۲۰۲۳ بتول جولائی

محشر خیال

ڈاکٹر ام کلثوم۔ لاہور
مجھے کسی فرد یا فرد کے کسی کام پر تبصرہ کرنا ہمیشہ بڑا مشکل محسوس ہوتا رہا ۔ ایک کمزور بندہ کیسے دوسرے کی محنت اور اخلاص کا صحیح اندازہ کر سکتا ہے ۔دعا ہے رب کریم اس خاص نمبر کی تشکیل میں حصہ لینے والے تمام افراد کی مساعی کو شرف قبولیت بخش دیں ،آمین۔
کہا جاتا ہے’’ بندہ بندے دا دارو ‘‘، یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان اپنے ضعف اور بےشمار کمزوریوں کے باعث محتاج ہے ، وہ تنہا اپنی ضروریات کی تکمیل کر سکتا ہے نہ آسائش کا حصول ممکن ہے ۔ زندگی کے ہر مرحلہ اور ہر دور میں معاونت کے لیے وہ دوسرے انسانوں کا محتاج ہے ۔ زندگی کی گاڑی کا سفر خوشگوار اور کامیاب ہی اس صورت میں ہو سکتا ہے جب یہ تعاون خیر خواہی کے جذبات کے ساتھ استوار ہو ۔
یوں ہر رشتہ ، وہ نسب کی بنیاد پر قائم ہو یا احتیاج کی بنیاد پر ، ایک امتحان ہے :لیبلوکم ایکم احسن عملا۔
امتحان آجر کا ہے اور اجیر کا بھی ، افسر کا ہے اور ماتحت کا بھی ، زبردست کا ہے اور زیردست کا بھی ، آقا کا ہے اور غلام کا بھی !
اسلام اپنی معاشرت…

مزید پڑھیں

میڈیا واچ – سیریل تیرے بن – رمانہ عمر۔ریاض

جیو ٹی وی کے معیار پر ایک سوالیہ نشان …تھپڑ کلچر…وحشت اور تشدد کو گلیمرائز کیا جارہا ہے
جیو ٹی وی چینل سے پیش کیا جانے والا سیریل تیرے بن اپنی 46ویں قسط آن ائیر کرنے کے بعد اچانک شدید تنقید کا نشانہ بننا شروع ہؤا اور علم میں یہ بات آئی کہ شاید اسی ردعمل کی وجہ سے رائٹر نوراں مخدوم اور پروڈیوسر سراج الحق کو اگلی قسط کے سین باقاعدہ کاٹنے پڑے اور وائس اوور سے کام چلایا گیا ۔
میں نےاس ڈرامے کی ایک قسط بھی نہیں دیکھی تھی مگر اس کی متنازعہ شہرت سن کے اس تھپڑ سین سے دیکھنا شروع کیا جس پر بڑی لے دے ہو رہی تھی۔مجھے تو چھیالیسویں قسط کے تھپڑ تک پہنچنا ہی مشکل لگ رہا تھا ۔ جو زبان اور سوچ اس ڈرامے کے رائٹر پروڈیوسر اور اداکاروں کی مشترکہ کوششوں سے پردہ اسکرین پہ نظر آرہی ہے وہ کسی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا تو کیا،اکیلےدیکھنا بھی ذوقِ لطیف کی آبیاری نہیں کرتا۔ یہ سیریل ڈرامہ نگار کے اپنے ذاتی تجربوں ، وڈیرانہ خیالات اور تشدد پسندانہ سوچ کی کھلی کھلی عکاسی کرتی ہے ۔
ڈرامے کا ہیرو ایک مضبوط،اصول پسند اور انتہائی شریف مرد دکھایا جاتا ہے ۔ مگر یہی انتہائی…

مزید پڑھیں

پاکستانی حجاج کرام ، چند غور طلب امور – حکیم سید صابر علی

(۱) گمشدہ افراد
مسجد ذوالحلیفہ میں گمشدہ افراد کے کائونٹر بنائے جائیں جہاں مختلف زبانوں پر عبور رکھنے والے اہل کار موجود ہوں ۔
مدینۃ المنورہ سے جب معتمر ین اور حجاج کرام مکہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں توچند کلومیٹر کے بعد مسجد ذوالحلیفہ (میقات) میں احرام باندھنے کے لیے گاڑیوں کے قافلے رکتے ہیں یہ بہت بڑی مسجد ہے جس کے چاروں اطراف منظر ایک جیسا ہے ۔
جب بسیں رکتی ہیں تو ڈرائیور اعلان کرتا ہے کہ مسافر احرام باندھ کر نیت کر کے نوافل ادا کر کے آدھے گھنٹے میں واپس آئیں اور یہ بھی اعلان ہوتا ہے کہ تاخیر سے آنے والوں کا انتظار نہیں کیا جائے گا اکثر اوقات درجنوں بسیں اور گاڑیاں رکتی ہیں ۔ خواتین اور مردوں کا ایک انبوہ کثیر ہوتا ہے اگرچہ غسل خانوں اور ٹائلٹ کی تعداد سینکڑوں ہے لیکن زائرین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے بوڑھے لوگ جلدی چل نہ سکنے والے مسافر اور اکثر خواتین دیے گئے وقت میں احرام باندھ کر فارغ نہیں ہو پاتے اور پھر مسجد کے صحن اور دروازے اور باہر بسوں کے سٹینڈ ایک ہی طرز کے ہیں لہٰذا اکثرلوگ بھول جاتے ہیںکہ اُن کی بس کہاں کھڑی ہے۔
مسافر جب احرام کی غرض سے اترتے…

مزید پڑھیں

سفر سعادت – اور سامنے منزل آجائے – آمنہ راحت،برطانیہ

بارہ سال کی عمر میں جب میرے والدین مجھے بڑے بہن بھائی کے پاس چھوڑ کرسعادت حج کے لیے سر زمین عرب کی جانب روانہ ہوئے تو دو وجوہات کی بنا پر میری آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی جاری ہو گئی ۔اولاً تو ماں باپ سے چالیس روز کی جدائی اور دوم خانہ کعبہ کے دیدار کی خواہش۔
جب ماما اور ابو چالیس روز بعد گھر لوٹے تو انہوں نے وہاں کی داستانیں سنائیں جن کو سن کر وہاں جانے کی خواہش دل کے کسی گوشے میں شدت پکڑتی گئی اور اللہ سے اپنے بلاوے کے لیے دعائوں کو اور تیز کر دیتی ۔ کئی بار امید بندھی مگر کسی نہ کسی وجہ سے خواب ٹوٹنے لگے ۔ کچھ ان چاہے خیالات ایسے بھی پیدا ہوئے کہ شایدمیری قسمت میں یہ نہ لکھا ہو مگر شیطان کے پیداکیے ہوئے ان وسوسوں کوکتنی بار جھٹکتی رہی ۔ تصاویر اور ویڈیوز میں اللہ کے گھر کو دیکھتی ، دعا کرتی اور اس سے پہلے کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں … اپنا دھیان گھر بچوںاور جاب میں لگا لیتی۔کبھی کبھاراس انتظار کی شدت اتنی بڑھ جاتی کہ ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے اور اللہ کے گھر جانے کے لیے بلک بلک…

مزید پڑھیں

قسط۱۰ – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

زرک پون کے متعلق مزید معلومات کے لیے اس کے ماں باپ سے ملتا ہے ۔ اور پھر اظفر سے بھی ۔ اظفر جو نوکر شاہی کی بد ترین مثال ہے بے حس ، حرام خور اور عیش پسند ۔ اسے عوام اور ان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ وہ اپنے مقام ، مرتبے اور آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے ۔پون زرک کو کئی سال پرانے واقعات بتا تی ہے ۔ جب وہ سکول میں تھی اور ان کا ٹرپ پہلی بار شہر سے باہر گیا تھا تب وہاں اس کے ساتھ عجیب و غریب معاملات پیش آتے ہیں ۔
اس چھوٹے سے جملے میں کچھ تو تھا جومسلسل اس کے دماغ میں چبھ رہا تھا ،ہلچل مچا رہا تھا۔اس نے سنا تھا کہ حقیقی زندگی کے کسی واقعے کے بارے میں جب لگے کہ یہ واقعہ دوسری بار ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اس سے پہلے ایسا ہی کوئی خواب دیکھا ہوتا ہے۔ تو کیا اس نے بھی یہ جملہ خواب میں سنا تھا؟ واقعی وہ اسے دوسری بار سن رہی تھی۔
آخر یہ ہے کیا؟ اس کا مطلب کیا ہے؟
اس کا دماغ مسلسل کھوج میںتھا۔ وہ تھک چکی…

مزید پڑھیں

خراج – شہلاخضر

شام ڈھلنے کو تھی۔نوری کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔بات ہی پریشانی کی تھی۔
بالا سویرے سے نکلا اب تک نہ لوٹا تھا۔وہ کبھی اتنی دیر گھر سے باہر اکیلا نہ رہا تھا ۔
سویرے اس کا جھگڑا نذیرے سے ہو&ٔا تھا۔بات تو معمولی سی تھی پر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی ۔بالے کو اماں کے ہاتھ کے پکے گڑ والے چاول بےحد پسند تھے ۔پچھلی رات نذیرے نے اپنے حصے کے چاول نعمت خانے میں رکھے تاکہ سویرے کام پر ساتھ لے جائے پر بالا بھوک لگنے پر رات کے کسی پہر سارے چٹ کر گیا۔بس اس بات پر نذیرے کو تو پتنگے لگ گئے ، مار مار کر بالے کا چہرہ سجا دیا۔
کہنے کو تو نذیرا عمر میں بالے سے پورے تین سال چھوٹا تھا ، پر بالے کو اس نے کبھی بڑا بھائی نہ سمجھا۔بات بے بات جھڑکنا اور حقارت آمیز سلوک کرنا ہر دم کا وطیرہ تھا۔
باپ کے مرنے کے بعد سے نذیرا ہی گھر کا کل مختار تھا۔باپ کی طرح مزدوری کر کےوہ سب کے پیٹ پال رہا تھا ۔جہاں تک بالے کا معاملہ تھا تو وہ تو سدا کا اللہ لوک اور سادھو سا تھا۔پیداہو&ٔا تو تب سے ہی ماں باپ کے لیے آزمائش بن…

مزید پڑھیں

سات نسلیں – روبینہ قریشی

جہاز رن وے پر دوڑ رہا تھا، صائمہ پانچ سال کے بعد کینیڈا سے پاکستان آنے پر جہاں بہت خوش تھی وہاں اداس بھی تھی۔ان سالوں میں اس کے بہت پیارے کچھ رشتے اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے جن میں ایک اس کے بہنوئی تھےاور دوسری اس کی دوست عشاء۔
کووڈ سے پہلے تو وہ باقاعدگی سے ہر سال اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آتی رہتی تھی لیکن 2018 کے بعد کووڈ کے علاوہ بھی کچھ وجوہات کی بنا پر وہ پاکستان نہیں آسکی تھی۔اور اب پاکستان جاتے ہوئے وہ اپنی دوست اور بہنوئی کے ساتھ پچھلے سالوں میں اپنی ملاقاتوں کو یاد کرتے ہوئے اداس ہو رہی تھی۔
جہاز اسلام آباد ایئر پورٹ پر اتر چکا تھا۔اس کی بڑی بہن اور بھانجا اسے لینے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔
آپا کو سفید بالوں، سفید دوپٹے اور سادہ چہرے میں دیکھ کر پھر سے بہنوئی کا اچانک دنیا سے جانا یاد آگیا۔
وہ ایئر پورٹ پر ان کے گلے لگ کر بہت سارا رونا چاہتی تھی لیکن اِدھر اُدھر لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے اس نے اپنے آپ کو بڑی مشکل سے سنبھالا۔
یہ مئی کی نسبتاً گرم دوپہر تھی۔گھر جاتے ہوئے سڑک کے کنارے درختوں پر مٹی کی ایک تہہ کو دیکھتے…

مزید پڑھیں

بے بس – قانتہ رابعہ

’’چوہدری سرور اعظم کے اکلوتے بیٹے کی شادی ہے…. سات کوس تک تو پتہ چلنا چاہیے کہ چوہدریوں اور نمبرداروں کے ہاں شادی کیسے وج گج کے ہوتی ہے۔صرف دس دن شادی میں باقی ہیں، نہ کوئی واجا گاجاہے نہ ڈھول ڈھمکا ،نہ لنگر کھلا‘‘۔
چوہدری سرور نے کلف سے اکڑے سوتی سوٹ پر واسکٹ پہنتے ہوئے خفگی کا اظہار کیا ۔
’’آج ہی سے ساری کڑیوں چڑیوں کو بلاؤ۔ کوئی ناچ گانا ہلا گلا ہو….دیگیں کھڑکنے کی آواز سنائی دے….سات گلیوں تک لائٹنگ شائٹنگ کرو، یہ کیا دو زنانیاں سر جھاڑ منہ پہاڑ بیٹھی ہیں‘‘۔
اب کے چوہدری صاحب نے اپنی نصف بہترچوہدرانی حشمت بی بی کی خبر لی۔
ان احکامات کے جاری ہونے کی دیر تھی آدھے گھنٹے کے اندر اندر دو کلومیٹر کے فاصلے تک سرخ نیلی پیلی بتیوں کا بھی بندو بست ہوگیا ، ڈھولکی لے کر چوہدری سرور اور حشمت بیگم کی بھانجیاں بھتیجیاں بھی سرخی پاؤڈر تھوپ کر حویلی میں پہنچ گئیں اور گھر سے باہر جیما قصائی مرغیاں ذبح کرنے اور شیدا نائی دیگ کے اندر چمچا کھڑ کانے میں مصروف ہوگیا۔
اس دن جنوری کی تین تاریخ تھی اور شادی تیرہ جنوری کو طے پائی تھی۔ درمیان کے سارے دن ہر چھوٹے بڑے کے لیے ناقابل فراموش…

مزید پڑھیں

سویرا – فاطمہ طیبہ

ہم لوگ نئی کالونی میںشفٹ ہوئے تو گھر کی صفائی کے لیے ملازمہ کی تلاش شروع ہوئی ۔ ڈرائیورنے محلے کے گارڈز سے مدد مانگی تو اس نے روزانہ ایک دوعورتوں کو بھیجنا شروع کر دیا ۔ مسکراتے چہرے اور بڑی بڑی خوبصورت آنکھوںوالی فاطمہ مجھے پہلی نظر میں پسند آگئی۔ فاطمہ کی تین بیٹیاں بھی ساتھ تھیں ۔ فاطمہ کمرے میںآئی تو اس کے کندھے کے پیچھے اس جیسی بڑی بڑی آنکھوں والی پندرہ سولہ سال کی ایک لڑکی مجھے بہت غور سے دیکھ رہی تھی جیسے پرکھ رہی ہو کہ یہ کیسی ہوں گی ۔ اس لڑکی کی آنکھیں اپنی ماں کی طرح تھیں لیکن چہرے پر مسکراہٹ کا نام نہ تھا بلکہ بلا کی سنجیدگی تھی جومجھے عجیب سی لگی۔ فاطمہ نے بہت محنت سے کام کیا تو اس کی ملازمت میرے پاس پکی ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ اس کی دو بیٹیاں کسی اور گھر میں کام کرتی ہیں بس ایک لڑکی اس کے ساتھ آئے گی دونوںمل کر کام کریں گی۔
دوسرے دن وہی گہری سانولی رنگت اور بڑی بڑی آنکھوں والی لڑکی جس کا نام سویرا تھا فاطمہ کے ساتھ کام پر آئی۔ فاطمہ نے کہا کہ سویرا غسلخانے صاف کرے گی اوروہ باقی…

مزید پڑھیں

ماسی نامہ -دوسرا حصہ – ڈاکٹر میمونہ حمزہ

۲۰۰۴ میں ہمارے بچے کویت منقل ہو گئے، ہم نے ان کے ہمراہ گرمیوں کی چھٹیوں کے مزے لیے، ستمبر میں ہمیں ایک سمسٹر کی پڑھائی کے لیے پھر پاکستان آنا پڑا۔ ہمارا قیام والدہ صاحبہ کے گھر تھا، جو ان دنوں کافی علیل تھیں۔بستر پر لیٹے لیٹے اپنی مددگار کو ہدایات دیتیں اور وہ ناشتا کھانا سب تیار کر کے گرما گرم انہیں پیش کر دیتی، اور اب تو ان خدمتوں میں ہم بھی شامل ہو گئے۔ ایک روز چائے کا کپ ختم کرنے کے بعد اس کی تہہ میں جھانکا تو کچھ داغ نظر آئے، ہم امّی جان کی لاڈلی رخسانہ صاحبہ کو سمجھانے باورچی خانے میں گئے، کہ کچھ داغ واقعی برے ہوتے ہیں، اور صحت کے لیے نقصان دہ بھی! رخسانہ صاحبہ نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ چائے کے کپ دوبارہ دھو کر رکھ دیے۔ اگلے روز کھانا بنانے کے لیے کچن کا رخ کیا تو ایک دو نہیں ساری دیگچیاں اور پریشر ککر داغ شدہ پائے۔ ہمیں شدید رنج ہئواا، ہماری پیاری امی جان جو اتنی نفیس اور سلیقہ مند تھیں، جو ماسیوں سے صفائی ستھرائی کرواتیں تو انہیں بھی صاف ستھرابنا دیتیں، اور آج وہ بستر پر پڑ گئیں ہیں تو ان کا کچن…

مزید پڑھیں

خفتگانِ خاک -ککاّ جی – روحی امتیاز

ہم اپنے بچپن سے ہی انہیں دیکھتے آرہے تھے ۔ نکلتا ہؤا قد ، درمیانی جسامت ، گندمی رنگت ، بڑی بڑی آنکھیں ، ماتھا چوڑا ، گھنے بال۔ وہ اور ڈاکٹر معراج کا گھرانہ لازم و ملزوم تھے ۔ ادھر ہم بچوں کا بیماری سے چولی دامن کا ساتھ تھا چنانچہ اکثر ہی ڈاکٹر صاحب کے گھر جانا پڑ جاتا جن کا گھر دادی اماں کے گھر سے چند گھر چھوڑ کر تھا اور یہیں وہ شخصیت پائی جاتی تھی جسے ڈاکٹر ککا اور باقی سب ککا جی کہتے تھے۔
ککا جی ڈاکٹر صاحب کے گھر کی روح رواں تھے ۔ کھانا پکانا، صفائی، کپڑے دھو کر اوراستری کر کے سب کے کمروںمیں پہنچانا،پودوں کو پانی دینا ، غرض اندر باہر ہر طرف ککا جی ہی ککا جی نظر آتے تھے ۔ ککا جی اورڈاکٹر صاحب کا ساتھ کیسے ہؤا، یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق کوٹلہ سے ہے جوگجرات کے راستے بھمبر جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے ۔ ان کے والدین کے گھر ایک ہندو میاں بیوی کام کرتے تھے جن کی چھ سات بیٹیاں تھیں ۔ بیوی نے منت مانی کہ اگر بیٹا ہؤا تو اپنی ٹنڈ کرائوں گی۔ چنانچہ جب بیٹا پیدا…

مزید پڑھیں

مردم گزیدہ – آسیہ کوکب

دھوپ کی تمازت ختم ہو گئی تھی ۔ سورج ڈھل گیا تھا مگر گھر کے کام تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔ کام سمیٹتے سمیٹتے امی تھکاوٹ سے چور دکھائی دے رہی تھیں ۔ جب سے ماسی شریفاں ملازمت چھوڑ کر گئی تھی کوئی نئی ملازمہ مل ہی نہیں رہی تھی ۔ ایک دو دن کام کرتیں اور چل دیتیں نہ جانے انہیں کیا چاہیے تھا جو ٹک کر کام نہیں کر رہی تھیں ۔ نئے ملازم کو ڈھونڈنا اور اسے سیٹ کرنا بہت صبر اور حوصلے کا کام دکھائی دے رہا تھا۔ ملازمہ جو ان بھی ہو، صحت مند بھی ، کام کرنا جانتی ہو ایماندار بھی ان تمام محاسن و فضائل کے ساتھ ساتھ با اخلاق بھی ہو بد زبان اور جھگڑالونہ ہو ۔
کوئی ملازمہ بھی اس پیرا میٹر پر پوری نہیں اتر رہی تھی۔ بڑے بھیا کا خیال تھا کہ ان خوبیوں کی حامل تو آرڈر پر تیار کرنی پڑے گی ۔ امی اپنے کسی بھی بچے سے گھر کا کام کروانا جرم سمجھتی تھیں۔ ان کا خیال تھا گھر کے کام بچیاں ایک دو ماہ میں میں سیکھ ہی لیتی ہیں ۔ یہ ان کی پڑھائی کی عمر ہے اگر…

مزید پڑھیں

انوکھا البم – شاہدہ اکرام

کہانی کے کردار ہماری آنکھوں دیکھے ہیں ۔ کچھ موجود ہیں کچھ ملک عدم کو سدھار گئے ۔ ان میں دیہاتی اور شہری تڑکے کا حسین امتزاج ہے ۔ یہ گائوں کی ’’مچھیاں ‘‘ ( ٹافیاں ) اور شہر کی چاکلیٹ ہیں ۔ پڑھیے، کبھی ہنسیے اور کبھی روئیے ۔
بھائی ماکھا
ابا ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تو تمام خدمت گار اُن کے نقش پا تلاشتے ہوئے ان کی حویلی تک آن پہنچے ۔ ان میں سر فہرست بھائی ماکھا تھا ، ابا کا خاموش دستِ راست۔ وہاں بھی ابا کی سواری ( گھوڑی ) کی دیکھ بھال ، خواتین کو اُس پہ بٹھا ، خود پیدل لگام پکڑ کبھی میکہ اور کبھی سسرال۔ خوشی غمی میں لے کر جانا بھائی ماکھے کا کام تھا ۔
نام تو مبارک علی تھا نجانے کیسے ماکھا ہی مشہور ہو گیا ۔ عام لوگ اسی نام سے پکارتے مگر ہمارے خاندان کا ہر بچہ تہذیب میں گندھا ہونے کی بنا پر ساتھ بھائی لگانا نہ بھولتا ۔ ہندوستان ہویا پاکستان ، انہوں نے ابا کے ساتھ یاری اور وفا داری خوب نبھائی ۔ اپنے موضع میں ابا نے گائوں کی چوکیداری کی ملازمت بھی انہیں دی ، چوپال میں اپنا ایک بڑا احاطہ دیا…

مزید پڑھیں

غزل – حبیب الرحمٰن

ہم چلو دودھ کے جلے ہوئے ہیں
آپ کیوں چھاچھ سے ڈرے ہوئے ہیں
جاگتی ہی نہیں ہے شرم و حیا
لوگ چکنے گھڑے بنے ہوئے ہیں
چین سے وہ نہ جی سکیں گے کبھی
تیری باتوں کے جو ڈسے ہوئے ہیں
آپ سے ہم ہی شکوہ سنج نہیں
آپ بھی تو بہت بھرے ہوئے ہیں
کامیابی بہت بڑی ہے مگر
امتحاں بھی بڑے کڑے ہوئے ہیں
اجنبی کب ہیں ایک ساتھ ترے
کھیلتے کودتے بڑے ہوئے ہیں
کیا عجب دور آ گیا ہے کہ اب
کھوٹے سکے بھی سب کھرے ہوئے ہیں
فتح حاصل ہوئی ہے جب بھی کبھی
ایک پرچم کے ہم تلے ہوئے ہیں
سب کی سب سے یہاں ٹھنی ہوئی ہے
اپنی اپنی پہ سب اڑے ہوئے ہیں
کچھ بتائیں ہمیں خدا کے لیے
روٹھ بیٹھے ہیں یا بنے ہوئے ہیں
تیر و تیغ و تبر کی چھاؤں کہاں
ہم درختوں تلے پلے ہوئے ہیں
پار اتریں گے کیا ہے ڈر کہ اگر
کچی مٹی سے ہم گھڑے ہوئے ہیں
سچ بتائیں کہ کیا عدو کے لیے
ہم کبھی لوہے کے چنے ہوئے ہیں
آپ نے جتنے، آپ سے وہ دیے
جو جلائے تھے، سب جلے ہوئے ہیں
وقت پر تجھ کو سارے چھوڑ گئے
دیکھ ہم آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں
بات کیا ہے حبیبؔ آپ سے وہ
کچھ دنوں سے کھنچے کھنچے ہوئے ہیں

مزید پڑھیں

خاص مضمون – ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کا احوال – سینیٹر مشتاق احمد خان

ڈاکٹڑ عافیہ صدیقی ایک پاکستانی خاتون جن کو امریکہ نے بغیر ٹھوس الزام کے عرصہ بیس سال سے جیل میں ڈال رکھا ہے،حال ہی میں ان کے حوالے سے رہائی کی کوششوں کا مطالبہ دوبارہ میڈیا کی زینت بنا،جب سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے اس معاملے کو سینیٹ کے اندر اور باہرزوروشور سے اٹھایا اوران کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے پیش رفت کا مطالبہ کیا۔ بتول کے لیےاس خصوصی مضمون میں انہوں نے اپنی حالیہ جدوجہد کے تناظر میں ڈاکٹر عافیہ کے کیس کی تمام تفصیل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی رہائی کے امکانات پر بات کی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کا خیال مجھے کیسے آیا اور یہ سب کچھ کیسے ممکن ہؤا، اس کے لیے میں تھوڑا سا پس منظر میں جاؤں گا۔
سینیٹ میں اس مسئلے کو ترجیح
میں مارچ 2018 میں سینیٹ میں آیا اور سینیٹ میں آنے کے بعد پہلے دن سے ہی جو ترجیحات میں نے طے کیں، ان میں سے ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی، گوانتانامو میں قید پاکستانی اور ملک کے اندر جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد کے معاملے کو ہائی لائٹ کرنا اور اس پر کام کرنا تھا۔ ویسے تو اسلامی جمعیت طلبہ سے فارغ ہونے کے…

مزید پڑھیں

قولِ نبیؐ – مسا کین کے حقوق – بنت الاسلام

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ اے آدم ؑ کے بیٹے ٗ میں بیمار ہؤا تو تو نے میری عیادت نہ کی۔
(انسان) کہے گا کہ اے میرے رب ٗ میں تیری کس طرح عیادت کرتا جب کہ تو رب العٰلمین ہے۔
خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہؤا تو تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے آدم ؑ کے بیٹے ٗ میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو مجھے کھانا نہ دیا۔
(انسان) کہے گا کہ اے میرے رب میں تجھے کیسے کھانا دیتا جبکہ تو رب العٰلمین ہے۔ خدا فرمائے گا کہ کیا تجھے علم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا ٗ تو تو نے اسے کھانا نہ دیا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا دیتا تو اسے میرے پاس پاتا۔ اے آدم ؑ کے بیٹے ٗ میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔
(انسان) کہے گا کہ اے میرے رب میںتجھے کیسے پانی…

مزید پڑھیں

انوارِ ربانی – قبر اور عالم برزخ – ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی

قبر یا عالم برزخ سے مراد وہ عالم ہے جس میں موت کی آخری ہچکی سے لے کر بعث بعد الموت کے پہلے جھٹکے تک انسانی ارواح رہیں گی۔حدیث میں ’’ قبر ‘‘ کا لفظ مجازاً عالم بزرخ ہی کے لیے استعمال ہؤا ہے حدیث کے منکر اس بات پر مصر ہیں کہ عالم برزخ محض عدم کا عالم ہے جس میں کوئی شعور اور احساس نہیں اور نہ کسی قسم کا عذاب و ثواب ہوگا ۔ لیکن قرآن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جب کافر کی روح قبض کی جاتی ہے تو وہ موت کی سر حد کے پار کا حال اپنی توقع کے خلاف پا کر سراسیمہ ہو جاتا ہے ۔دوسری طرح متقی کی روح جب قبض کی جاتی ہے تو ملائکہ اس کو سلام بجا لاتے ہیں اور جنتی ہونے کی بشارت دیتے ہیں ۔ برزخ کی زندگی ، احساس و شعور ، عذاب و ثواب کا اس سے زیادہ کھلا کوئی اور ثبوت نہیں ہو سکتا ۔ سورہ مومن میں ارشاد ِ ربانی ہے ۔
’’ ایک سخت عذاب ( فرعون اور آلِ فرعون کو) گھیرے ہوئے ہیں ۔ یعنی صبح و شام وہ آگ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ۔پھر جب قیامت کی…

مزید پڑھیں

غزل – اجمل سراج

ہر شے کوئی ترکیب جدا اوڑھے ہوئے ہے
معلوم نہیں کون ہے کیا اوڑھے ہوئے ہے
ہر آن نئے رنگ میں ہوتی ہے نمودار
ہر لمحہ نئی ایک فضا اوڑھے ہوئے ہے
سورج ہے لپیٹے ہوئے خود اپنی شعاعیں
اور چاند بھی سورج کی ضیا اوڑھے ہوئے ہے
افسردہ و دل تنگ ہے حالات سے اپنے
اور چادرِ تسلیم و رضا اوڑھے ہوئے ہے
اندر نہ خدا ہے نہ کہیں خوف خدا کا
باہر سے مگر خوفِ خدا اوڑھے ہوئے ہے
اِس حبس کے عالم میں ہے یوں شاداں و فرحاں
تُو کون سے ساحل کی ہوا اوڑھے ہوئے ہے
اِس باغ میں کوئی بھی برہنہ نہیں اجملؔ
خوشبو بھی یہاں گُل کی قبا اوڑھے ہوئے ہے

مزید پڑھیں

حمدِ ربِ جلیل – اسما صدیقہ

لک تیرے غلام ہیں سر کو- جھکائے ہم
در پہ ترے کھڑے ہوئے نظریں اٹھائے ہم
مانا کہ زندگی کے ستم بےشمار ہیں
اور بندگی میں راہ کے پتھر ہزار ہیں
لیکن تیری عطا کے ہی امیدوار ہیں
آنکھوں سے آنسوؤں کے ہیں موتی لٹائے ہم
مشکل بڑی ہے یارب اس عہدِ جدید میں
ہم جی رہے ہیں جس طرح یاس ووعید میں
لیکن تیرا نشان ہے حبلِ ورید میں
بےشک اسی یقین پہ گرنے نہ پائے ہم
یارب یہ ارتقاہے کوئی یا جمود ہے
انساں کے آستاں پہ خدائی نمود ہے
جلتے ہوئے زمانے میں گویا وجود ہے
کب تک جئیں گے اس طرح دہشت کے سائے ہم

مزید پڑھیں

ابتدا تیرے نام سے – صائمہ اسما

قارئین کرام سلام مسنون!
امید ہے اس ہوشربامہنگائی اورشدت کی گرمی میں بھی عید الاضحیٰ نے چہروں پر ضرور خوشیاں بکھیری ہوں گی، روح کو سرشار کیا ہوگا، اللہ کی رحمت کی پھوار برستی محسوس کروائی ہوگی، دلوں اور دسترخوانوں کو وسعت دی ہوگی۔ اللہ کرے سب کا جذبہِ قربانی منظور و مقبول ہو کہ اللہ نے فرمایا مجھے ان جانوروں کا گوشت اور خون نہیں ، بس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہےکہ وہ کیسا ہے!اللہ تمام حجاج کرام کے حج بھی مقبول و مبرورفرمائے، اورجن کو یہ سعادت اب تک نصیب نہیں ہوئی انہیں بلاوا بھیج دے۔
سانحہ نو مئی کے ملزمان کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب سمیت سب حقیقی سیاسی حلقوں نے مخالفت کی ہے۔بین الاقوامی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی فوری طور پر ان سب مقدمات کو سول عدالتوں میں منتقل کرنے کو کہا ہے کیونکہ یہ ملکی سطح پر انسانی حقوق کے عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ ان فوجی عدالتوں کی اجازت سانحہ اے پی ایس کی وجہ سے اکیسویں ترمیم کے ذریعے دو سال کے لیے لی گئی تھی اور صرف دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے ان کو عارضی طور پر قائم کیا…

مزید پڑھیں