت بھول جاتے ہیں
سنہرا وقت وہ، دورِخلافت یاد رہتا ہے
خلافت کے لیے جو تھی ریاضت بھول جاتے ہیں
وہی ہیں شافعِ محشر وہی کوثر کے والی ہیں
وہ روزِحشر جو ہوگی ندامت بھول جاتے ہیں
آج بہت ضروری ہو چکا ہے کہ عورت کےمصنوعی حقوق کی آوازوں کو بے نقاب کیا جائے ۔مگر اس سے پہلے اور اس سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ عورت کے ان حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنایا اور بنوایا جائے جن کی ادائیگی میں غفلت،تساہل نے عام گھریلو عورت کو بھی باغی بنا دیا۔آخر معاشرے میں یہی دو گروہ کیوں پنپ رہے ہیں جن میں سے ایک عورت کو مادر پدر آزاد کر کے قابل رحم حالت تک پہنچا دینا چاہتاہے اور دوسرا، ظلم پر احتجاج کے سارے راستے بند کرکےعورت کو کولہو کا بیل بنے رہنے پر مجبور کرتا ہے؟بحیثیت امت وسط ہم اعتدال کی روش پر چل کر دنیا کو عورت کے مثالی حقوق سے روشناس کیوں نہیں کروا دیتے؟
حجۃ الوداع کے موقع پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اپنی بیویوں کے ساتھ احسان،نیکی،اور بھلائی کا سلوک کیا کرو۔تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر تمہارے کچھ حق ہیں اور تمہاری بیویوں کے لیے تمہارے اوپر ان کے کچھ حق ہیں۔پوچھا گیا وہ کیا ہیں؟فرمایا:زوجیت کی وجہ سے بیویوں پر فرض ہے کہ شریعت نے جو انہیں دیا ہے اس حق میں کسی اور کو شریک نہ کریں۔ (بخاری)
اسود کا بیان ہے کہ میں نے عائشہ صدیقہ رضی…
اس جیسا کوئی کلام نہیں !
حضورِ اکرم ﷺ کو اللہ تعالی نے دین کی دعوت کے لیے دو معجزوں سے لیس کر کے میدان عمل میں اتارا۔ ایک معجزہ ٔکردار اور دوسرا معجزۂ قرآن۔وہ قرآنِ عظیم جو پے در پے اور موج در موج آپؐ پر نازل ہو رہا تھا۔اس کے سامنے بڑے بڑے خطیبوں، شاعروں، ادیبوں، شعلہ بیان مقرروں اور زبان آوروں کی زبانیں گنگ تھیں۔وہ جلیل و جمیل،عظیم وکبیر، فصیح و بلیغ، زور آور و زور دار، ہولناک و ہیبت ناک ، دہشت ناک و مرعوب کن، گرفت کرنے والا اور دبا دینے والااور وراء الوراء ہیبت کا حامل بالاتر از انسان الٰہی کلام تھا۔ قرآن ایک ایسا معجزہ ، جس کا کسی کے پاس کوئی توڑ نہ تھا، جو سیلاب کی مانند یلغار کرتا، برق کی طرح کڑکتا، بارش کی طرح برستا، بادل کی طرح چڑھتا، بجلی کی طرح کوندتا، دریا کی طرح لہریں مارتا، طوفان کی طرح امڈتا اور پھولوں کی طرح مہکتا تھا، یہ دعوت ِ اسلامی کا انقلاب آفرین ہتھیار تھا۔
قرآن کی خصوصیات
قرآن کی خصوصیات حیران کن ہیں، یہ جمیع الاوصاف کتاب ہے:
ث اس میں علوم ِ عقلی اور علومِ روحانی و اخروی دو نوں پرزور دریاؤں کی طرح پہلو بہ پہلو جوش مارتے…
قارئینِ کرام سلام مسنون!
بٹگرام میں دریا پرڈولی میں پھنس جانے والے سکول کے بچوں اور ان کے استاد کو بچا لیا گیا۔ اگرچہ اس ریسکیو آپریشن میں کئی ادارے متحرک ہوئے مگرمقامی افراد کی ہمت اور حوصلے کو داد ہے جنہوں نےبالآخر جانیں خطرے میں ڈال کر ان لوگوں کو بچایا۔ خصوصاً وہ ایک بہادر نوجوان اعلیٰ سول ایوارڈ کا مستحق ہےجس نے رات کے اندھیرے میں رسّے کے ذریعے سب کو باری باری ریسکیو کیا۔ اس بات کا ندازہ بھی ہؤا کہ ان پہاڑوں پہ رہنے والے ،جری اور شجاع لوگ ہیں ،کم ڈیویلپمنٹ اورناقص انفرا سٹرکچر کے باعث ایسی مشکلات سے نبرد آزما ہوناان کی زندگی کا حصہ ہے، ایسی مہمات بھی سر کرتے ہیں جوسہولیات کے باوجود دوسرے نہیں کرسکتے۔
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے پیری مریدی اور وڈیرہ شاہی کے اتصال سے بنی ہوئی گدّیاں ،ظلم کا گڑھ بن چکی ہیں۔ظلم کے نظام کے سب سے بڑے رکھوالے یہی طبقات ہیں جو سیاسی طاقت حاصل کر کے حکومتی مناصب اور وسائل پر بھی قابض ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں رہتا کیونکہ قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کےگھرکی لونڈی بن جاتے ہیں اور جہالت اور غربت میں دھنسے ہوئے عوام…
انسان کہاں سے چلا اور کہاں پہنچا ….کرۂ ارض کی تاریخ میں انسانی سفر پر ایک طائرانہ نظر
باغ بہشت سے مجھے حکم ِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
(علامہ اقبالؒ)
اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کی ابتدا اُس وقت ہو گئی تھی جب حضرت آدمؑ اور اماں حواؑ کو یہاں اتارا گیا اور پھر اس کرہ ارض پر انسان کا ایک طویل سفر شروع ہو گیا۔ حضرت آدمؑ سے نسلِ انسانی چلی ۔ ان کے ہاں لڑکے لڑکیاں پیدا ہوتے رہے اور نسلِ انسانی بڑھتی رہی ۔ پھر دنیا میں انسان کا پہلا قتل ہؤا۔ قابیل نے جذبہ رقابت میں اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا ۔
ث حضرت آدمؑ دنیا میں پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی ۔ چشمِ فلک نے اس کرہ ارض پر ان گنت واقعات وحادثات رونما ہو تے ہوئے دیکھے ۔حضرت نوحؑ کی قوم نے جب گمراہی کا راستہ ترک نہ کیا تو ایک خوفناک سیلاب آیا جو سب کچھ بہا کر لے گیا ۔ چند ایمان لانے والے مرد و خواتین اور جانوروں، پرندوں کے جوڑے کشتی میںسوار ہو کر حضرت نوحؑ کے ساتھ کوہِ جودی پہ پہنچے اور زندہ بچے ، حضرت نوحؑ سے دوبارہ نسلِ انسانی چلی…